فٹ بال نہیں پولیو ویکسین کاتحفہ لانا

تاریخ: 30 ستمبر 2014
فٹ بال نہیں پولیو ویکسین کاتحفہ لانا
تحریر: سید انور محمود
فٹ بال کا عالمی کپ اپنے آخری مراحل میں ہے اور صرف تین میچوں کے بعداُس ملک کو چیمپین ٹرافی مل جائے گی جو فائنل جیتے گا، پاکستان کا نام بھی اس ورلڈ کپ میں لیا گیا کہ یہ ملک ہمیں فٹبال مہیا کرتا ہے، اس ملک میں ٹیلنٹ تو بہت ہے مگر یہ اس ملک کی بدنصیبی ہے کہ فٹ بال تو دور کی بات اب یہ اپنے قومی کھیل ہاکی سے بھی باہر ہوگیا ہے، لیکن ایسی بات نہیں کہ کہیں ہم اول نہ ہوں بلکل ہیں، 2011ء سے ابتک پاکستان میں پولیو کے سب سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں، اسطرح ہم پولیو کی بیماری میں پوری دنیا میں اول نمبر پر ہیں۔ پولیو ایک ایسا نا قابل علاج مرض ہے جو عمر بھر کی معذوری دے جاتا ہے۔ دنیا بھر تین ممالک نائیجیریا، پاکستان اورافغانستان ہیں جن سے ابتک پولیو کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان پر سفری پابندیاں لگ چکی ہیں۔ اس ذلت کے باوجود ہم اس میں بھی کرپشن کررہے ہیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے تحت عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان پر سفری پابندیوں سے متعلق پریس بریفنگ میں پروفیسر اعجاز وہرہ نے کہا کہ "سفری پابندیوں کے بعد پاکستانیوں نے پولیو کے قطرے پینے سے بچنے کے لیے سرٹیفکیٹ خریدنا شروع کر دیے ہیں، عوام پولیو کے خلاف کسی قسم کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں اور ملک سے پولیو کا داغ مٹانے کے لیے پولیو کے قطرے ضرور پئیں"۔

پاکستان میں اس مرض کے پھیلنے کی پہلی وجہ غربت، افلاس، صاف پانی کا نہ ملنا، گندئے پانی کی نکاسی کا خراب نظام، خالص غذا اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محرومی ہیں۔ دوسری وجہ اس مرض کے پھیلنے کی عام لوگوں میں تعلیم کی کمی، معاشرتی رویہ اور قدامات پسندی بھی ہے۔ پاکستان میں پولیو کی حمایت میں تو کم اسکی مخالفت میں زیادہ مہم چلائی گئی ، اسلیےبہت سے علاقوں میں عوام انسداد پولیو ویکسین کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے بچوں کو پولیو سے حفاظت کے قطرے پلانے سے انکار کردیتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2012ء میں 60ہزار بچوں کے والدین نے اپنے بچوں کو قطرے پلوانے سے انکار کر دیا اور 2013میں 2لاکھ سے زائد بچے ویکسین سے محروم رہ گئے۔ اس مہم کو سب سے زیادہ نقصان ڈاکٹر شکیل آفریدی کے اُس منفی کردار سے پہنچا جب اُسکی اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن میں شمولیت کے بارئے میں پتہ چلا۔ اس کے بعد دہشت گردوں کی طرف پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے شروع ہوئے۔

کیا وجہ ہے کہ ہمارا پڑوسی بھارت جو آبادی میں ہم سے پانچ گنا زیادہ ہے اُسکو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پولیو فری ملک قرار دیا گیا ہے اورپاکستان پر سفری پابندیاں لگادی گیں۔ نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم میں پولیو ختم کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا، لیکن یہ نیک کام اگر وہ کرجایں تو اسکا اجر اللہ تعالی اُنکو دیگا۔ اُنکی حکومت کو سب سے پہلے ایک بھرپور مہم پولیو کے خاتمے کے لیےمیڈیا کے زریعےشروع کرنا چاہیے جس سے لوگوں میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ اپنی آنے والی نسلوں کو اپاہج ہونے سے بچانے کےلیےپولیو کے قطرئے بچوں کو پلانا لازمی ہےاور ساتھ ہی اس تاثر کو زائل کیا جائے کہ پولیو ویکسین مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش ہے۔ حکومت اپنی طرف سے بھرپور کوشش کررہی ہے لیکن قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن اورملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردوں کی وجہ سے اہداف مکمل نہیں کر پارہی ہےاور بچوں کی ایک بڑی تعداد پولیو کے قطروں سے محروم ہیں۔ اگر آپ کچھ وقت اس نیک کام کےلیے نکال سکتے ہیں تو اُن لوگوں کے پاس جایں جو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرئے پلانے کے خلاف ہیں، شاید آپ ہی وہ انسان ہوں جو کسی یا کئی بچوں کو اپاہج ہونے سے بچالیں، اسکا اجرآپکو اللہ تعالی کی طرف سے ضرور ملے گا۔ آیئے مبشر علی زیدی کی 100 لفظوں کی کہانی پڑھتے ہیں جس میں وہ بھی یہ ہی سمجھارہے ہیں کہ اب جبکہ فٹ بال کا عالمی میلہ لگا ہوا ہے پہلے اپنے بچوں کو پولیو کی بیماری سے بچایں پھر اُسکو ضرور فٹ بال کا تحفہ دیں۔

سو (100) لفظوں کی کہانی ۔۔۔فٹ بال ۔۔۔مبشر علی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں بڑا ہوکر میسی بنوں گا۔" میرے بیٹے نے کہا۔
"بڑا کھلاڑی نہیں، بڑے آدمی بننا۔ دوسروں کے کام آنا۔" میری بیوی نے نصیحت کی۔
بچے کے دل پر اثر ہوا۔ وہ جیب خرچ سے ایک فٹبال خرید لایا۔
پھر مجھ سے کہا، "سامنے والی بستی لے چلیں۔"
وہاں پہنچ کر بیٹے نے ایک دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک بچہ آیا۔
"ہم یہ تمھارے لیے لائے ہیں۔" میرے بیٹے نے فٹبال آگے بڑھائی۔
بچے نے فٹبال کو دیکھا، اپنی بیساکھی کو دیکھا، اپنی ٹانگوں کو دیکھا اور کہا،
"فٹبال نہیں چاہیے۔
اگلی بار اِس بستی میں آنا تو پولیو ویکسین لیتے آنا۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو (100) لفظوں کی کہانی بشکریہ روز نامہ جنگ

نوٹ: یہ مضمون 7 جولائی 2014 کو لکھا گیا تھا۔
 
Top