ہوا بجلی جگاتی ہے - "پون چکی "

ہوا بجلی جگاتی ہے
ہوائی طاقت سے بجلی پیدا کرنے کے دو بنیادی طریقے رائج ہیں، جن میں زیادہ اہم سمندر کے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا طریقہ ہے
عتیق احمد عزمی

272639-WindEnergy-1405720592-431-640x480.JPG

ونڈ انرجی اور دنیا کے اہم ونڈ فارمز۔ فوٹو: فائل
انسانی رہن سہن میں انقلابی تبدیلیوں کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک بلاشبہہ برقی رو کو کہا جاسکتا ہے۔
برقی رو کی دریافت یا اسے پیدا کرنے اور اسے استعمال کرنے کا نظام وضع کرنے والوں نے ہی درحقیقت کرۂ ارض کو ’’ عالمی گائوں‘‘ میں تبدیل کیا ہے اور آج کرۂ ارض کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے روزمرہ کی ضروریات میں سے ایک اہم ترین عنصر’’بجلی‘‘ ہے۔ بالخصوص صنعتی پہیے کی گردش بجلی کی روانی کی مرہون منت ہے، کیوں کہ تیکنیکی صلاحیتوں میں اضافہ کسی بھی ملک کی ترقی کا زینہ بن چکا ہے اور اس ترقی کی معراج پانے کے لیے بجلی کا ہر وقت رواں دواں رہنا ازحد ضروری ہے، لیکن بجلی کی طلب اور رسد پاکستان جیسے ملکوں کے لیے ایک گمبھیر مسئلہ بن چکی ہے، جس کی کوکھ سے ایسے مسائل پیدا ہورہے ہیں جو ان ملکوں کو عدم استحکام کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
لیکن کچھ قوتیں ایسی ہیں جو ان مسائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں پرے دھکیلنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے متبادل توانائی کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔ ایسے ہی متبادل توانائی کے طریقوں میں ’’ہوا سے بجلی‘‘ پیدا کرنے کے منصوبے بھی شامل ہیں، جن پر زیر نظر تحریر میں روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے طریقے توانائی کے متبادل دیگر ذرائع سے نسبتاً ارزاں اور کم وقت میں نتائج دینے کے اہل ہیں۔
Wind-energy.jpg

٭ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے طریقے
ہوائی طاقت سے بجلی پیدا کرنے کے دو بنیادی طریقے رائج ہیں، جن میں زیادہ اہم سمندر کے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا طریقہ ہے۔ سمندر کے حوالے سے ہوائی چکیوں یا ٹربائن سے بجلی بنانے کے بھی دو طریقے رائج ہیں، جن میں ایک ذریعہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ یا پھر سمندر کے اندر کچھ فاصلے پر ہوائوں کی قدرتی گزرگاہوں کے راستے میں تعمیر کی گئی ہوائی چکیاں ہیں، جن سے بجلی بنائی جاتی ہے۔ سمندر ہی کے حوالے سے دوسرے رائج طریقے میں گہرے سمندر میں لہروں پر ڈولتے ہوئے آبی بیڑوں پر ایستادہ گھومتی ہوائی چکیوں یا ٹربائن سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ ان ہوائی چکیوں کے ونڈفارمز کو ’’آف شور ونڈ فارمز‘‘ کہا جاتا ہے۔
