بے عقلی میں اضافہ ۔ پرویز ہود بھائی

فاتح

لائبریرین
کچھ تین سو برس قبل دلیل و منطق کے دور نے یورپ کو تاریکی سے نکالا، اور جدید سائنس کو جدید سائنسی رویوں کے ساتھ باہم متعارف کرایا۔ یہ رویے فوراً ہی پوری دنیا میں پھیل گئے۔ مگر اب بے عقلی کا دور اپنے عروج پر ہے۔ شواہد پر انحصار، تحمل کے ساتھ جانچ و تحقیق، اور محتاط منطق اب بنجر دعوﺅں، اندھے عقائد اور مبالغہ آرائی میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔

ہندوستان کے سپراسٹار وزیراعظم کی بات سنیں، جنہوں نے حال ہی میں نیویارک شہر میں اپنے بیس ہزار ہم وطنوں سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ ہندوستان کا مستقبل سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے بدل دیں گے۔ چند ہفتوں قبل انہیں نے ممبئی میں ریلائنس فاؤنڈیشن ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ قدیم ہندوستان کے باسی ہزاروں سال قبل ہی کاسمیٹک سرجری اور تولیدی جینیات کے بارے میں جانتے تھے۔ اور یہ ان کا اپنے دعوے کے حق میں پیش کردہ ثبوت ہے۔

"ہم سب نے مہابھارت میں کَرنا کو پڑھا ہے، اگر ہم اس پر کچھ غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مہابھارت کے مطابق کرنا ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جینیاتی سائنس اس دور میں بھی ہندوستان میں موجود تھی، اور اسی وجہ سے کرنا کی ماں کے پیٹ سے باہر پیدائش ممکن ہوئی"۔ نریندرا مودی نے ہاتھی کے سر والے ہندو اوتار گنیش کا حوالہ دیتے ہوئے اصرار کیا کہ "اس دور میں یقیناً کوئی پلاسٹک سرجن موجود تھا جس نے ایک ہاتھی کے سر کو ایک انسان کے جسم پر جڑ دیا، اور اس سے ہی پلاسٹک سرجری کا آغاز ہوا"۔

وہ اپنے ان الفاظ پر یقین کرتے ہیں یا نہیں، مگر مودی یہ خوب جانتے ہیں کہ یہ کام کریں گے۔ 1995 میں ہندوستان اس وقت جنون کا شکار ہوگیا تھا جب کسی نے یہ معلوم کیا کہ اگر گنیش کی سونڈ کے سامنے چمچ رکھا جائے، تو وہ دودھ پی سکتا ہے۔ جب تک اس کی سائنسی وجہ capillary action (جس کے تحت لیکویڈ چیزیں کششِ ثقل کو مات دے کر اوپر اٹھ سکتی ہیں) معلوم کی گئی، مندروں کی جانب جانے والے ہجوم کی وجہ سے نئی دہلی میں جگہ جگہ شدید ٹریفک جام ہوگیا تھا، جبکہ اس کے نتیجے میں دودھ کی فروخت میں تیس فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔

اب اپنے گھر کی بات کی جائے: پاکستانیوں کی بڑی تعداد، جن میں یونیورسٹیوں کے سائنس کے طالبعلم بھی شامل ہیں، کا ماننا ہے کہ کوانٹم مکینکس سے لے کر بلیک ہولز اور جینیات تک سب کچھ چودہ سو سال پہلے سمجھ لیا گیا تھا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا کو بائیولوجی کے طالبعلم اور اساتذہ تک مسترد کردیتے ہیں۔ بلکہ یہ عام عقیدہ ہے کہ تمام جدید سائنس عربی پر مہارت حاصل کرنے اور قرآن مجید کے مفہوم کو ماہرانہ انداز میں بیان کرنے سے سیکھی جاسکتی ہیں۔ چالیس سال قبل جب میں نے اسلام آباد یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی، تو انہی دنوں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، جو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک پرہیزگار شخص تھے، نے اس رفتار کا حساب لگایا تھا، جس رفتار سے جنت زمین سے دور جارہی ہے۔ انہوں نے یہ پایا کہ یہ رفتار روشنی کی رفتار سے ایک سینٹی میٹر فی سیکنڈ کم ہے۔ آج ٹی وی چینلز اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز نظریات پیش کررہے ہیں۔

