اسکین دستیاب انتخاب محمد علی ردولوی

عائشہ عزیز

لائبریرین
اسکین صفحہ نمبر 32 تا 40
33.png


34.png


35.png


36.png


37.png


38.png


39.png


40.png

سید فصیح احمد بھائی
سید فصیح احمد بھائی آپ مصروف ہیں یہ صفحات کر پائیں گے یا نہیں؟ :)
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
بچے کرتا ہوں ، زندگی کی دھکم پیل میں یہ کام ذہن سے ہی نکل گیا تھا :)
بھیا آپ فارغ ہوں تو اطمینان سے کیجئے گا کوئی ضروری بالکل نہیں ہے۔ میں تو اس لیے کہہ رہی تھی کہ نہیں تویہ کام جاسمن آپی کو دے دوں لیکن پھر اور پیجز دے دئیے انہیں۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 423
نواب کی بارہ دری کوئی ایلچ خاں کا میدان تو تھا نہیں جہاں لاٹھیاں گھوم سکیں۔ لکھنو والے چھوٹے چھوٹے ڈنڈے ہاتھوں میں لیے تھے۔ بند جگہ پر خوب کام کرنے لگے۔ بڑی گھمسان ہوئی۔وہ یورش پڑی کہ رن بولنے لگا۔ ہمارے مرزا ہیں کہ بپھر بپھر کر حملے کر رہے ہیں۔ بان ،بنوٹ،بچھو اظفر پیکر کے کمالات دکھا دکھا کر لوگوں کے دل بڑھا رہے ہیں۔ پٹھان بڑی بودی مار کھا رہے ہیں۔ اتنے میں کسی دیہاتی نے چکو چلا دیا۔ ہائے کا نالا مار کر نواب للّن صاحب کا ایک عزیز گر پڑا۔ خون دیکھ کر لڑائی کے خاتمے کی صورت بندھی۔دیہاتی مثل ہے کھائے اور پڑ رہےمارے اور ٹل رہے۔ باہر والوں نے جانا قتل ہو گیا، وہ تو صفائی دینے کی فکر میں اپنے گھروں کو بھاگے۔ لکھنو والوں نے بھی دیکھا معاملہ سنگین ہو گیا۔اتنے میں لال پگڑی دور سے دکھائی دی۔اب کیا تھا جس کے سینگ جدھر سمائے نکل گیا ۔بارہ دری میں دو چار چٹیل گھیلے پڑے اور فاتح جنرل مرزا کھڑے ہیں گذشتہ مہا بھارت کے آثار بتانے کو چالیس پچاس جوڑے جوتے ادھر ادھر دکھائی دے رہے ہیں ۔ دوسروں کے تو خیر معمولی چوٹیں کھرونچے، گکم، موچوں کے آئی تھیں۔جس شخص کے چاقو لگا تھا وہ البتہ لہو لہان سانس نہ ڈکار غش میں پڑا تھا۔ مارنے والے نے بڑا کاری ہاتھ پیٹ پر مارا تھا۔ مگر کدا کا کرنا ایسا کہ کنجی کے چھلے میں چکو کی نوک پھنس کر ادھر ادھر تک ای گہرا سا خط دیتی چلی گئی تھی۔ زخمی نے دو پشتوں کی غلامی میں اتنا خون اتنا لمبا زخم کاہے کو دیکھا تھا۔ بے تکلف جان بحق تسلیم ہونے کے ارادے سے لیٹ گئے غش بھی آ گیا۔ ان کے خیال میں وعدہ پورا ہو رہا ہے۔ ابھی پولیس تحقیقات ہی کر رہی تھی کہ ان کے گھر والوں کو خبر ہوئی۔ تو چل میں چل سروپا برہنہ مرد اور بین کرتی ہوئی ڈولیاں سینہ کوٹتی ہوئی انّائیں چھو چھو خادمائیں، مہریاں ایک تانتا بندھ گیا۔ پولیس نے ایک نہ سنی۔ مضروب کو معائنے کے لئے اسپتال چلتا کیا۔ اور مرزا صاحب کا چالان بول دیا۔اب معاملے نے ایک نئی صورت پکڑی۔ یعنی ہر شخص پورے واقعہ کا زمہ دار سجاد مرزا صاحب ہی کو ٹھہرانے لگا۔
عدالت کے جھمیلے سے تو یوں چھٹی ملی کہ ڈاکٹر نے صرف ضربِ خفیف لکھی۔ مرزا صاحب اس طرح بچے کی ملزم تو ضرور حوالات میں تھا مگر مستغیث کا کہیں پتہ نہ تھا۔ عربی قواعد میں ایسا مفعول بھی ہوتا ہے جس کے فاعل کا پتہ نہ ہو۔ یہاں ایسا فاعل تھا جس کا مفعول ڈھونڈھے نہ ملے۔ خیر بڑی عافت سے بچے۔ مرزا صاحب کے اکھڑ پن سے پولیس یوں ہی پریشان تھی۔ محلے والے روز ان کا دکھڑا رونے روز تھانے پہنچا کرتے تھے۔ لہٰذا تھانے دار نے ان کو بلا کر کہا کہ اگر تم اپنی خیر چاہتے ہو تو لکھنو خالی کر دو نہیں تو ہم تم کو بے کرائے کے گھر پہنچائے بغیر دم نہ لیں گے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ بے چارے لکھنو چھوڑ کر اپنے موروثی وطن ردولی پہنچے۔ یہاں پشتینی گھر گر چکا تھا۔ اپنے ماموں کے یہاں رہنے لگے۔ بڑے بھائی محبت میں جب چھٹی ملتی تھی آ کر دیکھ جاتے تھے۔ پھر چلے جاتے تھے۔ اگر وہ بھی یہاں رہ جاتے تو پیٹ کہاں سے بھرتا۔
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر:424
