نظریہ ارتقاء پر اعتراضات اور ان کے جواب

ایک رائے یہ بھی ہے

نظریہ ارتقا اور مسلم نوجوان
ایم ودودساجد
آج کل انسانی ارتقا کے نظریہ پر پھر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ایسے موضوعات وقفہ وقفہ سے اٹھائے جاتے رہتے ہیں۔جب مسلمان نظریہ ارتقا پر بحث کرتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔میں ان سے کچھ کہتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس دلائل ہیں تو آپ خائف کیوں ہیں اور یہ کہ علمی بحث تو ہونی چاہئے۔

انسانی ارتقا کا نظریہ دو صدیوں قبل سب سے پہلے چارلس ڈارون اور الفریڈ والیس نے پیش کیاتھا۔اس وقت بھی اس کی مخالفت ہوئی اور آج بھی ہوتی ہے۔یہاں تک کہ خودڈارون کے ہم مذہبوں نے بھی اس کو سخت ناپسند کیا۔سربیا میں اس نظریہ کی تعلیم پر پابندی عاید تھی لیکن اب اس پابندی کو اٹھا لیا گیا ہے۔جب میں غور کرتا ہوں کہ اس بحث کو اٹھانے سے کس کو فائدہ ہوتا ہے تو کوئی سرا نہیں ملتا۔لیکن جب اس کے نقصان پر غور کرتاہوں تواندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ہوتا ہے۔

انہیں اپنے وقت کی قیمت کا اندازہ نہیں ہے لیکن اس لغو بحث میں الجھ کر انتہائی قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں۔ اس طرح کی بحثوں میں مسلم نوجوانوں کوزیادہ لطف آتا ہے۔وہ موضوع کی حساسیت کو سمجھے بغیر اس میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ڈارون نے کیا کہا اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔سائنس ‘تاریخ اور دوسرے موضوعات کے طلبہ اس سے بخوبی واقف ہوہی جاتے ہیں۔لیکن مختصر یہ ہے کہ ڈارون کے خیال میں انسان آج جس شکل میں ہے وہ اس کی ارتقائی شکل ہے۔وہ کہتا ہے کہ انسان مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا بندر بنا اور پھرزمانے کے ساتھ ساتھ ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا وہ انسان بن گیا۔

مجھے ایک مرتبہ قرآن ‘سائنس اور کائنات کے موضوع پر منعقد ایک کانفرنس میں متعلقہ تقاریرکے بعد اظہار خیال کرنے کو کہا گیا۔میں نے محسوس کیا کہ بعض لوگ قرآن کی تصدیق کیلئے سائنس کو معیار تصور کرتے ہیں۔لہذا میں نے عرض کیا کہ اسلام علمی بحث سے نہیں روکتا لیکن بحث کے چند اصول ہوتے ہیں اور اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کوکچھ اصولوں کا پابند کیا ہے۔

مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ توحید اور اللہ کی قدرت کاملہ پرایمان بالغیب ہے۔اگر کوئی نظریہ اس بنیادی عقیدہ سے ٹکراتا ہے تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس نظریہ سے اجتناب کرے۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی تعلیمات ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی ہیں جبکہ سائنس انسان کی دریافت ہے ۔اس لئے سائنس کی کوئی بھی تحقیق تو تصدیق کی محتاج ہوسکتی ہے لیکن قرآن کا کوئی نظریہ اور اس کی کوئی اطلاع کسی تصدیق کی محتاج نہیں ہے۔

مجھے ڈارون کی تھیوری پر کوئی کلام کرنے کا اس لئے حق نہیں ہے کہ میں اس سلسلہ میں زیادہ کچھ نہیں جانتا۔لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس پر سانس لینے والے اولین انسان کا نام آدم تھااور اسی کی نسبت سے انسان کو آدمی کہا جاتا ہے۔

قرآن بتاتا ہے کہ جب خدانے انسان کی تخلیق کا ارادہ کیا تو فرشتوں سے کہا کہ’ میں زمین میں اپنا نائب بنانے جارہا ہوں‘۔فرشتوں نے کہا کہ کیا آپ زمین میں اس کو (اپنانائب )بنائیں گے جو اس میں فساد برپا کرے اور خون بہائے؟جب کہ ہم آپ کی حمد وثنااور تقدیس بیان کرتے(ہی) ہیں۔تو خدانے جواب میں کہا تھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔قرآنی نظریہ اور اسلام کے عقیدہ کے مطابق انسان کو اللہ نے انسان کی ہی شکل میں پیدا کیا اور اس پر بھی اولین انسان کے طورپرآدم علیہ السلام جیسے جلیل القدر انسان کو پیدا کیا۔اور زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہی ان کی تشکیل کی۔قرآن میں دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے لقدخلقنا الانسان فی احسن تقویم یعنی ہم نے انسان کو بہترین صورت میں بنایا ہے۔سائنس کے مطابق دنیا اور انسان کی تاریخ اربوں کھربوں سال پرانی ہے۔اور مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ تخلیق آدم سے پہلے ہی نبی آخرالزماں کا ذکر مبارک‘ عرش الہی پر موجود تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اللہ کے منصوبہ کے عین مطابق ہوئی ہے۔اس لئے یہ تھیوری پیش کرنے والا ناقص العقل اور خداکے نظام تخلیق سے ناواقف انسان ہے۔جب کہ اس تھیوری پر بحث کرنے والے اس سے بھی زیادہ نادان ہیں۔دوسرے اس بحث میں الجھیں تو ان پر کوئی زور نہیں لیکن مسلمان اس بحث میں الجھیں تو افسوس ہوتا ہے۔

انسانی طبقات میں جو طبقہ قرآنی زبان میں ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ہے وہ اگر اس فضول اور لغو بلکہ متصادم بہ اسلام نظریہ پر بحث کرے تو اس کو نہ صرف وقت کا زیاں کہا جائے گا بلکہ اس کو اللہ کی قدرت وطاقت اور اس کے نظام تخلیق کے خلاف ’اہانت کی کوشش‘ سمجھاجانا چاہئے۔ خدانے حضرت آدم کو تخلیق کرکے انہیں قرآنی زبان میں ’تمام اشیا کے نام سکھائے‘۔اور نہ صرف یہ بلکہ آدم سے کہا کہ وہ فرشتوں کے سامنے ان تمام اشیا کے نام سنادیں۔ ڈارون کی تھیوری مفروضات پر مبنی ہے جبکہ اللہ کے نظام تخلیق کی تفصیل ہرلمحہ نظرآنے والے حقائق پرمبنی ہے جن کو قرآن نے صاف صاف بیان کردیا ہے۔

ڈارون کی تھیوری توقیر انسانی کے خلاف ہے ۔اس لئے کہ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات کا عنوان دیا ہے۔اس نے جس جانداراور بے جان کو جس کام کیلئے مناسب سمجھااسے ایک خاص شکل میں بنادیا۔اس کا سارا نظام قرآن کی زبان میں ’کل یجری لاجل مسمی‘ ہے۔یعنی ہر چیزایک معین میعاد تک کیلئے رواں دواں ہے۔ڈارون کی تھیوری پر ذرہ برابر بھی یقین کرکے بحث کرنے والے‘ خداکوبالواسطہ طورپر نعوذ باللہ منصوبہ سازی سے عاری ہستی قرار دیتے ہیں۔جبکہ اللہ کا کوئی کام پلاننگ اورعلت سے خالی نہیں ہے۔

ایسی لغو بحثوں میں اس لئے بھی نہیں الجھنا چاہئے کہ اس بھاگ دوڑ کی زندگی نے انسان کے ہاتھوں سے وقت کی برکت چھین لی ہے۔پہلے زمانہ کے لوگ عمر کا آدھے سے زیادہ حصہ عبادت میں گزارتے تھے ‘آج عبادت کیلئے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔تو کیا یہ دانشمندی کا تقاضا نہیں ہے کہ جب بھی وقت ملے آپ خدا کا ذکر کریں۔سفر میں ہوں یا حضر میں ‘فرصت ہو تو خدا کی کائنات میں غور وفکر کریں۔قرآن بارباراسی غور وفکر اور تدبر وتفقہ کی دعوت دیتا ہے۔

ہمارے پاس تمام انسانی سائنسوں سے بہترخدائی سائنس اور تمامفروضات سے بہتر حقائق موجود ہیں ۔ لیکن ہم ہیں کہ نادانوں کے ذریعہ چھیڑی گئی بے ہودہ بحث میں پڑکر اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کرتے ہیں اور بالواسطہ طوپر اہانت الہی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔کوئی ڈارون کے ہم نواؤں سے پوچھے کہ آج یہ ارتقائی عمل کیوں رک گیا ہے؟اور کیوںآج کے بندر کوئی بامعنی جملہ ادا نہیں کرتے؟ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس طرح کی بحثیں مسلمانوں کو اصل کام سے ہٹاکر خداکے نظام سے باغی بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔کیا مسلمان اور خاص طورپربحث ومباحثہ میں وقت گزاری کرنے والے مسلم نوجوان اس نکتہ پر غور کریں گے؟
 

زیک

مسافر
http://fgulen.com/ur/books-pk/islam...heses-have-been-challenged-and-even-disproved
ڈارون ازم کے غلط ثابت ہو چکنے کے باوجود اسے زندہ رکھنے کی کوششوں کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں؟

