عقل کو شریعت کے تابع رکھئے

ابن جمال

محفلین
اس میں کوئی شک نہیں کہ عصرحاضر میں نوجوانوں کی دین سے دلچسپی بڑھی ہے اور وہ دینی امور کی جانب راغب ہونے لگے ہیں۔ کالج کے طلبہ اوراعلیٰ تعلیم پانے والے افراد دینی امور میں دلچسپی لیتے ہیں اورنماز ودیگر عبادات کو انجام دیتے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ بات بھی بہت خوش آئند ہے کہ مذہبی احکام کے علاوہ لباس ،وضع قطع میں بھی بہت سارے نوجوان مذہبی رنگ کو پسند کرنے بلکہ اختیار کرنے لگے ہیں لیکن اسی کے ساتھ تشویش کا دوسرارخ یہ ہے کہ ہماراوہ طبقہ جو روشن خیال ہے جس نے اعلیٰ تعلیم پائی ہے وہ دین کے تعلق سے بہت سارے شکوک وشبہات کا شکار ہے۔ اس کے شکوک وشبہات یوں توبہت سارے مذہبی احکام میں ہیں مثلایہ کہ مردوں کو چارشادی کی اجازت کیوں ہے، عورت کو کیوںنہیں، عورت کو وراثت میں مرد کےمقابلہ میں آدھاحصہ کیوں ملتاہے اوراسی طرح کے دیگراعتراضات۔

حقیقت یہ ہے کہ ان سب اعتراضات کی ایک بنیاد ہے اگرہم اس بنیاد پر گفتگو کریں اوراس بنیادکوختم کریں جہاں سے یہ سارے شکوک وشبہات پیداہوتے ہیں توان کے اس طرح کے تمام اعتراضات پیداہوجائیں گےورنہ فرداًفرداًاگراعتراضات کا جواب دیاجائے تواس کی جگہ نیااعتراض پیداہوتارہے کیونکہ اعتراض کی بنیاد اپنی جگہ برقراررہے گی۔ہم نے ان کو سمجھادیاکہ عورت کے جسم کی بناوٹ اوربچہ کے نسب وغیرہ کے اختلاط کی وجہ سے وہ بیک وقت چارشوہر نہیں رکھ سکتی، کمانے کی ذمہ داری مرد پر ہے اس لئے اسے وراثت مین زیادہ حصہ دیالیکن اس سے صرف اتناہوگاکہ ایک حکم پر اس کا اعتراض ختم ہوگا لیکن دوسرے اسلامی حکم پر بعینہ ایساہی اعتراض اسے پھر سے ہوگا۔لہذا بہتر یہی ہے کہ اعتراضات کا علیحدہ علیحدہ جواب دینے کے بجائے اعتراض کی بنیاد کیاہے اس پر بات کی جائے اوراس کا جواب دیاجائےتاکہ شکوک وشبہات کی بنیاد ہی ختم ہوجائے۔

کچھ لوگ توایسے ہیں جویہ سوچتے ہیں کہ اسلام کے تمام احکام عقل اورفہم پر مبنی ہیں کوئی بات ایسی نہیں*ہے جو عقل کے دائرے سے باہر ہو،وہ ہرحکم کی حکمت جانناچاہتے ہیں ،وجہ اورسبب معلوم کرناچاہتے ہیں دوسرے لفظوں میں عقل کو مذہب پر حاکم بنایاجاتاہے۔یعنی اگرکوئی حکم عقل کے دائرہ میں آرہاہے اس کی حکمت سمجھ مین آرہی ہے تواسے تسلیم کریں گے ورنہ تسلیم نہیں کریں گے۔ اگرہمیں یہ سمجھ میں آتاہے کہ مذہب نے عورت کو نصف حصہ کیوں دیاتومانیں گے ورنہ اس حکم کو حکم ماننے سے ہی انکار کردیں گے۔ اگرہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ عورت کی دیت کی مقدار مرد کی دیت سے کم کیوں ہے توہم اس کو صنفی امتیاز اورعدم مساوات قراردے کر مسترد کردیں گے۔پھریہیں سے بسااوقات اس کی بھی تحریک چلنے لگتی ہے کہ اسلام کے فلاں حکم کی چونکہ فلاں علت ہے اور وہ اس دور مین ختم ہوچکی ہے لہذا اب وہ اسلامی حکم باقی نہیں رہا۔بقول انشاایک صاحب بحثنے لگے کہ پہلے سورگندگی کھاتاتھاس لئے حرام قراردیاگیاتھالیکن اب فارم میں اس کی پرورش کی جاتی ہے لہذا اب حرام نہیں ہوناچاہئے۔

کیاکسی چیز کو صرف اس لئے ماننے سے انکار کردیناچاہئے کہ وہ ہماری عقل کے دائرے سے باہر ہے۔ دنیا میں ہرایک کی عقل متفاوت ہے توکیاکسی قانون کی حکمت اگرکسی کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ صرف اس لئے ماننے سے انکار کردے کہ اس کی حکمت اس کی سمجھ سے باہر ہے۔ اگرکوئی ایساکرے کہ ملک کے کسی قانون کی یہ کہہ کرخلاف ورزی کرے کہ اس قانون کی حکمت اس کی سمجھ میں نہیں آئی لہذا وہ اس کے ماننے کا پابند نہیں تواسے لوگ احمق اوردیوانہ قراردیں گے لیکن اسی چیز کو مذہب کے باب میں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیاجاتاہےاوراس مذہبی حکم کو تسلیم کرنے والوں پر طعنے کسے جاتے ہیں۔یہ کیسی دوہری روش ہے کہ ملکی قانون جو ہم جیسے انسانوں*نے بنایاہے وہ اگرسمجھ میں نہ آئے پھر بھی اس کی تعمیل ضروری لیکن خداجوقادرمطلق ہے اس کے قانون کو ہم اپنی عقل پر تولتے ہیں اوراگرہماری عقل کی حدود سے وہ قانون باہر ہواتوپھرہم انکار کرنے میں دیر نہیں کرتے ۔دوسرے لفظوں*میں کہیں تو گویاہم اپنی عقل کو اللہ میاں پر نافذ کرناچاہتے ہیں کہ اللہ میاں وہی قانون بنائیں جو ہماری عقل میں سماتی ہو،یہ کتنی بڑی گستاخی ہے۔یہ گستاخی ہے اللہ کی قدرت کے ساتھ، یہ گستاخی ہے اللہ کے علیم وحکیم ہونے کے ساتھ ،یہ گستاخی ہے اپنے آپ کے ساتھ کہ ہم اپنی ناقص اورمحدود عقل کی بنیاد پر اللہ کے احکام کی حکمت متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوریہ سوچنے کی زحمت گوارانہیں کرتے کہ ہماری ناقص عقل میں حکمت سمجھ میں نہیں آتی لیکن جس حکیم وعلیم وخبیر نے یہ قانون بنایاہے اس نے ہمارے مصالح اورفوائد کیلئے ہی یہ قانون یہ اورحکم نافذ کیاہے۔

اپنے آپ سے گستاخی سے مراد یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جس چیز کی جوحد ہواس حد سے اس کو آگے بڑھانااس کی تکریم نہیں بلکہ توہین ہے۔ ابن خلدون نے اچھی مثال دی ہے کہ جس ترازو میں سونے اورچاندے تولے جاتے ہوں اس میں پہاڑ نہیں تولے جاسکتے، جس عقل میں ابھی ہم نے روز مرہ کی چیزوں کی حقیقت وماہیت دریافت نہیں کی ہے اس عقل سے احکام الہی کی حکمت جاننے اورنہ جاننے پر ماننے سے انکار کرنے لگیں*توکیایہ آپ آپ سے اوراپنی عقل سے گستاخی نہیں*ہے؟

