اردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟ ڈاکٹر حسیب احمد کی بے مثال تحریر

اردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟... ڈاکٹر حسیب احمد
کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی آ واز کو زبان دی ہے محترم ڈاکٹر حسیب احمدصاحب نے ، اللہ ان کو دنیا اور آخرت کی کامیابیں عطا کرے آمین
خاکسار نے اس مضمون میں عنوانات دیے ہیں

اردو کے نفاذ کا مسئلہ کسی قومی، ملکی، یا نسلی عصبیت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ دراصل دینی، قومی، ملکی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔
اردو کا نفاذ - دینی مسئلہ
یہ دینی مسئلہ اس طرح ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ دینی لٹریچر اردو میں ہے۔ اردو فہمی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر استعماری اور ”غیر استعماری“ سازش کے تحت اردو زبان ختم ہو جاتی ہے تو ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اور حدیث میں تو کسی خاص زبان کی ترویج کا حکم نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی صریح ہدایت نہیں لیکن کسی چیز یا موضوع کا ابلاغ متعلقہ لوگوں کی اپنی زبان میں ہی کماحقہ ممکن ہے۔ اجنبی زبان میں لوگوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھایا جاسکتا۔
پاکستان میں اردو کا نفاذ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے اور بدیسی زبان کا نفاذ اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ مسلمان اللہ اور رسول کی تعلیمات سے قریب ہوں اور دنیاوی طور پر تمام مروجہ علوم و فنون کے ماہر۔ اب سوچ لیجیے کہ اگر قوم کے اوپر غیر ملکی زبان مسلط ہو جس پر عبور رکھنے والے دو چار فیصد سے زیادہ نہ ہوں تو کیا اس قوم کے نوجوان مروجہ علوم و فنون پر باآسانی صحیح طور پر عبور حاصل کر سکیں گے؟ اپنی زبان کے خاتمے یا کم فہمی کی وجہ سے کیا یہ نوجوان اپنے تہذیبی ورثے سے کٹ نہیں جائیں گے؟ اپنی زبان اور ادب سے بے بہرہ یہ نوجوان جب شعبہ تعلیم و تدریس میں آئیں گے تو کیا اپنے شاگردوں کو آسان زبان میں موضوع کو سمجھا سکیں گے یا کسی مذاکرے میں اپنا ما فی الضمیر سہل انداز میں پیش کر سکیں گے؟ کسی موضوع پر کوئی مضمون یا کتاب آسان اور عام فہم زبان میں لکھ سکیں گے؟ اب آپ خود سوچ لیں کہ جہاں انگریزی سمجھنے والے دو چار فیصد سے زیادہ نہ ہوں، وہاں دفتری امور نمٹانا اور تعلیم حاصل کرنا انگریزی میں آسان ہو گا یا اردو میں؟
اردو کے متعلق مولانا اشرف علی تھانوی کا 1939ء کا یہ فتویٰ بھی موجود ہے کہ ”اس وقت اردو زبان کی حفاظت حسبِ استطاعت واجب ہو گی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سستی کرنا معصیت اور موجبِ مواخذہٴ آخرت ہو گا“۔

غیر ملکی زبان بطور ذریعہ تعلیم
اب تو اردو کے لیے حالات اُس وقت سے بھی بدتر ہو گئے ہیں۔اگر قومی، ملکی اور سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو ذرا سوچیے کہ دنیا میں آپ کہیں ایک ملک کی بھی مثال دے سکتے ہیں، جس نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کو استعمال کر کے ترقی کی ہو؟ کرہٴ ارض پر ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ بلکہ جاپان کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ جب دوسری عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد امریکہ ”بہادر“ (فی الاصل بزدل) نے شہنشاہ جاپان سے پوچھا ”مانگو کیا مانگتے ہو؟“ تو دانا اور محب وطن شہنشاہ نے جواب دیا ”اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم“۔ اس لین دین کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ غرض جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ بلکہ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی ہے، اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے تو طالب علم کی تقریباً پچاس فیصد توانائی (بعض تو 70 اور 80 فیصد کہتے ہیں) دوسری زبان پر خرچ ہوتی ہے اور بقیہ 30 تا 50 فیصد نفس مضمون پر۔دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میٹرک اور انٹر میں ہمارے طلبہ و طالبات کی اکثریت کس مضمون میں ناکام (فیل) ہوتی ہے؟ جواب واضح ہے کہ انگریزی میں۔ پنجاب میں پچھلے دس سال کے نتائج کے مطابق میٹرک کے اوسطاً 46 فیصد طلبہ انگریزی میں فیل ہوئے اور انٹر کے 78 فیصد۔ ان طلبہ میں کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہو سکتی ہے جو انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین یا شعبوں میں اچھے ہوں اور آگے چل کر دوسرے شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس طرح ملک و قوم ہر سال معتد بہ تعداد میں اچھے اذہان سے محروم ہو جاتی ہے اور یہ بچے بھی ممکنہ سماجی و معاشی مرتبے سے محروم رہ جاتے ہیں
معاشی پہلو
۔پاکستان میں اردو کے نفاذ کا ایک معاشی پہلو یوں بھی ہے کہ ملک میں انگریزی سمجھنے والے دو چار فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ زبان (انگریزی) دراصل ہماری اشرافیہ یا ”کالے انگریزوں“ جرنیلوں اور نوکر شاہی کی زبان ہے۔ انگریزی ہی کی بدولت ان ان لوگوں کا اقتدار اور برتری ہے۔ اگر اردو پاکستان کی سرکاری زبان بن جاتی ہے تو ان کالے انگریزوں اور ان کی آنے والی نسلوں کا اقتدار اور برتری ختم ہو جائے گی۔ اگر اردو ہماری سرکاری زبان نہیں بنتی تو غریب اور متوسط طبقے کے بچے کلرک، مزدور اور چپراسی ہی بنیں گے، چاہے کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں، اور کلیدی اسامیاں مقتدر طبقے ہی کے بچوں کا مقدر بنیں گی۔ سی ایس ایس کے امتحان اردو میں نہ کروانے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امتحانی مراحل اور مصاحبوں (انٹرویو) میں وہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کی انگریزی اچھی ہوتی ہے، چاہے نفسِ مضمون میں وہ کتنے ہی کم زور کیوں نہ ہوں۔اردو اپنے حق کے مطابق اگر مروج نہیں ہو سکی ہے تو اس کا ایک معاشرتی نقصان یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی انگریزی اچھی نہ ہو وہ انگریزی جاننے والوں سے عموماً خود کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجتاً اپنی قوت کار کو گھٹا لیتے ہیں۔ دوسری طرف انگریزی جاننے اور اس کو اوڑھنا بچھونا بنا لینے والے خواہ مخواہ احساس برتری کا شکار ہو کر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی علمیت کا رعب جھاڑنا ان کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے، نیز وہ اپنی زبان کو بگاڑ لیتے ہیں۔ اور آج اپنی زبان کو مردہ کرنے کی یہ کوششیں کافی آگے بڑھ چکی ہیں۔ اردو، رومن انگریزی میں لکھی جانے لگی ہے بلکہ اب تو قبروں کے کتبے بھی انگریزی میں لکھے جانے لگے ہیں، خود راقم الحروف نے کراچی کے دو قبرستانوں میں یہ کتبے دیکھے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہماری یہی روش رہی تو اردو بس لگ بھگ بیس سال کی مہمان ہے۔جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ
اردو کا ماضی میں عروج
جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں تیس سال تک تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے رہے۔ یہ سلسلہ سقوط حیدرآباد تک جاری رہا جس کے بعد وہاں اردو ذریعہٴ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ بعد میں ایک غیر ملکی وفد نے وہاں کا دورہ کرنے کے بعد اردو ذریعہٴ تعلیم ختم کرنے کی وجہ پوچھی تو منتظمین کوئی جواب نہ دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جو واقعی بڑے لوگ گزرے ہیں (مثلاً ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب) ان کی بہت بڑی اکثریت اردو میڈیم کی پڑھی ہوئی ہے، انگریزی میڈیم نے کوئی بڑی شخصیت پیدا نہیں کی، الا ماشاء اللہ۔ جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی اپنے مضمون پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ انگلستان میں ایف آر سی ایس وغیرہ کے داخلہ ٹیسٹ سے ان کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ دراصل تخلیقی قوت اپنی ہی زبان سے آتی ہے۔ہمارے پڑوسی ملک میں آزادی کے بعد جب اسمبلی میں سرکاری زبان کے سلسلے میں رائے شماری ہوئی تو اردو اور ہندی کے ووٹ بالکل برابر ہو گئے۔ اس کے بعد اسپیکر کے فیصلہ کن ووٹ سے ہندی سرکاری زبان بن گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ ہر سال اپنی مردہ زبان سنسکرت کے کچھ الفاظ منتخب کر لیتے ہیں اور پھر میڈیا اور دوسرے ذرائع ان مردہ الفاظ کو عام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔آپ نے کسی انگریز یا امریکی کو انگلستان یا امریکہ میں نمبر (اعداد) اردو میں بتاتے ہوئے یا اپنی گفتگو میں جابجا اردو الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں، تو ان کے مقابلے میں تھوڑی بہت غیرت کا مظاہرہ تو ہمیں بھی کرنا چاہئے۔
دو واقعات
یہاں پر میں دو افراد کے واقعات نقل کر رہا ہوں جو کہ آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔ ایک معالج امراض ذہنی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسے انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں پڑھانے والے بھی انگریز تھے۔ اگر غلطی سے کوئی اردو کا لفظ زبان سے نکل جاتا تو بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔ پھر انٹر میں بھی ذریعہ تعلیم انگریزی ہی تھی۔ ایم بی بی ایس تو تھا ہی انگریزی میں۔ اسکے بعد وہ اسپیشلائزیشن کے لیے امریکہ چلے گئے۔ وہاں پڑوسی ملک میکسیکو (جو کہ امریکہ کے بالکل ساتھ لگا ہوا ہے) سے بھی ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آئے ہوئے تھے۔ ان ڈاکٹروں کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ڈاکٹر صاحب اپنی انگریزی دانی پر بہت خوش تھے کہ انہیں انگریزی آتی ہے اور میکسیکو والے ڈاکٹروں کو انگریزی نہیں آتی۔ وہ بتاتے ہیں کہ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھ ماہ کے اندر میکسیکو کے ڈاکٹروں نے انگریزی میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ اپنا کام بخوبی چلانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پھر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جو کام میں چھ مہینے کی محنت سے کر سکتا تھا، اس کے لیے میں اپنے تہذیبی ورثے، اقبال، غالب، میر، اکبر الہ آبادی وغیرہ سے کٹ گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی انگریزی پڑھنے کے باوجود ان کے لیے انگریزی کی نسبت اردو میں اظہار خیال کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اردو اپنی زبان ہے۔
دوسرا واقعہ
دوسرا واقعہ انگلستان کے ایک وزیر تعلیم کا ہے۔ ایک بار یہ صاحب پاکستان آئے، ہمارے کالے انگریزوں نے انہیں اپنے انگریزی میڈیم اسکولوں کا دورہ کرایا۔ دورے کے بعد ان سے پاکستانی بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیے جانے پر ان کے تاثرات پوچھے گئے۔ ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ صاحب اس بات سے بہت خوش ہوں گے لیکن انہوں نے جو جواب دیا وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنے ملک میں ایسا کرتا کہ کسی غیر ملکی زبان میں طلبہ کو تعلیم دلواتا تو دو جگہوں میں سے ایک جگہ مجھے ضرور جانا پڑتا، پھانسی گھاٹ یا پھر پاگل خانہ۔ بقول ان کے دوسری زبان میں تعلیم دینے سے بچے کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔اس مسئلے کو ایک اور مثال سے سمجھئے۔ فرض کریں، آپ اپنے دوست کے ساتھ جا رہے ہیں، آپ کی جیب میں دو سو تیس روپے ہیں۔ راستے میں آپ کو کوئی چیز خریدنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے جس کی قیمت دو سو چالیس روپے ہے۔ اب اگر آپ دوست سے دس روپے قرض لیتے ہیں تو کیا یہ جائز ہوگا؟ یقینا آپ کہیں گے کہ اس قرض میں کوئی برائی نہیں، اور واقعتاً نہیں ہے۔ اب ذرا معاملے کو اس طرح دیکھئے کہ آپ کو جو چیز خریدنی ہے اس کی قیمت صرف دس روپے ہے۔ اپنی جیب میں دو سو تیس روپے رکھتے ہوئے بھی اگر آپ دوست سے دس روپے مانگیں تو کیا یہ جائز ہوگا؟ یقینا نہیں