تحریر فتح اللہ گلن پر 17 نومبر 2011. میں پوسٹ کیا گیا اسلام اور دور حاضر
ٍمحمد فتح اللہ گلین مشرقی ترکی کے شہر ارض رو م میں ہوئے ۔آپ ایک مذہبی سکالر ،مفکر ،ممتازایل قلم اورشاعر ہیں ۔ انہوں نے مذہبی علوم میں بہت سے قابل ذکر مسلم علماء اور روحانی پیشواؤں سے تربیت حاصل کی ۔گلین نے جدید معاشرتی اورطبعی علوم کے اصول وضوابط اورنظریات کا بھی عمیق مطالعہ کیا۔علم وفضل میں غیر معمولی مہارت اورذاتی مطالعہ میں ارتکاز کی بناپر وہ جلد ہی اپنے ہم عصروں سے آگے نکل گئے ۔1958ء میں زبردست امتحانی نتائج کے حصول کی وجہ سے انہیں ریاستی مبلغ کا اجازت نامہ دیا گیا اور جلد ہی ترکی کے تیسرے بڑے صوبے ازمیر میں ایک اہم عہدہ پر ترقی دے دی گئی ۔یہاں پر گلین نے اپنے خیالات کو واضع کرنا شروع کیااوراپنے سامعین کی تعداد میں اضافہ کیا۔اپنے مواغط اورتقاریر میں انہوں نے وقت کے اہم معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا۔ان کا بنیادی مقصد نو جوانوں کو اس بات پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ دانشمندانہ روحانیت اوراحتیاط کے ساتھ عقلی روشن خیالی اورشریف النفس سرگرمیوں میں ہم آہنگی پیداکریں

