تعارف عشق لا علاج

آپ تمام دوستوں کی ںظر ایک غزل اگر پسند آئیں تو حوصلہ آفزائی ضرور کریں یہ میری اپنی غزل ہے ۔

رنج و الم کے ڈھول بجا کر چاہت کے کشکول اٹھا کر۔
دردر پھرنا ٹھیک نہیں ،سنو محبت بھیک نہیں

چاہت کا اظہار یوں کرنا جیسے ہو کوءی بوجھ سا دل میں
ایسا کرنا ٹھیک نہیں ۔سنو محبت بھیک نہیں

بستی دل کی اجھاڑنی ہو تو اتنا سوچ کہ اجھاڑنا تم
پھر یہ ملتی پریت نہیں ،سنو محبت بھیک نہیں

مانا میں نہیں مجنوں جیسا نہ ہی کوءی رانجھا ہوں
سچ ہے یہ بھی جان غزل ،تم بھی تو کوءی ھیر نہیں

چاہت ایسا پنچھی ہے جو چاہت سے ہی پلتا ہے
گر چاہت نہ ہو دل میں مجیب،پھر اس کو پکڑنا ٹھیک نہیں

سنو محبت بھیک نہیں

بقلم : محمد مجیب صفدر
 
یہ محبت کا نیا دور یہ چاہت کے نئے رنگ
نہ حقیقت پہ ہیں مبنی نہ صداقت کے الم

اس دور میں اے لوگو جو محبت ہے وہ ایسے ہے
جیسے ارماں کو فتح کرنے کوئی نکلا ہو بن قاسم

جب درد کا آدی ہی خود ہمدرد بنا ڈالے
کیسے اظہار کرے کوئی ،کوئی کیسے کرے ماتم

اظہار محبت میں گر کچھ بھی صداقت ہو
دل ہوتا ہے سی پارہ انکار جو کر دے صنم

اس عشق کی گرمی میں گر کچھ ایسی حرارت ہے
جو دل کو جلا بخشے پرسوز کرے ہر دم

جب عشق تماشا ہو اور معشوق تماشائی
تب عشق کی نگری میں ہوتے نئے باب رقم

میرے دل کی بھی بستی ہے جہاں صرف وہ بستی ہے
جیسے کہتا ہوں میں جان غزل اور لکھتا ہوں ماہ اتم

دل جس کی محبت کا برسوں سے ہے قیدی مجیب
اے کاش کے رکھ لے وہ میری بھی محبت کا بھرم

بقلم : محمد مجیب صفدر
 

فرخ

محفلین
خوش آمدید کہنے پر شکرگزار ہوں۔ عشق کچھ ایسا لاعلاج بھی نہیں۔ سارا ماجرا بزرگوں کے گوش گزاریں۔ شافی علاج ہوگا۔
گویا عشق بیماری ہے۔۔۔ شائید اسی لئے کسی نے کہا تھا:

سُنا ہے عشق کر بیٹھے ہو؟
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
 
Top