لسانی قرض“
۔ زبان کے مسئلے کو بھی اسی طرح دیکھئے۔ جو الفاظ ہماری اپنی زبان میں ہیں، ان کی جگہ ہمیں دوسری زبان کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ غلط اور بلاضرورت قرضوں نے ہمارے پیارے وطن کا کیا حال کر دیا ہے؟ ”لسانی قرض“ بھی کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی فلاح کے لیے صرف روحانی طور پر ہی نہیں بلکہ لسانی طور پر بھی اپنی اصل کی طرف پلٹنا چاہیے


آئینی پہلو
۔پاکستان میں اردو کا نفاذ صرف سیاسی ہی نہیں آئینی پہلو سے بھی اہم ہے۔ پاکستان کے ہر آئین میں اردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کسی قوم اور ملک کی نہایت اہم اور مقدس دستاویز ہوتی ہے جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان کے 1973ء کے آئین کی دفعہ نمبر 251 میں ان الفاظ میں اردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ تاریخ اجرا (14 اگست 1973ء) سے پندرہ سال (یعنی 88ء تک) کے اندر سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے اس کے استعمال کا انتظام کیا جائے گا۔تو ہمارے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق یا پھر المیہ ہے کہ ہماری قومی زبان الگ ہے اور سرکاری زبان الگ، لیکن ہم اس تضاد کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہم نے اس کو زندگی کا لازمہ سمجھ لیا ہے۔
سیاسی پہلو
دراصل اردو کے نفاذ سے اقتدار نیچے تک یعنی عوام کو منتقل ہو جائے گا۔ شاید یہی امر اردو کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔کوئی بھی دانش مند انسان یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنا سو فیصد وقت اردو کے نفاذ کے لیے وقف کر دیں۔ نہیں ہرگز یہ ہمارا مقصد نہیں کہ اپنی نوکری، اہل خانہ اور سماجی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر بس، اردو کی ترویج میں لگ جائیں۔ ہمیں اردو کے نفاذ کی کوششوں کے لیے اپنا پچاس فیصد یا پچیس فیصد بلکہ دس فیصد وقت بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک فیصد وقت تو اس کام کا حق بنتا ہے۔ یہ بھی دین اور ملک کی اہم خدمت ہے، بلکہ ایسی خدمت جو اہم ہونے کے باوجود توجہ سے محروم ہے۔ہم نے انگریزی (بمقابلہ اردو) کے لیے جو کچھ کہا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انگریزی کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اور ہم انگریزی سے بالکل قطع تعلق کر لیں۔ فی زمانہ انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ اگر ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی ہو گی۔ ہم صرف انگریزی کے ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان بنانے کے مخالف ہیں، بطور مضمون انگریزی کے مخالف نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لیے اصل کتب کے اردو تراجم ہونے چاہئیں۔ لیکن یہ کام سرکاری سرپرستی چاہتا ہے جس کے لیے ہمیں کوشش کرنی پڑے گی۔ یاد رکھیے! ہمارے بعد جو لوگ آ رہے ہیں وہ اس مسئلے کی اہمیت کو بالکل نہیں جانتے۔ یعنی یہ کام اگر ہم نے کر لیا یا کرانے کی کوشش کرتے رہے تو ٹھیک ہے، ورنہ بعد میں یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جائے گا اور وقت نکل جائے گا جو ابھی ہمارے پاس ہے۔ ذرا سوچئے، ہمارا ملک ایک ایسے ملک کے طور پر شناخت کیا جائے گا جس کی زمین، فصلیں، ثقافت، لباس، غذائیں تو اپنی ہوں، اور زبان اپنی نہ ہو۔ بلاشبہ اگر آپ کو اردو سے محبت ہے تو اردو کی محبت میں یہ کام کریں۔ اگر آپ کو پاکستان سے محبت ہے تو آپ پاکستان کی ترقی و استحکام کے لیے یہ کام کریں۔


روحانی بابا ،
 
آخری تدوین:
بہت ساری باتیں ہضم ہونے والی نہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے بے پر کی بہت ہانکی ہے۔
آپ تھوڑا نشاندہی کریں گے، تاکہ میری طرح ،مزید پڑھنے والے غلط ارا سے متفق نہ ہو جائیں، کہ ہر کوئی آ پ کی طرح صاحب نظر نہیں ہوتا کم از کم مجھے تو اس میں کچھ ایسا نظر نہیں آیا
 

اسد

محفلین
اس مضمون سے قطع نظر، ساری دنیا بنیادی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنے پر متفق ہے، یہ معاملہ اونٹ ہے۔ دوسری چیز اردو بطور سرکاری زبان ہے، یہ معاملہ بِلّی ہے۔
پہلے اصل سیاسی معاملہ: پاکستان میں کچھ لوگ مادری زبان کو اردو زبان کا نام دے دیتے ہیں، کیوں؟ اردو کتنے پاکستانیوں کی مادری زبان ہے؟ سرکاری/سیاسی معاملات میں پاکستان میں صوبائی عصبیت سب سے بڑی چیز ہے اور پنجاب دشمنی کمائی اور کامیابی کا راستہ، کالا باغ ڈیم ہم سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کی نصف آبادی پنجابی ہے۔ اب پنجاب وہ صوبہ ہے جہاں انتہائی اکثریت اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل نہیں کرتی، کیونکہ پنجاب میں ذریعۂ تعلیم اردو ہے۔ پنجابیوں کی اکثریت کے لئے یہ ایک 'غیر ملکی' زبان ہے، ان لوگوں نے اس زبان کی محبت میں اپنی زبان میں تعلیم چھوڑ دی، انہیں کیا ملا؟ اب اگر پاکستان کی نصف آبادی ایک 'غیر ملکی' زبان چھوڑ کر دوسری 'غیر ملکی' زبان میں تمام تعلیم حاصل کرے گی تو انہیں کیا فرق پڑے گا؟ چند نسلیں پہلے یہ کام کر چکے ہیں، نئی نسل بھی کر لے گی۔ باقی پاکستان چاہے کچھ بھی کر لے، جب تک پنجاب اس کی حمایت (حقیقت میں) نہیں کرے گا کچھ نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھیں کہ آج پنجاب اور پنجابی جس جگہ ہیں اس کے لئے انہوں نے اپنی زبان میں تعلیم کی قربانی دی ہے (انہوں نے دوسروں کی طرح تین نہیں صرف دو زبانیں پڑھی ہیں)۔ اب نئے پنجابی لیڈروں کی سوچ یہ ہو گئی ہے کہ 'سب سے پہلے پنجاب'، انہیں معلوم ہے کہ اگر ذریعۂ تعلیم انگلش ہو جائے تو سب سے زیادہ فائدہ پنجاب کو پہنچے گا۔ پنجابی فیصدی تعداد کے اعتبار سے انگلش میں بھی آگے ہیں، اگر اردو سرکاری زبان بنے گی تو دوسرے صوبوں کو فائدہ ہو گا اور پنجاب کو نقصان۔ اس بارے میں کوئی کیوں نہیں لکھتا یا بولتا؟ سندھ میں اردو اہلِ زبان کی خاصی تعداد ہے، ابھی تک انہوں نے سندھی کی لازمی تعلیم سے جان کیوں نہیں چھڑائی؟ سندھ میں ہمارے رشتہ‌دار سندھی زبان پڑھنے کا رونا روتے رہتے تھے، اب کیا سندھ میں مقیم اردو اہل زبان کے آنسو خشک ہو گئے ہیں؟ اس کام کا ایک وقت تھا(اردو کو سرکاری زبان بنانا) اور میرے خیال میں اس وقت کو گزرے دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اردو ذریعۂ تعلیم کی بات ہے تو میں اس کے حق میں ہوں۔ اردو سرکاری زبان کی بات ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کسی بھی معاملے کے اونٹ کی فروخت ناکام بنانے کا آسان ترین طریقہ اس کے گلے سے ناقابلِ فروخت بِلی لٹکا دینا ہوتا ہے، یہ دو چیزیں ایک ساتھ کیوں مانگی جاتی ہیں؟ تاکہ کچھ بھی حاصل نہ ہو؟ یا کوئی اور وجہ ہے۔
معیار تعلیم کا معاملہ: کچھ لوگ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صرف زبان کی وجہ سے معیار تعلیم گر رہا ہے، دوسری کوئی وجہ نہیں ہے۔ کیا ہمارے نظامِ تعلیم کوئی خرابی نہیں ہے؟ ان خرابیوں کو دور کرنے کی سعی کیوں نہیں کی جاتی؟ زبان چاہے کوئی بھی ہو، جب تک نظام کی خرابیاں دور نہیں کی جائیں گی حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ آغا خان بورڈ کی مخالفت صرف اس لئے کی گئی کہ ان کا معیار مقامی/صوبائی تعلیمی بورڈ سے بہتر تھا، بہانہ وہی تھا جو ہر دوسرے نامعقول کام کا بتایا جاتا ہے، اسلام خطرے میں ہے۔

