فارسی گو ملک تاجکستان میں اقبالِ لاہوری کا مقام

حسان خان

لائبریرین
معروف پاکستانی شاعر اور متفکر اقبال لاہوری کا نام تاجکستان کی ادبی و ثقافتی محفلوں میں پچھلی صدی کے چھٹے عشرے سے زبانوں پر عام ہوا۔ اور یہ اُس وقت ہوا جب نامور تاجک شاعر میر سعید میر شکر نے روسی حروف میں ایک مقالہ اور بعدازاں اقبال کا ایک مجموعۂ اشعار نشر کر کے تاجک خوش ذوق قاریوں کو اس نامور شاعر کے حالاتِ زندگی اور نمونۂ تالیفات سے آشنا کرایا۔
اگرچه مرد بمیرد به گردشِ مه و سال
نمرده‌است و نمیرد محمدِ اقبال

میر شکر نے اس مجموعے پر جو مقدمہ لکھا ہے اُس میں وہ یاد دہانی کراتا ہے کہ پاکستان میں ایک نشست کے دوران پاکستانی شاعر فیض احمد فیض نے میر شکر کو خدا حافظ کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا تھا:
قدم بی‌باک‌تر نه در حریمِ جانِ مشتاقان
تو صاحب خانه‌ای آخر، چرا دزدانه می‌آیی؟

میر شکر نے اُس سے سوال پوچھا کہ یہ شعرِ شیریں کس کا ہے؟ فیض احمد فیض نے جواب دیا کہ شعرِ مذکور اقبال کا ہے۔ اور یہی واقعہ میر شکر کی جانب سے اشعارِ اقبال کی اشاعت کی کوشش کا محرک بنا۔
اس مجموعے کی نشر کے بعد کے سالوں میں مرحوم پروفیسر عبداللہ جان غفار نے، کہ جو محقق اور اقبال شناس تھے اور جن کا ڈاکٹری مقالہ اقبال سے مربوط تھا، اقبالِ لاہوری کی تالیفات اور فکر کی نشر و ترویج کے سلسلے میں موثر اور فراواں کوششیں انجام دیں۔ انہوں نے اس بیدار گر شاعر کے دو مکمل مجموعے 'پیامِ شرق' اور 'پیغامِ شرق' کے ناموں سے اور دس ہزار نسخوں کی تعداد میں تاجکستان میں منتشر کیے جو کم مدت ہی میں فروخت ہو گئے اور اقبال نے تاجکستان کے معاشرے میں ممتاز مقام کسب کر لیا۔
شوروی اتحاد کے اختتام کے دنوں میں جب تاجکستان میں بیداری اور خود آگاہی کی موج پیدا ہوئی، تو اس معاشرے میں اقبال کے اشعار کی حاجت بیشتر محسوس ہوئی اور لوگوں نے، بالخصوص خودشناس قوتوں نے دوبارہ اقبال کی طرف رجوع کیا اور سرانجام اقبال کے اشعار بیداری و خودشناسی کی بانگ میں تبدیل ہو گئے۔ خاص طور پر اُو کی مشہور نظم "از خوابِ گراں خیز' اور اُس کے مندرجہ ذیل مصرعے:
ای غنچه خوابیده چو نرگس نگران خیز
کاشانهٔ ما رفت به تاراج غمان خیز
از ناله مرغ چمن از بانگ اذان خیز
از گرمی هنگامه آتش نفسان خیز
از خواب گران، خواب گران، خواب گران خیز،
ازخواب گران خیز!

وردِ زبان ہو گئے اور تمام پیر و جواں اور مرد و زن اسے پڑھا کرتے تھے۔ اس ملک کے عوامی گلوکار مراد بیگ نصرالدین نے اسے موسیقی کا جامہ پہنایا اور تقریباً ہر روز دوشنبہ کے میدانِ شہیداں میں، کہ جو آزادی خواہ قوتوں کا محلِ اجتماع تھا، اسے ترانے کی طرح گایا جاتا تھا۔ اُن دنوں جس وقت مردمِ خودشناس اپنے مسلّم حقوق کے مطالبوں - یعنی فارسی رسم الخط کی طرف واپسی اور شوروی اتحاد سے تاجکستان کے استقلال - کے لیے مظاہرے اور راہ پیمائی کیا کرتے تھے تو اقبال کے بیدارگر و انقلابی مضامین رکھنے والے اشعار سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ انہوں نے اقبال کے اشعار کو نعروں میں تبدیل کر دیا تھا اور وہ انہیں بینروں اور بورڈوں پر لکھا کرتے تھے کہ جو اُن دنوں کی تصویروں میں محفوظ ہے۔ مثلاً یہ اشعار:
خدا آن ملّتی را سروری داد
که تقدیرش به دست خویش بنوشت
به آن ملّت سر و کاری ندارد
که دهقانش برای دیگران کشت

