قتل عام کی دعوت ، اداریہ کاروان ناروے!

arifkarim

معطل
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن نے انتخابی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے جہاد اور قتال فی سبیل اللہ عام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ وہی فلسفہ اور طرز عمل ہے جو پاکستان میں طالبان، عراق میں دولت اسلامیہ اور نائیجیریا میں بوکو حرام نے اختیار کیا ہے۔ اس قسم کے اشتعال انگیز اور انتہا پسندانہ نطریات کو مسترد کرنا اور ایسے عناصر کی سرزنش ملک میں پرامن معاشرہ کے قیام کے لئے بے حد ضروری ہے۔

سید منور حسن اس قسم کے بیانات کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ انہیں عام طور سے ایک بزرگ اور بے اثر آدمی کے بے مقصد بیانات سمجھ کر زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی قسم کے رہنما ملک میں انتہا پسندی ، لاقانونیت ، توہین آدمیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سبب بن رہے ہیں۔ ان عناصر نے جستہ جستہ ملک میں اس قدر قوت پکڑ لی ہے کہ وہ اب ان خیالات کا اظہار محض نجی محفلوں میں ہی نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں دبے لفظوں میں ڈھکے چھپے انداز میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ ایک مستند سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم کو ان خیالات کی تشہیر اور ترویج کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

اس لئے صرف سید منور حسن کی باتوں کو ہی مسترد کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کی پالیسی پر بھی سوال اٹھانا بے حد اہم ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت کو یہ واضح کرنا چاہئے کہ کیا وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ملک میں تبدیلی لانے کے آئینی اور قانونی طریقے کو اختیار کرنا چاہتی ہے یا وہ طالبان جیسے برسر پیکار جنگجو عناصر کی قتل و غارت گری کی پالیسی اپناتے ہوئے ملک میں اقتدار پر قبضہ کر کے اس ” صالح “ معاشرہ کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں جو اس کی قیادت کے بقول سب کو انصاف اور مساوی مواقع فراہم کر سکتا ہے۔

جب ایک جماعت یا گروہ مذہب ، انصاف یا مساوات کے نام پر کوئی بھی توجیہہ کرتے ہوئے ” صالحین “ کے ایک گروہ کو قتال فی سبیل اللہ کی ترغیب دینے کی بات کرتا ہے تو عام آدمی کے لئے یہ سمجھنا محال ہو گا کہ اس حکمت عملی اور طالبان یا دولت اسلامیہ جیسے انسانیت دشمن گروہوں کے طرز عمل میں کیا فرق ہے۔ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے قتال کی تبلیغ کے بعد اب جماعت اسلامی کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ درحقیقت وہ کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ حالات میں اس کا رویہ دوروئی پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف یہ جماعت انتخابی طریقہ کار کے تحت منتخب ہونے کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف قتل عام کے ذریعے معاشرے میں اصلاح کا ڈول ڈالنا چاہتی ہے۔

سید منور حسن نے گزشتہ برس اس وقت اپنے خیالات کی وجہ سے شہرت حاصل کی تھی جب جماعت اسلامی کے امیر کے طور پر انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے لیڈر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے شہید قرار دیا تھا۔ پاک فوج کی طرف سے اس کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ گو کہ جماعت اسلامی نے اپنے امیر کے بیان کو مسترد نہیں کیا تھا بلکہ یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ فوج کو سیاسی بیانات پر تبصرہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ تاہم جماعت اسلامی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے طویل المدتی اشتراک کے پس منظر میں سید منور حسن کے لئے فوج کے نقطہ نظر سے اس واضح اختلاف کے سبب بطور امیر جماعت کام کرتے رہنا ممکن نہیں تھا۔ اسی لئے اس سال مارچ میں ان کی بجائے سراج الحق کو جماعت اسلامی کا امیر چن لیا گیا۔

