شاتم رسول کی سزا اور اسکی معافی؟

سینیٹر پروفیسر ساجد میر (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و توقیر مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے اور علمائے اسلام دور صحابہؓ سے لے کر آج تک اس بات پر متفق رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنیوالا آخرت میں سخت عذاب کا سامنا کرنے کے علاوہ اس دنیا میں بھی گردن زدنی ہے۔ خود نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور اسلام کے بے شمار دشمنوں کو (خصوصا فتح مکہ کے موقع پر)معاف فرمادینے کیساتھ ساتھ ان چند بدبختوں کے بارے میں جو نظم و نثر میں آپ ﷺکی ہجو اور گستاخی کیا کرتے تھے، فرمایا تھا کہ:
” اگر وہ کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے بھی ملیں تو انہیں واصل جہنم کیا جائے“۔

یہ حکم (نعوذباللہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی انتقام پسندی کی وجہ سے نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو حضرت عائشہ اور صحابہ کرامؓ کی شہادت موجود ہے کہ آپﷺ نے کبھی بھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا، بلکہ اس وجہ سے تھا کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کے دلوں سے عظمت وتوقیر رسول ﷺ گھٹانے کی کوشش کرتا اور ان میں کفر و نفاق کے بیج بوتا ہے، اس لئے توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ”تہذیب و شرافت“ سے برداشت کرلینا اپنے ایمان سے ہاتھ دھونا اور دوسروں کے ایمان چھن جانے کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔ نیز ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ہر زمانے کے مسلمان معاشرہ کا مرکزو محورہیں اس لئے جو زبان آپﷺ پر طعن کیلئے کھلتی ہے، اگر اسے کاٹانہ جائے اور جو قلم آپﷺ کی گستاخی کیلئے اٹھتا ہے اگر اسے توڑانہ جائے تو اسلامی معاشرہ فساد اعتقادی و عملی کا شکار ہوکر رہ جائیگا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذباللہ) نازیبا الفاظ کہنے والا امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ کے الفاظ میں ساری امت کو گالی دینے والا ہے اور وہ ہمارے ایمان کی جڑ کو کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کا ایمان اور غیرت بچانے کیلئے ہجو نگاروں کی گستاخیوں کی پاداش میں ان کا قتل روا رکھا۔ ان میں سے ایک ملعون کا نام ابن خطل تھا۔ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کیخلاف شعر کہتا اور اس کی دو لونڈیاں یہ غلیظ شعر اس کو گاگا کے سناتیں۔ فتح مکہ کے دن وہ حرم مکہ میں پناہ گزیں تھا ابوبرزہؓ صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کیمطابق اسے وہیں جہنم رسید کردیا۔

عام طورپر غزوات اور جنگوں میں آپﷺ کا حکم ہوتا تھا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کی اجائے، لیکن توہین رسول ﷺاسلامی شریعت میں اتنا سنگین جرم ہے کہ اسکی مرتکب عورت بھی قابل معافی نہیں۔ چنانچہ آپﷺ نے ابن خطل کی مذکورہ دو لونڈیوں کے علاوہ دو اور عورتوں کے بارے میں بھی جو آپﷺ کے حق میں بدزبانی کی مرتکب تھیں، قتل کا حکم جاری کیا تھا‘ اس طرح مدینہ میں ایک نابینا صحابی کی ایک چہیتی اور خدمت گزار لونڈی جس سے انکے بقول انکے موتیوں جیسے دو بیٹے بھی تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور بدزبانی کا ارتکاب کیا کرتی تھی۔ یہ نابینا صحابی اسے منع کرتے مگر وہ باز نہ آتی۔ ایک شب وہ بدزبانی کررہی تھی کہ انہوں نے اسکا پیٹ چاک کردیا۔ جب یہ معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپﷺ نے فرمایا لوگو! گواہ رہو اس خون کا کوئی تاوان یا بدلہ نہیں ہے۔ (ابوداﺅد، نسائی)

جب حضرت عمرؓ نے گستاخ رسول ﷺ کے نابینا قاتل کے بارے میں پیارسے کہا دیکھو اس نابینا نے کتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا، اسے اعمیٰ (نابینا) نہ کہو، بصیر و بینا کہو کہ اسکی بصیرت و غیرت ایمانی زندہ و تابندہ ہے اور جب ایک اور گستاخ ملعونہ اسماء بنت مروان کو اسکے ایک اپنے رشتہ دار غیرت مند صحابی نے قتل کیا تو آپﷺ نے فرمایا لوگو! اگر تم کسی ایسے شخص کی زیارت کرنا چاہتے ہو جو اللہ اور اسکے رسولﷺ کی نصرت و امداد کرنیوالا ہے تو میرے اس جانثارکو دیکھ لو۔ یہ غیرت مند صحابی عمیر بن عدیؓ جب اس ملعونہ کے قتل سے فارغ ہوئے تو انکے قبیلہ کے بعض سرکردہ افراد نے ان سے پوچھا تھا کہ تم نے یہ قتل کیا ہے؟ انہوں نے بلاتامل کہا، ہاں اور اگر تم سب گستاخی کا وہ جرم کرو جو اس نے کیا تھا تو تم سب کو بھی قتل کردوں گا۔ (الصارم المسﺅل بن )

ایک اور شاتم رسول ﷺ ملعون یہودی ابورافع کو اس کی بدگوئی کی سزا دینے کیلئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عتیقؓ کی سرکردگی میں ایک گروپ بھیجا۔ یہ ملعون ایک محفوظ قلعہ میں رہتا تھا، مگر عبداللہ بن عتیقؓ اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اسکے سر پر جا پہنچے اور اسے واصل جہنم کیا۔ جلدی میں واپسی کیلئے مڑے تو ایک سیڑھی سے گر کر انکی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اسے اپنے عمامہ سے باندھا اور قلعہ کے دروازہ سے باہر نکل آئے، مگر انتہائی تکلیف کے باوجود وہیں بیٹھ کر اپنے مشن کی تکمیل کی خوشخبری ملنے کا انتظار کرتے رہے۔ جب ابورافع کی موت کا اعلان سنا اور اطمینان ہوا اور واپس خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری بات سن کر ٹوٹی ہوئی ٹانگ پر دست شفقت پھیرا تو وہ اس طرح درست ہوگئی جیسے کبھی ٹوٹی نہ تھی۔ (بخاری)

کعب بن اشرف بدبخت یہودی تھا جو مسلسل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا اس کو آپﷺکی اجازت اور حکم سے محمد بن مسلمہ نے قتل کیا۔ (بخاری و مسلم) جب یہودیوں نے کعب کے قتل کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا، اس نے جو تکلیف دہ گستاخیاں کی تھیں، اگر تم میں سے کوئی اور کرے گا تو اسکی بھی یہی سزا ہوگی۔ عہد نبوی میں شاتمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیانک انجام کی ان متعدد مثالوں کے پیش نظر ہر دور کے مسلمان علماءکا فتویٰ یہی رہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے والے کی سزا قتل ہے۔
موجودہ حالات میں بھی عالم اسلام کے عالمی و روحانی مرکز سعودی عرب کے مفتی اعظم کے علاوہ متعدد مسلمان ملکوں کے عالی مرتبت علمائ
نے بھی شاتم رسول ﷺکے قتل کا فتویٰ دیا ہے حالانکہ صحیح یہ ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب معاشرے میں اپنی گندگی پھیلا چکے تو قتل کے سوا اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ سچی توبہ کرنے سے وہ آخرت کی سزا سے بچ سکتا ہے، مگر دنیا میں بہرحال اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا ہی پڑیں گے۔

یہ کس قدر افسوسناک، غمناک اور شرمناک بات ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کی مجرمہ سے صدر آصف علی زرداری کہ کہنے پر گورنر پنجاب نے جیل میں ملاقات کی اور اس سے رحم کی اپیل پر انگوٹھا لگوایا،حالانکہ کہنے کو دونوں مسلمان ہیں اور صدر اورگورنر کسی کو بھی پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے کوشش کرنے کی جسارت نہ ہوئی مگر وہ ایک گستاخ رسول کیلئے اتنے بے تاب کیوں ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی سے مسلم امہ کی دل آزاری ہوتی ہے اور انکے دل زخمی ہوتے ہیں،اس گستاخانہ اور ناپاک جسارت کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہیں۔مسلمان جس کے پیرو کار ہیں وہ امن کے داعی ، عدل و انصاف کے پیامبر، اقلیتوں کے محافظ اور انسانیت کے محسن ہیں۔

آج امریکہ جو دنیا کا تھانیدار بنا ہوا اس کا حال یہ ہے کہ وہ رسول اکرمﷺ کے گستاخ کو پناہ دینے کیلئے پیشکش کررہا ہے۔اگر برطانیہ اور امریکہ میں آزادی تحریر اور تقریر کے باوجود ملک اور اسکے آئین میں حضرت عیسی علیہ السلام اور ملکہ کی توہین جرم ہے، روس میںلینن کو گالی دینا قابل تعزیر ہے توہمیں اپنے آقا ﷺکی توہین کے جرم کی سزاکے ببانگ دہل کے اعلان سے کون روک سکتا ہے، ہماری متاع ایمان کی بقاءکی ضمانت ہی نبی کریم ﷺکی ذات والا سے محبت اور آپ کی عظمت و توقیر ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ ہر مسلمان ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے مر مٹنے کا جذبہ رکھتا ہے بعض لوگوں کیلئے شاید یہ امر باعث حیرت ہوکہ اسلام نے بڑے بڑے گناہگار کیلئے توبہ کا دروازہ بند نہیں کیا۔ پھر شاتم رسول توبہ کے باوجود کم ازکم دنیاوی سزا کے کیوں نہیں بچ سکتا؟ امام ابن تیمیہ حمتہ اللہ نے اس موضوع پر اپنی کتاب ”الصارم المسﺅل علی شاتم الرسول“ میں خوب روشنی ڈالی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اہل حدیث امام احمد اور امام مالک کے نزدیک شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توبہ اسے قتل کی سزا سے نہیں بچا سکتی جبکہ امام شافعی سے اس سلسلہ میں توبہ کے قبول و عدم قبول کے دونوں قول منقول ہیں۔
خود امام ابن تیمیہ اکثر محدثین و فقہاءکی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم توبہ کے باوجود قتل کی سزا کا مستحق ہے‘ انہوں نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب کے مختلف مقامات پر جو زور دار دلائل دئیے ہیں انکا خلاصہ اور وضاحت حسب ذیل ہے۔
1۔شاتم رسول ﷺفساد فی الارض کا مرتکب ہوتا ہے اور اسکی توبہ سے اس بگاڑ اور فساد کی تلافی اور ازالہ نہیں ہوتا جو اس نے لوگوں کے دلوں میں پیدا کیا ہے۔
2۔اگر توبہ کی وجہ سے سزا نہ دی جائے تو اسے اور دوسرے بدبختوں کو جرات ہوگی کہ وہ جب چاہیں توہین رسولﷺ کا ارتکاب کریں اور جب چاہیں توبہ کرکے اس کی سزا سے بچ جائیں۔ اس طرح غیروں کو موقع ملے گا کہ وہ مسلمانوں کی غیرت ایمان کو بازیچہ اطفال بنالیں۔
3۔نبی کریمﷺکی گستاخی کے جرم کا تعلق حقوق اللہ سے بھی ہے اور حقوق العباد سے بھی۔ حقوق اللہ واللہ چاہے تو خود معاف کردیتا ہے، مگر حقوق العباد میں زیادتی اس وقت تک معاف نہیں ہوتی جب تک متعلقہ مظلوم اسے معاف نہ کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں اگر کسی کا یہ جرم معاف کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے، مگر اب اس کی کوئی صورت نہیں۔ امت مسلمہ یا مسلمان حاکم آپ ﷺکی طرف سے اس جرم کو معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔

