وطن کے محافظوں کی عید

سید زبیر

محفلین
Cobras-Draw-First-Blood-large.jpg


وطن کے محافظوں کی عید


10 اپریل 1959 موسم بہار کی ایک خوبصورت عید ، پاکستان کو آزاد ہوئے ابھی بارہ سال ہی ہوئے تھے ۔ ملک میں امن و امان تھا ۔ لوگ خوشی سے بھرپور عید کی نماز کی تیاری کر رہے تھے لوگ جوق در جوق عید گاہ کی طرف رواں تھے ننھے معصوم بچے نئے نئے کپڑوں میں ملبوس اپنے بزرگوں کی انگلی تھامے چھلانگیں مارتے ہوئے عید کی نماز پڑھنے جا رہے تھے ۔ پاکستان کے ہر شہر میں گہما گہمی تھی ۔ ننھی بچیاں رنگ برنگے کپڑے پہنے گھروں میں سیوئیاں بانٹتی پھر رہی تھیں اور وہاں سے عیدی وصول کرتیں۔ ایسے میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے یہ سوچ کر کہ پاکستان کی عوام عید کی خوشیاں منارہی ہے ۔ایک بزدلانہ چال چلی ۔ بھارتی فضائیہ کے اعلیٰ حکام نے ای ای سی کینبرا بی 58 طیارے کو فوٹوگرافی اور جاسوسی کے لئے پاکستانی حدود میں بھیجا ۔ نادان بے خبر تھے ۔۔ کہ جو قوم انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کرسکتی ہے وہ اس کی حفاظت کرنا بھی جانتی ہے ۔جیسے ہی ائر ڈیفنس کنٹرول میں بیٹھے جواں سال جواں ہمت پائلٹ آفیسر رب نواز نے راڈار پر دشمن کے طیاے کو دیکھا فوراً ہی سرگودھا کےنمبر 15 سکواڈرن سے دو ایف 86سیبر طیارے پرفلائٹ لیفٹننٹ ایم این بٹ کی سرکردگی میں فلائٹ لیفٹننٹ محمد یونس عقابی شان سے فضا میں بلند ہوگئے اور دشمن کے طیارے کو کلر کہار کی پہاڑیوں کے پاس جا پکڑا ۔کینبرا طیارہ سیبر کی پہنچ سے زیادہ بلند پرواز کر رہا تھا ۔ مگر سیبر کے جانباز پر عزم اور کہیں زیادہ بلند حوصلہ تھے ۔ کینبرا 50،000 فٹ کی بلندی پر محو پرواز تھا جہاں تک سیبر کی پہنچ نہ تھی ۔ کینبرا راولپنڈی کی جانب پرواز کے لئے جیسے ہی مڑا اس نے اپنی بلندی کم کی اور 47،500 فٹ کی بلندی پر آگیا ۔ اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے شاہین صفت محمد یونس نے مستعدی سے اس کو نشانہ پر لے لیا اور دبوچ کر 12،7 ایم ایم گن کا برسٹ مار کر روات کے قریب زمین بوس کردیا بھارتی فضائیہ کے 106 سکواڈرن سے تعلق رکھنے والے دونوں سوار سکواڈرن لیڈر جے سی سین گپتا اور نیوی گیٹر ایس این رامپال کو پاکستانی حکام نے گرفتار کر لیا ۔

یہ پاک فضائیہ کے شاہین بچوں کا پہلا شکار تھا ۔ اور بھارتی فضائیہ کے لئے بھی ایک سبق تھا وہ نہیں جانتے تھے کہ ہماری مسلح افواج سرحدوں کی حفاظت ایک پیشہ یا ملازمت کے طور پر نہیں بلکہ ایک عبادت اور ایک مقدس فریضہ سمجھ کر کرتی ہیں ۔ انہیں اس پر کامل یقین ہے کہ اللہ کی راہ میں ایک رات کا پہرہ دینا برسوں کی شب بیداری سے زیادہ اللہ کے نزدیک اہم ہیں ۔ آج بھی جب ہم رات کو گہری نیند سوتے ہیں ہماری زمینی ، فضائی اور بحری سرحدوں کے نگہبان ہمہ وقت چوکس و بیدار ہوتے ہیں ۔ آج عید کی خوشیاں مناتے ہوئے ہمیں سیاچن ، مشرقی اور مغربی سرحدوں پر مصروف پاک افواج اور بحری و فضائی سرحدوں کے نگہبانو ں کی سلامتی کے لئے دعاگو ہونا چاہئیے ۔رب کائنات ہماری افواج کو قوت ، بصیرت اور دانائی عطا فرمائے

(آمین )
 
آخری تدوین:
وہ آج بہت خوش تھی، ہوتی بھی کیوں نہ آج وہ چار عیدوں کے بعد پہلی عید مناتے گھر پر آ رہا تھا۔ بار بار اسکے کانوں میں یہ آواز گونجتی "اس بار پکا آؤں گا نا! میں نے اپنے افسر سے بات کی ہے۔"
وہ مختلف انواع و اقسام کے پکوان بناتی جا رہی تھی اچانک کچھ خیالوں میں جا کھوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماں ابو کہاں ہیں؟" ننھے اشعر نے حسرت بھری آواز میں کہا۔
"بیٹا تیرے ابو بلند پرواز پر ہیں" اس نے بیٹے کا ماتھا چومتے ہوئے جواب دیا۔
"کیا ماں جہاز میں ہم اللّٰہ میاں سے مل سکتے ہیں۔" بچہ معصومیت سے بولا۔
"نہیں بیٹا ایسے نہیں، پر ایک دن وہ خود بلا لیتا ہے۔" ماں نے جواب دیا۔
"کیسے امی؟"
"تمہیں بھوک نہیں لگی میں نے تیرے لئے شیر خرما بنایا ہے" ماں نے اسکا دھیان بٹاتے ہوئے کہا۔
شیر خرمے کا نام سننا تھا کہ بچہ جھٹ سے سب کچھ بھول گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوہ! شیرخرما تو بنانا باقی ہے وہ خیالات کی دنیا سے لوٹ آئی۔
کتنے شوق سے کھاتا ہے، اسے پہلے بنانا چاہئے، آئے گا تو اپنے ہاتھ سے کھلاؤں گی۔
جیسے جیسے وقت گزرتا،گیا اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔اشعر! اسکے بے اختیار نکلا اور دروازے کی جانب لپکی۔
سامنے فوجی ایمبولینس کھڑی تھی، اسکا تو خون جم گیا۔
چار فوجی جوانوں نے ایک تابوت اٹھایا اور گھر کے صحن میں لےجا کر رکھ دیا، ایک فوجی جوان آگے بڑھا اور اس تابوت پر ایک وردی رکھ دی، اس کے بیج پر اشعرچمچما رہا تھا۔
کتنا وعدہ شناس تھا اس نے اپنے آنے کا وعدہ پورا کر دیا۔اشعر رات دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہو گیا تھا۔
وہ آگے بڑھی اور بلند آواز میں گویا ہوئی "اشعر بیٹا عید و شہادت مبارک!"
خوشی اور غم کا چشمہ اسکے رخسار تر کر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچن میں چولہے پرپڑا شیرخرما جل چکا تھا!!!!



:eid1:! اے میرے وطن کے سجیلے جوانو!
 
آخری تدوین:
Top