ہوائی ٹربائن سے بجلی پیدا کرنے کے دوسرے بنیادی اور اہم طریقے میں خشکی کے ایسے زمینی ٹکڑے پر ٹربائن یا پون چکیوں کی تعمیر شامل ہے، جہاں تیز ہوائوں کا سالہاسال گزر رہتا ہو۔ ان ہوائی چکیوں کے ونڈفارمز کو ’’آن شور ونڈ فارمز‘‘ کہا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ہوائی چکیوں کی مدد سے بجلی بنانے کے لیے طریقہ کوئی سا بھی اختیار کیا جائے، بنیادی مقصد ہوا کے ذریعے پون چکیوں کی پنکھڑیوں کو تیزی سے گردش دینا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ ادارے جو اس مقصد کے لیے کام کرتے ہیں، ہوا کی فراوانی والی جگہوں ہی پر اپنے پروجیکٹ لگاتے ہیں اور ایسی تمام جگہوں پر جہاں ہوائی چکیاں لگائی جاتی ہیں انہیں تیکنیکی اصطلاح میں ’’ونڈ فارم یا پارکس‘‘ کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ جو ہوائی چکیاں زمین سے پانی کھینچ کر نکالنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں انہیں ’’ پن چکی‘‘ کہا جاتا ہے، جب کہ ہوا کی قوت سے بجلی بنانے والی ہوائی چکیوں کو ’’پون چکی ‘‘ کہا جاتا ہے۔
٭ اہم ونڈ فارمز
خشکی (آن شور) اور سمندر (آف شور) میں بنائے گئے ونڈفارمز کی بجلی کی پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے اگر ہم دنیا کے اہم ترین ونڈ فارمز پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ اس حوالے سے امریکا سرفہرست ہے اور دس اہم ترین ونڈفارمز میں سے آٹھ ونڈفارمز امریکی سرزمین پر واقع ہیں اہم ترین ونڈ فارمز کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:
٭آلٹا ونڈ انرجی سینٹر Alta Wind Energy Centre
امریکی ریاست کیلی فورنیا کی کائونٹی ’’کیرن‘‘ کے نواح میں ’’تی ہیکا پائی‘‘ پہاڑی کے دامن میں تعمیر کیا گیا یہ ونڈ فارم اپنی پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ونڈفارم ہے، جو مکمل کام کرنے کی صورت میں ایک ہزار بیس میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ یہ وسیع و عریض ونڈفارم جو خشکی پر واقع ہے، امریکا کی ٹیرا جین پاور کمپنی کے زیراہتمام سرگرم عمل ہے۔ ٹیرا جین پاور کمپنی کا کہنا ہے کہ عنقریب وہ اس ونڈ فارم کو مزید وسعت دے کر اس سے حاصل شدہ بجلی کی مقدار پندرہ سو پچاس میگاواٹ تک پہنچا دے گی، جب کہ اس ونڈفارم کی مستقبل کی منصوبہ بندی تین ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی ہے۔ اس وقت اس پورے ونڈ فارم میں گیارہ یونٹ سرگرم عمل ہیں، جن میں مجموعی طور پر پانچ سو چھیاسی پون چکیاں متحرک ہیں، جو سطح سمندر سے تین ہزار سے چھے ہزار فٹ تک کی بلندی پر مصروف کار ہیں۔
Wind-energy5.jpg

٭ شیفرڈز فلیٹ ونڈفارم Shepherds Flat Wind Farm
خشکی پر تعمیر کیا گیا یہ ونڈفارم آٹھ سو پینتالیس میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی ریاست ’’اوریگن‘‘ میں ’’گلیام‘‘ اور’’مورو‘‘ کائونٹیز کے درمیان تیس مربع میل پر پھیلے ہوئے اس ونڈفارم کی تعمیر سن دوہزار نو میں شروع کی گئی تھی۔ اس تعمیر کا بیڑا توانائی کے مشہور ادارے کیتھ نیز انرجی نے اٹھایا تھا۔ تعمیراتی کام کے افتتاح کے وقت منصوبے پر دو بلین امریکی ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ دوہزار بارہ میں مکمل طور پر فعال ہوجانے والے اس ونڈفارم میں مجموعی طور پر تین سو اڑتیس پون چکیاں لگائی گئیں ہیں۔ اس ونڈفارم سے لگ بھگ دو لاکھ پینتیس ہزار گھرانوں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