ایک بار جب شواہد کی اہمیت نہ رہے، تو ہر چیز ممکن ہوجاتی ہے۔ پہلے سے قائم شدہ نظریات سے رہنمائی، بے ڈھنگے نتائج، اور کامن سینس پر حملے عام ہوگئے ہیں۔ اس سے سائنس کی پیشرفت تو متاثر ہورہی ہے مگر معاشرہ اور افراد اس کا اصل نقصان اٹھاتے ہیں۔

مثال کے طور پر یہ سوال کہ رام جنم بھومی کیا واقعی وشنو کے ساتویں اوتار رام کا حقیقی مقام پیدائش ہے؟ کیا یہ واقعی وہ جگہ ہے جہاں بادشاہ بابر نے اب منہدم بابری مسجد تعمیر کی تھی؟ اس حوالے سے کوئی بھی قائل کردینے والے آرکیالوجیکل شواہد موجود نہیں۔ درحقیقت یہ ناممکن ہے کہ رام کی زمین پر موجودگی کو ہی ثابت کیا جاسکے، چہ جائیکہ ان کا مقامِ پیدائش۔ مگر 6 دسمبر 1992 کا المناک سانحہ اسی عقیدے کا نتیجہ ہے۔ اور اس زخم کا بھرنا ابھی باقی ہے۔

دانستہ طور پر ڈالے گئے نفسیاتی زخم زیادہ تقریباً ناقابل علاج ہوسکتے ہیں۔ موت کے بعد کی زندگی کے دہشت ناک تجربات اس لیے بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ بغیر سوچے سمجھے قبول کرلینے والے ذہن تیار کیے جاسکیں۔ کئی دہائیوں تک پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتب میں 'موت کا منظر اور مرنے کے بعد کیا ہوگا'، شامل تھی، جس میں مصنف کے زرخیر تخلیل نے خوفناک واقعات شامل کیے تھے۔ ماضی میں تخلیقی فکشن کا حصہ سمجھے جانے والے اس طرح کے موت کی بعد کی زندگی کے کام اب پاکستان کی مرکزی تعلیم کا حصہ بن چکے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ، اساتذہ اور مبلغین کی پشت پناہی کے ذریعے ملک بھر کے کیمپسز میں نوجوانوں کو ہدف بنایا جارہا ہے۔

ستائیس اکتوبر کو انسٹیٹوٹ آف بزنس منیجمنٹ کراچی نے ایک بڑے ایونٹ ‘The last moments — an exclusive insight on the death of a man’ کا انعقاد کیا۔ اس ایونٹ کا بلیک اینڈ وائٹ پوسٹر ساٹھ کی دہائی کی ہالی وڈ کی کسی ڈراؤنی فلم سے متاثر تھا۔ آئی او بی ایم کی انتظامیہ نے باضابطہ طور پر ای میلز ارسال کر کے طالبعلموں کو اس میں شرکت کی دعوت دی۔ ایک سعودی سرٹیفائڈ پروفیسر نے سوالات جیسے "کیا زندگی ایک کھیل ہے؟ کیا آپ موت کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ موت کے لمحے میں آپ کیسا محسوس کریں گے؟ کیا اللہ آپ کی زندگی سے مطمئن ہے؟" کے جوابات دیے۔

اس طرح کے گہرے سوالات کو یقیناً اللہ پر چھوڑ دینا زیادہ بہتر ہے۔ ایک زندہ، سانس لیتا، چلتا پھرتا اور بولنے والا پروفیسر کسی بھی طرح کسی کی موت کے لمحات کے فزیکل شواہد پیش نہیں کرسکتا اور نا ہی وہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اللہ کسی فرد کی زندگی سے خوش ہے یا ناراض۔ وہ تو بس اپنی رائے ہی دے سکتا ہے۔