ڈارون ازم واحد نظریہ ہے،جسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا گیا ہے اور اب اس پر جان کنی کی کیفیت طاری ہونے کے بعد اسے زندہ رکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ایک طرف بعض سائنس دان ڈارون کے نظریے کے دفاع کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تو دوسری طرف بعض سائنس دان اس پر تنقید کے تباہ کن تیر پھینک کر اسے پرزہ پرزہ کر رہے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس نظریے کو تسلیم کرنا دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔یہ بین الاقوامی علمی محافل کا موجودہ منظرنامہ ہے۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ ایک مخصوص عرصے تک یہ نظریہ علمی دنیا میں اپنے وجود کو برقرار رکھے گا۔ ماضی میں اس موضوع پر مشرق و مغرب میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں،اب بھی لکھی جا رہی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی۔ہمیں آغاز میں ہی اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ آج مشرق و مغرب کی تہذیب مادہ پرستانہ فلسفے پر قائم ہے۔ امریکہ کی مادہ پرستی روس کی مادہ پرستی سے کچھ کم نہیں ہے۔آج کی مغربی تہذیب پر امریکی تہذیب کے گہرے اثرات ہیں۔جب ہم مشرق کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہمارا اشارہ جغرافیائی پہلو کی طرف ہوتا ہے۔فکری پہلو مراد نہیں ہوتا۔اس سے پہلے سوال کے جواب میں ہم یہ بات کہہ چکے ہیں کہ آج مشرق و مغرب کے درمیان جغرافیائی حدود مٹ چکی ہیں،اسی لیے ہم روس کو بھی مغرب ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
دین اور سائنس کے بارے میں فریقین کا نظریہ تقریباً ایک جیسا ہے۔دین کے بارے میں مغرب کا نظریہ روسو اور رینان کا پیش کردہ نظریہ ہے،جس کے مطابق دین معاشرتی زندگی کی ایک چھوٹی مگر ناگزیر اکائی ہے،دوسرے لفظوں میں ان کے ہاں دین کو کبھی بھی مقصد اور ہدف کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی،بلکہ وہ اسے سعادت کے حصول کے متعدد ذرائع میں سے ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسی لیے اسے اختیار کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔آج روس بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔{qluetip title=[(۱)]}(۱) مؤلف نے یہ بات ۱۹۸۲ء میں کہی تھی۔{/qluetip} اگرچہ اس نظریے کو روسی نظام کی ناکامی کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن ہماری رائے میں یہ دین کا صحیح مفہوم نہیں ہے۔
علم اور اس کی تمام فروع کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر ایک جیسا ہے۔ آج پوری دنیا کی یہی صورتحال ہے،لیکن اس کے باوجود یورپ اور امریکا میں مادہ پرستانہ نقطہ نظر کے حامل بہت سے سائنس دانوں نے ڈارون ازم پر شدید تنقید کی ہے اور اس کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جسے ہدفِ تنقید نہ بنایا ہو،تاہم روس میں ڈارون ازم پر تنقید کرنا بہت خطرناک اقدام سمجھا جاتا ہے اور اس قسم کی تنقید صرف خفیہ طور پر کی جاتی ہے۔
روس اور اس سے وابستہ ممالک اس نظریے پر اصرار اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔چونکہ ان ممالک کی فاسد نظریاتی بنیادیں تاریخی مادہ پرستی (Historical Materialism) پر استوار ہیں،اس لیے ان کے لیے نظریہ ارتقا کا درست ثابت رہنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جونہی مادہ پرستانہ فلسفہ اورتاریخی مادہ پرستی کی عمارت زمین بوس ہوگی فوراً ماورائے طبیعت مظاہر سامنے آ جائیں گے اور انسان معاشی اور مادی اقدار کی بہ نسبت روحانی اور معنوی اقدار کو زیادہ اہمیت دینے لگے گا،جس کا نتیجہ اس پر قائم فکری نظام کے ناکام ثابت ہونے کی صورت میں نکلے گا۔یہی وجہ ہے کہ وہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ڈارون ازم کو منظرعام پر لاتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک جاری رہے گا۔
ترکی میں اس نظریے کا دفاع اور اسے عام کرنے والے جامعات کے بعض اساتذہ اور سررشتہ تعلیم کے بعض ارکان ہیں،جو‘‘علم حیاتیات’’کی تعلیم دیتے ہوئے اس نظریے کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کر کے خام ذہنوں کو خراب کرتے ہیں۔
میں یہاں اس موضوع کا تفصیل کے ساتھ علمی جائزہ نہیں لوں گا۔میں اپنے ایک لیکچر میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کر چکا ہوں نیز بعض دوستوں نے عقیدے کی رو سے بھی اس کا جائزہ لیا ہے اور ان کی یہ کاوش مختلف کتابوں کی صورت میں منظرعام پر آچکی ہے،لہٰذا میں اس موضوع کی تفصیلات کے لیے ان کتابوں کی طرف مراجعت کا مشورہ دے کر یہاں صرف اسی پہلو کے ذکر پر اکتفا کروں گا جو سوال و جواب کی نشست کے لئے موزوں ہے۔
اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے پانی میں موجود امینوں ترشے یک خلوی حیوانات مثلاً امیبا میں تبدیل ہوئے اور پھر ارتقا کے نتیجے میں مختلف شکلوں کے حیوانات وجود میں آئے پھر یہ حیوانات مزید ارتقائی مراحل سے گزر کر نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ جانوروں مثلاً بندروں یا جیسے کہ بعض کا خیال ہے کتوں کی صورت اختیار کر گئے اور پھر ارتقائی مراحل کی آخری کڑی کے طور انسان وجود میں آیا۔یہ لوگ بعض مقامات سے دریافت ہونے والے بعض ڈھانچوں کو اس مفروضے کی صحت کی دلیل کے طورپر پیش کرتے ہیں۔
نیز انہوں نے ان ڈھانچوں کو جانوروں کی مختلف انواع و اقسام کی ابتدائی کڑیاں اور ان کے اسلاف قرار دیا ہے،مثلاًانہوں نے ان میں سے بعض کو گھوڑوں کے اسلاف قرار دیا ہے تو بعض کو جیلی فش(Jellyfish) اور کائی (Algae) کے آباء واجداد ٹھہرایا ہے اور دعوی کیا ہے کہ ان حیوانات نے ہزاروں سال کے بعد موجودہ شکل و صورت اختیار کی ہے۔ لیکن جدیدترین سائنسی انکشافات اس خیال کی تردید کرتے ہیں،چنانچہ حشرات الارض جنہیں سائنس دان سخت جان حیوانات تصور کرتے ہیں ساڑھے تین سو ملین سال پہلے اپنے ظہور سے لے کر اب تک ایک ہی شکل و صورت کے حامل ہیں۔
حشرات،رینگنے والے حیوانات اور سمندری بچھوؤں کی آج بھی بالکل وہی شکل و صورت ہے،جو پانچ سو سال پہلے ان کے ڈھانچوں کی تھی۔ماہرین حیوانات کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق موجود نہیں۔جب اتنے چھوٹے جانداروں میں بھی کسی قسم کا تغیروتبدل نہیں ہوا تو ڈارون ازم کے حامیوں کا یہ دعوی کہ گھوڑے کے سموں میں تغیر ہوا ہے درست نہیں۔انسٍان بھی اپنی تخلیق کے وقت سے آج تک اپنی شکل و صورت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ایک طرف ڈارون ازم کے حامی یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہزاروں قسم کے جانداروں میں تغیروتبدل ہوا ہے، لیکن دوسری طرف ہمارے سامنے پانچ سو ملین سال پرانے جاندار زندہ موجود ہیں اور ان لوگوں کے دعوے کو زبانِ حال سے جھٹلا کر کہہ رہے ہیں: ‘‘ہرگزنہیں ... ہم میں کسی قسم کا تغیروتبدل اور ارتقا نہیں ہوا۔‘‘
نظریہ ارتقا کے حامی کہتے ہیں کہ حیوانات کا ارتقا اور ان میں تبدیلی مصادفت کے طور پر ایک لمبے عرصے میں بہت سست رفتاری سے رونما ہوتی ہے اور کسی بھی جاندار کا ارتقا اور تغیر اس کے ماحول اور حالات پر موقوف ہوتا ہے،مثلاً زمین کا سورج سے تعلق،اس سے دوری یا نزدیکی،اس کے گرد گردش اور اس گردش کے نتیجے میں پیداہونے والی موسمی تبدیلیاں فطرت پر مثبت یا منفی اثرات مرتب کرنے والے عوامل ہیں،لہٰذا حالات کے مطابق تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں،مثلاً لاکھوں سال پہلے گھوڑا ایک چھوٹا سا جانور ہوتا تھا،جس کے پاؤں میں پانچ ناخن ہوتے تھے،لیکن مرورِزمانہ سے اس کی جسامت بڑھ گئی اور اس کا ایک سم رہ گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اپنے دعوے پر کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ وہ زمانہ ماضی کی ایک مخلوق کے بارے میں گھوڑا ہونے کا دعوی کرتے ہیں،حالانکہ اس مخلوق کا گھوڑے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو پیدا فرمایا اور پھر ایک مخصوص عرصے کے بعد اس کی نسل کو ختم فرما دیا،چنانچہ آج کل اس کی نسل کا کوئی جانور موجود نہیں ہے۔ہم یہ بات کیوں تسلیم کریں کہ وہ مخلوق گھوڑا ہی تھی؟اللہ تعالیٰ نے اُس دور میں اس حیوان کو پیدا فرمایا اور پھر اس کے صدیوں بعد گھوڑے کو پیدا فرمایا۔آخر ہم ان دو مختلف حیوانوں کے درمیان تعلق جوڑ کر ان میں سے ایک کو دوسرے سے کیوں منسوب کرتے ہیں؟
دس کروڑ سال پہلے بھی شہد کی مکھی اور شہد کے پائے جانے کے شواہد مل چکے ہیں اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ شہد کی مکھی دس کروڑ سال پہلے بھی اسی انداز سے شہد بناتی اور اسے مسدس ڈبوں میں محفوظ کرتی تھی جیسے آج کرتی ہے،دوسرے لفظوں میں دس کروڑ سال گزرنے کے باوجود شہد کی مکھی میں کسی قسم کا تغیروتبدل نہیں ہوا اور وہ ایک ہی طریقے سے شہد بنا رہی ہے۔اس دوران اس کے دماغ یا دیگر اعضاء میں کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ ہی شہد بنانے کا طریقِ کار بدلا۔اگر تغیر ہوا ہے تو کہاں ہوا ہے؟ اس قسم کے تغیر کی نشاندہی ہونی چاہیے،جس کی ذمہ داری نظریہ ارتقا کے حامیوں پر عائد ہوتی ہے۔
کئی سال پہلے نیو ڈارون ازم کے ایک حامی نے دنیا کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ اس نے ایک ایسی کھوپڑی دریافت کی ہے جس میں انسان اور بندر دونوں کے اوصاف پائے جاتے ہیں اور اس نے اس کھوپڑی کو بندر سے انسان کی طرف منتقلی کی دلیل کے طور پر پیش کیا،لیکن کچھ ہی سالوں کے بعد اس دعوے کی اصل حقیقت کھل گئی اور یہ ثابت ہو گیا کہ اس کھوپڑی کا نیچے والا جبڑا درحقیقت کسی بندر کی کھوپڑی کا حصہ ہے،جسے کسی حقیقی انسان کی کھوپڑی کے ساتھ جوڑا گیا ہے،گویا دو کھوپڑیوں کو ملا کر ایک کھوپڑی تیار کی گئی تھی۔اس کھوپڑی کو قدیم ظاہر کرنے کے لیے مخصوص مدت تک تیزاب میں رکھا گیا،اس کے دانتوں اور مسوڑھوں کو رگڑا گیا اور پھر اسے بندر اور انسان کی درمیانی کڑی کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ جعل سازی ایسی مہارت سے کی گئی تھی کہ قریب تھا کہ علمی حلقے اس کے دھوکے میں آجاتے۔ پیلٹ ڈاؤن نامی اس کھوپڑی نے سائنس دانوں کو تقریباً چالیس سال تک دھوکے میں مبتلا رکھا اور اس کے بارے میں امریکہ اور مغربی ممالک کے مختلف علمی رسائل میں تقریباً پانچ لاکھ مضامین شائع ہوئے،لیکن بالآخر ۱۹۵۲ء میں برطانیہ میں اس کا جعلی ہونا ثابت ہو گیا تاہم بعض سائنس دانوں کو اس جعل سازی کا علم ہو گیا اور انہوں نے اخبارات اور رسائل میں اس کی تشہیر کر دی۔ترکی کے اخبارات پر بھی اس واقعے کے اثرات پڑے اور یہاں بھی اس موضوع پر مختلف مقالات شائع ہوئے۔
جہاں تک حسبی تغیر (Mutation) کا تعلق ہے تو اس نظریے کے مطابق اگر کسی جاندار کو حسبی تغیرات کا سامنا ہو تو ان کی نسل میں تبدیلی رونما ہوتی ہے اور یہی تبدیلیاں جانداروں کی مختلف انواع کی بنیاد فراہم کرتی ہیں،لیکن دورِحاضر میں علم جینیات اور حیاتیاتی کیمیا (Biochemistery) کی ترقی کی بدولت یہ ثابت ہو چکا ہے کہ الل ٹپ اتفاقات پر مبنی حسبی تغیرات جانداروں کے ارتقا، تکمیل اور بہتری کا باعث نہیں بن سکتے،لہٰذا اس قسم کے دعوے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
برسہا برس تک کبوتروں اور کتوں کی مخلوط نسلیں پیدا کرنے کی کوششیں اور اس بارے میں تجربات کئے جاتے رہے،لیکن کتے کتے ہی رہے۔اگرچہ ان میں بعض جسمانی تبدیلیاں رونما ہوئیں،مثلاً ناک یا منہ کی شکل تبدیل ہوئی،لیکن کتے گدھے نہیں بنے اور نہ ہی کبوتر کسی اور پرندے کی نسل میں تبدیل ہوئے،بلکہ کبوتر ہی رہے۔ سائنس دانوں نے اس سے پہلے پھلوں کی ’’ڈروسوفیلا‘‘ نامی مکھی پر بھی متعدد تجربات کیے،لیکن وہ مکھی ہی رہی اور جب ان تجربات کرنے والوں کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو انہوں نے مایوس ہو کر اس کوشش کو چھوڑ دیا۔
تاہم ان تجربات کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ سائنس دانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ جانداروں کا ایک نوع سے دوسری نوع میں تبدیل ہونا ممکن نہیں،کیونکہ ان کے درمیان ناقابل عبور وسیع خلا ہے،نیزدرمیانی کڑیاں ہمیشہ بانجھ ہوتی ہیں۔یہ سب جانتے ہیں کہ خچر نر ہوتا ہے اور نہ مادہ،یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے اپنی نسل جاری رکھنا ممکن نہیں،لہٰذا اس طرح کی درمیانی کڑیوں سے حسبی تغیرات کے ذریعے انسان کا وجود میں آناکیسے ممکن ہے؟قیامت تک باقی رہنے والی ایسی ممتاز مخلوق کیونکر وجود میں آئی؟یہ بات نہ صرف غیرمعقول ہے،بلکہ دورازقیاس بھی ہے اور اس کی کوئی معقول دلیل پیش نہیں کی جا سکتی ۔
سائنس دانوں کو جزیرہ مڈغاسکر کے قریب ایک مچھلی کا ڈھانچہ ملا۔تحقیقات کے بعد ثابت ہوا کہ یہ ڈھانچہ چھ کروڑسال پرانا ہے اور انہوں نے فوراً اسے معدوم النسل مچھلیوں میں سے قرار دے دیا،لیکن کچھ ہی عرصے بعد ایک مچھیرے نے اسی جزیرے کے پاس سے اسی مچھلی کی نسل کی ایک مچھلی شکار کی،جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس کی نسل ناپید ہوچکی ہے۔سائنس دانوں نے دیکھا کہ یہ مچھلی چھ کروڑ سال پہلے پائی جانے والی مچھلی سے سو فیصد مشابہت رکھتی ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی،یہاں بھی نظریہ ارتقا کے حامیوں کو خفت کا سامنا کرنا پڑا اور زندہ مچھلی نے مچھلی کے ڈھانچے سے متعلق نظریہ ارتقا کے حامیوں کے مفروضے کو غلط ثابت کر دیا۔
لیکن اس کے باوجود چونکہ نظریہ ارتقا تاریخی مادہ پرستی کی اہم بنیاد،اس کا لازمی عنصر اور مادہ پرستی کا سہارا ہے،اس لیے مارکس اور اینجلز کو اس نظریے کو قبول کرنے پر شدت سے اصرار ہے۔یہی وجہ ہے سائنس سے متصادم ہونے کے باوجود مادہ پرست اس کی بے دھڑک حمایت کرتے ہیں اور وہ کبھی بھی اس سے دستبردار نہ ہوں گے۔
نظریہ ارتقا کے حامی ہر مسئلے کا مادہ پرستانہ نقطہ نظر سے حل پیش کرنا چاہتے ہیں۔وہ کبھی بھی اس بات کا اعتراف نہیں کرتے کہ چونکہ ہم اس مسئلے کی وضاحت نہیں کر سکتے،اس لیے ضرور کوئی خارجی روحانی طاقت موجود ہے۔ان کی تمام تر کوششیں اس اعتراف سے بچنے کے لیے ہیں،لیکن ان کی یہ مایوس کن کوششیں انہیں معقولیت،دانش مندی اور اعتدال پسندی سے اس قدر دور لے گئی ہیں کہ انہیں جعل سازی،دھوکادہی اور سائنسی شعبدہ بازیوں کا راستہ اختیار کرنا پڑا،جو نہ صرف اہل علم بلکہ عام انسان کو بھی زیب نہیں دیتا۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بھی انہیں خفت اٹھانی پڑتی ہے تو وہ منہ چھپانے کے لیے کسی نہ کسی پناہ گاہ کی تلاش میں ہوتے ہیں،تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض خام ذہن ان کے فریب میں آ جاتے ہیں،لیکن جھوٹ کا کوئی سرپاؤں نہیں ہوتا اور ان لوگوں کی حالت تو اس سے بھی گئی گزری ہے۔کہاوت ہے کہ ایک بے وقوف کنویں میں پتھر پھینک کر چالیس عقلمندوں کو اسے نکالنے کی کوشش میں مصروف کر سکتا ہے،لیکن وہ پھر بھی اسے نہیں نکال سکتے۔یہی بات نظریہ ارتقا کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔
تاہم ڈارون نے غیرشعوری طور پر دنیائے علم کو فائدہ بھی پہنچایا ہے،کیونکہ جانداروں کی مختلف انواع کی تقسیم اور ترتیب کی دریافت اسی کی تحقیقات کا نتیجہ ہے اور یہ تقسیم دوسرے بہت سے دلائل کی طرح کائنات میں موجود حیرت انگیز ہم آہنگی اور نظم ونسق کی ایک دلیل ہے۔اس سے کائنات کے بے مثال نظام کے خالق کی قدرت کی عظمت بھی ثابت ہوتی ہے۔ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ڈارون کی تحقیقات سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا،لیکن وہی تحقیقات اس کی گمراہی کا باعث بنیں۔
اس میں ایک بات بھی درست نہیں
 