٭روسکو ونڈفارم(Roscoe Wind Farm )
یہ ونڈفارم بھی امریکا میں واقع ہے۔ تاہم اسے جرمنی سے تعلق رکھنے والی ’’ای آن کلائمنٹ اینڈ ری نیو ایبل‘‘ کمپنی آپریٹ کرتی ہے۔ سات سو اکیاسی اعشاریہ پانچ میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھنے والا یہ ونڈفارم امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر روسکو کے نواحی علاقے ابائیلین کے جنوب مغرب میں پینتالیس میل کی دوری پر خشکی میں تعمیر کیا گیا ہے۔ چار سو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ ونڈفارم زرعی زمین پر بنایا گیا ہے جس کی تعمیر پر ایک بلین ڈالر کے اخراجات آئے تھے۔ سن دو ہزار سات سے دوہزار نو کے درمیان چار مختلف ادوار میں مکمل ہونے والے روسکو ونڈ فارم میں چھے سو چونتیس پون چکیاں ہیں جو قرب و جوار میں بجلی کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔
٭ہارس ہولو ونڈ انرجی سینٹر Horse Hollow Wind Energy Centre
یہ ونڈفارم جسے انرجی سینٹر بھی کہا جاتا ہے، امریکی ریاست ٹیکساس ہی میں واقع ہے۔ ریاست کی’’ٹیلر‘‘ اور’’نولان‘‘ کائونٹیز کے درمیان تعمیر کیا گیا ہارس ہولو ونڈ انرجی سینٹر متبادل توانائی پیدا کرنے کے مشہور ادارے نیکسٹ ایرا انرجی ریسورسز کی ملکیت ہے اور وہی اسے فعال رکھنے کی ذمے دار بھی ہے۔ مجموعی طور پر سینتالیس ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے اس ونڈفارم کی پیداواری صلاحیت سات سو پینتیس اعشاریہ پانچ میگاواٹ ہے، جو ٹیکساس کے ایک لاکھ اسی ہزار گھروں کی بجلی کی ضروریات پوری کرتی ہے۔
سن دو ہزار پانچ سے دوہزار چھے تک چار مرحلوں میں پایۂ تکمیل کو پہنچنے والے اس منصوبے میں مجموعی طور پر چار سو اکیس پون چکیاں کام کررہی ہیں۔ اس ونڈفارم پر سن دوہزار پانچ میں یہاں کے مکینوں نے مقدمہ کردیا تھا، جس میں انہوں نے پون چکیوں کی پنکھڑیوں سے پیدا ہونے والے شور کو بنیا د بناکر اس ونڈفارم کو منتقل کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن عدالت نے مقدمہ خارج کردیا تھا۔ اس مقدمے کے باعث ہارس ہولو ونڈانرجی سینٹر کو عالمی پیمانے پرشہرت ملی تھی۔
Wind-energy6.jpg

٭کیپری کورن رج ونڈفارم Capricorn Ridge Wind Farm
یہ ونڈفارم بھی امریکی ریاست ٹیکساس میں ہے۔ سن دوہزار سات میں شروع کیا جانے والا کیپری کورن رج ونڈفارم مجموعی طور پر چھے سو باسٹھ اعشاریہ پانچ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ونڈفارم کی ملکیت ابھی نیکسٹ انرجی ری سورسز کمپنی کو حاصل ہے، جب کہ اسے فعال رکھنے کا اختیار بھی نیکسٹ انرجی ری سورسز کمپنی ہی کو ہے۔
کیپری کورن رج ونڈفارم میں مجموعی طور پر چار سو سات پون چکیاں لگائی گئی ہیں، جن میں ہر پون چکی کی اونچائی دو سو ساٹھ فٹ ہے۔ یہ ونڈ فارم جو ٹیکساس کی ریاست ’’اسٹرلنگ‘‘ اور ’’کوک‘‘ کائونٹی کے درمیان واقع ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی بجلی سے مجموعی طور پر دو لاکھ بیس ہزار گھرانے فیض یاب ہورہے ہیں۔
٭دی لندن ایرے(The London Array )