اِس تازہ مصیبت سے تکلیفیں بڑھ گئی تھیں مگر عمر بھر کی پڑی ہوئی عادتیں کیسے بدلتیں وہی ڈنڈا وہی باتوں کا نداز وہی شرافت کی جھلک ۔ رہے ہتھکنڈے اجی اس سے شرافت کو کیا بٹا لگتا ہے۔اہلِ وطن بھی حسبِ رواج ملک غریبی کو الگ چیز سمجھ کر ان کی قدر کیا کیے۔اگر کوئی سیدھی طرح بولا تو میاں سجاد انکسار سے بچھ گئےاگر کسی نے امیری کی لی تو مرزا سجاد ماش کا آتا ہو گئے۔ماموں صاحب بھی پریشان حال تھے صرف گنڈا،تعویذ فال کھولنے پر گذر اوقات تھی مگر:
طبل وعلم ہی پاس کچھاپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
بھانجے کو اسی طرح گلے لگایا۔رہو جو کچھ میسر ہو تم بھی کھاؤ نہ ملے تو یوں ہی پڑ رہو۔ایک دن مرزا عابد آئے،اپنی فلاکت پریشانی کا دکھڑا دیا جا رہا تھا۔وہ یکہ ہی چلاتے تھے۔ بھلے کو اس وقت مرزا عابد کے پاس روپیہ تھا۔ڈیڑھ سو نکال کر کھٹ سے گن دیے۔اب مرزا صاحب یکّے والے ہو گئے۔ردولی چھوٹی سی جگہ اور وہ بھی پچاس پچپن برس ادھر کی۔قصبے میں دو چار یکّے پرانی گورکھ پوری چال کے تھے جن میں دوہرے بم اسپتالوں کی بیساکھی کے ایسے لگے تھے۔ کمانی ومانی کا کسی نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔چھوٹے بڑے کھانچوں کا پتہ سواری کو اپنے سر کی دھمک سے چلتا تھا یعنی جتنا گہرا کھانچہ ہوا اتنا ہی زور سے بھیجا ہل گیا۔ دوسری پہچان ایک اور تھی یعنی جتنا گہرا کھانچہ ہوا اتنا آدمی اچکا اور اتنا ہی گہرا زخم سر میں پڑ گیا۔مرزا صاحب کے یکّے نے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں کہ ایسے آرام کی سواریاں بھی ہوتی ہیں۔مرزا صاحب نے بیاہ نہیں کیا تھا اولاد کہاں سے ہوتی لہذا جتنی اولاد والی محبت ان کو خدا کے یہاں سے ملی تھی وہ سب ٹٹو پر صرف ہوتی تھی۔ عورتوں میں جتنی اوہام پرستیاں اولاد کے معاملے میں ہوتی ہیں وہ سب یہاں پائی جاتی تھیں۔مالش صفائی تو ہوتی ہی تھی۔ صبح شام لوبان دی جاتی تھی۔ نہ معلوم کتنی دعائیں دم کی جاتی تھیں۔ماموں ابا سے فال کھلوائی جاتی تھی، چوراہے پر زرد مٹھائی اور سفید پھول ہلدی کی گرہ سات لونگیں فال کے احکام کے مطابق رکھی جاتی تھیں۔ صبح کو جب یکّہ نکلتا تھا تو گھوڑے کے ماتھے کی سفیدی پر ایک طرف سیاہ ٹیکہ کاجل کا لگایا جاتا تھا کہ نظر نہ لگے۔ گلے میں نیلا گنڈہ کہربا کا دانہ ،تعویذ حجحج کی تختی نہ معلوم کیا کیا پہنایا جاتا تھا۔ قصہ مختصر جوجو باتیں زہر عشق کے ہیرو کی والدہ نے ان کے لئے کی تھیں وہ سب مرزا صاحب اپنے ٹٹو سلمہ کے لئے کرتے تھے۔ کبھی آنکھ بھر کے دیکھتے نہ تھے اگر کسی وقت مرزا کو دیکھ کر ٹٹو ہنہنایا یا کوئی اور ادا کنوتیوں کی جی میں کھپ گئی تو فوراَََ اپنی ایڑی دیکھ لیتے تھے کہ کہیں خدانخواسطہ شیطان کے کان بھرے لاکھ کوس دور سات قرآن درمیان دشمنوں کو نظر کا پھیر نہ ہو جائے۔
ٹٹو بھی جاندار تھا۔ پھر اس کی دیکھ بھال پر کیوں نہ بوٹی چھڑتی۔ اور یکّے کے گھوڑوں کا شاہ زادہ معلوم ہوتا تھا۔ کٹ کٹ کٹ کٹ ایسی دلکی چال چلتا تھا کہ راہ گیر کی نگاہ پڑتی تھی۔ اگر کبھی
( بقیہ صفحہ 430 پر)
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 425
چوہدری محمد علی ردولوی
میر یوسف
میر یوسف غربت کی گھریا میں تپائے گئے تھے۔کھرا مال رہ گیا تھا کھوٹا جل گیا تھا لیکن گھریا سے نکالنے کے بعد سنار کھرے سونے کو بھی سہاگے وغیرہ سے چمکیلا کر لیتے ہیں۔آدمی میں یہ سوہاگا تعلیم کا ہوتا ہے۔تنگ دستی مفلوک الحالی کی وجہ،وہ سہاگا ان کو ملا مگر کم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بچپن ہی میں ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔باپ نے مجبوراََ دوسری شادی کر لی تھی ایسے لڑکے کی بدقسمتی بیان کی محتاج نہیں۔ایک چھوٹا بھائی تھا اور یہ تھے۔ شروع جوانی میں روٹی کے لئے گھر چھوڑ کر سفر کو جانا پڑا ۔