حنفی مذہب اور تاجک قومی شناخت

حسان خان

لائبریرین
یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ تاجک خاندانوں میں والدین کی مطلق اکثریت اپنے بچوں کی تربیت عادتاً ان سوالات و جوابات سے شروع کرتی ہے: "کس کے بندے ہو؟"، "خدا کا بندہ"؛ "کس کی امت ہو؟"، "محمدِ مصطفیٰ کی امت"؛ "کس کے مذہب پر ہو؟"، "امامِ اعظم کے مذہب پر"، "کن اصحاب کو دوست رکھتے ہو؟"، "سرم خاکِ رہِ ہر چار سرور، ابوبکر و عمر، عثمان و حیدر۔۔۔"۔ اس سلسلے کے تیسرے سوال و جواب میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ مذہبِ امامِ اعظم - یعنی حنفیت - کی پیروی کرنے کی تلقین کی جاتی ہے اور یہ ہماری نظر میں ہر تاجک فرد کی قومی شناخت کی تربیت کی اولین علامت ہے، جو کہ دینی خودشناسی کے پہلے سبق کے ہمراہ بچوں کی خودشناسی کے اہم عنصر کے طور پر صورت اختیار کرتی ہے۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ آیا حنفیت ایسے دین کے مذہب کے طور پر، کہ جو سرزمینِ عرب میں پیدا ہوا تھا اور جس کے اساسی منابع عربی زبان میں رشتۂ تحریر میں آئے تھے، ایرانی نژادوں کی قومی شناخت کی تشکیل میں کوئی نقش ایفا کر سکتا ہے؟ مسلّم ہے کہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں اس مذہب کی تاریخی جڑوں، اس کے اساس گذار اور امامِ اعظم کے لقب سے مشہور ابوحنیفہ نعمان ابن ثابت کی زندگی کے حال، اس مذہب کے اسلام کے دیگر سنتی و غیرسنتی مذاہب کے درمیان مقام، اور اسلام کی دینی و فلسفی تعلیمات کی تشکیل و رشد میں زیادہ تر ایرانی نژادوں کے کردار ہونے کی جانب ذرا رجوع کرنا چاہیے۔
جیسا کہ معلوم ہے، یہ بزرگ دانشمند سرزمین عرب میں اور عراق کے شہر کوفہ میں متولد ہوئے، وہیں کمال حاصل کیا اور اُسی سرزمین میں انہوں نے اپنی بزرگ فقیہانہ فعالیت اور پارسائی کو انجام تک پہنچایا تھا۔ لیکن جیسا کہ تاریخ اور معتبر منابع ظاہر کرتے ہیں، وہ اصلاً ایرانی نژاد اور کابل کے تاجکوں کی نسل سے ہیں۔ یہ نکتہ خود امام ابوحنیفہ کے دو پوتوں کے قول سے، کہ جو امامِ اعظم کی سوانحات میں ثبت ہیں، ثابت ہو چکا ہے۔ لہذا ان علامۂ بزرگ کا تاجک قوم سے کوئی تعلق نہ ہونے کے بارے میں جو ہنگامہ آرائی بعض بیرونی خبری وسائل، خصوصاً انٹرنیٹ پر ہوئی ہے، کوئی اساس نہیں رکھتی۔ صدرِ مملکت محترم امام علی رحمان کی جانب سے سالِ ۲۰۰۹ء کو امامِ اعظم کی تجلیل کا سال اعلان کیا جانا اور ان متفکر کے ۱۳۱۰ سالہ یومِ ولادت کے احترام میں حکومتی اور غیرحکومتی اداروں کے تیار کردہ منصوبے اگر ایک طرف اس مذکورہ بالا بے اساس ہنگامہ آرائی کا جواب ہیں تو دوسری طرف اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملتِ تاجک آج اپنے ماضی کی طرف اور اپنی قومی شناخت و خودشناسی کی میراثِ اسلاف پر تکیہ کرتے ہوئے مستحکم سازی کی جانب مزید بے تفاوت نہیں ہے۔
تاجکوں کی قومی شناخت میں حنفیت کے کردار پر بات کرتے ہوئے سب سے پہلے اس بات کی تاکید کرنا ضروری ہے کہ مذہبِ امامِ اعظم اسلام میں قانون شناسی یا فقہِ اسلام کا آغاز تھا اور مذاہبِ اربعہ کے زمرے میں اس نے اپنی پیدائش ہی سے نمایاں مقام حاصل کر لیا تھا۔ آج بھی مسلمانانِ عالم کی پچھتر فیصد آبادی مذہبِ حنیفہ کی پیروی کرتی ہے، جن کی اکثریت ترکی، افغانستان، شام، پاکستان، ہندوستان اور سابقہ سوویت اتحاد کی اکثر جمہوریتوں میں، ازجملہ تاجکستان میں، اقامت رکھتی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، حنیفت اپنے فقہی منابع کے طور پر اساساً قرآن، سنت یا حدیث، اجماع اور قیاس کو کام میں لاتی ہے۔ اسی طرح فتوائے اصحاب اور استحسان کو بھی اس مذہب کے فقہی منابع کے طور پر مانا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس مذہب میں 'عُرف' یعنی اُن عادات و رسومات کی بھی اجازت دی گئی ہے جو لوگوں کی قومی روایات میں اساس رکھتی ہیں۔ یہ بات بے اصل نہیں ہے کہ بہت سے محققین نے حنفیت میں دینی تحمل پذیری کا اعتراف کیا ہے کیونکہ حنفیت میں علاقائی عرف و عادت کو نظر میں رکھتے ہوئے احکامات کے اجرا اور اُن کو معاشرے کے حقائق اور وقوع پذیر ہونے والی احتیاجات سے مطابقت دینے کا زیادہ امکان موجود ہے۔