4۔قتل، زنا، سرقہ جیسے جرائم کے بارے میں بھی اصول یہی ہے کہ ان کا مجرم سچی توبہ کرنے سے آخرت کی سزا سے بچ سکتا ہے، مگر دنیاوی سزا سے نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ قاتل، زانی یا چور گرفتار ہوجائے اور کہے کہ میں نے جرم تو کیا تھا، مگر اب توبہ کری ہے تو اسے چھوڑ دیا جائے۔ اسی طرح شاتم رسولﷺ بھی ارتکاب جرم کے بعد توبہ کا اظہار کرے تو دنیاوی سزا سے نہیں بچ سکتا اور اس کا جرم مذکورہ جرائم سے بدتر اور زیادہ سنگین ہے۔
ان دلائل کے پیش نظر درست یہی ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے اور اسکی سچی یا جھوٹی توبہ اسے اس سزا سے نہیں بچاسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کو مغرب اور اس کی نام نہاد تہذیبی اقدار سے مرعوب ہوکر اپنے موقف میں کسی طرح کی لچک پیدا نہیں کرنی چاہیے۔


http://www.karachiupdates.com/v2/index.php?option=com_content&view=article&id=7011:2010-11-25-06-26-57&catid=108:2009-10-13-02-44-57&Itemid=13
 

مہوش علی

لائبریرین
مسئلہ یہ ہے کہ ملا حضرات فقط یکطرفہ واقعات بیان کرتے ہیں اور بقیہ واقعات جو انکی انتہا پسندی کے خلاف جا رہے ہوتے ہیں، انہیں وہ ہضم کر جاتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کو معاذ اللہ برا بھلا کہنے والے کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ اس میں دوسری طرح کی روایات بھی پائی جاتی ہیں جو کہ دین میں رحمدلی دکھانے اور قتل کرنے کی بجائے اللہ سے ہدایت کی دعا کرنے کا پیغام دیتی ہیں۔ افسوس کہ ملا حضرات کو ان سے اتنی الرجی ہے کہ کبھی ان پر غور کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے ہیں، حالانکہ وہ بھی مکمل طور ثابت شدہ "سنتِ نبوی" ہے۔

واقعات کی اقسام

1۔ اگر کوئی مسلمان رسول اللہ ﷺ کو برا بھلا کہتا ہے تو اس کا معاملہ الگ ہے، مگر کوئی غیر مسلمان (جو کہ اسلام نہیں لایا ہے) اگر گستاخی کر رہا ہے تو اس کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔

2۔ شاتم رسول کے قتل کیے جانے کے جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں، ان میں کچھ ہی "صحیح" کے درجے پر پہنچ رہے ہیں اور جن پر یقین کیا جا سکتا ہے۔

3۔ دوسرا یہ کہ ان صحیح واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ "صرف اور صرف" برا بھلا کہنے کا نہیں تھا، بلکہ ان لوگوں نے اسلام کے خلاف عملی سازشیں کی تھیں اور اسلام کو عملی نقصان پہنچا رہے تھے۔ چنانچہ اغلب امکان یہ ہے کہ یہ قتل "زبانی برا بھلا" کہنے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان "عملی سازشوں اور نقصانات" کی وجہ سے کیے گئے۔

مثال کے طور پر ذیل کے واقعات "مکمل" پر دیکھیے۔

کعب بن اشرف کا مکمل واقعہ

کعب بن اشرف بہت بڑا سرمایہ دار یہودی تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ہجو کیا کرتا تھا۔ مگر اسکا سب سے بڑا فتنہ یہ تھا کہ یہ قریش کے کفار کو مسلمانوں کے جنگ کرنے کے لیے ابھارتا تھا، اور اگر وہ اپنی سازشوں میں کامیاب ہو جاتا تو اس سے مسلمانوں کا بہت جانی نقصان ہوتا۔ اس لیے اس کی شرارتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے مجبوراً ماہ ربیع الاول سنہ3ھ میں یہ قدم اٹھایا گیا۔ مکمل تفصیل آپ کو فتح الباری کی مقدمے پارہ 12 میں مل سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ مکہ میں تو سینکڑوں کفار تھے جو (معاذ اللہ) کھل کر رسول اللہ ﷺ اور اسلام کو برا بھلا کہا کرتے تھے۔ تو پھر صرف اور صرف ایک اس کعب بن اشرف کو ہی کیوں نشانہ بنانے کے لیے مجاہدین بھیجے گئے اور انکی جانوں کو خطرے میں ڈالا گیا؟ کیوں نہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے تمام کے تمام شاتمین رسول کو قتل کرنے کے لیے مجاہدین روانہ کیے اور ان تمام کے تمام لوگوں کو فتح مکہ کے وقت قتل کروایا؟

ابن خطل کا قتل


ابن خطل کے بارہ میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ مسلمان تھا مگر پھر مرتد ہوگیا تھا اور اس نے ایک مسلمان کو قتل کردیا تھا ۔ جو اس کا خدمت گار تھا، نیز اس نے ایک پیشہ ور گانے والی لڑکی پال رکھی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ کے صھابہ کرام اور اسلام کے احکام وشعائر کی ہجو کرتی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو مارڈالنے کا حکم دیا۔ اس بات سے حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی یہ استدلال کرتے ہیں کہ حرم مکہ میں قصاص اور حدود سزائیں جاری کرنا جائز ہے ، حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے، امام صاحب فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن خطل کے قتل کا حکم اس لئے دیا کہ وہ مرتد ہوگیا تھا، تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قصاص کے طور پرقتال کرایا تو پھر یہ کہا جائے گا کہ اس کا قتل اس خاص ساعت میں ہوا ہوگا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے زمین حرم مباح کر دی گئی تھی۔

سوال پھر یہ ہے کہ مکہ میں تو سینکڑوں کفار رسول اللہ ﷺ کو برا بھلا کہا کرتے تھے، تو پھر انہیں معافی کیوں نہ دی گئی اور صرف انہیں چھوڑ کر فقط اسی کو قتل کیوں کیا گیا۔ چنانچہ لگتا یہی ہے کہ یہ اور اور اسکی لونڈی بھی کفار مکمہ کو عملی طور پر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے ابھارتے ہوں گے اور اسی وجہ سے انہیں قتل کیا گیا۔

ابو رافع یہودی کا قتل

ابورافع یہودی خیبر میں رہتا تھا۔ رئیس التجار اور تاجر الحجاز سے مشہور تھا۔ اسلام کا سخت ترین دشمن ہر وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا۔ غزوئہ خندق کے موقع پر عرب کے مشہور قبائل کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے اس نے ابھارا تھا۔

یقینی طور پر ابو رافع خیبر میں اکیلا یہودی نہیں تھا جو رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرتا ہو گا۔ مگر اسکو قتل کرنے کے لیے مجاہدین کو زندگیاں اس لیے خطرے میں ڈالیں گئیں کیونکہ اگر وہ زندہ رہتا تو اسلام کے خلاف ایسی "عملی" سازشیں کرتا جس سے مسلمانوں کو بہت جانی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اس لیے اس کو قتل کیا گیا۔

چنانچہ اس واقعے میں بھی صرف ہجو ہی بنیادی ایشو نہیں ہے بلکہ دوسرے معاملات بھی ملوث ہیں۔

وہ واقعات جو کہ ملا حضرات ہضم کر جاتے ہیں

پہلا : بوڑھی عورت کا کوڑا کرکٹ پھینکنے والا واقعہ

آپ سب کو اس واقعہ کا علم ہے کہ رسول اللہ ﷺ رحمت العالمین نے اس غیر مسلم بوڑھی عورت کو قتل کرنے کی بجائے مسلسل اس سے اچھا سلوک رکھا اور ایک دن اسی سلوک سے متاثر ہو کر وہ بوڑھی عورت مسلمان ہو گئی۔ یہ ہے دین میں رحمدلی دکھانا۔

دوسرا: طائف کا واقعہ
بوڑھی عورت کا واقعہ جب ملا حضرات کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو انکا بہانہ ہوتا ہے کہ اُس وقت اسلام مغلوب تھا اس لیے بوڑھی عورت کو قتل نہیں کیا گیا۔ م
مگر طائف کا یہ واقعہ ان ملا حضرات کو جھٹلا رہا ہے۔
طائف میں رسول اللہ ﷺ مغلوب نہ تھے بلکہ جبرئیل امین انکی مدد کے لیے آ گئے تھے اور آپ ﷺ سے اجازت طلب کرتے تھے کہ ایک دفعہ اجازت دیجئے تو ان اہل طائف پر عذاب الہی نازل فرمایا جائے۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے اس ہجو کی، اس سے بڑھ کر تشدد کے نتیجے میں لہو لہان ہونے کے باوجود اہل طائف کا مارا جانا پسند نہ کیا اور مسلسل اللہ سے انکی ہدایت کی دعا کرتے رہے۔ اب بتلائیے ہجو کرنا سنگین گناہ ہے یا پھر اللہ کے رسول ﷺ کو پتھر مار مار کر لہولہان کر دینا؟ مگر رحمت العالمین پھر بھی انکے قتل کے لیے تیار نہیں۔

تیسرا واقعہ: حضرت ابو ہریرہ کی مشرکہ والدہ کا رسول ﷺ کو برا بھلا کہنا
اور کیا آپ کو حضرت ابو ہریرہ اور انکی مشرکہ والدہ کا واقعہ یاد ہے کہ جب وہ اسلام اور رسول ﷺ کو برا بھلا کہتی تھیں، مگر نہ حضرت ابو ہریرہ انہیں قتل کرتے تھے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے اسکا پتا چلنے پر انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے انکی والدہ کے لیے ہدایت کی اللہ سے دعا فرمائی۔

صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ:۔

وعن أبي هريرة قال كنت أدعو أمي إلى الإسلام وهي مشركة فدعوتها يوما فأسمعتني في رسول الله صلى الله عليه و سلم ما أكره فأتيت رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا أبكي قلت يا رسول الله : ادع الله أن يهدي أم أبي هريرة فقال : " اللهم اهد أم أبي هريرة " . فخرجت مستبشرا بدعوة النبي صلى الله عليه و سلم فلما صرت إلى الباب فإذا هو مجاف فسمعت أمي خشف قدمي فقالت مكانك يا أبا هريرة وسمعت خضخضة الماء قال فاغتسلت فلبست درعها وعجلت عن خمارها ففتحت الباب ثم قالت يا أبا هريرة أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا أبكي من الفرح فحمد الله وأثنى عليه وقال خيرا . رواه مسلم
ترجمہ:
' اورحضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو جو مشترکہ تھیں قبول اسلام کی تلقین کیا کرتا تھا ، چنانچہ ایک دن میں نے ان کو ( معمول کے مطابق ) اسلام قبول کرنے کی تلقین کی تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ( ایک نازیبا اور گستاخانہ ) بات کہی کہ مجھ کو سخت ناگوار ہوئی (بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے گوارا نہیں کرتا میں ( اس بات سے مغموم اور رنجیدہ ہو کر کہ انہوں نے میرے سامنے اتنے برے الفاظ زبان سے نکالے ہیں اور ماں ہونے کی ودہ سے میں ان کی تادیب بھی نہیں کر سکتا ) روتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! اب تو آپ ہی اللہ سے دعا فرما دیجئے کہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرمائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ اے اللہ ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما ! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے بڑی خوش آیند امید لے کر ( بارگاہ نبوت سے ) واپس لوٹا اور جب اپنی والدہ کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے ، لیکن میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سن لی تھی انہوں نے ، ( اندر سے آواز دے کر کہا کہ ' ' ابو ہریرہ ! وہیں ٹھہرو ( یعنی ابھی گھر میں نہ آؤ ) پھر میں نے پانی گر نے کی آواز سنی '' میری والدہ نے غسل کیا ، کپڑا پہنا اور مارے جلدی کے دوپٹہ اوڑھے بغیر دروازہ کھول دیا اور ( مجھے دیکھ کر ) کہا ، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ میں یہ دیکھتے ہی کہ میری پیاری ماں کو ہدایت مل گئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ، الٹے پاؤں لوٹا اور خوشی کے آنسو گراتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی اور میری والدہ کے اسلام پر شکر ادا کیا اور '' اچھا فرمایا ۔ '' ( مسلم ) ۔

اگر کوئی مسلمان ہو کر بھی اللہ کے رسول کی گستاخی کرے تو اُس کی بات الگ ہے، مگر غیر مسلم اگر ایسی گستاخی کرتا ہے تو دین اسلام میں گنجائش ہے کہ ایسے شخص کو مستقل اچھی نصیحت کی جائے، اور اللہ سے دعا کی جائے کہ وہ اُسے ہدایت دے ۔

ایک اور واقعہ نابینا صحابی کا پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی کنیز کو رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرنے کے جرم میں قتل کر دیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کنیز مسلمان ہو اور اس وجہ سے ماری گئی ہو۔ بہرحال، اس روایت کا ایک زاویہ بھی ہے کہ اور وہ یہ کہ یہ کنیز "مستقل" رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرتی تھی مگر وہ نابینا صحابی اُسے قتل نہیں کرتے تھے حتی کہ ایک دن انکا غصہ بہت بڑھ گیا اور اس میں ان سے یہ حرکت سرزد ہو گئی۔ چنانچہ اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ "جو ایک بار ہجو کرے اُسے نصیحت کی جائے"۔۔۔۔ مگر جو ہجو کرنے کو ایسے "عادت" بنا لے کہ مستقل طور پر ایسا کرتا ہو، تو پھر کہیں جا کر اس پر کوئی ایکشن لیا جائے۔ افسوس کہ ملا حضرات نے کبھی اس زاویے سے چیزوں کو دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ مہوش۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

سویدا

محفلین
ویسے آپ کو ملاوں سے اتنی خار کیوں ہے
آپ یہی تمام باتیں بغیر کسی طنز وطعن کے بھی لکھ سکتیں تھیں اور شاید اس کا اثر بھی زیادہ ہوتا
 
آج میں نے ٹی وی پر مختلف مکتبہ فکر کے جید علماء کے بیان سنےان کا کہنا تھا کہ شاتم رسول کی سزا (اگر جرم ثابت ہوجائےتو) موت ہے۔ اورایک بشپ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بھی گستاخی کرے تواس کو اسلامی قانون کے تحت سزا دی جائے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ویسے آپ کو ملاوں سے اتنی خار کیوں ہے
آپ یہی تمام باتیں بغیر کسی طنز وطعن کے بھی لکھ سکتیں تھیں اور شاید اس کا اثر بھی زیادہ ہوتا

سویدا صاحب، شاید آپ صحیح کہہ رہے ہوں۔

مگر یہ بھی غور فرمائیے کہ یہ تلخی اور خار کیوں نہ پیدا ہو۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ آج تک اس توہین رسالت آرڈیننس کے تحت کسی کو قتل کی سزا نہیں ہوئی ہے مگر اس دوران میں 10 افراد کو جیلوں میں قانون سے بالاتر ہو کر انتہا پسندوں نے قتل کر ڈالا ہے؟ یہ انتہا پسندی آسمان سے نازل نہیں ہوئی بلکہ انہی ملا حضرات کی برین واشنگ کا براہ راست پھل ہے۔ کیا آپ کو اس ملا حضرات کی اس حماقت پر کچھ تلخی اور خار نہیں پیدا ہوتی؟ ان دس انسانی جانوں کو یہ ملا حضرات پھر ہضم کر جاتے ہیں اور کبھی اس پر انکی زبانوں سے کچھ نہیں نکلتا۔ تو کون ہی ذمہ دار ان انسانی جانوں کا؟ ملا کو آپ برا نہیں کہیں گے تو پھر کس کو برا کہیں گے اور کس کو اسکا ذمہ دار ٹہرائیں گے؟ یا پھر ملا پرستی کے نام پر یونہی اسلام کو ہم بدنام ہوتا ہوا دیکھتے رہیں؟ہم اسلام سے پیار رکھیں یا ان ملاؤوں سے پیار رکھیں؟ یہی ملا حضرات کی وہ غلط کاریاں ہیں جن پر تلخی اور خار کھا کر ہی علامہ اقبال نے فرمایا تھا "دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد"۔

بہرحال موضوع پٹری سے نہ اتر جائے۔ ملا حضرات کی ایک اور فتنہ انگیزی کی طرف چلتے ہیں۔

ملا حضرات کا فتوی: گستاخی رسول کی کوئی معافی نہیں بلکہ ہر صورت قتل کی سزا پوری کی جائے
اوپر سینیٹر ساجد میر صاحب فرما رہے ہیں:

قتل، زنا، سرقہ جیسے جرائم کے بارے میں بھی اصول یہی ہے کہ ان کا مجرم سچی توبہ کرنے سے آخرت کی سزا سے بچ سکتا ہے، مگر دنیاوی سزا سے نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ قاتل، زانی یا چور گرفتار ہوجائے اور کہے کہ میں نے جرم تو کیا تھا، مگر اب توبہ کری ہے تو اسے چھوڑ دیا جائے۔ اسی طرح شاتم رسولﷺ بھی ارتکاب جرم کے بعد توبہ کا اظہار کرے تو دنیاوی سزا سے نہیں بچ سکتا اور اس کا جرم مذکورہ جرائم سے بدتر اور زیادہ سنگین ہے۔ ان دلائل کے پیش نظر درست یہی ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے اور اسکی سچی یا جھوٹی توبہ اسے اس سزا سے نہیں بچاسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کو مغرب اور اس کی نام نہاد تہذیبی اقدار سے مرعوب ہوکر اپنے موقف میں کسی طرح کی لچک پیدا نہیں کرنی چاہیے۔

