صنفی امتیاز: پاکستان دُنیا کے چار بد ترین ممالک میں شامل

کیا پاکستان کی مانند اُردو محفل پر بھی صنفی امتیاز برتا جاتا ہے ؟


  • Total voters
    22

زرقا مفتی

محفلین
41138-Womentorturefilephoto-1351142982-788-640x480.jpg


جنیوا: ورلڈ اکنامک فورم نے صنفی امتیاز کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کے اکثر ملکوں میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں خواتین کی ملازمت کی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود دیگر شعبوں میں ملازمتوں اور تنخواہوں کے معاملے میں اب بھی عورتوں کے ساتھ صنفی امتیاز برتا جاتا ہے۔
یہ صورتحال ان ملکوں میں بھی پائی جاتی جہاں عام طور پر خواتین کی حصول تعلیم کیلیے بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ 135 ممالک کے اعداد وشمار کے ذریعے مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فن لینڈ، ناروے اور آئس لینڈ نے مردوں اور خواتین کے درمیان فرق دور کرنے میں نمایاں پیشرفت کی ہے جبکہ پاکستان، چاڈ، یمن اور چلی اس حوالے سے بدترین ملکوں میں شامل ہیں۔ فہرست میں جرمنی کا 13واں اور امریکا کا 16واں نمبر ہے۔ چین گزشتہ برس کی 66ویں پوزیشن کے مقابلے میں امسال 69 ویں نمبر پرچلا گیا ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
پاکستان میں خواتین پر جاب کرنے کی پابندی نہیں ہے آفس میں خراب رویوں کا سامنا رہتا ہے
گھر سے اکیلے نکلنے پر پابندی نہیں ہے لیکن راستے میں سو پریشانیاںجھیلنی پڑتی ہیں
 
پاکستان میں صنفی امتیاز منفی لحاظ سے بڑھتا جا رہا ہے کہ اب یہاں بات برابر کے حقوق کی نہیں رہی بلکہ خواتین کے حقوق پہ زیادہ بات ہو رہی ہے۔
اب عورت غلط بات بھی کرے تو مرد ہی بدنام ہونا ہے یہاں۔ عورت نہ ہو کر بھی بہت معصوم، نازک، اور مظلوم ہے اور مرد نیگیٹو
 

سید زبیر

محفلین
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
حقوق نسواں میں ہم اتنے آگے نکل گئے کہ میری بیٹی کوملازمت ملتی ہے بیٹے کونہیں ، بھائی کو نہیں ملتی بہن کو مل جاتی ہے ۔ شائد ایک دہائی پہلے معین اختر مرحوم کا ایک ڈرامہ 'روزی' دیکھا تھا ۔ اسی موضوع پر تھا
فطرت نے ہر انسان کو اس کی ذمہ داریوں کے مطابق ہی تخلیق کیا ہے ۔ بلا شبہ خواتین کو کاروبار ، ملازمت سے اسلام میں کوئی پابندی نہیں لیکن ضرورت کے تحت ، اب حالات ایسے ہیں کہ ضرورت مند باپ ، بھائی ، بیٹے کو ملازمت نہیں ملتی اور ان سیٹوں پر متمول ، غیر ضرورت مند خواتین براجمان ہیں نوجوان لڑکوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے بے انتہا معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں
صرف دعا ہی کرسکتے ہیں
 

