٭٭٭ پینسل ٭٭٭

گل بانو

محفلین
پینسل بڑے کام کی چیز ہے۔ چھوٹے بچے اس سے لکھناسیکھتے ہیں اور بڑے ہوتے ہوتے وہ کچھ لکھ جاتے ہیں جو اکثر بڑے بڑوں کے سر سے گزر جاتا ہے ۔اور یہی باتیں انسان کو بڑا بنا جاتی ہیں ۔تو اس چھوٹی پینسل سے آپ جتنی بڑی بات چاہیں لکھ سکتے ہیں کوئی یہ نہیں کہے گا ’’ چھوٹی پینسل بڑی بات ‘‘ ۔۔۔۔۔۔
پینسل کے منہ میں آپ کی زباں ہوتی ہے اور اگر آپ خاتون ہیں توسمجھ لیں دو آتشہ مضمون تیار ہے ۔اپنے آس پاس نظر دوڑائیں ، ساس نندیں ، جٹھانی ، دیورانی ، یا شوہر کی کزنز اور دور کیوں جائیے پڑوسنیں بھی تو حق رکھتی ہیں کہ ان پر ایک دبنگ قسم کا مضمون لکھا جا ئے۔۔۔ تو بس ان کی روز مرہ کی مصروفیات کو مرچ مصالحے لگا کر لکھ ڈالئے ۔لیجئے آپ کا دلچسپ سا مضمون تیار ہوگیا ۔
اگر آپ خاندان میں کسی فیملی سے کچھ دنوں کے لئے گلو خلاصی چاہتے ہیں تو ان کے گھر دعوت پر جاتے ہوئے اپنے چھوٹے بچوں کے ہاتھ میںایک ،ایک پینسل تھما دیں جب تک واپسی ہوگی ان کا سارا گھر آپ کے بچوں کی بنائی ہوئی پینٹنگز سے بھر چکا ہوگا اور وہ آپ کو آئندہ گھربلانے کا رسک نہیں لیں گے ۔ اور اگر کسی سے بہت زیادہ پرانا بدلہ چکانا ہو تو اس سے الجبرا کے سوال پوچھ ڈالیں پھر اس کی جرائت نہیں ہوگی کہ آپ سے بحث کرے بلکہ الٹا آپ کی دھاک اس پر بیٹھ جائے گی ۔ یہ وہ ڈھاک نہیں جس کے تین پات ہوتے ہیں ویسے ڈھاک کی ہمیں تو کبھی سمجھ ہی نہیں آئی اور نہ ہی اس کے تینوں پاتوں کی ۔۔۔۔
اب اس پینسل کے کیا کیا افسانے بیان کریں جب سے اسے پکڑا ہے لکھنا پڑ رہاہے ، جب ہم سے کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ کب سے لکھنا شروع کیا تو ہم اپنی عمر میں سے ۵ سال کم کر کے بقیہ عمرکا دورانیہ بتا دیتے ہیں اس سے سامنے والے پر اچھا خاصا رعب تو پڑ جاتا ہے لیکن ایک خطرناک صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے لوگ ہماری عمر کے بارے میں مشکوک ہو جاتے ہیں (جو کہ ہمیں تو کیا کسی بھی خاتون کوقطعی پسند نہیں ہوتا)۔۔۔ ہاں تو بات ہورہی تھی پینسل کی اور ہم جا پہنچے عمردراز تک ( چوکیدار عمردرازخان نہیں ) ۔۔۔۔ یہ سارا کیا دھرا اسی پینسل کا ہے جو ہمارے خیال کے گھوڑے کو کہیں کا کہیں دوڑائے جا رہی ہے ، پس ثابت ہوا کہ خیال کے گھوڑے ہوا کے گھوڑوں سے تیز دوڑتے ہیں اور بندے کو وہاں پہنچا دیتے ہیں جہاں خیالی پلاوٗ کی خوشبو بھی آنے لگتی ہے ۔کمال دیکھئے کہ یہ گھوڑے بغیر ٹریک کے دوڑتے ہیں جیسا کہ اس وقت پینسل ہاتھ میں نہیںہے لیکن دماغ میںوہی دوڑ رہی ہے ۔
پینسل بڑے کمال کی چیز ہے کسی آرٹسٹ کے ہاتھ میں ہو تو تخیل کے وہ شاندار جوہر دکھلاتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ صادقین ، انور سمیع ،اقبال مہدی ، پکاسو اور امین کاسمانی۔۔۔۔۔ جیسے لوگوں کا نام فن کی دنیا میں ابھر کر سامنے آتا ہے اور تاریخ میں ہمیشہ کے لئیے رقم ہوجاتا ہے ۔ یہ صرف پینسل کی بدولت ہی ممکن ہوا۔
