اردو کا نفاذ اور آئین کی خلاف ورزی

سید تاثیر مصطفی 27 /06/2014
لاہور ہائی کورٹ نے ملک میں اردو کے بطور سرکاری، دفتری و تعلیمی زبان نفاذ کے سلسلے میں وفاقِ پاکستان سے جواب طلب کرلیا ہے اور اسے ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر جواب دے کہ آئین پاکستان کی دفعہ 251 پر اب تک کیوں عمل نہیں کیا گیا جب کہ آئین کی اس دفعہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ اردو پاکستان کی قومی، سرکاری، دفتری اور تعلیمی زبان ہوگی اور حکومت 15 سال کے اندر بتدریج انگریزی کی جگہ اردو کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کرے گی۔ اس طرح حکومت 1988ء تک اردو کو بطور سرکاری و قومی زبان ملک بھر میں لاگو کرنے کی پابند تھی، مگر 15 سال کے بجائے حکومت 40 سال بعد بھی اس کا نفاذ کیوں نہیں کر سکی اور اب تک اس نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں؟

شریف نظامی صدر قومی زبان تحریک کی ایک آئینی پٹیشن
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید افتخار حسین نے یہ حکم ڈاکٹر شریف نظامی صدر قومی زبان تحریک کی ایک آئینی پٹیشن پر دیا ہے۔ معروف قانون دان جناب اے کے ڈوگر کے ذریعے جون 2013ء میں دائر کی گئی اس پٹیشن میں وفاق پاکستان کو مرکزی سیکرٹری تعلیم اور وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اور حکومت پنجاب کے سیکرٹری وزارتِ تعلیم کو فریق بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر شریف نظامی نے یہ پٹیشن دراصل پنجاب میں پہلی جماعت سے انگریزی کو لازمی قرار دینے اور تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کے پنجاب حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ آئین کی دفعہ 251 پر عمل درآمد کرتے ہوئے اردو کو سرکاری و قومی زبان کے طور پر لاگو کیا جائے اور پنجاب میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا نوٹیفکیشن منسوخ کیا جائے۔
٭٭٭٭
اس پٹیشن کی سماعت ابتدا میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کی۔ انہوں نے تینوں مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا، جس پر مرکزی وزارت تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ بن گیا ہے اور اب صوبے تعلیم کے معاملات میں مکمل آزاد ہیں، اس لیے وفاقی وزارت تعلیم کو اس مقدمہ میں استثناء دے دیا جائے۔ عدالت نے ان کی یہ استدعا قبول کرلی۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا جواب تھا کہ اب بین الصوبائی رابطوں اور قومی ورثہ کی الگ وزارت بن گئی ہے اور یہ معاملہ ان سے متعلق ہے۔ عدالت نے اس نکتے کو مانتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دوبارہ نوٹس جاری نہیں کیا، جب کہ پنجاب حکومت کا جواب تھا کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے، سائنس کی کتب اردو زبان میں موجود ہی نہیں، اس لیے نئی نسل کو آنے والے چیلنجوں کے لیے تیار کرنے کے لیے انگریزی زبان میں تعلیم دینا ضروری ہوگیا ہے۔ اس عرصے کے دوران جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے تبادلے کے باعث یہ مقدمہ جسٹس افتخار حسین کی عدالت میں منتقل ہوگیا اور عدالت نے قومی ورثہ کی وزارت کو نوٹس جاری کیا کہ وہ بتائے کہ اس نے اب تک اردو کے نفاذ کے لیے کیا کیا اقدامات کیے ہیں اور حکومت سے پوچھ کر جواب دے کہ وہ کب تک اردو کو بطور سرکاری قومی زبان نافذ کرے گی۔ عدالت کے نوٹس پر گزشتہ سماعت کے دوران قومی ورثہ کی وزارت نے مقتدرہ قومی زبان کی کارکردگی کا ایک ضمیمہ عدالت میں پیش کردیا کہ حکومت اردو کے نفاذ کے لیے بڑی کوششیں کررہی ہے اور گزشتہ حکومت نے اس سلسلے میں تین سینیٹرز اور تین ارکان قومی اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنائی تھی۔ تاہم عدالت نے استفسار کیا کہ اردو کے نفاذ کی مدت 1988ء میں ختم ہوچکی، اب حکومت بتائے کہ وہ کب تک اسے بطور سرکاری و قومی زبان لاگو کرے گی؟ اس دوران عدالت میں اُس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جب مدعی ڈاکٹر شریف نظامی کے وکیل اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے عدالت کے سامنے لارڈ میکالے کی فروری 1835ء کی ایک تقریر کا حوالہ دیا جس میں اُس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نظام تعلیم کے ذریعے ہم برصغیر میں پلنے والی نسلوں کی سوچ تک تبدیل کردیں گے۔ فاضل عدالت نے یہ ریمارکس پڑھ کر مدعی کے وکیل جناب اے کے ڈوگر سے کہا کہ اس اقتباس کی نقل یہاں موجود لوگوں میں بھی تقسیم کریں۔
اب عدالت نے اگلی سماعت تک وفاقی حکومت سے دوٹوک جواب طلب کرلیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت کو بتائے کہ وہ کیوں آئین کی دفعہ 251 کے تحت اردو کو لاگو نہیں کررہی۔

اس عدالتی نوٹس کے بعد وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ حکومتی کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اردو کا نفاذ نہیں چاہتی بلکہ آئین کے اس آرٹیکل پر عملدرآمد سے گریزاں ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کردیا ہے۔ آئینی ترمیمی بل 2014ء کے نام سے پیش کیے جانے والے اس بل کو آئین پاکستان کی دفعہ 251 کا متبادل قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بلوچی، بلتی، براہوی، پنجابی، پشتو، شینا، سرائیکی، ہندکو، اردو پاکستان کی قومی زبانیں ہیں۔ ملک کی بڑی بڑی مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے ماہرین پر مشتمل ایک نیشنل لینگوئج کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ اس بل کی منظوری کے 15 سال تک پاکستان کی قومی زبان انگریزی رہے گی۔ تاہم اگلے پندرہ سال کے دوران اس کی جگہ اردو نافذ کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔
معلوم ہوا ہے کہ اس بل کی منظوری کے لیے مسلم لیگ (ن) اور اس کی حکومت خاصی سرگرم ہے۔ اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا تین روز تک اجلاس بھی ہوتا رہا ہے۔ خیال یہی ہے کہ جب حکومت اس ترمیمی بل کی منظوری چاہتی ہے تو حکومتی پارٹی کے ارکان اس بل کی حمایت کریں گے۔ اس طرح یہ متنازع بل بآسانی منظور ہو جائے گا، جس میں آٹھ زبانوں (بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے) کو قومی زبان کا درجہ مل جائے گا۔ اور اس طرح نہ صرف اتحادِ ملت پارہ پارہ ہو جائے گا بلکہ بے پناہ انتظامی مشکلات بھی پیدا ہو جائیں گی۔
ماروی میمن کے اس بل کے پیش کرنے کے بعد پنجاب حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والا ادارہ پلاک (پنجابی انسٹی ٹیوٹ فار لینگویج آرٹ اینڈ کلچر) بھی اردو کے خلاف سرگرم ہو گیا ہے اور اس کی سربراہ ڈاکٹرصغریٰ صدف تو کھلے عام اردو کے خلاف اپنے بغض اور کینے کا اظہار کرتی پھر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو کے نام پر پنجابی زبان اور ثقافت پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ یوپی سے آنے والے لوگوں نے یہ قبضہ کیا ہے۔ پنجاب حکومت کے ایک سرکاری ادارے کی سربراہی کرنے والی اس خاتون کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کی وجہ اردو زبان تھی۔ اگر اردو کو قومی زبان بنانے پر اصرار نہ کیا جاتا تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔
ایک طرف ’پلاک‘ کی سربراہ یہ زہر افشانیاں کررہی ہیں، دوسری جانب قومی زبان تحریک کے عہدیدار جن میں سے بیشتر پنجابی بولنے والے لوگ اور سائنسدان ہیں، قومی جذبے سے سرشار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو میں نہ صرف ذریعہ تعلیم بننے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے بلکہ اردو ہی کے ذریعے پاکستانی قوم کو یکجا کیا جاسکتا ہے، ورنہ علاقائی زبانوں کا پنڈورا بکس کھولا گیا تو قومی سلامتی پارہ پارہ ہوجائے گی۔ قومی زبان تحریک کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماروی میمن کے ترمیمی بل کے ذریعے حکومت اردو کا رسم الخط تبدیل کرنے کی سازش کررہی ہے لیکن وہ اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ کاش حکومت جو پہلے ہی بے پناہ مسائل سے دوچار ہے اور اب تک کچھ ڈیلیور نہیں کرسکی، ایک نیا فساد کھڑا کرنے سے باز رہے اور قومی امنگوں اور یک جہتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اردو کو قومی زبان اور ذریعہ تعلیم بنانے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرے، ورنہ پاکستان کو تو اِن شاء اللہ کچھ نہیں ہوگا البتہ اِس حکومت کا باقی رہنا مشکل ہوجائے گا۔
 