مجھے نہیں معلوم اس پروفیسر نے ایونٹ کے شرکاء پر کیا اثرات مرتب کیے مگر اسلام آباد سے میرے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے والا اس کا طالبعلم مجیب (حقیقی نام نہیں) کسی تبلیغی ویب سائٹ سے موت کے بعد کی زندگی کے حوالے سے فلم دیکھنے کے بعد کافی عجیب رویے کا مظاہرہ کررہا ہے۔ مجیب اب مسلسل خیالات میں گم رہتا ہے، اور وہ زندگی سے زیادہ موت کے خیال سے خوفزدہ رہتا ہے جبکہ اس نے اپنا کام بھی لگ بھگ روک دیا ہے۔

یہ صرف جنوبی ایشیا نہیں جہاں اس طرح کے بے دلیل و منطق رویے نمایاں ہورہے ہیں۔ امریکا جو سائنس کا مرکز ہے، وہ بھی اس طرح کی جعلی سائنسی اور سائنس مخالف تحریکوں سے نمٹنے کی کوشش میں ہے، تاہم وہاں اس سب کے پرعزم مخالفین نے علم نجوم، اڑن طشتریوں، اور مقناطیسی تھراپی وغیرہ کو عام ہونے سے روکے رکھا ہے۔

ہندوستان میں وشوا ہندو پریشد اور بی جے پی کے نظریات کے خلاف جنگ مشکل ہوگی، مگر ہندوستان کا ماضی نہرو جیسے کرداروں پر مشتمل ہے، اور وہاں کے باشعور لوگوں نے ویدوں میں پائی جانے والی ریاضیات، علم کائنات، اور اسکولوں کے نصاب میں تبدیلی کی سخت مخالفت کی ہے۔ اس کی ادا کی جانے والی قیمت کوئی چھوٹی نہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر نریندرا اچیوٹ ڈبھولکر کو ایک سال قبل پونے میں قتل کردیا گیا۔ انہوں نے انسدادِ جادو ٹونہ بل کی تیاری میں مدد کی تھی، جس کی بی جے پی اور شیو سینا جیسی سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی تھی، کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ اس سے ہندو ثقافت اور رسوم و رواج پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

مگر دنیا کے کسی بھی حصے میں اس طرح کے نامعقول رویوں کی شرح میں اتنی رفتار سے اضافہ نہیں ہورہا جتنا پاکستان اور افغانستان میں ہورہا ہے۔ پولیو ورکرز کی زندگیاں میدان جنگ میں موجود فوجیوں سے چھوٹی ہوگئی ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نوجوان ذہنوں کو بنانے کے بجائے تباہ کرنے کے لیے زیادہ سرگرمی سے کام ہورہا ہے۔ اس رویے کے خلاف جنگ یقیناً بہت سخت ثابت ہوگی۔

حوالہ: http://www.dawnnews.tv/news/1012058
 

اوشو

لائبریرین
میں تو نام پڑھ کر سمجھا تھا کوئی تحقیقی مضمون ہو گا۔ لیکن یہ تو تنقیدی نکلا :(
 

فاتح

لائبریرین
میں تو نام پڑھ کر سمجھا تھا کوئی تحقیقی مضمون ہو گا۔ لیکن یہ تو تنقیدی نکلا :(
جب تک لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ سائنس اور غیر سائنس میں فرق کیا ہے اور سائنس سیکھنے کے لیے ہمارے عمومی رویے کیا ہونے چاہییں تب تک آپ تحقیقی مضامین لکھ بھی لیں تو ان کا فائدہ بہت کم ہو گا
 

اوشو

لائبریرین
جب تک لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ سائنس اور غیر سائنس میں فرق کیا ہے اور سائنس سیکھنے کے لیے ہمارے عمومی رویے کیا ہونے چاہییں تب تک آپ تحقیقی مضامین لکھ بھی لیں تو ان کا فائدہ بہت کم ہو گا

اور جن کو یہ فرق معلوم ہے ان کے لیے تنقیدی مضامین کی نسبت تحقیقی مضامین میں ہی زیادہ اٹریکشن ہو گی :)
 
