بابا فغانی شیرازی کا تعارف

حسان خان

لائبریرین
بابا فغانی شیرازی نویں ہجری صدی کے اواخر اور دسویں صدی ہجری کے آغاز کے نامور فارسی گو شاعروں میں سے ہیں۔
بابا فغانی شیراز میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کا سنِ ولادت دقیقاً معلوم نہیں ہے، لیکن اپنی وفات کے وقت ساٹھ سالہ ہونے کی وجہ سے ۸۶۰ تا ۸۶۵ھ کے درمیان اُن کی پیدائش کے وقوع ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شیراز میں اُنہوں نے اپنے والد اور برادر کی دکان پر چاقو سازی کا کام شروع کیا تھا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے ابتدا میں اپنے لیے 'سکّاکی' تخلص منتخب کیا، لیکن بعد میں تخلص بدل کر 'فغانی' کر دیا۔ البتہ اُن کے دیوان میں موجود ساری غزلیں 'فغانی' تخلص کے ساتھ ہی ہیں۔ اُنہوں نے شیراز میں ابتدائی تیس سال گذار کر سیر و سفر کی ٹھانی اور سب سے پہلے خراسان گئے جہاں کچھ عرصے اُنہوں نے شہرِ ہرات میں قیام کیا۔ وہاں اُن کی عبدالرحمٰن جامی اور کچھ دیگر شعراء سے ملاقات ہوئی۔ لیکن وہاں اُن کی شاعری کو سراہا نہیں گیا۔ بعد میں وہ آذربائجان چلے گئے جہاں آق قویونلو سلسلے کے ادب پرور بادشاہ سلطان یعقوب بیگ کے تبریز میں‌ واقع دربار تک اُن کی رسائی ہو گئی۔ سلطان یعقوب بیگ نے اُنہیں 'بابائے شعراء' کا لقب دیا تھا، اسی وجہ سے اُنہیں فغانی کے ہمراہ بعض اوقات بابا لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ سلطان یعقوب بیگ کی ۸۹۶ھ میں وفات کے بعد اُنہوں نے آق قویونلو سلسلے کے بعد کے بادشاہوں بایسنقر بیگ، رستم بیگ، اوغورلو محمد بیگ، احمد بیگ اور الوند بیگ کے حق میں بھی مدحیہ شاعری لکھی۔ آق قویونلو سلطنت کے سقوط کے ایام میں تبریز میں پھیلنے والی بدنظمی کے باعث بابا فغانی شیراز واپس آ گئے اور کچھ مدت وہاں رہے لیکن شاہ اسماعیل صفوی کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ دوبارہ خراسان چلے گئے۔ وہاں اُنہوں نے کچھ مدت ابیورد میں قیام کیا اور پھر مشہد چلے گئے جہاں ۹۲۵ھ یا ۹۲۲ھ میں ساٹھ سال کی عمر میں اُن کا انتقال ہو گیا۔
بابا فغانی کا دیوان قصائد، ترکیب بندوں، ترجیع بندوں، غزلیات اور رباعیات پر مشتمل ہے۔ اُن کے زیادہ تر قصائد اماموں اور آق قویونلو سلطانوں، خصوصاً یعقوب، بایسنقر اور رستم بیگ کی مدح سے متعلق ہیں۔ نیز، ایک آخری قصیدہ شاہ اسماعیل صفوی کی مدح میں ہے۔ اُن کے دیوان میں سلطان یعقوب کی وفات پر دس بندوں میں لکھا ایک مرثیہ بھی موجود ہے۔ اُنہوں نے اگرچہ مختلف انواع میں شاعری کی ہے، لیکن شاعری میں اُن کا اصلی کام غزل سرائی تھا، اور اُن کے دیوان میں چھ سو کے قریب غزلیں موجود ہیں۔
اکثر تذکرہ نویسوں نے اُن کے تازہ اسلوب پر توجہ دلائی ہے۔ اُن کے اشعار کو سبکِ عراقی اور سبکِ ہندی کے درمیان واسطہ جانا جا تا ہے۔ بابا فغانی اپنی فصیح، لطیف اور رواں زبان سے سبکِ عراقی کو نازکی و ظرافت کے لحاظ سے سبکِ ہندی کی جانب لے گئے۔ کچھ حد تک اُن کی شاعر امیر خسرو دہلوی سے بھی قرابت رکھتی ہے۔ بابا فغانی کے غالب اشعار شاعر کی پریشانیوں اور عمیق درد کی شرح پر مبنی ہیں جو بہت حزن انگیز اور موثر انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔
قصیدہ سرائی میں اُن کا بیان سادہ و رواں ہے اور قصیدہ سراؤں کے کلام میں معمولاً جو تکلف و تصنع دیکھنے کو ملتا ہے اُن سے خالی ہے، اور مدیحہ گوئی میں اُنہوں نے مبالغے سے اجتناب کیا ہے۔ غزل میں اُن کا اپنا خاص شیوہ ہے جس کی خصوصیات میں اولاً تو یہی سادگی و روانیِ کلام، ثانیاً تازہ تعبیرات و مضامین اور نئے تشبیہات و استعارات کا لایا جانا، اور ثالثاً احوالِ عاطفی اور احساساتِ عاشقانۂ محض کا بیان، بغیر اس کے کہ صوفیانہ رنگ و حالت اُن کے فکر و سخن پر غالب ہو، شامل ہیں۔ فغانی کی غزل سرائی کا اسلوب اُس زمانے کے رائج و مانوس اسلوبوں سے متفاوت تھا۔ والہ داغستانی نے ریاض الشعراء میں لکھا ہے کہ "بابائے مغفور ایک فنِ تازہ کے مجتہد ہیں اور اُن سے پہلے کسی نے بھی اس روش میں شعر نہیں کہے ہیں۔" اُن کے اشعار میں مضمون سازی، خیال آفرینی اور نئی تشبیہات و تعبیرات کا لایا جانا اعتدال و تناسب کے ہمراہ ہے اور شاعرانِ سبکِ ہندی کے اشعار میں اس لحاظ سے جو مبالغہ نظر آتا ہے، وہ اُن کے اشعار میں نہیں ہے۔
اُن کے بعد کئی شاعروں نے اُن کے اسلوب کی پیروی کرنے کی کوشش کی۔ ہند میں عرفی اور نظیری کے توسط سے جبکہ ایران میں محتشم کاشانی کے توسط سے اُن کے اسلوب کی تقلید کی گئی۔ وحشی بافقی اور ضمیری بھی بابا فغانی کے پیروؤں میں سے تھے۔ صائب تبریزی نے بھی چند اشعار میں اُن کی جانب اپنے علاقے کی نشان دہی کی ہے۔ ایک لحاظ سے دسویں صدی کے تقریباً تمام شاعر ہی اُن کے اسلوب کے پیرو تھے۔
اپنی غزلوں میں لسان الغیب حافظ شیرازی کی استادی اور زیبائی کے یاد آور ہونے کی وجہ سے تذکرہ نویسوں نے اُنہیں 'حافظِ کوچک' کا لقب بھی دیا ہے۔
اُن کا دیوان پہلی بار لاہور میں اور دوسری بار تہران میں چھپ چکا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
Top