خود فخریہ بیان کرتے تھے کہ میں کلکتے کو پیدل چلا کچھ پیال بچھانے کو اور جیب میں کچھ پیسے زندگی قائم رکھنے کو۔ کلکتے تقریباََ ایک ماہ میں پہنچے۔وہاں سے برما گئے۔ کرایہ کہاں تھا۔جہاز پر کوئلہ جھونکنے یا پلیٹ وغیرہ دھونے کا کچھ کام کر کے رنگون پہنچے۔بیان کرتے تھے کہ دن کو اینٹیں پاتھنے کا کام کرتے تھے۔تیسرے پہر کو ایک برف والے کا سامان سڑک کے کنارے لگاتے تھے۔ میز برف کا صندوق سوڈا واٹر کی بوتلیں اور گیارہ نجے رات کو پھر اس کے گھر یہ سب چیزیں پہنچاتے تھے۔جب کچھ روپیہ ہو گیا گھر لوٹ آئے۔ مگر غریبی نے دامن نہ چھوڑا ۔ﷺصہ مختصر غریبی وفادار عورت کی طرح عمر بھر گلے کا ہار رہی۔ یہ بے وفائی پر ہمیشہ تلے رہتے تھے مگر اس نے ان کو نہ چھوڑا
مستقل نوکری کبھی نصیب نہ ہوئی مگر بے کار کبھی نہیں رہے زیادہ تر پیمائش میں جایا کیے۔ شادی بھی ہو گئی تھی غریبی اور برخورداری بچے بھی بہت پیدا ہو گئے۔ ایک بار اڑیسہ میں تھے بیمار پڑ گئے۔ گھر پریشانی سے خط بھیجا کہ کرایہ بھیج دو۔ بیوی نے گرویں گانٹھ کر کے دس روپے بھیجے۔ منی آرڈر میں دو ٹکڑے دس روپے کے نوٹ کے ملے ا،س زمانے میں نوٹ کے آدھے کرنا خلافِ قانون نہ تھا۔ اب جو گھر میں آکر دیکھتے ہیں تو دونوں ٹکڑے مختلف نوٹوں کے ہیں۔ پوسٹ ماسٹر کے پاس گئے خوشامد کرنے لگے کہ منشی جی ہم غریب آدمی ہیں،بیمار ہیں ہم مر جائیں گے۔ للہ یہ واپس لے لیجیے ہم کو دوسرا نوٹ دے دیجیے۔ پوسٹ ماسٹر صاحب بہادر کبھی یہ غلطی کر گئے تھے اور یقیناَََ سرکاری روپیہ ان کو بھرنا پڑا ہو گا اس کے بعد سے انہوں نے اس ذریعے سے نہ معلوم کتنا کما لیا تھا۔ اکثر جاہلوں کو یہی ٹکڑے دے دیتے اور جب واپس لاتے تھے تو روپیہ دو روپیہ پر معاملہ کر کےاپنا گذشتہ نقصان روز کے منافع سے بدلا کرتے تھے۔ میر یوسف نے غریبی،بیماری،غریب الوطنی ،بے یاری اور مددگاری کے نہ معلوم کتنے سفارشی پوسٹ ماسٹر صاحب
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر426
کے سامنے پیش کیے مگر وہاں شنوائی نہ ہوئی۔ اور دو روپیہ انہوں نے لے ہی لیے۔ دو ٹکڑے انہوں نے واپس لیے۔ میر صاحب بیچارے پوسٹ آفس کے احاطے کے باہر ٹہلا کیے۔ جب پوسٹ ماسٹر صاحب دفتر بند کر کے باہر نکلے تو میر صاحب نے موسوف کو بلاتکلف اٹھا کر دے مارا اور چھاتی پر چڑھ بیٹھے اور نہایت لجاجت سے اپنے مصائب دہرانے لگے۔ یہ بھی عرض کر دیا کہ غریبی نے جان لینے اور جان دینے دونوں کا ڈر دل سے دور کر دیا ہے۔ اپنی تنہائی کا دکھڑا رونے میں یہ بھی کہا کہ آپ حاکمِ وقت بالا دست سرکاری ملازم ہیں۔ اگر آپ کے طرف دار لوگ چھڑانا چاہیں گے تو فوراََ میں آپ کو گلوئے مبارک جس پر میں احتیاطاََ ہاتھ رکھے ہوں فوراََ گھونٹ دوں گا۔ میر صاحب کا حلیہ بھی کچھ ایسا تھا کہ اس طرح کی باتوں کی امید میر صاحب سے کی جا سکتی تھی۔ نیچے کا جبڑا چوڑا ارادے کی مضبوطی بتاتا تھا۔ بڑی بڑی آنکھیں ایسے موقع پر پھیل کر اور بڑی معلوم ہونے لگتی تھیں۔ آخر کلام میں ہونٹ مضبوطی سے بند کر کے دہانہ اور چوڑا کر لیتے تھے۔ پوسٹ ماسٹر بہادر کے دو چار ہمدرد جمع ہو گئے مگر اس التی میٹم کے بعد ہاتھ کسی نے نہیں لگایا بلکہ یہی صلاح ٹھہری کہ پوسٹ ماسٹر صاحب میر یوسف کی غریبی پر رحم کر کے معاملہ طے کر لیں۔ لوگ وطن سے دور جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو وہاں کے واقعات بیان کرنے میں ذری طلسم ہوشربا کا رنگ پکڑ لیتے ہیں۔ میر صاحب کے بیان کے پہلے دو دوسرے گواہوں نے مجھ سے یہ واقعہ اسی طرح بیان کیا تھا اس لئے میر صاحب پر مبالغہ کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔ ارادے کی مضبوطی کی تصدیق مجھ سے زیادہ کوئی نہ کر سکے گا۔ کیونکہ جب میرا علاقہ کورٹ سے چھوٹا تو میر صاحب نے ارادہ مضبوط کر لیا کہ میرے یہاں مختاری کریں گے۔ میں نے ہزار ہاتھ پاؤں مارے کہ میر صاحب آپ کے اور ہمارے برادری کے مراسم جوکھم میں پڑ جائیں گے۔ مگر پوسٹ ماسٹر صاحب کی طرح مجبور ہو گیا اور میر صاحب مرحوم کا ارادہ ایسا کیامیاب ہوا کہ درمیان میں سوا ایک تھوڑے سے دم لینے کے وقفے کے یہ رشتہ صرف میر صاحب کی موت توڑ سکی۔ مختاری کا شوق کافی تھا مگر قانون سے کوئی خاص مناسبت نہیں تھی ،سنا کرتے تھے کہ مختار لوگ بڑے چالاک ہوا کرتے ہیں۔ پیال کے پاؤں ایسے کھڑے کر دیتے ہیں کہ عدالت سچ مچ کے سمجھنے لگتی ہے۔ دھول کی رسی بٹ کر تیار کر دیتے ہیں مگر خود کبھی ان باتوں میں کامیاب نہیں ہؤئے۔ ایک مرتبہ ان کے محلے میں ایک مسماۃ کا انتقال ہو گیا وہ کچھ صاحب جائداد تھیں۔ چند شریف النسل کمینہ خصلت بیکار لونڈوں نے یہ تجویز کیا کہ مسماۃ کا جعلی وصیت نامہ تیار کیا جائے۔ شامت کے مارے ادھر سے میر یوسف آ رہے تھے،محکے کا معاملہ ہر ایک سے جان پہچان لونڈوں نے کہا خوب آگئے ذری بتائیے تو کس طرح یہ مسودہ لکھا جائے۔ ان کو خود کوئی منفعت کی امید نہ تھی ۔ صرف مختاری اور قانون دانی اور ایک مشکل کام میں کمال دکھانے کو بیٹھ گئے۔ مشورے میں کہیں کہیں اپنے قلم سے بھی اصلاح دی بعد کو جب لوگ پکڑے جانے لگے تو محلے بھر میں ام من یحبیب المضطر اذا دعاء
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 427
و یکشف السوع ا کی دھوم مچی۔ خدا جھوٹ نہ بلائے دوچار لاکھ مرتبہ تو میر یوسف بھی پڑھ گئے ہوں گے۔ خیر آپس می بات تھی کسی نہ کسی طرح معاملہ دب گیا۔ لیکن اللہ میاں کی دنیا کچھ اس بات کے کہنے والے اور صرف اس کے پڑھنے والوں سے تو تیار نہیں ہوا کرتی۔ یہاں تو ہزاروں لاکھوں طرح کے آدمی ہوتے ہیں۔ انھیں میں سے ایک صاحب تھے ( ان کی روح نہ رنجے) جن کا قاعدہ تھا کہ دوستی ہمدردی کے پیارئے میں وہ کسی کو ذلیل کر سکنے کا موقع پا جاتے تھے تو پھر کسر نہیں اٹھا رکھتے ۔ ظاہر ہے کہ میر یوسف کا یہ فعل کوئی قابلِ تحسین تو تھا نہیں لیکن جن لوگوں کے دل میں ان کی جگہ تھی انہوں نے اس بنا پر معاف کر دیا کہ کوئی ذاتی فائدہ نہ ہو تو اس قسم کی حرکت حماقت کی حد سے باہر نہیں جاتی۔ مگر ان صاحب کے ہاتھ ایک مشغلہ آگیا۔ کہاں دو چار آدمیوں کے بیچ میر یوسف کو دیکھا کہنے لگے کیوں جی یوسف پہنچ گئے اپنی سزا کو نا۔ اب پھر جعل بناؤ گے۔پہلے تو میر اظہارِ ندامت کے ساتھ ساتھ ان کی بے تکلفانہ ہمدردی کو بھی سراہا کیے لیکن جب یہ بات اور بڑھی اور ایک اچھے خاصے مجمع میں انہوں نے پھر یہی کہا تو میر یوسف نے اپنی آنکھیں پھیلائیں اور ارادے کی مضبوطی والے جبرے کا ٹھاٹھ بدلا سینہ تانا گردن اونچی کی تاکہ محفل بھر ان کی آواز اچھی سن سکے اور فرمانے لگے بس ایک مرتبہ جعل اور بناؤں گا جب تم مرو گے تو تمہارا وصیت نامہ تیار کروں گا۔ ایسے موقعوں پر میر صاحب چوڑے جبڑے کو اور چوڑا کر لیتے تھے۔ دونوں ہاتھ خم کر کے نیچے کمر پر جما لیتے تھے جیسے دو چشمی ھ۔ آنکھوں کو پھیلا کر جتنی حونق بنا سکتے تھے،بنا لیتے تھے۔ اس کے بعد اعلانِ جنگ فرماتے تھے اور اعلانَ جنگ کے بعد سر کو دو تین بار اس طرح جنبش دیتے تھے جیسے ٹھڈی سے سینے کی ہڈی چھونا چاہتے ہیں۔ گویا ارادے پر تصمیم کی مہر لگاتے تھے۔ جب جملہ پورا کر لیتے تو اپنے ہونٹھ دبا کر دہانا اور چوڑا کر لیتے تھے گویا زبانِ ھال سے فرماتے تھے کہ اب تو میرے کہنے میں تم کو کوئی شک نہ رہا ہو گا۔
ظاہر ہے کہ یہ مضمون نہ میر یوسف کی تعریف کا قصیدہ ہے نہ حجِو لکھی جاتی ہے یہ تو ایک خاکہ ہے جس سے اگرمیر صاحب مرحوم کی دھندلی سی ایک تسویر کھنچ جائے تو میں کامیاب ہوا نہیں تو ائے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