بجلی کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے دس صف اول کے ونڈفارم کی فہرست میں چھٹے نمبر پر فائز لندن ایرے ونڈفارم اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کا مقام خشکی کے بجائے آبی ہے۔ دریائے ٹیمز کے بیرونی حصے میں ’’کینٹ ‘‘ اور ’’ایسیکس‘‘ کائونٹی کے ساحلوں سے بیس کلومیٹر اندر تعمیر کیا جانے والا یہ ونڈفارم انسانی ہمت اور جرأت کا بھرپور اظہار بھی ہے، جو چھے سو پچاس میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چار اعشاریہ آٹھ بلین ڈالر سے مارچ دوہزار گیارہ میں شروع کیے جانے والے اس پروجیکٹ کی تکمیل جولائی دوہزار تیرہ میں ہوئی۔ پروجیکٹ کی تعمیر اور ملکیت کے حقوق ڈنمارک کی ڈونگ انرجی، جرمنی کی ای آن کلائمنٹ اینڈ ری نیو ایبل اور ابوظہبی سے تعلق رکھنے والے مسدار گروپ کے پاس ہیں۔ کینٹ کائونٹی کے دو تہائی گھرانوں کو بجلی فراہم کرنے والے لندن ایرے ونڈفارم میں ایک سو پچھتر پون چکیاں ہیں، جو سطح سمندر سے ستاسی میٹر بلند ہیں، جب کہ پون چکیوں کی پنکھڑیوں کا گھمائو ایک سو بیس میٹر پر محیط ہے۔
٭فین تین لی کوجیالیک ونڈفارم Fantanele-Cogealac Wind Farm
جنوب مشرقی یورپ میں واقع ملک رومانیہ میں تعمیر کیا گیا یہ ونڈفارم چھے سو میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے ساتھ اگرچہ عالمی سطح پر ساتویں نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم براعظم یورپ میں خشکی پر بنائے گئے ونڈفارمز میں ’’فین تین لی کو جیالیک ونڈ فارم‘‘ اول نمبر پر فائز ہے۔ رومانیہ کے صوبے ’’دوبروجا‘‘ میں بحیرۂ اسود کے مغرب میں سترہ کلومیٹر کی دوری پر واقع یہ ونڈفارم دو ہزار سات سو ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ ونڈفارم کی ملکیت چیک ریپبلک کے توانائی کے ادارے ’’سی، ای، زیڈ گروپ‘‘ کے پاس ہے، جب کہ وہی اسے فعال رکھنے کا بھی ذمے دار ہے۔ جون دوہزار دس میں شروع کیے جانے والے اس منصوبے کی تکمیل نومبر دوہزار بارہ میں ہوئی۔ اس دوران اس ونڈفارم میں دو سو چالیس پون چکیاں لگائی گئیں۔ ہر پون چکی کی پنکھڑیوں کے گھمائو کا قطر نناوے میٹر پر محیط ہے۔
Wind-energy7.jpg

٭فائولر رج ونڈ فارم(Fowler Ridge Wind Farm)
امریکی ریاست انڈیانا کی ’’بین ٹون‘‘ کائونٹی میں تعمیر کیے گئے اس ونڈ فارم کی مجموعی پیداوار پانچ سو نناوے میگاواٹ ہے۔ اس شان دار ونڈ فارم کو شمالی امریکا کی مشہور زمانہ ’’بی پی آلٹرنیٹو‘‘انرجی اور’’ڈومینین ریسورس‘‘ کمپنیاں چلاتی ہیں۔ یہ ونڈفارم دو ہزار آٹھ میں پچاس ہزار ایکڑ رقبے پر بنایا گیا ہے۔ ونڈفارم کی تعمیر دو مرحلوں میں مکمل ہوئی۔ ونڈفارم کا دوسرا مرحلہ دو ہزار دس میں مکمل ہوا۔ دو لاکھ سے زاید درمیانے درجے کے گھروں میں بجلی کی فراہمی یقینی بنانے والا یہ پروجیکٹ تین سو پچانوے پون چکیوں سے آراستہ ہے، جن کی سطح سمندر سے زیادہ سے زیادہ اونچائی آٹھ سو بیس فٹ تک ہے۔
٭سوئٹ واٹر ونڈفارم(Sweetwater Wind Farm)
