افلاس کو دور کرنے کے لیے اسلامی تدابیر

افلاس کو دور کرنے کے لیے اسلامی تدابیر
(پہلی قسط )
(مأخوذ: اسلام اور معاشی تحفظ : امام یوسف القرضاوی: مترجم، عبد الحمید صدیقی

اسلام نے فقرو فاقہ کے خلاف باقاعدہ جہاد کا اعلان کیاہے اور اس کو ختم کرنے کے لیے ہر وقت مستعد رہتا ہے مبادا کہ وہ انسان کے عقیدہ ، اخلاق و کردار، عائلہ زندگی اور اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہوکر کوئی خطرناک صورتِ حال پیدا کردے۔ اسی لئے اسلام نے یہ بات لازمی قرار دی ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو کم از کم مندرجہ ذیل ضروریاتِ زندگی میسر ہونی چاہئیں:
خوردو نوش ، رہائش ، گرمیوں اور سردیوں کا لباس ، اگرو ہ کوئی دستی کام کرتا ہے تو اس کام کے ہتھیار واوزار، اور اگر وہ شادی کا خواہشمند ہو تواس کی شادی کا اتنظام، اسلام یہ چاہتا ہے کہ معاشرے کے ہرفرد کو اس کے مناسب حال وہ معیارِ زندگی میسر آسکے جو اللہ کے فرائض کی ادائیگی اور زندگی کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں اس کے لیے ممدو معاون ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں معیشت کا یہ معیار ہر انسان کو کیسے حاصل ہو؟ اور اسلام نے اس سلسلے میں کونسے ذرائع و وسائل اختیار کئے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے انسان کی معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لے مندرجہ ذیل وسائل اختیار کئے ہیں۔
عمل، (کام کرنا) : اسلامی سوسائٹی میں ہر فرد سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی کام کرے۔ اور اسے یہ حکم ہے کہ وہ روئے زمین پرچلے پھرے اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھائے جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے۔
ھو الذی جعل لکم الأرض ذلولا فامشوا فی مناکبھا وکلوا من رزقہ (الملک: ۱۵) ترجمہ:وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم بنادیا ۔ پس چلو تم اس کے اطراف میں اور کھاؤ خدا کے رزق میں سے۔
کام ، فقروفاقہ سے نمٹنے کے لئے پہلا ہتھیار ہے ۔ حصول مال کے لیے پہلا ذریعہ ہے اور اس زمین کوآباد کرنے کے لئے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی خلافت کا شرف بخشا ہے اوراس کو حکم دیا ہے کہ زمین کوآباد کرے ، ارشادِ خداوندی ہے صالح علیہ السلام اپنی قوم سے مخاطب ہوکرکہتے ہیں:
یاقوم اعبدو اللہ مالکم من الٰہ غیرہ ھو انشأکم من الارض واستعمرکم فیھا،(ہود: ۱۶) اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے، وہی ہے جس نے زمین سے تم کو پید اکیا اور یہاں تم کو بسایا ہے۔
اسلام نے ہر مسلمان کے لیے ہر کام کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ ہر شخص جس کا م کی صلاحیت رکھتا ہو وہ اسے اختیار کرسکتا ہے۔ کوئی مقررہ کام کرنا اس پر فرض نہیں الا یہ کہ سوسائٹی کی بہتری کے لیے اس کے سپرد کوئی خاص کام کردیا جائے۔ البتہ اسلام ان پیشوں کے اختیار کرنے سے روکتا ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کے لیے ضرررساں ہوں۔
اسلامی نظام کے زیرِ سایہ رہ کر کوئی محنت کرنے والا اپنی محنت کے معاوضے اور کوشش کے ثمرے سے محروم نہیں رکھا جاتا بلکہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی بلاکم و کاست ادا کردی جاتی ہے کیونکہ اگراُسے وہ مزدوری نہیں دی جائے گی جس کا یہ وہ مستحق ہے تو یہ اس پر ظلم ہوگا اور ظلم کو اسلام میں بالکل حرام قرار دیا گیا ہے۔
