کلاسیکی عربی، جدید معیاری عربی اور عربی لہجوں کا مختصر تعارف

حسان خان

لائبریرین
عام طور پر جب عربی کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اُس سے ایک ہی زبان مراد ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ عربی کئی گوناگوں لہجوں اور اسلوبوں کا مجموعہ ہے۔ یہاں اُن مختلف انواع کا مختصر تعارف دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کلاسیکی عربی:
کلاسیکی عربی یا قرآنی عربی اُس زبان کو کہا جاتا ہے جو ساتویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی عیسوی تک کتابت کے لیے استعمال ہوا کرتی تھی۔ اسلام سے قبل کے دور میں شمالی عربستان میں کئی ملتی جلتی بولیاں بولی جاتی تھیں، لیکن قرآن کی زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بدوی قبائل اور قریشِ مکہ کے لہجے پر مبنی ہے۔ پس از قرآنی دور میں قرآن کا لہجہ عربی کا معیاری لہجہ بن گیا اور اور عربی کے باقی لہجے فراموشی کی نذر ہو گئے۔ بعد میں جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں وہ قرآنی عربی کی پیروی ہی میں لکھی گئیں۔ عربی چونکہ ایک بڑے گروہ کی دینی زبان تھی، اور اُس گروہ کو اپنی احتیاجوں کے لیے عربی متون پڑھنے کی ضرورت رہتی تھی، اس لیے قرونِ وسطیٰ میں عربی کے قواعد نویسی اور لغت نویسی پر بہت سارا کام ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی کے ابتدائی ماہرینِ صرف و نحو میں نومسلمان ایرانی پیش پیش تھے اور ایرانی مصنفوں نے عربی زبان پر بہت ساری منظم کتابیں لکھی تھیں۔ دینِ اسلام کا سارا دینی ادب اسی کلاسیکی عربی میں ہے اور کلاسیکی عربی میں شاعری کا بھی بڑا گنجینہ موجود ہے۔ کلاسیکی عربی کو اپنے ذخیرۂ الفاظ کے پہلو سے بے حد غنی مانا جاتا ہے۔

جدید معیاری عربی:
انیسویں صدی عیسوی میں جب عرب نشاۃِ ثانیہ یا النھضۃ کا آغاز ہوا تو عربی زبان اپنے جدید دور میں وارد ہوئی اور ایک نئی معیاری عربی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس ثقافتی نشاۃِ ثانیہ کے مراکز شام، لبنان اور مصر تھے۔ جدید معیاری عربی کی دستوری بنیاد قرآنی عربی ہی پر ہے اور جہاں تک قواعدِ صرف و نحو کی بات ہے تو قرآنی عربی اور جدید معیاری عربی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق صرف لفظیات اور اسلوب کا ہے، یعنی کلاسیکی عربی کے بہت سے الفاظ اب استعمال نہیں ہوتے یا اگر ہوتے ہیں تو اُن کے معنی تبدیل ہو گئے ہیں۔ اور جدید عربی میں دورِ جدید کے مفاہیم بیان کرنے کے لیے ہزاروں الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ زبان تمام عرب ممالک کی سرکاری اور درسی زبان ہے اور تمام کتابیں اسی معیاری عربی میں لکھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اخباری چینلوں اور رسمی گفتگوؤں میں بھی معیاری عربی ہی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عوامی لہجوں کے برخلاف، معیاری عربی پوری عرب دنیا میں یکساں ہے۔ کلاسیکی عربی اور معیاری عربی کو عرب دنیا میں فُصحیٰ یا فصیح زبان کہا جاتا ہے۔

عوامی عربی لہجے:
عرب دنیا میں دوگانگیِ لسان کی وضعیت موجود ہے، یعنی عرب ممالک کی عوام روزمرہ امور میں معیاری عربی کا استعمال نہیں کرتے، بلکہ اپنے اپنے خطوں کے لہجے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب لہجے ایک دوسرے سے بہت مختلف اور عموماً باہم ناقابلِ فہم ہیں، اس لیے اُن سب کو جدا زبانیں مانا جا سکتا ہے۔ چونکہ تمام عرب ممالک میں ایک مشترکہ ثقافت، مشترکہ تاریخ اور مشترکہ شناخت کا احساس موجود ہے، اس لیے ان لہجوں کو الگ خودمختار زبانوں کے بجائے عربی کے لہجے ہی کہا جاتا ہے۔ یہ لہجے ڈراموں، فلموں اور گانوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ان کا معاشرتی قد چھوٹا ہے اور انہیں سنجیدہ ادبی کتابوں میں نہیں برتا جاتا۔ تحریر کے دائرے میں معیاری عربی ہی کی حکمرانی ہے، اور اُس کے سامنے ان لہجوں کو غیر معیاری تصور کیا جاتا ہے۔ مختلف خطوں کے عرب اپنی باہمی گفتگو کے لیے معیاری عربی کی مدد لیتے ہیں کیونکہ اکثر اُن کے اپنے لہجے سامنے والے کے سر سے گذر جاتی ہیں۔ ان لہجوں میں انگریزی، فرانسیسی، ترکی اور فارسی وغیرہ کے بھی کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں، جبکہ معیاری عربی میں اُن کی جگہ پر خالص عربی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لہجوں کے قواعد بھی معیاری عربی کے مقابلے میں سادہ ہیں۔

