قبضہ گروپ اور عوامی احتجاج

اوریا مقبول جان پير 1 ستمبر 2014
theharferaz@yahoo.com
آئین کی کتاب کو مقدس الہامی کتاب کی طرح لہرا کر اس کے ورق ورق کے تحفظ کی کیوں قسم کھائی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ جلا دو‘ سپریم کورٹ جلا دو‘ کیبنٹ سیکریٹریٹ جلا دو‘ بس ایک فقرہ رہ گیا‘ پورے اٹھارہ کروڑ عوام کو جلا کر خاکستر کر دو، لیکن یہ چند مقدس اوراق بچا لو۔ انھیں ضرور بچانا چاہیے۔
اس لیے کہ یہ ان لوگوں نے تحریر کیے ہیں‘ یہ اس نسل کے ذہن رسا کا نتیجہ ہیں جنہوں نے انگریز کی غلامی میں آنکھ کھولی اور جن کی اکثریت خود اور ان کے آباؤ اجداد انگریز سرکار سے وفاداری اور اپنی قوم سے غداری کے صلے میں بڑی بڑی جائیدادیں‘ اعلیٰ نوکریاں اور شاندار مراعات لینے کے بعد اس مملکت کے عام اور سادہ لوح غریب عوام پر مسلط ہو گئی تھی۔
آئین کے خالق جن لوگوں کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے‘ ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی اکثریت کے حسب نسب اور اچانک اپنے علاقوں میں انگریز سرکار کے طاقتور نمایندہ ہونے کی تاریخ آج بھی ڈسٹرکٹ گزیٹیرز اور ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر میں موجود فائلوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ہر کسی کی قیمت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے اور وفاداریوں کی داستان بھی۔ نہ کوئی میر بچتا ہے نہ پیر‘ نہ وڈیرا پیچھے رہتا ہے اور نہ سردار‘ نہ چوہدریوں کا دامن صاف اور نہ ہی خانوں کا۔ تاریخ کے اس حمام میں بہت سے ننگے ہیں اور جس نے اپنے کپڑے بچائے وہ آج بھی اقتدار کی راہداریوں سے کوسوں دور ہے۔
آئین کے یہ خالق خوب جانتے تھے کہ کس طرح اس قوم کو حصوں بخروں میں بانٹ کر محکوم رکھا جا سکتا ہے۔ انھیں پتہ تھا کہ جب تک محکوموں کے گرد مختلف لائنیں نہ بنائی جائیں، وہ آپس میں دست و گریبان نہیں ہوتے۔ سندھی‘ پنجابی‘ پشتونوں اور بلوچ مزدوروں اور کسانوں کے پسینے کی بو اور ہاتھوں میں پڑ گَٹے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اسے جہاں‘ جس جگہ مزدوری ملے‘ وہ رزق کی تلاش میں چل پڑتا ہے۔
چار اکائیاں آسمان سے نہیں اتری تھیں‘ انھیں انگریز نے اپنے مقاصد کے لیے تخلیق کیا تھا اور پھر ان اکائیوں پر حکمرانی کرنے کے لیے یہ ’’جمہوری‘‘ خاندان پیدا کیے تھے۔ جس طرح کسان‘ ہاری‘ مرید اور ملازم ان کی رعایا ہیں اسی طرح جمہوریت بھی ان کے گھر کی ’’لونڈی‘‘ ہے۔ ایسی لونڈی کہ جو آقا کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ یہ مقدس چار اکائیاں اس قدر بالاتر ہیں کہ اس ملک میں ہر کوئی پاکستان کے ٹوٹے جانے کے خواب دیکھتا ہے، لیکن انگریز کے بنائے ہوئے ان چار صوبوں کو‘ ان کھینچی گئی لکیروں کا آپ تذکرہ کر کے دیکھیں‘ ہر کوئی خون کی ندیاں بہانے پر تیار ہو جاتا ہے۔
اس لیے کہ انگریز نے ان چاروں اکائیوں کا ایک ایک مرکز اقتدار بنایا تھا اور ان پر ان خاندانوں کو قابض کر دیا تھا۔ کیا کراچی‘ کوئٹہ یا پشاور جیسے شہر انگریز سے پہلے اقتدار کا مرکز تھے۔ لاہور بھی اکبر کے چند سال یا رنجیت سنگھ کی حکومت کے سوا‘ اقتدار سے بہت دور رہا، لیکن کبھی لڑائی ہوتی ہے تو انھی چاروں مراکز اقتدار پر قبضے کی لڑائی ہوتی ہے۔
قبضہ گروپ یہ قبضہ چھوڑنا نہیں چاہتا اور آئین کی مقدس کتاب ہاتھ میں لہرا کر کہتا ہے اس میں لکھا ہے۔ ہم اس کے ورق ورق کی حفاظت کریں گے۔ اگر یہ ختم ہو گیا تو پھر دوبارہ ایسا آئین تحریر نہیں کر سکو گے۔ یقینا ایسا آئین دوبارہ تحریر نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے کہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں۔ وہ نسل اب مملکت خداداد پاکستان میں اکثریت سے ہے جس نے انگریز کی غلامی کا طوق کبھی نہیں پہنا تھا۔
ان اقتدار کے مراکز پر قبضے کے لیے اور مخصوص لوگوں کو حکمرانی پر مسلط کرنے کے لیے انگریز نے ویسٹ منسٹر جمہوریت کا پارلیمانی نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت ہر علاقے میں مخصوص نسل‘ رنگ‘ زبان اور برادری کی بنیاد پر کچھ لکیریں کھینچی گئیں۔ بار بار کے انتخابات نے اس قبضہ گروپ کو اس قدر کامیاب اور تجربہ کار بنا دیا کہ سوائے چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر کہ جہاں آبادی میں تیزی سے رد و بدل ہوتا ہے‘ باقی ہر انتخابی حلقہ کو انتہائی مہارت سے تخلیق کیا گیا ہے۔
ان حلقوں کو اگر ایک بڑے نقشے پر لکیریں کھینچ کر دکھایا جائے تو ایسی آڑھی ترچھی لکیریں وجود میں آئیں گی کہ ہنسی آئے گی۔ گوادر سے گلگت تک سب ایسا ہے۔ کراچی میں لسانی گروہ بڑھے تو کس شاندار طریقے سے ہر کسی نے ٹیڑھی ترچھی حد بندیاں بنا کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔
اس کے بعد جمہوریت کا وہ خوفناک کھیل شروع ہوتا ہے جسے اکثریت کی آمریت کہتے ہیں۔ دنیا بھر میں مفکرین اور سیاسی دانشور Tyranny of Mojority سے نجات پر لکھتے آ رہے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک حلقے میں اگر ایک لاکھ ووٹ ہیں تو اکیاون ہزار والا اسمبلی کارکن اور 49 ہزار لوگ اس اسمبلی میں اپنی رائے سے محروم۔ پاکستان میں تو اس قبضہ گروپ کے لوگوں کو گروہ درگروہ تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک لاکھ ووٹوں میں سے پانچ پانچ دس دس ہزار کے چند گروہ پورے حلقے کو نسل‘ رنگ‘ زبان اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم کر دیتے ہیں اور 15 ہزار ووٹ لینے والا اسمبلی کا رکن۔
یوں 85 فیصد لوگوں کی اسمبلی میں آواز تک سنائی نہیں دیتی۔ یہ سب انتہائی ہوشیاری‘ چالاکی اور خوبصورتی سے کیا گیا ہے اور پھر دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا متبادل بتاؤ۔ متبادل سے پہلے ایک سوال کہ کیا پوری دنیا بھی برطانوی طرز انتخاب کی طرح کی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ ہر ملک نے اپنے حالات کے مطابق اپنا نظام وضع کیا ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوئٹزرلینڈ کے آئین اور انتخابی نظام کا مطالعہ کیا۔ پورا ملک چار زبانیں بولنے والوں میں تقسیم ہے۔
وہ اگر ہماری طرح حلقہ جاتی سیاست میں پڑتے تو وہاں بھی آج خونریزی کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ وہاں کے کینٹن میں متناسب نمایندگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور ایک اسمبلی ممبر کئی اضلاع کے ووٹوں کی اکثریت سے اسمبلی تک پہنچتا ہے۔ ہر وہ سیاسی پارٹی جس کے چند ہزار ووٹ بھی ہوں اسمبلی میں اس کا نمایندہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ حلقہ بندیوں کی پاکستانی سیاست کا کمال یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کی رائے اسمبلی تک نہیں پہنچ پاتی۔ وہ بار بار ہونے والے الیکشنوں میں سچے، کھرے اور ایماندار شخص کو ووٹ دیتے رہتے ہیں اور ان کے ووٹ تین سو سے زائد حلقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
اگر پورے ملک کے ووٹ اکٹھے کر لیے جائیں، حلقہ بندیاں ختم کر دی جائیں، ہر پارٹی یا فرد کو کوئی کسی بھی جگہ سے ووٹ دے اور پھر ان ہی ووٹوں کی بنیاد پر اسمبلی کی رکنیت عطا ہو تو اسمبلی میں سو فیصد افراد کی آراء کی نمایندگی ہو سکے گی۔ ہو سکتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ ٹی وی پر بولنے والا ایک ہارا ہوا سیاستدان پورے ملک میں اتنے مداح ضرور رکھتا ہو گا کہ ایک سیٹ کے برابر ووٹ لے سکے۔ لیکن اس کے مداح پورے ملک میں تقسیم ہیں، اس لیے وہ قبضہ گروپ کی بنائی ہوئی حد بندیوں میں الیکشن نہیں جیت سکتا۔
ایسا ہو تو پھر عوام کی وہ اکثریت کسی پارلیمنٹ میں نمایندگی سے محروم رہ جاتی ہے اور وہاں قبضہ گروپ دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ قبضہ گروپ اور عوام کے ساٹھ سالہ غصے کا مقابلہ اور بدترین نظام سے نجات کی آوازیں ہیں۔ یہ آوازیں اس ننانوے فیصد عوام کی نمایندہ بن جایا کرتی ہیں جنھیں تھانے، پٹوار خانے، کسی سرکاری دفتر یا ادارے سے انصاف نہیں ملتا، جو اسپتالوں سے محروم اور بنیادی سہولیات سے نا آشنا رہے ہوتے ہیں۔ ہر کسی کا اپنا غصہ اور غم ہوتا ہے۔
انھیں اس بات کی پروا تک نہیں ہوتی کہ ہجوم کی قیادت کون کر رہا ہے۔ وہ اپنی انتقام کی آگ لیے ہوتے ہیں۔ اسی آگ کے شعلوں کو دیکھ کر قبضہ گروپ کو جب اپنا بنایا ہوا تاج محل مسمار ہوتا لگتا ہے تو انھیں آئین اور قانون کی کتابیں یاد آتی ہیں۔ ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے۔ لیکن غصے میں بپھرے ہجوم کو یقین ہوتا ہے کہ آئین اور قانون کی کتابوں سے ہی تو انھیں ساٹھ سال انصاف اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔
تحریکوں کی سیاست ا ور تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہ گنتی کی سیاست نہیں ہوتی۔ 1940ء کی قرارداد پاکستان سے لے کر عدلیہ کی بحالی تک لوگوں کا ہجوم ہزاروں کی گنتی میں تھا۔ لیکن یہ ہزاروں لوگ تاریخ کا پہیہ موڑ دیتے ہیں۔ قبضہ گروپوں کی چالیں ان کے منہ پر مار دیتے ہیں۔ یہ ایک دفعہ کچلے جائیں تو کچھ عرصے بعد پھر نکل آتے ہیں اور زیادہ زور و شور سے نکلتے ہیں۔ دنیا کی کوئی جمہوریت قبضہ گروپوں سے زبردستی اقتدار چھیننے کے بغیر مستحکم نہیں ہو گی، خواہ وہ فرانس میں بادشاہ لوئی اور ساتھیوں کا خون بہا کر ہوئی ہو یا انگلینڈ میں چارلس اول کو عوامی پارلیمنٹ سے سزائے موت دے کر۔
 

