پیغام

x boy

محفلین
سوال:-
میں مسلمان ہونے کے ناطے مسلسل یہ سنتارہا ہوں کہ قدس شہر ہمارے لیے بہت ہی اہم ہے لیکن اس کا سبب کیا ہے ؟
مجھےاس کا توعلم ہے کہ نبی اللہ یعقوب علیہ السلام نے مسجد اقصی اسی شہر میں بنائ ، اورہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی میں سب انبیاء کی نمازمیں امامت کرائ جو کہ سب انبیاء کی رسالت اوروحی الہی کی وحدت پردلیل ہے ۔
توکیا اس کے علاوہ کوئ اوربھی ایسا سبب پایاجاتا ہے جواس شہرکی اہمیت واضح کرے ، یا کہ اس سبب سےکہ ہم یھودیوں کے ساتھ معاملات نہ کریں ؟
مجھے توایسا لگتا ہے کہ اس شہرمیں ہم سے زیادہ حصہ یھودیوں کا ہے ۔



الحمد للہ
اول :
بیت المقدس کی اھمیت :

اللہ تعالی آپ پررحم فرمائے آپ کے علم میں ہونا چاہيئے کہ بیت المقدس کے فضائل بہت زيادہ ہیں جس کےبارہ میں آیات و احادیث بہت ہیں :

اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں اسے مبارک قرار دیا ہے : فرمان باری تعالی ہے :

{ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں } الاسراء ( 1 ) ۔

اورقدس ہی وہ شہراورعلاقہ ہے جومسجد کے اردگرد ہے تواس لحاظ سےوہ بابرکت ہوا ۔

اسی علاقہ کواللہ تعالی نےموسی علیہ السلام کی زبان سے مقدس کا وصف دیا ، فرمان باری تعالی ہے :

{ اے میری قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تعالی نے تمہارے نام لکھ دی ہے } المائدۃ ( 21 ) ۔

اس سرزمین میں مسجد اقصی پائي جاتی ہے جہاں ایک نماز اڑھائ صد ( 250 ) نمازوں کےبرابر ہے ۔

ابوذررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگي میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کیا مسجدنبوی افضل ہے یا کہ بیت المقدس ؟ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری مسجد میں وہاں ( بیت المقدس ) کی چارنمازوں سے افضل اوروہ نمازی بھی بہت ہی اچھا ہے ، ایک وقت آئے گا کہ کس آدمی کے پاس اس کے گھوڑے کی رسی جتنی زمین کا ٹکڑا ہوگا جہاں سے اسے بیت المقدس نظرآئے گا ، تویہ اس کے لیے ساری دنیا سے بہتر ہوگي ۔ مستدرک الحاکم ( 4 / 509 ) امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا اورامام ذھبی اورعلامہ البانی رحمہما اللہ تعالی نے اس میں ان کی موافقت کی ہے دیکھیں سلسلۃ احادیث الصحیحۃ حدیث نمبر ( 2902 ) ۔

مسجد نبوی میں ایک نماز ہزارنماز کےبرابر ہے تواس طرح مسجداقصی میں ایک نمازاڑھا‏ئ سو ( 250 ) نمازکے برابر ہوئ ۔

مسجداقصی میں ایک نمازپانچ سونمازکے برابروالی لوگوں میں مشہور حدیث ضعیف ہے ۔ دیکھیں تمام المنۃ للشیخ البانی رحمہ اللہ تعالی ص ( 292 ) ۔

اوروہ ایسی پاکيزہ سرزمین ہے جہاں پرکانا دجال بھی داخل نہیں ہوسکتا، جیسا کہ حدیث میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

( وہ دجال حرم اوربیت المقدس کے علاوہ باقی ساری زمین میں گھومےگا ) مسنداحمد حدیث نمبر ( 19665 ) ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے ( 2 / 327 ) صحیح ابن حبان ( 7 / 102 ) ۔

عیسی علیہ السلام دجال کواسی علاقے کے قریب قتل کریں گے جیسا کہ حدیث نبوی میں فرمان نبوی ہے :

نواس بن سمعان رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( عیسی بن مریم علیہ السلام دجال کو باب لد میں قتل کریں گے ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 2937 ) ۔

لد بیت المقدس کے قریب ایک جگہ کا نام ہے ۔

- یہ وہی جگہ ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج کے لیے مسجد حرام سے مسجد اقصی لیجايا گيا جس کا ذکر اللہ تعالی نے اس آیت میں کچھ اس طرح فرمایا ہے :

{ پاک ہے وہ اللہ تعالی جواپنے بندے کورات ہی رات میں مسجدحرام سے مسجد اقصی تک لے گيا } الاسراء ( 1 )

- یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں ہے :

براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نمازپڑھی ۔۔۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 41 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 525 ) ۔

- معروف ومعلوم ہےکہ وہ جگہ محبط وحی اورانبیاء کرام کا وطن ہے ۔

- بیت المقدس ان مساجدمیں سے ہے جن کی طرف سفرکرنا جائزہے :

ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تین مساجدکے علاوہ کسی اورکی طرف سفرنہیں کیا جاسکتا ، مسجد حرام ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، اورمسجداقصی ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1132 )

اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی روایت کی ہے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 827 ) ۔

ایک لمبی حدیث میں جسے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ نے راویت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجد میں سب انبیاء علیہم السلام کی ایک نمازمیں امامت کرائ ، حدیث کے الفاظا کچھ اس طرح ہیں :

( فحانت الصلاۃ فاممتھم ) نمازکا وقت آیا تومیں نے ان کی امامت کرائ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 172 ) ۔

تواس لیے ان تین مساجد کے علاوہ زمین کے کسی بھی علاقہ کی طرف عبادت کی غرض سے سفرکرنا جائزنہيں ہے ۔

دوم :

یعقوب علیہ السلام کا مسجد اقصی کے تمعیرکرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اب یھودی مسلمانوں سے مسجداقصی کے زیادہ حق دار ہیں حالانکہ یعقوب علیہ السلام موحد اورتوحید پرتھے اوریھودی مشرک ہیں تویہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یھودی مشرک اس میں کچھ بھی حق رکھیں ۔

اس کا معنی یہ نہیں کہ ان کے باپ یعقوب علیہ السلام نے مسجد اقصی بنائ تواب یہ ان کی ہوگئ ، بلکہ انہوں نے توان کے لیے یہ مسجد اس لیے بنائ کہ اس میں موحد اوراہل توحید نمازپڑھیں اوراللہ تعالی کی عبادت کریں اگرچہ وہ ان کی اولاد کے علاوہ کوئ اورہی کیوں نہ ہوں ، اورمشرکوں کواس سے دورکیا جائے چاہے وہ ان کے اولاد میں سے کیوں نہ ہوں ۔

اس لیے کہ انبیاء کی دعوت نسلی نہیں بلکہ تقوی پرمشتمل ہوتی ہے ۔

سوم :

اورآپ کا یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقہ انبیاء کی نما زمیں امامت کرائ یہ وحدت الہی اور وحدت رسالت کی پختہ دلیل ہے ۔

تویہ بالکل صحیح ہے اس لیے کہ سب انبیاء کا دین اورعقید ایک ہی ہے کیونکہ ان سب کے دین کا منبع اورمصدر ایک وحی ہے جس سے سب انبیاء نے اپنی دینی تشنگی دورکی ۔

اوران کا عقیدہ بھی ایک ہی عقیدہ توحیدہے جو کہ اس کی طرف دعوت دیتا ہے کہ اللہ تعالی وحدہ لاشریک اور صرف وہ ہی عبادت کے لائق ہے ، اگرچہ انبیاء کی شریعتوں میں تفاصیل کے اعتبار سے اختلاف ہے ، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

( میں عیسی بن مریم علیہ السلام کا دنیا اورآخرت میں زيادہ حق دار ہوں ، اورسب انبیاء علاتی بھائ ہيں ان کی مائيں مختلف اوردین ایک ہی ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3259 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2365 ) ۔

علاتی بھائ کا معنی یہ جن کا باپ ایک ہواور ماں اورہواسے علاتی بھائ کہا جاتا ہے ۔

اورہم یہاں آپ کویہ کہيں گے کہ آپ ایسا اعتقاد رکھنے سے بازرہیں کہ یھود ونصاری اورمسلمان اب ایک ہی مصدر پر ہیں کیونکہ یہ غلط اور غیرصحیح ہےجس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دین میں تحریف کرڈالی جس میں یہ تھا کہ وہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائيں اوران کی اتباع کریں اوران کے ساتھ کفرنہ کریں ، تواب آپ دیکھیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ساتھ کفرکرتے اور ایمان نہیں لاتے ، اوراللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتے ہیں ۔