چالیس سال قبل جب میں نے اسلام آباد یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی،
بے شک یہ المیے تو موجود ہیں۔ اور آپ لاکھ سر پٹخیں دلیل کے آگے تواہمات بااثر ہیں۔
میں اس جملے سے پہلے تک اس مضمون کے سلسلے میں فاتح بھائی کی تحریر پر پڑھتے ہی پڑھتے داد پہ داد دے رہا تھا۔ جب یہ جملہ آیا تو میں نے سوچا حوالہ آخر میں ہو گا :)
 

فاتح

لائبریرین
ویسے اس سوال کا آپ کے خیال میں کیا جواب ہے ؟
سائنس:
ایسا عمل جس کے ذریعے ہم قدرتی مظاہر کے مشاہدات کی فطری وضاحت حاصل کرتے ہیں۔
یا​
مسلسل تحقیق کا ایسا منظم طریقہ کار جو ترتیب وار مشاہدے، مفروضے، پیمائش، تجربات، منطقی دلیل اور نظریے کے عوامل پر مبنی ہے اور جس کے ذریعے ہم قدرتی مظاہر کی مناسب وضاحت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

غیر سائنس:
اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ غیر سائنس ہے اور اس غیر سائنس کے تحت فلسفہ، مذہب، ادب وغیرہ سب کچھ آتا ہے۔

سوڈو سائنس:
وہ ڈھکوسلے جنہیں سائنس کے نام پر پیش کیا جاتا ہے لیکن فی الحقیقت وہ سائنس نہیں ہیں، ان میں ایسٹرولوجی اور میتا فزکس جیسی نام نہاد چیزیں شامل ہیں
 

فاتح

لائبریرین
بے شک یہ المیے تو موجود ہیں۔ اور آپ لاکھ سر پٹخیں دلیل کے آگے تواہمات بااثر ہیں۔
میں اس جملے سے پہلے تک اس مضمون کے سلسلے میں فاتح بھائی کی تحریر پر پڑھتے ہی پڑھتے داد پہ داد دے رہا تھا۔ جب یہ جملہ آیا تو میں نے سوچا حوالہ آخر میں ہو گا :)
اگر آپ مراسلہ پڑھنے سے قبل اس کا عنوان بھی پڑھ لیتے تو وہیں واضح ہو جاتا کہ یہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا مضمون ہے۔ :)
 

اوشو

لائبریرین
سائنس:
ایسا عمل جس کے ذریعے ہم قدرتی مظاہر کے مشاہدات کی فطری وضاحت حاصل کرتے ہیں۔
یا​
مسلسل تحقیق کا ایسا منظم طریقہ کار جو ترتیب وار مشاہدے، مفروضے، پیمائش، تجربات، منطقی دلیل اور نظریے کے عوامل پر مبنی ہے اور جس کے ذریعے ہم قدرتی مظاہر کی مناسب وضاحت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

غیر سائنس:
اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ غیر سائنس ہے اور اس غیر سائنس کے تحت فلسفہ، مذہب، ادب وغیرہ سب کچھ آتا ہے۔

سوڈو سائنس:
وہ ڈھکوسلے جنہیں سائنس کے نام پر پیش کیا جاتا ہے لیکن فی الحقیقت وہ سائنس نہیں ہیں، ان میں ایسٹرولوجی اور میتا فزکس جیسی نام نہاد چیزیں شامل ہیں

میرا خیال ہے کچھ بھی سائنس سے باہر نہیں ہے۔ مزید یہ کہ جس چیز کی سائنس فی الوقت کوئی وضاحت نہ کر سکے اسے "غیر سائنس" کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے فراعین مصر کے دور میں جب اس زمانے کے لحاظ سے سائنس کافی ترقی کر چکی تھی۔ پھر بھی اگر کسی کو یہ کہا جاتا ہے ہوا میں اڑا جا سکتا ہے، لاکھوں میل دور انسان تک اپنی آواز پہنچائی جا سکتی ہے۔ چاند پر جایا جا سکتا ہے۔ ایک انسان کا دل دوسرے کو لگایا جا سکتا ہے۔تو شاید اسے دیوانے کی بڑ سمجھا جاتا یا اسے بھی "غیرسائنس" کا زمرہ دے دیا جاتا۔ لیکن آج سائنس بہت کچھ جان چکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کیا کسی سائنسی نظریے کی اتھینٹک ہونے کی گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں وہ غلط ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ایسی بہت سی سائنٹفک تھیوریز کی مثال ہے ہمارے سامنے جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔
مزید یہ بتائیے کہ آپ کے خیال میں سائنس کسی مقام پر آپ کے بیان کردہ غیر سائنسی عوامل و علوم کی محتاج تو نہیں ہوتی؟
 