مضمون کے بارے میں: مضمون کے مفہوم سے تو میں 'شاید' اتفاق کرتا ہوں(شاید اس لئے کہ مجھے یقین نہیں کہ میں اصل مقصد سمجھ سکا ہوں)۔ لیکن جو کچھ لکھا گیا ہے اس پر میرے کچھ تحفظات ہیں۔ بات تو یہ ہے کہ آج کے دور میں انٹرنیٹ کے لئے کچھ لکھنا بالکل مختلف چیز ہوتی ہے، ویکیپیڈیا پر دیکھ لیں ایک ایک مضمون میں پچاس پچاس حوالے اور ان کے روابط دیے ہوتے ہیں۔ میں جب تحریر میں کوئی اقتباس یا واقعے کا ذکر دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک ہی سوال آتا ہے، کیا یہ سچ ہے یا لکھنے والے نے زیبِ داستاں کے لئے گھڑ لیا ہے؟ مکمل جھوٹ ہے یا رومال کا شامیانہ بنایا گیا ہے؟ اصل مضمون لکھا ہے یا اپنی مرضی کا مطلب اخذ کیا ہے؟ اس مضمون میں کئی اقتباسات ہیں یا واقعات کا ذکر ہے، یہ میں کہاں دیکھ سکتا ہوں؟ دوسروں کے بارے میں میں نہیں جانتا لیکن انتہائی دینی معاملات کے علاوہ اگر احادیث، فتوے یا مذہبی اقوال نظر آتے ہیں تو میرے ذہن میں 'مذہبی بلیک میلنگ' کے الفاظ گونجنے لگتے ہیں۔ میں اس کا مطلب یہ لیتا ہوں کہ بات کرنے والے کے پاس منطقی جواز اور دلائل نہیں ہیں اور وہ میرے اعتراضات پر پیشگی مذہبی پابندی لگانا چاہتا ہے۔
اففف، ڈاکٹر عبدالقدیر خان: اب میں کیا لکھوں؟ کہاں سر پھوڑوں؟ بڑے لوگ = ڈاکٹر عبدالقدیر خان o_O :eek: کوئی دوسرا اردو میڈیم نہیں ملا تھا؟
انگلش میں قبروں کے کتبے: مضمون نگار نے شاید حال ہی میں دیکھے ہوں لیکن کراچی میں کئی برادریوں کے خاندانوں کے لوگ مکمل انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھے ہیں، انہیں اردو پڑھنا نہیں آتی۔ ان کی نئی نسل کے کچھ لوگوں کو اپنی مادری زبان پڑھنی نہیں آتی، یہ لوگ کتبے کس زبان میں لکھوائیں گے؟ اس سے اردو بیس سال میں ختم ہونے کا نتیجہ اخذ کرنے والے ماہرین کا نام میں ضرور جاننا چاہوں گا۔ کراچی میں تو میں بھی اس جگہ جمعہ کی نماز ادا کر چکا ہوں جہاں انگلش میں وعظ کیا جاتا ہے، ان ماہرین کو پتہ نہ چل جائے ورنہ پتہ نہیں کیا نتیجہ اخذ کریں۔
 

arifkarim

معطل
اردو ایک اسلامی مذہبی زبان ہے۔ سائنس مذہب کی ضد ہے اسلئے جدید سائنس کو محض اردو میں نہیں پڑھا سمجھا جا سکتا۔ اسکے لئے انگریزی کا استعمال کریں۔
 
اس مضمون سے قطع نظر، ساری دنیا بنیادی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنے پر متفق ہے، یہ معاملہ اونٹ ہے۔ دوسری چیز اردو بطور سرکاری زبان ہے، یہ معاملہ بِلّی ہے۔
پہلے اصل سیاسی معاملہ: پاکستان میں کچھ لوگ مادری زبان کو اردو زبان کا نام دے دیتے ہیں، کیوں؟ اردو کتنے پاکستانیوں کی مادری زبان ہے؟ سرکاری/سیاسی معاملات میں پاکستان میں صوبائی عصبیت سب سے بڑی چیز ہے اور پنجاب دشمنی کمائی اور کامیابی کا راستہ، کالا باغ ڈیم ہم سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کی نصف آبادی پنجابی ہے۔ اب پنجاب وہ صوبہ ہے جہاں انتہائی اکثریت اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل نہیں کرتی، کیونکہ پنجاب میں ذریعۂ تعلیم اردو ہے۔ پنجابیوں کی اکثریت کے لئے یہ ایک 'غیر ملکی' زبان ہے، ان لوگوں نے اس زبان کی محبت میں اپنی زبان میں تعلیم چھوڑ دی، انہیں کیا ملا؟ اب اگر پاکستان کی نصف آبادی ایک 'غیر ملکی' زبان چھوڑ کر دوسری 'غیر ملکی' زبان میں تمام تعلیم حاصل کرے گی تو انہیں کیا فرق پڑے گا؟ چند نسلیں پہلے یہ کام کر چکے ہیں، نئی نسل بھی کر لے گی۔ باقی پاکستان چاہے کچھ بھی کر لے، جب تک پنجاب اس کی حمایت (حقیقت میں) نہیں کرے گا کچھ نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھیں کہ آج پنجاب اور پنجابی جس جگہ ہیں اس کے لئے انہوں نے اپنی زبان میں تعلیم کی قربانی دی ہے (انہوں نے دوسروں کی طرح تین نہیں صرف دو زبانیں پڑھی ہیں)۔ اب نئے پنجابی لیڈروں کی سوچ یہ ہو گئی ہے کہ 'سب سے پہلے پنجاب'، انہیں معلوم ہے کہ اگر ذریعۂ تعلیم انگلش ہو جائے تو سب سے زیادہ فائدہ پنجاب کو پہنچے گا۔ پنجابی فیصدی تعداد کے اعتبار سے انگلش میں بھی آگے ہیں، اگر اردو سرکاری زبان بنے گی تو دوسرے صوبوں کو فائدہ ہو گا اور پنجاب کو نقصان۔ اس بارے میں کوئی کیوں نہیں لکھتا یا بولتا؟ سندھ میں اردو اہلِ زبان کی خاصی تعداد ہے، ابھی تک انہوں نے سندھی کی لازمی تعلیم سے جان کیوں نہیں چھڑائی؟ سندھ میں ہمارے رشتہ‌دار سندھی زبان پڑھنے کا رونا روتے رہتے تھے، اب کیا سندھ میں مقیم اردو اہل زبان کے آنسو خشک ہو گئے ہیں؟ اس کام کا ایک وقت تھا(اردو کو سرکاری زبان بنانا) اور میرے خیال میں اس وقت کو گزرے دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اردو ذریعۂ تعلیم کی بات ہے تو میں اس کے حق میں ہوں۔ اردو سرکاری زبان کی بات ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کسی بھی معاملے کے اونٹ کی فروخت ناکام بنانے کا آسان ترین طریقہ اس کے گلے سے ناقابلِ فروخت بِلی لٹکا دینا ہوتا ہے، یہ دو چیزیں ایک ساتھ کیوں مانگی جاتی ہیں؟ تاکہ کچھ بھی حاصل نہ ہو؟ یا کوئی اور وجہ ہے۔
معیار تعلیم کا معاملہ: کچھ لوگ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صرف زبان کی وجہ سے معیار تعلیم گر رہا ہے، دوسری کوئی وجہ نہیں ہے۔ کیا ہمارے نظامِ تعلیم کوئی خرابی نہیں ہے؟ ان خرابیوں کو دور کرنے کی سعی کیوں نہیں کی جاتی؟ زبان چاہے کوئی بھی ہو، جب تک نظام کی خرابیاں دور نہیں کی جائیں گی حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ آغا خان بورڈ کی مخالفت صرف اس لئے کی گئی کہ ان کا معیار مقامی/صوبائی تعلیمی بورڈ سے بہتر تھا، بہانہ وہی تھا جو ہر دوسرے نامعقول کام کا بتایا جاتا ہے، اسلام خطرے میں ہے۔