ہوسکتاہے کہ آپ یہ کہیں کہ یہ تومذہبی ملاکی بات ہے اس کی تودن رات کی گردان ہی یہی ہے لیکن یہ صرف مذہبی دیوانے کی بات نہیں ہے ادیبوں نے بھی اسی کو تسلیم کیاہے۔اقبال کاحوالہ دوں توآپ کہیں کہ وہ توخود نیم ملانے تھے اس لئے ہم دوسرے ادیب ممتاز مفتی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ممتاز مفتی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔

’’ڈاکٹر عفت سے ایک غیرملکی کرنل نے پوپوچھا’’آپ کے مذہب میں سورکھاناکیوں حرام ہے‘‘؟ڈاکٹرعفت نے کہایہ ایک حکم ہے میراکام حکم کی تعمیل کرناہے۔ کرنل صاحب،حکم کی وجہ جانناضروری نہیں، اسے مانناضروری ہے
کرنل ہنسا اوربولاجس حکم کوآپ سمجھتی نہیں،اس پر عمل کرنے کا مقصد
ڈاکٹرعفت ہنسیں ،بولیں حیرت ہے کرنل صاحب کہ آپ فوجی افسر ہوتے ہوئے حکم کے مفہوم سے واقف نہیں، کرنل کھسیاناہوگیا۔
عفت بولیں کرنل صاحب،ہرکلب کے اصول ہوتے ہیں جن کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔مذہب بھی ایک کلب ہے یاتوآپ کلب کے ممبربنیں یانہ بنیں یہ آپ کی مرضی پرموقوف ہے لیکن رکن بن جائیں توپھر چوں وچراکی گنجائش نہیں رہتی۔
ہماری مشکل یہ ہے کہ مغرب کے زیراثرہم عقل کے اس قدردیوانے بنے بیٹھے ہیں کہ کچھ حد نہیں، حالانکہ ہرفرد جسے تھوڑی سے سوجھ بوجھ بھی حاصل ہے اس حقیقت کو جانتاہے کہ زندگی میں بہت کم باتیں ایسی ہیں جن پر عقل حاوی ہے اوربہت زیادہ باتیں ایسی ہیں جوعقل کی دسترس سے باہر ہیں۔ عقل کو ہم نے بت بنارکھاہے اس حد تک کہ یہ مانتے ہوئے کہ اللہ قدرمطلق ہے ہم عقل کے معیار کو اللہ تعالیٰ پربھی عائد کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ہم سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یوں نہیں کرناچاہئے تھااللہ تعالیٰ کے حکم کے پیچھےضرورکوئی ایسی حکمت ہوگی جوہم عقل کے زورپرسمجھ سکتے ہیں اس لئے ہم اس کی تلاش کرنے لگتے ہیں اوراگرکامیاب نہ ہوں توحکم پر شک کرنے لگتے ہیں‘‘۔
(رام دین ،ممتاز مفتی، جلد اول صفحہ14)


سوچنایہ چاہئے کہ کیا اسلامی شریعت کے کسی حکم میں صرف وہی حکمت کارفرماہے جو ہماری سمجھ میں آئی ہے اس کے علاوہ دوسری حکمتیں کارفرمانہیں ہیں۔ایک انسان ایک کام کرتاہے توایک مقصد پیش نظررہتاہے اس سےزیادہ عقل مندشخص ایک کام کرتاہے اورایک پنتھ دوکاج اس کے پیش نظررہتے ہیں اس سے بھی زیادہ عقل مند شخص ایک کام کرتاہے اورکئی مقاصد اس کے پیش نظررہتے ہیںتوپھر وہ ذات جو حکیم ،علیم اورخبیر ہے اپنے بندوں*کے تمام مصالح اورفوائد کو بخوبی جانتاہے ،وہ ذات جو حکمت کاسرچشمہ ہے اورعقل کاخالق ہے توکیااس کے حکم میں صرف اتنی ہی مصلحت ہوگی جوہماری سمجھ میں آرہی ہے؟

جب ایک انسان کے کسی کام میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہوسکتی ہیں اورسبھی کاذہن اس جانب نہیں جاسکتاتوپھر اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکام کی حکمتوں کا انسانی عقل کیسے احاطہ کرسکتی ہے جب کہ انسانی عقل روزمرہ پیش آنے والے حالات اورمعاملات کاہی احاطہ نہیں کرسکتی۔حد تویہ ہے کہ اس نے ابھی جوکچھ جاناہے سمجھاہے وہ اس کے مقابلے میں کچھ نہیں جواس نے نہیں جاناہے اورپھر کسی چیز کے بارے میں سطحی معلومات ہی حاصل کی گئی ہیں ۔حقیقت تک رسائی کسی چیز میں بھی نہیں ہوسکی ہے۔کرنٹ سے ہم کام لیتے ہیں لیکن کرنٹ کی حقیقت کیاہے یہ معلوم نہیں،انسانی جسم میں روح کی حقیقت کوتسلیم کرتے ہیں لیکن روح کیاہے ہم نہیں جانتے، دماغ کے بے شمار خانے ایسے ہیں جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی ہے کہ اس کا کام کیاہے اوروہ کیسے کام کرتاہے۔

وہ لوگ جو بزعم خود کسی حکم الہی کی حکمت سمجھتے ہیں اورپھر خود ہی موجودہ دور میں اس کی ضرورت کے نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ان کی روش نہایت خطرناک ہے۔ان کاحال اسی نادان لڑکے جیساہوگا جس کی مثال شیخ شرف الدین منیری نے بیان کی ہے۔

’’اس کو ایساسمجھوکہ ایک شخص نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر محل تعمیر کیا،وہاں انواع واقسام کی نعمتیں جمع کیں جب اس کا اخیر وقت ہوا تواس نے لڑکے کو وصیت کی کہ اس محل میں جو ترمہم وتصرف چاہناکرنالیکن ایک خوشبودار گھانس کاایک حصہ جو میں چھوڑ کر جارہاہوں وہ چاہے خشک ہوجائے اس کو باہر نہ کرنا،جب پہاڑ کی چوٹی پر بہارآئی تو پہاڑ ومیدان سب سرسبز ہوگئے،بہت سی تازہ اورخوشبودارگھانس پیداہوگئی جو اس پرانی گھانس سے زیادہ تروزتاہ تھی، اس میں بہت سی گھانس اورپھول اس محل میں آئے جن کی خوشبو نے سارے محل کو معطر کردیااوران کے سامنے اس پرانی سوکھی گھانس کی خوشبودب گئی،لڑکے نے سوچاکہ میرے والد نے یہ پرانی گھانس اس محل میں اس لئے رکھی تھی کہ اس کی خوشبوپھیلے اوریہ جگہ اس سے معطر ہو ،اب یہ سوکھی گھاس کام آئے گی اس نے حکم دیاکہ اس گھانس کو باہر پھینک دیاجائے،جس وقت محل اس گھانس سے خالی ہوگیا،ایک کالے سانپ نے سوراخ سے سرنکااورلڑکے کو ڈس لیااوراس کاکام تمام ہوگیا، سبب اس کایہ تھاکہ اس گھاس کےدوفائدے تھے ایک یہ کہ وہ خوشبودے اوردوسرے اس میں خاصیت تھی کہ وہ جہاں ہوتی ہے سانپ اس کے قریب نہیں جاسکتاگویاوہ سانپ کا تریاق تھی یہ خاصیت کسی کو معلوم نہیں تھی۔لڑکے کو اپنی ذہانت پر ناز تھا،وہ سمجھاکہ جواس کےمعلومات کے دائرہ میں نہ ہو گویاکہ قدرت خداوندی کے خزانہ میں موجود نہیں،اس کو اس آیت کامفہوم نہیں معلوم تھاومااوتیتم من العلم الاقلیلاوہ اپنی ذہانت کے غرہ میں ماراگیا۔(تاریخ دعوت وعزیمت صفحہ3/155)