زیک

مسافر
ایک رائے یہ بھی ہے

نظریہ ارتقا اور مسلم نوجوان
ایم ودودساجد
آج کل انسانی ارتقا کے نظریہ پر پھر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ایسے موضوعات وقفہ وقفہ سے اٹھائے جاتے رہتے ہیں۔جب مسلمان نظریہ ارتقا پر بحث کرتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔میں ان سے کچھ کہتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس دلائل ہیں تو آپ خائف کیوں ہیں اور یہ کہ علمی بحث تو ہونی چاہئے۔

انسانی ارتقا کا نظریہ دو صدیوں قبل سب سے پہلے چارلس ڈارون اور الفریڈ والیس نے پیش کیاتھا۔اس وقت بھی اس کی مخالفت ہوئی اور آج بھی ہوتی ہے۔یہاں تک کہ خودڈارون کے ہم مذہبوں نے بھی اس کو سخت ناپسند کیا۔سربیا میں اس نظریہ کی تعلیم پر پابندی عاید تھی لیکن اب اس پابندی کو اٹھا لیا گیا ہے۔جب میں غور کرتا ہوں کہ اس بحث کو اٹھانے سے کس کو فائدہ ہوتا ہے تو کوئی سرا نہیں ملتا۔لیکن جب اس کے نقصان پر غور کرتاہوں تواندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ہوتا ہے۔

انہیں اپنے وقت کی قیمت کا اندازہ نہیں ہے لیکن اس لغو بحث میں الجھ کر انتہائی قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں۔ اس طرح کی بحثوں میں مسلم نوجوانوں کوزیادہ لطف آتا ہے۔وہ موضوع کی حساسیت کو سمجھے بغیر اس میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ڈارون نے کیا کہا اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔سائنس ‘تاریخ اور دوسرے موضوعات کے طلبہ اس سے بخوبی واقف ہوہی جاتے ہیں۔لیکن مختصر یہ ہے کہ ڈارون کے خیال میں انسان آج جس شکل میں ہے وہ اس کی ارتقائی شکل ہے۔وہ کہتا ہے کہ انسان مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا بندر بنا اور پھرزمانے کے ساتھ ساتھ ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا وہ انسان بن گیا۔

مجھے ایک مرتبہ قرآن ‘سائنس اور کائنات کے موضوع پر منعقد ایک کانفرنس میں متعلقہ تقاریرکے بعد اظہار خیال کرنے کو کہا گیا۔میں نے محسوس کیا کہ بعض لوگ قرآن کی تصدیق کیلئے سائنس کو معیار تصور کرتے ہیں۔لہذا میں نے عرض کیا کہ اسلام علمی بحث سے نہیں روکتا لیکن بحث کے چند اصول ہوتے ہیں اور اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کوکچھ اصولوں کا پابند کیا ہے۔

مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ توحید اور اللہ کی قدرت کاملہ پرایمان بالغیب ہے۔اگر کوئی نظریہ اس بنیادی عقیدہ سے ٹکراتا ہے تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس نظریہ سے اجتناب کرے۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کی تعلیمات ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی ہیں جبکہ سائنس انسان کی دریافت ہے ۔اس لئے سائنس کی کوئی بھی تحقیق تو تصدیق کی محتاج ہوسکتی ہے لیکن قرآن کا کوئی نظریہ اور اس کی کوئی اطلاع کسی تصدیق کی محتاج نہیں ہے۔

مجھے ڈارون کی تھیوری پر کوئی کلام کرنے کا اس لئے حق نہیں ہے کہ میں اس سلسلہ میں زیادہ کچھ نہیں جانتا۔لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس پر سانس لینے والے اولین انسان کا نام آدم تھااور اسی کی نسبت سے انسان کو آدمی کہا جاتا ہے۔

قرآن بتاتا ہے کہ جب خدانے انسان کی تخلیق کا ارادہ کیا تو فرشتوں سے کہا کہ’ میں زمین میں اپنا نائب بنانے جارہا ہوں‘۔فرشتوں نے کہا کہ کیا آپ زمین میں اس کو (اپنانائب )بنائیں گے جو اس میں فساد برپا کرے اور خون بہائے؟جب کہ ہم آپ کی حمد وثنااور تقدیس بیان کرتے(ہی) ہیں۔تو خدانے جواب میں کہا تھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔قرآنی نظریہ اور اسلام کے عقیدہ کے مطابق انسان کو اللہ نے انسان کی ہی شکل میں پیدا کیا اور اس پر بھی اولین انسان کے طورپرآدم علیہ السلام جیسے جلیل القدر انسان کو پیدا کیا۔اور زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہی ان کی تشکیل کی۔قرآن میں دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے لقدخلقنا الانسان فی احسن تقویم یعنی ہم نے انسان کو بہترین صورت میں بنایا ہے۔سائنس کے مطابق دنیا اور انسان کی تاریخ اربوں کھربوں سال پرانی ہے۔اور مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ تخلیق آدم سے پہلے ہی نبی آخرالزماں کا ذکر مبارک‘ عرش الہی پر موجود تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اللہ کے منصوبہ کے عین مطابق ہوئی ہے۔اس لئے یہ تھیوری پیش کرنے والا ناقص العقل اور خداکے نظام تخلیق سے ناواقف انسان ہے۔جب کہ اس تھیوری پر بحث کرنے والے اس سے بھی زیادہ نادان ہیں۔دوسرے اس بحث میں الجھیں تو ان پر کوئی زور نہیں لیکن مسلمان اس بحث میں الجھیں تو افسوس ہوتا ہے۔

انسانی طبقات میں جو طبقہ قرآنی زبان میں ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ہے وہ اگر اس فضول اور لغو بلکہ متصادم بہ اسلام نظریہ پر بحث کرے تو اس کو نہ صرف وقت کا زیاں کہا جائے گا بلکہ اس کو اللہ کی قدرت وطاقت اور اس کے نظام تخلیق کے خلاف ’اہانت کی کوشش‘ سمجھاجانا چاہئے۔ خدانے حضرت آدم کو تخلیق کرکے انہیں قرآنی زبان میں ’تمام اشیا کے نام سکھائے‘۔اور نہ صرف یہ بلکہ آدم سے کہا کہ وہ فرشتوں کے سامنے ان تمام اشیا کے نام سنادیں۔ ڈارون کی تھیوری مفروضات پر مبنی ہے جبکہ اللہ کے نظام تخلیق کی تفصیل ہرلمحہ نظرآنے والے حقائق پرمبنی ہے جن کو قرآن نے صاف صاف بیان کردیا ہے۔

ڈارون کی تھیوری توقیر انسانی کے خلاف ہے ۔اس لئے کہ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات کا عنوان دیا ہے۔اس نے جس جانداراور بے جان کو جس کام کیلئے مناسب سمجھااسے ایک خاص شکل میں بنادیا۔اس کا سارا نظام قرآن کی زبان میں ’کل یجری لاجل مسمی‘ ہے۔یعنی ہر چیزایک معین میعاد تک کیلئے رواں دواں ہے۔ڈارون کی تھیوری پر ذرہ برابر بھی یقین کرکے بحث کرنے والے‘ خداکوبالواسطہ طورپر نعوذ باللہ منصوبہ سازی سے عاری ہستی قرار دیتے ہیں۔جبکہ اللہ کا کوئی کام پلاننگ اورعلت سے خالی نہیں ہے۔

ایسی لغو بحثوں میں اس لئے بھی نہیں الجھنا چاہئے کہ اس بھاگ دوڑ کی زندگی نے انسان کے ہاتھوں سے وقت کی برکت چھین لی ہے۔پہلے زمانہ کے لوگ عمر کا آدھے سے زیادہ حصہ عبادت میں گزارتے تھے ‘آج عبادت کیلئے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔تو کیا یہ دانشمندی کا تقاضا نہیں ہے کہ جب بھی وقت ملے آپ خدا کا ذکر کریں۔سفر میں ہوں یا حضر میں ‘فرصت ہو تو خدا کی کائنات میں غور وفکر کریں۔قرآن بارباراسی غور وفکر اور تدبر وتفقہ کی دعوت دیتا ہے۔

ہمارے پاس تمام انسانی سائنسوں سے بہترخدائی سائنس اور تمامفروضات سے بہتر حقائق موجود ہیں ۔ لیکن ہم ہیں کہ نادانوں کے ذریعہ چھیڑی گئی بے ہودہ بحث میں پڑکر اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کرتے ہیں اور بالواسطہ طوپر اہانت الہی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔کوئی ڈارون کے ہم نواؤں سے پوچھے کہ آج یہ ارتقائی عمل کیوں رک گیا ہے؟اور کیوںآج کے بندر کوئی بامعنی جملہ ادا نہیں کرتے؟ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس طرح کی بحثیں مسلمانوں کو اصل کام سے ہٹاکر خداکے نظام سے باغی بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔کیا مسلمان اور خاص طورپربحث ومباحثہ میں وقت گزاری کرنے والے مسلم نوجوان اس نکتہ پر غور کریں گے؟
جب خود اعتراف کر رہا ہے کہ ارتقاء کی سائنس سے لاعلم ہے تو اس کی بات سننے کا فائدہ!
 