مصری عربی:
مصر عرب دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس وجہ سے اسے عرب دنیا کے ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں بنے گئے ڈرامے اور فلمیں پوری عرب دنیا میں دیکھی جاتی ہیں اور مصر کے چینل بھی عرب دنیا میں مقبول ہیں۔ اس لیے مصری عربی کی پہنچ باقی بولیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور ٹی وی دیکھنے والی عرب دنیا کی عوام عموماَ مصری عربی کو آسانی سے سمجھ لیتی ہے۔ اگر کوئی شخص روزمرہ امور کے لیے عربی سیکھنا چاہتا ہو تو مصری عربی کا سیکھنا سب سے زیادہ مفید ہے۔

شامی عربی:
شامی عربی بلادالشام کے ممالک یعنی شام، لبنان، اردن اور مقبوضہ فلسطین میں بولی جاتی ہے۔ اس کی قابلِ فہمیت بھی دوسری بولیوں کی نسبت زیادہ ہے کیونکہ اس خطے سے کئی مشہور عوامی موسیقار ابھرے ہیں جنہوں نے اپنی خطے کی بولی کو وسیع عرب دنیا میں مقبول کر دیا ہے۔ شامی عربی کو بھی اکثر لوگ سیکھنا پسند کرتے ہیں۔
البتہ اس منطقے کے گلوکار بھی زیادہ تر مصری عربی میں گانے گاتے ہیں۔

مغربی عربی:
مغربی عربی لہجے لیبیا، تونس، الجزائر اور مراکش میں بولے جاتے ہیں۔ فرانسیسی دورِ اقتدار میں تونس اور الجزائر میں مکاتب میں عربی بولنے اور عربی مطبوعات پر مکمل پابندی تھی، اس لیے یہاں کی عوام بولتے وقت اپنے لہجوں میں فرانسیسی کے الفاظ کا بہت استعمال کرتی ہے۔ البتہ فرانسیسی الفاظ کی کثرت صرف گفتاری لہجوں تک محدود ہے، اور یہاں بھی معیاری عربی میں اُن کا داخلہ بند ہے۔ مراکش کی عربی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ معیاری عربی سے سب سے زیادہ مختلف ہے اور مراکش سے باہر کے لوگ اسے بالکل بھی نہیں سمجھ پاتے۔
اس کے علاوہ بھی عربی لہجوں کی کئی دیگر چھوٹی بڑی انواع موجود ہیں جن میں حجازی عربی، خلیجی عربی، عراقی عربی، یمنی عربی اور موریتانیا اور متنازعہ مغربی صحرا میں بولی جانے والی حسانیہ عربی شامل ہیں۔