عثمان

محفلین
مزید یہ کہ جس چیز کی سائنس فی الوقت کوئی وضاحت نہ کر سکے اسے "غیر سائنس" کا نام دے دیا جاتا ہے۔
درحقیقت سائنس کے ہر شعبہ میں ہر وقت ان گنت ایسے سوالات موجود رہتے ہیں جن کا فی الوقت جواب میسر نہیں ہوتا۔ تاہم وہ سوالات "غیر سائنس" نہیں قرار پاتے۔ تاہم اگر دلیل اور تجربہ کی روایت سے ہٹ کر ان سوالات کا جواب تراشنے کی کوشش کی جائے تو وہ جوابات غیر سائنس یا سوڈو سائنس کہلائیں گے۔
ہو سکتا ہے فراعین مصر کے دور میں جب اس زمانے کے لحاظ سے سائنس کافی ترقی کر چکی تھی۔ پھر بھی اگر کسی کو یہ کہا جاتا ہے ہوا میں اڑا جا سکتا ہے، لاکھوں میل دور انسان تک اپنی آواز پہنچائی جا سکتی ہے۔ چاند پر جایا جا سکتا ہے۔ ایک انسان کا دل دوسرے کو لگایا جا سکتا ہے۔تو شاید اسے دیوانے کی بڑ سمجھا جاتا یا اسے بھی "غیرسائنس" کا زمرہ دے دیا جاتا۔
اگر اس زمانے میں یہ سوال اٹھایا جاتا کہ آیا چاند پر پہنچا جا سکتا ہے ؟ یا انسان کبھی چاند پر پہنچ پائے گا؟ تو یہ سوال اٹھانا اور اس پر غور فکر کرنا اس وقت تک غیر سائنسی نہیں جب تک وہ مسلسل دلیل اور تجربہ سے عاری نہ ہو۔

لیکن اس کے باوجود کیا کسی سائنسی نظریے کی اتھینٹک ہونے کی گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں وہ غلط ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ایسی بہت سی سائنٹفک تھیوریز کی مثال ہے ہمارے سامنے جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔
یہ سائنس کی تاریخ کے متعلق ایک عام غلط فہمی ہے جو لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ سائنس کے دیے گئے جوابات ہر کچھ عرصہ بعد "غلط" ثابت ہوجاتے ہیں۔ دراصل سائنس تشکیک اور تحقیق کا ایک مسلسل عمل ہے۔ اس عمل میں سائنسی نظریات دلیل اور تجربہ کی کسوٹی سے گذرتے ہوئے مسلسل تطہیر پاتے ہیں۔ اور کچھ عرصہ بعد ایک مزید واضح تصویر کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ یہ نئے نظریات ان پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں جو اوجھل رہے۔ان اجزا کو مسترد کرتے ہیں جو ناقص یا محدودتھے۔ اور ایسے نئے سوالات دے جاتے ہیں جو سابقہ نظریات پوچھنے سے قاصر تھے۔
مثلاً یہ سمجھنا قطعی غلط ہے کہ نیوٹن کا نظریہ کشش ثقل "غلط" تھا یا نئے نظریہ اضافیت نے نیوٹن کی تحقیق کو ردی کی ٹوکری میں پھینک ڈالا۔ درست تشریح یہ ہے کہ نیوٹن کے اکثر جوابات محدود یا ناقص تھے۔ نئے نظریہ نے دلیل اور تجربہ کی اسی روایت سے گذرتے ہوئے وہ جوابات مہیا کیے جو پہلے سے بہتر تھے۔ وہ تفصیل مسترد کی جو ناقص تھی۔ موجودہ نظریہ اضافیت بھی کوئی کامل نظریہ نہیں۔ آنے والے وقت میں موجودہ shortcomings کو بہتر جوابات اور نظریات سے پورا کیا جائے گا۔ سائنس میں یہ عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
 