سید ذیشان

محفلین
http://fgulen.com/ur/books-pk/islam...heses-have-been-challenged-and-even-disproved
ڈارون ازم کے غلط ثابت ہو چکنے کے باوجود اسے زندہ رکھنے کی کوششوں کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں؟

تحریر فتح اللہ گلن پر 17 نومبر 2011. میں پوسٹ کیا گیا اسلام اور دور حاضر
ٍمحمد فتح اللہ گلین مشرقی ترکی کے شہر ارض رو م میں ہوئے ۔آپ ایک مذہبی سکالر ،مفکر ،ممتازایل قلم اورشاعر ہیں ۔ انہوں نے مذہبی علوم میں بہت سے قابل ذکر مسلم علماء اور روحانی پیشواؤں سے تربیت حاصل کی ۔گلین نے جدید معاشرتی اورطبعی علوم کے اصول وضوابط اورنظریات کا بھی عمیق مطالعہ کیا۔علم وفضل میں غیر معمولی مہارت اورذاتی مطالعہ میں ارتکاز کی بناپر وہ جلد ہی اپنے ہم عصروں سے آگے نکل گئے ۔1958ء میں زبردست امتحانی نتائج کے حصول کی وجہ سے انہیں ریاستی مبلغ کا اجازت نامہ دیا گیا اور جلد ہی ترکی کے تیسرے بڑے صوبے ازمیر میں ایک اہم عہدہ پر ترقی دے دی گئی ۔یہاں پر گلین نے اپنے خیالات کو واضع کرنا شروع کیااوراپنے سامعین کی تعداد میں اضافہ کیا۔اپنے مواغط اورتقاریر میں انہوں نے وقت کے اہم معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا۔ان کا بنیادی مقصد نو جوانوں کو اس بات پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ دانشمندانہ روحانیت اوراحتیاط کے ساتھ عقلی روشن خیالی اورشریف النفس سرگرمیوں میں ہم آہنگی پیداکریں

