یہ تو شدھی بھی کر لیں گے (عبداللہ طارق سہیل)

یوسف-2

محفلین
کراچی کے معاصر نے رپورٹ دی ہے کہ بلوچستان کی سرحد پر ایرانی جارحیت‘ عالمی کھیل کا حصہ ہے اور اس کا مقصد پاک چین گوادر منصوبہ ختم کرانا ہے۔ اخبار نے اعلیٰ سطح کے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ حکومت اور دوسرے ادارے جانتے ہیں کہ ایران کی بندر گاہ چاہ بہار پر تمام تر سرمایہ کاری بھارت کر رہا ہے اور اسی حوالے سے عالمی اتحاد بلوچستان میں دہشت گر دی کر رہا ہے۔
چاہ بہار پر بھارت سرمایہ کاری کرے یا امریکہ ۔ پاکستان کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ایران شوق سے ایک تو کیا‘ چاہ بہار جیسی سو بندر گاہیں بنائے لیکن وہ پاکستان کو گوادر بندرگاہ بنانے سے کیوں روکتا ہے۔ لوگ حیران ہیں‘ ایران پہلے تو ایسا نہیں تھا‘ اس حیرت کا جواب یہ ہے کہ فارسی بچے کو اسرائیل بھارت اور اسرائیل کی صحبت نے خراب کر دیا اور اس صحبت سہ گانہ سے ایران کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا۔ وہ پہلے ہی عراق‘ شام‘ لبنان بحرین اور یمن میں ملّوث ہو کر خود کوOver Stretch کر رہا ہے۔ شاید ایرانی مولویانِ کرام تاریخ پڑھنا پسند نہیں کرتے۔ اوور سٹریچ ہونے والی ہر ریاست تباہ ہو جاتی ہے۔ رہی گوادر پورٹ تو خدا نے چاہا‘ وہ بن کر رہے گی۔ حالیہ دھرنے اسی کو روکنے کے لئے دیئے گئے تھے‘ان کی شرمناک بربادی اشارہ سمجھ لیجئے یا شگون کہ گوادر پورٹ نے آخر بننا ہے۔ پاکستانی تو چاہتے ہیں چاہ بہار بھی بنے۔ ان کے ایرانی بھائی بھی یہی چاہتے ہوں گے کہ گوادر پورٹ بھی بنے۔ لیکن مسئلہ ایران کے مولوی ہیں جو اپنے عوام کو بھوکوں مار کر یمن سے لے کر لبنان تک امریکی منصوبے کی تکمیل کے لئے اربوں کا گولہ بارود پھونک رہے ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان کا رویّہ بہتر ہے ‘ وہ بھی اپنے عوام کو بھوکا مار کر سارا بجٹ امریکی جنگ پر پھونک رہا ہے‘لیکن ملک کے اندر ہی پھونک رہا ہے‘ باہر نہیں۔
________________________
ملتان سے جاوید ہاشمی کو ہرانے والے عامر ڈوگر نے ان کے گھر جا کر اس جمہوری روایت کا مظاہرہ کیا جو باقی دنیا میں قدیمی‘ ہمارے ملک میں اجنبی ہے۔ اس سے پہلے جاوید ہاشمی جیتنے والے کو مبارکباد دے کر اسی روایت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ عامر ڈوگر نے کہا کہ جمہوریت کے لئے ہاشمی کی بڑی خدمات ہیں۔
کیا کہتے ہیں عمران خان اور شاہ محمود قریشی۔ یہ نئی روایت انہیں قبول ہے؟ تحریک انصاف نے تو سیاست میں کچھ اور ہی جمہوری کلچر دکھایا ہے۔ مخالفوں کے لئے گالیاں اور عدم برداشت۔ یہ نئی جمہوریت عمران خان لارہے ہیں۔ اگرچہ اتنی بھی نئی نہیں ہے۔1970ء کی دہائی میں بھٹو نے بھی ایسی ہی سیاست کی تھی۔ مخالفین کے لئے گالیاں اور تمسخر اور حکومت میں آنے کے بعد سیاسی مخالفوں کو قتل کرا دینا‘ ان کی زندگی حرام کر دینا ۔ بہرحال یہ ملتان کا الیکشن بھی عجیب تھا۔ تحریک انصاف نے اپنی خالی کردہ سیٹ پراکسی امیدوار کے ذریعے جیت لی۔ مقبوضہ الیکٹرانک میڈیا اور مولوی و عمران کے ’’زیرِ زر‘‘ کالم نویسوں میں بہت دور کی سوجھنے اور کچھ زیادہ ہی دور کی کوڑی لانے کی دوڑ لگ گئی۔ کچھ نے لکھا کہ مسلم لیگ کی مقبولیت ختم ہوگئی‘ اب مڈٹرم الیکشن ہو کر رہیں گے ۔ عقل ماتھا پیٹ کر رہ گئی کہ کوئی اپنی ہی سیٹ جیت لے تو مڈٹرم الیکشن کہاں سے نکل آئے گا۔ کل کسی ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ اپنی چھوڑی ہوئی سیٹ جیت لے تو ان زیر زر کالم نویسوں کے فارمولے کے مطابق کیا یہ نتیجہ نکلے گا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت ختم ہوگئی؟اور اس سے بڑھ کر دور کی انوکھی کوڑی یہ ہے کہ ملتان کا ضمنی الیکشن سٹیٹیس کو ٹوٹنے کی نشانی ہے۔
--------------------------------------
زیر زر تجزیہ نگاروں کوزرباری کا بوجھ یہ سچ بولنے نہیں دے رہا کہ تحریک انصاف تبدیلی نہیں‘ سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پاکستان میں شروع دن سے اشرافیہ کو عادت ہے کہ حکومت اسی کی چلے گی۔ جمہوریت میں یہ خرابی ہے کہ اس میں اصحابِ زر کے ساتھ کچھ مڈل کلاس والے بھی آجاتے ہیں اور تبدیلی اسی طرح آتی ہے۔ کیا نہیں آتی؟ امریکہ سے برطانیہ تک‘ فرانس سے جاپان تک‘ بھارت سے بنگلہ دیش تک تبدیلی اسی طرح سے ہی تو آئی ہے‘ بھارت کا مودی ایک چائے والا کا بیٹا ہے اور چائے والے کا بیٹا جمہوریت ہی میں وزیراعظم بن سکتاہے۔ اشرافیہ کی خواہش کے برعکس‘ ملکی تاریخ میں پہلی بار زرداری کی زیر قیادت سول حکومت نے مدّت پوری کر لی‘ اب یہ دوسری حکومت بھی مدّت پوری کر گئی تو تبدیلی کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ اشرافیہ حرکت میں آئی اور تحریک انصاف اور مولوی قادری کو میدان میں اتارا کہ جاؤ‘ تبدیلی کا نعرہ لگا کر تبدیلی کا راستہ روکو۔ عمران اور مولوی دونوں سٹیٹس کو کی گائے کے بچھڑے ہیں۔ کیا نہیں ہیں؟ زیرِ زر کالم نویس سچ بول دیں گے‘ ایسا ممکن ہی نہیں۔ ورنہ اتنی تشریح تو کرتے کہ شجاعت‘ پرویز الٰہی‘ شیخ رشید‘ جہانگیر ترین‘ شاہ محمود‘ مشرف‘ اعظم سواتی اور ایسے ہی درجنوں چلتے پھرتے ’’سٹیٹس کو‘‘ تبدیلی کے لئے کیوں سرگرم ہوگئے ہیں۔
’’سٹیٹس کو‘‘ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور ملک کی قیمت پر لڑ رہا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ پاکستان ختم ہو جائے گا تو بھارتی اکھنڈ پنجاب کا حصّہ بن کر وہ زیادہ محفوظ ہو جائے گا۔ سٹیٹس کو نہیں جانتا کہ بھارتی ذہن مسلمان کو کبھی جگہ نہیں دے سکتا چاہے وہ کتنا ہی جلیل القدر غدّار کیوں نہ ہو!ان جلیل القدر محترمان کو تبدیلی مذہب یعنی شدھی بھی کرنا ہوگی اور وہ کر بھی لیں گے۔
_____________________________
آخر مولوی نے دھرنا اٹھا لیا۔ عمران کو یاد ہوگا‘ کیا عہد لیا تھا‘ جو پہلے اٹھے اسے شہید کر دو۔ خیر‘ اس عہد پر اب مٹّی پاؤ۔ اور مولوی کے اتحادی مٹّی پاؤ بھائیوں کا کیا ہوگا؟ چلو‘ چھڈّو‘ اس پر بھی مٹّی پاؤ۔ سنا ہے36کروڑ میں ڈیل ہوئی تب دھرنا اٹھا۔ چلو‘ اس پر بھی مٹی پاؤ۔