اس کے علاوہ اگرہم قرآن کریم کوغوروفکر سے پڑھیں توہمیں معلوم ہوگاکہ قرآن کریم نے کوئی بھی حکم دیاہے تویہ نہیں کہاہے کہ اس کوجانواورسمجھوبلکہ صرف اتناہے کہ اس کومانو،ہرجگہ قرآن کریم کا یہی انداز تخاطب ہے اے لوگوں جنہوں نے مانااورتسلیم کیاہے(یاایھاالذین آمنو)لیکن بدقسمتی یہ رہی ہے کہ بعض لوگوں نے جاننے اورماننے کا یہ فرق نظروں سے اوجھل کردیا۔قرآن یہ کہتاہے کہ یہ حکم ہے اسے مانو اورتسلیم کرو(یاایھاالذین آمنوآمنو)لیکن ہمارااصرار اورمطالبہ ہوتاہے کہ ہم سمجھیں گے تو مانیں گے ہم جانیں گے تومانیں گے۔

مولانامناظراحسن گیلانی اسی تعلق سے لکھتے ہیں

’’مذہب اورمذہبی حقائق وامور کے متعلق مذکورہ بالااصول ایک ایسی جانی پہچانی بات ہے کہ مختلف مذاہب کے مقابلہ وموازنہ میںعمومادنیااسی اصول سے کام لیتی رہی ہے ۔پچھلے دنوں یورپ کے ارباب فکرونظرنے اسی سلسلے میں غلو سے کام لیتے ہوئے مذہبی حلقوں*میں کچھ ایسی باتیں پھیلادیں کہ جاننے اورماننے کافرق خام کاروں کے سامنے سے کچھ ہٹ ساگیا اورمذہب جس کی طرف سےہمیشہ آمنو یعنی ماننے کا مطالبہ پیش ہوتارہایعنی دنیا سے کہاجاتاتھاکہ مانو لیکن سننے والے کہنے لگے کہ ہم تو ان چیزوں کونہیں جانتے،گویاگلاب کے پھول کو پیش کرکے کہاجائے کہ اس کو سونگھواورجواب میں کہہ دیاجائے کہ گلاب کی خوشبو کوہم سن نہیں رہے ہیں۔پچھلے دنوں مغربی خیالات سے متاثرذہنیتوں میں الملائکۃ،الجنۃ،النار،البر زخ ،یہ اوراسی قسم کے مذہبی حقائق کے متعلق تذبذ ب اورشک کی جوکیفیت پیداکی گئی اس کی بنیاد جاننے اورماننے کے اس خلط مبحث ہی پر قائم تھی ،مذہب توکہتاتھاکہ فرشوںکو مانو لیکن خواہ مخواہ کی عقلیت کے مدعیوں*کی طرف سے کچھ ایسی باتیںپیش ہونے لگیںجن سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم فرشتوںکو دیکھ نہیں رہے ہیں حالانکہ ان سے دیکھنے کامطالبہ ہی کب کیاگیاتھا‘‘۔
(دجال کا فتنہ اوراس کے خدوخال،مولانا مناظراحسن گیلانی)
 

حسینی

محفلین
بہت اچھی تحریر۔۔۔
یقینا عقل انسانی محدود ہے۔۔۔ اور تمام احکام خداوندی کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتی۔۔۔ احکام کےمصالح ومفاسد کو نہیں سمجھ سکتی۔
وہ خالق کل ہے جو اپنے مخلوق کی تمام ضروریات کو سمجھتا ہے۔۔۔ اور اسی کے مطابق احکام جعل کرتا ہے۔۔ ۔ تاکہ انسان اس دنیا میں سیر تکامل کو طے کرتے ہوئے دنیاوی واخروی سعادت تک پہنچ جائے۔

اک مزید بات جو مندرجہ بالا تحریر سے واضح سے واضح تر ہو رہی ہے۔۔۔ وہ ہے اسلام میں قیاس کی نفی۔ چونکہ قیاس میں ہم اپنی عقل سے استفادہ کرتے ہوئے اک چیز کاحکم دوسری پر لگاتے ہیں۔
جبکہ اس چیز کی حرمت یا حلیت کی اصل وجہ قرآن یا حدیث میں ذکر نہیں ہوئی۔۔ چونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہی آیت یا روایت کافی ہوتی۔۔۔ نوبت قیاس تک نہ پہنچتی۔
مثال وہی ہے کہ اس لڑکے کو نہیں معلوم نہیں تھا کہ گھانس کو گھر میں رکھنے کی وجہ خوشبو کے علاوہ اس کا تریاق ہونا ہے۔۔ اسی طرح احکام الہی کی حکمت جب تک شریعت خود ذکر نہ کرے اس کو ہم تعدی نہیں دے سکتے۔۔۔ چونکہ ہماری عقل محدود ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
اک مزید بات جو مندرجہ بالا تحریر سے واضح سے واضح تر ہو رہی ہے۔۔۔ وہ ہے اسلام میں قیاس کی نفی۔ چونکہ قیاس میں ہم اپنی عقل سے استفادہ کرتے ہوئے اک چیز کاحکم دوسری پر لگاتے ہیں۔
جبکہ اس چیز کی حرمت یا حلیت کی اصل وجہ قرآن یا حدیث میں ذکر نہیں ہوئی۔۔ چونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہی آیت یا روایت کافی ہوتی۔۔۔ نوبت قیاس تک نہ پہنچتی۔
مثال وہی ہے کہ اس لڑکے کو نہیں معلوم نہیں تھا کہ گھانس کو گھر میں رکھنے کی وجہ خوشبو کے علاوہ اس کا تریاق ہونا ہے۔۔ اسی طرح احکام الہی کی حکمت جب تک شریعت خود ذکر نہ کرے اس کو ہم تعدی نہیں دے سکتے۔۔۔ چونکہ ہماری عقل محدود ہے۔


حسینی صاحب آپ کے جوابی مراسلے کا شکریہ
لیکن میرے اس مضمون سے قیاس کی حلت وحرمت کا مفہوم نکالناتھوڑی زیادتی ہے میرے ساتھ بھی اوراس مضمون کے ساتھ بھی۔
اس پورے مضمون میں حکمت پر بات کی گئی ہے کہ انسان خود ساختہ حکمتوں کو سوچ کر شریعت پر عمل نہ کرے بلکہ خداکاحکم ہے اس لئے عمل کرے جہاں حکمت تک اس کی رسائی ہو یانہ ہو ۔
جہاں تک قیاس کی بات ہے توقیاس مین’’ حکمت‘‘ نہیں بلکہ ’’علت‘‘ کو ملحوظ رکھاجاتاہے۔یعنی علت کی بنیاد پر نص کو دوسرے مقام تک توسیع دی جاتی ہے اورجہاں جہاں وہ علت پائی جائے گی وہ حکم بھی پایاجائے گا۔
ایک مثال عرض کروں
سفر کے دوران نماز میں قصر اورروزہ نہ رکھنے کا حکم ہے اس کی حکمت سفر کی مشقت ہے یعنی سفر میں دشواریاں بہت ہوتی ہیں۔ بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔جب کہ علت کچھ دوسری ہے۔ علت ہےشرعی طورپر طے شدہ مسافت یااس سے زیادہ کا سفر ،لہذا جہاں کہیں یہ ایساسفرہوگایہ حکم موجود ہوگاکیونکہ علت موجودہے۔
دوسرے اگرآپ نے بذات خود اسلامی شریعت کا گہرامطالعہ کیاہوتویہ بات ضرورمعلوم ہوگی کہ اسلام میں قیاس کی بنیاد حکمت پر نہیں بلکہ علت پر ہے لہذا حکمت تک عدم رسائی کی بنیاد پر علت کی بھی نفی کرنانامناسب ہے۔ ویسے یہ مضمون اس قسم کی بحثوں کیلئے ہے بھی نہیں ۔ والسلام
 