ان ملا حضرات کی فتوے کے برعکس رسول اللہ ﷺ کی ثابت شدہ سنت یہ ہے کہ آپ دین میں نرمی اور رحمدلی دکھاتے تھے۔ اور کسی کافر یا یہودی نے غصے میں آ کر کبھی کچھ ایک آدھ مرتبہ کہہ بھی دیا تو اس پر سزا جاری کرنے کی بجائے رحمت اللعالمین اُس کے لیے اللہ سے ہدایت کی دعا فرماتے تھے۔
بات اس سے آگے بڑھتی ہے اور طائف میں جن کفار نے نہ صرف زبانی کلامی آپ کو دکھ پہنچایا بلکہ پتھر مار مار کر لہولہان تک کر دیا، مگر رحمت اللعالمین نہ صرف انہیں معاف کر رہے ہیں بلکہ انکے لیے اللہ سے ہدایت کی مسلسل دعائیں کر رہے ہیں۔
بات آگے بڑھتی ہے، جن کفار مکہ نے بڑھ چڑھ کر ساری زندگی اپنا وطیرہ رکھا کہ رسولِ خدا ﷺ کو بُرا بھلا کہا جائے اور انکے خلاف لوگوں کو لڑائی پر اکسایا جائے اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے، ان میں سے بھی جن کے جرائم کچھ کم نوعیت کے تھے ان تک کو رسول اللہ ﷺ نے معاف فرما دیا۔
فتح الباری، زاد المعاد، سیرت النبی کامل ابن ہشام وغیرہ میں مرقوم ہے کہ فتح مکہ کے وقت ابتدا میں رسول اللہ ﷺ نے تیرہ افراد کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ انکے نام یہ ہیں[عبدالعزٰی بن خطل، حارث بن نفیل، مقیس بن صبابہ کنافی، حارث بن طلاطل خزاعی، ارنب جو کہ ابن خطل کی کنیز تھی، عبداللہ بن سعد ابی سرح ، عکرمہ بن ابی جہل ،ہبار بن اسود، کعب بن زبیر، وحشی بن حرب، ہند بن عتبہ، قرتنا (یہ بھی ابن اخطل کی کنیز تھی، پہلے یہ بھاگ گئیں اور بعد میں مسلمان ہو گئیں اور صحابیہ قرار پائیں)، سارہ یا ام سارہ (یہ بنی مطلب میں سے کسی شخص کی لونڈی تھی، اسی کے پاس سے حاطب بن بلتعہ کا خط برامد ہوا تھا)۔]
ان میں سے صرف 5 کو قتل کیا گیا کیونکہ انکے جرائم بہت سنگین تھے جبکہ بقیہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انکے جرائم کچھ کم سنگین نوعیت کے تھے لہذا انہیں معاف کر دیا گیا۔ (یہ کم نوعیت بھی زندگی بھر اسلام کی مخالفت اور سازشیں تھیں، مگر اسکے باوجود انہیں معافی دی گئی)۔ ان 8 افراد کا شمار بعد میں صحابہ اور صحابیات میں ہوا اور ان 8 افراد کے نام یہ ہیں [عبداللہ بن سعد ابی سرح ، عکرمہ بن ابی جہل ،ہبار بن اسود، کعب بن زبیر، وحشی بن حرب، ہند بن عتبہ، قرتنا ، سارہ یا ام سارہ ]
ادھر ملا حضرات کی توہین آرڈیننس کی حالت یہ ہے کہ کسی عیسائی یا اقلیتی شخص نے اگر غصے میں آ کر ایک آدھ مرتبہ بھی کچھ چھوٹی موٹی بات بھی نکال دی (بلکہ نہ بھی نکالی اور کسی کو کوئی ذاتی دشمنی نکالنی ہے) تو ان پر جھٹ گستاخی رسول کا الزام لگا اور پٹ میں اُسے ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ اور معافی کے نام سے تو ملا حضرات پھر الرجک ہیں۔
ہمارے معاشرے کی صورتحال یہ ہے کہ جہالت بہت پائی جاتی ہے، صبر و ضبط اور احترام کی کمی ہے اور ایسے واقعات عام ہیں جہاں عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کو انکے مذہب کی وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جواب میں غصے میں آ کر اگر انکے منہ سے کچھ چھوٹی موٹی غلط بات بھی نکل جائے تو یہ انسانی جان کے خون کا باعث بن جاتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو مذہبی بحث ہی شروع ہو جائے تو اس میں غصے میں آ کر لوگ ایک دوسرے کو کیا کچھ نہیں کہہ جاتے۔ اب عیسائیوں کا رسولِ خدا ﷺ کے متعلق معاذ اللہ وہی عقیدہ ہے جو کہ ہمارا مرزا قادیانی کے متعلق ہے۔ ہم لوگ کھلے عام مرزا قادیانی کو جھوٹا نبی کہتے پھرتے ہیں اور ادھر عیسائی (معاذ اللہ) رسول خدا ﷺ کے متعلق جھوٹا نبی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، اور اگر کہیں مذہبی بحث چھڑ جائے اور انکے منہ سے غصے میں آ کر نکل جائے کہ (معاذ اللہ) رسول خدا ﷺ جھوٹے نبی تھے تو اس پر کیا ان پر گستاخی رسول آرڈیننس جاری ہو گا کہ نہیں؟
چنانچہ غصے میں آ کر کہی ہوئی کسی بات پر ہمیں کسی انسانی جان کو خون میں نہیں نہلا دینا چاہیے، بلکہ صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اللہ سے ان لوگوں کی ہدایت کی دعا کرنی چاہیے اور ایسے لوگوں کے لیے معافی کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔ مگر ایسے غیر مسلم، جو اس چیز کو اپنی عادت ہی بنا لیے اور کھلے عام بیہودہ باتیں کرتا پھرے، اور وارننگ دینے کے باوجود باز نہ آئے تو اسکو اگر روکنے کے لیے سزا دینی ہے تو یہ الگ مسئلہ ہے۔
یہاں مثالیں دی جاتی ہیں ملکہ برطانیہ کی توہین کی۔ تو کیا ہمیں اپنی شریعت ملکہ برطانیہ سے لینی ہے یا پھر رسول اللہ ﷺ کی ثابت شدہ سنت سے؟ کیا ہم معاذ اللہ رسول ﷺ کی ثابت شدہ سنت کو بھلا کر رحمت اللعالمین کو بھی اٹھا کر ملکہ برطانیہ کے ساتھ بٹھا دیں؟ یہ ایک بہت بڑی حماقت ہے اور ایسی انتہا پسندی اسلام کی ضد ہے اور اسے بدنام کرنے کا باعث ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اس طرح ہم دنیا کے سامنے رحمت اللعالمین نہیں بلکہ انسانی خون کا پیاس چنگیز خان بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
ادھر ملا حضرات کی حالت یہ ہے کہ باقی تمام باتیں ایک طرف رہیں، کوئی اگر انکے بنائے ہوئے آرڈیننس بل کے خلاف کوئی بات کرے تو یہ اسکے پیچھے پُل پڑتے ہیں اور ہرگز کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ملا حضرات کا فی سبیل اللہ فساد نہیں تو اور کیا ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ مہوش، بہت شکریہ۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

ابن جمال

محفلین
قانون اپنی جگہ درست ہے لیکن ضرورت اس کے صحیح استعمال کی ہے اوراگرکوئی غلط طورپر کسی پر توہین رسالت کا الزام لگاتاہے تواس کیلئے سخت سزاہونی چاہئے جیساکہ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے کی اسلامی سزا80کوڑے ہیں۔
 

سویدا

محفلین
دنیا کے ہر طبقے میں سو فیصد صحیح لوگ نہیں پائے جاتے ، ہر طبقے میں کچھ نہ کچھ گند بلا ضرور ہوتا ہے لیکن ان گندگیوں کی وجہ سے اس پورے طبقے پر لعن طعن نہیں کی جاتی
ڈاکٹروں کی معمولی معمولی غلطیوں سے ہر سال کتنے انسانوں کی جان چلی جاتی ہے لیکن کوئی بھی انسان ڈاکٹروں کے پورے طبقے پر لعن طعن نہیں کرتا اور نہ ہی ایسا کرنا صحیح ہوگا۔
وکلاء برادری میں کتنے ہی وکیل ایسے ہیں جو صرف پیسے کی خاطر قاتل کو کیس سے بری کرادیتے ہیں اور مقتول کے ورثاء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
یہ صرف دو مثالیں ہیں ہر طبقے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو غلط کام کررہے ہیں اور ہمیں ان غلط لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہیے اور عوام کو ان سے بچانا چاہیے
آپ نے جو رویہ اختیار کیا ہے یہ غیر غلمی اور غیر مناسب رویہ ہے ، کسی بھی صحیح بات کی دعوت دینے کے لیے داعیانہ اسلوب ضروری ہے ، آپ نے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے جو بیش بہا حوالے دیے ہیں
اس کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داعیانہ سنت سے ہمیں قدم قدم پر یہ سبق بھی ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طنز وطعن کو کبھی پسند نہیں فرمایا بلکہ مثبت اسلوب میں اپنی دعوت پیش کی۔
 

dehelvi

محفلین
آپا مہوش! ناموس رسالت کا مسئلہ کوئی ملائوں کی ایجاد بندہ چیز نہیں بلکہ خالص ضروریات دین کا مسئلہ ہے، جو شعائر اسلام کے تحفظ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مسئلہ سے صرف ملائوں کے ہی نہیں پوری امت مسلمہ کے حساس جذبات سے وابستہ ہیں۔
لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں قرآن کریم کی سورہ توبہ آیت ١١ ذرا فرصت میں غور سے مع ترجمہ وتفسیر ملاحظہ فرمالیں۔
مشہور مفسر علامہ آلوسی رحمة اللہ علیہ روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
ومن ذلك الطعن بالقرآن وذكر النب۔ي صلى الله عليه وسلم وحاشاه بسوء فيقتل الذمى به عند جمع مستدلين بالآية سواء شرط انتقاض العهد به أم لا. وممن قال بقتله إذا أظهر الشتم والعياذ بالله مالك والشافعي وهو قول الليث وأفتى به ابن الهمام۔
یہ عبارت ذرا غور سے ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ملائوں کی کارستانی ہے یا واقعی خالص فقہی مسئلہ ہے۔
آپ نے اوپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درگزر فرمانے کے سلسلے میں جن واقعات کا ذکر کیا اور پھر توہین رسالت کی سزا کی معافی کے سلسلہ میں ان سے استدلال کیا ہے تو یہ استدلال بچند وجوہ مخدوش ہے۔

اولا اس لئے کہ یہ واقعات خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں پیش آئے، صاحب شریعت نبی اللہ کے حکم سے اپنی ذات کے سلسلے میں معافی یا سزا دینے کا مختار ہوتا ہے۔ چنانچہ ان واقعات میں دیگر حکمتوں کی طرح یہ حکمت بھی کار فرماتھی کہ گستاخی کرنے والوں کا یہ فعل خود ان کی ندامت کا ذریعہ بن جائے گا اور وہ دولت ایمان سے بہرہ ور ہوں گے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ شریعت کے اس ضابطے کے نفاذ میں مصنوعی رحمدلی دکھا کرکسی دوسرے کو ترمیم کی اجازت بھلا کیسے ہوسکتی ہے؟ جبکہ شریعت اور وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوئی اور بعد والے صرف ضوابط واحکام شرعیہ پر چلنے کے پابند ٹھہرے۔
وثانیا ایک دو جزوی واقعات سے شرعی ضابطہ نہیں بدلا جاسکتا جبکہ یہ قوی احتمال موجود ہے کہ یہ بات صاحب واقعہ کی خصوصیت ہو۔

وثالثا آپ کے ذکر کردہ واقعات سورہ توبہ کی آیت کریمہ کے نزول سے پیشتر کے ہیں اس لئے یہ عین ممکن بلکہ واقع ہے کہ اس وقت توہین رسالت کی سزا باضابطہ طور پر مقرر نہ ہوئی ہو۔ واضح رہے کہ سورہ توبہ قرآن کریم کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت ہے ﴿تفصیل کے لئے دیکھئے الاتقان فی علوم القرآن از حافظ جلال الدین السیوطی﴾

علاوہ ازیں آپ نے توہین رسالت کے مرتکب کے سلسلے میں جو مسلم اور کافر کی تفریق ذکر کی ہے یہ بات بھی علی الاطلاق صحیح نہیں۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ توہین رسالت کے ارتکاب کی صورت میں مسلمان اور کافر میں کوئی فرق نہیں البتہ فرق ہے تو وہ کافر ذمی اور حربی کا ہے۔ کہ حربی پر ولایت نہ ہونے کے صورت میں سزا کا اجرا نہیں ہوسکتا، لیکن ذمی یا مسلم پر ضرور ہوگا۔
اس سے آپ کا وہ الزامی استدلال بھی باطل ہوگیا جس میں آپ نے کفار مکہ اور دیگر کفار کی توہین رسالت کے ارتکاب کا ذکر کیا ہے کہ اگر ہمیشہ توہین رسالت کی سزا قتل ہوتی تو آپ نے ان کافروں کو کھلی چھٹی کیوں دے رکھی تھی؟
تو اس کا جواب یہی ہے کہ اس وقت وہ کفار حکومت اسلامیہ کی عملداری میں نہیں تھے جس کی وجہ سے ان پر سزا کا نفاذ ممکن نہیں تھا۔ بلکہ ان کے دیگر برے افعال کی طرح اس توہین رسالت کے فعل کو بھی ان کے کفر میں ضم کرکے برداشت کیا جاتا تھا۔