میرے پڑھنے والو! جب ہمارے آپ کے ایسے اچھے آدمیوں میں کوئی نہ کوئی عیب ڈھونڈنے سے نکل ائے گا تو اگرمیر یوسف میں کوئی کمی رہی ہو تو کیسا تعجب ہے۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں بچپن میں انہوں نے بڑی تکلیف اٹھائی تھی۔ پیش از وقت روٹی کی فکر نے ان کے اوپر دوامی اثر ڈالا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ بچون کے پیٹ پالنے میں نہ خودداری باقی رہی تھی نہ ایسی حرکتوں سے شرماتے تھے۔ جو شخص دوسروں کے لئے ایسی محنت مزدوری کرے یا دوسروں کی ضرورتیں پوری کرنے میں اپنے آرام کا خیال نہ رکھے ،اپنی تکلیفوں سے نہ گھبرائے، بچوں کے اوپر اپنی خودی نچھاور کر دے اس کی برائی کس منھ سے کی جائے۔ ایک مرتبہ ایک گاؤں میں روپیہ کم
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 428
چل رہا تھا۔ ضلع دار کے کام کو دیکھنے کے لئے یہ بھیجے گئے۔خیر کام تو جیسا دیکھا ویسا دیکھا ہی لوٹے تو یوں کہ گھر کے لئے جھاڑو باندھے چلے آتے تھے۔طاہر ہے کہ جو شخص حلقہ کے ضلع دار کے اوپر تعینات کیا جائےوہ وہاں سے جھاڑو بغل میں دبائے واپس آئےاس کا رعب بھی تو کچھ ہلکا پھلکا ہو گا جوانی میں بڑے جفا کش تھے بڑھاپے میں بلغم بڑھ جانے کی وجہ سے اوپر کی منزل بھاری ہو گئی تھی اور نیچے کی منزل یعنی پاؤں کو زیادہ محنت پڑتی تھیاس لئے چلتے پھرتے ذری تکلیف سے تھے۔مگر فرضِ منصبی ادا کرنے میں ہمت سے سب کچھ کر لیتے تھے۔میر صاحب غصہ کبھی کبھی تو دکھا دیتے ہی تھے۔لیکن اصل صفر ان کی انکسار تھی۔بڑے منکسر مزاج،کام میں کبھی عزر نہیں۔باتوں میں تصّنع کی جھلک بھی پائی جاتی تھی۔مثلاَ۔ مجلس عزا میں روتے بڑے زور سے تھے مشاعرے یا قصیدہ خوانی کی محفلوں میں تعریفیں بھی مبالغے سے کرتے تھے چاہے اس میں سخن فہمی کی ٹھیک ہی نکل جائے۔ اپنے بچوں پر فدا تھے اور اگر گھر میں کسی پر خفا بھی ہوتے تھے تو لوگوں کو تصنع کا پتہ چل جاتا تھا اس دوسرے قسم کے غصے کی تصویر کھینچنا میرے امکان سے باہر ہے۔ بھلے کو ایک مثال مل گئی ہے اس سے شاید پڑھنے والوں کو کچھ اندازہ ہو جائے۔
اخبا میں اشتہار نکلا کہ ایک سینما کمپنی میں ایکٹر اور اکٹرسوں کی ضرورت ہے۔ ان کے لڑکے نے اپنی خدمات پیش کیں۔وہاں سے جواب آیا کہ ہم تم کو ضرور لے لیں گے بشرطیکہ تم اپنے ساتھ ایک ایکٹرس بھی لاؤ ۔مجبوراََ انہوں نے اپنی بے بسی ظاہر کی مگر یہ لکھا کہ اگر کہیے تو اپنے والد ماجد مدطلہ کو لیتا آؤں غصہ کا پارٹ موصوف اچھا کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں یہ تھوڑے دن کے لئے میرے یہاں سے چلے گئے تھے مگر مختار نامہ منسوخ نہیں کرایا گیا تھا مگر ایک دوسری عقل سے دورِ جہالت سے قریب ریاست میں مختار ہو گئے تھے۔ وہاں میر صاحب مرحوم نے اچھا خاصہ کمایا۔ ہمارے ملک میں اوپر کی آمدنی علاحدہ ہے۔ کسی سے پوچھیے کیا تنخواہ ہے وہ بتاتا ہے اس قدر۔ پھر پوچھیے اوپر کی آمدنی؟ وہ کہتا ہے جی ہاں کچھ مل جاتا ہے۔ شکر ہے اللہ کا۔ اودھ میں ریاستوں کے مختاروں کی ایک برادری قائم ہو گئی ہے۔ جن کے اصولِ اخلاق بھی بن گئے ہیں۔ اکثروں کا خیال ہے کہ شاعروں کی طرح مختار بھی پیدا ہوتا ہے۔ یہ لوگ مقدمہ بازی کا شوق اللہ میان کے یہاں سے لاتے ہیں اور اس فطری تقاجے پر مختاری کو دوسری نوکریوں کی نسبت ترجیح دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے مالکوں کو لوٹنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ لیکن مّد مقابل کا احسان لینا یا اس سے مل جانا ان کےمزہب میں جائز نہیں۔ میں ایک ریاست کے مختار کو جانتا ہوں جن کو فریقِ ثانی نے رشوت دے کر ملا لینا چاہا۔ اس نے نہایت حقارت سے کہا کہ لوٹنے اور نفع کمانے کے لئے خود ہماری ریاست کیا کم ہے جو ہم غیر کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت قبول کریں۔ ہم حساب میں ایک کے دس لکھتے ہیں اور پا جاتے ہیں۔ ہم شریف ہیں اور مدِّ مقابل سے مل جانا وہی کر سکتا ہے جس کے نطفے میں فرق ہو جہں یہ رنگ ہو وہاں اگر میر صاحب مرحوم نے کچھ جمع کر لیا ہو تو کون ان ہونی
 