حسینی

محفلین
حسینی صاحب آپ کے جوابی مراسلے کا شکریہ
لیکن میرے اس مضمون سے قیاس کی حلت وحرمت کا مفہوم نکالناتھوڑی زیادتی ہے میرے ساتھ بھی اوراس مضمون کے ساتھ بھی۔
اس پورے مضمون میں حکمت پر بات کی گئی ہے کہ انسان خود ساختہ حکمتوں کو سوچ کر شریعت پر عمل نہ کرے بلکہ خداکاحکم ہے اس لئے عمل کرے جہاں حکمت تک اس کی رسائی ہو یانہ ہو ۔
جہاں تک قیاس کی بات ہے توقیاس مین’’ حکمت‘‘ نہیں بلکہ ’’علت‘‘ کو ملحوظ رکھاجاتاہے۔یعنی علت کی بنیاد پر نص کو دوسرے مقام تک توسیع دی جاتی ہے اورجہاں جہاں وہ علت پائی جائے گی وہ حکم بھی پایاجائے گا۔
ایک مثال عرض کروں
سفر کے دوران نماز میں قصر اورروزہ نہ رکھنے کا حکم ہے اس کی حکمت سفر کی مشقت ہے یعنی سفر میں دشواریاں بہت ہوتی ہیں۔ بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔جب کہ علت کچھ دوسری ہے۔ علت ہےشرعی طورپر طے شدہ مسافت یااس سے زیادہ کا سفر ،لہذا جہاں کہیں یہ ایساسفرہوگایہ حکم موجود ہوگاکیونکہ علت موجودہے۔
دوسرے اگرآپ نے بذات خود اسلامی شریعت کا گہرامطالعہ کیاہوتویہ بات ضرورمعلوم ہوگی کہ اسلام میں قیاس کی بنیاد حکمت پر نہیں بلکہ علت پر ہے لہذا حکمت تک عدم رسائی کی بنیاد پر علت کی بھی نفی کرنانامناسب ہے۔ ویسے یہ مضمون اس قسم کی بحثوں کیلئے ہے بھی نہیں ۔ والسلام
بہت شکریہ ابن جمال بھائی۔
میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ آپ کے مضمون سے چونکہ عقل کی محدودیت ثابت ہورہ ہے ۔۔۔ اور عقل ہر چیز کی علت یا حکمت کو نہیں سمجھ سکتی ۔۔۔ جبکہ قیاس میں عقل انسانی سے استفادہ کرتے ہوئے اک چیز کے حکم کو دوسری تک تعدی دیتے ہیں۔۔۔
لہذا قیاس کی نفی ہورہی ہے۔۔۔ ہاں اگر خود شریعت نے اس حکم کی علت کو ذکر کیا ہو۔۔ تو جہاں جہاں وہ علت ہوگی وہاں وہاں حکم بھی ہوگا۔۔۔ چونکہ علت ومعلول لازم وملزوم ہیں۔
بہر حال قیاس الگ موضوع ہے۔۔ اور اس لڑی کا عنوان نہیں۔
اک اور بات جو نہایت اہم ہے۔۔۔
یقینا ہم مانتے ہیں عقل انسانی محدود ہے۔۔۔ ضروری نہیں شریعت کے تمام احکام کی حکمت کا ہمیں علم ہو۔۔۔ مثلا صبح کی نماز دو رکعت کیوں؟ نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے ، اک رکوع کیوں؟ وغیرہ
لیکن ایسا بھی نہیں کہ شریعت کے احکام عقل کے منافی یا مخالف ہو۔۔۔ ہاں بعض مجالات ایسے ہیں جہاں عقل انسانی اپنے عجز کا اظہار کرتی ہے۔۔۔ نہ اس کی مخالفت میں حکم میں دیتی ہے، نہ مخالفت میں۔۔۔ یہ اور چیز ہے جبکہ عقل کی مخالفت اور چیز۔
ہمارے ہاں تو اک قاعدہ بھی مسلم مانا جاتا ہے۔۔۔ کہ ہر وہ چیز جس کا حکم عقل نے دیا شرع نے بھی دیا اور بالعکس۔ ۔۔ البتہ یہاں عقل سے مراد عقل سلیم ہے۔۔۔ نہ کہ عقل شہوانی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں کہ عصرحاضر میں نوجوانوں کی دین سے دلچسپی بڑھی ہے اور وہ دینی امور کی جانب راغب ہونے لگے ہیں۔ کالج کے طلبہ اوراعلیٰ تعلیم پانے والے افراد دینی امور میں دلچسپی لیتے ہیں اورنماز ودیگر عبادات کو انجام دیتے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ بات بھی بہت خوش آئند ہے کہ مذہبی احکام کے علاوہ لباس ،وضع قطع میں بھی بہت سارے نوجوان مذہبی رنگ کو پسند کرنے بلکہ اختیار کرنے لگے ہیں لیکن اسی کے ساتھ تشویش کا دوسرارخ یہ ہے کہ ہماراوہ طبقہ جو روشن خیال ہے جس نے اعلیٰ تعلیم پائی ہے وہ دین کے تعلق سے بہت سارے شکوک وشبہات کا شکار ہے۔ اس کے شکوک وشبہات یوں توبہت سارے مذہبی احکام میں ہیں مثلایہ کہ مردوں کو چارشادی کی اجازت کیوں ہے، عورت کو کیوںنہیں، عورت کو وراثت میں مرد کےمقابلہ میں آدھاحصہ کیوں ملتاہے اوراسی طرح کے دیگراعتراضات۔

حقیقت یہ ہے کہ ان سب اعتراضات کی ایک بنیاد ہے اگرہم اس بنیاد پر گفتگو کریں اوراس بنیادکوختم کریں جہاں سے یہ سارے شکوک وشبہات پیداہوتے ہیں توان کے اس طرح کے تمام اعتراضات پیداہوجائیں گےورنہ فرداًفرداًاگراعتراضات کا جواب دیاجائے تواس کی جگہ نیااعتراض پیداہوتارہے کیونکہ اعتراض کی بنیاد اپنی جگہ برقراررہے گی۔ہم نے ان کو سمجھادیاکہ عورت کے جسم کی بناوٹ اوربچہ کے نسب وغیرہ کے اختلاط کی وجہ سے وہ بیک وقت چارشوہر نہیں رکھ سکتی، کمانے کی ذمہ داری مرد پر ہے اس لئے اسے وراثت مین زیادہ حصہ دیالیکن اس سے صرف اتناہوگاکہ ایک حکم پر اس کا اعتراض ختم ہوگا لیکن دوسرے اسلامی حکم پر بعینہ ایساہی اعتراض اسے پھر سے ہوگا۔لہذا بہتر یہی ہے کہ اعتراضات کا علیحدہ علیحدہ جواب دینے کے بجائے اعتراض کی بنیاد کیاہے اس پر بات کی جائے اوراس کا جواب دیاجائےتاکہ شکوک وشبہات کی بنیاد ہی ختم ہوجائے۔