آخر میں آپ نے ایک بار پھر بزعم خویش ملائوں کو لتاڑتے ہوئے انہیں برین واشنگ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کم معصوم لوگوں کے شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل کا ذکر کیا ہے۔ اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ توہین رسالت کا مسئلہ صرف ملا ہی کا نہیں ہر کلمہ پڑھنے والے مسلمان کے ایمانی جذبات کا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے حکومتی اداروں کی لادینیت ہے کہ وہ توہین کے پکے ثبوت والے واقعات پیش آنے کے بعد قانونی کارروائی نہیں کرتے، اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ کو طول دیتے رہتے ہیں۔
اگر مجرموں کے ساتھ حکومت از خود کارروائی کرلے تو کسی سرپھرے کو جلد بازی کی ضرورت پیش نہ آئے۔

نیز آخر میں آپ نے ملکہ برطانیہ کی توہین کے آرڈیننس پر ناموس رسالت کے آرڈیننس کو قیاس کرنے پر مغرب میں اسلامی کی جگ ہنسائی کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ تو اس سلسلہ میں عرض یہی ہے کہ واقعی دیگر اسلامی قوانین واحکام کی طرح ناموس رسالت کا مسئلہ بھی برطانوی قوانین کا کوئی سب آرڈر نہیں بلکہ قرآن وسنت سے ثابت شدہ ایک اتفاقی مسئلہ ہے۔ جسے مغرب کے نام نہاد انسانیت کے علمبرداروں نے معصوم جانوں سے کھیلنے کے عنوان سے تعبیر کیا ہے۔
تاہم اگر کسی نے یہ بات کہی ہوگی تو وہ شاید الزامی طور پر ہی کہی ہوگی ورنہ تو یہ مسئلہ پوری امت مسلمہ کا اجماعی مسئلہ ہے۔

آخر میں، میں عرض کروں گا کہ خدارا ملائوں کی دشمنی میں شریعت کے طے شدہ احکام کو محض اپنی رائے سے غلط یا بے بنیاد مت سمجھ لیا کریں، اور اس سلسلہ میں معتدل، غیر متنازع اور جید علماء کرام اور دانشوروں سے ضرور معلوم کرلیا کریں۔
 
محفل کے سنہرے اصول نمبر 4
اردو محفل کسی مخصوص قومیت، مخصوص سیاسی یا مذہبی مکتب فکر کا ترجمان، حامی یا مخالف نہیں ہے۔ اس کا بنیادی مقصد انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل دنیا میں یونیکوڈ اردو اور معیاری ادب کی حفظ و ترویج ہے۔ لہٰذا محفلین سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ اس نصب العین کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی فرد، قوم یا جماعت کی دل آزاری نیز مباحثوں میں بد کلامی سے اجتناب برتیں گے اور اپنی بات منوانے کی خاطر اصولوں کو پامال کرتے ہوئے کسی جانبداری کی توقع نہیں رکھیں گے۔
 

سویدا

محفلین
اتنی بات ضرور ہے کہ اگر اس قانون کا غلط استعمال کیا جارہا ہے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ قانون ہی کو ختم کردیا جائے بلکہ اس قانون پر صحیح طریقے سے عملدرآمد ہو اور حقیقی اور واقعی مجرم کو سزا دی جائے
اور جس کے خلاف دعوی ثابت نہ ہو اس کو اس قانون کی آڑ میں رگیدا نہ جائے۔
اگر قوانین کو صرف اس بنیاد پر ختم کیا جانے لگا کہ اس کا غلط استعمال ہورہا ہے تو میرا نہیں خیال کہ دنیا میں کوئی قانون بچ سکے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
دنیا کے ہر طبقے میں سو فیصد صحیح لوگ نہیں پائے جاتے ، ہر طبقے میں کچھ نہ کچھ گند بلا ضرور ہوتا ہے لیکن ان گندگیوں کی وجہ سے اس پورے طبقے پر لعن طعن نہیں کی جاتی
ڈاکٹروں کی معمولی معمولی غلطیوں سے ہر سال کتنے انسانوں کی جان چلی جاتی ہے لیکن کوئی بھی انسان ڈاکٹروں کے پورے طبقے پر لعن طعن نہیں کرتا اور نہ ہی ایسا کرنا صحیح ہوگا۔
وکلاء برادری میں کتنے ہی وکیل ایسے ہیں جو صرف پیسے کی خاطر قاتل کو کیس سے بری کرادیتے ہیں اور مقتول کے ورثاء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
یہ صرف دو مثالیں ہیں ہر طبقے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو غلط کام کررہے ہیں اور ہمیں ان غلط لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہیے اور عوام کو ان سے بچانا چاہیے
آپ نے جو رویہ اختیار کیا ہے یہ غیر غلمی اور غیر مناسب رویہ ہے ، کسی بھی صحیح بات کی دعوت دینے کے لیے داعیانہ اسلوب ضروری ہے ، آپ نے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے جو بیش بہا حوالے دیے ہیں
اس کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داعیانہ سنت سے ہمیں قدم قدم پر یہ سبق بھی ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طنز وطعن کو کبھی پسند نہیں فرمایا بلکہ مثبت اسلوب میں اپنی دعوت پیش کی۔

آپ کی بات دل کو لگتی ہے اور صحیح ہے۔
بہرحال علماء نے اس معاملے میں بہت بداحتیاطی کی ہے اور غلط طرز عمل اختیار کیا ہے۔ معاملہ اور زیادہ سیریس اس لیے ہے کہ یہاں معاملہ ہر طبقہ میں "کچھ" گند بلا کا نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی اکثریت نے احتیاط کا دامن چھوڑ کر انتہا پسند رویہ اختیار کیا ہے۔ اس کا کچھ اندازہ تو آپ کو اوپر ہو گیا ہے، جبکہ کچھ آپ کو اگلے مراسلے میں پڑھنے کو ملے گا۔ انشاء اللہ۔
بہرحال مسئلہ کچھ بھی ہو، مگر آپ نے مثبت اسلوب کی جو بات کی ہے مجھے انتہائی غم و غصہ کے باوجود اس سے متفق ہونا پڑے گا۔ مزید دعا فرمائیے۔ والسلام۔
 

dehelvi

محفلین
اللہ اراکین محفل اور موڈریٹرز سب ہی کو محفل کے اصولوں کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
QUOTE=dehelvi;704711]آپا مہوش! ناموس رسالت کا مسئلہ کوئی ملائوں کی ایجاد بندہ چیز نہیں بلکہ خالص ضروریات دین کا مسئلہ ہے، جو شعائر اسلام کے تحفظ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مسئلہ سے صرف ملائوں کے ہی نہیں پوری امت مسلمہ کے حساس جذبات سے وابستہ ہیں۔
لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں قرآن کریم کی سورہ توبہ آیت ١١ ذرا فرصت میں غور سے مع ترجمہ وتفسیر ملاحظہ فرمالیں۔
مشہور مفسر علامہ آلوسی رحمة اللہ علیہ روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
ومن ذلك الطعن بالقرآن وذكر النب۔ي صلى الله عليه وسلم وحاشاه بسوء فيقتل الذمى به عند جمع مستدلين بالآية سواء شرط انتقاض العهد به أم لا. وممن قال بقتله إذا أظهر الشتم والعياذ بالله مالك والشافعي وهو قول الليث وأفتى به ابن الهمام۔
یہ عبارت ذرا غور سے ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ملائوں کی کارستانی ہے یا واقعی خالص فقہی مسئلہ ہے۔
آپ نے اوپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درگزر فرمانے کے سلسلے میں جن واقعات کا ذکر کیا اور پھر توہین رسالت کی سزا کی معافی کے سلسلہ میں ان سے استدلال کیا ہے تو یہ استدلال بچند وجوہ مخدوش ہے۔

اولا اس لئے کہ یہ واقعات خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں پیش آئے، صاحب شریعت نبی اللہ کے حکم سے اپنی ذات کے سلسلے میں معافی یا سزا دینے کا مختار ہوتا ہے۔ چنانچہ ان واقعات میں دیگر حکمتوں کی طرح یہ حکمت بھی کار فرماتھی کہ گستاخی کرنے والوں کا یہ فعل خود ان کی ندامت کا ذریعہ بن جائے گا اور وہ دولت ایمان سے بہرہ ور ہوں گے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ شریعت کے اس ضابطے کے نفاذ میں مصنوعی رحمدلی دکھا کرکسی دوسرے کو ترمیم کی اجازت بھلا کیسے ہوسکتی ہے؟ جبکہ شریعت اور وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوئی اور بعد والے صرف ضوابط واحکام شرعیہ پر چلنے کے پابند ٹھہرے۔
وثانیا ایک دو جزوی واقعات سے شرعی ضابطہ نہیں بدلا جاسکتا جبکہ یہ قوی احتمال موجود ہے کہ یہ بات صاحب واقعہ کی خصوصیت ہو۔

وثالثا آپ کے ذکر کردہ واقعات سورہ توبہ کی آیت کریمہ کے نزول سے پیشتر کے ہیں اس لئے یہ عین ممکن بلکہ واقع ہے کہ اس وقت توہین رسالت کی سزا باضابطہ طور پر مقرر نہ ہوئی ہو۔ واضح رہے کہ سورہ توبہ قرآن کریم کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت ہے ﴿تفصیل کے لئے دیکھئے الاتقان فی علوم القرآن از حافظ جلال الدین السیوطی﴾

علاوہ ازیں آپ نے توہین رسالت کے مرتکب کے سلسلے میں جو مسلم اور کافر کی تفریق ذکر کی ہے یہ بات بھی علی الاطلاق صحیح نہیں۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ توہین رسالت کے ارتکاب کی صورت میں مسلمان اور کافر میں کوئی فرق نہیں البتہ فرق ہے تو وہ کافر ذمی اور حربی کا ہے۔ کہ حربی پر ولایت نہ ہونے کے صورت میں سزا کا اجرا نہیں ہوسکتا، لیکن ذمی یا مسلم پر ضرور ہوگا۔
اس سے آپ کا وہ الزامی استدلال بھی باطل ہوگیا جس میں آپ نے کفار مکہ اور دیگر کفار کی توہین رسالت کے ارتکاب کا ذکر کیا ہے کہ اگر ہمیشہ توہین رسالت کی سزا قتل ہوتی تو آپ نے ان کافروں کو کھلی چھٹی کیوں دے رکھی تھی؟
تو اس کا جواب یہی ہے کہ اس وقت وہ کفار حکومت اسلامیہ کی عملداری میں نہیں تھے جس کی وجہ سے ان پر سزا کا نفاذ ممکن نہیں تھا۔ بلکہ ان کے دیگر برے افعال کی طرح اس توہین رسالت کے فعل کو بھی ان کے کفر میں ضم کرکے برداشت کیا جاتا تھا۔