مضمون کے بارے میں: مضمون کے مفہوم سے تو میں 'شاید' اتفاق کرتا ہوں(شاید اس لئے کہ مجھے یقین نہیں کہ میں اصل مقصد سمجھ سکا ہوں)۔ لیکن جو کچھ لکھا گیا ہے اس پر میرے کچھ تحفظات ہیں۔ بات تو یہ ہے کہ آج کے دور میں انٹرنیٹ کے لئے کچھ لکھنا بالکل مختلف چیز ہوتی ہے، ویکیپیڈیا پر دیکھ لیں ایک ایک مضمون میں پچاس پچاس حوالے اور ان کے روابط دیے ہوتے ہیں۔ میں جب تحریر میں کوئی اقتباس یا واقعے کا ذکر دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک ہی سوال آتا ہے، کیا یہ سچ ہے یا لکھنے والے نے زیبِ داستاں کے لئے گھڑ لیا ہے؟ مکمل جھوٹ ہے یا رومال کا شامیانہ بنایا گیا ہے؟ اصل مضمون لکھا ہے یا اپنی مرضی کا مطلب اخذ کیا ہے؟ اس مضمون میں کئی اقتباسات ہیں یا واقعات کا ذکر ہے، یہ میں کہاں دیکھ سکتا ہوں؟ دوسروں کے بارے میں میں نہیں جانتا لیکن انتہائی دینی معاملات کے علاوہ اگر احادیث، فتوے یا مذہبی اقوال نظر آتے ہیں تو میرے ذہن میں 'مذہبی بلیک میلنگ' کے الفاظ گونجنے لگتے ہیں۔ میں اس کا مطلب یہ لیتا ہوں کہ بات کرنے والے کے پاس منطقی جواز اور دلائل نہیں ہیں اور وہ میرے اعتراضات پر پیشگی مذہبی پابندی لگانا چاہتا ہے۔
اففف، ڈاکٹر عبدالقدیر خان: اب میں کیا لکھوں؟ کہاں سر پھوڑوں؟ بڑے لوگ = ڈاکٹر عبدالقدیر خان o_O :eek: کوئی دوسرا اردو میڈیم نہیں ملا تھا؟
انگلش میں قبروں کے کتبے: مضمون نگار نے شاید حال ہی میں دیکھے ہوں لیکن کراچی میں کئی برادریوں کے خاندانوں کے لوگ مکمل انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھے ہیں، انہیں اردو پڑھنا نہیں آتی۔ ان کی نئی نسل کے کچھ لوگوں کو اپنی مادری زبان پڑھنی نہیں آتی، یہ لوگ کتبے کس زبان میں لکھوائیں گے؟ اس سے اردو بیس سال میں ختم ہونے کا نتیجہ اخذ کرنے والے ماہرین کا نام میں ضرور جاننا چاہوں گا۔ کراچی میں تو میں بھی اس جگہ جمعہ کی نماز ادا کر چکا ہوں جہاں انگلش میں وعظ کیا جاتا ہے، ان ماہرین کو پتہ نہ چل جائے ورنہ پتہ نہیں کیا نتیجہ اخذ کریں۔

محترم اسد بھائی
آپ کی تحریر کے مرکزی نکات (میرے مطابق)
۱- ساری دنیا بنیادی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنےپرمتفق ہے
۲- پنجابیوں کی اکثریت کے لئے یہ ایک 'غیر ملکی' زبان ہے ، ان لوگوں نے اس زبان کی محبت میں اپنی زبان میں تعلیم چھوڑ دی، انہیں کیا ملا (یعنی اب پنجابیوں نے اسے اپنا لیا ہے )
3- اس کام کا ایک وقت تھا(اردو کو سرکاری زبان بنانا) اور میرے خیال میں اس وقت کو گزرے دہائیاں گزر چکی ہیں۔
4- کسی بھی معاملے کے اونٹ کی فروخت ناکام بنانے کا آسان ترین طریقہ اس کے گلے سے ناقابلِ فروخت بِلی لٹکا دینا ہوتا ہے، یہ دو چیزیں ایک ساتھ کیوں مانگی جاتی ہیں؟ تاکہ کچھ بھی حاصل نہ ہو؟ یا کوئی اور وجہ ہے
5- کچھ لوگ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صرف زبان کی وجہ سے معیار تعلیم گر رہا ہے، دوسری کوئی وجہ نہیں ہے
6- واقعات کی صداقت کو پرکھنا؟؟
7- منطقی جواز اور دلائل نہیں ہیں اور وہ میرے اعتراضات پر پیشگی مذہبی پابندی لگانا چاہتا ہے۔
8- ڈاکٹر قدیر بڑے آدمی ہیں یا ںہیں ، آ پ نے مضحکہ خیز انداز میں ذکر کیا یعنی آپ متفق نہیں ہیں ؟؟
9- اس سے اردو بیس سال میں ختم ہونے کا نتیجہ اخذ کرنے والے ماہرین کا نام میں ضرور جاننا چاہوں گا
تو میں پہلے سب سے اہم نکتے پر بات کرنا چاہوں گا
واقعات اور بیانات یا دلائل کی صداقت اور قابل اعتبار ہونے کو پرکھنا
تو عرض ہے کہ آپ کے 1 2 3 4 بیانات بھی ۱-حوالہ طلب ہیں یا 2- دلائل کے بغیر ہیں ،
یا تو آپ حوالہ دیں یا عقلی دلائل سے بات کریں -
باقی بات پھر ہوگی انشا اللہ
 
اردو ایک اسلامی مذہبی زبان ہے۔ سائنس مذہب کی ضد ہے اسلئے جدید سائنس کو محض اردو میں نہیں پڑھا سمجھا جا سکتا۔ اسکے لئے انگریزی کا استعمال کریں۔
عارف کریم بھائی سائنس مذہب کی ضد ہے یہ کہاں کا سچ ہے؟ پھر کونسا مذہب ضد ہے ؟ اور کیا ہر بات میں سائنس اور مذہب متصادم ہیں ؟
 

اسد

محفلین
...
تو عرض ہے کہ آپ کے 1 2 3 4 بیانات بھی ۱-حوالہ طلب ہیں یا 2- دلائل کے بغیر ہیں ،
یا تو آپ حوالہ دیں یا عقلی دلائل سے بات کریں - ...
:D
1- ساری دنیا بنیادی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنےپرمتفق ہے بحوالہ اردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟... ڈاکٹر حسیب احمد
... دنیا میں آپ کہیں ایک ملک کی بھی مثال دے سکتے ہیں، جس نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کو استعمال کر کے ترقی کی ہو؟ کرہٴ ارض پر ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ ...
... غرض جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ بلکہ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی ہے، اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے تو طالب علم کی تقریباً پچاس فیصد توانائی (بعض تو 70 اور 80 فیصد کہتے ہیں) دوسری زبان پر خرچ ہوتی ہے اور بقیہ 30 تا 50 فیصد نفس مضمون پر۔ ...

اگر آپ کے خیال میں یہ جھوٹ یا کم از کم غلط ہے تو ضرور بتائیں۔

2- پنجابیوں کی اکثریت کے لئے یہ ایک 'غیر ملکی' زبان ہے ، ان لوگوں نے اس زبان کی محبت میں اپنی زبان میں تعلیم چھوڑ دی، انہیں کیا ملا
میں سمجھ نہیں سکا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ میں نے ایک سوال پوچھا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ میں اس سوال کا حوالہ دوں یا عقلی دلائل دوں :confused:
یہ ایک چیز ہوتی ہے کہ کچھ کہنے یا لکھنے والا، سننے یا پڑھنے والے کی سوچ جگانا چاہتا ہے۔ اس موضوع کے دو (یا زاید) پہلو ہیں اور اس کا جواب پڑھنے والے کی سوچ پر منحصر ہے، میں ان دونوں (یا زیادہ) جوابات کا احترام کرتا ہوں۔ میرا جواب کچھ اور ہے لیکن اگر آپ کے خیال میں اس کا جواب 'یعنی اب پنجابیوں نے اسے اپنا لیا ہے' ہے، تو یہ آپ کا حق ہے۔

3- اس کام کا ایک وقت تھا(اردو کو سرکاری زبان بنانا) اور میرے خیال میں اس وقت کو گزرے دہائیاں گزر چکی ہیں۔ بحوالہ اردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟... ڈاکٹر حسیب احمد
... پاکستان کے 1973ء کے آئین کی دفعہ نمبر 251 میں ان الفاظ میں اردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ تاریخ اجرا (14 اگست 1973ء) سے پندرہ سال (یعنی 88ء تک) کے اندر سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے اس کے استعمال کا انتظام کیا جائے گا۔ ...
کیا 1988 گزرے دہائیاں نہیں ہوئیںِ؟

4- کسی بھی معاملے کے اونٹ کی فروخت ناکام بنانے کا آسان ترین طریقہ اس کے گلے سے ناقابلِ فروخت بِلی لٹکا دینا ہوتا ہے، یہ دو چیزیں ایک ساتھ کیوں مانگی جاتی ہیں؟ تاکہ کچھ بھی حاصل نہ ہو؟ یا کوئی اور وجہ ہے
یہ میں نے بچپن میں پڑھے ہوئے ایک قصے سے اخذ کیا تھا (جس کا حوالہ مجھے یاد نہیں)۔ اس قصے میں ایک بدو کا ذکر ہے جسے کسی وعدے کے ایفا کے لئے اپنا ہزار سکے مالیت کا سرخ اونٹ ایک سکے میں بیچنا تھا، ایک سکے میں اس قیمتی اونٹ کے درجنوں خریدار ہوتے۔ اس نے مکر کرتے ہوئے اس اونٹ کے گلے میں ایک بلی لٹکا دی یا باندھ دی اور خریداروں سے کہا کہ اونٹ ایک سکے کا ہے لیکن بلی ایک ہزار سکے کی اور دونوں کو اکٹھا خریدنا لازم ہے۔
میرے خیال میں تو اس قصے کا مقصد مکاری سکھانا تھا لیکن کتاب میں اسے 'ہوشیاری' لکھا تھا۔ بچپن سے اسی قسم کے منفی، کراہیت انگیز قصوں کو پڑھ پڑھ کر میرے خیالات اس طرح کے ہو گئے ہیں، جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے: 'میں جب تحریر میں کوئی اقتباس یا واقعے کا ذکر دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک ہی سوال آتا ہے، ... اصل مضمون لکھا ہے یا اپنی مرضی کا مطلب اخذ کیا ہے؟'

