سینئر سٹیزن یا معمر خواتین و حضرات

سید عاطف علی

لائبریرین
عزیزامین ایک دفعہ پھر سے اعادہ کردیں کہ یہ دھاگا کس پیرائے کی بنیاد میں کھولا گیا تھا ۔ کیا اس سے مراد مختلف ریاستوں میں جوحقوق حاصل ہو جاتے ہیں ان کا نشر کر نا اور اس موضوع سے متصلہ امور رو رمفید معلومات سے متعلق بحث اور آراء جمع کرنا تھا ؟ یا محض محفل کے اعدادو شمار اور خوش گپیوں تک محدود تھا ۔کچھ لوگوں کی ترجیح عمر ظاہر نہ کرنا بھی اکثر ہوتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
شمشاد بھیا آج ہی دیکھا یہ دھاگہ ہمارا شمار بزرگوں میں ہم 61 سال اور آٹھ مہینے کے ہیں ۔شکر ہے اُس مالکِ برحق کا کہ اُس نے اِس عمر تک بخیر و خوبی پہنچایا۔ اور شکر ہے اُس ذات کہ ہمارا شمار بزرگوں میں ہوا:
مذکورہ الفاظ حدیث کہہ کر بیان نہ کیے جائیں۔ البتہ اس امت کے بڑوں اور بزرگوں کی عزت کرنے کے بارے میں احادیث کی کتابوں میں یہ روایت ملتی ہے:

مسند أحمد مخرجاً ، مسند المکثرین من الصحابة (11/ 345) مؤسسة الرسالة:

" عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا»".

ترجمہ: جو ہمارے چھوٹوں پر رحم (شفقت ) نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا حق نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں۔۔

کیا یہ حدیث ہے ’’میری امت کے بوڑھے کی عزت کرنا میری عزت کرنا ہے‘‘ ؟ | جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
پاکستان میں سینیر سٹیزن کا شمار غالباً 65 سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔
یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک دفعہ ریلوے اسٹیشن پر ایک صاحب نے رعایتی ٹکٹ خریدی جس پر ٹکٹ دینے والے صاحب نے شناختی کارڈ کی کاپی طلب کی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ 65 سال سے زائد عمر والے مسافر آدھی قیمت پر ٹکٹ حاصل کر سکتے ہیں۔

اس لحاظ سے آپی آپ ابھی تین سال اور چار ماہ اور انتظار کریں۔
 

سیما علی

لائبریرین
آپ نے درست فرمایا یہ ہم نے پڑھا تھا تصدیق نہیں کی یہ ہماری غلطی ہے ۔۔۔۔
ابو رافع اگرچہ غلاموں میں سے تھے مگر جب انہوں نے اپنے دل کو کفر وشرک سے آزاد کیا اور محبت نبی سے اپنے دل کو معمور کیا تو مرجع خلائق بن گئے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
پاکستان میں سینیر سٹیزن کا شمار غالباً 65 سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔
یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک دفعہ ریلوے اسٹیشن پر ایک صاحب نے رعایتی ٹکٹ خریدی جس پر ٹکٹ دینے والے صاحب نے شناختی کارڈ کی کاپی طلب کی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ 65 سال سے زائد عمر والے مسافر آدھی قیمت پر ٹکٹ حاصل کر سکتے ہیں۔

اس لحاظ سے آپی آپ ابھی تین سال اور چار ماہ اور انتظار کریں۔

میرا خیال ہے کہ 75 سال کے لوگ بنا ٹکٹ سفر کر سکتے ہیں۔ 65 سال والوں کا لوئر اے سی کا 25 فیصد معاف ہوتا ہے اور اکانومی کا پچاس فیصد۔
 

جاسمن

لائبریرین
بچوں کا ٹکٹ بھی آدھا ہوتا ہے۔۔۔
یعنی ریلوے والوں نے بڈھا بچہ برابر والی مثال کو ایک دم ’’بروبر‘‘ کر دکھایا!!!
مجھے یاد ہے کہ میرے بچے آدھے ٹکٹ کی عمر سے بڑے تھے سو میں نے لوئر اے سی کے پورے ٹکٹ لئے۔ ٹکٹ چیکر اپنے ساتھی کے ساتھ آئے تو ٹکٹ چیک کرتے ہوئے خاصے حیران بھی ہوئے اور بہت خوش بھی۔ بچوں کے پاس بیٹھ کے باتیں کرتے رہے اور اس بات کی تعریف بھی۔:)
 