آخر میں آپ نے ایک بار پھر بزعم خویش ملائوں کو لتاڑتے ہوئے انہیں برین واشنگ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کم معصوم لوگوں کے شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل کا ذکر کیا ہے۔ اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ توہین رسالت کا مسئلہ صرف ملا ہی کا نہیں ہر کلمہ پڑھنے والے مسلمان کے ایمانی جذبات کا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے حکومتی اداروں کی لادینیت ہے کہ وہ توہین کے پکے ثبوت والے واقعات پیش آنے کے بعد قانونی کارروائی نہیں کرتے، اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ کو طول دیتے رہتے ہیں۔
اگر مجرموں کے ساتھ حکومت از خود کارروائی کرلے تو کسی سرپھرے کو جلد بازی کی ضرورت پیش نہ آئے۔

نیز آخر میں آپ نے ملکہ برطانیہ کی توہین کے آرڈیننس پر ناموس رسالت کے آرڈیننس کو قیاس کرنے پر مغرب میں اسلامی کی جگ ہنسائی کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ تو اس سلسلہ میں عرض یہی ہے کہ واقعی دیگر اسلامی قوانین واحکام کی طرح ناموس رسالت کا مسئلہ بھی برطانوی قوانین کا کوئی سب آرڈر نہیں بلکہ قرآن وسنت سے ثابت شدہ ایک اتفاقی مسئلہ ہے۔ جسے مغرب کے نام نہاد انسانیت کے علمبرداروں نے معصوم جانوں سے کھیلنے کے عنوان سے تعبیر کیا ہے۔
تاہم اگر کسی نے یہ بات کہی ہوگی تو وہ شاید الزامی طور پر ہی کہی ہوگی ورنہ تو یہ مسئلہ پوری امت مسلمہ کا اجماعی مسئلہ ہے۔

آخر میں، میں عرض کروں گا کہ خدارا ملائوں کی دشمنی میں شریعت کے طے شدہ احکام کو محض اپنی رائے سے غلط یا بے بنیاد مت سمجھ لیا کریں، اور اس سلسلہ میں معتدل، غیر متنازع اور جید علماء کرام اور دانشوروں سے ضرور معلوم کرلیا کریں۔[/QUOTE]

دہلوی بھائی صاحب،
اوپر رسول اللہ ﷺ سے عفو و درگذر کے جتنے واقعات ہیں، انہیں آپ نے اس بنیاد پر رد فرما دیا ہے کہ آخر میں سورۃ توبہ میں آخری حُکم نازل ہوئی ہے اور اس میں اس کی آیت نمبر 11 میں آخری حُکم یہ ہے کہ بغیر کسی عفو و درگذر اور معافی کے قتل کر دیا جائے۔ یہ آپ کا بنیادی آرگومینٹ ہے اور اسی کی بنیاد پر آپ نے بقیہ اُن تمام تر ثابت شدہ سنتِ نبوی کو منسوخ شدہ قرار دے دیا ہے جو کہ آپ کے مؤقف کی نفی کر رہی ہیں۔

بھائی صاحب،
بلاشبہ علامہ سیوطی کی کتاب "الاتقان" قرآن کے موضوع پر بہترین کاتب ہے، مگر یہ بھی یاد رکھیے کہ بہت سی دیگر سورتوں کی طرح سورۃ توبہ بھی ایک وقت میں نازل نہیں ہوئی ہے۔
آپ نے سورۃ توبہ کی جس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے، اول تو اس سے واضح طور پر وہ حکم نہیں نکلتا جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں۔ (اور یہ سورۃ توبہ کی آیت نمبر 11 نہیں بلکہ آیت نمبر 12 ہے)۔ اس آیت کو غور سے پڑھئیے۔

[القرآن توبہ، 12] وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ
‏‏ [محمودالحسن‏ توبہ آیت 12] اور اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آئیں

یہاں ذکر ہے اول "کفر کے ائمہ" کا، یعنی جن کا کفر انتہائی شدید ہے اور جو عملی طور پر مسلمانوں کی جانوں کے لیے خطرہ ہے۔ اور دوم یہ کہ یہ آیت ہے جب انہوں نے اپنے معاہدے کو توڑ دیا تھا۔
تفسیر عثمانی میں اسکی تفصیل یہ ہے: "یعنی اگر عہد وپیمان توڑ ڈالا (جیسے بنی بکر نے خلاف عہد خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے حملہ آوروں کی مدد کی) اور کفر سے باز نہ آئے بلکہ دین حق کے متعلق طعنہ زنی اور گستاخانہ عیب جوئی کرتے رہے تو سمجھ لو کہ اس طرح کے لوگ "ائمۃ الکفر" (کفر کے سردار اور امام) ہیں۔ کیونکہ ان کی حرکات دیکھ کر اور باتیں سن کر بہت سے کجرو اور بیوقوف پیچھے ہو لیتے ہیں۔ ایسے سرغنوں سے پورا مقابلہ کرو۔ کیونکہ ان کا کوئی قول و قسم اور عہد و پیمان باقی نہیں رہا۔ ممکن ہے تمہارے ہاتھوں سے کچھ سزا پا کر اپنی شرارت و سرکشی سے باز آجائیں۔"

دوم یہ کہ سورۃ توبہ کی یہ آیت نزول قرآن کی "آخری" آیت نہیں تھی۔ بلکہ یہ آیت اور اسے پہلے کی آیات صاف طور پر ذکر کر رہی ہیں صلح حدیبیہ کا اور اس میں کفار کی جانب سے کی جانے والی بدعہدی کا، اور اسی پر اللہ تعالی غضبناک ہے۔ ان آیات کے بعد پھر فتح مکہ ہوئی اور اس میں پھر رسول اللہ ﷺ نے عفو و درگذر کا معاملہ کیا۔ پس ثابت ہوا کہ آپ جو مطلب اس قرآنی آیت سے نکال رہے ہیں، وہ کم از کم رسول ﷺ کی تفسیر نہیں، بلکہ آپ ﷺ کی تفسیر اور سنت اسکے بالکل مخالف ہے۔
آپ سورۃ توبہ کی پچھلی آیات پڑھیں اور آپ کو یہ بات بالکل صاف ہو جائے گی کہ یہ آیت نزول قرآن کی آخری آیت نہیں بلکہ اس سے کہیں قبل صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان نازل ہونی والی آیت ہے۔ مثلا آیت نمبر 7 کو دیکھیے:

كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
‏[جوناگڑھی]‏ مشرکوں کے لئے عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے رہ سکتا ہے سوائے ان کے جن سے تم نے عہد و پیمان مسجد حرام کے پاس کیا (١) جب تک وہ لوگ تم سے معاہدہ نبھائیں تم بھی ان سے وفاداری کرو، اللہ تعالٰی متقیوں سے محبت رکھتا ہے
تفسیر ابن کثیر: "اوپر والے حکم کی حکمت بیان ہو رہی ہے کہ چارہ ماہ کی مہلت دینے پر لڑائی کی اجازت دینے کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے شرک و کفر کو چھوڑ نے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہنے والے ہی نہیں۔ ہاں صلح حدیبیہ جب تک ان کی طرف سے نہ ٹوٹے تم بھی نہ توڑنا۔ یہ صلح دس سال کے لیے ہوئی تھی۔ ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کے قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیا ان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا"

چنانچہ آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کا یہ بنیادی اور واھد آرگومینٹ، جس پر آپ نے بقیہ تمام تر ثابت شدہ سنتِ نبوی کو "منسوخ شدہ" قرار دے دیا تھا، وہ ہرگز صحیح نہیں ہے اور سنت نبوی کے یہ عفو و درگذر کے واقعات مکمل طور پر بطور حجت باقی ہیں۔

حکم بن العاص کو "بستر مرگ" پر معافی دینا
اس موقع پر حکم بن العاص کا ذکر بھی کرنا ضروری ہے جو کہ آپ کے اس قیاس کو رد کر رہا ہے۔
حکم بن العاص بظاہر مسلمان ہو گیا تھا، مگر وہ منافقین سے مل کر ساز باز کرتا تھا اور رسول اللہ ﷺ کی معاذ اللہ "نقلیں" اتارا کرتا تھا۔ جب یہ شخص اپنی حرکات سے باز نہیں آیا تو اس کو رسول اللہ ﷺ نے "شہر بدر" کر دیا (یاد رکھیے، حکم بن العاص کو رسول اللہ ﷺ قتل نہیں فرما رہے ہیں، اور اس سوال کا جواب بھی آپ لوگوں کو دینا ہے۔ اور پتا نہیں شہر بدر کی یہ سزا توہین رسالت پر تھی یا پھر منافقین سے ساز باز رکھنے پر، بہرحال ایک بات یقینی ہے کہ اسے قتل نہیں کیا گیا بلکہ صرف شہر بدر کیا گیا)۔

بعد میں حضرت عثمان نے اپنے دور میں حکم بن العاص اور اسکے بیٹے مروان بن حکم کو واپس مدینہ بلا لیا، اور اسکی وجہ انہوں نے یہ بتلائی کہ بستر مرگ پر رسول اللہ ﷺ نے ان کو معاف کر دیا تھا۔ اگرچہ کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں انہیں واپس مدینہ نہیں آنے دیا، مگر اسکی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عثمان سے اس بات کا گواہ طلب کیا تھا۔ مگر حضرت عثمان اس کے اکیلے گواہ تھے۔ چنانچہ جب حضرت عثمان خود خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ان دونوں کو مدینہ بلا لیا۔
یہاں پھر آپ سے سوال ہے کہ آپ سورۃ توبہ کی آیت کے متعلق دعوی کر رہے تھے کہ وہ آخری حُکم تھا۔ مگر یہ دعوی تو درست نہ تھا اور اسکے مقابلے میں آخری ثابت شدہ سنت نبوی تو عفو و درگذر کی ہی ہے کہ جب آپ نے "بستر مرگ" پر حکم ابن العاص کو معافی دی۔