مالطی زبان:
۸۷۰ء سے ۱۰۹۰ء تک صقلیہ اور مالطا میں عربوں کی حکمرانی رہی ہے۔ عربوں کے دور میں ان علاقوں کی غالب زبان عربی تھی۔ مالطا کی تو غالب آبادی ہی مسلمان عربوں پر مشتمل تھی جبکہ صقلیہ میں شمالی افریقہ کے کئی عرب اور بربر لوگ آ کر آباد ہو گئے تھے جو عربی زبان کا استعمال کیا کرتے تھے، اور مقامی آبادی بھی عربی بولنے لگی تھی۔ صقلیہ میں عربوں کے اقتدار کے خاتمے کے ایک صدی بعد ہی عربی زبان بھی ختم ہو گئی البتہ صقلیہ کی مقامی زبان پر اپنا نقش چھوڑ گئی۔ مالطا میں معاملہ مختلف تھا۔ یہاں مسیحی نارمن فتح کے ۱۵۰ سال بعد تک بھی انتظامی امور کے لیے عربی زبان ہی استعمال ہوتی تھی اور جزیرے پر مسلمان عربوں کا ثقافتی اور معاشی غلبہ برقرار تھا۔ ۱۲۴۹ء میں ایک فرمان جاری کیا گیا جس کے تحت مسلمان عربوں کو جزیرہ چھوڑنے یا پھر مسیحیت قبول کرنے کا اختیار دیا گیا اور نتیجتہً چند لوگوں نے مسیحیت قبول کر لی اور چند لوگ جزیرہ چھوڑ کر شمالی افریقہ میں بس گئے۔ مسلمان عربوں کے جزیرہ چھوڑ دینے کے بعد بھی جزیرے کی گفتاری زبان عربی ہی رہی۔ لیکن اُس کا رابطہ کلاسیکی عربی سے اور اسلامی عرب دنیا کی ثقافت سے مکمل طور پر کٹ گیا اور وہ آزادانہ ارتقاء کرنے لگی۔ مالطا کی آبادی اب سو فیصد کیتھولک مسیحی تھی، اس لیے وہ روم کی جانب دیکھا کرتے تھے۔ اُن کی انتظامی و دینی زبان اب لاطینی تھی۔ قرآنی عربی سے اُنہیں کوئی سروکار تھا نہ قرآن میں استعمال ہونے والے عربی خط سے۔ مالطا کے اہلِ قلم لاطینی اور اطالوی کو ذریعۂ اظہار بناتے تھے، جبکہ اُن کی مقامی عربی بولی صرف بول چال تک محدود تھی۔ مالطی زبان میں پہلا سنجیدہ تحریری کام اُس وقت ہوا جب انیسویں صدی عیسوی میں مسیحی کتابِ مقدس کا اس میں ترجمہ کر کے نئی مالطی ادبی روایت کی بنیاد رکھی گئی۔ مالطی زبان اپنی ابتداء سے اطالوی سے نشو و نما پاتی رہی ہے اس لیے مرورِ زمانہ کے ساتھ ہزاروں اطالوی الفاظ مالطی کا جز بن گئے ہیں جو تحریر و تقریر دونوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ اور چونکہ انگریزی دورِ اقتدار میں مالطا کے لوگوں نے انگریزی زبان اپنا لی تھی اور اب مالطا کے تقریباً تمام لوگ دوزبانی ہیں اس لیے اب انگریزی کے الفاظ کا بھی مالطی میں آزادانہ استعمال ہوتا ہے۔ آٹھ سو سالوں کی تنہائی میں ان تمام چیزوں نے مالطی کو معیاری عربی اور دوسرے علاقوں کے عربی لہجوں سے اتنا مختلف کر دیا ہے کہ اب اس میں عربی پن بھی کم نظر آتا ہے۔ اسماء تو ایک طرف، بعض بار تو افعال بھی اطالوی یا انگریزی سے مستعار لیے ہوئے استعمال ہوتے ہیں۔ تلفظ میں تو یہ اب کہیں سے بھی عربی نہیں لگتی، البتہ تحریری زبان کو بنظرِ غائر دیکھنے سے عربی اساس نظر آ جاتی ہے۔ دستوری قواعد سارے عربی الاساس ہیں اور بنیادی اسماء و افعال بھی سارے عربی الاصل ہیں، البتہ بگڑی ہوئی شکل میں استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن علمی اور جدید مفاہیم کے لیے عربی مفرد سے الفاظ بنانے کے بجائے اطالوی یا انگریزی کا کوئی لفظ من و عن لے لیا جاتا ہے۔ کلاسیکی عربی سے مشتق ہونے والی تمام عربی بولیوں میں یہ واحد بولی ہے جسے معیاری اور سرکاری زبان کا درجہ ہونے کا حاصل ہے اور جس کی اپنی آزادانہ ادبی روایت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مالطی زبان تونسی عربی بولی سے نسبتاً زیادہ قریب ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ مالطی کی کلیسائی زبان میں البتہ عربیت زیادہ ہے۔ کتابِ مقدس کے تراجم، عبادات اور پادریوں کے خطبوں میں جو زبان استعمال ہوتی ہے اُس میں کئی ایسے عربی الاصل الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں جو موجود زمانے میں مالطا کے لوگ استعمال نہیں کرتے۔ کتابِ مقدس کے ابتدائی مترجموں نے یہ شعوری کوشش کی تھی کہ اطالوی زبانوں کے الفاظ کے مقابلے میں عربی الاصل الفاظ ہی استعمال کیے جائیں۔ اس کے علاوہ شاعری میں بھی عربی پن زیادہ نظر آتا ہے۔ اخباری زبان میں دوسری طرف یورپی الفاظ چھائے رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق معاصر مالطی زبان کے کُل ذخیرۂ الفاظ میں چالیس فیصد الفاظ عربی کے، جبکہ ساٹھ فیصد الفاظ یورپی زبانوں کے ہیں۔
عرب دنیا میں بھی، بالخصوص لبنان میں، مسیحی اقلیت موجود ہے، لیکن چونکہ وہ مسلمان اکثریت کے درمیان رہتے آئے ہیں اور اُنہوں نے جب لکھنا شروع کیا تو معیاری عربی ہی کو ذریعۂ اظہار بنایا، اس لیے مالطا کی طرح عرب دنیا میں مسیحی پس منظر کی کسی مخصوص ادبی عربی کی بنیاد نہیں پڑی۔

