بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں(بیدار کرنےکی تجاویز)

آپ کی پوسٹ میں چند باتیں وضاحت طلب ہیں

ویکییوم کلینئر سے باغ کی صفائی؟

نیم سرگوشی کا عالم سے کیا مراد ہے؟

ویکییوم کلینئر سے باغ کی صفائی، لگے بندھے طریقوں سے ہٹ کر کام کرنے کا انداز،
سرگوشی کامطلب تو سر کو کان کے پاس لے جا کر کچھ کہنا ہے
تو نیم سرگوشی ، شاید یہاں غلط استعمال ہو گیا ہے
 
سائنس و ٹیکنولوجی کے اس دور میں ننھے منے بچے بھی موبائل، اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ ہاتھ میں لے کر خوش ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ٹچ اسکرین کا استعمال حال ہی میں زیادہ عام ہوا ہے، لہٰذا صحت پر اس کے مضر اثرات سے متعلق فی الحال اتنی آگاہی بھی موجود نہیں۔ ہمارے یہاں اکثر والدین بھی بچوں کو مصروف رکھنے کی غرض سے مطمئین ہو جاتے ہیں کہ اچھا ہے ان کا بچہ موبائل فون کی وجہ سے بہل گیا ہے انہیں تنگ نہیں کر رہا، لیکن ماہرین نے حالیہ تحقیقات کے بعد متنبہ کیا ہے کہ کم سن بچوں کا موبائل فون استعمال کرنا ان کے ہاتھ کے پٹھوں کی کمزوری کا باعث بن سکتا ہے اور مستقبل میں ایسے بچوں کی انگلیوں میں پیچیدہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بچے جب موبائل فون یا آئی پیڈ وغیرہ کی ٹچ اسکرین استعمال کرتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں موجود وہ پٹھے اور اعضاء نمو نہیں پاتے جو انہیں لکھنے کے عمل میں مدد دیتے ہیں۔ یعنی کاغذ اور قلم کے بجائے آئی پیڈ جیسے آلات کا استعمال براہ راست بچوں کے ہاتھوں کی نشوونماء متاثر کرتا ہے۔
بچوں کا روزانہ ۳ سے ۴ گھنٹے تک آئی پیڈ یا اسمارٹ فون استعمال کرنا اس کی نشوونماء کے لئے مختلف خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ماہرین کے مطابق بچوں کو دن بھر میں ۲ گھنٹے سے زیادہ ’’اسکرین ٹائم‘‘ کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ ۲ سال سے کم عمر بچوں کو اسکرین کے سامنے بالکل وقت نہیں گزارنا چاہئے۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ ٹیلی وژن، ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر بچوں کے کمروں میں نہ رکھا جائے۔ یہ کوئی پہلی تحقیق نہیں جس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ اسکرین ٹائم کی زیادتی بچوں کی صحت کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی ایسی متعدد تحقیقات سامنے آتی رہی ہیں۔
تحقیق کے مطابق کمپیوٹر، ویڈیو گیمز اور اسمارٹ فونز کا استعمال بچوں کو صحت کے سنگین مسائل سے دوچار کر رہا ہے، جن میں گردن اور کمر کا درد سرفہرست ہے۔ تحقیق میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران پرائمری اور سیکنڈری جماعتوں کے طلباء کی بڑی تعداد کمر اور گردن کے درد کی تکالیف میں مبتلاء نظر آئی ہے۔ اس حوالے سے فزیو تھراپی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ٹیکنولوجی کا بڑھتا ہوا استعمال ہمارے بچوں کی عضلاتی صحت اور پٹھوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اس ضمن میں اگر گھروں اور تعلیمی اداروں میں آگاہی فراہم نہ کی گئی تو یہ مستقبل میں ہمارے بچوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر اثر انداز ہوگی۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کیلئے زیادہ سے زیادہ ایسے مواقع مہیا کریں جو انکے لئے ضرر رساں ثابت نہ ہوں اور اس دوران بچے صحتمند سرگرمیوں میں وقت صرف کریں، تاکہ اپنی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرسکیں۔
http://technologytimes.pk/urdu-news.php?title=موبائل فون اور بچوں کی ذہنی نشوونماء
 