سید عمران

محفلین
مجھے یاد ہے کہ میرے بچے آدھے ٹکٹ کی عمر سے بڑے تھے سو میں نے لوئر اے سی کے پورے ٹکٹ لئے۔ ٹکٹ چیکر اپنے ساتھی کے ساتھ آئے تو ٹکٹ چیک کرتے ہوئے خاصے حیران بھی ہوئے اور بہت خوش بھی۔ بچوں کے پاس بیٹھ کے باتیں کرتے رہے اور اس بات کی تعریف بھی۔:)
ایک صاحب اپنی منزل سے ایک اسٹیشن آگے اترے۔۔۔
پوچھا کہ اس زائد سفر کا کرایہ دینا ہوگا؟؟؟
ہم نے کہا جی۔۔۔
کہنے لگے کیا صورت ہوگی؟؟؟
ہم نے جواب دیا کہ فوری اور آسان صورت یہ ہے کہ اس زائد سفر کا جتنا کرایہ بنے اتنی مالیت کے پلیٹ فارم ٹکٹ خرید کر پھاڑ دیں۔۔۔
انہوں نے ایسا ہی کیا!!!
 

شمشاد

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ 75 سال کے لوگ بنا ٹکٹ سفر کر سکتے ہیں۔ 65 سال والوں کا لوئر اے سی کا 25 فیصد معاف ہوتا ہے اور اکانومی کا پچاس فیصد۔
بہت شکریہ معلومات دینے کا کہ 75 سال کی عمر کے لوگ بنا ٹکٹ سفر کر سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ زندگی رہی تو پاکستان ریلوے کی اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں گے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایک صاحب اپنی منزل سے ایک اسٹیشن آگے اترے۔۔۔
پوچھا کہ اس زائد سفر کا کرایہ دینا ہوگا؟؟؟
ہم نے کہا جی۔۔۔
کہنے لگے کیا صورت ہوگی؟؟؟
ہم نے جواب دیا کہ فوری اور آسان صورت یہ ہے کہ اس زائد سفر کا جتنا کرایہ بنے اتنی مالیت کے پلیٹ فارم ٹکٹ خرید کر پھاڑ دیں۔۔۔
انہوں نے ایسا ہی کیا!!!

یہ کام میں نے بھی بہت بار کیا ہے۔ کئی بار چلتی ٹرین میں چڑھنا پڑا اور منزل پہ پہنچ کے ٹکٹ لے کے پھاڑ دی۔
 