ناگفتہ نہ رہے کہ اگرچہ مالکیت، شافعیت، اور حنبلیت میں بھی حنفیت کی طرح قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کا فقہی منابع کی حیثیت سے کم و بیش استعمال ہوتا ہے لیکن یہ دوسرے مذاہب حنفیت کے مقابلے میں عرف و عادت اور لوگوں کی ملی روایات کے دینی قوانین کے معیار کے طور پر استفادے کے معاملے میں بیگانہ تر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مذاہب تاجکوں کی قومی شناخت کے تشکل کے لیے زیادہ سازگار نہیں ثابت ہو سکتے۔
قابلِ ذکر ہے کہ لوگوں کی عرف و عادت پر توجہ ہی سے حنفیت نے طولِ تاریخ میں اس بات کا امکان فراہم کیا کہ تاجک لوگوں کی اکثر روایات شریعتِ اسلامی سے پیوست ہو جائیں اور یہ دینِ مبین ایرانی نژادوں کے ملی عناصر بھی کسب کر لے۔ اور یہ سب بے شک امامِ اعظم کی ایرانی نژاد لوگوں کے حق میں عظیم خدمت ہی کا تسلسل تھا، جو آج بھی ہم لوگوں کی قومی و دینی شناخت کی تشکیل یابی میں مثبت اثر رکھتا ہے۔
اسلام کی ایرانیت اور ایرانی روایات سے پیوست کرنے میں حنفیت اور امامِ اعظم کی دوسری خدمت دینی معاملات میں فارسی زبان سے استفادہ اور آخرکار قرآن کا اس زبان میں ترجمہ کیا جانا تھا۔ ان سب چیزوں کے توسط سے اسلام عام لوگوں کے نزدیک تر اور اسی تناسب سے اُن کی قومی شناخت کی تشکیل کے لیے سازگار تر ہو گیا۔ یہی عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے مذہبِ حنفیت اسلام کے دوسرے مذاہب اور رویوں کے مقابلے میں تاجکوں کی دینی و و دنیوی عادات سے زیادہ موافقت رکھتے ہوئے، اُن کی خودشناسی اور اُن کی شناخت کو مشخص کرنے میں مؤثر کردار ادا کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
ان اسباب کی بنا پر آج تاجکستان میں یہ موقع آ گیا ہے ہم وحدتِ ملت کی حفاظت اور اپنے سنی المذہب اور حنفیت کے پیرو باشندوں کی احتمالی فرقہ وارانہ تقسیم سے بچاؤ کے لیے امامِ اعظم کی تعلیماتی بنیادوں کو بیشتر و خوبتر حالت میں لوگوں کی دسترس میں لائیں۔ اس مذہب میں تاجکوں کی تمام دینی و ملی ضروریات انعکاس پا چکی ہیں لہذا قومی شناخت کی تشکیل کے نقطۂ نظر سے دوسرے دینی رویوں اور فرقوں کی ضرورت موجود نہیں ہے۔
آخر میں ہم یاد دہانی کرتے چلیں کہ خواجہ حافظ شیرازی نے ایک عرفانی موضوع پر بات کرتے ہوئے فرمایا تھا:
سال ہا دل طلبِ جامِ جم از ما می کرد
آنچہ خود داشت، ز بیگانہ تمنا می کرد
(ترجمہ: سالوں تک دل ہم سے جامِ جم کی تمنا کیا کرتا تھا؛ جو چیز اُس کے پاس خود موجود تھی، وہ اس کی تمنا بیگانوں سے رکھتا تھا۔)
آج ہم نیز اپنی شناخت کی تشکیل دینے اور خودشناسی کے لیے بیگانوں کی ضرورت نہیں رکھتے، کیونکہ مذہب امامِ اعظم میں‌ تمام دینی مسائل اور تاجکوں کی ملی خودشناسی سے مربوط اکثر موضوعات حل کیے جا چکے ہیں۔ قومی شناخت کی تشکیل دینے میں آج معاشرے کا فریضہ مذہبِ حنفیت کی ان اعلیٰ اقدار سے عاقلانہ استفادہ کرنے سے عبارت ہے۔ امامِ اعظم کی ایرانی نژاد لوگوں کے لیے ان عظیم خدمات کی یاد میں ہم میں سے ہر ایک شخص کو حکیم سنائی غزنوی سے ہم آواز ہوتے ہوئے ہوں دعاگو ہونا چاہیے:
دل ہمی گوید از طریقِ دعا
بہ تضرع چو مادرِ شہدا
کہ روانِ ابوحنیفہ ز ما
شادمان باد تا بہ روزِ جزا!

(مصنف: خورشید ضیا)
(ماخذ)

==============

یہ مضمون مجھے آج تاجکستان کے سرکاری نشریے 'جمہوریت' میں نظر آیا تھا۔ چونکہ مجھے اس مضمون میں تاجکوں کے قومی تکامل اور اُن کے معاشرے کے کچھ دلچسپ پہلوؤں پر روشنی پڑتی نظر آئی اس لیے آگاہی کی نیت سے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ بطور مترجم، میرا اس مضمون کے محتویات سے متفق ہونا لازمی نہیں ہے اور نہ یہ سمجھا جائے کہ اس مضمون کے ترجمے سے میری نیت کسی ایک دینی فکر کی تبلیغ اور کسی دوسری دینی فکر کی تنقیص ہے۔ شکریہ۔ :)

تلمیذ محمود احمد غزنوی
 
Top