زرقا مفتی

محفلین
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
حقوق نسواں میں ہم اتنے آگے نکل گئے کہ میری بیٹی کوملازمت ملتی ہے بیٹے کونہیں ، بھائی کو نہیں ملتی بہن کو مل جاتی ہے ۔ شائد ایک دہائی پہلے معین اختر مرحوم کا ایک ڈرامہ 'روزی' دیکھا تھا ۔ اسی موضوع پر تھا
فطرت نے ہر انسان کو اس کی ذمہ داریوں کے مطابق ہی تخلیق کیا ہے ۔ بلا شبہ خواتین کو کاروبار ، ملازمت سے اسلام میں کوئی پابندی نہیں لیکن ضرورت کے تحت ، اب حالات ایسے ہیں کہ ضرورت مند باپ ، بھائی ، بیٹے کو ملازمت نہیں ملتی اور ان سیٹوں پر متمول ، غیر ضرورت مند خواتین براجمان ہیں نوجوان لڑکوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے بے انتہا معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں
صرف دعا ہی کرسکتے ہیں
جناب پہلی گزارش یہ ہے کہ ہمارے مُلک میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوا۔ اگر اسلامی معاشی نظام ناٍفذ ہو جاتا ہے تو خواتین کے لئے مخصوص شعبہ جات مقرر کئے جا سکتے ہیں۔
حکومت عورتوں کو معاشی تحفظ تو فراہم نہیں کرتی۔ دیہات کی عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے۔ اُسے گھر بٹھا نے کا کسی نے کبھی نہیں سوچا۔
کوئی خاتون بیوہ ہو جائے تو دوسرا نکاح عیب سمجھا جاتا ہے بچے اور خاندان قبول نہیں کرتے ۔ حکومت وظیفہ نہیں دیتی۔ یہاں کوئی بیت المال نہیں جو بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کرے۔ اسکے علاوہ مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ ملازمت پیشہ مرد پورے کنبے کی کفالت نہیں کر سکتا۔ عورتیں کام نہ کریں تو کیا کریں
دوسری گزارش یہ ہے کہ تقریبا ہر امتحان میں لڑکیوں کے نتائج لڑکوں سے بہتر ہوتے ہیں ہو سکتا ہے آپکی صاحبزادی بھی بھائیوں سے زیادہ قابل ہو۔
 

سید زبیر

محفلین
جناب پہلی گزارش یہ ہے کہ ہمارے مُلک میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوا۔ اگر اسلامی معاشی نظام ناٍفذ ہو جاتا ہے تو خواتین کے لئے مخصوص شعبہ جات مقرر کئے جا سکتے ہیں۔
حکومت عورتوں کو معاشی تحفظ تو فراہم نہیں کرتی۔ دیہات کی عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے۔ اُسے گھر بٹھا نے کا کسی نے کبھی نہیں سوچا۔
کوئی خاتون بیوہ ہو جائے تو دوسرا نکاح عیب سمجھا جاتا ہے بچے اور خاندان قبول نہیں کرتے ۔ حکومت وظیفہ نہیں دیتی۔ یہاں کوئی بیت المال نہیں جو بیواؤں اور یتیموں کی کفالت کرے۔ اسکے علاوہ مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ ملازمت پیشہ مرد پورے کنبے کی کفالت نہیں کر سکتا۔ عورتیں کام نہ کریں تو کیا کریں
دوسری گزارش یہ ہے کہ تقریبا ہر امتحان میں لڑکیوں کے نتائج لڑکوں سے بہتر ہوتے ہیں ہو سکتا ہے آپکی صاحبزادی بھی بھائیوں سے زیادہ قابل ہو۔
زرقا مفتی ! میرا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ عورت ضرورت کے تحت باہر نہ نکلے اسے کاروبار ملازمت کا اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کو مگر جو حقیقت ہے وہ بھی میں نے لکھ دی ہے اب تو مغربی معاشرہ بھی عورت کو گھر کی طرف توجہ دینے کے لیے کہتا ہے
 

ساجد

محفلین
یک نہ دو پورے 49 پیغامات حذف کرنا پڑے جو محض غزل اور جواب آں غزل کے طور پر موضوع سے ہٹ کر تھے۔ اراکینِ محترم کیا یہ ضروری ہے کہ ہم ہر بات کو ایک مخصوص زاوئیے سے دیکھیں؟۔ کیا پاکستان ایک ملک اور پاکستانی ایک قوم کے ناطے کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو ہم دوسروں کی مثالیں دے کر ان کی اچھائیاں اور برائیاں گنوا کر آپس میں الجھ پڑتے ہیں؟۔ سوچئے ! کہیں ہم احساس کمتری اور انارکی کا شکار تو نہیں ہو گئے؟۔
 

ماما شالا

محفلین
بنیادی طور پہ ایک خبر بتائی گئی تھی، پھر صنفی امتیاز پہ بات ہونے لگی، کیا صرف ملازمت کے سلسلے میں ہی صنفی امتیاز برتا جاتا ہے؟
 