مالطا اور صقلیہ کا نقشہ
Strait_of_Sicily_map.png


عرب دنیا میں اقامت رکھنے والے اور عربی زبان میں مہارت رکھنے والے احباب بھی اگر اپنے تجربوں اور عربی بولیوں سے متعلق معلومات سے آگاہ کریں تو مجھے خوشی ہو گی۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھا معلوماتی آرٹیکل ہے۔ اور عرب دنیا می رائج عربی زبان کی مختلف اشکال کی اجمالی سی تصویر پیش کرتا ہے ۔ اسلام کے مذہبی ورثے اور خصوصاً قرآن کریم کی زبان ہونے کی وجہ سے اس خوش قسمت زبان کی جتنی خدمت اس سے وابستہ دنیا نے کی شاید ہی کسی اور زبان کے حصے میں آئی ہو۔اس زبان کے قواعد میں زیادہ کردار عرب کے ساتھ عجمی لوگوں کا بھی عظیم کردار رہا ہے۔ اور جدید عرب زبان کی باقاعدہ قواعد کی ساخت پر مبنی پہلی کتاب مرتب کر نے میں "سیبویہ" نامی اہل فارس کےایک معروف عالم کا ذکر بہت ملتا ہے۔
عرب زبان کی اندرونی تناظر سے ان مذکورہ عربی زبان کی اقسام کے بارے میں انہیں مروجہ عرب لہجات سے تعبیر کیا جاتا ہے جو آج کے تقریباً بیس بائیس ممالک کے مختلف علاقوں میں بولے جاتے ہیں ان سب میں رسمی عربی ساخت تو سم کی مشترک ہے کہ اس پر تقریباً تمام ماہر لسانیا ت عرب متفق ہیں۔ہر لہجے کا ایک اپنا نہ صرف اپنا بولنے کا مخصوص انداز ہے بلکہ ملفوظہ و منطوقہ عناصر میں بسا اوقات اتنا تفاوت ہے کہ سننےوالا گویا انہیں الگ الگ زبان ہی تصور کرتا ہے۔
میرے ذاتی مشاہدے کی بات ہے کہ میں "لہجے" کو آواز کے اتار چڑھاؤ ،جملے میں الفاظ پیوست کرنے اور جملے کے بولے جانے کی رفتار تک محدود سمجھتا تھا۔لیکن یہاں عربی زبان (کسی قدر)سیکھنے کے دوران یہ واضح ہوا کہ لہجے میں حروف کے مخارج تک کو ازحد متفاوت ہو جا نا تک شامل سمجھا جانا ایک عام سی بات ہے۔او ر یہی خصوصیت ہر علاقے کو ایک منفرد "لہجہ" بنادیتی ہے۔اس سلسلے میں میرے کچھ مشاہدات یقیناً بہت توجہ کے طالب اور دلچسپ لگتے ہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ آپ کو نہایت حیرت انگیز بھی لگیں ۔
قطع نظر اس امر کے کہ رسمی ،معیاری اور ادبی زبان کی ساخت ہر جگہ ایک ہی ہے اور حروف کی تعداد انتیس ہی ہے جس میں پ گ ٹ ڈ ژ وغیرہ یکسر غائب ہیں ،کچھ حراف برملا استعمال ہوتے نظر آتے ہیں۔
عموماً ۔ ق کو گ بولا جاتا ہے۔(مصر کے علاوہ تمام لہجات میں ) جزیرہ عرب خلیج افریقہ -حالانکہ گ نہ معیاری لہجے میں شامل ہے نہ ادبی زبان میں ۔
مثلاً ۔ قل (کہو) کو گل (پھول) بولا جاتا ہے ۔ عبد القادر کو عبدل الگادر اور ۔قریب کو گریب وغیرہ۔
ث کی جگہ عموماً ت کہا جاتا ہے مثلا ثانی کو تانی کہنا ۔
مصری لہجہ جو کہ انٹرٹین مینٹ میڈیا اور ثقافتی نوعیت کے ماحول میں تقریبا ہر جگہ غالب نظر آتا ہے سب سے زیادہ ممتاز نظر آتا ہے۔
اس مصری لہجے میں ق کو الف بو لاجا تا ہے۔ مثلاً قلب کو الب قریب کو اریب قوی کو اوی وغیرہ بولا جاتا ہے۔
مصری لہجے میں ج کی جگہ گ کو عام استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً جدہ شہر کو گدّہ ۔ مسجِد کو مسگِد جمیل کو گمیل حاجات کو حاگات وغیرہ۔
ض کی جگہ ز بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً مضبوط کی جگہ مزبوط۔
اسی طرح زبان سیکھنے کے دوران بہت سےایسے تغیرات کا سامنا ہوتا ہے ہیں جن کی وجہ سے عربی زبان ایک عجیب املغم(amalgam) بنی نظر آتی ہےہے۔
جدید عربی میں ایک تین نقطوں والا حرف (ف) بھی عام ملنے لگا ہے جو انگلش وی(V) ۔کا متبادل مانا جاتا ہے۔
لیکن یہایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام اور قرآن کی وجہ سے جس قدر مستحکم انتظام اور واضح اور بیّن اصول و قواعد اور فصاحت اور بلاغت کے اسالیب اس میں ہیں وہ شاید ہی کسی خالص زبان میں ہوں۔
اس تحریر میں تمام تجربات و مشاہدات میرے اپنے ہیں چنانچہ ان سے اختلاف کیا جاسکنا عین ممکن ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ہر لہجے کا ایک اپنا نہ صرف اپنا بولنے کا مخصوص انداز ہے بلکہ ملفوظہ و منطوقہ عناصر میں بسا اوقات اتنا تفاوت ہے کہ سننےوالا گویا انہیں الگ الگ زبان ہی تصور کرتا ہے۔
میرے ذاتی مشاہدے کی بات ہے کہ میں "لہجے" کو آواز کے اتار چڑھاؤ ،جملے میں الفاظ پیوست کرنے اور جملے کے بولے جانے کی رفتار تک محدود سمجھتا تھا۔لیکن یہاں عربی زبان (کسی قدر)سیکھنے کے دوران یہ واضح ہوا کہ لہجے میں حروف کے مخارج تک کو ازحد متفاوت ہو جا نا تک شامل سمجھا جانا ایک عام سی بات ہے۔او ر یہی خصوصیت ہر علاقے کو ایک منفرد "لہجہ" بنادیتی ہے۔