x boy

محفلین
سب سے پہلے سجادہ نشین، مجاور،قبر پرستی، پیر پرستی سے پاکستان کو نجات دلانا چاہیے۔
 
PROPORTIONAL REPRESENTATION VOTING SYSTEMS

Proportional representation voting (PR) is the main rival to plurality-majority voting. Among advanced western democracies it has become the predominant voting system. For instance, in Western Europe, 21 of 28 countries use proportional representation, including Austria, Belgium, Cyprus, Denmark, Finland, Germany, Greece, Ireland, Luxembourg, Malta, the Netherlands, Norway, Portugal, Spain, Sweden, and Switzerland.

https://www.mtholyoke.edu/acad/polit/damy/BeginnningReading/PRsystems.htm
Proportional representation is a system used to elect a country's government. If proportional representation is used in an election, a political party that wins 10% of the vote, will win 10% of the seats in parliament and a party that wins 20% of the vote, will win 20% of the seats.
If a party wins over 50% of the vote, it wins over 50% of the seats and can form a government, however this does not happen very often because most countries have lots of different political parties. If no party wins over 50% of the vote, then a coalition government usually has to be formed, where a government is formed from two or more different political parties, who together have over 50% of the seats in parliament.
Countries which use proportional representation include: Austria, Argentina, Belgium, Brazil, Bulgaria, Czech Republic, Denmark, Estonia, Finland, Greece, Iceland, Israel, Netherlands, Norway, Poland, Portugal, Romania, Russia, South Africa, South Korea, Spain, Sweden, Switzerland and Turkey.
Countries which have systems that are similar or partly use proportional representation include: Australia, Germany, Hungary, India, Republic of Ireland, Italy, Japan, Mexico, New Zealand, Scotland, Thailand and Wales.

http://simple.wikipedia.org/wiki/Proportional_representation
 

قیصرانی

لائبریرین
اچھا لکھا، ایک اصلاح کر دوں کہ پاکستان میں بہت سارے حلقوں کا ٹرن آؤٹ 30 فیصد سے بھی شاید کم رہتا ہو۔ اس لئے وہاں سے اکثریت کے ووٹ لینےو الا درحقیقت اصل ووٹرز کے عشر عشیر کا بھی چنیدہ نہیں ہوتا
 

زیک

مسافر
پاکستان کا مسئلہ پروپورشنل ریپریزنٹیشن نہ ہونا نہیں ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ فرسٹ پاسٹ دا پوسٹ سسٹم بھی کافی ملکوں میں کامیابی سے چلتا ہے
 
جرمنی کا انتخابی نظام، ایک تعارف
تاریخ09.09.2013
مصنفDick, Wolfgang / عدنان اسحاق


جرمن پارلیمانی انتخابات میں امیدوار سے زیادہ اس کی جماعت کو اہمیت دی جاتی ہے۔

جرمنی میں اگر کوئی کسی سیاسی جماعت کا رکن نہیں ہے تو اس کے پارلیمان میں پہنچنے کے امکانات بھی بہت معدوم ہوتے ہیں۔کوئی بھی آزاد امیدوار بہت زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد ہی تقریباً 600 رکنی پارلیمان کا حصہ بن سکتا ہے۔ جرمنی کے بنیادی آئین میں درج ہے، ’’سیاسی جماعتیں ہی فیصلہ سازی میں شامل ہو سکتی ہیں‘‘۔ سیاسی امور کے متعدد ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جرمنی میں سیاسی جماعتیں فیصلہ سازی کے علاوہ یہ فیصلے بھی کرتی ہیں کہ کون سیاست کے میدان میں سرگرم رہ سکتا ہے۔ اس بات کا تعلق جرمنی کے انتخابی نظام سے ہے، جس میں ہر ووٹر کے دو ووٹ ہوتے ہیں۔
جرمنی میں اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہر شہری ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے۔ اس طرح اہل ووٹرز کی موجودہ تعداد 61.8 ملین بنتی ہے۔ ان میں سے تین ملین کے قریب وہ ہیں، جو ستمبر میں پہلی مرتبہ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مند تمام جماعتوں کو الیکشن کمشنر کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے۔ آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنے والی تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے۔ 22 ستمبر 2013ء کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں 34 جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم آج کل جرمن پارلیمان میں صرف چھ جماعتوں کو ہی نمائندگی حاصل ہے، سی ڈی یو، سی ایس یو، ایس پی ڈی، ایف ڈی پی، گرین پارٹی اور دی لِنکے۔
نظریاتی طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی پارلیمنٹ میں پہنچ سکتی ہیں۔ جمہوری طریقہ کار میں فیصلہ ہمیشہ اکثریت کی مرضی سے ہوتا ہے اور چھوٹی جماعتیں مختلف اتحادوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس وجہ سے افراتفری سے بچنے کے لیے یہ قانون بھی موجود ہے کہ صرف وہی سیاسی جماعتیں اپنے نمائندے پارلیمان میں بھیج سکتی ہیں، جنہیں انتخابات میں کم از کم پانچ فیصد ووٹ ملیں۔ اس طرح ہر رائے دہندہ کا ایک ووٹ امیدوار کے لیے ہوتا ہے اور اپنے دوسرے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے وہ کسی بھی پارٹی کی حمایت کر سکتا ہے۔
جرمنی میں بیلٹ پیپر کے بھی دو حصے ہوتے ہیں۔ پہلے ووٹ کے ذریعے امیدوار کو چنا جاتا ہے جبکہ دوسرے حصے پر سیاسی جماعتوں کے نام درج ہوتے ہیں۔ یہ حصہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ جس جماعت کو جتنے زیادہ ووٹ ملیں گے پارلیمان میں اس کی موجودگی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ اس طرح یہ جماعت اپنے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو پارلیمان میں پہنچا سکتی ہے۔

گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران اس انتخابی نظام میں نہ ہونے کے برابر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ پارلیمانی ارکان کی بات کی جائے تو پہلے اور دوسرے ووٹ کے نتائج کو برابر ہی تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم منتخب ہونے کے بعد یہ ارکان سربراہ حکومت یعنی وفاقی چانسلر کا انتخاب کرتے ہیں۔ جرمنی میں انتخابی نظام کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں اہم نکتہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کیا یہ جمہوری انداز نہیں ہو گا کہ سیاسی جماعتیں خود ہی پچاس فیصد امیدواروں کے بارے میں فیصلہ کریں۔
ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ کس طرح پہلے اور دوسرے ووٹ کے نتائج ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک پارٹی کو مطلوبہ پانچ فیصد ووٹ نہیں ملے اور وہ پارلیمان میں نہیں پہنچ سکی لیکن اس کے کئی امیدوار پہلا ووٹ حاصل کرتے ہوئے براہ راست کامیاب ہو گئے، جن میں سے کچھ کو اپنی نشست سے محروم بھی ہونا پڑا۔ ایسے میں پارلیمان میں نشستوں کی تقسیم پر تنازعہ پیدا ہونا فطری سی بات ہے۔ 2008ء میں وفاقی جرمن آئینی عدالت نشستوں کی تقسیم کے طریقہء کار کو خلاف آئین قرار دے چکی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ براہِ راست جیتنے والے امیدوار کی آئینی حیثیت کو مضبوط تر بنایا جائے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جرمنی کا انتخابی نظام، ایک تعارف
تاریخ09.09.2013
مصنفDick, Wolfgang / عدنان اسحاق


جرمن پارلیمانی انتخابات میں امیدوار سے زیادہ اس کی جماعت کو اہمیت دی جاتی ہے۔

جرمنی میں اگر کوئی کسی سیاسی جماعت کا رکن نہیں ہے تو اس کے پارلیمان میں پہنچنے کے امکانات بھی بہت معدوم ہوتے ہیں۔کوئی بھی آزاد امیدوار بہت زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد ہی تقریباً 600 رکنی پارلیمان کا حصہ بن سکتا ہے۔ جرمنی کے بنیادی آئین میں درج ہے، ’’سیاسی جماعتیں ہی فیصلہ سازی میں شامل ہو سکتی ہیں‘‘۔ سیاسی امور کے متعدد ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جرمنی میں سیاسی جماعتیں فیصلہ سازی کے علاوہ یہ فیصلے بھی کرتی ہیں کہ کون سیاست کے میدان میں سرگرم رہ سکتا ہے۔ اس بات کا تعلق جرمنی کے انتخابی نظام سے ہے، جس میں ہر ووٹر کے دو ووٹ ہوتے ہیں۔
جرمنی میں اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہر شہری ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے۔ اس طرح اہل ووٹرز کی موجودہ تعداد 61.8 ملین بنتی ہے۔ ان میں سے تین ملین کے قریب وہ ہیں، جو ستمبر میں پہلی مرتبہ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مند تمام جماعتوں کو الیکشن کمشنر کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے۔ آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنے والی تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے۔ 22 ستمبر 2013ء کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں 34 جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم آج کل جرمن پارلیمان میں صرف چھ جماعتوں کو ہی نمائندگی حاصل ہے، سی ڈی یو، سی ایس یو، ایس پی ڈی، ایف ڈی پی، گرین پارٹی اور دی لِنکے۔
نظریاتی طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی پارلیمنٹ میں پہنچ سکتی ہیں۔ جمہوری طریقہ کار میں فیصلہ ہمیشہ اکثریت کی مرضی سے ہوتا ہے اور چھوٹی جماعتیں مختلف اتحادوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس وجہ سے افراتفری سے بچنے کے لیے یہ قانون بھی موجود ہے کہ صرف وہی سیاسی جماعتیں اپنے نمائندے پارلیمان میں بھیج سکتی ہیں، جنہیں انتخابات میں کم از کم پانچ فیصد ووٹ ملیں۔ اس طرح ہر رائے دہندہ کا ایک ووٹ امیدوار کے لیے ہوتا ہے اور اپنے دوسرے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے وہ کسی بھی پارٹی کی حمایت کر سکتا ہے۔
جرمنی میں بیلٹ پیپر کے بھی دو حصے ہوتے ہیں۔ پہلے ووٹ کے ذریعے امیدوار کو چنا جاتا ہے جبکہ دوسرے حصے پر سیاسی جماعتوں کے نام درج ہوتے ہیں۔ یہ حصہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ جس جماعت کو جتنے زیادہ ووٹ ملیں گے پارلیمان میں اس کی موجودگی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ اس طرح یہ جماعت اپنے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو پارلیمان میں پہنچا سکتی ہے۔

گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران اس انتخابی نظام میں نہ ہونے کے برابر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ پارلیمانی ارکان کی بات کی جائے تو پہلے اور دوسرے ووٹ کے نتائج کو برابر ہی تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم منتخب ہونے کے بعد یہ ارکان سربراہ حکومت یعنی وفاقی چانسلر کا انتخاب کرتے ہیں۔ جرمنی میں انتخابی نظام کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں اہم نکتہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کیا یہ جمہوری انداز نہیں ہو گا کہ سیاسی جماعتیں خود ہی پچاس فیصد امیدواروں کے بارے میں فیصلہ کریں۔
ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ کس طرح پہلے اور دوسرے ووٹ کے نتائج ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک پارٹی کو مطلوبہ پانچ فیصد ووٹ نہیں ملے اور وہ پارلیمان میں نہیں پہنچ سکی لیکن اس کے کئی امیدوار پہلا ووٹ حاصل کرتے ہوئے براہ راست کامیاب ہو گئے، جن میں سے کچھ کو اپنی نشست سے محروم بھی ہونا پڑا۔ ایسے میں پارلیمان میں نشستوں کی تقسیم پر تنازعہ پیدا ہونا فطری سی بات ہے۔ 2008ء میں وفاقی جرمن آئینی عدالت نشستوں کی تقسیم کے طریقہء کار کو خلاف آئین قرار دے چکی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ براہِ راست جیتنے والے امیدوار کی آئینی حیثیت کو مضبوط تر بنایا جائے۔
نیٹ سے لی جانی والی خبر یا آرٹیکل کا لنک ساتھ دے دیا کریں :)
 