4- کسی بھی معاملے کے اونٹ کی فروخت ناکام بنانے کا آسان ترین طریقہ اس کے گلے سے ناقابلِ فروخت بِلی لٹکا دینا ہوتا ہے، یہ دو چیزیں ایک ساتھ کیوں مانگی جاتی ہیں؟ تاکہ کچھ بھی حاصل نہ ہو؟ یا کوئی اور وجہ ہے
اگر اردو میں بنیادی تعلیم کا حدف حاصل کیا جا سکتا ہے تو صرف اس پر زور کیوں نہیں دیا جاتا۔ اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کا مشکل کام اس کے ساتھ جوڑ کر اردو میں بنیادی تعلیم کا حدف کھونے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ یہاں بھی میں نے جواب مانگا ہے۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
عارف کریم بھائی سائنس مذہب کی ضد ہے یہ کہاں کا سچ ہے؟ پھر کونسا مذہب ضد ہے ؟ اور کیا ہر بات میں سائنس اور مذہب متصادم ہیں ؟
جدید سائنس اپنے حقائق انسانی مشاہدات و مادی تجربات سے اخذ کرتی ہے۔ یہ حقائق ان مشاہدات و تجربات کی رو سے بدلتے رہتے ہیں۔ جیسے 19ویں صدی کی فزکس اور تھی، 20 ویں کی فزکس اور، جبکہ 21 ویں صدی کی فزکس اس سے بالکل مختلف ہوگی۔ یعنی جوں جوں ہمارا قدرت کا مشاہدہ، معائینہ وقت کیساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے ہمارے سائنسی نظریات اور حقائق میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اسے سائنسی ترقی یا ارتقا کہا جاتا ہے۔
مذہب سائنس کی ضد اسلئے ہے کیونکہ اسمیں دلائل سیدھا انسانی مشاہدات وتجربات سے اخذ نہیں کئے جاتے بلکہ ہزاروں سال پرانی الہامی کتب کی تشریحات پر مبنی ہوتے ہیں۔ یعنی جو تعلیم ان میں موجود ہے وہ پتھر کی لکیر ہے اور ان میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ قریبا یہی حال تمام ادیان و مذاہب کا ہے جسکی وجہ سے سائنس اور مذاہب کا آپس میں تصادم ہوتا ہے۔
 
جدید سائنس اپنے حقائق انسانی مشاہدات و مادی تجربات سے اخذ کرتی ہے۔ یہ حقائق ان مشاہدات و تجربات کی رو سے بدلتے رہتے ہیں۔ جیسے 19ویں صدی کی فزکس اور تھی، 20 ویں کی فزکس اور، جبکہ 21 ویں صدی کی فزکس اس سے بالکل مختلف ہوگی۔ یعنی جوں جوں ہمارا قدرت کا مشاہدہ، معائینہ وقت کیساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے ہمارے سائنسی نظریات اور حقائق میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اسے سائنسی ترقی یا ارتقا کہا جاتا ہے۔
مذہب سائنس کی ضد اسلئے ہے کیونکہ اسمیں دلائل سیدھا انسانی مشاہدات وتجربات سے اخذ نہیں کئے جاتے بلکہ ہزاروں سال پرانی الہامی کتب کی تشریحات پر مبنی ہوتے ہیں۔ یعنی جو تعلیم ان میں موجود ہے وہ پتھر کی لکیر ہے اور ان میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ قریبا یہی حال تمام ادیان و مذاہب کا ہے جسکی وجہ سے سائنس اور مذاہب کا آپس میں تصادم ہوتا ہے۔
کچھ فورم پر تو الحادکا بہت زور ہے پتہ نہیں اس فورم میں کیا صورتحال ہے
آپ سے پھر بات ہو گی موضوع پر فی الحال یہ پڑھ لیں کیونکہ بات مذہب کی آ گی ہے تو ۔ اور اپنے تاثرات بتائیے گا اور اپنا تعارٖف بھی کہ اس لحاظ سے آپ سے ابلاغ میں آسانی ہو
حیرت انگیز قرآن
تحریر: پروفیسرگیری ملر
اساک یونی ورسٹی، ترکی
ترجمہ: ذکی الرحمن غازی ندوی

‘‘قرآن حیرت انگیز کتاب ہے ’’۔اس بات کا اعتراف صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلم حضرات حتیٰ کہ اسلام کے کھلے دشمن بھی کرتے ہیں۔ عموماً اس کتاب کو پہلی با ر باریکی سے مطالعہ کرنے والوں کو اس وقت گہرا تعجب ہوتا ہے جب ان پر منکشف ہوتا ہے کہ یہ کتاب فی الحقیقت ان کے تمام سابقہ مفروضات اور توقعات کے برعکس ہے۔ یہ لوگ فرض کیے ہوتے ہیں کہ چونکہ یہ کتاب چودہ صدی قبل کے عربی صحراء کی ہے اس لیے لازماً اس کا علمی اور ادبی معیار کسی صحراء میں لکھی گئی قدیم، مبہم اور ناقابلِ فہم تحریر کا سا ہوگا۔ لیکن اس کتاب کو اپنی توقعات کے خلاف پاکر ان کو گہرا تعجب ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے پہلے سے تیار مفروضہ کے مطابق ایسی کتاب کے تمام موضوعات اور مضامین کا بنیادی خیال یا عمود صحراء اور اس کی مختلف تفصیلات مثلاً صحرائی مناظر کی منظر کشی، صحرائی نباتات کا بیان،صحرائی جانوروں کی خصوصیات وغیرہ ہو نا چاہیے۔ لیکن قرآن اس باب میں بھی مستثنیٰ ہے۔ یقیناً قرآن میں بعض مواقع پر صحرا ء اور اس کے مختلف حالات سے تعرض کیا گیا ہے، لیکن اس سے زیادہ بار اس میں سمندر کی مختلف حالتوں کا تذکرہ وارد ہوا ہے، خاص طور سے اس وقت جب سمندرآندھی، طوفان، بھنور وغیرہ اپنی ساری تباہ کاریوں کے ساتھ جلوہ نما ہوتا ہے۔
اب سے کچھ سال پہلے ہم نے ٹورنٹو میں مقیم ایک جہاز راں تاجر(Marine Merchant) کا قصہ سنا۔ اس تاجر نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ سمندر میں گزارا تھا، کسی مسلمان ساتھی نے اس کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لیے دیا۔اس جہاز راں تاجر کو اسلام یا اسلامی تاریخ سے کچھ واقفیت نہ تھی، لیکن اس کو یہ ترجمہ بہت پسند آیا۔ قرآن لوٹاتے ہوئے اس نے مسلمان دوست سے پوچھا :یہ محمد کوئی جہاز راں تھے؟گویااس کو قرآن کی جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ سمندر اور اس کے طوفانی حالات سے متعلق قرآن کا سچا اور باریک بیں تبصرہ اور مسلمان کا یہ بتا دینا کہ’‘‘‘ در حقیقت محمدﷺ ایک صحرا نشیں انسان تھے‘‘اس تاجر کے اسلام لانے کے لیے کافی ثابت ہوا۔ اس جہاز راں کا بیان تھا کہ وہ بذاتِ خود اپنی زندگی میں بارہا سمندر کے نامساعد حالات کا سامنا کر چکا ہے اور اسے کا مل یقین ہے کہ قرآن میں مذکور سمندر کے طوفانی حالات کی منظر کشی صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو براہ راست اس کا مشاہدہ کر چکا ہو۔ ورنہ ان حالات کا ایساخاکہ کھینچنا انسانی تخیل کے بس کی بات نہیں :
أَوْکَظُلُمَاتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌج مِّن فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ اِذَا أَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرَاہَا (النور: ۴۰)
‘‘ا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اُس پر ایک اور موج، اور اُس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔’’
مذکور بالا قرآنی نقشہ کسی ایسے ذہن کی پیداوار نہیں ہو سکتا جو عملی طور پر ان حالات کو برت نہ چکا ہو اور جس کو تجربہ نہ ہو کہ سمندری طوفان کے گرداب میں پھنسے انسانوں کے احساسات اور جذبات کیا ہوتے ہیں۔ یہ ایک واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ قرآن کو کسی خاص زمانہ یا مقام سے مقید و مربوط نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس کے علمی مضامین اور آفاقی سچائیاں چودہ سو سال پہلے کے کسی صحرا نشیں ذہن کی تخلیق ہرگز نہیں ہو سکتی ہیں۔
بعثتِ محمدی ﷺ سے بہت پہلے دنیا میں ایٹم(ذرہ) کے متعلق ایک معروف نظریہ (Theory of Atom) موجود تھا۔ اس نظریہ کی تشکیل میں یونانی فلاسفہ خصوصاً ڈیموکرائیٹس (Democritus) کی کاوشوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ تا آنکہ بعد میں آنے والی نسلوں میں اس نظریہ کو مسلم الثبوت واقع کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ وہ نظریہ کیا تھا ؟یونانی فلسفہ کی رو سے ہر مادی شے کچھ چھوٹے چھوٹے اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے۔یہ اجزاء (ذرات) اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ہماری قوتِ بینائی ان کا ادراک نہیں کر پاتی، اور یہ ناقابلِ تقسیم ہوتے ہیں۔ عربوں کے یہاں بھی ایٹم کا یہی تصور رائج تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عربی زبان میں ذرہ کے لفظ کاکسی بھی مادی شے کے ادنیٰ ترین جز پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ لیکن جدید سائنس کی رو سے کسی بھی شے کا چھوٹے سے چھوٹا جز (ذرہ)بھی عنصری خصوصیات کا حامل ہوا کرتا ہے۔ یہ جدید نظریہ جس کے واقعاتی شواہد موجود ہیں دورِ حاضر کی پیداوار ہے، اور عصرِ حاضر سے پہلے اس کا وجود علمی دنیا میں ناپید تھا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موجودہ دور کی اس دریافت(Discovery) کا تذکرہ چودہ صدی قبل نازل شدہ قرآن مجید میں پایا جاتا ہے:
وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِکَ وَلا أَکْبَرَ اِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ (یونس:۶۱)
‘‘کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ اس سے چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔’’