یا پھر:
مسلمان فاقه مست و ژنده پوش است
ز کارش جبرئیل اندر خروش است
بیا طرح دگر ملّت بریزیم
که این ملّت جهان را بار دوش است
اس طریقے سے اقبال نے دانشگاہوں، تعلیمی مراکز اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں راہ پیدا کی اور دانشگاہِ ملیِ تاجکستان میں اقبال شناسی کے شعبے کی تاسیس کی گئی جس کی محفلوں کی رہبری معروف تاجک دانشور جناب ڈاکٹر رستم وہاب نیا کیا کرتے تھے۔ مختلف نشریات میں بھی ایرانی اور پاکستانی اقبال شناسوں کی تحریریں شائع ہوتی تھیں اور اب اقبال کے اشعار تھے جو تاجک معاشرے کے ہر طبقے میں حرفِ اول کا درجہ رکھتے تھے اور تاجک دانش آموز اور طالب علم اس شاعرِ شوریدہ کے ہمراہ سانس لیتے تھے اور یہ شعر اُن کی زندگی کا مرشد بن چکا تھا:
ادب پیرایه نادان و داناست
خوش آنکو با ادب خود را بیاراست
ندارم آن مسلمان زاده را دوست
که از دانش فزود و از ادب کاست

بیداری کے اسی ہنگامے کے دوران صوبۂ سغد کے ضلعِ مسچاہ میں ایک مسجد کا نام اس شاعر و متفکر کے نام پر رکھا گیا۔ اس مسجد کے در و دیوار پر اقبال کے بلند اشعار و ابیات ثبت کیے گئے تھے اور وہاں اس کے اشعار کی تعلیمات کو مولویوں کے توسط سے تدریس کیا جاتا تھا۔
اس طرح اقبال کے کہے گئے ایران دوستی و ایران پسندی اور زبانِ فارسی کی ستائش پر مبنی اشعار نے بھی معاشرے میں خاص مقام حاصل کر لیا اور اس معاشرے میں کوئی ایسا شخص نہیں ڈھونڈا جا سکتا جسے یہ دل نشیں اشعار حفظ نہ ہوں:
هندی ام از پارسی بیگانه ام
ماه نو باشم تهی پیمانه ام
گرچه هندی در عزوبت شکّر است
طرز گفتار دری شیرین تر است
محرم رازیم با ما راز گوی
آنچه می دانی ز ایران باز گوی
از حجاز و چین و ایرانیم ما
شبنم یک صبح خندانیم ما

خاص طور پر علامہ اقبال کی مندرجہ ذیل دوبیتی، کہ جو تاجکستان میں تقریباً ہر اجتماع کا نعرہ بن گئی تھی، بہت زیادہ شہرت اور محبوبیت کی حامل تھی اور یہ اُن دنوں اس ملک میں استقلال و آزادی کے تشنہ لوگوں کو منظم اور متحد ہونے کے لیے مزید قوت بخشا کرتی تھی:
میارا بزم در ساحل که آنجا
نوای زندگانی نرم خیز است
به دریا غلط و با موجش درآمیز
حیات جاویدان اندر ستیز است

اقبال نے اپنے آتشی ترانوں سے یہ دکھایا کہ معاشرے میں شاعر کی ذمہ داری انسان کی راہ نمائی اور ہدایت ہے۔ شاعر کو، کہ جو ہر زمانے کا باشعور اور آگاہ فرد ہوتا ہے، وحدت اور تربیتِ بشر کی بات کرنی چاہیے اور اُسے چاہیے کہ وہ انسان کی فکری ارتقا کے لیے کوششیں کرے۔ اُس کے نغمے دل سے اٹھنے اور دل میں بیٹھنے چاہییں اور انہیں اقبال کے شعروں کی طرح تمام لوگوں اور ہر خاص و عام کے نغموں میں تبدیل ہو جانا چاہیے۔ خود اقبال سخن اور سخنور کی اس ازلی ذمہ داری سے بخوبی آگاہ تھا اور ہرچند ابتدا میں اُس نے مشرق کے لوگوں، خصوصاً مسلمانوں کی بیداری و ہوشیاری کے لیے اجتماعی و سیاسی مقالات لکھے لیکن بعد میں وہ سمجھ گیا کہ جو کام شعر اور کلامِ موزوں سے انجام دیا جا سکتا ہے اُس سے نثر اور دوسرے ہنر عاجز ہیں۔ اقبال نے اس ضمن میں خود کہا ہے:
ناله کجا و من کجا، سوز سخن بهانه‌ای است
سوی قطار می‌کشم ناقه بی‌زمام را