ڈارون ازم واحد نظریہ ہے،جسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا گیا ہے اور اب اس پر جان کنی کی کیفیت طاری ہونے کے بعد اسے زندہ رکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ایک طرف بعض سائنس دان ڈارون کے نظریے کے دفاع کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تو دوسری طرف بعض سائنس دان اس پر تنقید کے تباہ کن تیر پھینک کر اسے پرزہ پرزہ کر رہے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس نظریے کو تسلیم کرنا دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔یہ بین الاقوامی علمی محافل کا موجودہ منظرنامہ ہے۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ ایک مخصوص عرصے تک یہ نظریہ علمی دنیا میں اپنے وجود کو برقرار رکھے گا۔ ماضی میں اس موضوع پر مشرق و مغرب میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں،اب بھی لکھی جا رہی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی۔ہمیں آغاز میں ہی اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ آج مشرق و مغرب کی تہذیب مادہ پرستانہ فلسفے پر قائم ہے۔ امریکہ کی مادہ پرستی روس کی مادہ پرستی سے کچھ کم نہیں ہے۔آج کی مغربی تہذیب پر امریکی تہذیب کے گہرے اثرات ہیں۔جب ہم مشرق کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہمارا اشارہ جغرافیائی پہلو کی طرف ہوتا ہے۔فکری پہلو مراد نہیں ہوتا۔اس سے پہلے سوال کے جواب میں ہم یہ بات کہہ چکے ہیں کہ آج مشرق و مغرب کے درمیان جغرافیائی حدود مٹ چکی ہیں،اسی لیے ہم روس کو بھی مغرب ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
دین اور سائنس کے بارے میں فریقین کا نظریہ تقریباً ایک جیسا ہے۔دین کے بارے میں مغرب کا نظریہ روسو اور رینان کا پیش کردہ نظریہ ہے،جس کے مطابق دین معاشرتی زندگی کی ایک چھوٹی مگر ناگزیر اکائی ہے،دوسرے لفظوں میں ان کے ہاں دین کو کبھی بھی مقصد اور ہدف کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی،بلکہ وہ اسے سعادت کے حصول کے متعدد ذرائع میں سے ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسی لیے اسے اختیار کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔آج روس بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔{qluetip title=[(۱)]}(۱) مؤلف نے یہ بات ۱۹۸۲ء میں کہی تھی۔{/qluetip} اگرچہ اس نظریے کو روسی نظام کی ناکامی کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن ہماری رائے میں یہ دین کا صحیح مفہوم نہیں ہے۔
علم اور اس کی تمام فروع کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر ایک جیسا ہے۔ آج پوری دنیا کی یہی صورتحال ہے،لیکن اس کے باوجود یورپ اور امریکا میں مادہ پرستانہ نقطہ نظر کے حامل بہت سے سائنس دانوں نے ڈارون ازم پر شدید تنقید کی ہے اور اس کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جسے ہدفِ تنقید نہ بنایا ہو،تاہم روس میں ڈارون ازم پر تنقید کرنا بہت خطرناک اقدام سمجھا جاتا ہے اور اس قسم کی تنقید صرف خفیہ طور پر کی جاتی ہے۔
روس اور اس سے وابستہ ممالک اس نظریے پر اصرار اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔چونکہ ان ممالک کی فاسد نظریاتی بنیادیں تاریخی مادہ پرستی (Historical Materialism) پر استوار ہیں،اس لیے ان کے لیے نظریہ ارتقا کا درست ثابت رہنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جونہی مادہ پرستانہ فلسفہ اورتاریخی مادہ پرستی کی عمارت زمین بوس ہوگی فوراً ماورائے طبیعت مظاہر سامنے آ جائیں گے اور انسان معاشی اور مادی اقدار کی بہ نسبت روحانی اور معنوی اقدار کو زیادہ اہمیت دینے لگے گا،جس کا نتیجہ اس پر قائم فکری نظام کے ناکام ثابت ہونے کی صورت میں نکلے گا۔یہی وجہ ہے کہ وہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ڈارون ازم کو منظرعام پر لاتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک جاری رہے گا۔
ترکی میں اس نظریے کا دفاع اور اسے عام کرنے والے جامعات کے بعض اساتذہ اور سررشتہ تعلیم کے بعض ارکان ہیں،جو‘‘علم حیاتیات’’کی تعلیم دیتے ہوئے اس نظریے کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کر کے خام ذہنوں کو خراب کرتے ہیں۔
میں یہاں اس موضوع کا تفصیل کے ساتھ علمی جائزہ نہیں لوں گا۔میں اپنے ایک لیکچر میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کر چکا ہوں نیز بعض دوستوں نے عقیدے کی رو سے بھی اس کا جائزہ لیا ہے اور ان کی یہ کاوش مختلف کتابوں کی صورت میں منظرعام پر آچکی ہے،لہٰذا میں اس موضوع کی تفصیلات کے لیے ان کتابوں کی طرف مراجعت کا مشورہ دے کر یہاں صرف اسی پہلو کے ذکر پر اکتفا کروں گا جو سوال و جواب کی نشست کے لئے موزوں ہے۔
اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے پانی میں موجود امینوں ترشے یک خلوی حیوانات مثلاً امیبا میں تبدیل ہوئے اور پھر ارتقا کے نتیجے میں مختلف شکلوں کے حیوانات وجود میں آئے پھر یہ حیوانات مزید ارتقائی مراحل سے گزر کر نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ جانوروں مثلاً بندروں یا جیسے کہ بعض کا خیال ہے کتوں کی صورت اختیار کر گئے اور پھر ارتقائی مراحل کی آخری کڑی کے طور انسان وجود میں آیا۔یہ لوگ بعض مقامات سے دریافت ہونے والے بعض ڈھانچوں کو اس مفروضے کی صحت کی دلیل کے طورپر پیش کرتے ہیں۔
نیز انہوں نے ان ڈھانچوں کو جانوروں کی مختلف انواع و اقسام کی ابتدائی کڑیاں اور ان کے اسلاف قرار دیا ہے،مثلاًانہوں نے ان میں سے بعض کو گھوڑوں کے اسلاف قرار دیا ہے تو بعض کو جیلی فش(Jellyfish) اور کائی (Algae) کے آباء واجداد ٹھہرایا ہے اور دعوی کیا ہے کہ ان حیوانات نے ہزاروں سال کے بعد موجودہ شکل و صورت اختیار کی ہے۔ لیکن جدیدترین سائنسی انکشافات اس خیال کی تردید کرتے ہیں،چنانچہ حشرات الارض جنہیں سائنس دان سخت جان حیوانات تصور کرتے ہیں ساڑھے تین سو ملین سال پہلے اپنے ظہور سے لے کر اب تک ایک ہی شکل و صورت کے حامل ہیں۔
حشرات،رینگنے والے حیوانات اور سمندری بچھوؤں کی آج بھی بالکل وہی شکل و صورت ہے،جو پانچ سو سال پہلے ان کے ڈھانچوں کی تھی۔ماہرین حیوانات کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق موجود نہیں۔جب اتنے چھوٹے جانداروں میں بھی کسی قسم کا تغیروتبدل نہیں ہوا تو ڈارون ازم کے حامیوں کا یہ دعوی کہ گھوڑے کے سموں میں تغیر ہوا ہے درست نہیں۔انسٍان بھی اپنی تخلیق کے وقت سے آج تک اپنی شکل و صورت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ایک طرف ڈارون ازم کے حامی یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہزاروں قسم کے جانداروں میں تغیروتبدل ہوا ہے، لیکن دوسری طرف ہمارے سامنے پانچ سو ملین سال پرانے جاندار زندہ موجود ہیں اور ان لوگوں کے دعوے کو زبانِ حال سے جھٹلا کر کہہ رہے ہیں: ‘‘ہرگزنہیں ... ہم میں کسی قسم کا تغیروتبدل اور ارتقا نہیں ہوا۔‘‘
نظریہ ارتقا کے حامی کہتے ہیں کہ حیوانات کا ارتقا اور ان میں تبدیلی مصادفت کے طور پر ایک لمبے عرصے میں بہت سست رفتاری سے رونما ہوتی ہے اور کسی بھی جاندار کا ارتقا اور تغیر اس کے ماحول اور حالات پر موقوف ہوتا ہے،مثلاً زمین کا سورج سے تعلق،اس سے دوری یا نزدیکی،اس کے گرد گردش اور اس گردش کے نتیجے میں پیداہونے والی موسمی تبدیلیاں فطرت پر مثبت یا منفی اثرات مرتب کرنے والے عوامل ہیں،لہٰذا حالات کے مطابق تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں،مثلاً لاکھوں سال پہلے گھوڑا ایک چھوٹا سا جانور ہوتا تھا،جس کے پاؤں میں پانچ ناخن ہوتے تھے،لیکن مرورِزمانہ سے اس کی جسامت بڑھ گئی اور اس کا ایک سم رہ گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اپنے دعوے پر کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ وہ زمانہ ماضی کی ایک مخلوق کے بارے میں گھوڑا ہونے کا دعوی کرتے ہیں،حالانکہ اس مخلوق کا گھوڑے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو پیدا فرمایا اور پھر ایک مخصوص عرصے کے بعد اس کی نسل کو ختم فرما دیا،چنانچہ آج کل اس کی نسل کا کوئی جانور موجود نہیں ہے۔ہم یہ بات کیوں تسلیم کریں کہ وہ مخلوق گھوڑا ہی تھی؟اللہ تعالیٰ نے اُس دور میں اس حیوان کو پیدا فرمایا اور پھر اس کے صدیوں بعد گھوڑے کو پیدا فرمایا۔آخر ہم ان دو مختلف حیوانوں کے درمیان تعلق جوڑ کر ان میں سے ایک کو دوسرے سے کیوں منسوب کرتے ہیں؟
دس کروڑ سال پہلے بھی شہد کی مکھی اور شہد کے پائے جانے کے شواہد مل چکے ہیں اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ شہد کی مکھی دس کروڑ سال پہلے بھی اسی انداز سے شہد بناتی اور اسے مسدس ڈبوں میں محفوظ کرتی تھی جیسے آج کرتی ہے،دوسرے لفظوں میں دس کروڑ سال گزرنے کے باوجود شہد کی مکھی میں کسی قسم کا تغیروتبدل نہیں ہوا اور وہ ایک ہی طریقے سے شہد بنا رہی ہے۔اس دوران اس کے دماغ یا دیگر اعضاء میں کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ ہی شہد بنانے کا طریقِ کار بدلا۔اگر تغیر ہوا ہے تو کہاں ہوا ہے؟ اس قسم کے تغیر کی نشاندہی ہونی چاہیے،جس کی ذمہ داری نظریہ ارتقا کے حامیوں پر عائد ہوتی ہے۔
کئی سال پہلے نیو ڈارون ازم کے ایک حامی نے دنیا کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ اس نے ایک ایسی کھوپڑی دریافت کی ہے جس میں انسان اور بندر دونوں کے اوصاف پائے جاتے ہیں اور اس نے اس کھوپڑی کو بندر سے انسان کی طرف منتقلی کی دلیل کے طور پر پیش کیا،لیکن کچھ ہی سالوں کے بعد اس دعوے کی اصل حقیقت کھل گئی اور یہ ثابت ہو گیا کہ اس کھوپڑی کا نیچے والا جبڑا درحقیقت کسی بندر کی کھوپڑی کا حصہ ہے،جسے کسی حقیقی انسان کی کھوپڑی کے ساتھ جوڑا گیا ہے،گویا دو کھوپڑیوں کو ملا کر ایک کھوپڑی تیار کی گئی تھی۔اس کھوپڑی کو قدیم ظاہر کرنے کے لیے مخصوص مدت تک تیزاب میں رکھا گیا،اس کے دانتوں اور مسوڑھوں کو رگڑا گیا اور پھر اسے بندر اور انسان کی درمیانی کڑی کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ جعل سازی ایسی مہارت سے کی گئی تھی کہ قریب تھا کہ علمی حلقے اس کے دھوکے میں آجاتے۔ پیلٹ ڈاؤن نامی اس کھوپڑی نے سائنس دانوں کو تقریباً چالیس سال تک دھوکے میں مبتلا رکھا اور اس کے بارے میں امریکہ اور مغربی ممالک کے مختلف علمی رسائل میں تقریباً پانچ لاکھ مضامین شائع ہوئے،لیکن بالآخر ۱۹۵۲ء میں برطانیہ میں اس کا جعلی ہونا ثابت ہو گیا تاہم بعض سائنس دانوں کو اس جعل سازی کا علم ہو گیا اور انہوں نے اخبارات اور رسائل میں اس کی تشہیر کر دی۔ترکی کے اخبارات پر بھی اس واقعے کے اثرات پڑے اور یہاں بھی اس موضوع پر مختلف مقالات شائع ہوئے۔
جہاں تک حسبی تغیر (Mutation) کا تعلق ہے تو اس نظریے کے مطابق اگر کسی جاندار کو حسبی تغیرات کا سامنا ہو تو ان کی نسل میں تبدیلی رونما ہوتی ہے اور یہی تبدیلیاں جانداروں کی مختلف انواع کی بنیاد فراہم کرتی ہیں،لیکن دورِحاضر میں علم جینیات اور حیاتیاتی کیمیا (Biochemistery) کی ترقی کی بدولت یہ ثابت ہو چکا ہے کہ الل ٹپ اتفاقات پر مبنی حسبی تغیرات جانداروں کے ارتقا، تکمیل اور بہتری کا باعث نہیں بن سکتے،لہٰذا اس قسم کے دعوے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
برسہا برس تک کبوتروں اور کتوں کی مخلوط نسلیں پیدا کرنے کی کوششیں اور اس بارے میں تجربات کئے جاتے رہے،لیکن کتے کتے ہی رہے۔اگرچہ ان میں بعض جسمانی تبدیلیاں رونما ہوئیں،مثلاً ناک یا منہ کی شکل تبدیل ہوئی،لیکن کتے گدھے نہیں بنے اور نہ ہی کبوتر کسی اور پرندے کی نسل میں تبدیل ہوئے،بلکہ کبوتر ہی رہے۔ سائنس دانوں نے اس سے پہلے پھلوں کی ’’ڈروسوفیلا‘‘ نامی مکھی پر بھی متعدد تجربات کیے،لیکن وہ مکھی ہی رہی اور جب ان تجربات کرنے والوں کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو انہوں نے مایوس ہو کر اس کوشش کو چھوڑ دیا۔
تاہم ان تجربات کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ سائنس دانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ جانداروں کا ایک نوع سے دوسری نوع میں تبدیل ہونا ممکن نہیں،کیونکہ ان کے درمیان ناقابل عبور وسیع خلا ہے،نیزدرمیانی کڑیاں ہمیشہ بانجھ ہوتی ہیں۔یہ سب جانتے ہیں کہ خچر نر ہوتا ہے اور نہ مادہ،یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے اپنی نسل جاری رکھنا ممکن نہیں،لہٰذا اس طرح کی درمیانی کڑیوں سے حسبی تغیرات کے ذریعے انسان کا وجود میں آناکیسے ممکن ہے؟قیامت تک باقی رہنے والی ایسی ممتاز مخلوق کیونکر وجود میں آئی؟یہ بات نہ صرف غیرمعقول ہے،بلکہ دورازقیاس بھی ہے اور اس کی کوئی معقول دلیل پیش نہیں کی جا سکتی ۔
سائنس دانوں کو جزیرہ مڈغاسکر کے قریب ایک مچھلی کا ڈھانچہ ملا۔تحقیقات کے بعد ثابت ہوا کہ یہ ڈھانچہ چھ کروڑسال پرانا ہے اور انہوں نے فوراً اسے معدوم النسل مچھلیوں میں سے قرار دے دیا،لیکن کچھ ہی عرصے بعد ایک مچھیرے نے اسی جزیرے کے پاس سے اسی مچھلی کی نسل کی ایک مچھلی شکار کی،جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس کی نسل ناپید ہوچکی ہے۔سائنس دانوں نے دیکھا کہ یہ مچھلی چھ کروڑ سال پہلے پائی جانے والی مچھلی سے سو فیصد مشابہت رکھتی ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی،یہاں بھی نظریہ ارتقا کے حامیوں کو خفت کا سامنا کرنا پڑا اور زندہ مچھلی نے مچھلی کے ڈھانچے سے متعلق نظریہ ارتقا کے حامیوں کے مفروضے کو غلط ثابت کر دیا۔
لیکن اس کے باوجود چونکہ نظریہ ارتقا تاریخی مادہ پرستی کی اہم بنیاد،اس کا لازمی عنصر اور مادہ پرستی کا سہارا ہے،اس لیے مارکس اور اینجلز کو اس نظریے کو قبول کرنے پر شدت سے اصرار ہے۔یہی وجہ ہے سائنس سے متصادم ہونے کے باوجود مادہ پرست اس کی بے دھڑک حمایت کرتے ہیں اور وہ کبھی بھی اس سے دستبردار نہ ہوں گے۔
نظریہ ارتقا کے حامی ہر مسئلے کا مادہ پرستانہ نقطہ نظر سے حل پیش کرنا چاہتے ہیں۔وہ کبھی بھی اس بات کا اعتراف نہیں کرتے کہ چونکہ ہم اس مسئلے کی وضاحت نہیں کر سکتے،اس لیے ضرور کوئی خارجی روحانی طاقت موجود ہے۔ان کی تمام تر کوششیں اس اعتراف سے بچنے کے لیے ہیں،لیکن ان کی یہ مایوس کن کوششیں انہیں معقولیت،دانش مندی اور اعتدال پسندی سے اس قدر دور لے گئی ہیں کہ انہیں جعل سازی،دھوکادہی اور سائنسی شعبدہ بازیوں کا راستہ اختیار کرنا پڑا،جو نہ صرف اہل علم بلکہ عام انسان کو بھی زیب نہیں دیتا۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بھی انہیں خفت اٹھانی پڑتی ہے تو وہ منہ چھپانے کے لیے کسی نہ کسی پناہ گاہ کی تلاش میں ہوتے ہیں،تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض خام ذہن ان کے فریب میں آ جاتے ہیں،لیکن جھوٹ کا کوئی سرپاؤں نہیں ہوتا اور ان لوگوں کی حالت تو اس سے بھی گئی گزری ہے۔کہاوت ہے کہ ایک بے وقوف کنویں میں پتھر پھینک کر چالیس عقلمندوں کو اسے نکالنے کی کوشش میں مصروف کر سکتا ہے،لیکن وہ پھر بھی اسے نہیں نکال سکتے۔یہی بات نظریہ ارتقا کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔
تاہم ڈارون نے غیرشعوری طور پر دنیائے علم کو فائدہ بھی پہنچایا ہے،کیونکہ جانداروں کی مختلف انواع کی تقسیم اور ترتیب کی دریافت اسی کی تحقیقات کا نتیجہ ہے اور یہ تقسیم دوسرے بہت سے دلائل کی طرح کائنات میں موجود حیرت انگیز ہم آہنگی اور نظم ونسق کی ایک دلیل ہے۔اس سے کائنات کے بے مثال نظام کے خالق کی قدرت کی عظمت بھی ثابت ہوتی ہے۔ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ڈارون کی تحقیقات سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا،لیکن وہی تحقیقات اس کی گمراہی کا باعث بنیں۔