_____________________________
کراچی میں پیپلزپارٹی کا جلسہ ایسا تھا کہ پارٹی کو فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی۔ یہ اب تک کراچی میں ہونے والے سب سے بڑے جلسے سے یعنی جو عمران نے کیا تھا‘ بڑا تھا۔ لیکن عمران کے جلسے میں زیادہ تر لوگ کراچی کے تھے۔ عام کراچی نہیں‘ خاص کراچی کے۔ خاص کراچی میں ڈیفنس‘ کلفٹن اور اسی طرح کے دوسرے اشراف علاقے شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی کے جلسے میں دو تہائی سے زیادہ لوگ باہر کے تھے۔ مقامی نمائندگی زیادہ ہو سکتی تھی اگر لیاری سے پہلے کی طرح لوگ آجاتے جو نہیں آئے۔ پارٹی کے ذرائع مانتے ہیں کہ لیاری سے ماضی کے برعکس صرف دس فیصد لوگ آئے ‘ باقی ناراض تھے یا ڈرے ہوئے‘ کیا کہا جا سکتا ہے۔
فائدہ اس جلسے کا یہ ہوا کہ سندھ کی حد تک پیپلزپارٹی میں نئی جان پڑ گئی اور نقصان یہ ہوا کہ پارٹی عوام کو کچھ نیا دینے میں ناکام رہی۔ بلاول کی تقریر بھٹو کی تقریر کی کاپی تھی۔ چالیس سال پرانے زمانے کے نعرے اس دور میں اب کہاں چلیں گے ۔ان میں کشمیر کا نعرہ بھی شامل تھا۔ ممکن ہے‘ بلاول کشمیر لینے میں مخلص ہوں لیکن جب پاکستانی ریاست ہی نے کشمیر کاز کو بم کی دم میں باندھ کر اڑا دیا تو بلاول کا نعرہ کیا کر لے گا؟ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ متحدہ ناراض ہوگئی۔ ناراض تو وہ پہلے ہی ہے‘ کچھ آپریشن کی وجہ سے‘ کچھ قربانی کی کھالوں کی آمدنی میں ہونے والی پچاس فیصد کمی سے‘ اس جلسے نے ناراضگی اور بڑھا دی اور وہ حکومت سے الگ ہوگئی۔
کب تک الگ رہ سکتی ہے؟تب تک جب تک مچھلی پانی سے باہر رہ سکتی ہے۔
_____________________________
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پنجاب میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اب سارے صوبے برابر ہیں۔ ’’الف۔ اعلان‘‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ2189 کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں اور ان میں پچاس فیصد سے زیادہ پنجاب میں ہیں۔ گویا پنجاب اب دوسرے صوبوں کے برابر ہی نہیں آگیا‘ ان پر بازی بھی لے گیا ہے۔
ایسی صورتحال پہلے نہیں تھی۔ پھر پرویز الٰہی آئے اور تعلیم کشی شروع ہوئی۔ ان کے بعد شہباز شریف نے پرویز الٰہی کا مشن پورا کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور دیکھ لیجئے‘ پانچ سال جمع ساڑے چھ سالہ محنت کا نتیجہ۔ خداوند تعالیٰ شہباز شریف کو پانچ سال کی ایک ٹرم اور دے تاکہ وہ تعلیم نامی ناسور کا مکمّل خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوں۔ موٹر میٹرو بنتی رہیں‘ سکول ہسپتال اجڑتے رہیں‘ بچوں کو لے کر مائیں خودکشیاں کرتی رہیں۔ آمین ثم آمین۔
 

x boy

محفلین
شکریہ
آپ نے ٹائپ کرکے اچھا کیا ، ورنہ تنز کا پہاڑ آپ کے گلے میں باندھنا شروع کردیتے:)
آپ تو کبھی کبھار پوسٹ کرتےہیں لیکن بہت سے محفلین ایسے ہیں جو بہت زیادہ پوسٹ کرتے ہیں لیکن کاپی پیسٹ کچھ مثال دومہینے سے زائد مدت چلنے والا دھرنا ہے جس میں کم و بیش نوے فیصد کاپی پیسٹ ہے جو فیس بک، گوگل اور نیٹ کے دیگر طریقوں سے لیا گیا،،
لکھ کر پیش کرنا وقت طلب بات ہے لیکن اس سے ایک فائدہ ہے کہ بات سمجھ میں آجاتی ہے پہلے اپنے سمجھ میں پھر دوسروں کے سمجھنے کے لئے۔
انتھی۔
 
آخری تدوین:
Top