پاکستان کا مسئلہ پروپورشنل ریپریزنٹیشن نہ ہونا نہیں ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ فرسٹ پاسٹ دا پوسٹ سسٹم بھی کافی ملکوں میں کامیابی سے چلتا ہے
پاکستان کا مسئلہ کیا ہے یہ بہت بحث طلب موضوع ہے، لیکن فرسٹ پاسٹ دا پوسٹ سسٹم ( بہرحال پاکستان کی حد تک) موجودہ شکل میں ،عوام اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے
 
http://dailyaaj.com.pk/urdu/?p=38013

پاکستان کا انتخابی نظام

آج کے کالم میں پاکستان میں موجود انتخابی نظام کا اصلی چہرہ دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ پچھلے انتخابات میں فخرو بھائی کی زیر قیادت الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لئے کاغذات نامزدگی میں کچھ نئے سوالات اور شرائط بھی شامل کئے تھے‘ نئے نامزدگی فارم کے خلاف ملک بھرمیں ممبران پارلیمنٹ نے ایک شور برپا کیا ‘ ممبران میں کوئی تخصیص نہیں ہے بلکہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں طرف کے ارکان پارلیمنٹ یکساں آواز سے ظلم ظلم کا واویلا مچا رہے تھے ہر کوئی اس کو خلاف آئین قرار دے رہا تھا ۔ جہاں تک فارموں کا تعلق تھا تو ان میں کچھ ایسی خراب شرائط بھی شامل نہ تھیں بلکہ چند معلومات مانگی گئی تھیں کیونکہ یہ شکایت عام تھی کہ الیکشن کمیشن کی نا اہلی کی وجہ سے بہت سے اہم ممبران پارلیمنٹ ماضی میں جعلی ڈگریوں‘ دہری شہریت‘کرپشن‘ ٹیکس چوری‘ غیر قانونی کمیشن اور غیر اخلاقی و غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔
بجائے اس کے کہ ممبر منتخب ہونے کے بعد ایسے شخص کو سزا دی جائے یہ بہتر راستہ اختیار کیا جا رہا تھا کہ ایسے لوگوں کو انتخابات کیلئے نا اہل قرا دیا جائے ‘ ہندوستان کے الیکشن کمیشن نے غلط معلومات فراہم کرنے پر 2171امیدواروں کو انتخابات کے لئے نا اہل قرار دے دیا تھا‘ یہ سوالات کچھ آمدنی اور خرچ کے بارے میں تھے جو شاید نمائندگان قوم کو اچھے نہیں لگے اس لئے انہوں نے شور مچاکر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ادھر ممبران پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کی طرف سے بھیجے گئے انتخابی اصلاحات کے مسودے پر قانون سازی کرنے کی بجائے نظر انداز کرنا بہتر سمجھا۔
نئے نامزدگی کاغذات میں مندرجہ ذیل معلومات پوچھی گئیں ‘جن کیخلاف واویلا مچایا جا رہا تھا۔

(1)میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 62/63پر پورا اترتا ہوں
(2) ختم نبوت پر یقین رکھتا ہوں
(3) 20 لاکھ یا اس سے زیادہ کا مقروض بھی نہیں ہوں
(4) Attestedڈگری اور شناختی کارڈ
(5)۔پچھلے تین سال کے ٹیکس ادائیگی کے کاغذات
(6)زرعی زمین ہے تو زرعی آمدن پر ٹیکس ادائیگی کے کاغذات
(7)دہری شہریت نہ ہونے کا حلف
(8)پچھلے تین سالوں میں بیرون ملک دوروں کی تفصیل اور جو خرچ کیا اس کاذریعہ آمدن
(9) سیاسی عہدیدار ہونیکی حیثیت سے پانچ سالہ کارکردگی کی تفصیل۔

بظاہراس فارم میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس پر شور مچایا جاتا‘ہاں جس کے دل میں چور تھا ‘اس نے فخرو بھائی کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کردی‘ پاکستان میں پہلی بار الیکشن کمیشن کی جانب سے اچھے اقدام دیکھنے کو آئے‘ چور لٹیرے کہتے رہے کہ الیکشن کمیشن کو قوانین میں ترمیم کا اختیار نہیںجب کہ سپریم کورٹ یہ قرار دے چکی تھی کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے۔ یہ سوالات الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اچھا قدم تھا جس سے بہت سے چوروں لٹیروں سے مقدس ایوانوں کی جان چھوٹ سکتی تھی۔
ایک دوست نے ایک دوسرے نقطہ نظر سے ان تبدیلیوں کا جائزہ لیا اور اس پر بہت ہی خوبصورت تبصرہ کیا ‘ان کا کہنا تھا کہ

’’ ملک کے عوام اور رہنماء جس طرح کے قوانین اور طریقہ کار کے عادی ہوچکے ہیں ان میں کوئی اچھی تبدیلی عوام کو اور قائدین دونوں کو ہضم نہیں ہوگی اس لئے نیکی برباد اور گناہ لازم شاید اسی کو کہتے ہیں ‘حکومت نے سراسر اپنی درخشندہ روایات کے خلاف ایک آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن اپوزیشن کی متفقہ رائے سے قائم کیا ‘اپنی ایمانداری کے حوالے سے مشہور اور غیر متنازع شخصیت فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا گیا لیکن اس ادارے نے الٹا ان شرفاء کو خواہ مخواہ پریشان کرنا شروع کردیا حالانکہ الیکشن کمیشن کو معلوم ہونا چائیے کہ وہ فرشتوں کے درمیان الیکشن نہیں کر وا رہا بلکہ اس کا واسطہ انہی ’’معصوموں‘‘ سے ہے‘ جنہوں نے گزشتہ سے پیوستہ الیکشن میں جعلی ڈگریاں پیش کیں‘ٹیکس نہیں دیے ‘بینکوں کے نا دہندہ ہیں‘کروڑوں کے قرضے معاف کر وا چکے ہیں۔
ٹھیکوں میں کمیشن کھا کھا کر راتوں رات کروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے ہیں‘اپنے پیارے نالائق سرکاری ملازمین کی تعیناتیاں بہترین پوسٹوں پر کراکے ان سے ناجائز کام کراتے رہے‘تھانوں میں ایس ایچ او اور ضلع میں ڈی پی او تک اپنی مرضی کے لگاکر مجرموں کو پناہ دیتے رہے اور کرپشن وغیرہ کے حوالے سے جن کی شہرت اگر انتہائی خراب نہیں تو انتہائی مشکوک ضرور ہے،