پانچ سو پچاسی میگاواٹ کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا یہ ونڈفارم بھی امریکا کی ریاست ٹیکساس میں تعمیر کیا گیا ہے۔ ’’نولان‘‘ کائونٹی میں تخلیق کیے جانے والے اس ونڈفارم میں مجموعی طور پر تین سو بانوے پون چکیاں لگائی گئی ہیں۔ دوہزار تین میں شروع کیے جانے والے اس پروجیکٹ کی تکمیل پانچ مرحلوں کے بعد دوہزار تین میں پایۂ تکمیل تک پہنچی۔ خشکی پر واقع اس ونڈفارم کو ڈیوک انرجی اور انفی جن انرجی فعال رکھنے کی ذمہ دارہیں۔ سوئٹ واٹر ونڈفارم سے پیدا ہونے والی بجلی بیس سالہ معاہدے کے تحت سینٹ انتونیو شہر کو بجلی فراہم کرنے والے مقامی ادارے سی پی ایس کو فروخت کی جاتی ہے۔
٭بفلو گیپ ونڈفارم(Buffalo Gap Wind Farm)
ریاست ٹیکساس سے تیس کلومیٹر کی دوری پر جنوب مغربی سمت میں ’’ایبی لین‘‘ کائونٹی واقع ہے، جہاں پر پانچ سو تئیس میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والا بفلو گیپ ونڈفارم تعمیر کیا گیا ہے۔ اے ای ایس ونڈجنریشن کمپنی کے تعمیر کردہ اس ونڈفارم کو دوہزار چھے میں تعمیر کرنا شروع کیا گیا تھا اور تین تعمیراتی مرحلوں کے بعد دوہزار آٹھ میں مکمل کیا گیا۔ اس ونڈ فارم سے پیدا کی جانے والی بجلی ٹیکساس کی کمپنی ڈائریکٹ انرجی ٹیکساس کو فروخت کی جاتی ہے پورے ونڈفارم میں دو سو چھیانوے پون چکیاں ہیں۔
بجلی کیسے پیدا ہوتی ہے
وسیع پیمانے پر بجلی پیدا کرنے کے لیے جو جگہ بنائی جاتی ہے۔ اسے ’’پاور اسٹیشن‘‘ کہا جاتا ہے، جہاں حرارت یا گرمائش کے ذریعے پانی کو بھاپ میں تبدیل کرکے بھاپ کی قوت سے بڑے بڑے پنکھوں کو حرکت دی جاتی ہے۔ تیکنیکی زبان میں ان پنکھوں کو ٹربائن کہا جاتا ہے۔ یہ ٹربائن جو دراصل سادہ انجن ہوتے ہیں، جنریٹر سے منسلک ہوتے ہیں۔ ٹربائن کی گردشی حرکت کے باعث جنریٹر میں لگے کوائل میں مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے اور بجلی بننے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ بعدازاں ایک منظم طریقۂ کار کے تحت اس بجلی کو تاروں کے ذریعے پورے ملک میں مہیا کردیا جاتا ہے۔
Wind-energy1.jpg

کسی بھی پاور اسٹیشن میں موجود جنریٹر سے بجلی پیدا کرنے کے لیے ٹربائن کو حرکت دینے کے دو قدرتی ذرائع ہیں، جن میں ایک ’’قابل تجدیدتوانائی‘‘ اور دوسرا ’’ناقابل تجدید توانائی‘‘ کا ذریعہ کہلاتا ہے۔
Wind-energy2.jpg

قابل تجدید یعنی بار بار استعمال ہونے والی توانائی سے بجلی بنانے کے دو طریقے رائج ہیں، جن میں ایک طریقہ ’’حرارتی‘‘ ہے۔ اس طریقۂ کار میں سورج کی شعاعوں (سولرتھرمل پاور) سے پانی کو بھاپ میں تبدیل کرکے اور دوسرے طریقے میں زیرزمین ارضیاتی پرتوں کی حرارت (جیو تھرمل) کے درمیان سے گہرے کنوئوں کی مدد سے پانی گزار کر اسے بھاپ میں تبدیل کرکے یہ عمل انجام پاتا ہے، جب کہ دوسرے طریقے کو ’’بہائو‘‘ کا طریقۂ کار کہا جاتا ہے۔
Wind-energy3.jpg