قومی زبانوں کا بل آج پیش ہوگا
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف بدھ کو ملک کے مختلف حصوں میں بطور مادری زبان بولی جانے والی علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے ایک ترمیمی بل پیش کرے گی۔
پاکستان مسلم لیگ (نواز) سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے نو دیگر پارٹی اراکین کے ہمراہ رواں سال فروری میں یہ بل تیار کا تھا، جس کا مقصد آئین کے آرٹیکل 251 میں ترمیم تھی، اس آرٹیکل کی رُو سے فی الحال صرف اردو کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔
اس بل میں حکومت سے ایک نیشنل لینگویج کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے، جو ملک میں بولی جانے والی مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے حوالے سے ایک معیار مقرر کرے گا۔
آئین کے آرٹیکل 251 میں تجویز کردہ ترامیم کی رُو سے 'پاکستان کی قومی زبانیں بلوچی، بلتی، براہوی، پنجابی، پشتو، شینا، سندھی، سرائیکی، ہندکو اوراردو کے علاوہ وہ تمام زبانیں ہیں، جنھیں نیشنل لینگویج کمیشن کی جانب سے قومی زبان تصورکیا جائے گا'۔
اس آرٹیکل کی رُو سے ماہرین اور لسانی ماہرین پر مشتمل نیشنل لینگویج کمیشن کے قیام کا مقصد پاکستان کی مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دلوانے کے لیے ایک معیار مقرر کرنا ہوگا۔
مجوزہ آرٹیکل کی شق نمبر 2 کے مطابق 'پاکستان کی سرکاری زبان اُس وقت تک انگریزی رہے گی جب تک بل کے پاس ہونے سے لے کر 15 سال کے اندر اردو کواس کے متبادل کے طور پر اپنانے کے حوالے سے انتظامات مکمل نہیں ہو جاتے'۔
بل میں حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیاگیا ہے کہ وہ قومی زبانوں کی ترقی اور ترویج کے لیے ایک فنڈ قائم کرے، اس کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کو اسکول کی سطح پر پڑھانے کے حوالے سے اقدامات کو بھی یقینی بنایا جائے۔
یاد رہے کہ مئی 2011ء میں ماروی میمن کی جانب سے پیش کیا گیا ایک ایسا ہی بل قائمہ کمیٹی کی جانب سے مسترد کردیا گیا تھا۔
اس بل کو قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت سے مسترد کردیا گیا تھا، جس کے بعد سندھ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی ماروی میمن اورپاکستان پیپلزپارٹی کے ممتاز رہنما سید ظفر علی شاہ نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا تھا۔
اس سلسلے میں جب ماروی میمن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ یہ بل مسترد نہیں کیا جائے گا کیوں کہ یہ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم امید کرتے ہیں کہ قانونی کمیٹی لینگویج بل کا جائزہ لے گی، جیسا کہ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشورکے مطابق ایک لینگویج کمیشن کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہوگی'۔
کمیشن کے قیام کی تاریخ کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بدھ کو ہونے والے اجلاس میں حکومت کے سامنے رکھا جائے گا۔
 
میری رائے میں اردو زبان کو ملک کی سرکاری و دفتری زبان تو یقیناً بنانا چاہئے مگر تعلیم کے معاملے ہمیں ذرا لچک مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً تمام تر ٹیکنالوجی چاہے طب کی ہو یا انجنئرنگ کی سب انگریزی زبان میں ہیں۔ اور ہر طرح کی ٹیکنالوجی مسلسل اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہے۔ ہمیں ایسے ماہرین کی ضرورت ہے جو عالمی علمی سطح پر تنہا نا ہوں۔
 