ہمارا نظام ہی ایسا تشکیل دیا گیا ہے کہ قانون سازی اور ملک کی بہتری کے ایجنڈے کی بجائے ہر ممبر کو صرف اپنے حلقے اور اپنی جیب کی فکر ہوتی ہے حلقے کے ووٹرز بھی ووٹ کسی بڑے مقصد کیلئے نہیں دیتے بلکہ وہ بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ ممبر صاحب کامیاب ہو کر ان کو نوکریاں دیں گے‘اچھی جگہوں پر ان کی تعیناتیاں کرینگے اور ان کوناجائز اور بغیر میرٹ کے ترقیاں دینگے کسی جرم کی صورت میں ان کو تھانے کچہری سے نجات دلائیں گے۔
ان تمام کاموں اور انتخابات جیتنے ‘ووٹرز کو خوش رکھنے، ان کی خاطر مدارات کرنے اور دیگر اخراجات کے لئے پیسے چاہئیں اور پیسہ کمانے کے لئے ان بے چارے ممبران کو کمیشن اور دیگر ناجائز کرپشن کے کاموں میں ملوث ہونا پڑتا ہے جو ان کی مجبوری ہوتی ہے پیسہ کمانے کے لئے ان ممبران بے چاروں کو نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں جعلی میڈیکل سرٹیفیکیٹ اور جعلی TA/DA کے بلوں کا استعمال بھی عام ہے‘ ووٹ حاصل کرنے کے لئے دولت ‘برادری ‘مذہبی فرقے ‘منت سماجت کے علاوہ دھونس اور زیادتی کے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں‘غریب اور کمزور کی تو کوئی مرضی نہیں ہوتی جس زور آور کے ہتھے چڑھ گیا اسی کا ہوگا‘ اس لئے الیکشن کمیشن ان بے چاروں پر پابندیاں لگا کر انتہائی زیادتی کا مرتکب ہو رہی ہے‘ عوام کو بھی اعتراض نہیں ہے ‘نہ عوام اپنے ممبر کو قانون سازی کے لئے بھیجتا ہے اور نہ ہی ممبر قانون سازی کیلئے اسمبلی میں جاتا ہے۔
اوپر سے سپریم کورٹ بھی الیکشن کمیشن کو ’’ہلہ شیری‘‘ دے رہی ہے اور باور کرا رہی ہے کہ وہ اس معاملے میں مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہے اور آزاد الیکشن کے لئے ہر طرح کے تدا بیر اختیار کرسکتا ہے اور یہ کہ عدلیہ اس کے ساتھ ہے وغیرہ وغیرہ حالانکہ معزز عدلیہ بھی اچھی طرح سے جانتی ہے کہ آئین پر کون سا اور کتنا عمل درآمد ہو رہا ہے؟اس لئے ان شریف امیدواروں کو تنگ کرنے کا کیا فائدہ ؟ اس تمام بحث کا مقصد یہ کہ ان زعماء کی مجبوریوں کو ہر گز درخود اعتناء نہیں سمجھا جا رہا کہ وہ کس ماحول کے پروردہ ہیں اور کس نئے ماحول میں خواہ مخواہ گھسیڑے جارہے ہیں۔
ادھر سینٹ کے حالیہ اجلاس میں کیا خوب کہا گیا کہ اگر عوام جعلی ڈگریوں والے نمائندے چاہتے ہیںتو الیکشن کمیشن کو کیا اعتراض ہے جب کہ ساتھ ہی اسے بھی مضمون واحد تصور کرنا چاہئے کہ اگر عوام ٹیکس چور ‘قرضے ہڑپ کر جانے والے ‘نادہندہ گان اور خراب شہرت والے نمائندے چاہتے ہیں تو الیکشن کمیشن اپنی ضد پر قائم رہ کر عوام کے جذبات کیوں مجروح کرنا چاہتا ہے بلکہ اس کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ کوئی بھی’’ شریف آدمی‘‘ اسمبلیوں میں نہ پہنچ سکے جو ان کے مسائل حل کرسکے جن میں میرٹ کے خلاف نوکریاں دلانا ‘مخالفین کے خلاف جھوٹے پرچے درج کروانا اور اپنے حلیفوں کو تھانے سے چھڑانا وغیرہ شامل ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچنے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور مندرجہ بالا مسائل حل کرنے کی بجائے مکھیاں مارتے رہیں‘ نہ تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے دے سکیں اور بھوکوں الگ مریں۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان سینئر زعماء کے دیرینہ تجربہ سے فائدہ اٹھانے کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا جائے جو کہ موروثی جمہوری اصولوں کے سراسر خلاف ہے‘ سب سے پہلے الیکشن کمیشن کو قوم کے ہاضمے کا خیال بھی رکھنا چاہئے کہ یہ ہر طرح سے نیک پاک ارکان اسمبلی قوم کو ہضم کیسے ہوں گے جو ان شرفاء کے عادی ہوچکے ہیںجنہیں الیکشن کمیشن نے اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے آخر اس ادارے کو ملکی مفاد کا خیال کیوں نہیں آرہاکیا الیکشن کمیشن یہ چاہتا ہے کہ ارکان اسمبلی ہر وقت نمازیں ہی پڑھتے رہیں؟کوئی ڈھنگ کا کام کرکے ہی نہ دیں۔خبر تو شائع ہوچکی تھی کہ الیکشن کمیشن نے صدارتی منظوری کے بغیر ہی انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی مجوزہ اصلاحات و تجاویز کے ساتھ نامزدگی فارم چھپوانا شروع کر دیے بلکہ اس سلسلے میں معزز ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات سے بھی انکار کردیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر صدر نے منظوری نہ بھی دی تو وہ اس ضمن میں نگران حکومت سے آرڈیننس جاری کروالے گی جس کا مسودہ اس نے تیار کرکے رکھا ہوا تھا تو اس بے مہار الیکشن کمیشن سے کوئی خیر کی توقع کیوں کر کرسکتا تھا؟
خدا خیر کرے نہ جانے کون کون سے اور کہاں کہاں سے فرشتے اتر کر الیکشن کمیشن کے معیار پر پورا اتر کر انتخابات لڑیں گے کیونکہ مجھے تو پورے پاکستان میں اچھے لوگ نظر نہیں آتے اور جو اچھے لوگ معاشرے میں موجود ہیں وہ انتخابات اور سیاست و حکومت کے بکھیڑوں میں نہیں پڑتے اس لئے الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ گندگی کی عادی قوم کو صفائی کی خوراک آہستہ آہستہ دے کہیں ایسا نہ ہو کہ ’’ہنس کی چال چلتے چلتے کوا اپنی چال بھی بھول جائے‘‘۔