عربی لہجوں یا بولیوں کے درمیان فرق کو جو بات شدید بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ان میں صرف تلفظ ہی کا فرق نہیں ہے، بلکہ صدیوں کے عمل سے بنیادی ساخت میں بھی فرق آ گیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ کی انگریزیوں کے درمیان بھی تلفظ اور لہجے کا واضح فرق ہے اور بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو صرف برطانیہ یا صرف امریکا میں مستعمل ہیں، لیکن جملوں کی ساخت میں اور قواعدِ زبان کے لحاظ سے قابلِ ذکر فرق نہیں ہے۔ جبکہ عربی لہجوں میں تو ایک سادہ سی بات بھی مختلف طریقے پر کہی جاتی ہے۔
اس کی ایک مثال انٹرنیٹ پر دیکھی تھی، جس سے عربی لہجوں کے تفاوت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
اردو = میں تم سے پیار کرتا ہوں۔
معیاری عربی = uhibbuki
مصری = bahibbik
لبنانی = bhebbek
تونسی = nhebbek
مالطی = inhobbok
یمنی = ahbish
مراکشی = kanabgheek
دیکھیے، کسی طرح ایک بہت سادہ جملہ بھی ان تمام انواعِ عربی میں مختلف طریقے سے کہا جاتا ہے۔

ویسے کیا آپ تفریحی ذرائعِ ابلاغ میں زیادہ استعمال ہونے والی مصری عربی سمجھ لیتے ہیں؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عربی لہجوں یا بولیوں کے درمیان فرق کو جو بات شدید بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ان میں صرف تلفظ ہی کا فرق نہیں ہے، بلکہ صدیوں کے عمل سے بنیادی ساخت میں بھی فرق آ گیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ کی انگریزیوں کے درمیان بھی تلفظ اور لہجے کا واضح فرق ہے اور بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو صرف برطانیہ یا صرف امریکا میں مستعمل ہیں، لیکن جملوں کی ساخت میں اور قواعدِ زبان کے لحاظ سے قابلِ ذکر فرق نہیں ہے۔ جبکہ عربی لہجوں میں تو ایک سادہ سی بات بھی مختلف طریقے پر کہی جاتی ہے۔
اس کی ایک مثال انٹرنیٹ پر دیکھی تھی، جس سے عربی لہجوں کے تفاوت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
اردو = میں تم سے پیار کرتا ہوں۔
معیاری عربی = uhibbuki
مصری = bahibbik
لبنانی = bhebbek
تونسی = nhebbek
مالطی = inhobbok
یمنی = ahbish
مراکشی = kanabgheek
دیکھیے، کسی طرح ایک بہت سادہ جملہ بھی ان تمام انواعِ عربی میں مختلف طریقے سے کہا جاتا ہے۔

