کیا ملالہ واپس آئے گی؟...قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر

کیا ملالہ واپس آئے گی؟...قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر
افطار میں تھوڑا وقت باقی تھا۔ ضیاء الدین یوسفزئی بار بار اپنے دوست میر زمان سے پوچھ رہے تھے کہ کہاں پہنچے ہو؟ میر زمان ہر مرتبہ تسلی دیتے کہ فکر مت کریں ہم برمنگھم کے قریب پہنچ چکے ہیں آپ کے مہمان افطار سے پہلے پہلے آپ کے پاس ہونگے۔ ضیاء الدین یوسفزئی نے پشتو میں اپنے دوست کو بتایا کہ خوشحال کی ماں نے اپنے ہاتھوں سے آپ سب کے لئے کھانا تیار کیا ہے اور اس دوران اس کی انگلی بھی کٹ گئی ہے ایسا نہ ہو کہ اس کی قربانی رائیگاں چلی جائے۔ یہ سن کرمیر زمان نے وضاحت کی کہ لندن سے لوٹن کے درمیان ہائی وے پر ٹریفک کا بہت رش تھا اس لئے دیر ہوگئی لیکن ہم نو بجے تک آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ برمنگھم میں اس مرتبہ افطار کا وقت ساڑھے نو بجے کے قریب تھا۔ ہم افطار سے چند منٹ قبل ضیاء الدین یوسفزئی کے گھر پہنچ چکے تھے۔ وہ اپنی اہلیہ طور پیکائی اور بیٹی ملالہ یوسفزئی کے ہمراہ گھر کے باہر ہمارے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ لمبے سفر کے باعث میری بائیں ٹانگ میں کافی درد ہورہا تھا لیکن ضیاء الدین یوسفزئی کی خلوص بھری مسکراہٹ نے اس درد کو غائب کردیا۔ ضیاء الدین اور ان کی بیٹی ملالہ سے میری پہلی ملاقات فروری 2009ء میں ہوئی تھی۔ اس وقت ملالہ صرف بارہ سال کی تھی۔ سوات پر طالبان کا کنٹرول تھا اور طالبان نے بچیوں کے اسکول بند کرادئیے تھے۔ ملالہ نے مینگورہ میں میرے لائیو ٹی وی پروگرام میں بڑی بہادری سے بچیوں کے اسکول کھولنے کامطالبہ کیا اور پہلی دفعہ پاکستان کے لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ سوات میں قوم کی بیٹیوں پر تعلیم کے دروازے بند کردئیے گئے ہیں۔ اسکے بعد بھی ملالہ سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں لیکن 2012ء میں ملالہ پر حملے کے بعد یہ میری اس کے ساتھ پہلی براہ راست ملاقات تھی۔ گھر کے اندر داخل ہوئے تو پلائو کی خوشبو نے پاکستان کی یاد دلا دی۔ اس گھر میں موجود سادہ سا فرنیچر اس گھر کے مکینوں کے سادہ سے طرز زندگی کی گواہی دے رہا تھا۔ میری اہلیہ ملالہ کی والدہ کے ساتھ کچن میں چلی گئیں۔ ملالہ اور میری بیٹی نے ایک دوسرے کے ساتھ تعارفی گفتگو شروع کردی اور ضیاء الدین یوسفزئی مجھ سے میرے علاج کی تفصلات پوچھنے لگے۔ برمنگھم کے کوئین ایلزبتھ ہاسپٹل کے ڈاکٹروں کے ساتھ میرا رابطہ ضیاء الدین یوسفزئی اور ملالہ کے توسط سے ہوا تھا اور ارادہ تھا کہ جسم میں موجود دو گولیاں اسی ہاسپٹل سے نکلوائوں گا۔ ملالہ کا علاج بھی یہیں ہوا تھا تاہم کرامویل ہاسپٹل لندن کے ڈاکٹروں کے مشورے پرمیں جسم سے گولیاں نکلوانے کا ارادہ فی الحال ملتوی کرچکا تھا۔