آئینی معاملات آپ جانئے؛ دیگر عناصر پر بات کریں گے ان شاء اللہ۔
فوری طور پر جو کرنے کے کام محسوس ہو رہے ہیں؛ وہ ہیں:۔
۔1۔ بہت ابتدائی تعلیم بشمول لکھنا پڑھنا، حساب کے تصورات (پہلی پکی تک) مقامی اور صوبائی زبانوں
۔2۔ ابتدائی مطالعاتی تعلیم ، بشمول قرآن شریف کا عربی متن (دوسری، تیسری) صوبائی زبانوں میں
۔4۔ مضامین کا الگ الگ کرنا، اور اردو کو بطور مضمون شامل کرنا (چوتھی جماعت)
۔5۔ جملہ مضامین کو اردو میں لے جانا اور مقامی زبان اور اردو کے قواعد کی ابتدائی تعلیم (پانچویں جماعت)۔
۔6۔ انگریزی فارسی اور عربی کا تعارف بطور مضمون، قرآن شریف عربی متن اور اردو ترجمہ، ریاضی، سائنس، مطالعہ پاکستان وغیرہ اردو میں (چھٹی، ساتویں، آٹھویں) سائنس کے مضامین میں انگریزی اور دیگر بدیسی اصطلاحات اردو کے ساتھ ساتھ۔
۔7۔ آئندہ کے لئے تعلیم میدان میں چناؤ کے لئے مضامین کی مزید تقسیم (نویں، دسویں)، معاشرتی علوم بشمول قرآن و حدیث اور سیرت اردو میں، سائنس اور کمپیوٹر کے مضامین میں اردو انگریزی ساتھ ساتھ۔ طالب علم کو چناؤ کا موقع دیا جائے۔ مقامی صوبائی زبان و ادب پر مشتمل ایک لازمی مضمون، قرآن و حدیث اور سیرت لازمی، اردو زبان و ادب لازمی، انگریزی زبان لازمی، ریاضی اردو میں لازمی، دیگر کوئی زبان اختیاری، سائنس کے مضامین میں مستقبل کی منصوبہ بندی کے مطابق چناؤ۔
۔8۔ کالج کی سطح پر پیشہ ورانہ تعلیم کی بنیاد فراہم کرنے والے مضامین میں اردو انگریزی ساتھ ساتھ (چناؤ کے اختیار کے ساتھ)، اردو، صوبائی زبان، مطالعہ پاکستان، اسلامیات لازمی (غیر مسلموں کے لئے اسلامیات کی بجائے اخلاقیات؛ جس کی بنیاد اسلام پر ہو)۔
۔9۔ پیشہ ورانہ تعلیم کے اداروں میں (ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ، دفتری اور انتظامی تربیت کے ادارے؛ وغیرہ) مندرجہ بالا چاروں مضامین اردو میں لازمی رہیں۔ باقی پیشہ ورانہ تعلیم چلتی رہے۔
۔10۔ یونیورسٹی کی سطح پر پیشہ ورانہ یعنی انجینئرنگ، میڈیکل، اور دیگر میدانوں میں زبان کا انتخاب یونیورسٹی کے اختیار میں ہو۔ مذکورہ بالا چاروں مضامین جاری رہیں۔
۔11۔ دیگر علمی اور تحقیقاتی میدانوں؛ لسانیات، مذاہب، عمرانیات، صحافت، ادب و تنقید وغیرہ میں میڈیم کا تعین مضمون کے مطابق ہو۔ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان گریجوایشن تک ساتھ ساتھ چلتے رہیں۔
۔12۔ لازمی مضامین کی سطح بھی تعلیم کی سطح کے ساتھ بلند سے بلند تر ہوتی چلی جائے گی۔ یونیورسٹی کی سطح پر نئے نئے مضامین اور شعبے متعارف ہوتے رہیں گے اور ان میں تحقیق و تدریس کا عمل بھی جاری رہے گا۔
۔13۔ ڈاکٹریٹ کی سطح پر جا کر تو ویسے ہی موضوع تک کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
 

فلک شیر

محفلین
عمدہ بحث جاری ہے۔ اہل علم اسے سنجیدگی سے براہین و شواہد سے مزین کریں ، تاکہ کہیں مناسب اور مستند ڈاکیومنٹ کے طور پہ پیش کی جاسکے، خاص طور پہ تقابل و تجاویز۔ جزاک اللہ
 
شکریہ چیمہ صاحب۔ ابھی تو اس میں مین میخ نکلے گی، پتہ نہیں کیا کچھ کہا جائے گا۔ پنجابی والوں کے جھگڑے اپنی جگہ لاینحل دکھائی دے رہے ہیں۔
بہر حال، جو اللہ کو منظور! ۔۔۔ اس فقیر نے اپنی کہہ لیجئے تجاویز پیش کر دی ہیں، ابھی تو ’’ماہرین‘‘ کے ہاتھ لگنے ہیں۔
 
علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کا بل مسترد
16 جولائی 2014 (15:42)

news-1405507334-4589.jpg

اسلام آباد(ما نیٹر نگ ڈیسک ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کا بل مسترد کردیا ہے۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس محمود بشیر ورک کی صدارت میں اسلام آباد میں ہوا۔اجلاس میں ماروی میمن کی جانب سے پیش کیے گئے علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے آئینی ترمیمی بل پر غور کیا گیا۔وزارت قانون نے علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے آئینی ترمیمی بل کی مخالفت کی۔سپیشل سیکرٹری قانون جسٹس( ر) رضا خان نے کہا کہ ایسا مناسب نہیں کہ ایک قوم ہو اور قومی زبانیں 10 ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ قومی زبان وہ ہوتی ہے جو سب کو قابل قبول ہو اورجسے لوگ سمجھتے ہوں۔ مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی معین وٹو نے بھی آئینی ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کی ضرورت ہی نہیں ہے ، یہ بل ملک میں نئی شورش پیدا کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق کمیٹی ممبران نے ماروی میمن کو بل واپس لینے کا مشورہ دیا تاہم بل واپس نہ لینے پر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے بل پر ووٹنگ کرائی۔4 اراکین نے بل کی مخالفت جبکہ صرف ایک رکن نے حمایت کی۔ووٹنگ کے بعد قائمہ کمیٹی نے علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کا آئینی ترمیمی بل مسترد کردیا۔
 

فلک شیر

محفلین
علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کا بل مسترد
16 جولائی 2014 (15:42)

news-1405507334-4589.jpg

اسلام آباد(ما نیٹر نگ ڈیسک ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کا بل مسترد کردیا ہے۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس محمود بشیر ورک کی صدارت میں اسلام آباد میں ہوا۔اجلاس میں ماروی میمن کی جانب سے پیش کیے گئے علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے آئینی ترمیمی بل پر غور کیا گیا۔وزارت قانون نے علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے آئینی ترمیمی بل کی مخالفت کی۔سپیشل سیکرٹری قانون جسٹس( ر) رضا خان نے کہا کہ ایسا مناسب نہیں کہ ایک قوم ہو اور قومی زبانیں 10 ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ قومی زبان وہ ہوتی ہے جو سب کو قابل قبول ہو اورجسے لوگ سمجھتے ہوں۔ مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی معین وٹو نے بھی آئینی ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کی ضرورت ہی نہیں ہے ، یہ بل ملک میں نئی شورش پیدا کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق کمیٹی ممبران نے ماروی میمن کو بل واپس لینے کا مشورہ دیا تاہم بل واپس نہ لینے پر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے بل پر ووٹنگ کرائی۔4 اراکین نے بل کی مخالفت جبکہ صرف ایک رکن نے حمایت کی۔ووٹنگ کے بعد قائمہ کمیٹی نے علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کا آئینی ترمیمی بل مسترد کردیا۔
اس کا مطلب ہے ، ماروی کی امید پوری نہ ہو سکی ۔
ایک سوال ہے کہ قومی زبان کے حوالہ سے ہندوستان میں علاقائی زبانوں سے کیا سلوک کیا گیا ہے؟
 
اس کا مطلب ہے ، ماروی کی امید پوری نہ ہو سکی ۔
ایک سوال ہے کہ قومی زبان کے حوالہ سے ہندوستان میں علاقائی زبانوں سے کیا سلوک کیا گیا ہے؟
ہندوستان میں کیا ہوا، کچھ اجمالی تذکرہ بھی فرما دیجئے۔ میرا خیال ہے جیسے چین میں مختلف قومیتوں کو تسلیم کیا گیا ہے، ویسے شاید ہندوستان میں نہیں ہوا ہو گا۔ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے، یہاں زبانوں کا ویسا ازدہام نہیں جیسا ہندوستان میں ہے۔ اب اگر کچھ گروہی مفادات کے پیشِ نظر ایک ہی زبان کی ’’بولیوں‘‘ کو الگ الگ زبان کا نام اور حیثیت دینے کی ہو رہی ہو تو معاملہ لسانیاتی سے زیادہ سیاسی ہے۔ ہمارے یہاں قومی زبان چاہے آئین کی حد تک ہو، چاہے کسی اور حد تک؛ وہ اردو ہے۔ ترجیح اس کو مؤثر انداز میں نافذ کرنے کی ہونی چاہئے، نہ کہ نئے سوالات اٹھا لائے جائیں۔ یوں پہلا سوال بھی حل نہیں ہو سکے گا۔ سات دہائیاں تو ہو چلیں!
 
