پنجابی میں روٹی کو جب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کر کے پرندوں کو پھینکتے ہیں تو ان چھوٹے ٹکڑوں کو بھورے کہتے ہیں تو یہاں بھی مجھے ایسا ہی مفہوم سمجھ میں آ رہا ہے شاید میں درست نہ ہوں۔
ہر طرف خرچ ہوتی ہڈیوں کا ملبہ بکھرا پڑا ہے
اور پیروں تلے وہ مثل "بھوروں" کے روندی جا رہی ہیں یعنی وہ اب بالکل ختم...
سُکھ دی مَتّے چنگیر بھریوے، دُکھاں کئی من بالن کھاہدا
اجے وی رب کیوں کجھ نئیں آہدا
ڈھور ڈنگر جب سبھے مر گئے، لوگ نے بھکھاں لگے لڑ گئے
جانگلی گِدّڑ دیہہ وچ وڑ گئے
دِلے نوکیلی نوک اے کھوبی، رنگ بھرن نوں آہر کیتا
اندروں کڈھ کے باہر کیتا
(غدیر زہرا)
بولیوں کی کوئی ایک ہیئت نہیں ہوتی اس کی ہیئت کے ساتھ کافی نئے تجربات سامنے آئے ہیں۔ میں نے کچھ تقلید یہاں امجد اسلام امجد کی پنجابی بولیوں کی کی۔ ان کی بولیاں ملاحظہ ہوں جو فعلن فعلن کے وزن پر فارسی بحر میں ہیں۔
شہر دے دل چوں ادھی راتیں اٹھدی اے اک چیخ
گنگی اے تاریخ
نہ توں بولیں نہ میں بولاں...
22
بہادر بیگ بخشی توپ خانہ کا داروغہ تھا۔ اس کے ہمراہ شاہی لشکر سے آگے توپخانہ بھیجا۔ توران کے نامی سپاہیوں مخلص خاں، محمد بیگ اور یادگار بیگ کو قراول مقررّ کیا۔ مہیش داس گورو گوردہن راٹھور کو التمش متعین کیا اور خود قول میں کھڑا ۂوا۔ افتخار خاں کو میسرہ میں۔ مالوجی، پرسوجی اور راجہ دیبی سنگھ...
21
جب اورنگ زیب کو یقین ہو گیا کہ لڑنا ضرور پڑے گا۔ تو وہ تدبیر جنگ اور توزک سپاہ میں مصروف ۂوا۔
اورنگ زیب اور راجہ جسونت سنگھ کی لڑائی۔ عالمگیر کی فتح
بروز جمعہ 22/ رجب 1068 ھ 1658ء کو اورنگ زیب نے لشکر توپخانہ اور ہاتھیوں کو آراستہ کیا۔ اور خود ہاتھی پر سوار ہو کر میدانِ جنگ میں آیا۔...
20
انتظام کر رکھا تھا۔ کہ صوبٔہ دکن اور خاندیس کی کوئی خبر راجہ کے پاس نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اس کو یہ خبر بھی نہیں ہوئی۔ کہ اورنگ زیب برہان پور سے مالوہ کی طرف چلا ہے۔ وہ صرف مراد بخش سے لڑنے کےلئے آمادہ رہتا تھا۔ جب مراد بخش کو راجہ اور لشکر سلطانی کی آمد کی اطلاع ہوئی اور اس نے دیکھا کہ مجھ میں...