شفیق خلش شفیق خلش ::::: چاردہ سالی میں رُخ زیرِ نقاب اچھّا نہ تھا :::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
دو غزلہ

چاردہ سالی میں رُخ زیرِ نقاب اچھّا نہ تھا
اک نظر میری نظر کو اِنقلاب اچھا نہ تھا

اِس تغیّر سے دلِ خانہ خراب اچھا نہ تھا
تیرا غیروں کی طرح مجھ سے حجاب اچھا نہ تھا

اِس سے گو مائل تھا دل تجھ پر خراب اچھا نہ تھا
کب نشہ آنکھوں کا تیری اے شراب اچھا نہ تھا

بیقراری اور بھی بڑھ کر ہُوئی مجھ پر سَوا
اِک نظر، آنا نظر میری گلاب اچھا نہ تھا

ذہن و دل پر اِختیار اب میرا کچھ باقی نہیں
تجھ سے پیار اِس قدرمیرا بے حساب اچھا نہ تھا

کل کا کہہ کر آج ہی واپس ہُوئے ہیں یُوں خلش
دل پہ تیرے ہجر میں پڑتا عذاب اچھا نہ تھا

آرزُوتیری نہیں کرتا، تو کیا کرتا خلش
پورے عالم میں کوئی تجھ سا شباب اچھا نہ تھا

جی کا میرے وسوسوں سے پیچ و تاب اچھا نہ تھا
غیر کی باتوں پہ دل ہونا کباب اچھا نہ تھا

گفتگو میں ظاہر اُس کا اِضطراب اچھا نہ تھا
اس نتیجے جو مِلا اجر و صواب اچھا نہ تھا

تھی شکایت سب ہی کو کہتے نہیں ہم دل کی بات
جو کہا سُن کر مِلا اُن سے جواب اچھا نہ تھا

آرزُو اُس کی نہیں کرتا، تو کیا کرتا خلش
پورے عالم میں کوئی اُس سا جناب اچھا نہ تھا

گو سہارے ہی گُزاری لیکن احساس اب ہُوا
زندگی بھر دیکھتے رہنا بھی خواب اچھّا نہ تھا

ہرعمل اور ہر سِتم اُس کا رَوا ہو، پھر بھی یُوں !
اِک بھری محفل میں مجھ سے اِجتناب اچھا نہ تھا

بھاڑ میں جائے خلش اُس سے نہیں کچھ واسطہ!
اُس کا لوگوں کو یہی دینا جواب اچھا نہ تھا

شفیق خلش
 
آخری تدوین:
Top