اس میں شک نہیں کہ چودہ صدی قبل کے عرب باشندے جو کہ کسی شے کے ادنیٰ ترین جز کو ذرہ کے نام سے جانتے تھے، ان کو قرآن کی یہ تصریح بڑی غیر فطری اور غیر مانوس معلوم ہوئی ہوگی۔لیکن در حقیقت یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ زمانہ اپنی تیز رفتاری کے باوجود قرآن پر سبقت نہیں لے جا سکتا۔
عام طور پر کسی قدیم تاریخی کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس بات کی بجا طور پر توقع رکھتا ہے کہ اس کے مضامین و فرمودات کے ذریعہ وہ اس زمانے کی صحتِ عامہ اور متداول طریقہ ہائے علاج کے متعلق کافی معلومات اکٹھا کر سکے گا۔دوسری تاریخی کتابوں مثلاً بائبل، وید، اوستھا وغیرہ میں واقعۃً ایسا ہے بھی، لیکن قرآن یہاں بھی یکتا ومنفرد ہے۔ یقیناً متعدد تاریخی مصادر میں ہمیں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے صحت و صفائی کی بعض ہدایتیں اور نصیحتیں عنایت فرمائی ہیں۔ لیکن ان کا تفصیلی تذکرہ قرآن میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بادی النظر میں غیر مسلموں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مفید طبی معلومات کو کتابِ محفوظ میں کیوں شامل نہیں فرما دیا؟
بعض مسلم دانشوروں نے اس مسئلے کی اس طرح تشریح کی ہے:اگرچہ طب سے متعلق اللہ کے رسولﷺ کے ارشادات اور ہدایتیں مبنی بر صحت اور قابلِ عمل ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم و حکمت میں یہ بات تھی کہ آئندہ زمانوں میں سائنس اور میڈیسن (Medicine)کے میدانوں میں بے مثال ترقی ہوگی جس کے نتیجے میں روایتی طبی ہدایتیں پرانی اور فرسودہ (Outdated) سمجھی جانے لگیں گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صرف اسی قسم کی معلومات کو درج فرمایا جو تغیرِ زمانہ سے متاثر نہ ہو سکیں۔ میری ناقص رائے میں اگر ہم قرآنی حقائق کو وحی الٰہی مان کر چلیں تو زیرِ بحث موضوع درست طریقے سے سمجھا جا سکے گا اور مذکورہ بالا بحث اور مناقشے کی غلطی بھی واضح ہو جائے گی۔
سب سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ قرآن اللہ کی وحی ہے، اس لیے اس میں وارد تمام معلومات کا سرچشمہ بھی وہی ذاتِ برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو اپنے پاس سے وحی کیا اور یہ اس کلامِ الٰہی میں سے ہے جو تخلیقِ کائنات سے پہلے بھی موجود تھا۔اس لیے اس میں کوئی اضافہ، کمی اور تبدیلی ممکن نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم تو محمدﷺ کی ذات اور آپ کی ہدایات و نصائح کے وقوع پذیر ہونے سے بہت پہلے وجود میں آ کر مکمل ہو چکا تھا۔اور ایسی تمام معلومات جو کسی متعین عہد یا مقام کے خاص طرزِ فکر و طرزِ حیات سے متعلق ہوں کلامِ الٰہی میں داخلہ نہیں بنا سکتیں۔کیونکہ ایسا ہونا واضح طور پر قرآن کے مقصدِ وجود کے منافی ہے اور یہ چیز اس کی حقانیت، رہتی دنیا تک کے لیے اس کی رہنمائی کی صلاحیت،بلکہ اس کے خالص وحی الٰہی (Pure Divine Revelation)ہونے پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر سکتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن ایسا کوئی نسخۂ علاج (Home Remedies)تجویز نہیں کرتا جو مرورِ ایام کے ساتھ اپنی افادیت کھو دے، اور نہ اس میں اس ٹائپ کی کوئی رائے ذکر کی جاتی ہے کہ فلاں غذا افضل ہے یا فلاں دوا اس اس مرض میں شفا بخش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے صرف ایک چیز کو طبی علاج کے ضمن میں ذکر کیا ہے اور میری معلومات کی حد تک آج تک کسی نے اس کی مخالفت بھی نہیں کی ہے۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ شہد(Honey) کو شفا قرار دیا ہے اور میری معلومات کی حد تک کسی نے آج تک اس کا انکار بھی نہیں کیا۔ اگر کوئی یہ مفروضہ رکھتا ہے کہ قرآن، کسی انسانی عقل کا کارنامہ ہے، تو بجا طور پر ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہم اس کتاب کے تالیف کرنے والے کے فکری و عقلی رجحانات کا کچھ نہ کچھ پر تو (Reflection) اس میں ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ متعدد انسائیکلو پیڈیاز (Encyclopedias) اور نام نہاد علمی کتابوں میں بھی قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وارد ہونے والے خیالات و توہمات (Hallucinations)کی پیداوار بتایا گیا ہے۔ (العیاذ باللہ) چنانچہ ضروری ہے کہ ہم خود قرآن میں اس دعوے کی صحت و عدمِ صحت کے ثبوت و دلائل تلاش کریں۔ لیکن کیا قرآن میں ایسے دلائل یا اشارے موجود ہیں ؟یہ جاننے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ معینہ اشیاء کیا ہیں جو صاحبِ کتاب کے ذہن و دماغ میں ہر آن گردش کرتی رہتی تھیں ؟اس کے بعد ہی ہم فیصلہ کر سکیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کن کن افکار نے قرآن میں اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔
 
:D
1- ساری دنیا بنیادی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنےپرمتفق ہے بحوالہ اردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟... ڈاکٹر حسیب احمد
... دنیا میں آپ کہیں ایک ملک کی بھی مثال دے سکتے ہیں، جس نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کو استعمال کر کے ترقی کی ہو؟ کرہٴ ارض پر ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ ...
... غرض جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ بلکہ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی ہے، اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے تو طالب علم کی تقریباً پچاس فیصد توانائی (بعض تو 70 اور 80 فیصد کہتے ہیں) دوسری زبان پر خرچ ہوتی ہے اور بقیہ 30 تا 50 فیصد نفس مضمون پر۔ ...

اگر آپ کے خیال میں یہ جھوٹ یا کم از کم غلط ہے تو ضرور بتائیں۔

2- پنجابیوں کی اکثریت کے لئے یہ ایک 'غیر ملکی' زبان ہے ، ان لوگوں نے اس زبان کی محبت میں اپنی زبان میں تعلیم چھوڑ دی، انہیں کیا ملا
میں سمجھ نہیں سکا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ میں نے ایک سوال پوچھا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ میں اس سوال کا حوالہ دوں یا عقلی دلائل دوں :confused:
یہ ایک چیز ہوتی ہے کہ کچھ کہنے یا لکھنے والا، سننے یا پڑھنے والے کی سوچ جگانا چاہتا ہے۔ اس موضوع کے دو (یا زاید) پہلو ہیں اور اس کا جواب پڑھنے والے کی سوچ پر منحصر ہے، میں ان دونوں (یا زیادہ) جوابات کا احترام کرتا ہوں۔ میرا جواب کچھ اور ہے لیکن اگر آپ کے خیال میں اس کا جواب 'یعنی اب پنجابیوں نے اسے اپنا لیا ہے' ہے، تو یہ آپ کا حق ہے۔

3- اس کام کا ایک وقت تھا(اردو کو سرکاری زبان بنانا) اور میرے خیال میں اس وقت کو گزرے دہائیاں گزر چکی ہیں۔ بحوالہ اردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟... ڈاکٹر حسیب احمد
... پاکستان کے 1973ء کے آئین کی دفعہ نمبر 251 میں ان الفاظ میں اردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ تاریخ اجرا (14 اگست 1973ء) سے پندرہ سال (یعنی 88ء تک) کے اندر سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے اس کے استعمال کا انتظام کیا جائے گا۔ ...
کیا 1988 گزرے دہائیاں نہیں ہوئیںِ؟

4- کسی بھی معاملے کے اونٹ کی فروخت ناکام بنانے کا آسان ترین طریقہ اس کے گلے سے ناقابلِ فروخت بِلی لٹکا دینا ہوتا ہے، یہ دو چیزیں ایک ساتھ کیوں مانگی جاتی ہیں؟ تاکہ کچھ بھی حاصل نہ ہو؟ یا کوئی اور وجہ ہے
یہ میں نے بچپن میں پڑھے ہوئے ایک قصے سے اخذ کیا تھا (جس کا حوالہ مجھے یاد نہیں)۔ اس قصے میں ایک بدو کا ذکر ہے جسے کسی وعدے کے ایفا کے لئے اپنا ہزار سکے مالیت کا سرخ اونٹ ایک سکے میں بیچنا تھا، ایک سکے میں اس قیمتی اونٹ کے درجنوں خریدار ہوتے۔ اس نے مکر کرتے ہوئے اس اونٹ کے گلے میں ایک بلی لٹکا دی یا باندھ دی اور خریداروں سے کہا کہ اونٹ ایک سکے کا ہے لیکن بلی ایک ہزار سکے کی اور دونوں کو اکٹھا خریدنا لازم ہے۔
میرے خیال میں تو اس قصے کا مقصد مکاری سکھانا تھا لیکن کتاب میں اسے 'ہوشیاری' لکھا تھا۔ بچپن سے اسی قسم کے منفی، کراہیت انگیز قصوں کو پڑھ پڑھ کر میرے خیالات اس طرح کے ہو گئے ہیں، جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے: 'میں جب تحریر میں کوئی اقتباس یا واقعے کا ذکر دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک ہی سوال آتا ہے، ... اصل مضمون لکھا ہے یا اپنی مرضی کا مطلب اخذ کیا ہے؟'