اس کے باوجود سید منور حسن کے نقطہ نظر اور بیان کو محض ایک سن رسیدہ اور فاتر العقل شخص کے خیالات کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جماعت اسلامی اس ملک کی ایک منظم اور انتخابی عمل پر یقین رکھنے والی جماعت ہے۔ جب یہ جماعت اپنے پلیٹ فارم سے اس قسم کے خیالات کو پیش کرنے کی اجازت دیتی ہے اور وہ شخص اس جماعت کا سابق امیر اور اہم رہنما بھی ہو ، تو جماعت کو اس بیان سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تا دم تحریر جماعت اسلامی کے کسی رہنما یا ترجمان کی طرف سے منور حسن کے بیان پر افسوس کا اظہار نہیں کیا گیا۔

کنونشن کے دوران امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی جو تقریریں کی ہیں ، ان کے بعض حصے بھی اسی مزاج اور طرز عمل کی تائید کرتے ہیں جس کا اظہار منور حسن نے کھل کر اور ڈٹ کر کیا ہے۔ اس اجتماع کے دوران یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ 9 ستمبر 2001 کو امریکہ میں دہشت گردی کے واقعات مسلم ممالک کے تعلیمی نصاب کو تبدیل کرنے کی سازش تھی۔ ان کے بقول کیری لوگر بل کے تحت چند برس قبل امریکہ نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ جو امداد دینے کی پیشکش کی تھی اس کا مقصد بھی ملک کے نصاب میں تبدیلیاں لانا تھا۔ اس قسم کے سیاسی بیانات کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ لیکن سیاسی جلسوں میں ایسی بے بنیاد باتیں کی اور سنی جاتی ہیں۔ یہ معاملات محض سیاسی ہتھکنڈوں تک محدود رہیں تو انہیں قبول کیا جا سکتا ہے لیکن سیاسی نظریات کو جب مذہبی علامات اور پیغام کے ساتھ ملا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں براہ راست جنگ کرنے اور منکرین کو تہہ تیغ کرنے کا پیغام دیا جائے تو اسے قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔

اس قسم کے خیالات موجودہ عالمی حالات میں ایک خطرناک انتہا پسند ذہنیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ لوگ صرف خود کو درست اور باقی سب کو غلط قرار دینے پر مصر ہیں۔ جماعت اسلامی کی اصطلاح میں معروف صرف وہ لوگ ہیں جو اس جماعت کی سیاست اور طریقہ سیاست سے متفق ہیں۔ باقی سب منکر ہیں جو سید منور حسن کی زبان میں قتال فی سبیل اللہ کی زد میں آتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ قتل کرنے کی براہ راست ہدایت اور مشورہ ہے۔ ہمیں حیرت ہو گی اگر ملک کے مروجہ قوانین کے تحت اس قسم کے اشتعال انگیز بیان کا نوٹس نہ لیا جائے۔

تاہم یہ معاملہ ایک شخص کو کسی غیر ذمہ دارانہ بیان پر سزا دلوانے تک محدود نہیں ہے۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ یہ نظریات ملک میں انتہا پسندی ، گروہی تقسیم اور فرقہ بندی کی ایک ایسی کیفیت پیدا کر رہے ہیں جو دہشت گردی اور قتل و غارتگری کے فروغ کا سبب بن رہی ہے۔ اس رجحان کو روکنے کے لئے ان عناصر کو مسترد کرنا اور ان کو روکنا بے حد ضروری ہے۔ ملک میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران دہشت گردی کی کیفیت امریکہ دشمن نعرے اور اسلام نافذ کرنے کے دعوے پر پیدا کی گئی ہے۔ اعلان کیا جاتا ہے کہ امریکہ ہمارے ملک اور تہذیب کو ختم کرنا چاہتا ہے اس لئے ہتھیار بند گروہ برسر جنگ ہیں۔ اسی لئے یہ لوگ شہید اور محسن قوم قرار دئیے جاتے ہیں۔ منور حسن کا بیان اسی حکمت عملی کا تسلسل ہے۔

