"بس سٹینڈ پر"
مجید امجد
"یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی"
"خدایا اب کے یہ کیسی بہار آئی!"
"خدا سے کیا گلہ، بھائی!
خدا تو خیر کس نے اس کا عکسِ نقشِ پا دیکھا
نہ دیکھا تو بھی دیکھا اور دیکھا بھی تو کیا دیکھا
مگر توبہ، مری توبہ، یہ انساں بھی تو آخر اِک تماشا ہے
یہ جس نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا...
دلچسپ بات ہے کہ محمد رفیع تقسیم کے بعد بھی لاہور میں اپنے گھر آتے جاتے رہتے تھے کیونکہ والدین اور بہن بھائی تو لاہور میں ہی رہتے تھے بلکہ جب 65 کی جنگ شروع ہوئی تو رفیع صاحب لاہور میں ہی تھے سرحدوں پر کشیدگی کی وجہ سے واپس جانا مشکل ہوا تا نوشاد صاحب نے کہا کہ اب پاکستان سے واپس انڈیا نہ آئیں...
اعجاز صاحب ،بلال سے آپ کی ملاقات کے بارے میں پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ بلال کو میری طرف سےایک شعر نذر کر دیجیے گا۔
فیض زندہ رہیں وہ ہیں تو سہی
کیا ہوا گر وفا شعار نہیں :)
اس شعلہ خو کی طرح بگڑتا نہیں کوئی
تیزی سے اتنی آگ پکڑتا نہیں کوئی
وہ چہرہ تو چمن ہے مگر سانحہ یہ ہے
اس شاخِ لب سے پھول ہی جھڑتا نہیں کوئی
خود کو بڑھا چڑھا کے بتاتے ہیں یار لوگ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
لوگوں کا کیا ہے آج ملے کل بچھڑ گئے
غم دو گھڑی بھی مجھ سے بچھڑتا نہیں کوئی...
جس طرف ہاتھ بڑھیں کفر کے ہٹ جائیں قدم
جس جگہ پاؤں رکھے سجدہ کریں لات و ہبل
تیری تشبیہ کا ہے آئینہ خانہ تنزیہہ
شانِ بیرنگی مطلق ہے تجھے رنگ محل
ہے حقیقت کو مجاز آپ کا حیرت کا مقام
بے نیازی کو نیاز آپ کا نازش کا محل
ہو سکا ہے کہیں محبوب خدا غیر خدا
اک ذرا دیکھ سمجھ کر مری چشمِ احول
رفع ہونے کا...
مرجعِ روح امیں زیب دہِ عرشِ بریں
حامی دینِ متیں ناسخِ ادیانِ و ملل
ہفت اقلیمِ ولایت میں شہِ عالیجاہ
چار اطراف ہدایت میں نبیِ مرسل
جی میں آتا ہے لکھوں مصرعِ برجستہ اگر
وجد میں آ کے قلم ہاتھ سے جائے نہ اچھل
منتخب نسخہ وحدت کا یہ تھا روزِ ازل
کہ نہ احمد کا ہے ثانی نہ احد کا اول
دور خورشید کی...
یہ شعر بہت اچھا ہے اگر اس طرح یہ شعر ہو تو وزن میں بھی ہو جائے گا۔
ہم جن ہاتھوں سے پیتے تھے وُہ ویراں کر گئے میخانہ
ہم خود ہی ساقی بن بیٹھے ہم خود بھر لائے پیمانہ
فیس بک سے کاپی پیسٹ کیا ہے۔ ایک شعر میں وزن کی گڑبڑ محسوس ہوئی تھی اک کی بجائے شاید ایک ہونا چاہیے تھا وہ درست کر دیا تھا مگر اس شعرمیں کچھ سمجھ نہیں آ سکی۔ شاید کسی کتاب میں مل جائے تو درستی کر دوں۔
ہے عکس ِروئے یار دلِ داغ دار میں
کچھ تیرگی نہیں ہے ہمارے مزار میں
کچھ ایسے محو ہو گئے اقرار ِیار میں
لطف انتظار کا نہ ملا انتظار میں
دوچند اس سے حسن پہ ان کو غرور ہے
جتنا نیاز و عجز ہے مجھ خاکسار میں
وہ پیاری پیاری شکل وہ اندازِ دل فریب
رہتا نہیں ہے دیکھ کے دل اختیار میں
ایسی بھری ہیں یار کے...