قیصرانی

لائبریرین
ویکییوم کلینئر سے باغ کی صفائی، لگے بندھے طریقوں سے ہٹ کر کام کرنے کا انداز،
سرگوشی کامطلب تو سر کو کان کے پاس لے جا کر کچھ کہنا ہے
تو نیم سرگوشی ، شاید یہاں غلط استعمال ہو گیا ہے
باغ میں ویکییوم کلینر کا استعمال انتہائی مشکل ہوتا ہے کہ اس کی سٹوریج بہت چھوٹی ہوتی ہے اور مٹی، کنکر وغیرہ سب کچھ کھینچا چلا آتا ہے :)
 
’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے اور غور و فکر کرنے کے لیے دماغ عطا فرمایا ہے۔ جس کی پیچیدہ ساخت اور پُرپیچ نظام کا مطالعہ کرنے پر دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ ’’اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے‘‘۔

ایک طرف دماغ کی قوت اور صلاحیت کے بَل پر انسان نے خلا کی وسعتوں، سمندر کی گہرائیوں اور پہاڑوں کی بلندیوں کو گزرگاہ بنایا۔ تو دوسری طرف اس کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ اچھے بھلے، باشعور اور صحت مند انسان کو لمحوں میں اَن دیکھی، بے ضرر چیزوں کے خوف یا خود ساختہ فوبیا کا نہ صرف شکار بنا دیتا ہے، بلکہ بعض اوقات خوف کی شدت کے باعث وہ جان سے بھی گزر جاتا ہے۔

اگر ایک جوان تنومند انسان خوف کے باعث بے بس ہو جاتا ہے تو بچے تو پھر بچے ہوتے ہیں۔ دماغ کی حساسیت، ذہن کی اس مخصوص حالت اور کیفیت اور خوف کی شدت میں اُس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب معاملہ کسی بچہ، بچی کا ہو۔

بچوں کی عمر کے ابتدائی ۵، ۶ سال خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس دوران میں ان کا دماغ نشوونما کے مراحل طے کررہا ہوتا ہے اور ذہن کے شفاف پردے پر حالات و واقعات‘ اندازِ تربیت‘ رویوں اور ماحول کے مثبت، منفی نقوش ثبت ہورہے ہوتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس عمر میں پیدا ہونے یا کیے جانے والے خوف آئندہ ساری زندگی بچے کے ذہن و دل سے نہیں نکلتے‘ بدقسمتی سے عمر کے اسی دور سے گزرنے والے بچے ہمارے ہاں سب سے زیادہ نظرانداز ہوتے اور ڈرائے دھمکائے جاتے ہیں۔ کبھی والدین کے اپنے وقتی آرام و لمحاتی تفریح کی خاطر، تو کبھی تربیت کرنے یا تمیز و تہذیب سکھانے کے نام پر بچوں کو اندھیرے‘ بلی‘ کتے‘ جن بھوت‘ چڑیل‘ خون پینے والی بلائوں‘ سیٹی بابا‘ شیر‘ کالی مائی وغیرہ سے ڈراکر سلایا‘ کھلایا‘ پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے…

اسی طرح بلوغت سے قبل کا زمانہ رونما ہونے والی ذہنی و جسمانی تبدیلیوں کے باعث بہت نازک اور خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عدم توجہ‘ راہنمائی کا فقدان اور محبت و شفقت سے محرومی اس دَور سے گزرنے والے بچے، بچی کے اندر بے شمار پیچیدگیاں اور مسائل پیدا کر دیتی ہے۔

ایک غیر ملکی تحقیق کے مطابق ۱۸ماہ کی عمر سے عام صحت مند بچے کے ذہن و دل پر خوف کے اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں اور ۲سال کی عمر کا بچہ اپنے خوف کا اظہار مختلف طریقوں سے کرنے لگتا ہے…

’’بچوں میں خوف‘‘ کے حوالے سے ہمارے ہاں کے اچھے خاصے باشعور‘ پڑھے لکھے والدین میں بھی ایک عام خیال یا تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ’’سارے بچے ڈرتے ہیں‘‘ یا ’’ابھی تو بچہ ہے بڑا ہوکر خود ہی ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔ یوں والدین کی عدم توجہ و لاپروائی کے باعث بچے کی پوری زندگی بعض اوقات خوف کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے…