ماروی میمن کا بل اردو میں
اس بل پر اس طرح عمل ہوگا
1۔ مخصر عنوان اور اجراء
(1)۔ اس بل کو آئینی (ترمیمی) بل 2014 کہا جا سکتا ہے۔
(2)۔ یہ بل فوری طور پر لاگو ہوگا۔
2۔ آئین کی دفعہ 251 میں ترمیم
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 251 میں مندرجہ ذیل ترمیم کر دی جائے گی،
قومی زبان:- (1)بلوچی، بلتی، براہوی، پنجابی، پشتو، شینا، سندھی، سرائیکی، ہندکو، اردو اور وہ تمام بولیاں جن کو پاکستان لینگویج کمیشن مادری زبانیں قرار دے گا قومی زبانیں ہیں۔ مذکورہ کمیشن جو کہ ماہرین اور لسانیات کے ماہرین پر مشتمل ہوگا اس بڑے مقصد کے ساتھ قائم کیا جائے گا کہ وہ پاکستان کی بڑی مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لئے رہنمائی فراہم کرے۔
(2) پاکستان کی سرکاری زبان انگریزی ہوگی تاآنکہ اس کو بل کی تاریخ اجراء سے 15 سال کے اندر اندر اردو سے بدل دینے کے انتظامات کئے جائیں۔
(3) وفاقی حکومت قومی زبانوں کی ترقی اور بہتری کے لئے فنڈ قائم کرے گی اور اس کے ساتھ اس امر کو یقینی بنائے گی کہ عربی اور فارسی کو بھی ایک مضمون کے طور پر اسکول کی سطح پر پڑھایا جائے۔
(4) قومی زبانوں کے ساتھ تعصب برتے بغیر ایک صوبائی اسمبلی قومی زبان کے علاوہ ایک صوبائی زبان کی تعلیم، فروغ اور استعمال کے لئے قانون سازی کے ذریعے اقدامات اٹھا سکتی ہے۔
اصل دفعہ 251 کیا ہے۔
1973 کا متفقہ آئین پاکستان کہتا ہے
251. National language.
(1) The National language of Pakistan is Urdu, and arrangements shall be made for its being used for official and other purposes within fifteen years from the commencing day.
(2) Subject to clause (1), the English language may be used for official purposes until arrangements are made for its replacement by Urdu.
(3) Without prejudice to the status of the National language, a Provincial Assembly may by law prescribe measures for the teaching, promotion and use of a Provincial language in addition to the National language.
(ترجمہ)
آئین پاکستان کی دفعہ 251
251. قومی زبان.
(1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، اور اسے سرکاری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے (آئین کے) اجرا کے پندرہ سال کے اندر اندر انتظامات کئے جائیں۔
(2) شق (1) کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریزی کو سرکاری مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے تا آنکہ اس کو اردو کے ذریعے بدل دینے کے انتظامات کئے جائیں۔
(3) قومی زبان سے کوئی تعصب برتے بغیر ایک صوبائی اسمبلی قانون سازی کے ذریعے قومی زبان کے ساتھ ساتھ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، فروغ اور استعمال کے لئے اقدامات تجویز کر سکتی ہے۔
قائد اعظم نے کیا فرمایا
قائد اعظم نے فرمایا.
" میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو- جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ پاکستان کا دشمن ہے- ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کار ہائے نمایاں انجام دے سکتی ہے"- (ڈھاکہ 21 مارچ 1948 ).
قائد اعظم نے ایک بار پھر اسی شہر میں 24 مارچ 1948 کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا.
"اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور میری ذاتی رائے میں وہ صرف اردو ہے"
 
