فارسی نویس شاعر میر شمس الدین فقیر دہلوی کا تعارف

حسان خان

لائبریرین
میر شمس الدین فقیر دہلوی برِ صغیر کے فارسی گو شاعر تھے۔ وہ ۱۷۰۳ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والد کو حضرت عباس بن عبدالمطلب کی اولاد سے بتاتے تھے جبکہ ان کی والدہ سید گھرانے سے تھیں، جس کی بنا پر ان کے نام سے پہلے 'میر' کا سابقہ لگا تھا۔ انہوں نے اپنی تعلیم دہلی میں حاصل کی اور بالآخر انہوں نے فقہ، علم الکلام، علم الحدیث اور خصوصاً ادبیات اور شاعری میں ملکہ حاصل کر لیا۔ چوبیس سال کی عمر میں وہ دکن آ گئے جہاں پانچ سال وہ اورنگ آباد میں رہے۔ دکن ہی میں ان کی دوستی محمد رضا ہمدانی قزلباش خان نامی ایک رئیس سے ہوئی، جو امید کے تخلص سے شاعری کیا کرتے تھے۔ فقیر دہلوی ان کے ہمراہ دہلی واپس آ گئے اور وہاں وہ علی قلی خان ظفر جنگ داغستانی اور امیرالامراء عمادالمک شہاب الدین جیسے منصب داروں کا احترام جلب کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے دنیاوی امور سے اپنا رشتہ منقطع کر لیا اور آگرہ میں عزلت نشینی کی زندگی گذارنے لگے۔ ۱۷۶۷ء کے آخر میں وہ کربلا اور نجف کی زیارتوں کے لیے نکلے۔ زیارتوں سے واپسی کے دوران ان کی کشتی غرق ہو گئی اور وہ جاں بحق ہو گئے۔ اکثر مصنفوں کے نزدیک یہ واقعہ ۱۷۶۹ء میں پیش آیا تھا۔
ان کی شاعرانہ تخلیق کی نمائندگی بنیادی طور پر ان کا سات ہزار اشعار پر مشتمل دیوان کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ چند مثنویوں کے بھی مؤلف ہیں جن میں سے سب سے مشہور شاید مثنوی والہ سلطان ہے، جس میں علی قلی خان والہ داغستانی اور اُس کی رشتے دار خدیجہ سلطان کے تاسف انگیز عشق کا احوال قلم بند ہے۔ مبینہ طور پر یہ مثنوی والہ داغستانی ہی کے ایما پر لکھی گئی تھی۔ اس میں ۳۲۳۰ اشعار ہیں اور یہ ۱۷۴۷ء میں مکمل ہوئی تھی۔ فقیر دہلوی کی دیگر مثنویوں میں تحفۃ الشباب، دُرِ مکنون اور شمس الضحیٰ شامل ہیں۔ یہ تینوں مثنویاں بالترتیب ۱۷۳۰ء، ۱۷۵۵ء اور ۱۷۵۹ء میں لکھی گئی تھیں۔ فقیر دہلوی کی سب سے مشہور نثری تصنیف میں حدائق البلاغہ کا نام لیا جا سکتا ہے جس میں فصاحت و بلاغت، عروض اور قافیوں پر بحث کی گئی ہے اور جس کا سنِ تصنیف ۱۷۵۵ء ہے۔

(ماخذ: انسائکلوپیڈیا ایرانیکا)
 
Top