بچہ ایک قوت ِحیات کے ساتھ دنیا میں آتا ہے‘ عمر کے ابتدائی ۵، ۶ برسوں میں وہ بے حد پُرجوش‘ توانائی سے پُر اور چلبلا ہوتا ہے‘ اس کے اندر موجود توانائی کا ذخیرہ اسے ہر دم شور مچانے‘ بھاگنے دوڑنے‘ اچھلنے کودنے‘ نت نئی شرارتیں کرنے پر اکساتا ہے‘ اس طرح اس کی شخصیت کی مثبت تعمیر اور تشکیل ہوتی ہے اور جذبات و رویوں میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ اگر بے جا پابندیاں لگائی جائیں‘ بات بات پر مارا پیٹا اور ڈرایا دھمکایا جائے تو توانائی کا مثبت اخراج رک جاتا اور منفی جذبات و قوتیں برسرِ کار آنے لگتی ہیں۔ بچے کی عزت ِنفس مجروح ہوتی ہے اور وہ خوداعتمادی کے جوہر سے محروم ہوکر ضدی‘ باغی و بدتمیز یا پھر بزدل اور ڈرا سہما ہوا دَبّو بچہ بن جاتا ہے۔‘‘
 
بچوں پر مرضی مسلط کرنا ایک خطرناک رویہ: مطالعہ
ایسے بچے جنھیں گھر سے باپر کھیلنے کودنے اورسیر و تفریح کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں وہ بالغوں یا والدین کی نسبت اپنے لیے اہداف مقرر کرنے میں زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔

نصرت شبنم
لندن — سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ والدین کا بچوں کی دن بھر کی سرگرمیوں کے حوالے سے مصروف ترین شیڈول بنا کر اسے بچے پر تھوپنے کا رویہ بچے کی ذہنی نشوونما پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

خاص طور پر اس سے بچے کے دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچتا ہے جو شعورکی ترقی اور فہم و ادارک کے ساتھ منسلک ہے۔

نفسیاتی رسالے 'فرنٹیئر سائیکلوجی' کے مضمون کے مطابق امریکی سائنسدانوں نے چھ برس کی عمر کے 70 بچوں پر کئے جانے والے ایک مطالعے کے نتیجے سے اخذ کیا کہ والدین کا ضرورت سے زیادہ بچوں کو مرضی کے تابع رکھنے کا رویہ بچوں کی دماغی نشوونما کو متاثر کر سکتا ہے۔ جبکہ ایسی مائیں بچوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کے حوالے سے مددگار ثابت نہیں ہوتی ہیں۔

'یونیورسٹی آف کولاراڈو' سے منسلک ماہر نفسیات پروفیسر یوکومنا کاتا نے کہا کہ ایگزیکٹیو فنکشن یا فہم و اداراک (ذہنی اعمال کا مجموعہ جو شعور کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اورماضی کے تجربات کی بنیاد موجودہ کارروائی کے لیے مدد فراہم کرتا ہے) بچوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔

انھوں نے کہا کہ سیلف کنٹرول رکھنے والے بچے ایک سرگرمی سے دوسری سرگرمی کی تبدیلی کو آسانی سے برداشت کر سکتے ہپں اور خود کو ایک ہی مشغلے تک محدود نہیں رکھتے ہیں۔ ایسے بچوں میں ناراض ہو کر چلانے یا پھر کسی اعزاز یا کامیابی کے لیے انتطار کرنے کے حوالے سے صبر و تحمل پایا جاتا ہے۔

پروفیسر یو کو کے مطابق ایسے بچے جنھیں گھر سے باپر کھیلنے کودنے اورسیر و تفریح کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں وہ بالغوں یا والدین کی نسبت اپنے لیے اہداف مقرر کرنے میں زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔

پروفیسر یوکو نے کہا کہ بچپن میں ذہنی اور فکری خیالات کی ترویج اور شعور کی ترقی بچے کی زندگی کے اہم ترین کامیابیوں، مثلاً تعلیمی کارکردگی، مال و دولت، صحت کے حوالے سے ایک پیشن گوئی ثابت ہو تی ہے۔
 
Top