چہارم :

قدس میں یھودیوں کا کچھ حصہ نہیں ہے اس لیے کہ وہ زمین دووجہوں سے مسلمانوں کی بن چکی ہے اگرچہ پہلے وہاں پریھودی رہتے رہے ہیں :

1 - اس لیے کہ یھودیوں نے کفرکا ارتکاب کیا اوربنی اسرائیل کے مومنوں کے دین پر جنہوں نے موسی علیہ السلام کی پیروی واتباع کیا اوران پرایمان لائے اوران کی مدد کی یھودی ان کے دین پرواپس نہیں آئے اوراس پرعمل نہیں کیا ۔

2 - ہم مسلمان ان سے اس جگہ کا زيادہ حق رکھتے ہیں ، اس لیے زمین پہلے رہائش اختیارکرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ زمین کا مالک تووہی بنتا ہے جواس میں حدوداللہ کا نفاذ کرے اوراس میں اللہ تعالی کے حکم کوچلائے ، وہ اس لیے کہ زمین اللہ تعالی نے پیدافرمائ اورانسانوں کو اس لیے پیدا فرمایا کہ وہ اس زمین پررہتے ہوئے اللہ تعالی کی عبادت کریں اوراس میں اللہ تعالی کا دین اورشریعت و حکم نافذ اورقائم کریں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ یقینا زمین اللہ تعالی کی ہی ہے وہ جسے چاہے اپنے بندوں میں سے اس کا وارث بنا دے اورآخر کامیابی انہیں کوہوتی ہے جومتقی ہیں } الاعراف ( 128 )۔

تواسی لیے اگرکوئ عرب قوم بھی وہاں آجائے جو کہ دین اسلام پرنہ ہوں اوروہاں کفرکا نفاذ کریں توان سے بھی جہاد وقتال کیا جائےگا حتی کہ وہاں اسلام کا حکم نافذ ہویا پھر وہ قتل ہوجائيں ۔

اوریہ معاملہ کوئ نسلی اورمعاشرتی نہیں بلکہ یہ تو توحید و اسلام کا معاملہ ہے ۔

فائدے کے لیے ہم چندایک مقالہ نگاروں کی کلام نقل کرتے ہیں :

تاریخ اس بات کی شاھدہے کہ فلسطین میں سب سے پہلے بودوباش اورسکونت اختیارکرنے والے کنعانی تھے ، جنہوں چھ 6ہزارسال قبل میلاد وہاں رہائش اختیار کی جوکہ ایک عرب قبیلہ تھا اورجزیرہ عربیہ سے فلسطین میں آیا اوران کے آنے کےبعد ان کے نام سے اسے فلسطین کا نام دیا گیا ۔ دیکھیں کتاب : الصیھونیۃ نشاّتھا تنظیماتھا ، انشتطھا ۔ تالیف : احمد العوضی ص ( 7 ) ۔

اوریھودی تویہاں پر ابراھیم علیہ السلام کے آنے کے بھی تقریبا چھ سو سال آئے ہیں یعنی اس کا معنی یہ ہوا کہ یھودی یہاں پر پہلی مرتبہ چودہ سوسال قبل میلاد آئيں ، تواس طرح کنعانی یھودیوں سے چار ہزار پانچ سوسال پہلے فلسطین میں داخل ہوئے اوراسےاپنا وطن بنایا دیکھیں اوپر والی ہی کتاب صفحہ نمبر ( 8 ) ۔

تواس طرح یہ تایخی طورپربھی یہ ثابت ہوتا ہےکہ فلسطین میں یھودیوں کا نہ تو اب کوئ حق ہے اورنہ ہی اس پہلے کوئ حق تھا ، اورنہ توکوئ شرعی اوردینی حق ہے اور نہ ہی قدیم رہائشی اورمالک ہونے کے اعتبارسے ہی کوئ حق ہے ، بلکہ یہ لوگ غاصب اورظالم ہيں ۔

ہم اللہ تعالی سے دعاگو ہیں وہ ان نجس اورپلید یھودیوں سے جلداز جلد بیت المقدس کوپاک کرے اورانہیں وہاں سے نکالے اوراس میں دیرنہ کرے بلاشبہ اللہ تبارک وتعالی اس پرقادرہے اوروہ دعاکوقبول کرنے والا ہے ، والحمدللہ رب العالین ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 

x boy

محفلین
سوال: میں اردن میں ایک درس میں شامل ہوئی، جس کا عنوان مسجد اقصی اور غلبہ دین کے متعلق تھا، اور درس دینے والی خاتون ہمارے لئے ایسا پانی بھی لیکر آئی تھی جس میں حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ڈبویا گیا تھا، یہ بال فلسطین کے شہر عکا کی ایک مسجد الجزار میں موجود ہے، اس پانی کو شیشے کی بوتل میں محفوظ کیا گیا تھا، پھر انہوں نے اس پانی کو ایک بڑی ٹینکی میں ملا دیا تا کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کی تعداد مستفید ہوسکے، میں نے بھی انکی طرح پانی لے لیا، ، ، سوال یہ ہے کہ کیا اس پانی سے شفا یابی اور برکت کیلئے تبرک حاصل کرنا جائز ہے؟ ہمیں آپ فتوی دیں، اللہ تعالی آپکو ساری بھلائیاں بدلے میں عنائت فرمائے، یاد رہے! پانی ابھی تک میرے پاس موجود ہے، اور میں نے ابھی تک اسے استعمال نہیں کیا۔


جواب:-
الحمد للہ:

سب علماء کے نزدیک متفقہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں یا پسینے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، کیونکہ اس کے بارے میں دلائل موجود ہیں۔

چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرے کو کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی نحر کرنے کے بعد سر منڈوایا تو نائی کی طرف اپنی دائی طرف کی تو اس نے آپکی دائیں طرف سے بال مونڈ دیئے، پھر آپ نے ابو طلحہ انصاری کو بلایا اور اپنے بال انہیں دے دیئے، پھر نائی کی طرف اپنی بائیں جانب کی اور فرمایا: (مونڈ دو) تو اس نے آپکے بال استرے سے اتار دیئے اور آپ نے یہ بال بھی ابو طلحہ کو دیکر فرمایا: (انہیں لوگوں میں تقسیم کردو) مسلم (1305)

اسی طرح انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے "نطع" چمڑے کی ایک شیٹ بچھاتی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پرقیلولہ فرماتے، چنانچہ جب آپ سو جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اور بال ایک شیشی میں جمع کرتیں، اور پھر اُسے ایک "سُک"خوشبو میں ملا دیتی تھی، (ثمامہ بن عبد اللہ بن انس) کہتے ہیں کہ جب انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ میری میت کو لگائی جانے والی خوشبو میں اسے ضرور شامل کرنا، تو آپکو لگائی گئی خوشبو میں اسے ملا دیا گیا۔ بخاری (6281)

"نطع" چمڑے کے بچھونے کو کہتے ہیں۔

"سُک"خوشبو کی ایک قسم ہے جو کستوری وغیرہ ملا کر بنائی جاتی ہے۔

اس حدیث اور دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے جدا ہونے والا بال یا پسینہ وغیرہ میں اللہ تعالی نے برکت ڈال دی ہے، جس سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اسکی وجہ سے دنیا و آخرت میں خیر کی امید کی جاسکتی ہے، جبکہ خیر دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے۔

لیکن موجودہ دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بال یا آپ کے باقیماندہ آثار کی موجودگی کا دعوی بلا دلیل ہوگا، اور عام طور پر اس بارے میں جتنی بھی باتیں ہیں سب فراڈ اور خرافات میں سے ہیں، جیسے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ہے کیونکہ جب اسے دھوپ میں رکھا جائے تو اسکا سایہ نہیں بنتا!! اس قسم کی باتوں پر دھیان بھی نہیں دینا چاہئے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اور ہم جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے، بال، یا دیگر باقیماندہ اشیاء گم ہوچکی ہیں، اور اس وقت ہم میں سے کوئی بھی یقینی اور قطعی طور پر اس قسم کی اشیاء کو ثابت نہیں کرسکتا " ماخوذ از: "التوسل" صفحہ: 147