"سائنس میں تمام مضامین شامل ہو سکتے ہیں ، چونکہ مشاہدہ کرنا اور پھر اس مشاہدے پر غور کرنا( اور مشاہدے کی وضاحت کے لیے مفروضہ بنانا ، مفروضہ کو پرکھنا،نتیجہ اخذ کرنا اور پرکھنا وغیرہ) کو ہی سائنس کہا جاتا ہے اس لئے خواہ تاریخ کا مطالعہ ہو یا جغرافیہ کا، حیوانات کا مطالعہ ہو یا فطری مظاہر کا ؛ ان میں سے جس کے بارے میں بھی مطالعہ ، باریک بینی اور غور خوض کے ساتھ کیا جائے گا تو وہ اس کی سائنس کہلاے گا ؛ جیسے تاریخ کی سائنس ، جغرافیہ کی سائنس ، حیوانات کی سائنس یا فطرت کی سائنس وغیرہ۔
چونکہ عام طور پر دنیا کے متعدد ہنر اور علوم کا مطالعہ ، خالص سائنسی بنیادوں پر نہیں کیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ ان علوم کو نصابی کتابوں میں سائنس سے الگ شناخت کرنے کے لئے انکے مخصوص نام دیے جاتے ہیں؛ جیسے معاشرتی علوم ، دینیات ، تاریخ اور معاشیات وغیرہ۔ جبکہ وہ تمام علوم کہ جن میں مشاہدہ ، غور اور تجربات وغیرہ کرنے پڑتے ہیں ان کو سائنس کے مخصوص مضامین میں شمار کیا جاتا ہے"
مکمل تحریر یہاں پڑھ لیں
 

arifkarim

معطل
یہ رویے فوراً ہی پوری دنیا میں پھیل گئے۔
مسلم دنیا میں تو یہ نام نہاد رویے ابھی تک کہیں نظر نہیں آتے۔ شاید مسلم دنیا اس دنیا میں نہیں ہے۔ :)

اب اپنے گھر کی بات کی جائے: پاکستانیوں کی بڑی تعداد، جن میں یونیورسٹیوں کے سائنس کے طالبعلم بھی شامل ہیں، کا ماننا ہے کہ کوانٹم مکینکس سے لے کر بلیک ہولز اور جینیات تک سب کچھ چودہ سو سال پہلے سمجھ لیا گیا تھا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا کو بائیولوجی کے طالبعلم اور اساتذہ تک مسترد کردیتے ہیں۔ بلکہ یہ عام عقیدہ ہے کہ تمام جدید سائنس عربی پر مہارت حاصل کرنے اور قرآن مجید کے مفہوم کو ماہرانہ انداز میں بیان کرنے سے سیکھی جاسکتی ہیں۔
تو پھر اتنی مہنگی مہنگی یونیورسٹیوں اور غیر ملکی تعلیمی اداروں کا رُخ کیوں کرتے ہیں۔ سیدھا کسی مدرسے میں داخلہ لے لیا ہوتا! :)

چالیس سال قبل جب میں نے اسلام آباد یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی، تو انہی دنوں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، جو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک پرہیزگار شخص تھے، نے اس رفتار کا حساب لگایا تھا، جس رفتار سے جنت زمین سے دور جارہی ہے۔ انہوں نے یہ پایا کہ یہ رفتار روشنی کی رفتار سے ایک سینٹی میٹر فی سیکنڈ کم ہے۔ آج ٹی وی چینلز اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز نظریات پیش کررہے ہیں۔
یہ شاید پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف جنت کو جسمانی حالت میں دریافت کیا بلکہ اسکی رفتار کا تخمینہ بھی "سائنسی" بنیادوں پر لگایا۔ اگر پاکستان میں واقعتاً یونی ورسٹیوں کا یہ معیار ہے تو مجھے حیرت ہے یہ ملک ایٹمی طاقت کیسے بن گیا؟ کیا ان ایٹم بموں کو چلانے کیلئے بھی جنات طلب کئے گئے تھے؟ :)

