خمار بارہ بنکوی ۔ انتخاب کلام

فاتح

لائبریرین
آج بتاریخ 20 فروری 2009 خمار بارہ بنکوی کی دسویں برسی منانے کے حوالے سے محفل پر خمار بارہ بنکوی کے کلام کا انتخاب جمع کرنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔
اس دھاگے میں ان کی غزلیات اکٹھی کی جائیں گی اور جہاں ممکن ہوا ان کی آواز یا ان کی ویڈیوز بھی شامل کی جائیں گی۔
 

فاتح

لائبریرین
اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھیے


اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھیے
دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھیے

بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدّتوں میں ہم
قسطوں میں خود کشی کا مزا ہم سے پوچھیے

آغازِعاشقی کا مزا آپ جانیے
انجامِ عاشقی کا مزا ہم سے پوچھیے

وہ جان ہی گئے کہ ہمیں ان سے پیار ہے
آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھیے

جلتے دلوں میں جلتے گھروں جیسی ضَو کہاں
سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھیے

ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپ کی طرح
ہنسیے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھیے

ہم توبہ کر کے مر گئے قبلِ اجل خمار
توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھیے​
 

فاتح

لائبریرین
نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے


نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے

سکوں ہی سکوں ہے، خوشی ہی خوشی ہے
ترا غم سلامت، مجھے کیا کمی ہے

وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے
محبت بھی تنہائی یہ دائمی ہے

کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے
جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زمانہ، نئی روشنی ہے

جفاؤں پہ گھُٹ گھُٹ کے چُپ رہنے والو
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے

مرے راہبر! مجھ کو گمراہ کر دے
سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے

خمارِ بلا نوش! تُو اور توبہ!
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے
 

مغزل

محفلین
بہت خوب فاتح بھائی ، میں نے بھی ابھی ایک غزل اور دو ایک مطلع پیش کیے ہیں پسندیدہ کلام میں ویڈیو کے ساتھ ۔ ملاحظہ کیجیے ۔ گھر جاؤں گا کچھ تصاویر پیش کروں گا۔
جب جناب کراچی تشریف لائے تھے اس وقت کی ۔
 

فاتح

لائبریرین
یہ مصرع نہیں ہے وظیفہ مرا ہے

یہ مصرع نہیں ہے وظیفہ مرا ہے
خدا ہے محبت، محبت خدا ہے

کہوں کس طرح میں کہ وہ بے وفا ہے
مجھے اس کی مجبوریوں کا پتا ہے

ہوا کو بہت سر کشی کا نشا ہے
مگر یہ بھولے دیا بھی دیا ہے

میں اس سے جدا ہوں وہ مجھ سے جدا ہے
محبت کے ماروں پہ فضلِ خدا ہے

نظر میں ہے جلتے مکانوں کا منظر
چمکتے ہیں جگنو تو دل کانپتا ہے

اُنہیں بھولنا یا انہیں یاد کرنا
وہ بچھڑے ہیں جب سے یہی مشغلہ ہے

"آہنگ خمار" میں درج بالا شعر یوں درج ہے:
کبھی لمحے گننا، کبھی سانسیں گننا
وہ بچھڑے ہیں جب سے یہی مشغلہ ہے


گزرتا ہے ہر شخص چہرہ چھپائے
کوئی راہ میں آئینہ رکھ گیا ہے

بڑی جان لیوا ہیں ماضی کی یادیں
بھُلانے کو جی بھی نہیں چاہتا ہے

کہاں تُو خمار اور کہاں کفرِ توبہ!
تجھے پارساؤں نے بہکا دیا ہے
 

فاتح

لائبریرین
حسن جب مہرباں ہو تو کیا کیجیے



حسن جب مہرباں ہو تو کیا کیجیے
عشق کی مغفرت کی دعا کیجیے

اس سلیقے سے ان سے گلہ کیجیے
جب گلہ کیجیے ہنس دیا کیجیے

دوسروں پر اگر تبصرہ کیجیے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجیے

آپ سُکھ سے ہیں ترکِ تعلق کے بعد
اتنی جلدی نہ یہ فیصلہ کیجیے

زندگی کٹ‌رہی ہے بڑے چین سے
اور غم ہوں تو وہ بھی عطا کیجیے

کوئی دھوکا نہ کھا جائے میری طرح
ایسے کھُل کے نہ سب سے ملا کیجیے

عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمار
عقل کی سُنیے، دل کا کہا کیجیے
اس غزل کے چند اشعار نصرت فتح علی خان نے بطور قوالی بھی گائے ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں


وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں
محبت کے ہوش اب ٹھکانے لگے ہیں

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں
جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں
تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں

ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی
وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں

یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں

قیامت یقیناً قریب آ گئی ہے
خمار اب تو مسجد میں جانے لگے ہیں


یہی غزل سلمان علوی کی آواز میں

یہی غزل حسین بخش گلو کی آواز میں
 

فاتح

لائبریرین
ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے


ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے
دو گنہگار زہر کھا بیٹھے

حالِ غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے
تیر مارے تھے، تیر کھا بیٹھے

آندھیو! جاؤ اب کرو آرام
ہم کود اپنا دیا بجھا بیٹھے

جی تو ہلکا ہوا مگر یارو
رو کے ہم لطفِ غم گنوا بیٹھے

بے سہاروں کا حوصلہ ہی کیا
گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے

جب سے بچھڑے وہ مسکرائے نہ ہم
سب نے چھیڑا تو لب ہلا بیٹھے

ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے

اٹھ کے اک بے وفا نے دے دی جان
رہ گئے سارے با وفا بیٹھے

حشر کا دن ابھی ہے دُور خمار
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے​
 

فاتح

لائبریرین
کبھی شعر و نغمہ بن کے، کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے


کبھی شعر و نغمہ بن کے، کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے
وہ مجھے ملے تو لیکن، ملے صورتیں بدل کر

یہ وفا کی سخت راہیں، یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے، مرے ساتھ ساتھ چل کے

وہی آنکھ بے بہا ہے جو غمِ جہاں میں روئے
وہی جام جامِ ہے جو بغیرِ فرق چھلکے

یہ چراغِ انجمن تو ہیں بس ایک شب کے مہماں
تُو جلا وہ شمع اے دل! جو بجھے کبھی نہ جل کے

نہ تو ہوش سے تعارف، نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہم تری بزم سے نکل کے

کوئی اے خمار ان کو مرے شعر نذر کر دے
جو مخالفینِ مخلص نہیں معترف غزل کے​
 

فاتح

لائبریرین
ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں


ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں
چلوں دو قدم اور ٹھہر جاؤں میں

اگر تُو خفا ہو تو پروا نہیں
ترا غم خفا ہو تو مر جاؤں میں

تبسّم نے اتنا ڈسا ہے مجھے
کلی مسکرائے تو ڈر جاؤں میں

سنبھالے تو ہوں خود کو تجھ بن مگر
جو چھُو لے کوئی تو بکھر جاؤں میں

مبارک خمار آپ کو ترکِ مے
پڑے مجھ پر ایسی تو مر جاؤں میں​
 

فاتح

لائبریرین
جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں


جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں

دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں

اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں

گُزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دُور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں

اے جوشِ گریہ دیکھ! نہ کرنا خجل مجھے
آنکھیں مری ضرور ہیں، آنسو پرائے ہیں

اے موت! اے بہشت سکوں! آ خوش آمدید
ہم زندگی میں پہلے پہل مسکرائے ہیں

جتنی بھی مے کدے میں ہے ساقی پلا دے آج
ہم تشنہ کام زُہد کے صحرا سے آئے ہیں

انسان جیتے جی کریں توبہ خطاؤں سے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں

سمجھاتے قبلِ عشق تو ممکن تھا بنتی بات
ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں

کعبے میں خیریت تو ہے سب حضرتِ خمار
یہ دیر ہے جناب یہاں کیسے آئے ہیں​
 

فاتح

لائبریرین
ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی


ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شدّت نہیں رہی

ضعفِ قویٰ نے آمدِ پیری کی دی نوید
وہ دل نہیں رہا، وہ طبیعت نہیں رہی

سر میں وہ انتظار کا سودا نہیں رہا
دل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی

کمزوریِ نگاہ نے سنجیدہ کر دیا
جلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی

ہاتھوں سے انتقام لیا ارتعاش نے
دامانِ یار سے کوئی نسبت نہیں رہی

پیہم طوافِ کوچۂ جاناں کے دن گئے
پیروں میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رہی

چہرے کو جھُرّیوں نے بھیانک بنا دیا
آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی

اللہ جانے موت کہاں مر گئی خمار
اب مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی​
 
Top