چنانچہ مذکورہ بالا بیان کے بعد ، جس پانی کے بارے میں پوچھا گیا ہے اس سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ، یہاں تک کہ ہمیں یقین ہوجائے کہ اس پانی میں رکھا جانے والا بال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ہے، اور اس چیز کو ثابت کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، اس لئے فریب کاروں، بدعات کو ترویج دینے والوں، اور دھوکے بازوں سے بچنا ضروری ہے، اسی طرح علم بھی انہی لوگوں سے حاصل کرنا چاہئے جو صحیح منہج کا دفاع کرتے ہیں اور اسی کی ترویج کرتے ہیں، عقلمند آدمی خود ہی سوچے کہ گفتگو نے کیسے غلبہ دین کے موضوع سے رخ موڑ کر لوگوں کو غیر ثابت معاملات کی طرف متوجہ کردیا! حالانکہ درس دینے والی خاتون کو چاہئے تھا کہ لوگوں کو درست منہج کی جانب دعوت دیتیں، اور اس پر کاربند رہنے کی نصیحت کرتیں؛ کیونکہ درست منہج پر رہنا بھی غلبہ دین کے اسباب میں سے ہے۔

اللہ تعالی ہمیں اور آپکو اچھے انداز میں اتباع کرنے کی توفیق دے۔

واللہ اعلم .
 

x boy

محفلین
۲۷ رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب ِ معراج ہے، اور اس شب کو بھی اسی طرح گذارنا چاہیے جس طرح شب قدر گذاری جاتی ہے اور جو فضیلت شبِ قدر کی ہے، کم وبیش شب معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے۔
بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا کہ ”شبِ معراج کی فضیلت شبِ قدر سے بھی زیادہ ہے“ اور پھر اس رات میں لوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کر دئیے کہ اس رات میں اتنی رکعات پڑھی جائیں اور ہر رکعت میں فلاں فلاں سورتیں پڑھی جائیں۔ خدا جانے کیا کیا تفصیلات اس نماز کے بارے میں مشہور ہو گئیں۔ خوب سمجھ لیجئے: یہ سب بے اصل باتیں ہیں ،شریعت میں ان کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ۲۷ رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ کیونکہ اس باب میں مختلف روایتیں ہیں۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے، بعض روایتوں میں رجب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سی رات صحیح معنوں میں معراج کی رات تھی، جس میں آنحضرت ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔
اس سے آپ خود اندازہ کر لیں کہ اگر شب معراج بھی شبِ قدر کی طرح کوئی مخصوص عبادت کی رات ہوتی، اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شبِ قدر کے بارے میں ہیں، تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا؛ لیکن چونکہ شب معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ۲۷ رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں۔
اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ ﷺ ۲۷ رجب کو ہی معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے، جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ مقام ِ قرب عطا فرمایا اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا، اور امت کے لیے نمازوں کا تحفہ بھیجا، تو بے شک وہی ایک رات بڑی فضیلت والی تھی۔ کسی مسلمان کو اس کی فضیلت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی ۲۷ رجب کی شب کو حاصل نہیں۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ (بعض روایات کے مطابق) یہ واقعہ معراج سن ۵ نبوی میں پیش آیا، یعنی حضور ﷺ کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شبِ معراج پیش آئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد ۱۸ سال تک آپ ﷺ نے شبِ معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو، یا اس کو منانے کا حکم دیا ہو، یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو، یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شبِ قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔
نہ تو آپ ﷺ کا ایسا کو ئی ارشاد ثابت ہے، اور نہ آپ ﷺ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خود آپ ﷺ جاگے اور نہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
پھر سرکارِ دو عالم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریباً سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینا میں موجود رہے ، اس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ثابت نہیں ہے، جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ۲۷ رجب کو خاص اہتمام کر کے منایا ہو۔
لہٰذا جو چیز حضورِ اکرم ﷺ نے نہیں کی اور جو چیز آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کی، اس کو دین کا حصہ قرار دینا، یا اس کو سنت قرار دینا، یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں (العیاذ باللہ)حضور ﷺ سے زیادہ جانتا ہوں کہ کونسی رات زیادہ فضیلت والی ہے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ مجھے عبادت کا ذوق ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عمل نہیں کیا تو میں اس کو کروں گا، تو اس کے برابر کوئی احمق نہیں۔ وہ دین کی فہم نہیں رکھتا۔
لہٰذا اس رات میں عبادت کے لیے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے۔ یوں تو ہر رات میں اللہ تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دے دیں وہ بہتر ہی بہتر ہے؛ لہٰذا آج کی رات بھی جاگ لیں، لیکن اس رات میں اور دوسری راتوں میں کوئی فرق اور نمایاں امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔
(اصلاحی خطبات: مفتی محمد تقی عثمانی)
 
سوال: شب معراج کو عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا اور اس رات کی برکتیں احادیث کی روشنی میں ثابت کریں؟
جواب: شب معراج کو اﷲ تعالیٰ کے محبوب سرکار اعظمﷺ سے نسبت ہے اس لئے اس رات اور اس دن کی بڑی فضیلتیں ہیں‘ عبادت و ریاضت ہر رات میں باعث ثواب ہے مگر متبرک اور مقدس راتوں میں عبادات کی فضیلت نہایت مختلف ہے۔
حدیث شریف: حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار اعظمﷺ نے ارشاد فرمایا‘ رجب کی 27 ویں رات میں عبادت کرنے والوں کو سو سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے (احیاء العلوم‘ مصنف: امام غزالی علیہ الرحمہ‘ جلد اول‘ ص 373)

سوال: 27 رجب کے دن روزہ رکھنا کیسا؟
جواب: 27 رجب کو روزہ رکھنے کی بہت فضیلت ہے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے:
روایت: امام بیہقی رضی اﷲ عنہ نے شعب الایمان میں لکھا ہے کہ ماہ رجب میں ایک دن اور ایک رات بہت ہی افضل اور برتر ہے۔ جس نے اس دن روزہ رکھا اور اس رات عبادت کی تو گویا اس نے سو سال کے روزے رکھے اور سو سال تک عبادت کی۔ یہ افضل رات‘ رجب شریف کی 27 ویں شب ہے۔ (بحوالہ: ماثبت من السنہ ص 171)

یہ روایات اگرچہ ضعیف ہیں لیکن ’’فضائل اعمال‘‘ میں ضعیف روایات مقبول ہوتی ہیں (بحوالہ: مرقاۃ اشعۃ للمعات)
معلوم ہوا کہ شب معراج کی فضیلت بہت زیادہ ہے لہذا اس رات کو عبادت میں گزارنی چاہئے عوام بہکانے والوں کی باتوں پر کان نہ دھریں۔
حدیث: بیہقی شعب الایمان اور دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے مرفوعاً روایت کی: رجب میں ایک دن اور رات ہے جو اس دن کا روزہ رکھے اور وہ رات نوافل میںگزارے‘ سو برس کے روزوں اور سو برس کی شب بیداری کے برابر ہو اور وہ 27 رجب ہے اسی تاریخ اﷲ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا (الفردوس بما ثور الخطاب حدیث 4381‘ دارالکتب العلمیہ بیروت 142/3‘ فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
حدیث: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ 27 رجب کو مجھے نبوت سرفراز فرمایا۔جو اس دن کا روزہ رکھے اور افطار کے وقت دعا کرے‘ دس برس کے گناہوں کا کفارہ ہو (تنزیہ الشریعہ بحوالہ فوائد ہناد کتاب الصوم حدیث 41‘ دارالکتب العلمیہ‘ بیروت ‘ 161/3‘ فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)