یہ تحریر پہلے بھی محفل پر شیئر کی جا چکی ہے۔ اور اس پر میری تفصیلی رائے بھی یہاں دیکھ سکتے ہیں:
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ڈارون-ازم-کی-تردید-از-فتح-اللہ-گولن.61418/page-2#post-1253676
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
مائیکل بیہی نے جون 1993 میں اریڈیوسیبل کمپلیکسٹی irreducible complexity کا نظریہ پیش کیا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق کئی بائیو کیمیکل ساختیں اتنی پیچیدہ ہیں جنہیں ارتقائی میکنزم پورے طور پر بیان نہیں کر سکتا۔ اور غالباً یہ ذہین ڈیزائین (intelligent design) کا نتیجہ ہے۔
مائیکل بیہی ڈسکوری انسٹیٹیوٹ سنٹر فار سائنس اینڈ کلچر کے سینئر رکن اور لی ہائی یونیورسٹی میں بائیو کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔
بیہی نے بہت سے عدالتی کیسوں میں ذہین ڈیزائین کے حق میں گواہی دی تھی۔ آخر کار کِٹزملر ورسز ڈوورایریا سکول ڈسٹرکٹ کے کیس میں عدالت نے فیصلہ سنا دیا کہ ذہین ڈیزائین کا نظریہ اپنی فطرت میں مذہبی ہے۔ بیہی کے اپنے بیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے اس کے نظریے کی مخالفت کی ہے۔
بیہی کی کتاب کا تذکرہ بعد میں کروں گا۔
 

عثمان

محفلین
مائیکل بیہی نے جون 1993 میں اریڈیوسیبل کمپلیکسٹی irreducible complexity کا نظریہ پیش کیا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق کئی بائیو کیمیکل ساختیں اتنی پیچیدہ ہیں جنہیں ارتقائی میکنزم پورے طور پر بیان نہیں کر سکتا۔ اور غالباً یہ ذہین ڈیزائین (intelligent design) کا نتیجہ ہے۔
مائیکل بیہی ڈسکوری انسٹیٹیوٹ سنٹر فار سائنس اینڈ کلچر کے سینئر رکن اور لی ہائی یونیورسٹی میں بائیو کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔
بیہی نے بہت سے عدالتی کیسوں میں ذہین ڈیزائین کے حق میں گواہی دی تھی۔ آخر کار کِٹزملر ورسز ڈوورایریا سکول ڈسٹرکٹ کے کیس میں عدالت نے فیصلہ سنا دیا کہ ذہین ڈیزائین کا نظریہ اپنی فطرت میں مذہبی ہے۔ بیہی کے اپنے بیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے اس کے نظریے کی مخالفت کی ہے۔
بیہی کی کتاب کا تذکرہ بعد میں کروں گا۔
مائیکل بیہی اور ولیم ڈیمبسکی دونوں بدنام زمانہ کریشنسٹ بلکہ کرسچن اپالوجسٹ ہیں۔ متعلقہ شعبہ سے نہ تو ان کا دور پات کا کوئی تعلق ہے نہ ہی ان کی کوئی تحقیق پئیر ریویوڈ جرائد میں پبلش ہے۔
حیاتیاتی ارتقاء کے رد میں کوئی ایسی تحقیق یا ثبوت تلاش نہیں کیا جا سکا جو مروجہ سائنسی اصولوں پر مبنی کسوٹی پر ٹھہر سکے۔
 
اس میں فقط مباحثے تحقیق اور جستجو سے منع کیا گیا ہے جہاں تک میں سمجھا ہوں جو کہ بذاتِ خود قرآن کے احکامات کی نفی ہے۔
اس نوع کی تحقیق اور جستجو، کیا عام آدمی کا میدان ہے ؟،کیا ہر نوع کا علم حاصل کرنا ہر انسان کے لیے لازمی اور ممکن ہے؟ تحقیق سے منع نہیں ہے لیکن بغیر اہلیت کے تحقیق کا کیا معنی ہو گا اور کس طرح کے گل کھلیں گے ؟
 