4- کسی بھی معاملے کے اونٹ کی فروخت ناکام بنانے کا آسان ترین طریقہ اس کے گلے سے ناقابلِ فروخت بِلی لٹکا دینا ہوتا ہے، یہ دو چیزیں ایک ساتھ کیوں مانگی جاتی ہیں؟ تاکہ کچھ بھی حاصل نہ ہو؟ یا کوئی اور وجہ ہے
اگر اردو میں بنیادی تعلیم کا حدف حاصل کیا جا سکتا ہے تو صرف اس پر زور کیوں نہیں دیا جاتا۔ اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کا مشکل کام اس کے ساتھ جوڑ کر اردو میں بنیادی تعلیم کا حدف کھونے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ یہاں بھی میں نے جواب مانگا ہے۔
۱صاحب ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں مادری زبان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، دوسرا آپ ان کا حوالہ دے رہے ہیں کیا آپ ان کو مستند سمجھتے ہیں؟
۲ پنجابیوں کی اکثریت کے لئے یہ ایک 'غیر ملکی' زبان ہے ، یہ کہاں کا سچ ہے اس طریق میں تو دنیا کی ہر زبان غیر ملکی رہی ہے شاید اپ کو کہنا تھا کہ تھی
۳-اس کام کا وقت گزر گیا ہے یہ مترادف ہےکہ یہ اب ناممکن / مشکل ہے (شاید میں نے آپ کے الفاظ پکڑ لیے ہیں اور آپ کا مقصود یہ نہیں تھا لیکن الفاظ سے ایسا ہی ظاہر ہوا تو میں نے دلائل مانگے کہ اب کیوں یہ ناممکں یا مشکل ہے
۴- اس کے کیا دلائل ہیں کہ اس معاملے میں دونوں چیزوں پر اصرار نہیں کیا جا سکتا
 

اسد

محفلین
میں نے آپ کے مراسلے کو 'پر مزاح' کی ریٹنگ دی تھی اور جواب اس شکل سے شروع کیا تھا: :D
۱صاحب ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں مادری زبان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، ...
اور یہ تذکرہ کیوں نہیں ہے؟؟؟ مجھے تو اس سے ڈاکٹر صاحب کا پاکستان کی دوسری مادری/مقامی زبانوں کے بارے میں تعصب نظر آتا ہے۔ کیا پنجاب میں مادری زبان کے بجائے اردو میں تعلیم دینے سے معیارِ تعلیم بلند ہو جائے گا؟
میں نے اپنا جواب شروع ہی ایسے کیا تھا: 'اس مضمون سے قطع نظر، ساری دنیا بنیادی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنے پر متفق ہے، ... پاکستان میں کچھ لوگ مادری زبان کو اردو زبان کا نام دے دیتے ہیں، کیوں؟ اردو کتنے پاکستانیوں کی مادری زبان ہے؟ ... '
۱ ... دوسرا آپ ان کا حوالہ دے رہے ہیں کیا آپ ان کو مستند سمجھتے ہیں؟ ...
:D
۲ پنجابیوں کی اکثریت کے لئے یہ ایک 'غیر ملکی' زبان ہے ، یہ کہاں کا سچ ہے اس طریق میں تو دنیا کی ہر زبان غیر ملکی رہی ہے شاید اپ کو کہنا تھا کہ تھی
پہلے تو ایسا نہیں تھا لیکن اب ایسا ہی ہے۔ یہ عمل پچھلے بیس سے تیس سال کے دوران شروع ہوا تھا۔ میں لاہور میں پلا بڑھا ہوں، وہاں 'آج تک' کبھی ایسا نہیں ہوا کہ عوامی مقامات پر اردو میں سوال کا جواب پنجابی میں سنا ہو، لیکن 90 کی دہائی میں پہلی مرتبہ اس واقعہ کا ذاتی طور پر کراچی کی ایک بس میں مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد ملتے جلتے واقعات بہت جگہوں پر دیکھے۔ ویسے اگر آپ کو لفظ 'غیر ملکی' پسند نہیں تو اس کی جگہ alien استعمال کر لیں۔
... ۳-اس کام کا وقت گزر گیا ہے یہ مترادف ہےکہ یہ اب ناممکن / مشکل ہے (شاید میں نے آپ کے الفاظ پکڑ لیے ہیں اور آپ کا مقصود یہ نہیں تھا لیکن الفاظ سے ایسا ہی ظاہر ہوا تو میں نے دلائل مانگے کہ اب کیوں یہ ناممکں یا مشکل ہے ...
مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے بھی لکھا ہے: 'یاد رکھیے! ہمارے بعد جو لوگ آ رہے ہیں وہ اس مسئلے کی اہمیت کو بالکل نہیں جانتے۔ یعنی یہ کام اگر ہم نے کر لیا یا کرانے کی کوشش کرتے رہے تو ٹھیک ہے، ورنہ بعد میں یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جائے گا اور وقت نکل جائے گا جو ابھی ہمارے پاس ہے۔' انہیں خوش فہمی ہے، مجھے نہیں ہے۔
... ۴- اس کے کیا دلائل ہیں کہ اس معاملے میں دونوں چیزوں پر اصرار نہیں کیا جا سکتا
اصرار تو کیا جا چکا ہے، میں نے اس کی وجہ دریافت کی ہے: ' تاکہ کچھ بھی حاصل نہ ہو؟ یا کوئی اور وجہ ہے'
-----------------
ایک صاحب نے ایک مضمون لکھا اور آپ نے اسے فخریہ انداز میں یہاں پیش کیا۔ مضمون میں اردو زبان کے نفاذ کے دلائل تھے۔ میں نے لکھا:
... اردو ذریعۂ تعلیم کی بات ہے تو میں اس کے حق میں ہوں۔ اردو سرکاری زبان کی بات ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، ...
میرا اعتراض مضمون نگار کے اندازِ تحریر پر تھا اور دوسروں کا بھی(لکھنے والے اور متفق)
بہت ساری باتیں ہضم ہونے والی نہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے بے پر کی بہت ہانکی ہے۔
میں نے لکھا کہ مضمون نگار نے حوالے اور روابط شامل نہیں کیے۔ جواب میں آپ مضمون میں موجود واقعات کے حوالے فراہم کرنے کے بجائے مجھ سے حوالے طلب کرنے لگے۔ اسے انگلش میں 'offence is the best defence' کہتے ہیں۔ اب پہلے آپ مضمون میں موجود واقعات کے حوالے دیں پھر مجھ سے حوالے طلب کریں۔ یہ موضوع آپ نے شروع کیا ہے اس کا دفاع آپ کی ذمہ داری ہے۔
 
میں نے آپ کے مراسلے کو 'پر مزاح' کی ریٹنگ دی تھی اور جواب اس شکل سے شروع کیا تھا: :D
اور یہ تذکرہ کیوں نہیں ہے؟؟؟ مجھے تو اس سے ڈاکٹر صاحب کا پاکستان کی دوسری مادری/مقامی زبانوں کے بارے میں تعصب نظر آتا ہے۔ کیا پنجاب میں مادری زبان کے بجائے اردو میں تعلیم دینے سے معیارِ تعلیم بلند ہو جائے گا؟
میں نے اپنا جواب شروع ہی ایسے کیا تھا: 'اس مضمون سے قطع نظر، ساری دنیا بنیادی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنے پر متفق ہے، ... پاکستان میں کچھ لوگ مادری زبان کو اردو زبان کا نام دے دیتے ہیں، کیوں؟ اردو کتنے پاکستانیوں کی مادری زبان ہے؟ ... '
:D
پہلے تو ایسا نہیں تھا لیکن اب ایسا ہی ہے۔ یہ عمل پچھلے بیس سے تیس سال کے دوران شروع ہوا تھا۔ میں لاہور میں پلا بڑھا ہوں، وہاں 'آج تک' کبھی ایسا نہیں ہوا کہ عوامی مقامات پر اردو میں سوال کا جواب پنجابی میں سنا ہو، لیکن 90 کی دہائی میں پہلی مرتبہ اس واقعہ کا ذاتی طور پر کراچی کی ایک بس میں مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد ملتے جلتے واقعات بہت جگہوں پر دیکھے۔ ویسے اگر آپ کو لفظ 'غیر ملکی' پسند نہیں تو اس کی جگہ alien استعمال کر لیں۔
مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے بھی لکھا ہے: 'یاد رکھیے! ہمارے بعد جو لوگ آ رہے ہیں وہ اس مسئلے کی اہمیت کو بالکل نہیں جانتے۔ یعنی یہ کام اگر ہم نے کر لیا یا کرانے کی کوشش کرتے رہے تو ٹھیک ہے، ورنہ بعد میں یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جائے گا اور وقت نکل جائے گا جو ابھی ہمارے پاس ہے۔' انہیں خوش فہمی ہے، مجھے نہیں ہے۔
اصرار تو کیا جا چکا ہے، میں نے اس کی وجہ دریافت کی ہے: ' تاکہ کچھ بھی حاصل نہ ہو؟ یا کوئی اور وجہ ہے'
-----------------
ایک صاحب نے ایک مضمون لکھا اور آپ نے اسے فخریہ انداز میں یہاں پیش کیا۔ مضمون میں اردو زبان کے نفاذ کے دلائل تھے۔ میں نے لکھا:
میرا اعتراض مضمون نگار کے اندازِ تحریر پر تھا اور دوسروں کا بھی(لکھنے والے اور متفق)
میں نے لکھا کہ مضمون نگار نے حوالے اور روابط شامل نہیں کیے۔ جواب میں آپ مضمون میں موجود واقعات کے حوالے فراہم کرنے کے بجائے مجھ سے حوالے طلب کرنے لگے۔ اسے انگلش میں 'offence is the best defence' کہتے ہیں۔ اب پہلے آپ مضمون میں موجود واقعات کے حوالے دیں پھر مجھ سے حوالے طلب کریں۔ یہ موضوع آپ نے شروع کیا ہے اس کا دفاع آپ کی ذمہ داری ہے۔

آپ کے پہلے جواب کا حصہ اول اس مضمون سے قطع نظر ہے ( ابھی تک میں نے صرف اس پر بات کی ہے)، اس حصے پر میں نے ۱ سے 4 تک ۴ نقاط پر آپ سے دلائل مانگے ، کہ یہ اپ کے بیانا ت ہیں (اس مضمون سے قطع نظر)، آپ اپنی بات کو تو بلا دلیل / بلا حوالہ / بلامنطق پیش کرتے ہیں !!!!