ضعیف حدیث باب احکام( اور فضائل اعمال )میں
جہاں تک احکامِ شرعیہ میں ضعیف حدیث کے استعمال کا تعلق ہے تو جمہور محدثین وفقہاء کے طرز عمل سے صاف ظاہر ہے کہ ضعیف سے حکم شرعی پر استدلال کیا جاسکتا ہے ،جبکہ ضعف شدید نہ ہو یعنی سند میں کوئی متہم یا کذاب راوی نہ ہو، ضعیف حدیث سے استدلال کی چند صورتیں ہیں۔
پہلی صورت
مسئلہ میں اس کے علاوہ کوئی مضبوط دلیل نہ ہو، مختلف مکاتب فکر کے تعلق سے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
الف :۔ حنفیہ
امام ابوحنیفہکا ارشاد ہے:
الخبر الضعیف عن رسول اللہ ا اولیٰ من القیاس، ولایحل القیاس مع وجودہ۔
(المحلیٰ لابن حزم ۳/۱۶۱)
یعنی باب میں اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو قیاس نہ کرکے اس سے استدلال کیا جائے گا۔ چنانچہ:
۱-نماز میں قہقہہ سے نقض وضو والی حدیث بااتفاق محدثین ضعیف ہے۔ آپ نے اس کو قیاس پر مقدم کیا۔
۲- اکثر الحیض عشرة ایامیہ حدیث بااتفاق محدثین ضعیف ہے، حنفیہ نے اس کو قیاس پر مقدم کیا۔
۳- لامہر اقل من عشرة دراہم اس کے ضعف پر محدثین متفق ہیں اور حنفیہ نے قیاس نہ کرکے اس کو معمول بہ بنایا۔
(اعلام الموقعین ۱/۳۱،۳۲)—
۲-محقق ابن الہامفرماتے ہیں: الاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع ضعیف جو موضوع کی حد تک نہ پہنچی ہوئی ہو، اس سے استحباب ثابت ہوتا ہے۔
(فتح القدیر باب النوفل ۲/۱۳۹)
مثلاً :۱ :۔حاشیة الطحطاوی علی المراتی وغیرہ میں مغرب کے بعد چھ رکعات (جنہیں صلاة الاوابین کہتے ہیں) کو مستحب لکھا ہے ،دلیل حضرت ابوہریرہ کی حدیث:
من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینہن بسوء عدلن لہ بعبادة ثنتی عشرة سنة
امام ترمذی نے اس حدیث کو عمر بن ابی خثعم کے طریق سے روایت کرکے فرمایا:
حدیث ابی ہریرة حدیث غریب لانعرفہ الا من حدیث زید بن الحباب عن عمر بن ابی خثعم۔
امام بخارینے عمر کو منکر الحدیث کہا اور بہت ضعیف قرار دیا، حافظ ذہبینے میزان میں فرمایا:
لہ حدیث منکر ان من صلی بعد المغرب ست رکعات ووہّاہ ابو زرعہ۔
۲:۔ مردہ کو دفن کرتے وقت تین لپ مٹی ڈالنا، پہلی بار منہا خلقناکم دوسری بار فیہا نعیدکم اور تیسری بار ومنہا نخرجکم تارة اخریٰپڑھنے کو(طحطاوی ص:۶۱۰) میں مستحب لکھا ہے، دلیل حاکم واحمد کی حدیث بروایت ابو امامہکہ جب حضرت ام کلثومبنت النبیﷺاکو قبر میں رکھا گیا تو رسول اللہﷺ نے پڑھا:
منہا خلقناکم الخ آخر میں بسم اللّٰہ، وفی سبیل اللّٰہ، وعلی ملة رسول اللّٰہ
کی زیادتی ہے، اس حدیث کی سند بہت ہی ضعیف ہے، ذہبینے تلخیص میں کہا ہے
وہو خبر واہ لان علی بن زید متروک۔
ب:۔ مالکیہ
امام مالککے نزدیک مرسل بمعنی عام منقطع حجت ہے، جو جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ،مالکیہ کی معتمد ترین کتاب نشر النبود علی مراقی السعود میں ہے:،
،علم من احتجاج مالک بالمرسل ان کلاً من المنقطع والمعضل حجة عندہم لصدق المرسل بالمعنی الاصولی علی کل منہا
(۲/۶۳ کما فی التعریف باوہام من قسم السنن الی صحیح وضعیف للدکتور محمود سعید ممدوح)
ج:۔ شافعیہ
۱-مرسل حدیث امام شافعیکے نزدیک ضعیف ہے، لیکن اگر باب میں صرف مرسل ہی ہو تو وہ اس سے احتجاج کرتے ہیں، حافظ سخاوینے ماوردی کے حوالہ سے یہ بات فتح المغیث میں نقل کی ہے۔ (۱/۲۷۰)
۲-حافظ ابن قیمنے نقل کیا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک ضعیف حدیث قیاس پر مقدم ہے۔ چنانچہ انہوں نے صیدؤج(طائفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے ، شوافع کے نزدیک وہاں شکار کرنا منع ہے)۔ کی حدیث کو ضعیف کے باوجود قیاس پر مقدم کیا۔ حرم مکی کے اندر اوقات مکروہہ میں نماز پڑھنے کے جواز والی حدیث کو ضعیف کے باوجود قیاس پر مقدم کیا۔
من قاء اورعف: فلیتوضأ، ولیبن علی صلاتہ
کو اپنے ایک قول کے مطابق باوجود ضعف کے قیاس پر ترجیح دی۔
(اعلام الموقعین ۱/۳۲)
د:۔حنابلہ
۱-ابن النجار حنبلی نے شرح الکوکب المنیر ۲/۵۷۳ میں امام احمد کایہ قول نقل کیا ہے:
لست اخالف ما ضعف من الحدیث اذا لم یکن فی الباب ما یدفعہ
یعنی باب میں ضعیف حدیث ،ہواور اس کے معارض کوئی دلیل نہ ہو تو میں اس کو چھوڑ تا نہیں ہوں۔
۲-حافظ ہروی نے ذم الکلام میں امام عبد اللہ بن احمد سے نقل کیا ہے کہ :میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ ایک شخص کو مسئلہ درپیش ہے، اور شہر میں ایک محدث ہے جو ضعیف ہے (ایک روایت میں، جو صحیح وسقیم میں تمیز نہیں کرپاتا) اور ایک فقیہ ہے جو اہل رائے وقیاس میں سے ہے، وہ کس سے مسئلہ پوچھے؟ فرمایا: اہل رائے سے تو پوچھے نہیں، کیونکہ ضعیف الحدیث ،قوی الرأے سے بہتر ہے۔
(ذم الکلام ۲/۱۷۹، ۱۸۰)
۳-فقہ حنبلی کی مستند ترین کتاب المغنی میں ابن قدامہنے لکھا کہ:
النوافل الفضائل لایشترط صحة الحدیث فیہا
نیز امام کے خطبہ کے دوران حاضرین کے احتباء (اس طرح بیٹھنا کہ سرین زمین پر ہو، دونوں گھٹنے کھڑے ہوں اور دونوں بازؤں یا کسی کپڑے وغیرہ سے انہیں باندھ لیا جائے) کی بابت لکھا کہ کوئی حرج نہیں،کیونکہ چند ایک صحابہ سے مروی ہے، لیکن بہتر نہ کرنا ہے، کیونکہ حضورﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے امام کے خطبہ کے دوران حبوة سے منع فرمایا ہے، اس لئے اگرچہ حدیث ضعیف ہے ،افضل حبوة کا ترک ہی ہے۔
(المغنی ۲/۸۸،۲۰۶)
ھ:۔ فقہاء محدثین
۱-حافظ ذہبیؒ نے امام اوزاعی کے متعلق لکھا کہ: وہ مقطوعات اور اہل شام کے مراسیل سے استدلال کرتے تھے۔
(سیر اعلام النبلاء ۷/۱۱۴)
۲-امام ابوداودکے متعلق حافظ ابن مندہ نے کہا:
ویخرج الاسناد الضعیف اذا لم یجد فی الباب غیرہ لانہ اقوی عندہ من رأی الرجال
یعنی امام ابوداودکا مذہب ہے کہ جب کسی باب میں انہیں ضعیف حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں ملتی تو اسی کا اخراج کر لیتے ہیں، کیونکہ ضعیف حدیث ان کے نزدیک قیاس سے قوی تر ہے۔
و:۔ ظاہریہ
ابومحمد ابن حزم ظاہری جن کا تشدد مشہور ہے، محلی ۳/۶۱ میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھنے سے متعلق حدیث بروایت حسن بن علیلائے، اور اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ: یہ حدیث اگرچہ اس لائق نہیں کہ اس سے استدلال کیا جائے، لیکن چونکہ رسول اللہﷺ سے اس سلسلہ میں اور کوئی حدیث ہمیں نہیں ملی ،اس لئے ہم اسے اختیار کرتے ہیں۔
دوسری صورت
اگر ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں احتیاط ہو تو اس کو تمام حضرات اختیار کرتے ہیں، چنانچہ امام نووینے اذکار میں عمل بالضعیف کی استثنائی صورتوں کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
الا ان یکون فی احتیاط فی شئ من ذلک کما اذا ورد حدیث ضعیف بکراہة بعض البیوع والانکحة، فالمستحب ان یستزہ عنہ
اس کی شرح میں ابن علان نے مثال دی کہ جیسے فقہاء کرام نے دھوپ سے گرم کئے ہوئے پانی کے استعمال کو مکروہ لکھا ہے، حدیث حضرت عائشہکی بناء پر جو ضعیف ہے۔
(شرح الاذکار ۱/۶۸، ۷۸- کما فی التعریف باوہام الخ)
تیسری صورت
اگر کسی آیت یا صحیح حدیث میں دو یا دو سے زائد معنوں کا احتمال ہو اور کوئی ضعیف حدیث ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو راجح قرار دیتی ہو، یا دو یا چند حدیثیں متعارض ہوں اور کوئی حدیث ضعیف ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دیتی ہو تو علماء امت اس موقع پر ضعیف حدیث کی مدد سے ترجیح کا کام انجام دیتے ہیں۔
کچھ اور صورتیں
اس کے علاوہ کسی ثابت شدہ حکم کی مصلحت وفائدہ معلوم کرنے کے سلسلہ میں بھی ضعیف کا سہارا لیا جاتا ہے، نیز حدیث ضعیف اگر متلقی بالقبول ہوجائے اور اس کے مطابق فقہاء یا عام امت کا عمل ہوجائے تو ضعیف، ضعیف ہی نہیں رہتی اور اس کے ذریعہ وجوب اور سنیت تک کا ثبوت ہوتا ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے : اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الائمة الفقہاء للشیخ محمد عوامة اور الاجوبة الفاضلة کے آخر میں شیخ حسین بن محسن کا مقالہ۔
سید احمد بن الصدیق الغماری المالکی رحمہ اللہ کی اس چشم کشا عبارت کے ترجمہ پر اس کڑی کو یہیں ختم کیا جارہا ہے فرماتے ہیں:
احکام شرعیہ میں ضعیف سے استدلال کوئی مالکیہ ہی کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ تمام ائمہ استدلال کرتے ہیں ، اس لئے یہ جو مشہور ہے کہ احکام کے باب میں ضعیف پر عمل نہیں کیا جائے گا۔اپنے عموم واطلاق پر نہیں ہے، جیساکہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں، کیونکہ ہر مسلک کی ان احادیث احکام کا آپ جائزہ لیں ،جن سے سب نے یا بعض نے استدلال کیا ہے تو آپ کومجموعی طور سے ضعیف حدیثوں کی مقدار نصف یا اس سے بھی زائد ملے گی، ان میں ایک تعداد منکر، ساقط، اور قریب بموضوع کی بھی ملے گی، البتہ بعض کے متعلق وہ کہتے ہیں اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے بعض کے متعلق اس کے مضمون پر اجماع منعقد ہے بعض کے متعلق یہ قیاس کے موافق ہے مگر ان سب کے علاوہ ایسی بہت سی حدیثیں بچیں گی جن سے ان کی تمام ترعلتوں کے باوجود استدلال کیا گیا ہے اور یہ قاعدہ کہ احکام میں ضعیف حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے، کیونکہ شارع علیہ السلام سے جو کچھ منقول ہے ،اگرچہ اس کی سند ضعیف ہو ،اسے چھوڑ کر دوسری دلیل اختیار نہیں کی جاسکتی، اور ضعیف کے متعلق یہ قطعی نہیں کہاجا سکتا کہ یہ آں حضرت ﷺ سے ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ موضوع نہ ہو، یا اس سے قوی اصل شرعی سے معارض نہ، لہذا اقوی دلیل کی عدم موجودگی میں ضعیف سے استدلال کو ہمیں برا سمجھنے کی بجائے اولیٰ بلکہ واجب کہنا چاہئے، ہاں یہ بات ضرور بری ہے کہ اس کے تئیں یہ رویہ اپنائیں کہ پسندیدگی اور اپنے مذہب کے موافق ہونے کے وقت تو اس پر عمل کریں اور ناپسندیدگی یا اپنے مذہب کے خلاف ہونے پر ضعیف کہہ کرردکردیں انتہی۔
(المثنونی والتبار: ۱/۱۸۰، ۱۸۱ کما فی التعریف)
جاسمن
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
سوال:-
میں مسلمان ہونے کے ناطے مسلسل یہ سنتارہا ہوں کہ قدس شہر ہمارے لیے بہت ہی اہم ہے لیکن اس کا سبب کیا ہے ؟