زرقا مفتی

محفلین
بنیادی طور پہ ایک خبر بتائی گئی تھی، پھر صنفی امتیاز پہ بات ہونے لگی، کیا صرف ملازمت کے سلسلے میں ہی صنفی امتیاز برتا جاتا ہے؟
درج ذیل ربط پر ملاحظہ کیجیے
http://www3.weforum.org/docs/WEF_GenderGap_Report_2012.pdf

وجوہات پیمانے اور کارکردگی کے لحاظ سے اعدادو شمار مل جائیں گے جن کی بنیاد پر یہ خبر چھاپی گئی تھی
 

سید زبیر

محفلین
اس ے کیا کہیں گے صنفی امتیاز ، صنفی استحصال یا غربت ۔ لااہور کے ا پمپ پر کام کرنے والی بیٹیوں میں گریجویٹ بھی شامل ہیں ۔
54401b42e11af.jpg
 
محفل میں پاکستان کے حوالے سے ایک خبر لگائی تھی ۔ مگر پاکستان میں صنفی امتیاز پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ آزادی اور صنفی امتیاز میں فرق ہوتا ہے مگر ۔۔۔
بات تو شاید سبھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارا مسئلہ یہاں ہے کہ بات جب نکلتی ہے تو پھر دور تلک جاتی ہے۔ اور موضوع سے ہٹ کر ہم کہیں اور نکل جاتے ہیں۔
پاکستان میں صنفی امتیاز ہمیشہ سے ہی ایک مسئلہ رہا ہے گزشتہ کچھ عرصے میں اس کی اہمیت اور خواتین کے اہم کردار اور شانہ بشانہ کنبہ، معاشرے اور مملکت میں کردار ادا کرنے کی شدید ضرورت محسوس کیے جانے کے بعد چند ایک اہم پیش رفت ہوئیں ہیں اس سلسلے میں ۔ 509 کی ترمیمی شق اور کام کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون سازی ایک اہم پیش رفت ہیں۔ لیکن 509 کی ترامیم کے بعد اگر اس قانون پر عمل کیا جاتا یا آگاہی دی جاتی تو صنفی امتیاز سے متعلق کئی مسائل کا خاتمہ یا ان میں کمی ممکن تھی۔ 509 کے تحت خواتین راستے میں آتے جاتے کہیں بھی کسی بھی قسم کے جنسی استحصال، اشارہ بازی، جملہ بازی، چھیڑ چھاڑ، گھورنا، تاڑم تاڑی ، ٹہوکے وغیرہ وغیرہ کی شکایت درج کروا سکتی ہے جس پر کئی سال تک کی سزا 3 لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح 2010 میں کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا قانون منظور ہوا جس کا وفاق اور پنجاب میں اطلاق بھی کر دیا گیا ہے اور اس کے تحت تمام اداروں کو پابند کیاجا رہا ہے کہ وہ کم از کم 3 افراد پر مشتمل انکوائری کمیٹی ضرور بنائیں اس طرح کے معاملات کے حل کے لیے، کام کرنے کی جگہوں پر کسی کو بھی جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی صورت میں متاثرعورت یا مرد اپنے ادارے کی انکوائیری کمیٹی میں شکایت درج کرائے جو 3 دن کے اندر تحقیقات شروع کرنے اور 30 دن کے اندر فیصلہ سنانے کے پابند ہوں گے اور اگر کسی فریق کو اس فیصلے پر اعتراض ہو تو وہ خاتون محتسب کے سامنے اپنا کیس لے کر جا سکتا ہے وہاں بھی فیصلہ 30 دنوں کے اندر کیے جانے کی شرط ہے اور اگر وہاں سے بھی کیا گیا فیصلہ قبول نہ ہو تو فریق گورنر پنجاب کے پاس اپنی درخواست جمع کروا سکتا ہے اور وہ بھی 30 دن کے اندر اس معاملے کو حل کریں گے۔
اس قانون کے تحت چھوٹی یا بڑی سزائیں دی جا سکتی ہیں چھوٹی سزائیں جن میں مخصوص مدت کے لیے ترقی یا تنخواہ میں اضافے کو منجمد کر دینا اور متاثرہ فرد کو ہرجانے کی رقم کی ادائیگی جو کر مرتکب فرد کی تنخواہ سے یا دیگر ذرائع سے کاٹے جائیں شامل ہیں۔
بڑی سزاؤں میں عہدے میں تنزلی، جبری ریٹائرمنٹ، ملازمت سے برخاستگی، یا متاثرہ فرد کو معاوضہ دیا جا سکتا ہے ۔

ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اور ہمارا میڈیا منفی باتیں تو اچھالتا ہے لیکن مثبت باتیں جن سے معاشرے میں اصلاح ممکن ہو انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
کچھ عرصے پہلے گورنمنٹ ہی کے ایک ایسے ڈیپارٹمنٹ میں جہاں اس کے ایک آفس میں صرف ایک خاتون کارکن تھیں کو ایک مرد کارکن کی جانب سے ایک واہیات قسم کی ای میل بھیجی گئی، خاتون نے خامشی کے بجائے اپنے محکمے کے سینئیر سے اس شخص کی شکایت کر دی جس پر ہوا یہ کے بجائے اس شخص کی مذمت کی جاتی اس عورت کے کردار پر انگلیاں اٹھائیں گئیں اور طرح طرح کے طنز اور نشتر اسے سہنے پڑے ، محکمے نے اس کی درخواست کو اسی کے خلاف ڈسپلن اور جانے کس کس چیز کی خلاف ورزی بنا کر رکھ دی، لیکن اس نے بھی ہمت نہیں ہاری اور جتنا اس کے خلاف ایکشن لیا گیا اتنا ہی اس نے زیادہ احتجاج کیا آخر وہ کسی طرح صحیح طریقہ کار سے آگاہ ہوئی اور جب اس نئے قانون کے طریقہ کار کےتحت متلقہ فورمز پر اس کا کیس دیکھا گیا تو یہ پچھلے مہینے یعنی ستمبر 2014 کی بات ہے کے محکمے کے سربراہ کو جبری رخصت سمیت 13 دوسرے افراد کو مختلف قسم کی چھوٹی بڑی سزائیں سنائی گئیں۔

قانون تو موجود ہیں لگام دینے کے لیے لیکن آگاہی مصلحتاََ نہیں دی جاتی۔ اور اس طرح کوئی قانون کو استعمال ہی نہیں کرتا اور معاملہ جوں کا توں پڑا رہ جاتا ہے۔ اس لیے کہ ہم یہ سب کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہمیں جنگ لڑے بغیر ہارنے اور روز ہارنے اور مرنے کی عادت تو ہے لیکن ہم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے لڑ کر مرنے کے لیے تیار نہیں۔ قربانی تو ابتداء میں ہر اچھائی کو درکار ہوتی ہے پر دے کون۔
 

طالوت

محفلین
یہ ساری دنیا کا مسئلہ ہے ، اور ظاہر ہے پاکستان کا بھی ۔ کچھ روایتی معاملہ ہے کچھ مذہبی اور کچھ سبب اپنی ساری عزت کے بوجھ کو اپنی عورتوں کے کندھوں پر رکھنے کا۔
پاکستان کو حکومتی سطح پر اسلامیانے کی جو مہم بھٹو اور ضیاء نے بالترتیب شروع کی تھی اس کے سبب مسائل اور بھی بڑھ گئے ہیں ۔ رپورٹ پڑھنے کا وقت نہیں لیکن چار یا دوبد ترین ممالک کی بات بکواس محض ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں چار اوپر والوں میں شامل ہو تو وہ اچھا ہے ۔ صنفی امتیاز مکمل طور پر نہیں ہونا چاہیے ، اور اس کا شکار عورتوں کے ساتھ ساتھ مرد بھی ہیں اگرچہ تعداد انتہائی کم ہے۔
پاکستان کے معاشرتی و معاشی حالات کے حوالے سےصنفی امتیاز کی تعریف طے ہو جائے تو اس موضوع پر شاید محفلین کھل کر بحث کریں۔
 
Top