اس طریقۂ کار کے تحت آبی یا پن بجلی یعنی ڈیم یا بند بناکر، ونڈفارم یعنی پن چکیوں یا ہوا کے ذریعے، سمندر کی سطح پر موجوں کی حرکت سے یعنی موجوں کی حرکی قوت اور سمندری مدوجزر یعنی لہروں کے اتار چڑھائو (ٹائیڈل بہائو) کے دوران پیدا ہونے والی حرکت سے ٹربائن کو گردش دی جاتی ہے، جب کہ ’’غیرقابل تجدید توانائی‘‘ سے مُراد ایک ایسا طریقہ ہے جس میں توانائی صرف ایک مرتبہ حرارت پیدا کرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ اس طریقۂ کار میں کوئلہ، تیل، قدرتی گیس اور جوہری توانائی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ان دنوں مذکورہ بالا طریقوں کے علاوہ ایک طریقہ ’’ساکن یا غیرمتحرک ‘‘ طریقے سے بجلی پیدا کرنے کا بھی ہے، جس میں الیکٹرک بیٹری، شمسی سیل اور دو دھاتوں کے ملاپ سے برقی جنریٹر (تھرموکپل) کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔
Wind-energy4.jpg

آف شور اور آن شور ونڈفارمز
وہ ونڈفارم جو خشکی پر تیز ہوا والے علاقوں میں تعمیر کیے جاتے ہیں۔ انہیں ’’آن شور ونڈفارم‘‘ کہا جاتا ہے۔ آن شور ونڈفارمز کا ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی کی عالمی سطح پر مجموعی پیداوار میں حصہ تین لاکھ گیارہ ہزار بانوے میگاواٹ ہے، جس میں چین نوے ہزار نوسوچھیانوے میگاواٹ کے ساتھ اول، امریکا اکسٹھ ہزار نواسی میگاواٹ کے ساتھ دوئم اور تیسرے نمبر جرمنی ہے، جو تینتیس ہزار سات سو تیس میگاواٹ ہوائی بجلی پیدا کررہا ہے جب کہ سمندر کے اندر یا ساحلوں کے ساتھ قائم ونڈفارمز جنہیں ’’آف شور ونڈفارم‘‘ کہا جاتا ہے۔
دوہزار تیرہ کے اختتام تک ان سے مجموعی طور پر سات ہزار پینتالیس میگاواٹ ہوائی بجلی حاصل کی گئی، جس میں سے بڑا حصہ برطانیہ کا تین ہزار چھے سو اسی میگاواٹ، جب کہ ڈنمارک ایک ہزار دو سو ستر میگاواٹ کے ساتھ دوسرے اور چین چارسو اٹھائیس میگاواٹ ہوائی بجلی کی پیداوار کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
ونڈ انرجی: چیدہ چیدہ حقائق
٭ہوا کی طاقت سے حاصل کی جانے والی بجلی دنیا بھر میں پیدا ہونے والی بجلی کا محض چار فی صد ہے۔
٭دنیا بھر کے ایک سو تین ممالک تجارتی بنیادوں پر ہوا سے بجلی پیدا کررہے ہیں۔
٭ وہ ممالک جہاں ونڈانرجی کے منصوبوں میں تیزی آئی ہے، ان میں لاطینی امریکا، مشرقی یورپ اور افریقہ قابل ذکر ہیں۔
٭گذشتہ سال ونڈانرجی کی شرح افزائش کے حوالے سے چلی ستتر فی صد اور مراکش ستر فی صد کے ساتھ سب سے آگے ہیں۔
٭بجلی کی مجموعی کھپت میں ونڈانرجی کے حصے کے حوالے سے سرفہرست ملک ڈنمارک ہے، جہاں چونتیس فی صد، اسپین اکیس فی صد، پرتگال بیس فی صد، آئرلینڈ سولہ فی صد اور جرمنی نو فی صد کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
٭دوہزار تیرہ کے اختتام پر سمندر میں یا ساحلی علاقوں میں لگائے گئے ونڈفارمز سے سات اعشاریہ چار گیگاواٹ بجلی حاصل کی گئی۔
ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ممالک
گذشتہ سال کے اختتام تک ہوا سے بجلی حاصل کرنے والے ممالک کے اعدادوشمار
چین: 91 ہزار 420میگاواٹ
امریکا 61:ہزار 91 میگاواٹ
جرمنی: 34 ہزار250میگاواٹ
اسپین: 22 ہزار 959 میگاواٹ
انڈیا: 20 ہزار 150 میگاواٹ
برطانیہ: 10 ہزار 531 میگاواٹ
اٹلی: 8ہزار 552 میگاواٹ
فرانس: 8 ہزار 254 میگاواٹ
کینیڈا: 7 ہزار803 میگاواٹ
ڈنمارک: 4 ہزار 772میگاواٹ
Wind-energy8.jpg