عبداللہ ابن ابی کی گستاخی پر اسے سزا کا نہ دیا جانا
اب عبداللہ ابن ابی کا کے قصے کو آپ لوگ کہاں فِٹ کریں گے؟ اس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں انتہائی گستاخی کی۔ اس گستاخی پر نہ رسول اللہ ﷺ نے اسکے قتل کا حُکم دیا اور نہ ہی وہاں پر موجود مسلمانوں نے اسے قتل کیا۔ اور اللہ نے بھی اسکے قتل کا حُکم نہیں دیا اور آیت تو نازل ہوئی مگر وہ اسے قتل کرنے کی نہیں تھی بلکہ یہ تھی کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو۔
صحیح بخاری، کتاب الصلح:
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہ انسؓ نے کہا لوگوں نے نبی ﷺ کو رائے دی اگر آپ عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے چلیں تو بہتر ہے یہ سن کر آپؐ ایک گدھے پر سوار ہو کر اس کے پاس گئے مسلمان آپؐ کے ساتھ چلے وہاں کی زمین کھاری تھی جب آپ اس (عبداللہ ابن ابی) کے پاس پہنچے تو کیا کہنے لگا چلو پرے ہٹو تمہارے گدھے کی بد بو نے میرا دماغ پریشان کر دیا یہ سن کر ایک انصاری (عبداللہ بن رواحہ) بولے خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے اس پر عبداللہ کی قوم کا ایک شخص (صحابی) غصے ہوا۔ دونوں میں گالی گلوچ ہوئی اور دونوں طرف کے لوگوں کو غصہ آیا اور وہ چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے آپس میں لڑ پڑے۔ انسؓ نے کہا ہم کو یہ بات پہنچی کہ (سورت حجرات کی آیت وَ اِن طَائِفَتَانِ ِمنَ المُؤمِنِینَ اقتَتَلُوا فَاصلحُوا بَینھمَا) اسی بات میں اتری۔ (یعنی مسلمانوں کے دو گروہ لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو)۔



آگے آپ فرما رہے ہیں:
علاوہ ازیں آپ نے توہین رسالت کے مرتکب کے سلسلے میں جو مسلم اور کافر کی تفریق ذکر کی ہے یہ بات بھی علی الاطلاق صحیح نہیں۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ توہین رسالت کے ارتکاب کی صورت میں مسلمان اور کافر میں کوئی فرق نہیں البتہ فرق ہے تو وہ کافر ذمی اور حربی کا ہے۔ کہ حربی پر ولایت نہ ہونے کے صورت میں سزا کا اجرا نہیں ہوسکتا، لیکن ذمی یا مسلم پر ضرور ہوگا۔
اس سے آپ کا وہ الزامی استدلال بھی باطل ہوگیا جس میں آپ نے کفار مکہ اور دیگر کفار کی توہین رسالت کے ارتکاب کا ذکر کیا ہے کہ اگر ہمیشہ توہین رسالت کی سزا قتل ہوتی تو آپ نے ان کافروں کو کھلی چھٹی کیوں دے رکھی تھی؟
تو اس کا جواب یہی ہے کہ اس وقت وہ کفار حکومت اسلامیہ کی عملداری میں نہیں تھے جس کی وجہ سے ان پر سزا کا نفاذ ممکن نہیں تھا۔ بلکہ ان کے دیگر برے افعال کی طرح اس توہین رسالت کے فعل کو بھی ان کے کفر میں ضم کرکے برداشت کیا جاتا تھا۔

یہاں آپ ایک طرف خود تسلیم کر رہے ہیں کہ غیر ذمی کفار جو حکومت اسلامیہ کی عملداری میں نہیں ہیں، ان پر توہین رسالت کی سزا کا اطلاق نہیں ہوتا۔ تو اس سوال کا جواب دیجئے کہ آپ لوگ پھر کعب بن اشرف کا قتل اور ابو رافع یہودی کے قتل کے واقعات بیان کر کے کیوں اپنا توہین آرڈیننس ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ یہ دونوں ذمی کافر نہ تھے بلکہ کافر ریاستوں میں تھے۔اب تو آپ کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ان کے قتل کے لیے مجاہدین کی جان خطرے میں ڈالنے کی بنیادی وجہ توہین رسالت نہیں تھی بلکہ یہ لوگ کفار اور دیگر قبائل کو مسلمانوں کے خلاف لڑائی کے لیے اکساتے تھے، اسلام کے خلاف ایسی سازشوں میں مصروف تھے جن سے مسلمانوں کو ایذا پہنچتی تھی۔
نیز کفار مکہ، طائف و خیبر وغیرہ کے حوالے سے بنیادی اعتراض آپ لوگوں پر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کل گن کے 13 افراد کے قتل کا حُکم جاری کیا، جبکہ آپ ﷺ کی گستاخی کرنے والے کفار کی تعداد اگر ہزاروں میں نہیں تو بھی سینکڑوں میں تو تھی۔ چنانچہ کیا یہاں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان 13 افراد کے قتل کا حکم صرف گستاخی رسول کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ یہ اسلام کے خلاف ایسی سازشوں میں مصروف تھے جن سے اسلام کو بہت نقصان پہنچتا اور یہ لوگوں کو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے اکسایا کرتے تھے اور انکی حیثیت کچھ "ائمہ الکفر" جیسی تھی۔ اور پھر ان 13 ائمہ الکفر میں سے بھی جن 8 افراد کا کفر کچھ کم نوعیت کا تھا، انہیں پھر معافی دے دی جاتی ہے۔ اس کو آپ کس خانے میں فِٹ کریں گے؟

آگے آپ فرما رہے ہیں:
آخر میں آپ نے ایک بار پھر بزعم خویش ملائوں کو لتاڑتے ہوئے انہیں برین واشنگ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کم معصوم لوگوں کے شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل کا ذکر کیا ہے۔ اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ توہین رسالت کا مسئلہ صرف ملا ہی کا نہیں ہر کلمہ پڑھنے والے مسلمان کے ایمانی جذبات کا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے حکومتی اداروں کی لادینیت ہے کہ وہ توہین کے پکے ثبوت والے واقعات پیش آنے کے بعد قانونی کارروائی نہیں کرتے، اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ کو طول دیتے رہتے ہیں۔
اگر مجرموں کے ساتھ حکومت از خود کارروائی کرلے تو کسی سرپھرے کو جلد بازی کی ضرورت پیش نہ آئے۔

بھائی صاحب،
ایک بار پھر عرض ہے کہ عام مسلمانوں میں یہ انتہا پسندی آسمان سے براہ راست نازل نہیں ہوئی ہے۔ اسکی واحد وجہ علمائے کرام کا غلط، بلکہ خیانتدارانہ رویہ ہے۔۔
اور توہین رسالت کے یہ کیسز حکومت کے پاس نہیں، بلکہ عدالتوں میں زیر غور تھے۔ خیر اس انتہا پسندی اور علمائے کرام کی کھلی خیانت کی طرف آتے ہیں۔

انتہا پسندی کہاں سے آ رہی ہے؟
توہین رسالت کی ضمن میں علمائے کرام وہ روایتیں عام لوگوں کو سنا رہے ہوتے ہیں جس کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ عام لوگ برین واشڈ نہ ہو کر انتہا پسند نہ بنیں۔ مثلا ذیل کی روایت جس میں صاف صاف پیغام ہے کہ گستاخ رسول کو جان سے مار دو اور نہ کیس عدالت میں لے جانے کی ضرورت اور نہ کسی گواہ و شہادت کی ضرورت۔
یہ روایت اوپر سینیٹر پروفیسر ساجد میر صاحب نے بھی نقل کی ہے۔ روایت یہ ہے:
دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک نابینا شخص تھا اس کی ایک باندی تھی کہ جس کے پیٹ سے اس کے دو بچے تھے وہ باندی اکثر و پیشتر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا (برائی سے) تذکرہ کرتی تھی (اور اس کے دو بچے تھے) وہ نابینا شخص اس کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا تھا لیکن وہ نہیں مانتی تھی اور اس حرکت سے باز نہ آتی چنانچہ (حسب عادت) اس باندی نے ایک رات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ برائی سے شروع کر دیا وہ نابینا شخص بیان کرتا ہے کہ مجھ سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی میں نے (اس کو مارنے کے لیے) ایک نیمچہ (جو کہ ایک لوہے وغیرہ کا وزن دار تلوار سے نسبتا چھوٹا ہتھیار ہوتا ہے) اٹھایا اور اس کے پیٹ پر رکھ کر میں نے وزن دیا یہاں تک کہ وہ باندی مر گئی۔ صبح کو جس وقت وہ عورت مردہ نکلی تو لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تذکرہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام حضرات کو اکٹھا کیا اور فرمایا میں اس کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ جس پر میرا حق ہے (کہ میری فرنانبرداری کرے) جس نے یہ حرکت کی ہے وہ شخص اٹھ کھڑا ہو یہ بات سن کر وہ نابینا شخص گرتا پڑتا (خوف سے کا پنتا ہوا) حاضر خدمت ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ حرکت میں نے کی ہے وہ عورت میری باندی تھی اور وہ مجھ پر بہت زیادہ مہربان تھی اور میری رفیقہ حیات تھی اس کے پیٹ سے میرے دو لڑکے ہیں جو کہ موتی کی طرح (خوبصورت) ہیں لیکن وہ عورت اکثر و پیشتر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو برا کہتی رہتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی میں اس کو اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کرتا تو وہ باز نہ آتی اور میری بات نہ سنتی آخر کار (تنگ آکر) گزشتہ رات اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ پھر برائی سے شروع کر دیا میں نے ایک نیمچہ اٹھایا اور اس کے پیٹ پر رکھ کر زور دیا یہاں تک کہ وہ مر گئی یہ بات سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمام لوگ گواہ رہیں اس باندی کا خون ہدر ہے (یعنی معاف ہے اور اس کا انتقام نہیں لیا جائے گا) اس لیے کہ ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے کہ جس کی وجہ سے اس کا قتل کرنا لازم ہوگیا تھا۔