کچھ لوگ توایسے ہیں جویہ سوچتے ہیں کہ اسلام کے تمام احکام عقل اورفہم پر مبنی ہیں کوئی بات ایسی نہیں*ہے جو عقل کے دائرے سے باہر ہو،وہ ہرحکم کی حکمت جانناچاہتے ہیں ،وجہ اورسبب معلوم کرناچاہتے ہیں دوسرے لفظوں میں عقل کو مذہب پر حاکم بنایاجاتاہے۔یعنی اگرکوئی حکم عقل کے دائرہ میں آرہاہے اس کی حکمت سمجھ مین آرہی ہے تواسے تسلیم کریں گے ورنہ تسلیم نہیں کریں گے۔ اگرہمیں یہ سمجھ میں آتاہے کہ مذہب نے عورت کو نصف حصہ کیوں دیاتومانیں گے ورنہ اس حکم کو حکم ماننے سے ہی انکار کردیں گے۔ اگرہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ عورت کی دیت کی مقدار مرد کی دیت سے کم کیوں ہے توہم اس کو صنفی امتیاز اورعدم مساوات قراردے کر مسترد کردیں گے۔پھریہیں سے بسااوقات اس کی بھی تحریک چلنے لگتی ہے کہ اسلام کے فلاں حکم کی چونکہ فلاں علت ہے اور وہ اس دور مین ختم ہوچکی ہے لہذا اب وہ اسلامی حکم باقی نہیں رہا۔بقول انشاایک صاحب بحثنے لگے کہ پہلے سورگندگی کھاتاتھاس لئے حرام قراردیاگیاتھالیکن اب فارم میں اس کی پرورش کی جاتی ہے لہذا اب حرام نہیں ہوناچاہئے۔

کیاکسی چیز کو صرف اس لئے ماننے سے انکار کردیناچاہئے کہ وہ ہماری عقل کے دائرے سے باہر ہے۔ دنیا میں ہرایک کی عقل متفاوت ہے توکیاکسی قانون کی حکمت اگرکسی کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ صرف اس لئے ماننے سے انکار کردے کہ اس کی حکمت اس کی سمجھ سے باہر ہے۔ اگرکوئی ایساکرے کہ ملک کے کسی قانون کی یہ کہہ کرخلاف ورزی کرے کہ اس قانون کی حکمت اس کی سمجھ میں نہیں آئی لہذا وہ اس کے ماننے کا پابند نہیں تواسے لوگ احمق اوردیوانہ قراردیں گے لیکن اسی چیز کو مذہب کے باب میں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیاجاتاہےاوراس مذہبی حکم کو تسلیم کرنے والوں پر طعنے کسے جاتے ہیں۔یہ کیسی دوہری روش ہے کہ ملکی قانون جو ہم جیسے انسانوں*نے بنایاہے وہ اگرسمجھ میں نہ آئے پھر بھی اس کی تعمیل ضروری لیکن خداجوقادرمطلق ہے اس کے قانون کو ہم اپنی عقل پر تولتے ہیں اوراگرہماری عقل کی حدود سے وہ قانون باہر ہواتوپھرہم انکار کرنے میں دیر نہیں کرتے ۔دوسرے لفظوں*میں کہیں تو گویاہم اپنی عقل کو اللہ میاں پر نافذ کرناچاہتے ہیں کہ اللہ میاں وہی قانون بنائیں جو ہماری عقل میں سماتی ہو،یہ کتنی بڑی گستاخی ہے۔یہ گستاخی ہے اللہ کی قدرت کے ساتھ، یہ گستاخی ہے اللہ کے علیم وحکیم ہونے کے ساتھ ،یہ گستاخی ہے اپنے آپ کے ساتھ کہ ہم اپنی ناقص اورمحدود عقل کی بنیاد پر اللہ کے احکام کی حکمت متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوریہ سوچنے کی زحمت گوارانہیں کرتے کہ ہماری ناقص عقل میں حکمت سمجھ میں نہیں آتی لیکن جس حکیم وعلیم وخبیر نے یہ قانون بنایاہے اس نے ہمارے مصالح اورفوائد کیلئے ہی یہ قانون یہ اورحکم نافذ کیاہے۔

اپنے آپ سے گستاخی سے مراد یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جس چیز کی جوحد ہواس حد سے اس کو آگے بڑھانااس کی تکریم نہیں بلکہ توہین ہے۔ ابن خلدون نے اچھی مثال دی ہے کہ جس ترازو میں سونے اورچاندے تولے جاتے ہوں اس میں پہاڑ نہیں تولے جاسکتے، جس عقل میں ابھی ہم نے روز مرہ کی چیزوں کی حقیقت وماہیت دریافت نہیں کی ہے اس عقل سے احکام الہی کی حکمت جاننے اورنہ جاننے پر ماننے سے انکار کرنے لگیں*توکیایہ آپ آپ سے اوراپنی عقل سے گستاخی نہیں*ہے؟

ہوسکتاہے کہ آپ یہ کہیں کہ یہ تومذہبی ملاکی بات ہے اس کی تودن رات کی گردان ہی یہی ہے لیکن یہ صرف مذہبی دیوانے کی بات نہیں ہے ادیبوں نے بھی اسی کو تسلیم کیاہے۔اقبال کاحوالہ دوں توآپ کہیں کہ وہ توخود نیم ملانے تھے اس لئے ہم دوسرے ادیب ممتاز مفتی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ممتاز مفتی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔

’’ڈاکٹر عفت سے ایک غیرملکی کرنل نے پوپوچھا’’آپ کے مذہب میں سورکھاناکیوں حرام ہے‘‘؟ڈاکٹرعفت نے کہایہ ایک حکم ہے میراکام حکم کی تعمیل کرناہے۔ کرنل صاحب،حکم کی وجہ جانناضروری نہیں، اسے مانناضروری ہے
کرنل ہنسا اوربولاجس حکم کوآپ سمجھتی نہیں،اس پر عمل کرنے کا مقصد
ڈاکٹرعفت ہنسیں ،بولیں حیرت ہے کرنل صاحب کہ آپ فوجی افسر ہوتے ہوئے حکم کے مفہوم سے واقف نہیں، کرنل کھسیاناہوگیا۔
عفت بولیں کرنل صاحب،ہرکلب کے اصول ہوتے ہیں جن کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔مذہب بھی ایک کلب ہے یاتوآپ کلب کے ممبربنیں یانہ بنیں یہ آپ کی مرضی پرموقوف ہے لیکن رکن بن جائیں توپھر چوں وچراکی گنجائش نہیں رہتی۔
ہماری مشکل یہ ہے کہ مغرب کے زیراثرہم عقل کے اس قدردیوانے بنے بیٹھے ہیں کہ کچھ حد نہیں، حالانکہ ہرفرد جسے تھوڑی سے سوجھ بوجھ بھی حاصل ہے اس حقیقت کو جانتاہے کہ زندگی میں بہت کم باتیں ایسی ہیں جن پر عقل حاوی ہے اوربہت زیادہ باتیں ایسی ہیں جوعقل کی دسترس سے باہر ہیں۔ عقل کو ہم نے بت بنارکھاہے اس حد تک کہ یہ مانتے ہوئے کہ اللہ قدرمطلق ہے ہم عقل کے معیار کو اللہ تعالیٰ پربھی عائد کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ہم سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یوں نہیں کرناچاہئے تھااللہ تعالیٰ کے حکم کے پیچھےضرورکوئی ایسی حکمت ہوگی جوہم عقل کے زورپرسمجھ سکتے ہیں اس لئے ہم اس کی تلاش کرنے لگتے ہیں اوراگرکامیاب نہ ہوں توحکم پر شک کرنے لگتے ہیں‘‘۔
(رام دین ،ممتاز مفتی، جلد اول صفحہ14)


سوچنایہ چاہئے کہ کیا اسلامی شریعت کے کسی حکم میں صرف وہی حکمت کارفرماہے جو ہماری سمجھ میں آئی ہے اس کے علاوہ دوسری حکمتیں کارفرمانہیں ہیں۔ایک انسان ایک کام کرتاہے توایک مقصد پیش نظررہتاہے اس سےزیادہ عقل مندشخص ایک کام کرتاہے اورایک پنتھ دوکاج اس کے پیش نظررہتے ہیں اس سے بھی زیادہ عقل مند شخص ایک کام کرتاہے اورکئی مقاصد اس کے پیش نظررہتے ہیںتوپھر وہ ذات جو حکیم ،علیم اورخبیر ہے اپنے بندوں*کے تمام مصالح اورفوائد کو بخوبی جانتاہے ،وہ ذات جو حکمت کاسرچشمہ ہے اورعقل کاخالق ہے توکیااس کے حکم میں صرف اتنی ہی مصلحت ہوگی جوہماری سمجھ میں آرہی ہے؟