آپ کے پہلے جواب کا حصہ دوم مضمون کے بارے میں اس پرآ پ نے کچھ سوالات اٹھائے ہیں جن کو میں نے 5 سے 9 تک ۵ نقاط میں مختصر بیا ن کیا ہے- جس پر میں اپنی ناقص رائے دوں گا کہ میں نے مضمون نگار کو کیسے درست تسلیم کیا ہے
تو میں ابھی تک جو بات ہوئی ہے اس کا خلاصہ لکھنا چاہوں گا
محترم اسد بھائی
آپ کی تحریر کے مرکزی نکات (میرے مطابق)
۱- ساری دنیا بنیادی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنےپرمتفق ہے
آپکا فرمان
- ساری دنیا بنیادی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنےپرمتفق ہے بحوالہ اردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟... ڈاکٹر حسیب احمد
خاکسار کی عرض
صاحب ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں مادری زبان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، دوسرا آپ ان کا حوالہ دے رہے ہیں کیا آپ ان کو مستند سمجھتے ہیں؟
آپکا فرمان
اور یہ تذکرہ کیوں نہیں ہے؟؟؟ مجھے تو اس سے ڈاکٹر صاحب کا پاکستان کی دوسری مادری/مقامی زبانوں کے بارے میں تعصب نظر آتا ہے۔ کیا پنجاب میں مادری زبان کے بجائے اردو میں تعلیم دینے سے معیارِ تعلیم بلند ہو جائے گا؟
میں نے اپنا جواب شروع ہی ایسے کیا تھا: 'اس مضمون سے قطع نظر، ساری دنیا بنیادی تعلیم مادری زبان میں حاصل کرنے پر متفق ہے، ... پاکستان میں کچھ لوگ مادری زبان کو اردو زبان کا نام دے دیتے ہیں، کیوں؟ اردو کتنے پاکستانیوں کی مادری زبان ہے؟ ... '
:D ( یہ بھی آپ کا جواب ہے )
میں ایسی جرات نہیں کیا کرتا ہوں
آپ کے باقی نقاط پر اب تک کی بات کا خلاصہ بھی پیش کر دوں گا جلد انشا اللہ
 
آخری تدوین:

اسد

محفلین
ڈاکٹر حسیب احمد نے کہا:
بلکہ جاپان کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ جب دوسری عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد امریکہ ”بہادر“ (فی الاصل بزدل) نے شہنشاہ جاپان سے پوچھا ”مانگو کیا مانگتے ہو؟“ تو دانا اور محب وطن شہنشاہ نے جواب دیا ”اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم“
انتہائی پر مغز با محاورہ ترجمہ کیا ہے :grin:۔ حوالہ؟ دانا اور محب وطن شہنشاہ نے تو چوتھائی دنیا کو چنگیز، ہلاگو اور تیمور لنگ کا مزہ چکھا دیا تھا۔
ڈاکٹر حسیب احمد نے کہا:
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے تو طالب علم کی تقریباً پچاس فیصد توانائی (بعض تو 70 اور 80 فیصد کہتے ہیں) دوسری زبان پر خرچ ہوتی ہے اور بقیہ 30 تا 50 فیصد نفس مضمون پر۔
حوالہ؟ یہ شماریات صرف غیر ملکی زبان پر ہیں یا مادری زبان کا بھی اس میں کوئی دخل ہے؟ بہتر ہو گا کہ حوالہ کسی ایسے ملک کا ہو جس میں پاکستان کی طرح کئی زبانیں بولی جاتی ہوں۔
ڈاکٹر حسیب احمد نے کہا:
بلکہ اب تو قبروں کے کتبے بھی انگریزی میں لکھے جانے لگے ہیں، خود راقم الحروف نے کراچی کہی دیے دو قبرستانوں میں یہ کتبے دیکھے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہماری یہی روش رہی تو اردو بس لگ بھگ بیس سال کی مہمان ہے۔
حوالہ؟ میں مزید تفصیلات جاننا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر حسیب احمد نے کہا:
جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں تیس سال تک تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے رہے۔ یہ سلسلہ سقوط حیدرآباد تک جاری رہا جس کے بعد وہاں اردو ذریعہٴ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ بعد میں ایک غیر ملکی وفد نے وہاں کا دورہ کرنے کے بعد اردو ذریعہٴ تعلیم ختم کرنے کی وجہ پوچھی تو منتظمین کوئی جواب نہ دے سکے۔
حوالہ؟ وفدکس ملک سے تھا؟
ڈاکٹر حسیب احمد نے کہا:
ایک معالج امراض ذہنی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسے انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں پڑھانے والے بھی انگریز تھے۔ پھر انٹر میں بھی ذریعہ تعلیم انگریزی ہی تھی۔ ایم بی بی ایس تو تھا ہی انگریزی میں۔ اسکے بعد وہ اسپیشلائزیشن کے لیے امریکہ چلے گئے۔ وہاں پڑوسی ملک میکسیکو ... سے بھی ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آئے ہوئے تھے۔ ان ڈاکٹروں کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ ... ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پھر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جو کام میں چھ مہینے کی محنت سے کر سکتا تھا، اس کے لیے میں اپنے تہذیبی ورثے، اقبال، غالب، میر، اکبر الہ آبادی وغیرہ سے کٹ گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی انگریزی پڑھنے کے باوجود ان کے لیے انگریزی کی نسبت اردو میں اظہار خیال کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اردو اپنی زبان ہے۔
حوالہ؟ پکی بات ہے؟ کسی چیتھڑے میں میں نے بھی یہ قصہ پڑھا تھا، کچھ مختلف تھا، آپ کوئی معتبر حوالہ فراہم کریں۔
ڈاکٹر حسیب احمد نے کہا:
دوسرا واقعہ انگلستان کے ایک وزیر تعلیم کا ہے۔ ایک بار یہ صاحب پاکستان آئے، ہمارے کالے انگریزوں نے انہیں اپنے انگریزی میڈیم اسکولوں کا دورہ کرایا۔ دورے کے بعد ان سے پاکستانی بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیے جانے پر ان کے تاثرات پوچھے گئے۔ ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ صاحب اس بات سے بہت خوش ہوں گے لیکن انہوں نے جو جواب دیا وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنے ملک میں ایسا کرتا کہ کسی غیر ملکی زبان میں طلبہ کو تعلیم دلواتا تو دو جگہوں میں سے ایک جگہ مجھے ضرور جانا پڑتا، پھانسی گھاٹ یا پھر پاگل خانہ۔ بقول ان کے دوسری زبان میں تعلیم دینے سے بچے کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔
حوالہ؟ کالے انگریزوں کے آقا آئے تھے، ان کے دورے پر تو غیر ملکی زبان کے ملکی اخباروں نے صفحے کے صفحے کالے کر دیے ہوں گے، کسی نے یہ مکالمہ بھی چھاپا تھا یا نہیں؟
 
آخری تدوین:
انتہائی پر مغز با محاورہ ترجمہ کیا ہے :grin:۔ حوالہ؟ دانا اور محب وطن شہنشاہ نے تو چوتھائی دنیا کو چنگیز، ہلاگو اور تیمور لنگ کا مزہ چکھا دیا تھا۔
حوالہ؟ یہ شماریات صرف غیر ملکی زبان پر ہیں یا مادری زبان کا بھی اس میں کوئی دخل ہے؟ بہتر ہو گا کہ حوالہ کسی ایسے ملک کا ہو جس میں پاکستان کی طرح کئی زبانیں بولی جاتی ہوں۔
حوالہ؟ میں مزید تفصیلات جاننا چاہتا ہوں۔
حوالہ؟ وفدکس ملک سے تھا؟
حوالہ؟ پکی بات ہے؟ کسی چیتھڑے میں میں نے بھی یہ قصہ پڑھا تھا، کچھ مختلف تھا، آپ کوئی معتبر حوالہ فراہم کریں۔
حوالہ؟ کالے انگریزوں کے آقا آئے تھے، ان کے دورے پر تو غیر ملکی زبان کے ملکی اخباروں نے صفحے کے صفحے کالے کر دیے ہوں گے، کسی نے یہ مکالمہ بھی چھاپا تھا یا نہیں؟
پہلے آئیے پہلے پائیے ، آپ کو باتوں کا ابھی تجزیہ باقی ہے محترم، صبر کا پھل میٹھا بھی ہوتا ہے
ذرا یہ واضع کر دیں کہ آپ کی نظر میں کسی بات بیان کو ثابت کرنے کے لیے کون کون سے لوازمات درکار ہوتے ہیں پھر اپ کو اس کے مطابق ثابت کر کر کے دیا جائے گا انشا اللہ
 
Top