ویسے کیا آپ تفریحی ذرائعِ ابلاغ میں زیادہ استعمال ہونے والی مصری عربی سمجھ لیتے ہیں؟
ساید یہ اس طرح ہے کہ افریقی ویرئینٹس میں تو زبانوں کا نام بھی پڑچکا ہے۔ جیسے مراکشی زبان "دریجہ" کہلاتی ہے ۔ غالبا ً بقیہ بھی اسی طرح ہوں گی۔اس کی بنیادوں میں معیاری عربی کاڈھانچہ غور کرنے سےبخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
عربی ۔۔۔۔۔۔آٹھ۔ ثمانیۃ۔ دریجہ ۔تمنیہ۔۔۔۔۔۔۔۔عربی۔۔۔۔۔ بارہ ۔ اثنا عشر۔ دریجہ ۔طناش۔وغیرہ
لیکن تلفظ اور انداز و اتنے مختلف ہوجاتے ہیں کہ اکثر عرب لوگ تک خالص لہجوں کو سمجھ نہیں سکتے۔جو عربی سب کی بنیاد ہے وہ سب کی مشترکہ اصطلاح میں فصحیٰ کہلاتی ہے۔
البتہ مصری لہجے والوں کو سمجھنے کے لیے انہوں اپنی عوامی سطح تک لانا پڑتا ہے :) ۔ان کا لہجہ آسان نہیں لگتا خصوصاً ۔کچھ حروف (جن کا ذکرمیں نے پہلے کیاج ق وغیرہ) کو مکمل طور پر دوسروں سے خلط ملط کرنے کی وجہ سے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ضمیمہ:
۱) لبنانی مسیحیوں کی اقلیت اس بات کی داعی رہی ہے کہ لبنان کی مقامی عربی بولی کو لاطینی خط اپنا کر مستقل زبان کا درجہ دے دینا چاہیے۔ یہ تحریک ساٹھ کے عشرے میں کافی صدادار تھی، لیکن اب گوشۂ گمنامی میں جا چکا ہے اور بس اب انٹرنیٹ پر اس تحریک کے کچھ آثار موجود ہیں۔ اسی طرح مصری قوم پرستوں نے بھی یہ تحریک چلائی تھی کہ مصر میں معیاری عربی کے بجائے مصری عربی بولی کو نافذ کر دینا چاہیے۔ لیکن یہ بھی معاشرے میں جڑ نہیں پکڑ سکی۔ اصل میں عرب دنیا میں تا حال مقامی قوم پرستانہ جذبوں کے بجائے اتحادِ عرب کے جذبے زیادہ مقبول ہیں اور پھر فصحیٰ سے لوگوں کے دینی و تہذیبی جذبات بھی وابستہ ہیں، اس لیے آئندہ سو سالوں تک تو معیاری عربی کو کسی عرب ملک میں خطرہ درپیش نہیں ہے۔
۲) مالطی زبان میں عربی پن ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ابھی بھی عربی بولنے والوں کے لیے قابلِ فہم ہے۔ مالطی آٹھ سو سالوں میں (اور اطالوی کے زیرِ اثر) اتنی بدل چکی ہے کہ اپنی والدہ عربی زبان سے اس کا رشتہ بہت ڈھیلا پڑ گیا ہے۔ ویسے بھی نہ تو مالطا کے لوگ اپنی زبان کو عربی کہتے ہیں نہ وہ خود عرب ہی ہیں۔
۳) فصحیٰ یا معیاری عربی پوری عرب دنیا میں کسی بھی شخص کی مادری زبان نہیں ہے۔ بچے اپنے گھروں میں اپنی مقامی بولی بولنا ہی شروع کرتے ہیں۔ بعدازاں، اُنہیں اپنے مکاتب میں معیاری عربی سے آشنائی حاصل ہوتی ہے۔
۴) بچوں کے لیے جو کارٹون پیش کیے جاتے ہیں وہ بالکل بے عیب فصحیٰ میں ہوتے ہیں۔
۵) صقلیہ میں بھی تیرہویں صدی عیسوی تک عربی زبان بولی جاتی رہی ہے۔
۶) عراق میں مسیحی برادری کی اپنی مخصوص عربی بولی ہے جو مسلمانوں کے زیرِ استعمال نوع سے ذرا مختلف ہے۔ لیکن اُن کی بولی صرف گفتاری ہے اور تحریر میں وہ بھی معیاری عربی استعمال کرتے ہیں۔
۷) اسرائیل کی تشکیل سے پہلے عرب دنیا میں جو یہودی تھے اُن کی اپنی مختلف تحریری و گفتاری بولیاں تھیں جنہیں یہودی عربی بولیاں کہا جاتا ہے۔ یہودی اہلِ قلم اپنی عربی زبان کو عبرانی خط میں لکھا کرتے تھے اور اُن کی تحریروں میں عبرانی اور آرامی الفاظ بھی بہت شامل ہوا کرتے تھے۔ اُن کی تحریری زبان میں فصحیٰ کے بجائے اُن کی اپنی مقامی بولیوں کی خصوصیات زیادہ نظر آتی تھیں۔ یہودی عربی میں لکھی گئی کتابیں دینی موضوعات پر ہیں اور قرونِ وسطیٰ کی کئی مایہ ناز یہودی دینی کتب اسی یہودی عربی میں ہیں۔ یہودی عربی اب تحریر میں استعمال نہیں ہوتی اور تقریر میں بھی یہ معدوم ہونے کے قریب ہے، کیونکہ اسرائیل ہجرت کر جانے والے عرب گو یہودیوں کی نئی نسل نے عبرانی زبان اپنا لی ہے۔