جب ایک انسان کے کسی کام میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہوسکتی ہیں اورسبھی کاذہن اس جانب نہیں جاسکتاتوپھر اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکام کی حکمتوں کا انسانی عقل کیسے احاطہ کرسکتی ہے جب کہ انسانی عقل روزمرہ پیش آنے والے حالات اورمعاملات کاہی احاطہ نہیں کرسکتی۔حد تویہ ہے کہ اس نے ابھی جوکچھ جاناہے سمجھاہے وہ اس کے مقابلے میں کچھ نہیں جواس نے نہیں جاناہے اورپھر کسی چیز کے بارے میں سطحی معلومات ہی حاصل کی گئی ہیں ۔حقیقت تک رسائی کسی چیز میں بھی نہیں ہوسکی ہے۔کرنٹ سے ہم کام لیتے ہیں لیکن کرنٹ کی حقیقت کیاہے یہ معلوم نہیں،انسانی جسم میں روح کی حقیقت کوتسلیم کرتے ہیں لیکن روح کیاہے ہم نہیں جانتے، دماغ کے بے شمار خانے ایسے ہیں جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی ہے کہ اس کا کام کیاہے اوروہ کیسے کام کرتاہے۔

وہ لوگ جو بزعم خود کسی حکم الہی کی حکمت سمجھتے ہیں اورپھر خود ہی موجودہ دور میں اس کی ضرورت کے نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ان کی روش نہایت خطرناک ہے۔ان کاحال اسی نادان لڑکے جیساہوگا جس کی مثال شیخ شرف الدین منیری نے بیان کی ہے۔

’’اس کو ایساسمجھوکہ ایک شخص نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر محل تعمیر کیا،وہاں انواع واقسام کی نعمتیں جمع کیں جب اس کا اخیر وقت ہوا تواس نے لڑکے کو وصیت کی کہ اس محل میں جو ترمہم وتصرف چاہناکرنالیکن ایک خوشبودار گھانس کاایک حصہ جو میں چھوڑ کر جارہاہوں وہ چاہے خشک ہوجائے اس کو باہر نہ کرنا،جب پہاڑ کی چوٹی پر بہارآئی تو پہاڑ ومیدان سب سرسبز ہوگئے،بہت سی تازہ اورخوشبودارگھانس پیداہوگئی جو اس پرانی گھانس سے زیادہ تروزتاہ تھی، اس میں بہت سی گھانس اورپھول اس محل میں آئے جن کی خوشبو نے سارے محل کو معطر کردیااوران کے سامنے اس پرانی سوکھی گھانس کی خوشبودب گئی،لڑکے نے سوچاکہ میرے والد نے یہ پرانی گھانس اس محل میں اس لئے رکھی تھی کہ اس کی خوشبوپھیلے اوریہ جگہ اس سے معطر ہو ،اب یہ سوکھی گھاس کام آئے گی اس نے حکم دیاکہ اس گھانس کو باہر پھینک دیاجائے،جس وقت محل اس گھانس سے خالی ہوگیا،ایک کالے سانپ نے سوراخ سے سرنکااورلڑکے کو ڈس لیااوراس کاکام تمام ہوگیا، سبب اس کایہ تھاکہ اس گھاس کےدوفائدے تھے ایک یہ کہ وہ خوشبودے اوردوسرے اس میں خاصیت تھی کہ وہ جہاں ہوتی ہے سانپ اس کے قریب نہیں جاسکتاگویاوہ سانپ کا تریاق تھی یہ خاصیت کسی کو معلوم نہیں تھی۔لڑکے کو اپنی ذہانت پر ناز تھا،وہ سمجھاکہ جواس کےمعلومات کے دائرہ میں نہ ہو گویاکہ قدرت خداوندی کے خزانہ میں موجود نہیں،اس کو اس آیت کامفہوم نہیں معلوم تھاومااوتیتم من العلم الاقلیلاوہ اپنی ذہانت کے غرہ میں ماراگیا۔(تاریخ دعوت وعزیمت صفحہ3/155)

اس کے علاوہ اگرہم قرآن کریم کوغوروفکر سے پڑھیں توہمیں معلوم ہوگاکہ قرآن کریم نے کوئی بھی حکم دیاہے تویہ نہیں کہاہے کہ اس کوجانواورسمجھوبلکہ صرف اتناہے کہ اس کومانو،ہرجگہ قرآن کریم کا یہی انداز تخاطب ہے اے لوگوں جنہوں نے مانااورتسلیم کیاہے(یاایھاالذین آمنو)لیکن بدقسمتی یہ رہی ہے کہ بعض لوگوں نے جاننے اورماننے کا یہ فرق نظروں سے اوجھل کردیا۔قرآن یہ کہتاہے کہ یہ حکم ہے اسے مانو اورتسلیم کرو(یاایھاالذین آمنوآمنو)لیکن ہمارااصرار اورمطالبہ ہوتاہے کہ ہم سمجھیں گے تو مانیں گے ہم جانیں گے تومانیں گے۔

مولانامناظراحسن گیلانی اسی تعلق سے لکھتے ہیں

’’مذہب اورمذہبی حقائق وامور کے متعلق مذکورہ بالااصول ایک ایسی جانی پہچانی بات ہے کہ مختلف مذاہب کے مقابلہ وموازنہ میںعمومادنیااسی اصول سے کام لیتی رہی ہے ۔پچھلے دنوں یورپ کے ارباب فکرونظرنے اسی سلسلے میں غلو سے کام لیتے ہوئے مذہبی حلقوں*میں کچھ ایسی باتیں پھیلادیں کہ جاننے اورماننے کافرق خام کاروں کے سامنے سے کچھ ہٹ ساگیا اورمذہب جس کی طرف سےہمیشہ آمنو یعنی ماننے کا مطالبہ پیش ہوتارہایعنی دنیا سے کہاجاتاتھاکہ مانو لیکن سننے والے کہنے لگے کہ ہم تو ان چیزوں کونہیں جانتے،گویاگلاب کے پھول کو پیش کرکے کہاجائے کہ اس کو سونگھواورجواب میں کہہ دیاجائے کہ گلاب کی خوشبو کوہم سن نہیں رہے ہیں۔پچھلے دنوں مغربی خیالات سے متاثرذہنیتوں میں الملائکۃ،الجنۃ،النار،البر زخ ،یہ اوراسی قسم کے مذہبی حقائق کے متعلق تذبذ ب اورشک کی جوکیفیت پیداکی گئی اس کی بنیاد جاننے اورماننے کے اس خلط مبحث ہی پر قائم تھی ،مذہب توکہتاتھاکہ فرشوںکو مانو لیکن خواہ مخواہ کی عقلیت کے مدعیوں*کی طرف سے کچھ ایسی باتیںپیش ہونے لگیںجن سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم فرشتوںکو دیکھ نہیں رہے ہیں حالانکہ ان سے دیکھنے کامطالبہ ہی کب کیاگیاتھا‘‘۔
(دجال کا فتنہ اوراس کے خدوخال،مولانا مناظراحسن گیلانی)


عقل قدرت کی طرف سے انسان کو سب سے انمول تحفہ ہے۔ یہ انسانیت کی تذلیل ہے کہ عقل کے استعمال کو حرام قرار دے دیا جائے۔

کیا آپکو علم ہے کہ ہر مذہب نے اپنے اندھے مقلد پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے عقل کے استعمال کو ہی حرام قرار دیا ہے۔۔۔ بلاشبہ عقل اور مذہب ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ عقل ہمیشہ مذہب کو چیلنج کرتی رہے گی۔