جاسمن

لائبریرین
صفحہ نمبر 429
بات کی۔البتہ ایک آدھ لغزش ایسی کر گذرے جس سے ان کے نئے آقا پر تو ان کا رعب رہا مگر دوسرے ان کو پہچان گئے۔یہ ریاست جس ضلع میں تھی وہاں کے حاکمِ ضلع میرے بے تکلف جاننے والے تھے۔ میر یوسف حاکمِ ضلع کے سلام کو گئے۔ہمارے یہاں کسی حاکم سے گھر پر ملنے کی نوبت ان کو کبھی نہیں آئی تھی اس ملازمت میں اپنے آقائے ولی نعمت کو مرعوب کرنے کے لئے اور ریاست میں اپنا رنگ جمانے کو یہ بھی کر گُذرے۔وہاں انہوں نے کہا کہ چوں کہ اس ریاست کا انتظام بہت خراب تھا اور مالکِ ریاست نے میرے رئیس سے (یعنی اس حقیر سے) ایک منتظم مانگا تھا لہٰذا میں بھیجا گیا ہوں کہ ہر چیز درست ہو جائے۔ بد قسمتی سے وہ میرے لاابالی پن اور سڑپڑ کام سے اچھی طرح واقف تھے اس لئے آتش بازی چھینک گئی اور وہ سمجھ گئے انیتھ راجا تھیتھ پرجا۔میر صاحب بھی کچھ ایسے ہی ویسے ہوں گے۔پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں زمین داروں کو ایک نئی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ یہ کہ گاؤں سے جو نئے رنگروٹ بھرتی ہو کر فوج میں جاتے تھے وہ وہاں سب سے پہلا کام یہ کرتے تھے کہ اپنے زمین داروں اور دوسروں کی شکایتوں کے خطوط اپنی فوج کے کرنل کے ذریعے سے بھجواتے تھے۔ اور سول حکام ان کی چھان بین کرتے تھے۔چناں چہ اس طرح کی کچھ درخواستیں ہمارے اوپر بھی گذری تھیں لیکن یکے بعد دیگرے سب خارج ہو جایا کیں۔ چناں چہ کسی مقدمے میں میر صاحب میرے پیروکار تھے۔ڈپٹی صاحب تھے تو بنیے مگر تجربہ کار اچھے خاصے تھے۔ علاوہ قانونی کاروائی کے دھونس ڈال کر بہت سا عدالتی کام کم کر لیتے تھے۔ صلح کرا دینا، مستغیث یا مدعی سے زور ڈال کر عرضی دعویٰ یا استغاثہ واپس کروالینا ان کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ چناں چہ عدالتی کاروائی کے دوران ان کو کسی فوجی ادمی کی درخواست یاد آ گئی۔ مقدمہ چھوڑ کر ڈانٹ ڈپت شروع کر دی۔
ڈپٹی۔ کیوں جی مختار تمہاری ریاست کے خلاف ایک درخواست تو پہلے ہی سے تھی اب ایک اور آئی ہے،میں کہتا ہوں کون جیل خانے جائے گا۔ بتاؤ جیل خانے کون جائے گا۔ فوجیوں کی درخواست بالا بالا جانے والی نہیں ہے۔ اس میں کوئی نہ کوئی تو ضرور جیل خانے جائے گا۔ بتاؤ کون جیل خانے جائے گا۔
میر صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیچھے سے بڑھ کر وکیل صاحب کے برابر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے۔
میر یوسف ۔ جیل خانے جائیں گے یا مالکِ ریاست یا ڈپٹی کلکٹر۔ ہم نوکر ادمی ہم سے آپ کیا پوچھتے ہیں۔
ڈپٹی ساحب بنیے ادمی تھے پھر مقدمہ کرنے لگے۔ ایک بار میر صاحب ریل میں سفر کر رہے تھے۔ اسی ریل پر میں بھی تھا مگر ان سے علاحدہ تھا۔ لکھنو کے سٹیشن پر ریل کا ایک آدمی مجھ سے آ کر کہنے لگا کہ تمہارے ملازم سے اور ایک انگریز سے لڑائی ہو رہی ہے ۔میں چلا گیا کہ دیکھوں کیا معاملہ ہے۔ دیکھا کہ درجے میں کئی آدمی ہیں اور ایک بنچ کے بیچوبیچ میر
 