یہ دلچسپ بات ہے کہ تاجکستان میں ایسے شاعر کمتر ہی ہیں جو اقبال کے اشعار اور اُس کی فکرِ متعال سے متاثر نہ ہوئے ہوں۔بطورِ نمونہ:

استاد لائق شیر علی:
روز و شب بیدار شمس خاوران
ما زخواب آلودگان خاوریم
حضرت اقبال بر ما بد مگیر
ما اگر در خواب سکته اندریم
خیز از خواب گران گفتی ولی
در سمرقند آنچنان بی منبریم
در بخارایی که درگاه دری است
با دری گفتاری بیرون از دریم


اعظم خجستہ:
می‌شود سینهٔ تنگم یم آهی گاهی
می‌برم در یم این آه پناهی گاهی
راه مقصود عجب پیچ وخمی دارد و لیک
راشدی هست که بینی سر راهی گاهی

(یہ اشعار اقبال کی اس غزل کی پیروی میں ہیں):
می‌شود پرده چشمم پر کاهی گاهی
دیده‌ام هر دو جهان را به نگاهی گاهی


جورہ یوسفی:
«در لب مریخیان لفظ دری»
مرد هندی گفته با صد باوری
تا دری باشد زبان مادری
ملت من ز آسمان‌ها برتری

(یہ اقبال کے ان اشعار کی تضمین ہیں):
این همه خواب است یا افسونگری
در لب مریخیان لفظ دری


بہر صورت، اقبال کو بیسویں صدی میں وسطی ایشیا کے فارسی گو معاشرے میں موثر ترین شاعر کے طور پر گنا اور جانا جا سکتا ہے۔ اس خطے کے فارسی گو لوگ اقبال کے اس مصرعے 'از ہند و سمرقند و عراق و ہمداں خیز' کو جب سنتے ہیں تو خود کو شاعر کا مخاطب سمجھتے ہیں۔ انہوں نے نوے کے عشرے میں اُس کی اس بیداری کی دعوت کو لبیک کہا اور ناامنی اور تفرقے کے مقابل استقامت دکھائی۔
نوے کے عشرے میں ہونے والے مظاہروں کے اوج کے دوران جب اُس وقت کے تاجکستانی صدر رحمان نبی پاکستان آئے تو انہوں نے لاہور میں اقبال کی آرامگاہ کی زیارت کے دوران اقبال کو مخاطب کر کے طنزاً کہا تھا کہ خود تو یہاں سوئے ہوئے ہو لیکن تمہارا 'از خوبِ گراں خیز' ہمیں دوشنبہ میں آرام سے سونے نہیں دیتا۔
کئی تاجک خانوادوں نے اس شاعر سے عشق و علاقہ رکھنے کے سبب اپنے فرزندوں کا نام اقبال یا محمد اقبال رکھا ہے اور کئی مسجدیں، سڑکیں اور علمی مؤسسات اُس کے نام کی حامل ہیں۔

(ماخذ: تاجیکی نیوز)

محمد وارث تلمیذ سید عاطف علی محمود احمد غزنوی زبیر مرزا الف نظامی
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
واقعی درست بات ہے، اور یہ خوابِ گراں نظم والا واقعہ ایک چشم دید پاکستانی زائر کی زبانی کسی پاکستانی روزنامے شاید "جنگ" میں بھی اُس وقت شائع ہوا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
"۱۹۹۱ اور ۱۹۹۲ میں تاجک حزبِ اختلاف پر بیشترین فکری اثر ہندی مسلم شاعر اقبال (۱۸۷۷-۱۹۳۸) کا تھا، جن کی فارسی شاعری شوروی دور میں دستیاب تھی۔ اب اُن کی نظم "کیا کیا جائے، اے اقوامِ شرق" (پس چہ باید کرد، ای اقوام شرق)، جو اُنہوں نے ۱۹۳۳ میں افغانستان کے بادشاہ کی تجدید سازی کی کوششوں کی تعظیم میں لکھی تھی، دینی و غیر دینی حزبِ اختلاف کا یکساں طور پر ترانہ بن گئی۔"
[ادیب خالد کی کتاب 'اسلام پس از اشتراکیت: وسطی ایشیا میں دین اور سیاست' سے اقتباس اور ترجمہ]
 
Top