ماروی میمن کا سیاہ بل
اگر اس بل پر اتنے زیادہ اراکین اسمبلی کے دستخط نہ ہوتے تو میں اسے کسی مخبوط الحواس شخص کا فعل گردانتا مگر بل کی عبارت پڑھ کر اور اسے پرکھنے کے بعد میں اس کو ایک ایسے ذہن کی کاوش سمجھتا ہوں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ سے نا بلد، اس کے معاشرتی رویوں سے ناواقف اور لسانیات کے تقاضوں سے نا آشنا ہے، مزید یہ کہ وہ پاکستانی معاشرے میں ایک ایسی توڑ پھوڑ کا آغاز کرنا چاہتا ہے جس کے بعد شاید یہاں کچھ بھی سلامت نہ رہے۔
کیا اس بل کی منظوری کے بعد حکومت ایک اور بل بھی پیش کرنے کی منظوری دے گی جس میں پاکستان میں سنی، شیعہ، دیو بندی، بریلوی، اہل حدیث، عیسائیت، یہودیت، ہندو مت، سکھ ازم اور احمدیت کو پاکستان کے سرکاری مذاہب قرار دینے کی بات کی جائے گی؟
ایک کام تو یہ کیا گیا ہے کہ اردو کو شینا، براہوی بلتی، ہندکو، سرائیکی، پنجابی، بلوچی، سندھی اور پشتو وغیرہ کے پہلو بہ پہلو کھڑا کر دیا گیا ہے، پھر یہ کہ کہہ دیا گیا ہے کہ اکتالیس 41 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ، اردو سائنس بورڈ، مقتدرہ قومی زبان، اردو لغت بورڈ، اور مجلس زبان دفتری کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اردو ابھی تک بلوغت کے مراحل طے نہیں کر پائی اس لئے اس کی بلوغت کے مراحل مکمل ہونے کے لئے 15 سال کا مزید عرصہ چاہئیے اور اس کے بالغ ہونے تک اس کو انگریزی کے انکوبیٹر میں رکھا جائے تاکہ پاکستان کا اسی طرح ستیاناس ہوتا رہے جیسا کہ پچھلے 67 سال سے ہورہا ہے۔
پتا نہیں اردو میں ایسی کیا بات ہے کہ اس میں کمبخت حکمرانوں کی خواہشات کو پورا کرنے کی طاقت ہی پیدا نہیں ہو رہی اور وہ ہر بار چند سال گزر جانے کے بعد اعلان کرتے ہیں کہ ابھی بھی اس کی بلوغت کا عمل مکمل ہونے میں 15 سال کا عرصہ باقی ہے، دراصل وہ ایک کام کرتے ہیں وہ یہ عرصہ 15 سال ہی رکھتے ہیں اگر ایک بار جی کڑا کر کے 18 سال کا عرصہ متعین کرد یں تو مجھے پکا یقین ہے کہ یہ جوان ہو جائے گی۔
ایک اور بات جس کی سمجھ نہیں آئی وہ نظام تعلیم میں فارسی اور عربی کی تعلیم دینے کی بات ہے۔ انگریزی، اردو، عربی، فارسی (چینی، افغانی، ہندی اور ترکی کیوں نہیں؟) اور ایک علاقائی زبان۔ اتنی ساری زبانیں پڑھنے کے بعد سائنس ریاضی، معاشرتی علوم اور اسلامیات کہاں جائیں گے اور کیا ہمارے اراکین اسمبلی یہ سمجھا سکیں گے کہ اس قدر توجہ زبانوں کی تدریس پر کیوں دی جا رہی ہے۔ آخر انہوں نے ہمارے طالب علموں کو اور اس قوم کو کیا سمجھ لیا ہے کہ یہ جو خناس ان کے دماغ میں آ جائے اس کو لے کر چل کھڑے ہوتے ہیں۔
پھر یہ بھی بات ہے کہ ان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ یہ صرف چند زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیں پاکستان میں جو بھی زبان بولی جائے جہاں بھی بولی جائے اس کو قومی زبان کیوں نہ کہا جائے، (اس طرح زیادہ اچھا چوں چوں کا مربہ تیار ہوگا) مکرانی، گوجری، کہستانی، پہاڑی، پوٹھوہاری، میواتی، رہتکی اوراس طرح بیشمار دوسری چھوٹی بڑی زبانوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ان کو نظر انداز کر دیا جائے۔ شاید ان کے مقاصد انہی زبانوں کو بانس پر چڑھا کر پورے ہو جاتے ہیں ورنہ جس قدر یہ مادری زبانوں کا درد سینے میں چھپائے ہوئے ہیں ان کو یہ سب اور وہ سب زبانیں جن کا میں نے ذکر نہیں کیا ان سب کا ذکر اپنے مسودہ قانون میں ضرور کرنا چاہئیے تھا، میں ان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ پاکستان کے طول و عرض میں بولی جانے والی اڑھائی سو زبانوں میں سے ہر زبان کو اس مسودہ قانون میں شامل کیا جائے، اور اس بل کو پیش کرنے والا پڑھنے والا، اس کو منظور کرنے کی خواہش رکھنے والا، ہر خواندگی پر اس میں شامل ہر زبان کا فردا" فردا" ذکر کرے اور اس کا نام لے۔ میں چاہوں گا کہ ان سب زبانوں کو بولنے والے ( جن کا اس بل میں ذکر نہیں) اس پر شدید رد عمل کا اظہار کریں ان اراکین اسمبلی کا گھیراؤ کریں اور اپنے مطالبے کے حق میں تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں صدائے احتجاج بلند کرے۔
چونکہ چھوٹے بچوں کی کسی سطح پر کوئی نہیں سنتا اس لئے میں ان کی نمائدگی کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس بولی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے جو مائیں اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ بولتی ہیں جیسے وہ دودھ کو ددھو، روٹی کو چوچی ، پانی کو مم، پیشاب کو پچھی اور پاخانے کو پوٹی کہتی ہیں، اس طرح شیر خوار بچوں کا احساس محرومی بھی ختم ہو جائے گا اور وہ بھی اپنی زبان کا تحفظ کر سکیں گے، مزید یہ کہ اس زبان کو محفوظ اور زندہ رکھنے کے لئے اور بچوں کو ان کے بچپن سے جڑا رکھنے کے لئے اس کی تدریس کا بندوبست بھی کیا جائے اور اس کو بھی ایک لازمی مضمون کے طور پر گریجویشن تک پڑھایا جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی زبان کی کسی بھی مرحلے پر تدریس کی ضرورت نہیں ہے اور مادری زبان کی تدریس کی تو بالکل بھی ضرورت نہیں ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ تمام ابتدائی قاعدے اردو میں ہوں ان کو پڑھایا اور سمجھایا مادری زبانوں میں جائے، اس طرح مادری زبانوں کا علم بھی بچوں کو ہو جائے گا وہ اپنی زبانوں سے جڑے بھی رہیں گے اور اس عمل کے دوران مادری زبانو ں اور اردو کا تعلق بھی مضبوط ہو جائے گا۔
جہاں تک دوسری زبانوں کا تعلق ہے ان کی تدریس 11 سے 14 سال کی عمر کے دوران کی جائے، ہر بچے کو ایک زبان اختیاری مضمون کے طور پر پڑھنے کی اجازت ہو، اب چاہے تو وہ اردو پڑھے، چاہے تو انگریزی پڑھے چاہے تو عربی یا فارسی پڑھے یا اپنی مادری زبان سے اپنی وابستگی ظاہر کرنے کے لئے اس کا علم حاصل کرے۔ جہاں تک ذریعہ تعلیم کی بات ہے وہ ابتدا سے انتہا تک صرف اردو ہو، اور اس میں کسی دوسری زبان کی ملاوٹ نہ کی جائے۔
یہ جو nation state کا لفظ اس مسودہ قانون میں شامل کیا گیا ہے آخر اس کا مقصد ہی کیا ہے، کیا یہ پاکستان کے بارے میں کوئی نیا عمرانی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں یہ ایک ایسی شرارت (یا خباثت) ہے جس کا فوری مواخذہ کیا جانا ضروری ہے۔ جو اس میں شرارت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان ایک قوم نہیں کئی قوموں کا مجموعہ ہے، اب یہ اشخاص صوبے سے مراد ایک قوم لیتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انہی کی متعین کی گئی تعریف کی رو سے ہر صوبے میں کئی قومیں بستی ہیں، جیسے سندھ میں سندھی اور مہاجر، پنجاب میں پنجابی، سرائیکی، پوٹھوہاری، پہاڑی اور بلوچستان میں پشتون، بلوچی، مکرانی، براہوی اور کئی دوسری قومیں بستی ہیں پنجاب میں تو نوبت یہاں تک ہے کہ جاٹ، گجر، ارائیں، کشمیری اور راجپوت الگ الگ قومیں تصور ہوتے ہیں۔
یہ اشخاص پاکستان کی تاریخ نظریے اور سماج سے بالکل ناواقف ہیں۔ یہ وہی ماروی میمن ہے جو 8 سال پرویز مشرف کا نفس ناطقہ بنی رہی اس کی پالیسیوں میں شامل رہی اور پاکستان میں ایک اخلاق باختہ اور حیا باختہ معاشرے کی تشکیل جس کے ایجنڈے کا سب سے اہم نکتہ رہا، اب یہ مسلم لیگ کے کاندھوں پر سوار ہو کر اسی ایجنڈے کی تکمیل کرنے میں مصروف ہے جو پرویز مشرف کے ہاتھوں پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ کیا ہمارے سادہ لوح حکمران اس گھناؤنے کھیل کو سمجھنے کے اہل ہیں؟
میں چاہوں گا کہ اس بل کو پیش کرنے والوں کا معاشرتی مقاطع کیا جائے اور ہر اس رکن اسمبلی جو اس بل کی حمایت کرنے کا ارادہ ظاہر کرے اس کے دماغی معائنے کا بند وبست کیا جائے۔
بہتر ہے کہ ن لیگی حکومت 1973 کے آئین کی دفعہ 251 پر اس کی روح کے مطابق عمل کرے اور اس پر عمل کرتے ہوئے فوری طور پر پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر اردو کے نفاذ کا عمل کرے
مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی انگریزی تو جوان ہے اور پاکستان میں کلی طور پر نافذ ہے مگر کیا کسی نے پاکستانی قوم کے بارے میں بھی سوچا جو اس زبان کی وجہ سے جوان نہیں ہو پا رہی؟
Tehreek E Urdu
 