۸) ازبکستان میں چند گاؤں ابھی بھی ایسے ہیں جہاں کے مکین عربی بولی بولتے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ عربی گو آبادی اُن لوگوں کی اولاد ہے جو عربوں کی وسطی ایشیا کی فتح کے بعد وہاں ہجرت کر گئے تھے۔ ازبکستان کی یہ عربی بھی معدوم ہونے والی ہے۔
۹) عربی ماہرِ لسانیات اور مفکرین عربی زبان کے مستقبل اور عرب ممالک میں لسانی وحدت کے بارے میں فکرمند ہیں۔ کچھ لوگ یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ معاشرے میں صرف فصحیٰ بولنے پر زور دیا جائے اور مقامی بولیوں کی حوصلہ شکنی جائے۔ جبکہ کچھ لوگوں کی تجویز ہے کہ معیاری عربی کو سادہ کر کے اور اُس میں مقامی بولیوں کی آمیزش کر کے عرب دنیا کے لیے ایک نئی متحدہ زبان کی داغ بیل ڈالی جائے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اگر مقامی بولیوں کو فصحیٰ پر اہمیت دی گئی تو عرب اتحاد ختم ہو جائے گا کیونکہ عرب اتحاد میں معیاری عربی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
ان چودہ سو سالوں میں تو تحریری عربی کا تسلسل اور اس کی وحدت قائم رہی ہے، دیکھتے ہیں مستقبل اپنے ہمراہ کیا لاتا ہے۔
۱۰) کلاسیکی عربی یا قرآنی عربی بول چال کی سطح پر نویں صدی عیسوی تک ختم ہو گئی تھی۔ اُس کے بعد سے اب تک یہ زبان فصحیٰ کی شکل میں تحریر یا رسمی موقعوں پر استعمال ہوتی آئی ہے۔ البتہ آج بھی اسے ہی 'درست عربی' یا 'معیاری عربی' کہا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
ساید یہ اس طرح ہے کہ افریقی ویرئینٹس میں تو زبانوں کا نام بھی پڑچکا ہے۔ جیسے مراکشی زبان "دریجہ" کہلاتی ہے ۔ غالبا ً بقیہ بھی اسی طرح ہوں گی۔اس کی بنیادوں میں معیاری عربی کاڈھانچہ غور کرنے سےبخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
یہ دریجہ نہیں، دارجہ ہوتا ہے :) :)
عربی ۔۔۔۔۔۔آٹھ۔ ثمانیۃ۔ دریجہ ۔تمنیہ۔۔۔۔۔۔۔۔عربی۔۔۔۔۔ بارہ ۔ اثنا عشر۔ دریجہ ۔طناش۔وغیرہ
محض اتنا ہے کہ ث کو ت پڑھا جاتا ہے اور بولنے میں روانی کی وجہ سے عشر کا ع اور ر حذف کردیتے ہیں، تو اثنا عشر محض اتناش، تناش یا طناش ہوکر رہ جاتا ہے۔
لیکن تلفظ اور انداز و اتنے مختلف ہوجاتے ہیں کہ اکثر عرب لوگ تک خالص لہجوں کو سمجھ نہیں سکتے۔جو عربی سب کی بنیاد ہے وہ سب کی مشترکہ اصطلاح میں فصحیٰ کہلاتی ہے۔
البتہ مصری لہجے والوں کو سمجھنے کے لیے انہوں اپنی عوامی سطح تک لانا پڑتا ہے :) ۔ان کا لہجہ آسان نہیں لگتا خصوصاً ۔کچھ حروف (جن کا ذکرمیں نے پہلے کیاج ق وغیرہ) کو مکمل طور پر دوسروں سے خلط ملط کرنے کی وجہ سے۔
کوئی خاص بات نہیں، اردو دنیا میں بھی ایسی تعداد کافی ہے جو فصیح اردو نہ بولتی ہے نہ سمجھتی ہے، یہ صورتحال محض عربی زبان کے ساتھ نہیں ہے، نیز عرب ممالک کافی عرصہ تک مختلف استعمارات مثلا فرانسیسی استعمار کے زیر نگین رہے ہیں، اس لیے فرانسیسی زبان اور لب ولہجہ بھی آگیا ہے۔
مصری عربی کی بات ذرا مختلف ہے، یہاں کی عربی میں متعدد زبانوں مثلا قبطی اور فرانسیسی کے پیوند موجود ہیں، اس لیے اس میں کافی اختلاف نظر آتا ہے، نیز مصری عوام میں ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو مصری زبان کو عربی زبان کے ایک لہجہ یا بولی کے بجائے مستقل زبان سمجھتے ہیں، بلکہ الگ سے ویکیپیڈیا بھی اس زبان میں شروع کیا ہوا ہے۔ تاہم اس صورتحال کو خود مصر میں قبول عام حاصل نہیں ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محض اتنا ہے کہ ث کو ت پڑھا جاتا ہے
اس کی بنیادوں میں معیاری عربی کاڈھانچہ غور کرنے سےبخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے
میں نے مندر جہ بالا الفاظ میں شاید یہی بات کہی تھی ۔:)
کشی دوستوں نے یہی نا م "دریجہ"بتایا ۔سو میں نے بھی یہی لکھا ۔:)
 