بیت المقدس کی اھمیت :
اللہ تعالی آپ پررحم فرمائے آپ کے علم میں ہونا چاہيئے کہ بیت المقدس کے فضائل بہت زيادہ ہیں جس کےبارہ میں آیات و احادیث بہت ہیں :
سب علماء کے نزدیک متفقہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں یا پسینے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، کیونکہ اس کے بارے میں دلائل موجود ہیں۔
.

اوپر والے بیانات سے تو یہ سمجھ میں آیا تھا کہ اچھی چیز کی نسبت سے چیزیں متبرک ہو جاتی ہیں جیسے کہ

شہروں میں سے قدس شہر کو بیت المقدس سے نسبت ہوئی تو وہ متبرک قرار دیا گیا ہے۔
بالوں میں سے آقا علیہ الصلاۃ والسلام سے نسبت والے بال کو بھی متبرک قرار دیا گیا۔
پسینوں میں سے جو پسینہ حضور کے وجود مبارک سے خارج ہوا وہ بھی معطر و متبرک ہو گیا۔
تو
راتوں میں سے شب معراج سے نسبت رکھنے والی رات متبرک کیوں نہ بن سکی؟ :rolleyes:
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
کے مجموعہ کلام بال جبریل کی غزل

دل سوز سے خالی ہے ، نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے


ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل! تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے


وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے ، نم ناک نہیں ہے


کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی
ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے



کب تک رہے محکومی انجم میں مری خاک
یا میں نہیں ، یا گردش افلاک نہیں ہے



بجلی ہوں ، نظر کوہ و بیاباں پہ ہے مری
میرے لیے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے



عالم ہے فقط مومن جاں باز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے!
https://www.facebook.com/Nukta313/p...9011/786597698017995/?type=1&relevant_count=1
 

x boy

محفلین
WAY TOPARADISE
ﺭﺍﮦ ﺟﻨﺖ :
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ) ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ( ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ) ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ) ﺳﯿﺪﮬﺎ ( ﺧﻂ ﮐﮭﯿﻨﭽﺎ ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ’’ ﯾﮧ ﺭﺍﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﮨﮯ ‘‘ ۔ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ) ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻧﮯ ) ﺳﯿﺪﮬﮯ ( ﺧﻂ ﮐﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﭼﻨﺪ ) ﺗﺮﭼﮭﮯ ( ﺧﻂ ﮐﮭﯿﻨﭽﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ’’ ﯾﮧ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺭﺍﮦ ﭘﺮ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭘﮑﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺭﺍﮦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ‘‘ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ) ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﭘﮍﮬﯽ : ﻭَﺃَﻥَّ ﮬَٰﺬَﺍ ﺻِﺮَٰﻃِﯽ ﻣُﺴْﺘَﻘِﯿﻤﺎً ﻓَﺎﺗَّﺒِﻌُﻮﮦُ ﻭَﻟَﺎ ﺗَﺘَّﺒِﻌُﻮﺍْ ﺍﻟﺴُّﺒُﻞَ ﻓَﺘَﻔَﺮَّﻕَ ﺑِﮑُﻢْ ﻋَﻦ ﺳَﺒِﯿﻠِﮧِ ﺫَٰﻟِﮑُﻢْ ﻭَﺻَّٰﮑُﻢ ﺑِﮧِ ﻟَﻌَﻠَّﮑُﻢْ ﺗَﺘَّﻘُﻮﻥَ ) ﺍﻻﻧﻌﺎﻡ : ۱۵۳ ( ’’ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﭘﺲ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﻭ ﺍﺱ ﮐﯽ ‘‘ ) ﺍﺣﻤﺪ، ﻧﺴﺎﺋﯽ، ﺩﺍﺭﻣﯽ، ﻣﺴﺘﺪﺭﮎ ﺣﺎﮐﻢ ﻭ ﺻﺤﺤﮧ ﻭ ﺣﺴﻨﮧ ﺍﻻﻟﺒﺎﻧﯽ ﻓﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺍﻟﻤﺸﮑﺎۃ ۱؍۵۹ (
ﻧﻘﺸﮧ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ :
ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ) ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻧﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﯽ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﻟﮑﯿﺮ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻗﺮﺁﻥِ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ : ﻣَﻦْ ﯾُّﻄِﻊِ ﺍﻟﺮَّﺳُﻮﻝَ ﻓَﻘَﺪْ ﺍَﻃَﺎﻉَ ﺍﻟﻠّٰﮧ ’’ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮨﮯ ‘‘ ۔ ) ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ : ۸۰ (
ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﮐﺮﯾﻤﮧ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺸﺎﻑ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ) ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﻘﺶ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﺎ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ) ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﮐﮯ ﻗﻮﻝ ﻭ ﻓﻌﻞ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﺗﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺭﺍﮦِ ﻋﻤﻞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻧﻤﻮﻧۂ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﻣﻈﮩﺮ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﺭﺍﮦِ ﺟﻨﺖ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮨﯽ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔
ﺑﺮﺍﺩﺭﺍﻥ ﻣﻠﺖ ! ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﻘﺼﺪِ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ، ﭼﻮﻧﮑﮧ ﮮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﮩﻠﺖ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻨﺎﺯﻝ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻃﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ ﮨﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺁﺧﺮﯼ ﻣﻨﺰﻝ ﺟﻨﺖ ﮨﮯ۔
ﻣﺴﻠﮏ ﺳﻨﺖ ﭘﮧ ﺍﮮ ﺳﺎ ﻟﮏ ﭼﻼﺟﺎ ﺑﮯ ﺩﮬﮍﮎ ﺟﻨﺖ ﺍﻟﻔﺮﺩﻭﺱ ﮐﻮ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺳﮍﮎ

CONCEPT OFTHE SAVED SECT:

It was reported from ‘Awf ibnMaalik who said: the Messengerof Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “The Jews were divided into seventy-onesects, one of which is in Paradise and seventyare in the fire. The Christians were divided into seventy-two sects, seventy-one of which are in the Fire and one is in Paradise. By the One in Whose hand is the soul of Muhammad, my Ummah will be divided into seventy-three sects, one of which will be in Paradise and seventy-two will be in the Fire.” It was said, O Messengerof Allaah, who are they? Hesaid, “Al-Jamaa’ah.”
Sunan Ibn Maajah, no. 3982.

Ibn Mas’ood (ra)said, “Allaah’s Messenger (Salallaahu Alaihiwasallam) drew a line for us and then said, “This is Allaah’s Path.” Then he drew lines to its right & left and said, “These are different paths upon each of them is a SHAYTAAN calling to it.”
Then here cited the verse:"And verily, this (i.e. Allâh's Commandments) is my Straight Path, so follow it, and follow not (other)paths, for they will separate you away from His Path. This Hehas ordained for you that you may becomeAl-Muttaqûn (the pious).

"{ Al-An'âm (6):153}.> Ahmad (1/435) > Al-Haakim (2/318)
10390534_1435751956677306_3801216385279564885_n.jpg
 

x boy

محفلین
سُوۡرَةُ مَریَم
وَٱذۡكُرۡ فِى ٱلۡكِتَ۔ٰبِ إِبۡرَٲهِيمَ‌ۚ إِنَّهُ ۥ كَانَ صِدِّيقً۬ا نَّبِيًّا (٤١) إِذۡ قَالَ لِأَبِيهِ يَ۔ٰٓأَبَتِ لِمَ تَعۡبُدُ مَا لَا يَسۡمَعُ وَلَا يُبۡصِرُ وَلَا يُغۡنِى عَنكَ شَيۡ۔ًٔ۬ا (٤٢) يَ۔ٰٓأَبَتِ إِنِّى قَدۡ جَآءَنِى مِنَ ٱلۡعِلۡمِ مَا لَمۡ يَأۡتِكَ فَٱتَّبِعۡنِىٓ أَهۡدِكَ صِرَٲطً۬ا سَوِيًّ۬ا (٤٣) يَ۔ٰٓأَبَتِ لَا تَعۡبُدِ ٱلشَّيۡطَ۔ٰنَ‌ۖ إِنَّ ٱلشَّيۡطَ۔ٰنَ كَانَ لِلرَّحۡمَ۔ٰنِ عَصِيًّ۬ا (٤٤) يَ۔ٰٓأَبَتِ إِنِّىٓ أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ۬ مِّنَ ٱلرَّحۡمَ۔ٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيۡطَ۔ٰنِ وَلِيًّ۬ا (٤٥) قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنۡ ءَالِهَتِى يَ۔ٰٓإِبۡرَٲهِيمُ‌ۖ لَٮِٕن لَّمۡ تَنتَهِ لَأَرۡجُمَنَّكَ‌ۖ وَٱهۡجُرۡنِى مَلِيًّ۬ا (٤٦) قَالَ سَلَ۔ٰمٌ عَلَيۡكَ‌ۖ سَأَسۡتَغۡفِرُ لَكَ رَبِّىٓ‌ۖ إِنَّهُ ۥ كَانَ بِى حَفِيًّ۬ا (٤٧) وَأَعۡتَزِلُكُمۡ وَمَا تَدۡعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَأَدۡعُواْ رَبِّى عَسَىٰٓ أَلَّآ أَكُونَ بِدُعَآءِ رَبِّى شَقِيًّ۬ا (٤٨) فَلَمَّا ٱعۡتَزَلَهُمۡ وَمَا يَعۡبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَهَبۡنَا لَهُ ۥۤ إِسۡحَ۔ٰقَ وَيَعۡقُوبَ‌ۖ وَكُلاًّ۬ جَعَلۡنَا نَبِيًّ۬ا (٤٩) وَوَهَبۡنَا لَهُم مِّن رَّحۡمَتِنَا وَجَعَلۡنَا لَهُمۡ لِسَانَ صِدۡقٍ عَلِيًّ۬ا (٥٠)

سورة مَریَم
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو۔ بےشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے (۴۱) جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابّا آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں (۴۲) ابّا مجھے ایسا علم ملا ہے جو آپ کو نہیں ملا ہے تو میرے ساتھ ہوجیئے میں آپ کو سیدھی راہ پر چلا دوں گا (۴۳) ابّا شیطان کی پرستش نہ کیجیئے۔ بےشک شیطان خدا کا نافرمان ہے (۴۴) ابّا مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو خدا کا عذاب آپکڑے تو آپ شیطان کے ساتھی ہوجائیں (۴۵) اس نے کہا ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے؟ اگر تو باز نہ آئے گا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا (۴۶) ابراہیم نے سلام علیک کہا (اور کہا کہ) میں آپ کے لئے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا۔ بےشک وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے (۴۷) اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ خدا کے سوا پکارا کرتے ہیں ان سے کنارہ کرتا ہوں اور اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا۔ امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا (۴۸) اور جب ابراہیم ان لوگوں سے اور جن کی وہ خدا کے سوا پرستش کرتے تھے اُن سے الگ ہوگئے تو ہم نے ان کو اسحاق اور (اسحاق کو) یعقوب بخشے۔ اور سب کو پیغمبر بنایا (۴۹) اور ان کو اپنی رحمت سے (بہت سی چیزیں) عنایت کیں۔ اور ان کا ذکر جمیل بلند کیا (۵۰)

10364189_829706550374955_5429546862406827716_n.jpg
 

x boy

محفلین
بدل کر فقیروں کا ھم بھیس غالب !

تماشہِ اھل کرم دیکھتے ھیں !

دنیاوی مصائب کو عام طور پہ ملحدین اللہ پاک کی عدم موجودگی کی دلیل کے طور پہ استعمال کرتے ھیں ! کاش کہ وہ اللہ کے کلام کو اس طرح پڑھیں جس طرح ایک مخلوق کو اپنے خالق کا کلام پڑھنا چاھئے ، انسان ھی قرآن کا موضوع ھے ، انسان کی مختلف نفسیاتی اور سماجی کمزوریاں اس میں بیان کی گئ ھیں، ان سے بچنے کے طریقے بتائے گئے ھیں ،، گویا یہ انسان کا Manual ھے ،جو انسان کے گرد ھی گھومتا ھے !

سب سے پہلے انسان کا مقصد تخلیق ھے !

اور وہ امتحان ھے ! یعنی بلونا " و بلوناکم بالحسنات والسئیاتِ ،، و نبلوکم بالشرِ والخیر فتنہ و الینا ترجعون ،، الذی خلق الموت والحیاۃَ لیبلوکم ایکم احسن عملاً !
یہ بلونا اردو میں بھی بالکل انہی معنوں میں استعمال ھوتا ھے جب دودھ کو بلویا جاتا ھے تو ،، اس میں مدھانی ڈالی جاتی ھے ،، اب مدھانی دودھ کو پھینٹا لگاتی ھے ، پیار نہیں کرتی ، پیار کرے تو مکھن نہیں نکلتا ،، گلنی یا ڈولا ،، سماج ھے جس کے ساتھ دودھ پٹخا جاتا ھے ،،

ھم میں سے ھر شخص دوسرے کی جنت یا دوزخ ھے ،،میں کسی کی وجہ سے یا تو جنت میں جاؤں گا یا جہنم میں اور کوئی میرے ذریعے جنت میں جائے گا یا دوزخ میں ،، ھم ایک دوسرے کے لئے فتنہ اور امتحان ھیں،، اور سب سے سخت امتحان رشتے دار ھوتے ھیں !