جماعت اسلامی کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے تبلیغی جماعت کے ساتھ جماعت اسلامی کے اشتراک کی بات بھی کی ہے تا کہ اسلامی انقلاب کی راہ ہموار ہو سکے۔ تبلیغی جماعت صرف دینی کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہے مگر جماعت اسلامی اس جماعت کی عددی مقبولیت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور دیوبند علما نے تقسیم سے پہلے اپنے اپنے طور پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ ان کے خیال میں محمد علی جناح جیسا ماڈرن وکیل ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کے قابل نہیں تھا۔

قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم بہت جلد انتقال کر گئے اور جماعت اسلامی کی فکر کو قرارداد مقاصد کے طور پر آئینی دستاویز کا حصہ بنا لیا گیا۔ اگرچہ یہ جماعت کبھی انتخابی راستے سے اقتدار حاصل نہیں کر سکی لیکن فوجی آمریتوں کے ادوار میں یہ شریک اقتدار رہی ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جماعت اسلامی کے اشتراک کے نتیجے میں ہی 1970 کے انتخابات کے بعد بنگلہ دیش کی عوامی تحریک کو دبانے کے لئے البدر اور الشمس جیسی مسلح تنظیمیں قائم کی گئیں اور اسی جہاد و قتال فی سبیل اللہ کو مروج کیا گیا ، جس کا پرچار منور حسن ایک بار پھر کر رہے ہیں۔

یہاں ہمیں یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ منور حسن اور اس قبیل کے لوگ پاکستان کے (خاکم بدہن) ” تابوت“ میں آخری کیل ٹھونکنے کا سبب بن رہے ہیں۔ صرف متحدہ قومی موومنٹ نے اس بیان کو جماعت اسلامی کی حکمت عملی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہی عناصر پاکستان میں داعش جیسی تنظیموں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی کو اس بیان کے مندرجات سے بری الذمہ قرار دیا ہے۔ اس سیاسی طرز عمل کو کسی طرح قبول نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اسی طرح شدت پسندوں کو اپنا پیغام عام کرنے اور قوت پکڑنے کا موقع مل رہا ہے۔

انہی عناصر نے جناح کے پاکستان کو دہشت اور خوف میں مبتلا ایک معاشرہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت جہاد کی ضرورت ہے لیکن وہ جہاد انتہا پسند اور قتل و غارتگری کا پرچار کرنے والے لوگوں ، گروہوں اور جماعتوں کے خلاف ہونا چاہئے۔
ماخذ
کاروان کا مختصر تعارف:

قیصرانی ایچ اے خان لئیق احمد ناصر علی مرزا نایاب کاشفی حسینی انیس الرحمن محمود احمد غزنوی زرقا مفتی صائمہ شاہ عبدالقیوم چوہدری عباس اعوان محمداحمد ابن رضا عمار ابن ضیا منقب سید زیک ظفری واجدحسین یوسف-2 منصور مکرم سید ذیشان اوشو امجد میانداد محمد خلیل الرحمٰن خالد محمود چوہدری عثمان
 

arifkarim

معطل
کیا یہ سچ ہے کہ قرار داد مقاصد جو کہ پاکستان کی سب سے پہلی دستور ساز اسمبلی کی طرف سے منظور ہونے والی متفقہ قرار داد تھی اور جسے آئین پاکستان کا اٹوٹ انگ بنا دیا گیا، درحقیقت جماعت اسلامی کی فکر ی سوچ کی عکاس تھی؟ میں نے ا س سلسلہ میں کچھ تحقیق کی ہے اور جماعت اسلامی کی اپنی ویبسائیٹ پر کچھ معلومات موجود ہیں جنہیں پڑھ کر شبہ ہوتا ہے کہ یہ بات درست ہو سکتی ہے۔ آپکی کیا رائے ہے؟
 