ربط
اگرچہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون، انصاف اور انسانی حقوق نے قومی زبان اردو کو علاقائی زبان کا درجہ دلانے اور انگریزی کو بطور قومی زبان تسلیم کرانے کی گھناﺅنی سازش پر مبنی قرارداد مسترد کر دی ہے مگر میں حیران ہوں کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن کو کس کی شہہ پر ایسی شرانگیز قرارداد قومی اسمبلی میں لانے کی جرا¿ت ہوئی۔ مجھے ماروی میمن کی اس شرانگیزی کا علم پاکستان قومی زبان تحریک کی محترمہ فاطمہ قمر کے بھجوائے گئے ایک موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے ہُوا۔ ذہن تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا کہ حکمران جماعت، جس کی قیادت خود کو بانی¿ پاکستان قائداعظم کی جانشین سمجھتی ہے اور ان کے سابق دورِ حکومت میں ان کے لئے قائداعظم ثانی کے نعرے بھی لگوائے جاتے رہے ہیں، آج ملک کی اس زبان کو راندہ¿ درگاہ بنانے پر بھی تُلی نظر آ سکتی ہے جسے بانی¿ پاکستان نے خود قومی زبان کا درجہ دلایا تھا۔ میں نے اپنے ذہنی اطمینان کے لئے تحریک نفاذ اردو کے صدر ڈاکٹر شریف نظامی کو زحمت دی کہ وہ ماروی میمن کی جانب سے آئینی ترمیم سے متعلق قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد کی کاپی مجھے بھجوا دیں۔ انہوں نے کمال مہربانی سے اسی وقت مجھے متعلقہ قرارداد کی کاپی بھجوا دی جسے دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ماروی میمن نے اس قرارداد پر وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر اور حکمران مسلم لیگ کے دیگر ارکان قومی اسمبلی مخدوم خسرو بختیار، قیصر احمد شیخ، بیگم طاہرہ بخاری، شہاب الدین خاں، ڈاکٹر عباداللہ، مخدوم سید علی حسن گیلانی، مسز کرن حیدر اور خالد حسن مگسی کے دستخط کرا کے انہیں بھی شریکِ جرم بنایا ہوا ہے۔ اس قرارداد میں تقاضہ آئین کی دفعہ 251 کی ذیلی دفعات میں ترمیم کر کے پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں بلوچی، بلتی، براہوی، پنجابی، پشتو، شینا، سندھی، سرائیکی، ہندکو اور اردو سمیت تمام مادری زبانوں کو قومی مادری زبانوں کا درجہ دینے اور انگریزی زبان کو اگلے پندرہ برس تک ملک کی سرکاری زبان قرار دینے کا کیا گیا۔ اس آئینی دفعہ کی ایک مجوزہ ترمیمی شق میں آئین کے تخت قومی زبانوں کے زمرے میں شامل کی گئی زبانوں کی پروموش کے لئے وفاقی حکومت کے ماتحت ایک فنڈ قائم کرنے اور عربی اور فارسی کو پرائمری سطح کے تدریسی نصاب میں بطور مضمون شامل کرنے اور دوسری ترمیمی شق میں قومی زبانوں کے پھیلاﺅ کے لئے صوبائی اسمبلیوں کو اقدامات اٹھانے کا پابند کرنے کا بھی تقاضہ کیا گیا تھا۔ اس چالبازی میں کمال ہوشیاری سے اردو زبان کو بھی علاقائی زبان کے کھاتے میں ڈالنے کی سازش کی گئی جس کے تحت یہ زبان سندھی، سرائیکی، پشتو، پنجابی، براہوی، ہندکو کی طرح ملک کے صرف مخصوص علاقے تک محدود ہو کر رہ جاتی اور پھر اس کی بنیاد پر اردو زبان بولنے والوں کے لئے نئے صوبے کی تشکیل کا تقاضہ کرنے کی راہ ہموار کر لی جاتی۔ اس قرارداد کے ذریعے ماروی میمن نے اس تسلیم شدہ حقیقت میں دراڑیں ڈالنے کی سازش کی تھی کہ اردو ہی درحقیقت رابطے کی وہ زبان ہے جو ملک کے ہر علاقے کی آبادی کو لسانی، نسلی اور گروہی امتیاز کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط رکھتی ہے جس سے پاکستانی قوم کا تشخص اُبھر کر مستحکم ہوتا ہے۔ پھر یہ سازش تو پاکستانی قوم کو لسانیات اور گروہ بندی میں تقسیم کر کے منتشر کرنے کی ہوئی ناں۔ ذرا تصور کیجئے کہ اس وطنِ عزیز کو منتشر کر کے توڑنے کی کیسی کیسی گھناﺅنی سازشیں تیار کی جا رہی ہیں اور ان سازشوں کی تکمیل کے لئے کس کس کو آلہ¿ کار بنایا جا رہا ہے۔
علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دلانے کی سازشی تحریک سب سے پہلے ورلڈ پنجابی کانگرس کے فخر زمان نے شروع کی تھی مگر وہ بھی اردو زبان کو رابطے کی زبان ضرور قرار دیتے ہیں اور یقیناً رابطے کی یہی زبان ملک کے تمام علاقوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے ہوئے ہے۔ اگر مختلف علاقوں کے لوگوں میں اپنی اپنی زبان کی بنیاد پر ابلاغ نہیں ہو پاتا تو وہاں اردو زبان کام آتی ہے جو ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو سمجھنے اور بروئے کار لانے میں معاون بنتی ہے۔ اس ناطے سے ہی اردو قومی زبان قرار پائی تھی جسے بانی ¿ پاکستان قائداعظم نے خود قومی زبان کے طور پر لاگو کیا اور پھر 1973ءکے آئین کی دفعہ 251 کے تحت باضابطہ طور پر اردو کو قومی زبان کا درجہ دے کر طے کر دیا گیا کہ اس آئینی دفعہ کے لاگو ہونے کے دس سال کے اندر اندر تمام دفاتر، سرکاری، تعلیمی اداروں اور عدالتوں میں اردو سرکاری زبان کے طور پر رائج کر دی جائے گی، اس بنیاد پر اردو زبان کو 1984ءتک سرکاری زبان کا درجہ مل جانا تھا مگر ضیاالحق کے مارشل لاءنے 73ءکے آئین کو معطل کر کے اردو زبان کے سرکاری زبان کے قالب میں ڈھلنے کی نوبت ہی نہ آنے دی جس کے خلاف سنیئر قانون دان اسماعیل قریشی نے اردو کی دادرسی کے لئے پہلے لاہور ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کیں جن کی عدلیہ میں پذیرائی ہوئی اور عدالتِ عظمیٰ نے آئین کی دفعہ 251 کے تقاضے اس کی روح کے مطابق نبھانے کے احکام صادر کر دئیے۔ پھر حکمران جماعت کی تو یہ ذمہ داری تھی کہ قائداعظم کی سوچ اور عدلیہ کے احکام کی روشنی میں وہ آئین کی دفعہ 251 کو اس کی روح کے مطابق لاگو کر کے اس کا سرکاری زبان کا درجہ تسلیم کراتی چہ جائیکہ کہ وہ خود کو اردو زبان کو کسی ایک علاقے تک محدود کرنے کی سازش کا حصہ بناتی۔ اگر اس سازشی قرارداد پر وزیراعظم نواز شریف کے داماد نے بھی دستخط کئے ہوئے ہیں تو وزیراعظم ان سے اس سازش کے پس پردہ مقاصد و محرکات ہی جان لیں، کہیں اس سازش کے تانے بانے کراچی کو جناح پور میں تبدیل کر کے اسے ملک سے کاٹنے کی سازش کے ساتھ تو نہیں ملتے؟ اگر فی الواقع ایسا ہے تو حکمران مسلم لیگ کے قائد کو سازشی عناصر کے مقاصد فوری طور پر بے نقاب کرنے چاہئیں ورنہ بادی النظر میں انہیں بھی اس سازش میں شریک سمجھا جائے گا۔ اگر آج قائداعظم کی اس نشانی کو مٹانے اور اس کی بنیاد پر ملک کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کر کے منتشر کرنے کی سازش کی گئی ہے جو بے شک قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے ناکام بنا دی ہے تو کل کو حکمرانوں کی معصومانہ لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر سازشی عناصر ملک کے کسی صوبے کا بھارت، کسی کا افغانستان اور کسی کا ایران کے ساتھ الحاق کرا کے اپنے ہاتھوں وطن عزیز کی بنائی گئی قبر پر فاتحہ پڑھنے کا ڈھونگ رچاتے نظر آئیں گے اور یہی اس وطنِ عزیز کے بدخواہوں کا ایجنڈہ ہے۔ کیا حکمران جماعت کی معصوم قیادتوں کو سرائیکی اور جنوبی پنجاب کے صوبوں کی تشکیل کے پس پردہ محرکات کا ادراک نہیں ہُوا تھا کہ اب اردو زبان کو علاقائی زبان کا درجہ دلانے کی سازش ان کی اپنی پارٹی کے ارکانِ قومی اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ کاغذ پر منتقل ہوئی ہے۔ نئے صوبوں کی تشکیل کی سازش کی کوکھ سے بھی تو اچانک جناح پور کا نقشہ منظر عام پر آ گیا تھا جسے اس وقت کی حکمران پیپلز پارٹی کے سندھی ارکانِ قومی اسمبلی نے ناکام بنایا جبکہ اب یہ سازش حکمران مسلم لیگ (ن) کی صفوں کے اندر سے تیار کرائی گئی ہے۔ پھر وزیراعظم نے پارٹی ہیڈ کی حیثیت سے اپنی پارٹی کے ان سازشی ارکان کے خلاف کیا ایکشن لیا ہے؟ اگر قائمہ کمیٹی یہ قرارداد مسترد نہ کرتی تو کوئی بعید نہیں تھا کہ پارٹی قیادت کے ہر فرمان پر آنکھیں بند کر کے ہاں کہنے کے عادی ارکانِ اسمبلی اس قرارداد پر کیپٹن (ر) صفدر کے دستخط دیکھ کر قومی اسمبلی کے فورم پر اس قرارداد کی منظوری کی بھی نوبت لے آتے۔ جناب یہ اردو کی ہی نہیں، ملک کی بھی بقاءکا سوال ہے، آپ ایسی سازشوں کو بھولپن میں اپنی پارٹی کی صفوں میں ہی پروان چڑھانے کا موقع فراہم کرتے رہیں گے تو ملک کی سلامتی کے درپے بیرونی سازشی عناصر کیوں اپنے مقاصد کی تکمیل نہیں کریں گے۔ سو یہ میرا ہی نہیں، مظلوم قومی زبان اردو اور اسے قومی زبان کا درجہ دینے والے بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظم کی روح کا بھی آپ سے سوال ہے کہ آپ نے اس سازش کے محرک اپنی پارٹی کے ارکان کی ”عزت افزائی“ کے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ کیا آپ کو علم بھی ہے کہ آپ کی چھتری کے نیچے کیسے کیسے موذی سانپ پرورش پا رہے ہیں۔ جناب! کچھ تو کہئے کہ لوگ کہتے ہیں۔
 