جاسمن

لائبریرین
430
صاحب بیٹھے ہیں اور سامنے کے بنچ کے کونے پر ایک انگریز بیٹھا ہے۔میں نے کہا میر صاحب خیریت ہے۔کہنے لگے آپ جانیے سب خیریت ہے۔میں نے کہا ڈندا ونڈا ہے کہنے لگے جی ہاں ڈنڈا ہےاور(مدِّ مقابل کودیکھ کر)اورچکو بھی ہے۔یہ کہتے وقت میر صاحب کی وہی آنکھیں،وہی ٹھڈی،وہی ہونٹھ،اور وہی گردن کی جنبش اس وقت نگاہوں کے سامنے ہے۔ستر سال کے ادھر رہے ہوں گے کہ کل عید ہے آج درزی کے یہاںاپنے پوتوں کے کپڑوں کے لئے گئے تھےکہ عید کے پہلے مل جائیں۔وہیں قلب کا دورہ ہوااور گھڑی بھر میں ختم ہو گئے۔لوگ کہتے ہیں آخر وقت اپنے عقائد بیان کرتے جاتے تھےاور پوچھتے جاتے تھے کہ صحیح الفاظ منھ سے نکل رہے ہیں ناں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔OOOOOOOOOOO۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مرزا منش" کا بقیہ؛۔
کسی جاننے والےنے تعریف کر دی تو مرزا صاحب لجاجت سےگھگھیانے لگے کہ بھئی ایسا نہ کہو جنور کو نظر لگ جائے گی۔شدہ شدہ گھوڑے اور مرزا کی یہ کمزوری لوگوں کو معلوم ہو گئی اگر سڑک پر کسی نے کہہ دیا واہ مرزاتو فوراََ مرزا نے بڑی زور سےجھپٹا دے کرایک بارگی گھوڑے کو روک لیا اور تعریف کرنے والے سے نیلے پیلے پڑنے لگے۔کوئی ہنس دیا کوئی مرزا کاقد اور بدلی ہوئی نگاہ دیکھ کردب گیا۔چونکہ گھوڑا واقعی جاندار تھا اس لئے ان جان لوگوں سے یہ غلطی اکثر ہو جاتی تھی اور مرزا زور کا جھپٹا دے کر یکّہ روک لیتے تھےکہ جتنی نظر لگ چکی ہو اتنی ہی رہے زیادہ نہ ہو۔رفتہ رفتہ گھوڑا جھٹکوں سے ایسا ڈر گیا تھا کہ کسی نے واہ کہا نہیں اور گھوڑا سہم کے رکا نہیں۔
اب تو لونڈوں کو مشغلہ ہاتھ آیا۔جدھر سے مرزا نکلتے ہیں" واہ مرزا" کی آوازیں آ رہی ہیں۔گھوڑا کھڑا ہوا ہے اور مرزا صاحب یکّے سے نیچے اترے کوڑا ہاتھ میں لیے لونڈوں کی نانیوں دادیوںاور ان کے خاندان کی دوسری عورتوں کے جنسی رجحان کی بکھان مختلف انداز،مختلف پیرایوں سے باالاعلان کر رہے ہیں جس میں شاعرانہ پہلو پر نظر رکھتے ہوئے اپنا تخلص بیچ بیچ رکھتے چلے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔OOOOOOOOOOO۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
431
چوہدری محمد علی ردولوی
میر باقر صاحب
سید محمد باقررضوی المشہدی ثم امرولوی مرحوم،مضافات ردولی موضع ابرولی سادات کے رہنے والے تھے۔ان کے بچپن میں ان کے والد گورکھ پور میں سرکاری ملازمت کرتے تھےان کے ماموں مرحوم بستی میں اچھے خاصے زمین دار تھے۔ابرولی یا ردولی آتے تھےمگر کم۔باپ کی نوکری کا سلسلہ ختم ہو گیا ماموں کا انتقال ہو گیا ناچار اپنے آبائی گھرواپس آئے۔ بچپن میں مجھ سے بتایا گیا تھا کہ کس بابا آدم کے رشتے سےیہ ہمارے چچا ہوتے ہیں۔ چناں چہ ہم نے چچا کہنا شروع کیا۔آخر میں تو ان کو آدھی ردولی چچا کہنے لگی تھی۔جگت چچا ہو گئے تھے۔ چار بھائی تھے۔بھرا پُرا گھر تھا ماں کے پاس دولت تھی۔ ماموں کی زمین داری کے وارث تھے۔ان کے باپ یعنی سجاد دادا تو خاموش آدمی تھے۔ شہد کی مکھی کے نر تھے مگر ہماری دادی بڑی منتظم تھیں اگر دروازے پر دس آدمی پہنچ جائیں تو گھڑی بھر میں سب کو کھانا کھلا دیں۔مہمان نوازی،چلّا کر بات کرنا اور ہر وقت کام میں لگی رہنا ایک ایک جملے میں تین تین قسمیں کھانا ان کی خاص الخاص خصوصیات میں سے تھے۔پہلی،دوسری اور چوتھی صفت ان کے بچوں کو پوری طرح وراثت میں پہنچی تھی اور حق بات کہنا چاہیے ان صفات کو ان لوگوں نے مرتے وقت تک خوب نباہا۔چوں کہ ان کی جائداد بستی میں تھی اس لئے ردولی والے ان کی دولت کا معیار نہیں قائم کر سکے مگر ان کا شمار خوشحال لوگوں میں ہوتا تھا۔ کچھ روپیہ بھی قرضے پر دیتے تھے اس لیے دولت گھٹنے کی بجائے بڑھنے کی امید کی جاتی تھی۔ شامت کہیے یا تقدیر کا لکھا،سیّد محمد باقر صاحب کی شادی ایک لکھ لٹ رئیس کی لڑکی سے ہوگئی سب وہی عیوب ان لوگوں میں بھی سرائت کر گئے۔خودداری نے سسرال والوں کا مقابلہ کرنے کاخیال دل میں پیدا کیا۔خوش حالی میں پہلا گھُن یہیں سے لگا۔اس کتاب میں نواب راحت حسین مرحوم کی یاد موجود ہے۔ہمارے نواب صاحب ہی کی بہن ان کو بیاہی گئی تھیں۔میر باقر۔باقر سے میر باقر داماد ہوگئے صفات کی نہ سہی نام کی نسبت تو بلند ہو گئی۔جہیز میں جان لیوا دق بھی آئی جس نے ان کی سسرال کا گھر اور نہ معلوم کتنے گھر گھالے تھے۔تھوڑے دنوں بعد سجاد دادا نے انتقال کیا۔ یوں تو موت مکروہ ہےلیکن اگر ایمان کی پوچھیے تو کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا البتہ متذکرہ بالا مزاجی اور خاندانی خصوصیات اس وقت تک جو تھوڑے تھوڑے دکھائی دیتے تھے ان کا بھرپور مظاہرہ ہو گیا۔نواب راحت حسین صاحب مرحوم اپنے خاص انداز میں اس غم فزا واقعے کی جو تصویر کھینچتے تھے اس سے شاید پڑھنے والوں کو بھی کچھ اندازہ ہو جائے۔
 