ملالہ بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ برمنگھم میں ٹیلی ویژن پر اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ رمضان المبارک میں گھڑی کی سوئیاں دیکھ کر روزہ افطار کیا جاتا ہے۔ ملالہ ہمارے ساتھ باتیں بھی کررہی تھی اور اس کی نظریں اپنی والدہ کا تعاقب بھی کررہی تھی جیسے ہی اسے احساس ہوا کہ اس کی والدہ کو افطار کا سامان میز پر سجانے کے لئے مدد کی ضرورت ہے تو وہ بھاگ کر کچن کی طرف چلی گئی۔ مجھے اس میں تھوڑا سا فرق محسوس ہوا، حملے سے پہلے ملالہ میں ایک معصومانہ شوخی تھی۔ حملے کے بعد اس کی شخصیت میں سنجیدگی نمایاں ہے۔ ملالہ برمنگھم کے ایک گرلز اسکول میں دسویں جماعت کی طالبہ ہے لیکن اس نے اپنی اسلامی، پاکستانی اور پشتون شناخت کو برقرار رکھا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین نے ملالہ کے بارے میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یورپی پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیوں کرتی ہے، سر پر چادر کیوں اوڑھتی ہے اور اپنے مسلمان ہونے پر فخر کااظہار کیوں کرتی ہے؟ پچھلے سال اس کی کتاب’’آئی ایم ملالہ‘‘ شائع ہوئی تو اعتراض کیا گیا کہ کتاب میں نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے نام کے ساتھ انگریزی میںPBUHکیوں نہیں لکھا گیا؟ ملالہ نے وضاحت کردی کہ اس پر کتاب کرسٹینا لیمب نے لکھی ہے اور اسے کہا گیا تھا کہ نبی کریمؐ کا نام احتیاط سے لکھے لیکن جلدی میںPBUHنہیں لکھا گیا تاہم اگلے ایڈیشن میں یہ غلطی دور کردی جائے گی۔ ملالہ کے وعدے کے مطابق نئے ایڈیشن میں یہ غلطی دور کی جاچکی ہے اورملالہ نے کتاب کےنئے ایڈیشن کی ایک کاپی بھی ہمیں دی۔ اس نے بتایا کہ اگلے ایڈیشن میں کرسٹینا لیمب اپنے نئے دیباچے میں کچھ مزید وضاحتیں بھی کردیگی۔
افطار ہوچکا تھا۔ ملالہ کی والدہ نے فروٹ چاٹ، روسٹ چکن،فش فرائی، مٹن قورمہ اور پلائو سمیت ہر وہ پکوان ہمارے سامنے ر کھ دیا جو ہم پاکستان میں کھاتے ہیں۔ ملالہ کی والدہ اردو نہیں بول سکتیں صرف پشتو بولتی ہیں۔ میری اہلیہ نے پکوانوں کی طرف اشارہ کرکے’’ڈیرہ مزیدار‘‘ کا اعلان کردیا اور اس کے بعد ان کی پشتو ختم ہوگئی۔ ملالہ کو ہاتھ سے چاول کھاتے دیکھ کر میں ان نام نہاد اسلام پسندوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے اس معصوم لڑکی کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے کر اپنی عاقبت خراب کرتے رہتے ہیں۔ ملالہ کی والدہ مجھے پشتو میں بتارہی تھیں کہ جب ان کی بیٹی کے سر میں گولی ماری گئی تو وہ دن رات قرآن پاک کی سورہ حج کی تلاوت کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنی بیٹی کی زندگی مانگتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ کراچی میں آپ پر حملہ ہوا ہے اور آپ کو چھ گولیاں لگ گئی ہیں تو میں اور ملالہ دونوں مصلے پر بیٹھ گئے اور میں نے سورہ حج کی تلاوت شروع کردی ۔ اسی ماں کی تربیت کا اثر ہے کہ ملالہ آج بھی رات کو سونے سے پہلے آیت الکرسی پڑھتی ہے لیکن اگر اس بچی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا موقع مل جائے یا یورپی پارلیمنٹ سخاروف پرائز دیدے تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو ایک پاکستانی لڑکی دشمنوں کے ہاتھ میں کھلونا بن گئی۔ کہتے ہیں یہ عزت صرف ملالہ کو کیوں ملتی ہے اور بھی بچیاں ہیں جنہیں گولیاں لگتی ہیں انہیں یہ عزت کیوںنہیں ملتی؟حقیقت یہ ہے کہ ملالہ کو ملنے والی عزت کا تعلق اس پر حملے سے کم اور اس کے عزم و استقلال سے زیادہ ہے۔ یہ حملہ اکتوبر 2012ء میں ہوا جبکہ اسے اکتوبر2011ء میں انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز کے لئے نامزد کیا گیا کیونکہ وہ سوات جیسے علاقے میں دھمکیوں اور دبائو کے باوجود بچیوں کی تعلیم کے لئے آوازاٹھارہی تھی۔ جب اس پر حملہ ہوگیا تو کچھ ذہنی بیماروں نے اس حملے کو بھی ڈرامہ قرار دیا۔ حملے کے بعد ملالہ کو علاج کے لئے برمنگھم بھیجنے کا اہتمام اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کیا تھا، پھر ضیاء الدین یوسفزئی کو بھی بیٹی کے پاس بھیجا گیا۔ حکومت نے انہیں برطانیہ میں پاکستان کا ایجوکیشن اتاشی مقرر کردیا۔ ضیاء الدین یوسفزئی برطانیہ میں پاکستانی حکومت کے فراہم کردہ گھر میں رہتے ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی بیٹی کے خلاف جھوٹ کے طوفان کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ اس جھوٹ کی پرواہ نہ کریں، سوشل میڈیا کچھ ذہنی بیماروں کی ا ندرونی گندگیوں کا بیت الخلاء ہے، جس کے پاس گندگی ہے وہ گندگی پھیلائے گا جس کے پاس روشنی ہے وہ روشنی پھیلائے گا۔سوشل میڈیا یہ بھی بتایا ہے کہ کس کے والدین نے اس کی کیسی تربیت کی ہے؟ جب ملالہ نائیجریا گئی اور وہاں اسکولوں کی اغواء شدہ طالبات کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تو کہا گیا کہ وہ غزہ میں اسرائیلی ظلم پر کیوں نہیں بولتی؟ جب اس نے غزہ پر اسرائیلی ظلم کی مذمت کی تو کہا گیا کہ وہ غزہ کیوں نہیں جاتی؟ وقت آنے پر وہ غزہ بھی جائے گی۔ ملالہ مجھے کہہ رہی تھی کہ وہ تعلیم مکمل کرکے پاکستان واپس ضرور جائے گی۔ مجھے اس کی باتیں سن کر خوشی ہورہی تھی ۔قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ نے بھی بیرون ملک سے تعلیم حاصل کی تھی اور ملالہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیرون ملک میں تعلیم حاصل کررہی ہے۔ جن کا خیال ہے وہ پاکستان سے بھاگ گئی وہ احمق ہیں۔ وہ ہر غیرت مند باپ کی عزت، ہر ماں کا پیار، ہر بھائی کا فخر اور ہر بہن بیٹی کی طاقت ہے۔ برمنگھم سے واپس لندن روانہ ہوئے تو ملالہ نے میری اہلیہ اور بیٹی کو سوات کی شالیں بطور تحفہ دیں۔ وہ برطانیہ میں رہتی ہے لیکن اس کے دل میں پاکستان اور سوات بستا ہے، وہ واپس لوٹے گی تو کوئی بندوق اس کا راستہ نہ روک سکے گی۔
 
Top