اس سے کلام ِ نرم و نازک لکھیں یا کلام تُند اس کی اثر پزیری جانچنے کے لئے کسی نرم دل شاعر کو ضرور دِکھا لیں نرم دلی کوضرور مدنظر رکھیں ورنہ کسی بھی قسم کے نقصان کی ذمہ داری آپ پر ہوگی ۔ اسی بات پر کسی شاعر کا ایک شعر یاد آرہا ہے !!!!
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِناداں پر کلام ِ نرم ونازک بے اثر
زبان کے بجائے پینسل سے چند جملے کسی کی عمدہ سی تحریر پر تنقید و تحقیر کی صورت برسائیے ،مردِ ناداں تو کیا مردِ داناں پر بھی کمال کا اثر ہوگا ۔پس ثابت ہوا کہ پینسل کے کاربن سے شیشے کا جگر کاٹنا ممکن ہے ۔ یعنی دو دھاری تلوار کا کام بھی انجام دے سکتی ہے ۔
پینسل کا ایک بہترین استعمال:اس سے آڑی ترچھی لکیریں بنائیں اور تجریدی آرٹ کا نام دے کر سب پر رعب جمائیں ۔ اس کے لئے آپ کو کسی ریفریجریٹر کی ضرورت بھی نہیں۔ پینسل کی اہمیت کسی آرکیٹکٹ سے پوچھئے ۔یہ کام جب سے کمپیوٹر نے سنبھالا ہے پینسل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا ہے ۔اسی لئے وہ کچھ خوش رہنے لگی ہے ۔
بچوں اور پینسل میں ایک قدر مشترک ہے لکھنا آتا ہے پڑھنا نہیں ۔ ایک بار ہم نے ایک بہت ہی پڑھاکو قسم کے بچے سے علامہ اقبال کے شعرکی تشریح پوچھی
’’ نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
تو اس نے جو ،جواب دیا اسے سن کرتو ہمارے ۲۸ طبق روشن ہوگئے۔موصوف فرمانے لگے ویسے علامہ اقبال کو شاہین سے مخاطب ہونے کی اوّل تو ضرورت ہی کیا تھی اور پھر یہ کہنا کہ اگر پلاٹ مہنگے ہیں تو جا کر اورنگی ٹاؤن کی پہاڑی پر بسیرا کرو،اگر آج وہ ہوتے تو خود دیکھ لیتے کہ اب وہاں بھی رہائش ناممکن ہوگئی ہے ۔اس سے بہتر تو سلطان کا گنبد ہی ہے مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے ۔ہم نے اسے بڑی مشکل سے اصل بات کی طرف متوجہ کیا مطلب سمجھا کر پوچھا ۔۔۔۔ تمھاری ٹیچر نے تو بتایا ہی ہوگا اس کا مطلب ۔۔۔ ؟ تو اس نے کہا نہیں تو ٹیچر تو بلیک بورڈ پر لکھ دیتی ہیں اور کہتی ہیں یاد کر کے آنا کل ٹیسٹ لوں گی ۔ ہم وہ کاپی میں نقل کر لیتے ہیں اور اسی طرح امتحانوں میں نقل کر لیتے ہیں بس جو جتنا صاف اور زیادہ لکھتا ہے اس کے نمبر سب سے زیادہ آتے ہیں اور میں توسب سے آخر میں کاپی پر ڈیزائن بھی بنا دیتا ہوں اسی لئے فرسٹ آتا ہوں ۔ ہم نے تعلیم کی اس زبوں حالی پر خاموش ماتم کیا اور بچے کو پچکارکر باہر بھیج دیا ۔
تو جناب بات ہورہی تھی پینسل اوراس کے کردار کی ، پینسل اور قسمت کے لکھے میں کچھ بھی مشترک نہیں ۔پینسل کے لکھے کو مٹایا بھی جا سکتا ہے لیکن قسمت کے لکھے کو نہیں۔۔۔
یہ اپنے کالے کرتوتوں کے باوجود اچھا کردار رکھتی ہے ، صفحات کالے کرنا ہی اس کا اصل کام ہے لیکن کبھی منہ کالا نہیں کیا ۔اس سے کم قیمت ، قیمتی شئے ہمارے ہاں کوئی نہیں ۔
گل بانو
 
Top