جاسمن

لائبریرین
432
نواب صاحب کہتے تھےاس حادثے کے بعد سو امیر باقر صاحب کی والدہ کے کسی کے حواس برجا نہ تھے۔حالانکہ ان کا غم حقیقی غم تھا۔مگر لڑکوں کے خیال سے موصوفہ نے مجھ کو خاص اس کام کے لے تعینات کیا کہ لڑکوں کو تسل۔ی و تشفی دوں،راضی بہ رضا رہنے کی تلقین کروںاور صبر کی خوبیاں ان لوگوں پر اچھی طرح روشن کردوں۔دفن کے پہلے تو خیر سب ہی کے اوپر اثر ہوتا ہے لیکن قبرستان سے واپس آنے کے بعد بے کاری میں رونے کا مشغلہ بہت ترقی پکڑ گیا۔اس لیے میں نے یہ تدبیر نکالی کہ میاں باقر کے چاروں بھائیوں کو یک جا نہ ہونے دوں۔چناں چہ ایک کو میں نے صدقے کے کام کو دیکھنے کو کہا۔دوسرے کو مہمانوں کی طرف بھیج دیا۔دو چھوٹے تھےوہ بغیر دونوں بڑے بھائیوں کی مدد کے زیادہ آفت نہیں جوت سکتے تھے اس لیے ان کو دلاسا دے کر یوں ہی چھوڑ دیا۔ اس کے بعد نواب ساحب بیان کرتے ہیں کہ میں رفع حاجت کے لئے چلا گیا۔وہیں سے سنا کہ پھر کہرام پڑ گیا۔ میں نے سمجھ لیا کہ ہو نہ ہو یہ چاروں بھائی اکھٹا ہو گئے۔ جلدی جلدی واپس آیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سب کے سب جمع ہیں اور نئی طرح کے بین کر رہے ہیں۔ایک کہہ رہا ہے خدا کی قسم بابو آٹھ آٹھ دن منھ نہیں دھوتے تھے۔اور اس پر سب مل کر بڑی زور سے روتے ہیں۔ پھر دوسرا کہتا ہے رسول مقبول کی قسم دانت بھی تو نہیں مانجتے تھے اور پھر وہی گھمسان پڑتی ہے۔تیسرا کہتا ہے اور نہاتے کب تھےقسم کلام مجید کی ام۔اں کے ڈر کے مارےغسل کانے میں یوں ہی پانی پھینک کر چلے آتے تھے اور وہی شور مچتا ہے۔چوتھا دھاڑیں مار کر کہتا ہے کہ دو بجے رات کو مرحوم کا چھینکے سےہانڈی اتار کر گپ گپ دہی بڑے کھانا یاد آتا ہے اس پر تو پوری محفل ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتی ہے۔نواب ساحب کا رشتہ مزاق کاتو تھا ہی آپ کا بیان ہے کہ میں نے ایک ڈانٹ بتائی اور کہا سالو!ابھی ان کی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی ہے اور تم نے ان کے یہ بکھان شروع کر دیے۔کچھ سچی بات کچھ مزاق کا پہلو کچھ نواب صاحب کی زبان کا اثر اظہارِغم مدھم پڑ گیا۔پہلے تو ہم لوگ سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ نواب ساحب مرحوم کی شاعری ہے لیکن بعد کو تصدیق ہوئی کہ کچھ اصلیت بھی تھی۔ باقر مرحوم کے چھوٹے بھائی محمد جعفر مرحوم نے بیان کیا کہ راھت حسین نے روایت کرنے میں تدوین سے کام نہیں لیا ہے۔ہم لوگ تو صرف یہ کہتے تھے کہ گو منھ نہیں دھوتے تھے مگر چہرہ چاند کو مات کرتا تھا گو دانت نہیں مانجتے تھے مگر ان کے اگے موتی بے آب تھے۔نہاتے کم تھے مگر ان پر میل کچیل کا کبھی گمان بھی نہ ہوتا تھا۔رہی دہی بڑوں والی بات اس میں اعتراض کرنے کی گنجائش کہاں ہے۔ان کا مال تھا کھاتے تھے۔راحت ھسین کے باپ کا اجارہ۔
پڑھنے والو!آپ کو ہمارے ہیرو کی حسبِ ذیل باتوں کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔خودداری،مہمان نوازی،سسرالی رشتے سے امیری کی چھاؤں،زور سے بولنا اور قسمیں۔مزاق کا چٹخارہ جو آگے چل کر بہت چوکھا ہو گیا موجود تو تھا مگر ابھی تک اس کے اظہار کا پورا موقع سوا معمولی ہنسی ٹھٹھے
 
Top