اسلامی نظام میں اس بات پر بھی کوئی قدغن نہیں کہ کسی محنت کار کے پاس حلال طریقے سے کمائی ہوئی اتنی دولت جمع ہوجائے جس سے وہ کوئی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد خریدسکے اور اپنے معیارِ زندگی کو بلند کرسکے یا اس سے بیماری اور بڑھاپے کے ایام میں فائدہ اُٹھاسکے یا اس کی اولاد اور ورثاء اس کے مرنے کے بعد اس سے متمتع ہوسکیں۔

اسلام نے اُن تمام نفسیاتی ، اسباب اور عملی رکاوٹوں پر بحث کی ہے جو لوگوں کو جہد و عمل سے روکتی ہیں:
(۱) توکل علی اللہ کا دعویٰ : بعض لوگ توکل علی اللہ کا دعویٰ کرکے جہد وعمل سے بالکل فارغ ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لے آسمان سے رزق اُتارے گا اور وہ دکھائیں گے ۔ ایسے متوکلین نے اسلام کو سمجھنے میں لغزش کھائی ہے کیونکہ توکل علی اللہ جہدو عمل کے منافی نہیں بلکہ مسلمان کا وتیرہ تو اس سلسلے میں یہ ہونا چاہئے جو نبی ﷺ نے ایک بدو سے فرمایاتھا جس نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی اونٹنی کو کھلا چھوڑ دیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا146146 اونٹنی کو باندھ اور پھر خدا پر توکل کر۔145145
توکل علی اللہ کے مدعیان اپنے موقف کی حمایت میں آنحضور ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لو توکلتم علی اللہ حق توکلہ لرزقکم کما ترزق الطیرتغدو خماصا و تروح بطانا (اگر تم اللہ پرکما حقہ توکل کرو تو وہ تمہیں اس طرح رزق عطا فرمائے گا جس طرح کہ ان پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے جو صبح کے وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کوپرشکم ہوکر واپس لوٹتے ہیں) مگر انہوں نے اس حدیث کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ حدیث میں لفظ تغدوا وارد ہوا ہے جس کا مادہ غدو ہے یعنی صبح کے وقت رزق کی تلاش میں نکلنا، حدیث میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ پرندے گھونسلے میں بیٹھے رہتے ہیں ۔ اور پھر خدا ان کو وہاں رزق پہنچاتا ہے ، بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح پرندے خدائی زمین سے رزق حاصل کرنے نکلتے ہیں اور پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں اسی طرح تم بھی نکلو ،تمہارے لئے بھی خدانے اپنی زمین پر رزق کا سامان پھیلا رکھا ہے۔
ایک دفعہ امام احمد ابن حنبلؒ سے پوچھا گیا: اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو اپنے گھر میں یامسجد میں بیٹھارہتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کوئی کام نہیں کروں گا حتی کہ اللہ تعالیٰ مجھے رزق عطا فرمائے گا : امام صاحب ؒ نے فرمایا یہ شخص جاہلِ مطلق ہے کیا اس نے آنحضور ﷺ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ جعل رزقی تحت ظل رمحی(میرا رق میرے نیزے کے سائے میں رکھا گیا ہے ) اور آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد اسے معلوم نہیں کہ پرندے صبح کے وقت تلاش رزق میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پر شکم ہوکر لوٹتے ہیں۔ اور رسولِ خدا ﷺ کے صحابہ بحرو بر میں تجارت کیا کرتے تھے اور اپنے نخلستانوں میں کام کیا کرتے ہیں ان کا عمل ہمارے لئے نمونہ ہے۔
انسان اور کائنات کی تخلیق میں سنت اللہ کا تقاضہ یہ ہے کہ روئے زمین پر انسان اور دیگر مخلوقات اپنی خوراک اور دیگر سامانِ زیست کوشش اور محنت سے حاصل کریں۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ فامشوا فی مناکبھا وکلو من رزقہ(زمین کے اطراف میں پھر و اور اللہ کا عطا کردہ رزق کھاؤ) ایک اور جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے
فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروافی الارض وابتغوا من فضل اللہ (جب نماز ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوکر فضلِ الٰہی (رزق و روزی) تلاش کرو۔
ترکِ دنیا: بعض لوگ اس وجہ سے کوئی کام نہیں کرتے کہ وہ اللہ کی عبادت کے لیے دنیا سے بالکل کنارہ کش ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جو قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون ( میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں) تو اس میں اس بات کی ترغیب ہے کہ عبادتِ الٰہی کیلئے دنیائے کامل طور پر کنارہ کش ہوجاؤ۔ ان کے نزدیک یہ بالکل جائز نہیں کہ عبادتِ الٰہی کو چھوڑ کر کوئی اور کام کیا جائے۔
یہ لوگ ترکِ دنیا کے باب میں نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ دنیا کا کوئی کام اگر صحیح نیت سے احکامِ اسلام کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام دیا جائے تو وہ کام بجائے خود ایک عبادت بن جاتا ہے انسان کا اس خیال سے تلاش معاش کے لیے نکلنا کہ وہ مال و دولت حاصل کرکے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالے گا ۔ اپنے رشتہ دارں اور ہمسایوں سے بھلائی کرے گا۔ یا نیک کاموں میں اور راہِ خدا میں اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے خرچ کرے گا ۔ راہِ خدا میں ایک قسم کا جہاد سمجھا جائے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تلاشِ معاش کے لیے زمین میں چلنے پھرنے اورجہاد فی سبیل اللہ کو مندرجہ ذیل آیت میں جمع کردیا ہے۔
وآخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ وآخرون یقاتلون فی سبیل اللہ (المزمل :۳) کچھ اور لوگ ہیں جو اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں اور کچھ دوسرے لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔
ترمذی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ کے بعد میرے نزدیک موت کے لیے سب سے اچھا وقت وہ ہے جو میں اللہ کا فضل (رزق و روزی) تلا ش کررہاہوں یہ فرماکر آپ نے مذکورہ بالا آیت تلاوت فرمائی ۔ رسول خدا ﷺ نے تجارت کی ترغیب دلانے کے لیے فرمایا ۔ ایک راست گفتار اور امانتد ار تاجر قیامت کے دن انبیاء ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ (بخاری)
زراعت اور کاشتکاری کی ترغیب آپ نے یوں دلائی کوئی مسلمان جب کوئی چیز کاشت کرتا ہے یا کوئی پودا الگاتا ہے پھر اس میں سے کوئی پرندہ ، انسان یا چوپایہ کچھ کھاتاہے تو وہ اس مسلمان کی طرف سے صدقہ ہوجاتا ہے۔ (بخاری) صنعت و حرفت کی ترغیب میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ کسی شخص نے اپنے ہاتھ سے کام کر کے کھانے سے بہتر کبھی کوئی کھانانہیں کھایا اورفرمایا جس شخص نے اس حال میں رات گزار ی وہ حلال روزی کی تلاش میں تھک گیا تو اس نے مغفرت و بخشش سے مالا مال ہوکر رات گزاری ۔
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ علیہ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک کون زیادہ محبوب ہے ، تاجر راست گفتار یا ہمہ وقتی عبادت گزار؟ آپ نے فرمایا تاجر راست گفتار! کیونکہ شیطان اس کے پاس ناپ تول کے وقت اور لینے دینے کے وقت آکر بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس سے جہادکرتا ہے۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ کیا ہی اچھا ہوکہ درزی اپنی سوئی کو اور بڑھئی اپنی آری کو تسبیح بنالے!
جاری
 
Top