اپنے ایک نامکمل سفر نامہ " قندھار میں چند روز ۔ ۔ ۔" سے اقتباس:

یونس

محفلین
لالہ عبدالباری خان کے اسفالٹ پلانٹ کی کسی فنی خرابی کی مرمت کے سلسلے میں مجھے اس کے ساتھ قندھار جانا تھا۔ تمام جزئیات طے پا چکی تھیں اور 23جولائی 2009 کو ہمیں صبح دس بجے والی فلائٹ سے کوئٹہ کیلئے روانہ ہونا تھا۔ نو بجنے میں چند منٹ باقی تھے کہ میں علامہ اقبال انٹر نیشل ٹرمینل لاہور کے"اندرون ملک روانگی" والے گیٹ کے سامنے تھا۔ فلائٹ کی تفصیل دیکھی تو پتہ چلا کہ چیک ان شروع ہے لیکن فلائٹ دس بجے کی بجائے گیارہ بجے روانہ ہوگی۔ عبدالباری سے رابطہ کیا ٗ وہ ٹک شاپ کے پا س کھڑا تھا۔ میرے پاس آ گیا۔ رسمی سلام دعا کے بعد بورڈنگ کارڈ لئے سیکیورٹی چیک اپ سے گزرتے ہوئےہم لاؤنج میں جا بیٹھے۔ ابھی شائد ساڑھے نو بجے تھے اور ہمیں ڈیڑھ گحنٹہ اسی طرح بیٹھنا تھا۔
وقت گزاری کے لئے میں اِدھر اُدھر دیکحنے لگا۔ میرے سامنے والی سیٹوں پر دو بچے جن کی عمریں لگ بھگ آٹھ سال اور دس سال رہی ہوں گیٗ اپنی مما کے ساتھ براجمان تھے۔ بڑا بچہ کچھ بے چین سا لگ رہا تھا۔ اپنی مما کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اسے سردی لگ رہی ہے۔ اور واقعی اسے سردی لگنی بھی چاہئے تھی ! کیونکہ وہ نیکر اور ہاف بازوؤں والی شرٹ میں ملبوس تھا۔ اور لاؤنج کا ائر کنڈیشننگ سسٹم خوب اپنا رنگ دکھا رہا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ باہر کا موسم جہاز والوں کی زبان میں "خراب" تھا ۔ ۔ ۔ ! حالانکہ ہم لاہور والوں کے لئے جولائی کے مہینے میں ایسا موسم کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا ۔۔۔ ! آپ ہی بتائیں جب کالی کالی گھٹائیں چھا رہی ہوںٗ ہلکی ہلکی بوندا باندی جاری ہوٗ تیز ہوا کے جھونکے اس رحمت خدا وندی کو پھوار کی شکل میں آپ پر نچھاور کئے جا رہے ہوں ۔۔۔ تو جہاز والے بھلےہی اسے خراب موسم کہیں ٗ میں یہ گناہِ کبیرہ ہر گزنہیں کر سکتا ۔۔۔ !