اللہ پاک نے کچھ بھی چھپا کر نہیں رکھا ،، کھول کھول سنایا ھے تو اسے کتاب مبین یعنی " کھلا خط " قرار دیا ھے ،،یہ پوری انسانیت کے نام اللہ کا کھلا خط ھے ،، و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ( النحل ) اور ھم نے آپ پر یہ ذکر نازل کیا ھے تا کہ آپ انسانیت کو کھول کھول کر بتائیں کہ ان کی طرف کیا نازل کیا گیا ھے !

جو شخص مصائب میں گرفتار کیا گیا ھے ،، اسے بتا دیا گیا ھے کہ ھم تمہارے ذریعے امتحان لے رھے ھیں ،جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ جنت کے باسی بنیں گے تو بہت سارے جہنم کا ایندھن بنیں گے ،،جب تک یہ امتحان جاری ھے تمہیں صبر کرنا ھو گا اور تمہارا رب تم پر نظر رکھے ھوئے ھے !

و جعلنا بعضکم لبعضٍ فتنہ ،، اَتصبرون؟ و کان ربک بصیراً ( الفرقان 20 ) اور ھم نے تم ( انسانوں کو ھی ) ایک دوسرے کی آزمائش بنایا ھے ( تو یہ راز معلوم ھو جانے کے بعد ) کیا تم صبر کرو گے ؟ اور تمہارا رب تم پہ مسلسل نظر رکھے ھوئے ھے !

بعض لوگوں کی دعائیں اللہ پاک نے کوٹ کی ھیں کہ " ربنا لا تجعلنا فتنۃً للقوم الظالمین - ائے اللہ ھمیں ظالم لوگوں کے لئے آزمائش ( تختہ مشق ) نہ بنا ،،

مگر حقیقت یہ ھے کہ اللہ پاک ایسے لوگوں کو صبر بھی دیتا ھے جن کو مصیبت میں مبتلا کرتا ھے ،،لوگ گلہ کرتے ھیں وہ شکر شکر کرتے ھیں ،، موسی علیہ السلام کی ماں کے ھاتھ سے بیٹا سمندر میں ڈلوانے سے پہلے ، اس کے دل پہ ھاتھ رکھا ،، صبر کی گرہ لگا دی ،،

ھمیں اپنے دائیں بائیں نظر رکھنی چاھئے ،،جس کی مصیبت معلوم ھو اس کی دادرسی کی سبیل کرنی چاھئے ، اس وقت اللہ اس کے پاس ھوتا ھے ، انا عند منکسرۃ القلوب ،،میں ٹوٹے ھوئے دل والوں کے پاس ھوتا ھوں ،، متکبروں کے پاس نہیں !

اس کے دو فائدے ھوتے ھیں ،، اس کے صدقے میں اللہ پاک آپ کی ذات اور آپ کے متعلقین یعنی ازواج و اولاد سے ایسی مصیبت کو ھٹا دیتے ھیں ،، اور وہ کبھی ایسی مصیبت سے دو چار نہیں ھوتے ،،یہ نقد فائدہ ھے ،، دوسرا اس مصیبت زدہ کی دعائیں وہ خزانہ ھیں جن کی کٹوتی کبھی آپ کے اعمال سے نہیں کی جائے گی ،، اور وہ لا محالہ تولی جائیں گی اور حشر میں جتنے چالان آپ کے ذمے نکلیں گے ،، ان کے تناسب سے اللہ ان کا ریٹ لگا کر سارے چالان بھگتا دے گا ،، بقیہ اعمال کی جزاء مقرر ھے ،، عبادات کی جزاء یعنی ریٹ مقرر ھے ،،دعا کا کوئی ریٹ مقرر نہیں وہ جس خلوص سے اور جتنے بڑے مصیبت زدہ بندے کے منہ سے نکلتی ھے ،، جتنا اللہ پاک کو اپیل کرتی ھے اللہ پاک اس کا ریٹ اپنی مرضی سے لگاتے ھیں !
 

x boy

محفلین
عراق کے موصل شہر کی جامع الکبیر مسجد سے جمعہ کے خطبہ اور نماز کی خصوصی نشریات۶ رمضان ۱۴۳۵
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہے ہم اس کا شکر بجالاتے ہے اور اس کے پاس معافی طلب کرتے ہے اور ہم اللہ سے پناہ طلب کرتے ہے نفس کے تمام شرور سے اور برے اعمال سے
جس کو اللہ ہدایت دیں اس کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جس کو اللہ گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دے نہیں سکتا
اور میں گوائی دیتا ہوں کہ اللہ سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہے
صلی اللہ تعالی علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم تسلیما کثیرا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّ۔هَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ...(آل عمران ..102)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّ۔هَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّ۔هَ وَرَ‌سُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ..(الاحزاب...70..71)
اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی
بلاشبہ سب سے زیادہ سچی بات اللہ کی بات ہے اور سب سے زیادہ بہترین راستہ محمدﷺ کا راستہ ہے اور بدترین امور دین میں نئی چیز کا گڑھنا اور گڑھی ہوئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ(البقرۃ:183.184)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی چند مقرر دنوں کے روزے ہیں
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے
شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْ‌قَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ‌ فَلْيَصُمْهُ ﴿ البقرۃ-185﴾
رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اُس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے
اے مسلمانوں! بے شک رمضان کو پانا ایک عظیم نعمت ہے،اور اللہ کی طرف سے ایک بڑا فضل ہے اس مہینے کا ابتدائی حصہ رحمت ہے درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم سے نجات ہے
ایک ایسا مہینہ جس میں اگر کوئی ایمان اور اجر کی نیت سے روزہ رکھےاس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہے
اور جو کوئی ایمان کی حالت میں اجر کی امید سے قیام کرتا ہے اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہے
ایسا مہینہ جب یہ مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کئیے جاتے ہے اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے
ایسا مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس سے محروم رہا وہ ساری بھلائی سے محروم رہا
لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‌ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَ‌بِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ‌ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ‌ ..(القدر ...3،،،5)
شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے اترتے ہیں وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک
ایسا مہینہ جس میں اللہ کی طرف سے اس کے بندے آزاد کردئیے جاتے ہے جہنم سے آزاد
ایسا مہینہ جس میں جہاد کے بازار لگائے جاتے ہے
اللہ کے نبیﷺ اس مہینہ میں جھنڈے تیار کرتے تھے اور لشکروں کو تیار کرتے تھے اللہ کے دشمنوں کے خلاف لڑنے کے لئے اور مشرکین سے جہاد کرنے کے لئے تو اللہ کے بندو اس مبارک مہینے کو غنیمت جانو اللہ کی عبادت کے لئے اور اللہ کی اطاعت کے لئے اور اس میں اجر میں اضافہ کر دیا جاتا ہے
وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ ﴿المطففین-26)
"وہ اِس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں"
اے مسلمانوں! بے شک اللہ تبارک وتعالی نے ہمیں پیدا کیا اپنی توحید کے لئے اپنی عبادت کے لئے اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لئے
اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿ الذاریات56-﴾
"میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اِس لیےپیدا کیا کہ وہ میری بندگی کریں"
اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس کے دشمنوں سے لڑیں اور اس کے راستے میں جہاد کریں تاکہ اس مقصد کو پورا کرسکیں یعنی اقامت دین کے لئے
اللہ تعالی کا فرمان ہے
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْ‌هٌ لَّكُمْ(البقرۃ 216)
"تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے"
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّ۔هِ(الانفال-39)
"اے ایمان لانے والو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے"
اے لوگو! بے شک اللہ تبارک وتعالی کا دین قائم نہیں ہو سکتا اور وہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا جس کے لئے اس نے ہمیں پیدا کیا اللہ کی شریعت کو نافذ کئے بغیر اور اس کے مطابق فیصلہ کئے بغیراور حدود کو قائم کئے بغیر اور یہ طاقت اور اقتدار کے بغیر نہیں ہو سکتا
قَدْ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّ۔هُ مَن يَنصُرُ‌هُ وَرُ‌سُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّ۔هَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ ..(الحدید..25)
"ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اُس کو دیکھے بغیر اس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے یقیناً اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے"
یہ دین کا اصول ہے کتاب یھدی وسیف ینصر(کتاب رہنمائی کرتی ہے اور تلوار مدد کرتی ہے
بے شک تمہارے مجاہدین بھائیوں پر اللہ تعالی نے احسان فرماکر فتح و نصرت سے نوازا اور انہیں اللہ نے اقتدار عطا کیا بڑے لمبے عرصے تک صبر و جہاد کے بعد اور اللہ کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کے بعد اور ان کو اللہ نے اقتداد عطا کیا اور اس بات کی توفیق دی کہ وہ اپنے پیدائش کے مقصد کو پوارا کریں پھر انہوں نے آگے بڑھ کر خلافت اور خلیفہ کو نامزد کرنے کا اعلان کیا
اور یہ مسلمانوں پر واجب تھا،یہ واجب جو صدیوں سے چھوٹا ہوا تھا اور روئے زمین پر اسکا کوئی وجود نہیں تھا اور مسلمانوں میں سے اکثر اس سے ناواقف تھے اور وہ لوگ جو اس کو چھوڑنے اور اس سے غافل ہونے سے گناہ میں مبتلا تھے ان کو چاھیئے کہ وہ ہمیشہ اس کو قائم کرنے کی کوشش کریں اور انہوں نے اللہ کے فضل و احسان سے قائم کیا
بے شک مجھے اس عظیم معاملہ سے ایک بہت ہی بڑی آزمائش میں مبتلا کردیا گیا ہے اور مجھے اس امانت کے ذریعے آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے ایک بہت بھاری امانت مجھے تم پر امیر مقرر کیا گیا ہے
میں تم میں سب سے بہتر اور افضل نہیں ہوں اگر تم مجھے حق پر دیکھو تو میری اعانت کرو اور اگر تم مجھے غلطی پر دیکھو تو مجھے نصیحت کرو اور مجھے سیدھا کردو میری اطاعت کرو جب تک میں تمہارے معاملے میں اللہ کی اطاعت کروں اگر میں اللہ کی معصیت کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت نہیں ہے
اور میں تم سے وعدہ نہیں کروں گا جس طرح بادشاہ اور حکمراں اپنی رعایا اور شہریوں سے کرتے ہے، آسائشوں اور خوشحالی، رفاعی کاموں،امن اور دولت کا وعدہ
لیکن میں تم سے وعدہ کرتا ہوں جس طرح اللہ نے اپنے مومنین بندوں سے وعدہ کیا ہے
وَعَدَ اللَّ۔هُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْ‌تَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ‌ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ..(النور..55)
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (ال عمران..139)
دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو
اللہ تعالی کا ارشاد ہے
إِن يَنصُرْ‌كُمُ اللَّ۔هُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ(ال عمران.160)
اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ‌ الْمُؤْمِنِينَ ..(الروم..47)
اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وَلِلَّ۔هِ الْعِزَّةُ وَلِرَ‌سُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَ۔ٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (المنافقون..8)
عزت تو صرف اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں
یہ ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیاہے اگر تم اللہ کے وعدہ کو چاہتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور اس کی اطاعت کرو اپنے معاملات میں ہر حال میں اللہ کا تقوی اختیار کرو اور حق کو لازم پکڑو اپنی پسند میں بھی اور ناپسندیدگی میں بھی
اگر تم اللہ کے وعدہ چاہتے ہو تو اللہ کے راستے میں جہاد کرو اور مسلمانوں کو ابھارو اور اس مشقت میں صبر کرو اگر تم جانتے جہاد میں جو اجر اور کرامت اور بلندی اور عزت دنیا و آخرت میں ہے تو تم میں سے کوئی بھی جہاد سے پیچھے نہیں رہتا
یہ ایسی تجارت ہے جو تمہارے لئے اللہ کی طرف سے ہے جس کے ذریعے اللہ تم کو رسوائی سے نجات دلائے گا اور دنیا و آخرت میں شرف عطا کریں گا
تُؤْمِنُونَ بِاللَّ۔هِ وَرَ‌سُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّ۔هِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَأُخْرَ‌ىٰ تُحِبُّونَهَا ۖ نَصْرٌ‌ مِّنَ اللَّ۔هِ وَفَتْحٌ قَرِ‌يبٌ ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُؤْمِنِينَ ( الصف13..11)

ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا یہ ہے بڑی کامیابی اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح اے نبیؐ، اہل ایمان کو اِس کی بشارت دے دو
میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور میں اللہ سے اپنی اور آپکی مغفرت طلب کرتا ہوں اللہ سے دعا کرو اس حال میں کہ قبولیت کا یقین ہو
خطبہ ثانیہ
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہے جس کا وہ مستحق ہے اور درود و سلام ہو محمد ﷺ کہ جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور آپﷺ کی آل پہ اور آپکی اولاد پر اور آپکے گروہ اور لشکر پر اور جو قیامت تک ان کی اتباع کریں
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اس نے اپنے وعدہ کو سچ کر دکھایا اور اپنے لشکروں کی مدد کی اور فوجوں کو اکیلا شکست دی
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے اگرچہ کہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے
اللہ کے بندو اپنے دین کو قائم کرو اور اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اللہ تم کو دنیا و آخرت میں عزت بخشے گا
اگر تم امن چاہتے ہو تو اللہ سے ڈرو اگر تم رزق چاہتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور اگر تم عزت کی زندگی چاہتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو
ہم اللہ رب عظیم عرش عظیم کے رب سے سوال کرتے ہے کہ تمہارے کلمے جمع کردے اور تمہارے درمیان اتفاق پیدا کردے اور تمہارے لئے اس کی طرف رہنمائی کریں جو اس کی پسند ہو اور جس سے وہ راضی ہو
اے اللہ اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما شرک اور مشرکین کو ذلیل فرما اپنے موحد اور مجاہد بندوں کی مدد فرما دنیا کے ہر حصے میں ان کے قدموں کو جمادےاور انکے دلوں کو مضبوط کردے اور ان سب کا تو حامی و ناصر بن جا اے اللہ تیروں کو ہدف پر لگا اور ان کی رائے کو درست فرما
اے اللہ انکے معاملات میں ان کی صحیح رہنمائی فرما، اور اترنے والی تائید کو ان کے لئے مدد بنا دیں
اے دلوں کو پلٹنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھ، اے دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں اپنی طاعت کی طرف پھیر دے
اے اللہ ہمارے دلوں کو نفاق سے پاک فرما اور اعمال کو ریا کاری سے اور ہماری زبانوں کو جھوٹ سے اور ہماری نظروں کو خیانت سے پاک فرما
اے اللہ ہم تجھ سے سچا ایمان طلب کرتے ہے اور ڈرنے والا دل اور مقبول عمل طلب کرتے ہے
اے اللہ ہم تجھ سے معافی اور عافیت طلب کرتے ہے اور ہمیشہ کی عافیت دین و دنیا دونوں کے معاملے میں
اے اللہ تو ہمارے اس جمع ہونے پر رحم فرما اور اس کے بعد ہماری جدائی کو گناہوں سے پاک اور مبارک فرما دیں اور ہم میں سے کسی کو بدبخت اور محروم نہ رکھ
 

x boy

محفلین
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی ،
اس وقت میں مکہ میں تھا ۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا ۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا ۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا ۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا ، پھر سینے کو جوڑ دیا ، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے ۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو ۔ اس نے پوچھا ، آپ کون ہیں ؟ جواب دیا کہ جبرائیل ، پھر انھوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ جواب دیا ، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ کہا ، جی ہاں ! پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے ، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا ۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے ۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے ۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا ، آؤ اچھے آئے ہو ۔ صالح نبی اور صالح بیٹے ! میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں ۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں ۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو ( رنج سے ) روتے ہیں ۔ پھر جبرائیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو ۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا ۔ حضرت انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم ، ادریس ، موسیٰ ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو موجود پایا ۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا ۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر ۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادریس علیہ السلام پر گزرے ۔ تو انھوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں ۔ پھر موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا ، انھوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا ۔ انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر چڑھے ، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی ( جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی ) ابن حزم نے ( اپنے شیخ سے ) اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں ۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا ۔ جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں ۔ انھوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے ۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے ۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا ، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے ، انھوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے ۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا ۔ پھر ایک حصہ کم ہوا ۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انھوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے ، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی ، پھر میں باربار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں ( عمل میں ) پانچ ہیں اور ( ثواب میں ) پچاس ( کے برابر ) ہیں ۔ میری بات بدلی نہیں جاتی ۔ اب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے ۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے ۔ پھر جبرائیل مجھے سدرۃالمنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا ۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں ۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا ، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے ۔
کتاب الصلاۃ
بخاری
 
Top