منور حسن کی باتوں سے میرا خیال ہے کہ جماعت کی اکثریت متفق نہیں۔ اسی لئے آج وہ جماعت کے امیر نہیں ہیں بلکہ سراج الحق امیر ہیں۔
منور حسن صاحب کئی دفعہ متنازعہ باتیں کر کے جماعت کے لئے مشکلات پیدا کر چکے ہیں۔ غالبًا اسی لئے تو آخری جماعتی انتخابات میں اراکین نے انہیں امیر منتخب نہیں کیا۔ ان کی باتوں کو بنیاد بنا کر خوامخواہ قرارداد مقاصد پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
نوٹ: نا میں کبھی جماعت اسلامی کا رکن رہا نا ان کی ذیلی تنظیم کا اور نا ہی میں مودوی صاحب یا ان کی تعلیمات کا مداح رہا ہوں۔ صرف انصاف کی بات کر رہا ہوں۔ :)
 
ہ ہ ہ ہ ہ منور سید صاحب اپ نے تو لوگوں کو اتنا پریشان کر دیا کہ صرف ہمارے محفل پر تین لڑیاں اووووووووووووووو:LOL:
 

arifkarim

معطل
کچھ لوگوں کو تو ساری مذہبی جماعتیں بری لگتی ہیں بلکہ پاکستان کے سارے اسلامی اقدامات قرارداد مقاصد سمیت ان کا کیا ؟
یاد رہے کہ جماعت اسلامی وہی سیاسی جماعت ہے جو تحریک پاکستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کیخلاف مؤقف رکھتی تھی اور سیکولر مسلم اکثریت پاکستان کی بجائے اسلامی ریاست کا مطالبہ چاہتی تھی۔ جب انہیں اپنی مرضی کا "اسلامی" پاکستان حاصل نہیں ہوا تو پاکستان بنتے ہی اس آزاد ریاست کو جبراً اسلامیانے کا کام شروع کر دیا گیا جو آج تک جاری ہے۔ قرار داد مقاصد ، ہندو و قادیانی مخالف فسادات کے پیچھے اسی جماعت کا ہاتھ ہے جو گاہے بگاہے افواج پاکستان کیساتھ ملکر کشمیر جہاد، افغان جہاد اور بنگال جہاد میں دہشت گردی کے فرائض سر انجام دیتی رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں جو حالیہ سزائیں سنائیں گی وہ اس جماعت کے سابقہ گناہوں کی تلافی کیلئے کافی ہیں اگر ان پر صحیح معنی میں عمل کیا جائے تو!
باقی مجھے دیگر اسلامی جماعتوں سے کوئی اعتراض نہیں۔ وحدت المسلمین، منہاج القرآن ، تبلیغی جماعت وغیرہ جماعت اسلامی سے ہزار گنا بہتر انداز میں فروغ اسلام کا کام کر رہی ہیں اور جماعت اسلامی کی دہشت گردی یعنی جہاد و دنگا فساد سے پاک ہیں۔
 
آل انڈیا مسلم لیگ کا مطالبہ سیکولر مسلم پاکستان نہیں تھا۔ البتہ یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی قیام پاکستان سے پہلے ہی قیام پاکستان کی مخالف تھی۔
 

arifkarim

معطل
آل انڈیا مسلم لیگ کا مطالبہ سیکولر مسلم پاکستان نہیں تھا۔ البتہ یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی قیام پاکستان سے پہلے ہی قیام پاکستان کی مخالف تھی۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا مطالبہ جماعت اسلامی والا شرعی یا اسلامائزڈ پاکستان بھی نہیں تھا وگرنہ انکے مؤقف کی اول دن سے پارلیمان میں حمایت ہوتی۔ ضیاء کے دور میں جو جبراً پاکستان کو شرعی بنانے کی بھونڈی سی کوشش کی گئی تھی اسکا خمذیادہ پوری قوم آج ویسے ہی طالبان اور دیگر انتہاء پسند اسلامی گروہوں کی شکل میں بھگت رہی ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ مسلم لیگ کا مطالبہ اسلامی اقدار پرقائم ایک مسلم ریاست تھا جو کہ سیکولر ہوسکتی ہے، مذہبی ہو سکتی ہے البتہ اسلامی و شرعی نہیں ہو سکتی جیسا کہ جماعت اسلامی والے چاہتے تھے۔
 
Top