آخری تدوین:

اسد منصور

محفلین
بہت عمدہ اور معلوماتی ڈسکشن ہے۔ حسان صاحب جو غالبا" کویت میں لائیبریرین ہیں نے کتابوں سے تعلق ہونے کی بناء پر اچھی معلومات فراھم کی ہیں انٹرنیٹ والوں کو۔ انہوں نے صقلیہ کا ذکر کیا ہے، یہ غلبا" سسلی ہے جو اٹلی کا جزیرہ ہے اب اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فتح ہو گیا تھا۔
سید عاطف علی صاحب کی معلومات بھی بڑی اچھی ہیں خاص طور پہ مصری زبان کے بارے میں، کہ ایسا سنا تو ضرور تھا اور اکثر ٹی وی انٹرویوز میں بھی جیم کی جگہ گاف سنا ہے لیکن باقی الفاظ کی معلومات نہی تھیں جو انہوں نے دی ہیں۔
اگر مختلف عرب ممالک میں رہنے والے پاکستانی اور ہندوستانی بھائی بھی اپنی اپنی معلومات اسی طرح شیئر کریں تو بہت اچھا ہو۔
جزاکم اللہ خیرا" کثیرا"
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہسپانیہ سے واپسی پر سسلی جزیرہ پر مسلم حکومت پر ایک نظم علامہ اقبال کی بھی ہے۔ شاید صقلیّہ نام کی ۔
رولے اب دل کھول کر اے دیدہ ء خوں نابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار۔
 
آخری تدوین:

عمارحسن

محفلین
سید عاطف علی برادر اور بھائ حسان خان نے نہایت اچھی معلومات فراہم کی ہیں، میں برادر سیدعاطف کی معلومات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، خاص طور پہ لہجہ کی جو بات کی جاتی ہے مصری لہجہ سعودی لہجہ سے یکسر مختلف ہے۔
یہ لہجوں کا مختلف ہونا صرف ملکوں کے حد تک نہیں ہے، مثلا٘ سعودیہ کے اندر مختلف لہجے اور الفاظ کا چناو کیا جاتا ہے کسی کو خوش آمدید کہنے کے لیے۔ ایک اور بات قابل تحریر ہے کہ سعودیہ میں اکثر محفلوں میں عربی فصح بولی جاتی ہے، خصوصا اگر محفل دین اسلام سے تعلق رکھتی ہو۔ شکریہ۔
 
Top