اقتباسات شمس العلماء مولانا محمد حسین آزادؔ کی حکایات

نیکی کابدلہ ایک شخص نے جنگل میں ایک شیر کو دیکھا ۔ کہ پنجرے میں بند پڑا ہے۔ شیر نے بہت عاجزی اور غریبی سے اپنی خلاصی چاہی ۔ اس شخص (کو )رحم آیا ۔ اس نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا،شیر کئی دن سے بھوکا تھا ،نکلتے ہی حملہ کرنے اس شخص پر آیا۔ آنکھوں میں دنیا اندھیر ہوگئی،مگر اتنے میں سنبھل کر کہا ،جو اشراف ہیں تنکا اتارے کا احسان مانتے ہیں ،میں نے تمہاری جان بچائی ،تم نیکی کے بدلے میں مجھ سے بدی کرتے ہو۔یہ کیا انصاف ہے؟ شیرنے کہا کہ آدم زاد کے آئین میں نیکی کا بدلہ بدی ہے۔ یہ شخص حیران ہوا اور کہا اگر تمہاری اس بات پر کوئی گواہ ہو تومیں نے اپنا خون تمہیں بخشا۔شیراُسے ایک درخت کے نیچے لایااور درخت سے پوچھا ،کہ آدمی زاد نیکی کے بدلے میں نیکی کرتے ہیں یا بدی ؟ درخت نے کہا کہ بھائی ! اپنی بات تو میں کہوںکہ تمام عمر ان کے لئے ایک ٹانگ سے کھڑا رہتا ہوں،مسافر آتے جاتے میرے سائے میں آرام پاتے ہیں،پھل میرے کھاتے ہیں۔اس پر اُن کا یہ حال ہے کہ پتے نوچتے ہیں۔ لکڑیاں توڑتے ہیں۔خواہ پھل ہو،خواہ نہ ہو ،ایک دو پتھر مار جاتے ہیں۔ شیر نے اس شخص کی طرف دیکھا،اُس نے کہا کہ ایک گواہ اور چاہیے۔ شیر اُسے ایک میدان میں لایا ۔دیکھا کہ ایک بوڑھی بھینس چرتی ہے۔ اس سے شیرنے پوچھا کہ آدمی زاد کے آئین میں نیکی کا بدلہ نیکی ہے یا بدی؟ بھینس نے کہا کہ بھائی ! جب میں جوان تھی۔ ایک شخص کے پاس تھی ،دودھ دیتی۔ سب لوگ پیتے تھے ،دہی جما جما کر کھاتے تھے ،گھی اور مسکہ کھا کھا کر موٹے ہوتے تھے ۔جب بڑھیا ہو گئی تو ایک دن میں نے سنا !صاحب ِخانہ نے کہا کہ اسے قصائی کے ہاتھ بیچ ڈالوں گا۔اب یہ دودھ کم دیتی ہے! بارے خدا نے اسکی بی بی کے دل میں رحم ڈالا، اس نے خاوند کو سمجھایا کہ ہم نے اتنی مدت تک اس کی بدولت آرام پایا اور زندگی کا آرام اُٹھایا،مرتی دفعہ اسے ذبح کرنا مروّت سے بعید ہے،ہم آخر بال بچّے رکھتے ہیں،اگر تمہیں اب ایسی ہی اس کی خوراک کڑوی معلوم ہوتی ہے تو ا سے جنگل میں چھوڑ دو،جب سے اِس جنگل میں پڑی ہوں ،دن دھوپ رات سردی کھاتی ہوں ۔خیر یہ بھی خدا کا شکر ہے،مگر شیر بھیڑیے سے زیادہ قصائی کا کھٹکا لگا ہے۔ شیر نے پھر اُس شخص کی طرف دیکھا،اُس نے کہا کہ اگر تیسری گواہی بھی اسی کے مطابق گزری ،تو پھر تجھے اختیار ہے۔ شیر ایک لومڑی کے پاس آیا ،اور کہا کہ اس شخص نے میرے ساتھ بھلائی کی ہے،مگر میں بھوکا ہوں ،چاہتا ہوں کہ اس کا ناشتہ کروں،تو بتلا کیا کرنا چاہیے؟ لومڑی نے کہا ،گول مول بات میری سمجھ میں نہیں آتی ۔شیر نے پھر مفصّل بیان کیا، لومڑی نے کہا ؛ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنے بڑے ڈیل ڈول سے تم پنجرے میں کیونکر سما گئے،اور اس آدمی نے کیونکر چھڑا دیا؟وہاں چل کر مجھے بتلائو تو پھر جو کچھ سمجھ میں آئے ، وہ کہوں؛شیر اُسی وقت اُسے ساتھ لے کر گیا اور سکڑ کر پنجرے کے اندر گھس گیا،اس شخص کو لومڑی نے کہا ،اب دیکھتا کیا ہے؟ بے وقوف ! دروازہ بند کر اور اپنا رستہ لے اور یاد رکھ: نیکی کرنی بدوں سے ایسی ہے جیسے کرنی برائی نیکوں سے اعمال ِبد کی تصویر ایک بادشاہ نہایت ظالم تھا ۔اُس کے ظلم و ستم سے رعیت کا دم ناک میں تھا۔ایک شخص انہیں دل جلوں میں سے رات قلعے کے دروازے پر گزرا اور دیوار پر لکھ دیا: ’’ظالم کا گھر تباہ ‘‘۔ صبح کو حاکم تک اس کی خبر پہنچی ،حاکم نے اس کے نیچے لکھ دیا: ’’ ہزاروں گھرتباہ کر کے ۔۔۔‘‘ بعد ازاں شہر میں ڈھنڈوراپٹوایا کہ جس شخص نے یہ سطر لکھی تھی ،آئے اور اپنے لکھے کا جواب دیکھے ،مارے ڈر کے کوئی شخص گھر سے باہر نہ نکلا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ میں نے قصور اُ س کا معاف کیا،وہ شخص بے خطر آ جائے اور جواب اس کا مفصّل سنے ! آخر جس شخص نے لکھا تھا ،حاضر ہوا،اور عرض کی کہ گنہگار حاضر ہے،جو سزا اچاہیے، تجویز فرمایئے ! بادشاہ نے کہا کہ میں ظالم نہیں ہوں بلکہ تمہارے اعمالِ بد کی تصویر ہوں، خدا نے مجھے تم سے گناہوں کا بدلہ لینے کو بھیجا ہے۔
 
Top