میرے اس دوست کا تبصرہ بھی الیکشن کمیشن کی توجہ چاہتا ہے۔
 
http://dunya.com.pk/index.php/author/mufti-muneeb-ul-rehman/2014-01-06/5617/41225707

پاکستان کا انتخابی نظام:چند گزارشات…(1)

بظاہر دیکھا جائے تو پاکستان کا انتخابی نظام انڈیا کے مقابلے میں کافی شفاف ہے ، یعنی اس کا طریقۂ کار کھلی کتاب کی طرح ہے۔

پولنگ اسٹیشن پر پریذائیڈنگ افسر بیلٹ باکس کو تمام پولنگ ایجنٹوں کے سامنے کھول کر اندر سے خالی ڈبہ دکھاتا ہے اور پھر اسے سب کی موجودگی میں سیل کرکے اس پر اپنے دستخط ثبت کرتاہے اور اس سارے عمل کے شفاف ہونے کی پولنگ سٹیشن میں موجود تمام پولنگ ایجنٹوں سے تصدیقی دستخط لیتاہے۔

پھر پولنگ کا عمل شروع ہوتاہے، پولنگ افسر ووٹر کا شناختی کارڈ چیک کرکے اُس کانام پکارتا ہے اور وہ خود اور پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود مختلف انتخابی امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ اپنے پاس ووٹر لسٹ پر Tickکا نشان( ) لگاتے ہیں ۔

اگر کوئی پولنگ ایجنٹ ووٹر کو چیلنج کرنا چاہے کہ یہ وہ شخص نہیں ہے ، جس کانام پکارا گیا ہے، یعنییہ جعلی ووٹر ہے ، تو وہ اُسے مقررہ طریقۂ کار کے مطابق چیلنج کرسکتاہے، چیلنج کئے ہوئے ووٹ الگ لفافے میں سیل کئے جاتے ہیں ۔

یہ سارا عمل کھلی فضا میں پولنگ اسٹیشن پر موجود تمام پولنگ ایجنٹوں کے سامنے ہوتاہے ۔ صرف ووٹر ووٹ کی پرچی پر مہر پردے کے پیچھے لگاتاہے، مگرووٹ کی پرچی بیلٹ بکس میں سب کے سامنے ڈالتا ہے، کیونکہ از اول تا آخر وقت بیلٹ باکس پریذائیڈنگ افسر کے سامنے میز پر رکھا ہوتاہے۔

پولنگ کا مقررہ وقت ختم ہونے پر پریذائیڈنگ افسر تمام پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں بیلٹ بکس کھولتاہے اور گنتی شروع کردیتاہے، ووٹ کی مہر لگی ہوئی پرچی بھی سب کو دکھاتاہے۔

پولنگ ایجنٹ کا یہ حق ہے کہ وہ پریذائیڈنگ افسر سے نتائج کی مصدقہ کاپی لے ۔

لکھے ہوئے اور برتے جانے والے اس طریقۂ کار میں بظاہر کوئی خرابی نہیں ہے اور یہ شفاف عمل ہے لیکن تقریباً ہر انتخاب کے بعد دھاندلی یاانتخاب چرائے جانے کا الزام لگایا جاتاہے ، جو بالعموم ہارنے والی جماعت یا جماعتیں لگاتی ہیں اور ریٹرننگ افسر مَوردِ الزام قرار پاتاہے۔ لیکن کیا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہر پولنگ اسٹیشن کے پریذائیڈنگ افسر سے حاصل کی ہوئی نتائج کی مُصدَّقہ نقول حاصل کرکے اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ مگر یہ صرف اُس صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہر امیدوار کے پاس پولنگ ایجنٹوں کی دو مکمل ٹیمیں ہوں ، ضرورت کے موقع پر ایک ٹیم یا ایک ایجنٹ دوسرے کو نماز پڑھنے ، طبعی حاجات یا کھانے وغیرہ کے لئے فارغ (Relieve)کرسکے۔پھر یہ پولنگ ایجنٹ وہ ہوں جو مقامی ووٹر کو جانتے ہوں ، یعنی اسی حلقے سے تعلق رکھتے ہوں اور اسی طرح خواتین پولنگ اسٹیشن پر خواتین پولنگ ایجنٹ بھی مقامی حلقے کی رہائشی ہوں ، جومقامی باشندوں کو جانتی ہوں۔ مزید یہ کہ اُن میں اتنی جرأت وہمت ہو کہ غلَط کو غلَط کہہ سکیں اور چیلنج کرسکیں ، غالباً چیلنج ووٹ کی کچھ معمولی فیس بھی ہوتی ہے اب ہوتا یہ ہے کہ انتخابی امیدواروںاور جماعتوں کے پاس اتنی بڑی تعداد میں تربیت یافتہ پولنگ ایجنٹ نہیں ہوتے، حالانکہ پولنگ اسٹیشن پر ہونے والی دھاندلی پر نظر رکھنے اور اسے چیلنج کرنے کا وہی مؤثر ابتدائی مرحلہ ہوتاہے۔ بہت سے امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ بعض مقامات پر ہوتے ہی نہیں ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو مقامی رہائشی لوگ نہیں ہوتے ، اس صورت میں وہ صرف تماش بین یا مُبَصِّر(Observer) کا کردار ہی ادا کرسکتے ہیں۔ پس اصل کمزوری بنیادی اکائی میں ہوتی ہے، پھر ناتجربہ کاری کا عنصر سب سے اہم ہوتاہے، پولنگ ایجنٹ کو اِس سے غرض نہیں ہونی چاہئے کہ اُس اسٹیشن سے باہر اس کا امیدوار جیت رہا ہے یا ہار رہاہے۔ بہت سے ناتجربہ کار پولنگ ایجنٹ جیت یا ہار کا سن کر جشن یا سوگ منانے چل پڑتے ہیں اور اپنا مورچہ خالی چھوڑ دیتے ہیں ۔ ان کی تربیت یہ ہونی چاہئے کہ ان کا ہار جیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، انہیں تو صرف اپنے اسٹیشن کی چوکس ہو کر نگرانی کرنا ہے اور پریذائیڈنگ آفیسر سے مُصدَّقہ نتیجہ لے کر جانا ہے اور نتیجے پر اپنے دستخط بھی ثبت کرنے ہیں کہ پوری گنتی کاکام میرے سامنے شفاف طریقے سے انجام کو پہنچا اور یہی چیز پریذائیڈنگ افسر کے بھی مفاد میں ہے ۔ بعض اوقات سیاسی جماعتیں کھیل ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر پولنگ کے دوران ہی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیتی ہیں ، اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ان کے فریقِ مخالف ہی کو فائدہ پہنچتاہے کہ پورا پولنگ اسٹیشن یک طرفہ طور پر اُن کے کنٹرول میں چلاجاتاہے ، جعلی ووٹر کو چیک کرنے والا اور چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہتا، تو فریقِ مخالف کی وہ جیت جو چندسو یا چند ہزار کی برتری سے ہوتی ، لاکھوں کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے ۔ سسٹم میں موجود رہتے ہوئے وہ بہت سی بے قاعدگیوں کو چیلنج کرسکتے ہیں ، ریکارڈ پر لاسکتے ہیں ، ایسے میں الیکشن کمیشن بھی ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔

اس کے برعکس انڈیا جو آبادی کے لحاظ سے ہم سے پانچ گنا بڑا ملک ہے ، وہاں قومی الیکشن تین مراحل میں ہوتے ہیں ،پہلے اور دوسرے مرحلے میں پولنگ ختم ہونے پر مہر بند بیلٹ باکس الیکشن کمیشن یا ریٹرننگ افسر کی تحویل میں چلے جاتے ہیں ، وہی ان کی نقل وحمل کا انتظام کرتے ہیں، گنتی بروقت اس لئے نہیں ہوتی کہ نتائج اگلے مرحلے پر اثر انداز نہ ہوں اور کسی سیاسی پارٹی کو نقصان نہ پہنچے۔ تیسرے مرحلے کی تکمیل پر گنتی شروع ہوتی ہے اور نتائج کا اعلان شروع ہوتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں ایسا ہوتو شور مچ جائے کہ بیلٹ بکس چرا لئے گئے ، بدل دئیے گئے ، جعلی ووٹوں سے بھرے ہوئے اضافی بیلٹ بکس ملا دئیے گئے ، وغیرہ۔ لیکن وہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، پس معلوم ہوا کہ اصل چیز نظام کا اعتبار اور ساکھ ہوتی ہے اور یہی چیز ہمارے ہاں مفقود ہے۔

منصفانہ انتخابات کے لئے ریڑھ کی ہڈی سیاسی جماعتوں کا منظم ہونا ہے اور نچلی سطح تک ان کا تنظیمی نیٹ ورک ہے ، جو ہمارے ہاں بالکل نہیں ہے۔

انتخابات دو عناصر سے جیتے جاتے ہیں، ایک پارٹی کی عوامی مقبولیت اور دوسرا انتخابی نظام کے مکمل طریقۂ کارکو جاننا اور اس کے لئے پولنگ کے عملے اور سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کی تربیت ازحد ضروری ہے اور ہمارے ہاں یہ دوسرا عنصر مفقود ہے۔

پھر ہمارے ہاں عدالتی فعّالیت کے گزشتہ دور میں یہ باور کر لیا کہ ہرقومی وملّی مرض کی دوا اور درد کادرماں اعلیٰ عدالتوں کے حاضر یاریٹائرڈ جج صاحبان ہیں ۔ پس سارا نگراں سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اِن معزّز جج صاحبان کے حوالے کردیا گیا، جو ایک مذاق بن کر رہ گیا۔

صرف پنجاب کے نگران چیف منسٹر نجم سیٹھی عدلیہ سے باہر کے تھے اور وہیں تھوڑی بہت حرکت اور فعّالیت نظر آئی ، بیورو کریسی کے بڑے پیمانے پر تبادلے ہوئے ،وغیرہ ۔ باقی سب جگہ کے حصے میں لطائف اور شکایات ہی آئیں۔ پس معلوم ہوا کہ منصفانہ اور شفاف انتخابات ایک خالص انتظامی مسئلہ ہے اور اس کے لئے ایک پُراعتماد ،پُرعَزم ، توانا اور قابل منتظم کی ضرورت ہے ، جو بروقت متاثرہ مقام پر پہنچ سکے، بر وقت فیصلے کرکے احکامات دے سکے اور اُن پر عمل درآمد پر کڑی نظر رکھ سکے۔ اُس کی دیانت وامانت شک وشبہے سے بالاتر ہو اور اس کا اعتبار اور ساکھ بھی ہو۔

ہندوستان میں ایک جج نہیں بلکہ غیرجانبدار اور سخت گیر منتظم چیف الیکشن کمشنر نے وہاں کے قومی انتخابات کی ساکھ قائم کی اور وہ بجاطور پر اس پر فخر کرتے ہیں کہ انڈیا یا دنیا کی سب سے بڑی اور مثالی جمہوریت ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر کو وسیع انتظامی اور مالی اخراجات بھی درکار ہوتے ہیں اور اس کے پاس انتخابی نظام پر مامور عملے کے خلاف تعزیری اور تادیبی کارروائی کے اختیارات بھی ہونے چاہئیں ۔

گزشتہ انتخابات میں جسٹس(ر)فخرالدین جی ابراہیم کو سب سے معتبر اور غیرجانبدار گردان کر اتفاقِ رائے سے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا اورابتدا میں اُن کی سابقہ شہرت کے حوالے سے اُن پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی اور نہ ہی کسی قسم کے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ مگرآج حال یہ ہے کہ وہ مستعفی ہونے کے بعد منظر سے غائب ہیں اور اپنی سابق نیک نامی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جاری
 
Top