دانستہ طور پر ڈالے گئے نفسیاتی زخم زیادہ تقریباً ناقابل علاج ہوسکتے ہیں۔ موت کے بعد کی زندگی کے دہشت ناک تجربات اس لیے بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ بغیر سوچے سمجھے قبول کرلینے والے ذہن تیار کیے جاسکیں۔ کئی دہائیوں تک پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتب میں 'موت کا منظر اور مرنے کے بعد کیا ہوگا'، شامل تھی، جس میں مصنف کے زرخیر تخلیل نے خوفناک واقعات شامل کیے تھے۔ ماضی میں تخلیقی فکشن کا حصہ سمجھے جانے والے اس طرح کے موت کی بعد کی زندگی کے کام اب پاکستان کی مرکزی تعلیم کا حصہ بن چکے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ، اساتذہ اور مبلغین کی پشت پناہی کے ذریعے ملک بھر کے کیمپسز میں نوجوانوں کو ہدف بنایا جارہا ہے۔
یعنی یہود اسلام کے بارہ میں تنقید کرتے وقت بالکل درست کہتے ہیں کہ اس دین اسلام کے بعض عقائد زندگی کا نہیں بلکہ موت کا پرچار کرتے ہیں۔ اور جسکے نتائج ہم آج طالبان، داعش، حماس جیسی اسلامی دہشت گرد تنظیموں کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔

ستائیس اکتوبر کو انسٹیٹوٹ آف بزنس منیجمنٹ کراچی نے ایک بڑے ایونٹ ‘The last moments — an exclusive insight on the death of a man’ کا انعقاد کیا۔ اس ایونٹ کا بلیک اینڈ وائٹ پوسٹر ساٹھ کی دہائی کی ہالی وڈ کی کسی ڈراؤنی فلم سے متاثر تھا۔ آئی او بی ایم کی انتظامیہ نے باضابطہ طور پر ای میلز ارسال کر کے طالبعلموں کو اس میں شرکت کی دعوت دی۔ ایک سعودی سرٹیفائڈ پروفیسر نے سوالات جیسے "کیا زندگی ایک کھیل ہے؟ کیا آپ موت کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ موت کے لمحے میں آپ کیسا محسوس کریں گے؟ کیا اللہ آپ کی زندگی سے مطمئن ہے؟" کے جوابات دیے۔
سعودی سرٹیفائڈ مطلب وہابی عقائد سے آراستہ مولوی جسکی جڑیں تکفیری اسلام سے جاکر ملتی ہیں اور جنہوں نے مشرق وسطہ میں پچھلے کئی دہائیں سے عذاب کھڑا کیا ہوا ہے جب سے تیل کی فراوانی عام ہو ئی ہے :)

مجھے نہیں معلوم اس پروفیسر نے ایونٹ کے شرکاء پر کیا اثرات مرتب کیے مگر اسلام آباد سے میرے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے والا اس کا طالبعلم مجیب (حقیقی نام نہیں) کسی تبلیغی ویب سائٹ سے موت کے بعد کی زندگی کے حوالے سے فلم دیکھنے کے بعد کافی عجیب رویے کا مظاہرہ کررہا ہے۔ مجیب اب مسلسل خیالات میں گم رہتا ہے، اور وہ زندگی سے زیادہ موت کے خیال سے خوفزدہ رہتا ہے جبکہ اس نے اپنا کام بھی لگ بھگ روک دیا ہے۔
لگتا ہے اس تبلیغی جماعت نے جو عوام میں اپنے موت کے عقائد کا پرچار کرتی ہے نےیہ کبھی سنا نہیں ہوگا:
زندگی کو اس طرح جیو کہ جیسے ہمیشہ زندہ رہنا ہے
اور آخرت کی فکر ایسے کرو جیسے اگلے ہی لمحے مر جانا ہے