آج داعش جب یزیدی عورتوں اور بچیوں کو کنیز باندیاں بنا کر انہیں بازاروں میں سیکس بالجبر کے لیے فروخت کر رہے ہیں، تو وہ آپ پر بھی زبردست کاری ضرب لگا رہے ہیں کہ یہ آپ ہی لوگ ہیں (مسلمان) جنہوں نے فقط "عقل" کی بنیاد پر شریعت کے حلال اللہ کو اپنی طرف سے چودھویں صدی میں حرام قرار دے دیا (یعنی غلامی)۔ ۔۔۔ اور ان مسلمانوں کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب انکے پاس داعش اور انکے حمایتیوں کی اس دلیل کا کوئی جواب نہیں ہوتا اور وہ کبھی اپنی ایک بغل میں اپنا منہ دے لیتے ہیں، تو کبھی دوسری بغل میں۔
داعش کھل کر کہہ رہے ہیں کہ ان مسلمانوں نے "عقل" کی بنیاد پر حلال اللہ کو حرام قرار دے کر کفر کیا ہے۔

فلاح اس میں ہے کہ جہاں "انسانیت" پر ظلم و ستم کی بات آئے، وہاں ہر مذہب، ہر رسم و رواج کی دیواریں گرا دینی چاہیے ہیں۔ وگرنہ مذہب و رسم و رواج کے نام پر آپکا انسانی ضمیر بلیک میل ہوتا رہے گا۔

مرتد کے نام پر آج کے دور میں انسان کا قتل، مذہب کی اسی اندھی تقلید کا شاخسانہ ہے۔
توہین رسالت کے نام پر ہزاروں لوگوں کو قید و سلاسل کی سزا و قتل بھی مذہب کی اسی اندھی تقلید کا شاخسانہ ہے۔

مذہب کی یہ اندھی تقلید اور عقل کا یہ قتل فقط مسلمانوں کا ہی وطیرہ نہیں، بلکہ شائد ہر مذہب میں ہی یہ بیماری موجود ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ بیماری شائد سب سے زیادہ موجود ہے۔
 

حسینی

محفلین
کیا آپکو علم ہے کہ ہر مذہب نے اپنے اندھے مقلد پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے عقل کے استعمال کو ہی حرام قرار دیا ہے۔۔۔ بلاشبہ عقل اور مذہب ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ عقل ہمیشہ مذہب کو چیلنج کرتی رہے گی۔
میرا خیال ہے ایسا ہرگز نہیں۔۔۔
اسلام نے (خصوصا مذہب تشیع نے ،کہ جن کے ہاں عقل احکام شریعت کے مصادر میں سے اک مصدر شمار ہوتی ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی شیعہ اصول فقہ کی کتاب آپ اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں) کبھی بھی عقل کی مذمت نہیں کی۔
بلکہ الٹا عقل استعمال کرنے کی ترغیب دی ہے۔۔۔ اک ساعت کے تفکر کو ستر سال کی عبادت کے برابر قرار دیا ہے۔۔۔ قرآن نے جو لوگ تفکر نہیں کرتے، عقل استعمال نہیں کرتے ان کو چوپائیوں سے بدتر قرار دیا ہے۔
اسلام کی تعلیمات میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو عقل کی ضد ہو۔۔۔ ہاں بعض جگہ آکر عقل کہتی ہے۔۔۔ کہ یہ میرا میدان نہیں۔۔۔ یہاں صرف وحی کی رسائی ہے۔۔۔ یہ عقل کی محدودیت ہے۔۔ مخالفت ہرگز نہیں۔
 

ابن جمال

محفلین
اس مضمون کا عنوان یہ نہیں ہے کہ ا’سلام میں عقل کےاستعمال کی اجازت نہیں‘یاعقل کااستعمال ممنوع وحرام ہے، اس مضمون کاعنوان ہے کہ عقل کوشریعت کے تابع رکھئے، اورمیں نے پورے مضمون میں اسی پر بات کی ہے کہ عقل کااستعمال کیاجائے کہ وہ خداکی ایک نعمت ہے اورخداکی نعمت سے استفادہ نہ کرناکفران نعمت ہے لیکن اس کی بھی کچھ حدود وقیود ہیں، جب کوئی واضح شرعی حکم آجائے توپھر عقل کی بنیاد پر اس کی نفی کرنا یہ مناسب رویہ نہیں ہے۔

مرتد کے نام پر آج کے دور میں انسان کا قتل، مذہب کی اسی اندھی تقلید کا شاخسانہ ہے۔
توہین رسالت کے نام پر ہزاروں لوگوں کو قید و سلاسل کی سزا و قتل بھی مذہب کی اسی اندھی تقلید کا شاخسانہ ہے۔
مذہب کی یہ اندھی تقلید اور عقل کا یہ قتل فقط مسلمانوں کا ہی وطیرہ نہیں، بلکہ شائد ہر مذہب میں ہی یہ بیماری موجود ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ بیماری شائد سب سے زیادہ موجود ہے۔


میں ان مسائل میں الجھنانہیں چاہتاکیونکہ پھر تھریڈ کا موضوع تبدیل ہوجائے گااوربات شروع ہوتی ہے کسی اورموضوع پر اورختم کسی اورموضوع پرہوتی ہے لیکن انسان کوکم ازکم اتناہی توسوچناچاہئے کہ توہین رسالت کے نام پر ہزاروں لوگوں کوقید وسلاسل کی سزا میں غلط کیاہے،لوگوں کوغلط طریقے سے کیس میں پھنسانایاپھرمذکورہ سزا،
آج بھی ہندوپاک یابرصغیر میں ہزاروں بے گناہ افراد مختلف جیلوں میں قید بے گناہی کی سزابھگت رہے ہیں انہیں الٹے سیدھے طریقے سے پھنسایاگیاہے لیکن اس پر کوئی یہ نہیں کہے گاکہ یہ سزائیں غلط ہیں بلکہ بے گناہوں کو مذکورہ کیسوں میں پھساناجاناغلط ہے۔ جولوگ دنیاوی کیسوں میں اس فرق کوملحوظ رکھتے ہیں وہی لوگ ان سامنے اورسیدھی سی بات کو توہین رسالت والے کیس میں نظرانداز کردیتے ہیں۔

فلاح اس میں ہے کہ جہاں "انسانیت" پر ظلم و ستم کی بات آئے، وہاں ہر مذہب، ہر رسم و رواج کی دیواریں گرا دینی چاہیے ہیں۔ وگرنہ مذہب و رسم و رواج کے نام پر آپکا انسانی ضمیر بلیک میل ہوتا رہے گا۔

انسانیت پر ظلم ہو توظلم کرنے والوں کا محاسبہ کرناچاہئے،لیکن اس کے بجائے مذہب اورتمام رسوم ورواج ہی ختم کردیاجائے یہ مارے گھٹنہ پھوٹے سرنہیں ہے۔ اچھاچلئے ہم نے ہرمذہب اورہررسم ورواج کی بنیادوں کی بیخ کنی کردی توکیااس سے فلاح مل جائے گا۔
تاریخ سے انسان نے یہ سیکھاہے کہ اس نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا،یعنی ہوتایہ ہے کہ ایک انتہاکے مقابل دوسری انتہااختیار کرلی جاتی ہے۔ اگرکچھ لوگ مذہب کانام لے کر ظلم کرتے ہیں تو مذہب کی دیواریں گرادیناکیادوسری انتہااورظلم نہیں ہے۔