صف اول کے ان دس ممالک کے علاوہ دنیا بھر کے مختلف ممالک اڑتالیس ہزار تین سو اکیاون میگاواٹ بجلی ہوا سے پیدا کررہے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر دنیا میں دولاکھ سے زیادہ پون چکیوں سے مجموعی طور پر تین لاکھ اٹھارہ ہزار ایک سو سینتیس میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے، جس میں سب اہم کردار یورپی ممالک اور ایشیائی ممالک کا ہے۔ یورپی ممالک ایک لاکھ اکیس ہزارچار سو سینتالیس اور ایشیائی ممالک ایک لاکھ پندرہ ہزار نو سو ستائیس میگاواٹ بجلی ہوا سے پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ اگر ہم مجموعی پیداوار کا موازنہ دوہزار بارہ کے اعدادوشمار سے کریں تو علم ہوتا ہے کہ دوہزار بارہ کے اختتام پر مجموعی پیداوار دولاکھ بیاسی ہزار چار سو بیاسی میگاواٹ تھی اس طرح دوہزار تیرہ کے اختتام تک ہوا سے حاصل ہونے والی بجلی کی پیداوار میں پینتیس ہزار چھے سو پچپن میگاواٹ اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان اور ونڈانرجی
بجلی کی لوڈشیڈنگ پاکستانی عوام کا سب سے بڑا دردسر بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود حکومتی سطح پر اس مسئلے کو حل کرنے میں کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔ حالاں کہ پاکستان ان خوش نصیب ملکوں میں سے ایک ہے جہاں ملک کے مخصوص حصوں میں سال بھر تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں اور اگر حکومت ان ہوائوں کے راستے میں ونڈفارمز تعمیر کرے، تو بہت حد تک بجلی کے بحران میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ تاہم پاکستان کی کوئی بھی حکومت ابھی تک ہوا سے بجلی حاصل کرنے کے منصوبوں پر خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھاسکی ہے۔
حالاں کہ پاکستان کے دو پڑوسی ملک چین اور انڈیا اس حوالے سے بہت ترقی کرچکے ہیں، لیکن پاکستان میں ونڈفارمز کی تعمیر کے پروجیکٹ ابتدائی مراحل ہی میں ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان ونڈفارمز سے محض ایک سو چھے میگاواٹ بجلی بناتا ہے، جب کہ ایتھوپیا جیسا ملک ایک سو اکہتر اور تھائی لینڈ دوسوتئیس میگاواٹ بجلی ہوا سے حاصل کررہا ہے۔
امریکا کی ’’نیشنل ری نیوایبل انرجی لیب‘‘ کے ایک مطالعاتی جائزے کے مطابق پاکستان کی تقریباً ایک ہزار کلو میٹر طویل ساحلی پٹی کا بیشتر حصہ ونڈفارمز کے لیے مثالی حیثیت رکھتا ہے، جن میں کراچی، کوئٹہ، جیوانی قابل ذکر ہیں بل خصوص جنوب میں واقع گھارو سے کیٹی بندر تک کا علاقہ بہترین ’’ونڈ کوریڈور‘‘ ہے، جہاں پچاس ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے۔ اسی کوریڈور میں واقع میرپور ساکرو کے علاقے میں چھوٹے پیمانے کی پچاسی ونڈٹربائن کام کررہی ہیں، جن سے تین سوچھپن گھروں کو بجلی فراہم کی جارہی ہے۔
اسی طرح کند ملیر کے علاقے میں بھی چالیس ونڈ ٹربائن کے ذریعے ایک سو گیارہ گھروں میں بجلی آچکی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پربین الااقوامی معیار کے سولہ ونڈکوریڈور ہیں۔ اس کے علاوہ جائزے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ شمالی علاقہ جات، آزادکشمیر اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے بہت سے علاقے ونڈفارمز کی تنصیب کے لیے مناسب ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں مجموعی طور پر تین لاکھ چالیس ہزار میگاواٹ بجلی ہوا کی مدد سے پیدا کرنے کی گنجائش ہے۔ حالاں کہ کچھ ذرائع اس تخمینے کو مبالغہ آمیز کہتے ہوئے ڈیڑھ لاکھ میگاواٹ بتاتے ہیں۔ تاہم اس وقت پاکستان میں کراچی سے ایک سو چالیس کلومیٹر کی دوری پر واقع علاقہ ’’جھمپیر‘‘جو ضلع ٹھٹھہ کا حصہ ہے، پاکستان میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کا اہم مرکز ہے، جہاں پاکستان کا اولین جھمپیرونڈ پاور پلانٹ قائم کیا گیا ہے۔
Wind-energy9.jpg

ساحلی علاقے میں واقع یہ ونڈپاور پلانٹ ایک ہزار دو سو ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ فوجی فرٹیلائزر کمپنی کا منصوبہ پچاس میگاواٹ سے زاید ہوائی بجلی پیدا کررہا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اپریل دوہزار چودہ میں جھمپیر ہی کے مقام پر ناروے کی متبادل توانائی کی کمپنی این بی ٹی پاور نے دیگر کمپنیوں کے اشتراک سے چھے سو پچاس میگاواٹ کے ونڈفارم کی تنصیب کا کام شروع کردیا ہے۔ اس منصوبے میں چین کا ایک بینک اور انشورنس کمپنیاں ایک بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے اور امید ہے کہ یہ پروجیکٹ دوہزار سولہ تک روبہ عمل ہوجائے گا۔
پاکستان میں ونڈفارمز کی تنصیب کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں میں تُرک کمپنی ’’زرلو انرجی‘‘ کی پاکستان میں مقامی کمپنی ’’زرلوانرجی پاکستان‘‘ اور فوجی فرٹیلائزر گروپ کی ذیلی کمپنی فوجی فرٹیلائزر کمپنی انرجی لمیٹڈ سمیت فائونڈیشن ونڈانرجی، چین کی ہاربن الیکٹرک انٹرنیشنل، عربین سیی ونڈپاور، دائودپاور، گل احمد انرجی، یونس انرجی، میٹرو پاور اور نیوپارک انرجی شامل ہیں، جو متبادل توانائی کے سرکاری ادارے ’’آلٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ‘‘ کے ساتھ مل کر تین ہزار دو سو میگاواٹ کے تینتیس ونڈفارمز پروجیکٹ پر پیش رفت کررہی ہیں۔ ان پروجیکٹں میں حکومت پاکستان کو ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی معاونت بھی حاصل ہے۔
گانسو ونڈفارم، چین (دنیا کا سب سے بڑا کثیر المقاصد ونڈفارم)
چین کے شمال مغرب میں واقع صوبے گانسو میں تعمیر کیا گیا یہ ونڈفارم دراصل کئی ونڈفارموں کا مجموعہ ہے۔ خشکی پر تخلیقی مراحل سے گزرنے والے گانسو ونڈفارم کا پھیلائو صوبہ گانسو کے دو شہروں ’’جیوکین‘‘ اور ’’گوز‘‘ کے اطراف میں ہے۔ یہ شہر جن میں بہت تیز ہوائیں چلتی ہیں بنیادی طور پر صحرا میں واقع ہیں اور یہاں پر سال بھر ہوا کے جھکڑ چلتے رہتے ہیں دوہزار نو میں شروع کیے جانے والا یہ پروجیکٹ اس وقت پانچ ہزار ایک سو ساٹھ میگاواٹ سے زاید بجلی کی ترسیل کررہا ہے، جب کہ انتظامیہ کے مطابق دوہزار بیس تک ان کا پیداواری ہدف بیس ہزار میگاواٹ ہے۔
تین ہزار پانچ سو سے زاید ہوائی چکیوں پر مشتمل گانسو ونڈ پروجیکٹ چوں کہ ایک کثیرالمقاصد پروجیکٹ ہے، جو اپنے غیرروایتی طرزتعمیر اور وسعت کے باعث علیحدہ شناخت رکھتا ہے، لہٰذا ماہرین اسے مروجہ ونڈفارمز کی کٹیگری کے بجائے اپنی نوعیت کے جداگانہ اور منفرد ونڈفارمز میں شمار کرتے ہیں۔
 
Top