یہ صرف جنوبی ایشیا نہیں جہاں اس طرح کے بے دلیل و منطق رویے نمایاں ہورہے ہیں۔ امریکا جو سائنس کا مرکز ہے، وہ بھی اس طرح کی جعلی سائنسی اور سائنس مخالف تحریکوں سے نمٹنے کی کوشش میں ہے، تاہم وہاں اس سب کے پرعزم مخالفین نے علم نجوم، اڑن طشتریوں، اور مقناطیسی تھراپی وغیرہ کو عام ہونے سے روکے رکھا ہے۔
مغرب میں سوڈ سائنس نے نبٹنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ یہاں غیر سائنسی عقائد رکھنے والے حضرات کا اعلیٰ سائنسی مدارس میں داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ قریباً یہی حال یہاں کی سیاست کا بھی ہے کہ قوم کے چوروں، لٹیروں کو ملکی اقتدار میں آنے سے قبل ہی روک دیا جاتا ہے۔ جو کہ پاکستان میں کئی دہائیوں سے بھٹو کے آئین کے تحت جائز ہو چکا ہے۔

مگر دنیا کے کسی بھی حصے میں اس طرح کے نامعقول رویوں کی شرح میں اتنی رفتار سے اضافہ نہیں ہورہا جتنا پاکستان اور افغانستان میں ہورہا ہے۔ پولیو ورکرز کی زندگیاں میدان جنگ میں موجود فوجیوں سے چھوٹی ہوگئی ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نوجوان ذہنوں کو بنانے کے بجائے تباہ کرنے کے لیے زیادہ سرگرمی سے کام ہورہا ہے۔ اس رویے کے خلاف جنگ یقیناً بہت سخت ثابت ہوگی۔
آپ جہالت کو رویوں سے نہیں بلکہ ایک اعلیٰ سیاسی قیادت سے ہی ختم کر سکتے ہیں اور یہ ظاہر مکمل نظام کی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔

اور جن کو یہ فرق معلوم ہے ان کے لیے تنقیدی مضامین کی نسبت تحقیقی مضامین میں ہی زیادہ اٹریکشن ہو گی :)
ایک تنقیدی مضمون ایک تحقیقی مضمون ہی ہوتا ہے جناب! جیسے آپ اس مضمون کو پاکستانی جہالت پر تحقیق کہہ سکتے ہیں :)

میرا خیال ہے کچھ بھی سائنس سے باہر نہیں ہے۔ مزید یہ کہ جس چیز کی سائنس فی الوقت کوئی وضاحت نہ کر سکے اسے "غیر سائنس" کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے فراعین مصر کے دور میں جب اس زمانے کے لحاظ سے سائنس کافی ترقی کر چکی تھی۔
علم الغیب، مذہبی پیشگوئیاں،فرشتے ، جنات اور دیگر غیر مرئی مخلوقات کا علم السائنس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مذہب اور سائنس دو الگ رویے ہیں۔ انکے امتزاج سے سوڈو سائنس جنم لیتی ہے جو مذہب اور سائنس دونوں سےزیادہ خطرناک شے ہے۔ یعنی نیم سائنس خطرہ جان :)

چونکہ عام طور پر دنیا کے متعدد ہنر اور علوم کا مطالعہ ، خالص سائنسی بنیادوں پر نہیں کیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ ان علوم کو نصابی کتابوں میں سائنس سے الگ شناخت کرنے کے لئے انکے مخصوص نام دیے جاتے ہیں؛ جیسے معاشرتی علوم ، دینیات ، تاریخ اور معاشیات وغیرہ۔ ج
یہ بات درست نہیں ہے۔ یہاں مغرب میں سیاسیات، سماجیات، معاشرتی علوم ، مذاہب اور تاریخ باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر پڑھائے جاتے ہیں تاکہ ان علوم میں ڈگری حاصل کرنے والا ابہام کا شکار ہوکر انتہاء پسند دہشت گرد نہ بن جائے :)
 

arifkarim

معطل
Top