ہاں تو بات ہو رہی تھی بچے کو سردی لگنے کیٗ ممتا کی ماری مما نے اپنا دوپٹہ اس کو اوڑھا دیا۔ لیکن دوپٹہ اور وہ بھی فیشن ایبل قسم کا ٹشو جیسا مہینٗ بھلا بچے کو سردی سے کیسے بچا سکے گا؟ یہ بات اپنی سمجھ سے تو بالاتر تھی ہیٗ شائد اس کی مما کو بھی جلدی ہی اس بات کا احساس ہو گیا کیونکہ کچھ ہی دیر بعد اس نے دوپٹہ اتار کر بچے کو حکم دیا کہ جاؤ سامنے کاؤنٹر پر یونیفارم والے انکل سے پوچھ کر آؤ کہ what's the update ? and you will also get warmed up when you move aroundبچہ دوڑتا بلکہ اچھلتا کودتا ہوا گیا ٗ پوچھ کے آیا اور سب کی نظریں پہلے بچے کی طرف اور پھرمتعلقہ سائن بورڈ کی طرف اٹھ گئیں جس پر نیا متوقع وقت روانگی 11:30 درج تھا۔۔۔ ! مسافروں کے چہروں پر مایوسی کے سائے مزید گہرے ہو گئے۔ لیکن بچہ اب warm up ہو چکا تھا اور نت نئی شرارتیں کرنے لگا تھا۔ کبھی اپنے چھوٹے بھائی کو انگلش ایکشن فلموں کے ڈائیلاگ کے سے انداز میں مخاطب کرتاٗ کبھی مشہور کارٹون کرداروں کی طرح اداکاری کرنے لگتاٗ اور کبھی rock-n-roll ڈانسنگ شروع کر دیتا۔
ایک بات جو میں بہت دیر سے اور بہت بری طرح سے محسوس کر رہا تھا کہ میں نے اس بچے کی زبان سے اپنی قومی زبان اردو یا اپنی مادری زبان ٗ جو امکانِ غالب ہے کہ پنجابی ہی رہی ہو گیٗ کا ایک لفظ تک نہیں سنا تھا۔ شائد اس کی ۔۔ مادر ۔۔ ہی نہیں چاہتی تھی کہ وہ "گنواروں کی طرح "مادری زبان ہی بولے ! ۔ ۔ ۔ یا پھر شائد اس کا گھر اور اسکول کا ماحول بہت مختلف تھا اور ہمارے جیسے "اردو میڈیم" طبقہ کے فہم و ادراک سے بالاتر تھا۔ لیکن دراصل جو بات مجھے پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ جب یہ بچہ بلوغت اور جوانی میں قدم رکھے گا تو کیا اس کے پاس اپنے قومی تشخصٗ اپنی تاریخٗ اپنی تہذیبٗ اپنے دین ٗ اور اپنے آبا ؤ اجداد کی روایات میں سے بھی کچھ ہوگا یا نہیں۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور سیٹ کی پشت پر سر ٹکا دیا۔ اگلے ہی لمحے میں اس بچے کو ایک کامیاب اور پُر اعتماد بزنس مین کے روپ میں دیکھ رہا تھا۔ جو یہاں سے اے لیول کرنے کے بعد ہی امریکہ چلا گیا تھاٗ وہیں سے مزید تعلیم حاصل کیٗ بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا اور اب وہاں اس کا لاکھوں ڈالر کا بزنس ہے۔ کبھی کبھی وہاں کی پاکستانی کمیونٹی اسے کسی ایونٹ میں چیف گیسٹ کے طور پر بلاتی ہے تو وہ اپنی اینگلو اردو میں حب الوطنی پر اچھا خاصا لیکچر بھی دے ڈالتا ہے۔ امریکہ میں وہ ٗ اس کی امریکن بیوی اور بچے خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں !۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ کامیاب کون ہے؟ وہ لوگ جو مثبت روایات ٗ اقدار اور رشتوں ناطوں کی زنجیر وں میں بندھے رہتے ہیں۔ ماں باپٗ بہن بھائیٗ عزیز رشتہ دارٗ اور پھر اگلی نسلٗ دادا سے پوتے پڑپوتے تک ایک رشتہ ہے جو انہیں باہم جوڑ کر رکھتا ہے۔ یا پھر وہ لوگٗ جو یہ سب چھوڑ چھاڑ کرٗ بھول بھال کرٗ اپنی ذات اور اپنے بزنس میں مگنٗ نفسا نفسی کے عالم میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک دلخراش واقعہ سننے میں آیا کہ لاہور کے پوش علاقے سے ایدھی یا اسی نوعیت کے رفاہی ادارے کو ایک کال موصول ہوئی کہ ہمارے ہاں ایک death ہو گئی ہے۔ آپ please آ کر body لے جائیں۔ ہمارے لئے کفن دفن کا انتظام possible نہیں ہے۔ جب ایمبولینس متعلقہ گھر پہنچی تو دیکھا کہ گھر میں دو نو جوان لڑکے بیڈمنٹن کھیل رہے ہیں۔ پوچھنے پر ان میں سے ایک نے بتایا کہ ہمارے دادا فوت ہو گئے ہیں مما پپا UK میں ہوتے ہیں۔فلاں کمرے میں body پڑی ہےٗ لے جائیں۔۔۔ !
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں ؟!​
" یہ لو ! کیا سوچ میں ہے ؟" یہ عبدالباری کی آواز تھی جو مجھے اس بچے کی دنیا اور اس دادا پوتوں کے ماحول سے مجھے علامہ اقبال ٹرمینل لاہور کے لاؤنج میں واپس لے آئی۔ وہ مجھے چاکلیٹ پیش کرتے ہوئے مخاطب تھا۔ میں نے چاکلیٹ کا پیکٹ اس سے لے لیا اور لاؤنج کے شیشوں سے باہر کا منظر دیکھنے لگا۔ کالی گھٹاؤں کا گھور اندھیرا چھایا ہوا تھاٗ اور موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ یہ منظر صرف دیکھنے کے ہی نہیںٗ محسوس کرنے بلکہ enjoy کرنے کے قابل تھاٗ مگر ہم اس وقت لاؤنج میں "قید" تھے۔ میں لاہور میں یہ ساون رُت دیکھنے کو کئی دن سے ترس رہا تھا مگر ایک بار پھر رختِ سفر باندھا تو یہ منظر دیکھنے کو مل رہا تھا
کہاں دغا دے رہی ہے قسمتٗ وہ آ رہے ہیںٗ میں جا رہا ہوں !​
اب کے عبدالباری میرا پاس ہی بیٹھ گیا وہ پتہ نہیں کہاں سے کچھ تازہ ترین انفارمیشن لایا تھا کہ "چہ موسم زیادہ خراب ہوتا ہے خو پر جہاز نئیں جاتا ہے۔ پلائٹ کینسل ہوتا ہے۔" میں کہا اللہ مالک ہے ٗ جو ہو گا دیکھا جائے گاٗ۔۔۔۔ اور ہؤا یہ کہ پرواز کا نیا متوقع وقت 12:30 ڈسپلے پر فلیشنگ کرنے لگا !!!
 

