م

کوائف نامے کے مراسلے حالیہ سرگرمی مراسلے تعارف

  • حکم قرار دیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے ۔ (معارف القرآن ص 18 ج 4 )
    جب امیر المؤمنین کی طرف سے جہاد کی دعوت مسلمانوں کو دے دی جائے ۔اور اسلامی شعائر کی حفاظت اس پر موقوف ہو کیونکہ اس وقت ترکِ جہاد کا وبال صرف تارکین جہاد پر نہیں بلکہ پورے مسلمانوں پر پڑتاہے ۔ کفار کے غلبہ کے سبب عورتیں ، بچے ، بوڑھے اور بہت سے بے گناہ مسلمان قتل وغارت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ان کے جان ومال خطرہ میں پڑجاتے ہیں ۔(معارف القرآن ص 213 ج 4 )
    جس وقت اسلام اور مسلمانوں سےدفاع کی ضرورت ِ شدید ہو اس وقت یقیناً جہاد تمام عبادات سے افضل ہو گا ۔ جیسا کہ غزوہ خندق میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں قضا ہو جانے کے واقعہ سے ظاہر ہے ۔ (معارف القرآن ص335 ج 4 )
    مقصدِ جہاد :۔ مؤمن کی جدو جہد کا یہی مقصد ہو تا ہے کہ دنیا میں خدا کا قانون رائج ہو اور اللہ کا حکم بلند ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالٰی تمام مخلوق کا مالک ہے اور اس کا قانون خالص انصاف پر مبنی ہے ۔ اور جب انصاف کی حکومت قائم ہوگی تو امن قائم رہے گا ۔ دنیا کے امن کے لیے یہ ضروری ہے کہ دنیا میں وہ قانون رائج ہو جو خدا کا قانون ہے
    اس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ جہا د فرض کفا یہ ہے جب مسلما نوں کی ایک جما عت فریضہ جہا د کو قا ئم کئے ہوئے ہو تو باقی مسلمان دوسری خدمتوں اور کاموں میں لگ سکتے ہیں ۔ ہاں اگر کسی وقت امام المسلمین ضرورت سمجھ کر نفیر عام کا حکم دے اور سب مسلمانوں کو شرکتِ جہاد کی دعوت دے تو پھر جہاد سب پر فرض عین ہوجاتا ہے ۔ قرآن کریم نے سورہ توبہ میں ارشاد فرمایا ۔
    (یایھا الذین امنو اما لکم اذا قیل لکم انفرو ا فی سبیل اللہ اثا قلتم )
    ''اے مسلمانوں ! تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم بوجھل بن جاتے ہو'' ۔
    اس آیت میں اسی نفیر عام کا حکم مذکور ہے اسی طرح خدانخواستہ کسی وقت کفار کسی اسلامی ملک پر حملہ آور ہوں ۔اور مدافعت کرنےوالی جماعت ان کی مدافعت پر پوری طرح قادر اور کافی نہ ہو ۔ تو اس وقت بھی یہ فریضہ اس جماعت سے متعدی ہو کر پاس والے سب مسلمانوں پر عائد ہو جاتا ہے ۔ اور اگر وہ بھی عاجز ہوں تو ان کے پاس والے مسلمانوں پر ، یہاں تک کہ پوری دنیا کے ہر فرد مسلم پر ایسے وقت جہاد فرضِ عین ہوجاتاہے ۔قرآن کریم کی مذکورہ بالا تمام آیات کے مطالعہ سے جمہور فقہاء و محدثین نے
    حکم جہاد کی شرعی حیثیت !
    ( کتب علیکم القتال ) یعنی تم پر جہاد فرض کیا گیا ، ان الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہو تا ہے کہ جہاد ہر مسلمان پر ہر حالت میں فرض ہے ، بعض آیت قرآنی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے معلوم ہو تا ہےکہ یہ فریضہ فرض عین کے طور پرہر مسلم پر عائد نہیں ۔ بلکہ فرضِ کفایہ ہے کہ مسلمان کی ایک جماعت اس فرض کو ادا کردے تو باقی مسلمان سبکدوش سمجھے جائیں گے ، ہاں کسی زمانہ یا ملک میں کوئی جماعت بھی فریضہ جہاد ادا کرنے والی نہ رہے تو سب مسلمان ترکِ فرض کے گناہ گار ہو جایئں گے ۔ حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد الجھاد ماض الی یوم القیامہ کا یہ مطلب ہے کہ قیامت تک ایسی جماعت کا موجود رہنا ضروری ہے جو فریضہ جہاد ادا کرتی رہے ۔
    نیز صحیح بخا ری ومسلم کی حدیث ہےکہ ُُ ُ ایک شخص نے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کت کی اجا زت چا ہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے در یا فت کیا کہ تمہا رے ماں باپ زندہ ہے؟ اس نے عر ض کیا کہ ہاں زندہ ہے۔آپ نے فر مایا کہ پھر جاؤ، ماں باپ کی خد مت کرکے جہا د کا ثواب حا صل کروِِِ،،۔
  • لوڈ ہو رہا ہے…
  • لوڈ ہو رہا ہے…
  • لوڈ ہو رہا ہے…
Top