سید عمران

محفلین
مجھے یاد ہے کہ میرے بچے آدھے ٹکٹ کی عمر سے بڑے تھے سو میں نے لوئر اے سی کے پورے ٹکٹ لئے۔ ٹکٹ چیکر اپنے ساتھی کے ساتھ آئے تو ٹکٹ چیک کرتے ہوئے خاصے حیران بھی ہوئے اور بہت خوش بھی۔ بچوں کے پاس بیٹھ کے باتیں کرتے رہے اور اس بات کی تعریف بھی۔:)
ایک صاحب اپنی منزل سے ایک اسٹیشن آگے اترے۔۔۔
پوچھا کہ اس زائد سفر کا کرایہ دینا ہوگا؟؟؟
ہم نے کہا جی۔۔۔
کہنے لگے کیا صورت ہوگی؟؟؟
ہم نے جواب دیا کہ فوری اور آسان صورت یہ ہے کہ اس زائد سفر کا جتنا کرایہ بنے اتنی مالیت کے پلیٹ فارم ٹکٹ خرید کر پھاڑ دیں۔۔۔
انہوں نے ایسا ہی کیا!!!
ان واقعات پر ایک تحریر نظروں سے گزری:
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک مرید تھے، جن کو آپؒ نے خلافت بھی عطا فرمائی تھی اور ان کو بیعت اور تلقین کی اجازت دے دی تھی۔ ایک مرتبہ وہ سفر کر کے حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کا بچہ بھی تھا، انہوں نے آکر سلام کیا اور ملاقات کی اور بچے کو بھی ملوایا کہ حضرت یہ میرا بچہ ہے، اس کے لیے دعا فرما دیجئے۔ حضرت والا نے بچے کے لیے دعا فرمائی اور پھر ویسے ہی پوچھ لیا کہ: اس بچے کی عمر کیا ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ حضرت اس کی عمر تیرہ (13) سال ہے۔ حضرت نے پوچھا کہ: آپ نے ریل گاڑی کا سفر کیا ہے تو اس بچے کا آدھا ٹکٹ لیا تھا یا پورا ٹکٹ لیا تھا؟
انہوں نے جواب دیا کہ حضرت آدھا ٹکٹ لیا تھا۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ: آپ نے آدھا ٹکٹ کیسے لیا جبکہ بارہ (12) سال سے زائد عمر کے بچے کا تو پورا ٹکٹ لگتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ قانون تو یہی ہے کہ بارہ (12) سال کے بعد پورا ٹکٹ لینا چاہئے اور یہ بچہ اگرچہ 13 سال کا ہے، لیکن دیکھنے میں بارہ سال کا لگتا ہے، اس وجہ سے آدھا ٹکٹ لے لیا۔
حضرتؒ نے فرمایا: ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو تصوف اور طریقت کی ہوا بھی نہیں لگی ہے، آپ کو ابھی تک اس بات کا احساس اور ادراک نہیں کہ بچے کو جو سفر آپ نے کرایا، یہ حرام کرایا ہے۔ جبکہ قانون یہ ہے کہ بارہ (12) سال سے زائد عمر کے بچے کا ٹکٹ پورا لگتا ہے اور آپ نے آدھا ٹکٹ لیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ریلوے کے آدھے ٹکٹ کے پیسے غصب کر لیے اور آپ نے چوری کر لی اور جو شخص چوری اور غضب کرے ایسا شخص تصوف اور طریقت میں کوئی مقام نہیں رکھ سکتا، لہٰذا آج سے آپ کی خلافت اور اجازت بیعت واپس لی جاتی ہے۔‘‘
چنانچہ اس بات پر اس کی خلافت سلب فرمالی گئی۔ حالانکہ اپنے اوراد وظائف میں، عبادات اور نوافل میں اور تہجد اور اشراق میں ان میں سے ہر چیز میں، بالکل اپنے طریقے پر مکمل تھے، لیکن یہ غلطی کی کہ بچے کا ٹکٹ پورا نہیں لیا، صرف اس غلطی کی بنا پر خلافت سلب فرما لی گئی۔
حضرت والاؒ کی طرف سے اپنے سارے مریدین اور متعلقین کو یہ ہدایت تھی کہ جب کبھی ریلوے میں سفر کرو اور تمہارا سامان اس مقدار سے زائد ہو جتنا ریلوے نے تمہیں مفت لے جانے کی اجازت دی ہے، تو اس صورت میں اپنے سامان کا وزن کرائو اور زائد سامان کا کرایہ ادا کرو۔ خود حضرت والاؒ کا اپنا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ریلوے میں سفر کے ارادے سے اسٹیشن پہنچے، گاڑی کے آنے کا وقت قریب تھا، آپؒ اپنا سامان لے کر اس دفتر میں پہنچے، جہاں پر سامان کا وزن کرایا جاتا تھا اور جاکر لائن میں لگ گئے۔ اتفاق سے گاڑی میں ساتھ جانے والا گارڈ وہاں آگیا اور حضرت والا کو دیکھ کر پہچان لیا اور پوچھا کہ: حضرت آپ یہاں کیسے کھڑے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ: میں سامان کا وزن کرانے آیا ہوں۔ گارڈ نے کہا کہ آپ کو سامان کا وزن کرانے کی ضرورت نہیں، آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، میں آپ کے ساتھ گاڑی میں جا رہا ہوں، آپ کو زائد سامان کا کرایہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت نے پوچھا کہ: تم میرے ساتھ کہاں تک جاؤ گے؟ گارڈ نے کہا کہ فلاں اسٹیشن تک جاؤں گا۔ حضرت نے پوچھا کہ اس اسٹیشن کے بعد کیا ہو گا؟ گارڈ نے کہا اس اسٹیشن کے بعد دوسرا گارڈ آئے گا، میں اس کو بتا دوں گا کہ یہ حضرتؒ کا سامان ہے، اس کے بارے میں کچھ پوچھ گچھ مت کرنا۔ حضرت نے پوچھا کہ وہ گارڈ میرے ساتھ کہاں تک جائے گا؟ گارڈ نے کہا: وہ تو اور آگے جائے گا، اس سے پہلے ہی آپ کا اسٹیشن آجائے گا۔
حضرتؒ نے فرمایا: ’’میں تو اور آگے جاؤں گا، یعنی آخرت کی طرف جاؤں گا اور اپنی قبر میں جاؤں گا، وہاں پر کونسا گارڈ میرے ساتھ جائے گا؟… جب وہاں آخرت میں مجھ سے سوال ہو گا کہ ایک سرکاری گاڑی میں سامان کا کرایہ ادا کئے بغیر جو سفر کیا اور جو چوری کی اس کا حساب دو، تو وہاں پر کونسا گارڈ میری مدد کرے گا؟…‘‘
چنانچہ وہاں پر یہ بات مشہور تھی کہ جب کوئی شخص ریلوے کے دفتر میں اپنے سامان کا وزن کرا رہا ہوتا تو لوگ سمجھ جاتے تھے کہ یہ شخص تھانہ بھون جانے والا ہے اور حضرت تھانویؒ کے متعلقین میں سے ہے۔ (بحوالہ اصلاحی خطبات)
ربط
 
Top