سید زبیر

محفلین

یونس

محفلین
" قندھار میں چند روز ۔ ۔ ۔ 2 "

اب شائد ہماری قومی ائرلائن کے عملے کو ہم مسافروں پرترس آ گیا تھا کیوں کہ ایک باوردی جوان پلیٹوں میں سینڈوچ ، پیٹیز او رکیک پیس لئے کہیں سے نمودار ہؤا۔اور کوئٹہ جانے والی فلائٹ کے مسافروں کو پیش کرنے لگا۔ اس کام سے فراغت کے بعد جوں توں کر کے جماہیاں لے لے کر پہلو بدل بدل کر اپنے بارہ بجے تو کہیں جا کر ساڑھے بارہ بجنے میں آئے۔ خیر سے جہاز میں وارد ہوئے۔ کچھ ہی لمحے بعد جہاز رن وے پر رینگ رہا تھا۔ اگلے موڑ پر رُکا اور پھر اپنی تمام تر توانائیاں مجتمع کرتے ہوئے تیز دوڑنے کے بعد اُوپر کی جانب اُٹھا اور عین اسی لمحے مجھ سمیت کئی اور مسافرں کو دعائے سفر اور اس کے علاوہ اور بھی کئی دعائیں یاد آ گئیں۔
اورہم جیسوں کو دعائیں یاد آتی بھی ایسے وقت ہی ہیں ۔ ۔۔ !
ہم اس پروردگار کی ان گنت نعمتوں سے ہر لمحے مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اس دوران ایک لمحہ کی لئے بھی اُس خالق و مالک کی یاد نہیں آتی۔کبھی اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔ لیکن محض ایک دن، ایک گھڑی، بلکہ ایک لمحے کے لئے کوئی معمولی جسمانی تکلیف ، کسی خسارے گھاٹے، کسی خطرےکا امکان نظر آ رہا ہو تو مناجات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ وہ دعائیں بھی یاد آنے لگتی ہیں جو والدین نے ہمارے بچپن میں نہایت محنت سے رٹا رٹا کریاد کروائیں تھیں۔ یا پھر درسی یا دیگر کتب میں ، کہیں لکھی دیکھیں تھیں ! خودمیں آج کے معمولات کی طرف نظر کروں تو، صبح سے اب تک میں نے نماز فجر یا بالکل تھوڑے سے وقت کے لئے تلاوت قرآن پاک کے علاوہ اس ذات باری تعالیٰ کو کب یاد کیا ۔ اگرچہ اس کی کس کس نعمت سے فائدہ نہیں اٹھایا، مگر لب پر شکرانے کا ایک لفظ تک نہیں آیا۔ اور اب اس اُڑان کاایک معمولی سا جھٹکاکیا کیا کچھ یاد کروا گیا۔، شائد اس قدر بھولنے اور اتنا معمولی یاد رکھنے والے ناشکرےکو ہی اللہ نے 'انسان' کہا ہے۔۔۔
دو بجنے سے کچھ پہلے ہی ہم کوئٹہ انٹرنیشنل ائر پورٹ پہنچ چکے تھے۔ یہ تقریباً 1978 والے لاہور ائیرپورٹ کا منظر پیش کر رہاتھا۔ اسی دور کی سیڑھیوں کے ذریعے جہاز سے اترے اور پھراُسی طرح ہمیں ایک بس کے ذریعے جہاز سے ائیرپورٹ کی عمارت تک پہنچایا گیا۔ سامان والی کنوئیر پر نظریں گاڑے ہم اس کے قریب آکھڑے ہوئے۔ کچھ ہی دیر میں ہمارا سامان آ گیا اور ہم اسے اٹھائے خراماں خراماں باہر کی جانب چل دئیے۔ گیٹ پر عبدالباری کا کزن عبدالشافع ہمارا منتظر تھا۔ وہ ہمیں لے کر سیدھا پرنس روڈ پر واقع افغان ایمبیسی پہنچا۔ ویزا فارم لیا ، اسے پر کر کےمیری تصویریں منسلک کیں، فوٹو کا پیاں کروائیں، اور پاسپورٹ کے ساتھ عملے کے متعلقہ افراد کے حوالے کر دیں۔ لیکن ان کا طریقہ کار ہی ایسا تھا کہ مقررہ وقت کے اندر مکمل نہ ہو سکا۔اور آج کا کام کل پر چھوڑ کر ہم نزدیک ہی ڈاکٹر بانو روڈ پر واقع عبدالشافع کے بھائی کے دفتر چلے گئے۔ یہاں دوپہر کا کھانا ساڑھے چار بجے کھایا، چائےکی پیالیوں پر گپ شپ اور تعارف وغیرہ کا سلسلہ جاری رہا۔اب رات یہیں کوئٹہ میں گزارنے کا پروگرام تھا تاکہ صبح ویزا لگواکر پھر سفر جاری رکھا جا سکے۔ عبدالباری کا گھر یہاں سے کوئی چالیس پینتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر پشین میں ہے۔ اس لئے اس کو تو مزید بیٹھنا محال ہو رہا تھا۔ اس نے مجھے اپنے ساتھ گھر جانے کی آفر کی لیکن میں نے اس کی تکلیف کے خیال سےانکار کردیا۔ اب پھر عبدالشافع اور اس کے بھائی کے ساتھ گاڑی پر نکلے کہ مناسب ہوٹل ڈھونڈنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ گھومتے پھرتے تھک ہار کے آرٹ سکول روڈپر واقع ایک ہوٹل پسند آیا، جسے خاصے 'گریس مارکس 'دے کرمناسب کہا جا سکتا تھا !۔ مجھے یہاں آرام کرنے کے لئے چھوڑ کر وہ دونوںواپس روانہ ہو گئے۔ میں کچھ دیر کمرے میں بیٹھا، پھر غسل کیا اور تازہ دم ہو کر نیچے بازار میں گھومنے کے لئے نکل گیا۔
 
Top