کیا اردو زبان قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے...حرف آغاز۔۔۔۔۔واصف ناگی
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

221735_s.jpg

wasifnagimkrms!@gmail.com
قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم اردو زبان کے ساتھ غیروں والا اور امتیازی سلوک کر رہے ہیں۔ دنیا کی ہر قوم اور حکومت اپنی قومی زبان کی ترویج، فروغ اور ترقی کے لئے کام کرتی ہے بلکہ دوسری زبانوں کے علوم و فنون کا بھی اپنی قومی زبان میں ترجمہ کرکے کتابیں مرتب کرتی ہیں۔ اس کے برعکس ایک ہم ہیں جو اردو بولنے والے اور پڑھنے والے کو کم علم، کم تر اور کم درجہ دیتے ہیں۔ ہمارے وہ حکمران جنہیں انگریزی نہیں آتی، پتہ نہیں انہوں نے اس انگریزی کو سیکھنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں، کچھ نے غیر ملکی جلاوطنی میں انگریزی سیکھی تو کچھ نے قید تنہائی میں انگریزی سیکھی۔پاکستان کے آئین کی شق نمبر یعنی دفعہ 251 میں درج ہے۔ ’’(1)پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور اسے سرکاری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے (آئین کے) اجراء کے پندرہ برس کے اندر اندر نافذ کرنے کے انتظامات کئے جائیں۔ (2) شق 1 کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی کو سرکاری مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے تاآنکہ اس کو اردو کے ذریعے بدل دینے کے انتظامات کئے جائیں۔ (3) قومی زبان سے کوئی تعصب اختیار کئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی قانون سازی کے ذریعے قومی زبان کے ساتھ ساتھ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، فروغ اور استعمال کے لئے اقدامات تجویز کر سکتی ہے‘‘۔
کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ 1947ء سے 1973ء تک یعنی 26 برس تک ہماری تمام حکومتیں اور سیاستدان یہی سمجھتے رہے کہ اردو ایک غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ زبان ہے۔ اسے ترقی اور فروغ دینے کے لئے مزید پندرہ برس چاہئیں۔ یعنی 41 برس کے بعد ہم اس کو مکمل طور پر رائج کرسکیں۔ آئین کی رو سے دیکھیں تو 1988ء میں اس زبان کو یعنی اردو کو مکمل طور پر نافذ کر دینا چاہئے تھا۔ محترم ضیاءالحق تو خود اردو کے بڑے حامی تھے۔ ان کے دور میں کئی سرکاری سکولز انگلش میڈیم سے اردو میڈیم ہوگئے۔ آج 2014ء آگیا ہے، پاکستان کے قیام کو 67 برس ہو چکے ہیں ہم آج تک پاکستان کی قومی زبان کے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکے۔ حالانکہ 1940 میں قائد اعظم نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی پھر پتہ نہیں ہم نے آج تک اس واضح اعلان پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا۔ شکر ہے کہ ماروی میمن کا بل قومی اسمبلی میں پاس نہیں ہوا ورنہ پاکستان میں 9 علاقائی زبانیں قومی زبانیں بن جاتیں اور پھر پتہ نہیں کیا ہوتا۔ 1948 میں قائد اعظم نے ڈھاکہ میں فرمایا تھا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ اردو کے ساتھ دفتری استعمال کے لئے بنگالی زبان میں بھی خط و کتابت کرسکتے ہیں۔ ضیاءالحق کے دور میں اخبارات میں ایک خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ آئندہ سی ایس ایس کے امتحانات اردو میں ہوں گے مگر بعد میں نادیدہ قوتوں نے یہ فیصلہ یا اعلان واپس کروا دیا۔ اب تک کے مقابلے کے امتحانات انگریزی میں ہو رہے ہیں۔ سائنسی مضامین کی تعلیم انگریزی میں دی جا رہی ہے۔ سرکار خود انگلش میڈیم اسکولوں کے قیام پر زور دے رہی ہے اور جو سرکاری سکولز پہلے سے قائم ہیں انہیں انگلش میڈیم بنایا جا رہا ہے۔ این ٹی ایس ٹیسٹاورGATکا ٹیسٹ بھی انگریزی زبان میں ہو رہا ہے۔
آپ نے اردو میں ایم فل کرنا یا پولیٹیکل سائنس، پنجابی یا فارسی میں تو اس کے لئےجو بھی ٹیسٹ ہوتا ہے وہ بھی انگریزی میں ہوتا ہے۔ اپنے نظام تعلیم اور نصاب کے لئے باہر سے گورے بلائے جاتے ہیں۔ ارے عقل کے اندھو! کیا کبھی جاپان، چین، کوریا، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن، ترکی وغیرہ نے اپنا سلیبس مرتب کرنے کے لئے امریکیوں اور انگریزوں کو بلایا ہے؟ ہماری اپنی قومی ضروریات، ہمارے اپنے مسائل اور تقاضے ہیں، ہمیں اپنا نصاب، اپنے قومی تقاضوں اور ضروریات کو پیش نظر رکھ کر مرتب کرنا چاہئے۔ اس ملک میں میڈیکل ایجوکیشن کے جو بانی اساتذہ رہے ہیں، جنہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) سے تعلیم حاصل کرکے ملک کے دیگر علاقوں میں میڈیکل کالجز قائم کئے ان کی اکثریت اردو میڈیم اسکولوں اور خصوصاً لاہور کے گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال کی تعلیم یافتہ تھی۔ یہ بات ہم کسی مفروضے پر نہیں بلکہ حقیقت میں بیان کر رہے ہیں۔ 1950ء میں اس اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے آج بھی کئی بڑے نامور ڈاکٹرز ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں لمبی عمر اور صحت عطا فرمائے۔ ان لوگوں نے اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرکے بلکہ ٹاٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرکے ایک مقام اور نام پیدا کیا۔ آپ 67 برسوں کا تعلیمی ریکارڈ ملاحظہ فرمائیں۔ بورڈز کے امتحانات میں صرف اور صرف اردو میڈیم سرکاری اسکولوں کے بچوں نے پوزیشنیں حاصل کی ہیں۔ کسی ایچیسن کالج اور انگلش میڈیم اسکول کے بچے کی پوزیشن شاید ہی نظر آئے۔ البتہ پچھلے چند برسوں سے صرف ایک ہی پرائیویٹ گروپ آف کالجز کے بچے بورڈز میں کیوں پوزیشنیں لے رہے ہیں۔ اس پر بات کریں گے تو وہ برا مان جائیں گے۔
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
شکر ہے کہ ماروی میمن کا پیش کردہ بل قومی اسمبلی میں پاس نہ ہوا۔ ورنہ تو اس ملک میں زبانوں کے بعد فرقوں کا بھی ایک طوفان اٹھ جانا تھا۔ پاکستان کی علاقائی زبانوں کا فروغ ضروری ہے۔ مگر آپ کسی علاقائی زبان کو قومی زبان کے برابر کس طرح درجہ دے سکتے ہیں؟ اردو پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ کم از کم ابلاغ تو کر ہی لیتی ہے۔ پھر اردو کے ساتھ یہ دشمنی کیوں؟ پنجابی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، ہزاروی، ہندکو، سندھی، پوٹھوہاری، کشمیری، براہوی، مکرانی اور دیگر علاقائی زبانیں صرف اپنے علاقوں تک بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک پنجابی کو پشتو اور سندھی سیکھنے میں بہت وقت درکار ہوگا جبکہ اردو زبان ہر کوئی جلد سیکھ اور بول سکتا ہے۔ ویسے بھی یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ 1980-81ء میں احمد جمیل مرزا، مطلوب الحسن سید (سیکرٹری قائداعظم) اور میر خلیل الرحمن (بانی جنگ گروپ) کی کوششوں سے دنیا کا پہلا اردو زبان کا نوری نستعلیق سافٹ ویئر تیار ہوا اور یہ اعزاز روزنامہ جنگ کو حاصل ہوا وہ یکم اکتوبر 1981ء کواسی نوری نستعلیق سافٹ ویئر پر شائع ہوا۔ اس طرح یہ دنیا کا پہلا اردو اخبار بن گیا جو نوری نستعلیق سافٹ ویئر پر تیار کیا گیا۔ جسے بعد ازاں پوری اخباری صنعت نے اپنایا۔ آج پوری دنیا میں اسی نوری نستعلیق سافٹ ویئرپر کتابیں، جرائد اور رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آئین کا تقاضا ہے کہ قومی زبان اردو کا استعمال روزمرہ زندگی میں کیا جائے ۔ اگر ہم آئین پر عمل نہیں کریں گے تو کس پر کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طبقاتی درجہ بندی کے خاتمہ کے لئے قومی زبان میں بات چیت ضروری ہے‘‘۔ ایک طرف ہمارے معزز جسٹس جواد ایس خواجہ کا یہ بیان ہے اور دوسری جانب ہماری حکومت کی طرف سے اردو کے ساتھ امتیازی سلوک اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ایک طرف ممتاز ازبک دانشور اور اردو زبان کے شاعر پروفیسر تش مرزا ہیں جنہوں نے روسی اردو لغت اور ازبک اردو لغت مرتب کر دی ہے۔ جس پر انہیں ستارہ امتیاز دیا گیا ہے۔
پہلی روسی اردو لغت 1954-55ء میں اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ عرب دنیا سے اردو کا پہلا اخبار بھی پچھلے 27 برس سے جاری ہے۔ جاپان کی یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جا رہی ہے مگر ہمارے ہاں بعض لوگوں کو اردو زبان سے پتہ نہیں چڑ کیوں ہے؟ یقین کریں اردو زبان قومی ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کا باعث بنے گی۔ اس سے ہماری شرح خواندگی بڑھے گی، زیادہ سے زیادہ لوگ امتحانات میں پاس ہوں گے۔ ہنر مند افراد پیدا ہونگے، روزگار بڑھے۔ ہمارے ہاں جس طرح انگریزی کے فروغ اور ترقی کے لئے کام ہوا ہے اگر اردو کے فروغ اور ترقی کے لئے اس طرح سنجیدگی سے کوششیں کی جاتیں تو اس ہر سطح پر لوگوں کے مسائل بھی حل ہو جاتے۔ ہمارے ہاں دفاتر میں انگریزی میں جو نوٹ لکھے جاتے ہیں اس کو عام لوگ بالکل نہیں پڑھ پاتے۔ عدالتی نظام اردو میں ہونا چاہئے تاکہ وہ غریب مجبور لوگ جو اپنے کیسوں کے لئے اپنا گھر بار فروخت کرکے وکیل کرتے ہیں اس سے بچ سکیں گے کیونکہ وہ خود بھی اردو میں بات چیت کرکے اپنا کیس لڑ سکتے ہیں۔آج سے کئی برس قبل پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں بیس برس تک لاء کی تعلیمی اردو زبان میں دی جاتی رہی بعد میں کسی حضرت نے یہ ختم کردی اس آئینی خلاف ورزی کو فوری ختم کیا جائے اور اردو کے نفاذ کے آئین پر عملدرآمد کرایا جائے
 
Top