اج داعش جب یزیدی عورتوں اور بچیوں کو کنیز باندیاں بنا کر انہیں بازاروں میں سیکس بالجبر کے لیے فروخت کر رہے ہیں، تو وہ آپ پر بھی زبردست کاری ضرب لگا رہے ہیں کہ یہ آپ ہی لوگ ہیں (مسلمان) جنہوں نے فقط "عقل" کی بنیاد پر شریعت کے حلال اللہ کو اپنی طرف سے چودھویں صدی میں حرام قرار دے دیا (یعنی غلامی)۔ ۔۔۔ اور ان مسلمانوں کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب انکے پاس داعش اور انکے حمایتیوں کی اس دلیل کا کوئی جواب نہیں ہوتا اور وہ کبھی اپنی ایک بغل میں اپنا منہ دے لیتے ہیں، تو کبھی دوسری بغل میں۔
داعش کھل کر کہہ رہے ہیں کہ ان مسلمانوں نے "عقل" کی بنیاد پر حلال اللہ کو حرام قرار دے کر کفر کیا ہے۔


مسئلہ یہ ہے کہ اگرداعش نے مذہب کانام لے کر ایک فرقہ پر بلکہ متعدد فرقوں پر ظلم کئے انہیں قتل کرڈالاتہہ تیغ کرڈالااوران کی زندگی دشوار کردی،تواس بنیاد پر مذہب سے نفرت کی جائے
لیکن اسی منطق اوراستدلال کی بنیاد پر اگریہ کہاجائے کہ جب امریکہ جیسے روشن خیال ملک نے جھوٹ کاسہارالے کر عراق کوتباہ کردیااورآج تک وہاں امن وسکون دوبارہ نہیں لوٹا، لیبیاکوتباہ وبرباد کردیااورآج لیبیاکراہ رہاہے اوراس کے ایک ملک ہونے پربھی شک ساہوتاہے ،افغانستان میں جوکچھ کیاوہ بھی ظاہر ہے تواس بنیاد پر لامذہبی سے کیوں نہ نفرت کی جائے،کیوں نہ ان کو دھتکاراجائے۔
جہاں تک غلام بنانے کی بات ہے تواس پر بحث کیلئے یہ تھریڈ موضوع نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اس اقدام کو کس عالم نے جائز قراردیاہے۔اولاتوان کی خلافت کو ہی لوگ غیرمعتبر مان رہے ہیں پھر ان کے اقدامات کی تائید کیسے ہوسکتی ہے جب ان کی خلافت غلط ہوگی توان کا جہاد بھی غلط،جب جہاد غلط توجہاد کے نام پر لونڈی اورغلام بنائے جانے والے اقدامات بھی غلط ہوں گے۔ اس پر مزید باتیں کی جاسکتی ہیں لیکن پہلے ہی کہہ چکاہوں کہ یہ تھریڈ اس کیلئے موزوں نہیں ہے۔ اگرموضوع کے تعلق سے مزید اشکالات ہوں تومراسلات کا سلسلہ جاری رکھئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔والسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
کچھ ممبران کی خواہش پر میں نے خالصتاً اسلام میں غلامی کے متعلق تھریڈ شروع کیا تھا، مگر منتظمین کی طرف سے کہا گیا کہ محفل پر اسے شروع نہ کیا جائے۔ آپ چاہتے ہیں تو پرائیویٹ میں گفتگو کر سکتے ہیں۔

میں ان مسائل میں الجھنانہیں چاہتاکیونکہ پھر تھریڈ کا موضوع تبدیل ہوجائے گااوربات شروع ہوتی ہے کسی اورموضوع پر اورختم کسی اورموضوع پرہوتی ہے لیکن انسان کوکم ازکم اتناہی توسوچناچاہئے کہ توہین رسالت کے نام پر ہزاروں لوگوں کوقید وسلاسل کی سزا میں غلط کیاہے،لوگوں کوغلط طریقے سے کیس میں پھنسانایاپھرمذکورہ سزا،
مرتد کے سلسلے میں آپ نے گفتگو نہیں کی۔
اور توہین رسالت میں غلطی فقط اسکے "غلط استعمال" کرنے والوں کی نہیں ہے، بلکہ پورے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس "قانون" کو بنایا ہے ۔۔۔۔ اور وہ روایات بھی شامل ہیں جن کی بنیاد پر یہ قانون بنایا گیا، جنکے مطابق اندھے صحابی نے اپنی کنیز عورت کا قتل کر دیا کیونکہ اس نے گستاخی کی تھی ۔۔۔۔ اور اندھے صحابی کو کسی گواہی پیش کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ واقعی اس کنیز باندی نے گستاخی کی یا نہیں کی۔
اور بذاتِ خود انسان غصہ میں برا بھلا بول جاتا ہے، مگر اسکا مطلب ہرگز نہیں کہ سزائے موت دینی شروع کر دی جائے۔ خود مسلمان ہندوؤں کے دیوتاوؤں کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ قادیانیوں کے نبی مرزا صاحب کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ ۔۔۔ مسلمانوں کے نزدیک چاہے وہ نبوت کے جھوٹے دعوے دار ہوں، مگر قادیانی کمیونٹی کے لیے تو وہ نبی ہیں۔
میں تو صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کسی کو بھی برا بھلا کہنا برا فعل ہے، مگر اس پر گستاخی کے نام پر انسانی جانوں کا خون بہا دینا اس سے بھی برا فعل ہے۔
فلاح اس میں ہے کہ جہاں "انسانیت" پر ظلم و ستم کی بات آئے، وہاں ہر مذہب، ہر رسم و رواج کی دیواریں گرا دینی چاہیے ہیں۔ وگرنہ مذہب و رسم و رواج کے نام پر آپکا انسانی ضمیر بلیک میل ہوتا رہے گا۔
انسانیت پر ظلم ہو توظلم کرنے والوں کا محاسبہ کرناچاہئے،لیکن اس کے بجائے مذہب اورتمام رسوم ورواج ہی ختم کردیاجائے یہ مارے گھٹنہ پھوٹے سرنہیں ہے۔ اچھاچلئے ہم نے ہرمذہب اورہررسم ورواج کی بنیادوں کی بیخ کنی کردی توکیااس سے فلاح مل جائے گا۔ تاریخ سے انسان نے یہ سیکھاہے کہ اس نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا،یعنی ہوتایہ ہے کہ ایک انتہاکے مقابل دوسری انتہااختیار کرلی جاتی ہے۔ اگرکچھ لوگ مذہب کانام لے کر ظلم کرتے ہیں تو مذہب کی دیواریں گرادیناکیادوسری انتہااورظلم نہیں ہے۔

یہ استدلال درست نہیں ہے۔
غلامی کے سزاوار داعش نہیں، بلکہ بذاتِ خود مذہب ہے جس نے اسے حلال کیا تھا۔
بلا شبہ مذہب و رسوم و رواج کی دیواریں انیسویں صدی میں توڑی گئیں اور غلامی کو ختم کیا گیا، اور یہ انسانیت کی فلاح کی طرف بہت بڑا قدم تھا۔

مسئلہ یہ ہے کہ اگرداعش نے مذہب کانام لے کر ایک فرقہ پر بلکہ متعدد فرقوں پر ظلم کئے انہیں قتل کرڈالاتہہ تیغ کرڈالااوران کی زندگی دشوار کردی،تواس بنیاد پر مذہب سے نفرت کی جائے
لیکن اسی منطق اوراستدلال کی بنیاد پر اگریہ کہاجائے کہ جب امریکہ جیسے روشن خیال ملک نے جھوٹ کاسہارالے کر عراق کوتباہ کردیااورآج تک وہاں امن وسکون دوبارہ نہیں لوٹا، لیبیاکوتباہ وبرباد کردیااورآج لیبیاکراہ رہاہے اوراس کے ایک ملک ہونے پربھی شک ساہوتاہے ،افغانستان میں جوکچھ کیاوہ بھی ظاہر ہے تواس بنیاد پر لامذہبی سے کیوں نہ نفرت کی جائے،کیوں نہ ان کو دھتکاراجائے۔

داعش کا مسئلہ ثانوی ہے۔۔۔۔ بنیادی خامی مذہب میں ہے جس نے اسے شریعت میں حلال رکھا ہے۔
 
Top