جب خود اعتراف کر رہا ہے کہ ارتقاء کی سائنس سے لاعلم ہے تو اس کی بات سننے کا فائدہ!
ارتقاء کے فرضی نظریہ پر مضمون نگار نے اعتراضات نہیں کیے کہ موضوع پر کامل دسترس کے بغیر ممکن نہیں
لیکن ایک مسلمان کے ناطے اس نے اپنا موقف بیان کیا ہے کہ ہمارا دین، جس پر ہمارا ایمان ہے ، وہ انسان کی تخلیق کا دعویدار ہے نہ کہ کسی ڈارونی قسم کے ارتقاء کا۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
مائیکل بیہی نے جون 1993 میں اریڈیوسیبل کمپلیکسٹی irreducible complexity کا نظریہ پیش کیا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق کئی بائیو کیمیکل ساختیں اتنی پیچیدہ ہیں جنہیں ارتقائی میکنزم پورے طور پر بیان نہیں کر سکتا۔ اور غالباً یہ ذہین ڈیزائین (intelligent design) کا نتیجہ ہے۔
مائیکل بیہی ڈسکوری انسٹیٹیوٹ سنٹر فار سائنس اینڈ کلچر کے سینئر رکن اور لی ہائی یونیورسٹی میں بائیو کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔
بیہی نے بہت سے عدالتی کیسوں میں ذہین ڈیزائین کے حق میں گواہی دی تھی۔ آخر کار کِٹزملر ورسز ڈوورایریا سکول ڈسٹرکٹ کے کیس میں عدالت نے فیصلہ سنا دیا کہ ذہین ڈیزائین کا نظریہ اپنی فطرت میں مذہبی ہے۔ بیہی کے اپنے بیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے اس کے نظریے کی مخالفت کی ہے۔
بیہی کی کتاب کا تذکرہ بعد میں کروں گا۔
مقصد ارتقاء کے مخالف نظریات اور نقطہء نظر کو بھی سامنے لانا ہے
مائیکل بیہی اور ولیم ڈیمبسکی دونوں بدنام زمانہ کریشنسٹ بلکہ کرسچن اپالوجسٹ ہیں۔ متعلقہ شعبہ سے نہ تو ان کا دور پات کا کوئی تعلق ہے نہ ہی ان کی کوئی تحقیق پئیر ریویوڈ جرائد میں پبلش ہے۔
حیاتیاتی ارتقاء کے رد میں کوئی ایسی تحقیق یا ثبوت تلاش نہیں کیا جا سکا جو مروجہ سائنسی اصولوں پر مبنی کسوٹی پر ٹھہر سکے۔
درست۔سوائے کہ مائیکل بیہی کی فیلڈ آف سٹڈی بائیو کیمسٹری ہے اور اریڈیوسیبل کمپلیکسٹی تھیوری بائیو کیمیکل ڈیزائنز پر بیسڈ ہے۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
نظریہ ارتقاء اور اس کا مذہب یا دین کیساتھ ٹکراؤ ایک بالکل بیکار سی بحث ہے۔ میں نے ابتک یہاں کئے جانے والے تمام مراسلے پڑھے ہیں اور تقریباً سب کا زور اسکو دین کیساتھ ملانے یا نہ ملانے پر ہو رہا ہے۔ نظریہ ارتقاء ایک سائنسی نظریہ ہے اور سب جانتے ہیں کہ سائنس کا احاطہ صرف مادی دنیا تک ہے کہ جبکہ تمام ترادیان و مذاہب کے نظریات قدرتی حدود سے باہر ہوتے ہیں۔ جیسے معجزات، فرشتوں،جنات وغیرہ جیسے مافوقِ الفطرت نظریات پر "ایمان"وغیرہ۔ جبکہ سائنس ان ایمانیاتی مفروضوں کو نہیں مانتی۔ سائنس کو ایمان سے پہلے یقین درکار ہوتا ہے جو کہ آزاد اور خودمختار تجربات و مشاہدہ معائنہ کے بغیر ممکن نہیں۔ ابتک کی سائنسی ریسرچ جو اس موضوع پر ہوئی ہے میں کہیں بھی ارتقاء کو سائنسی طور پر جھٹلانا ممکن نہیں ہوا ہے۔ یہ اسلئے کہ ارتقاء سے پہلے ضروری ہے کسی زندگی کا پہلے سے موجود ہونا۔ اور جب سائنسدان تجربات کی رو سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ کسی غیر مرئی مخلوق کی مداخلت کے بغیر محض حادثاتی یا قادرتی طور پر مردہ مادے سے جاندار مادہ وجود میں آسکتا ہے تو بعد میں وقوع پزیر ہونے والا ارتقاء کس کھیت کی مولی ہے؟ یعنی جب اس زمین پر زندگی کی ابتداءہی بغیر کسی سابقہ نرو مادہ سے ہوئی ہے تو بعد میں ہونے والا ارتقاء کیونکر کسی فوقِ الفطرت ، من گھڑت ہستی کا محتاج ہوگا؟ اگر origins of species ایک ارتقائی عمل ہے تو origin of life کیونکر ارتقائی نہ ہوگا؟ یاد رہے کہ قسم ہا قسم کے انواع و اجناس کے وجود میں آنے سے قبل زندگی کا وجود میں آنا ضروری ہے۔ سائنس انواع و اجناس کے وجود سے متعلق تو بہت کچھ جان گئی ہے لیکن زمین پر زندگی کا آغازابھی تک ایک لاحل معمہ بنا ہوا ہے۔ کسی بھی مذہب، دین، فلاسفی، مکتب الفکر، مفکر کا نظریہ اس بات کا جواب دینے سے قاصرہے کہ آخر زندگی کی ابتدا ء یہیں اس سیارہ زمین پر کیوں ہوئی؟ جبکہ اس سے ملتی جلتی آب وہوا دیگر سیاروں پر بھی موجودہے۔ یقیناً اس سوال کا جواب آئندہ کبھی مستقبل میں کسی دوسرے سیارہ پر موجودخلائی مخلوق یا alien سے ملاپ کے بعد مل جائے گا۔ تب تک ہم یہاں ڈینگیں مارتے ہیں :)
http://simple.wikipedia.org/wiki/Origin_of_life
http://en.wikipedia.org/wiki/Abiogenesis
 
نظریہ ارتقاء اور اس کا مذہب یا دین کیساتھ ٹکراؤ ایک بالکل بیکار سی بحث ہے۔ میں نے ابتک یہاں کئے جانے والے تمام مراسلے پڑھے ہیں اور تقریباً سب کا زور اسکو دین کیساتھ ملانے یا نہ ملانے پر ہو رہا ہے۔ نظریہ ارتقاء ایک سائنسی نظریہ ہے اور سب جانتے ہیں کہ سائنس کا احاطہ صرف مادی دنیا تک ہے کہ جبکہ تمام ترادیان و مذاہب کے نظریات قدرتی حدود سے باہر ہوتے ہیں۔ جیسے معجزات، فرشتوں،جنات وغیرہ جیسے مافوقِ الفطرت نظریات پر "ایمان"وغیرہ۔ جبکہ سائنس ان ایمانیاتی مفروضوں کو نہیں مانتی۔ سائنس کو ایمان سے پہلے یقین درکار ہوتا ہے جو کہ آزاد اور خودمختار تجربات و مشاہدہ معائنہ کے بغیر ممکن نہیں۔ ابتک کی سائنسی ریسرچ جو اس موضوع پر ہوئی ہے میں کہیں بھی ارتقاء کو سائنسی طور پر جھٹلانا ممکن نہیں ہوا ہے۔ یہ اسلئے کہ ارتقاء سے پہلے ضروری ہے کسی زندگی کا پہلے سے موجود ہونا۔ اور جب سائنسدان تجربات کی رو سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ کسی غیر مرئی مخلوق کی مداخلت کے بغیر محض حادثاتی یا قادرتی طور پر مردہ مادے سے جاندار مادہ وجود میں آسکتا ہے تو بعد میں وقوع پزیر ہونے والا ارتقاء کس کھیت کی مولی ہے؟ یعنی جب اس زمین پر زندگی کی ابتداءہی بغیر کسی سابقہ نرو مادہ سے ہوئی ہے تو بعد میں ہونے والا ارتقاء کیونکر کسی فوقِ الفطرت ، من گھڑت ہستی کا محتاج ہوگا؟ اگر origins of species ایک ارتقائی عمل ہے تو origin of life کیونکر ارتقائی نہ ہوگا؟ یاد رہے کہ قسم ہا قسم کے انواع و اجناس کے وجود میں آنے سے قبل زندگی کا وجود میں آنا ضروری ہے۔ سائنس انواع و اجناس کے وجود سے متعلق تو بہت کچھ جان گئی ہے لیکن زمین پر زندگی کا آغازابھی تک ایک لاحل معمہ بنا ہوا ہے۔ کسی بھی مذہب، دین، فلاسفی، مکتب الفکر، مفکر کا نظریہ اس بات کا جواب دینے سے قاصرہے کہ آخر زندگی کی ابتدا ء یہیں اس سیارہ زمین پر کیوں ہوئی؟ جبکہ اس سے ملتی جلتی آب وہوا دیگر سیاروں پر بھی موجودہے۔ یقیناً اس سوال کا جواب آئندہ کبھی مستقبل میں کسی دوسرے سیارہ پر موجودخلائی مخلوق یا alien سے ملاپ کے بعد مل جائے گا۔ تب تک ہم یہاں ڈینگیں مارتے ہیں :)
http://simple.wikipedia.org/wiki/Origin_of_life
http://en.wikipedia.org/wiki/Abiogenesis
تو سوال یہ ہوا کہ زندگی اسی زمین سے کیوں شروع ہوئی ؟
ارتقا ء ایک ثانوی مسئلہ ہے ۔
یہی کہہ رہے ہیں نا ں آپ؟
عارف کریم
 

عباس اعوان

محفلین
ہم بچپن میں جب اسلام آباد کی سیر کو گئے تو وہاں ایک سائنس میوزیم موجود گائڈ نے ہمیں کچھ تصاویر وغیرہ کی مدد سے بتایا کہ کچھ سائنسدان کیسے انسان کو ارتقائی عمل سے گزر کر موجودہ حالت میں پہنچنے تک کے نظریے میں یقین رکھتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی اس نے یہ بتایا کہ یہ نظریہ سراسر خلاف اسلام ہے اور ہمیں اس پر یقین نہیں رکھنا چاہئے۔ :)
میری خواہش تھی کہ وہ گائڈ ہمیں ڈارون کے نظریے کے خلاف سائنسی شواہد اور دلائل بھی بتاتا!
میرا خیال ہے کہ ڈارون کے نظریہ انسانی نظریہ ارتقاء کے خلاف سائنسی شواہد بھی مل سکتے ہیں ان شواہد کو تلاش کرکے منظرعام پر لانے کی ضرورت ہے۔ :)
بالکل متفق۔
اگر ارتقائی نظریہ کے میں ثبوت کم ہیں تو اس کو رد کرنے میں ثبوت تلاش کر کے منظرِ عام پر لانے چاہییں۔
 

سید ذیشان

محفلین
اگرچہ آپ لوگوں کو ایک معروف تجربے کا علم تو ہو گا لیکن یاد دہانی کے لیے بتائے دیتا ہوں کہ ایک سائنسدان نے مسلسل کئی نسلوں تک چوہوں کی دُم کاٹی لیکن آنے والی نسلوں میں کوئی "ارتقا" نہیں ہوا۔
https://en.wikipedia.org/wiki/August_Weismann

کیونکہ ارتقا دم کاٹنے سے یا ظاہری تبدیلی سے نہیں بلکہ جینیاتی تبدیلی اور نیچرل سیلیکشن سے وجود میں آتا ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
کیونکہ ارتقا دم کاٹنے سے یا ظاہری تبدیلی سے نہیں بلکہ جینیاتی تبدیلی اور نیچرل سیلیکشن سے وجود میں آتا ہے۔
یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بیرونی حالات مثلاً کھینچ کر کسی عضو کو لمبا کرنے سے کرومو سوم اور ڈی این اے میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے ؟ جیسا کہ زرافے کی گردن لمبی کرنے والے کیس میں ہوا ؟؟؟
 

محمد سعد

محفلین
میرا تو مشاہدہ ہے کہ اس قسم کی بحثوں کا فیصلہ ہوتے ہوتے بندوں میں دو چار جینیاتی تبدیلیاں آ ہی جاتی ہیں۔ چنانچہ حوصلہ رکھیے اور بحث جاری رکھیے۔ مجھ میں چونکہ اتنا حوصلہ نہیں ہے تو میں کوئی اور کام کر لیتا ہوں۔ :eat:
 
Top