ذرا سوچیں جب علمائے کرام یہ روایت مسلمانوں کے ذہنوں میں بٹھائیں گے تو پھر وہ کب عدالت یا گواہ شہادت وغیرہ کی پرواہ کریں گے۔ وہ تو سیدھا سادھا جا کر ہر ایسے شخص کو قتل کر دیں گے جس پر کسی نے بھی گستاخی رسول کا سچا یا جھوٹا الزام لگایا ہو گا۔
ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ کیا واقعی ہمیں اس روایت پر ایمان لانا چاہیے؟
اسلام کوئی بے لگام ضابطہ حیات نہیں بلکہ اسلام کا پورا ضابطہ حیات شہادتوں کے نظام پر قائم ہے۔ اس شہادتوں کے سلسلے میں ایسی سختی کی جاتی ہے کہ جس سے گناہگار چھوٹتا ہو تو چھوٹ جائے، مگر کسی معصوم بے گناہ کو سزا نہ ہونے پائے۔ مگر یہ روایت اسلام کے اس پورے ضابطہ حیات کی نفی کر رہی ہے اور اسکے بعد جو چاہے کسی بھی شخص کو قتل کر دے اور بعد میں فقط یہ کہہ دینا کافی ہے کہ مقتول رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کر رہا تھا۔ تو درایت کے اصولوں پر تو یہ روایت کسی صورت پوری نہیں اترتی، مگر علمائے کرام پھر بھی اسے بغیر کسی تنقید کے بیان کیے جا رہے ہیں۔
مزید سنئیے کہ درایت کے علاوہ بھی اس روایت کی سند کی صحت میں اختلاف ہے اور یہ روایت ضعیف بھی قرار دی گئی ہے۔ دیکھیے یہ لنک۔الحكم المبدئي: إسناده ضعيف (لنک)

اسماء بنت مروان کا قصہ اور علمائے کرام کی خیانت
سینیٹر پروفیسر ساجد میر صاحب نے اوپر اسماء بنت مروان کا قصہ کتربوینت کے ساتھ مختصراً بیان کیا ہے۔ پہلے ذیل میں اس قصے کا مکمل متن پڑھیے:
عصما بنت مروان بنی عمیر بن زید کے خاندان سے تھی ،وہ یزید بن زید بن حصن الخطیمی کی بیوی تھی، یہ رسول ا کو ایذاء اور تکلیف دیا کرتی تھی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی اکے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی۔ عمیر بن عدی الخطمی ، جن کی آنکھیں اس قدر کمزور تھیں کہ جہاد میں نہیں جا سکتے تھے ۔ ان کو جب اس عورت کی باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا تو کہنے لگے کہ اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول ا کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔ رسول ا اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپ ا غزوہ بدر سے تشریف لائے تو عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیررضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اس عورت کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ عمیررضی اللہ عنہ نے بچے کو اس سے الگ کر دیا پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہوگئی۔

یہ وہ روایت ہے جو مسلمانوں پر بہت سخت ہے اور اسلام مخالفین ہر جگہ اسے بیان کر کے ثابت کر رہے ہوتے ہیں کہ (معاذ اللہ) رسولِ خدا انتہائی بے رحم اور ظالم شخص تھے اور ان کے اصحاب کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس بات کا انتظار کر لیں کہ بچہ اپنی ماں کا دودھ پی کر فارغ ہی ہو جائے، بلکہ اُس دودہ پیتے بچے کو الگ کر کے اُسی وقت اُس کی ماں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ یہ صحابی صحیح طور پر دیکھ بھی نہیں سکتے تھے، مگر اسکے باوجود اس عورت کے گھر تک اکیلے پہنچ جاتے ہیں، پھر اکیلے اندھیرے میں اس انجان گھر میں اس عورت کو اندھیرے میں چیزوں کو ٹٹولتے ہوئے ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور اس پورے وقت میں کسی گھر والے کی آنکھ نہیں کھلتی۔ پھر ایک عورت ملتی ہے اور ٹٹولنے پر پتا چلتا ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ پھر اس دودھ پیتے بچے کو زبردستی الگ کیا جاتا ہے مگر پھر بھی ماں جاگتی ہے اور نہ کوئی اور گھر والا (اگر کسی دودھ پیتے بچے کو الگ کیا جائے تو وہ فورا رونا شروع کر دیتا ہے)۔
اور پھر یہ صحابی تقریبا اندھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ آدھی رات کا گھپ اندھیرا بھی تھا۔ تو پھر انہیں کیسے یقین ہوا کہ جس عورت کو وہ قتل کرنے جا رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ اسماء بنت مروان ہی ہے؟
آپ لوگوں کو حیرت ہو گی کہ ایک طرف تو علمائے کرام اس روایت کو بغیر کسی تنقید کے عام مسلمانوں کو سنا رہے ہوتے ہیں، مگر دوسری طرف وہ مسلمان جو اسلام مخالفین کے الزامات کا جواب دے رہے ہوتے ہیں، وہ اس روایت کا انکار کر رہے ہوتے ہیں اور اسے جھوٹی اور گھڑی ہوئی روایت قرار دے رہے ہوتے ہیں۔
یہ روایت ابن سعد کی کتاب "الطبقات الکبریٰ" میں موجود ہے اور کنز الاعمال میں یہ روایت نمبر 44131 کے تحت موجود ہے اور انہوں نے ابن سعد، ابن عدی اور ابن عساکر کے حوالے سے یہ نقل کی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ابن عدی نے اسکو کتاب الکامل میں جعفر ابن احمد، انہوںے محمد بن الحجاج سے، انہوں نے مجلد سے اور انہوں نے شعبی سے انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے۔ اور پھر اس روایت کو نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں: "اس روایت کو مجلد نے نہیں بلکہ محمد بن الحجاج نے بیان کیا ہے اور بقیہ (اس سند میں نیچے موجود) تمام راویوں نے محمد بن الحجاج پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے اس جھوٹی روایت کو اپنی طرف سے گھڑا ہے۔
چنانچہ یہ روایت ایسے شخص سے مروی ہے جو کہ جھوٹی احادیث گھڑنے میں مشہور ہے۔
علمائے کرام نے خود یہ اصول بنائے ہوئے ہیں کہ فضائل وغیرہ میں تو پھر بھی وہ ضعیف روایات قبول کر لیتے ہیں، مگر جب شریعت اور شرعی قوانین کا معاملہ آتا ہے تو اس میں بہت سختی ہے اور ضعیف حدیث کو قبول نہیں کیا جاتا۔ مگر یہاں علمائے کرام کی بددیانتی یہ ہے کہ ضعیف تو کیا، ایک جھوٹ گھڑی ہوئی موضوع روایت کو وہ ایسے طریقے سے عوام کے سامنے پیش کر رہے ہوتے ہیں جس کے بعد وہ علمائے کرام پر آنکھیں بند کر کے یقین کر کے اس روایت پر ایمان لا رہے ہوتے ہیں۔ یہ علمائے کرام کی کھلی ہوئی خیانت اور بددیانتی ہے۔
اس روایت پر یقین لانے کے بعد ایک عام مسلمان کے دل میں رحمدلی کی کوئی تھوڑا بہت جذبہ بھی باقی رہ جائے کیونکہ اگر ایک دودھ پیتا بچہ اپنی ماں کے ہونے والے خون کو اگر کچھ منٹوں کے لیے نہیں ٹال سکا تو پھر کسی اور پر رحم کھانا تو ناممکن ہی ہے۔
اللہ تعالی ہمارے علمائے کرام کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنے رائے کو ثابت کرنے کے لیے دو رخے پن کا شکار ہوں اور نہ حقائق کو چھپا کر خیانت کرنے کا اور انہوں نے جو اصول خود وضع کر رکھے ہیں، اور جن پر وہ فخر کرتے ہیں، اس پر خود بھی کاربند رہیں۔
 

سویدا

محفلین
خرام مراد لکھتے ہیں :
رحمت للعالمین نے تو گالیاں سن کر ، پتھر کھا کر ، دعادی اب ان کو گالی دینے والے کو موت کی سزا دی جائے ؟
ایسے لوگ رحمت کے مفہوم سے آگاہ نہیں ، رحمت کا تقاضا جہاں عفو ودرگزر ہے ، وہاں انصاف بھی ہے ، رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ افک میں قذف کے مرتکبین کو کوڑے لگوائے ، زنا کے مجرموں کو سنگسار کرایا ، مسلح لشکر لے کر نکلے ، جس نے بدر کے میدان میں ستر سرداران قریش کو تہہ تیغ کردیا ، فتح مکہ کے دن جب ہرجانی دشمن کو معافی مرحمت فرمادی گئی ، چھے مرتدین اور شاتمین کے قتل کا حکم صادر ہوا ، آپ یہ نہ کرتے تو فساد مچتا اور زیادہ ظلم برپا ہوتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکم اپنی ذات کی خاطر نہیں دیا،دین اور ملت کے تحفظ کی خاطر دیا ، جب رسالت ہی ایمان کی ، دین کی ، ملت کی بنیاد ہے ، اس کی زندگی کی ضمانت ہے تو توہین رسالت کے مجرم کو سزادینا عین رحمت کا تقاضا تھا ، اسی لیے یوم قیامت کو - جس دن نیکو کاروں کو انعام سے نوازا جائے گا مگر بدکار جہنم میں جھونکے جائیں گے- اللہ تعالی نے اپنی رحمت ، رحمانیت اور رحیمیت کا دن قرار دیا ہے ۔
نیز وہ لکھتے ہیں :
شان رسالت میں گستاخی کے مرتکب فرد کے لیے موت کی سزا کے قانون کی تائید اور حمایت کچھ فقہا وعلما ، ملاوں اور جنونیوں ہی کا” جرم“ نہیں ہے بلکہ وہ اچھے اچھے مغربی تعلیم یافتہ مسلمان حضرات جنہوں نے روح اسلام کو ضائع نہ کیا اور مقام محمدی سے آگاہ رہے ، کسی بھی مداہنت کے بغیر اس ”مذہبی جنون“ کے جرم میں شریک رہے۔
غازی علم الدین شہید نے راج پال کو قتل کیا تو اس کے مقدمے کی پیروی قائد اعظم محمد علی جناح نے کی ، علامہ محمد اقبال نے رشک کے ساتھ فرمایا :اسیں گلاں کردے رہے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا(ہم باتیں کرتے رہے اور ایک بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا)
شان رسالت میں گستاخی کے جرم میں ایک خانساماں نے ایک انگریز میجر کی بیوی کا کام تمام کردیا ، سرمیاں محمد شفیع نے ، جو برطانیہ کے زیر تسلط ہندوستان میں وائسرائے کی ایگزیکٹیو کونسل کے رکن بھی تھے ، اس کے مقدمے کی پیروی کی ، دوران بحث ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
ہائی کورٹ کے انگریز جج نے انہیں بڑی حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا :”سر شفیع ! کیا آپ جیسے ٹھنڈے دل ودماغ کا بلند پایہ وکیل بھی اس طرح جذباتی ہوسکتا ہے ؟“
سرمیاں محمد شفیع نے رنج اور حسرت بھرے لہجے میں جواب دیا : ”جناب ! آپ کو نہیں معلوم ، ایک مسلمان کو اپنے پیغمبر کی ذات سے کتنی گہری عقیدت اور محبت ہوتی ہے ، شفیع بھی اگر اس وقت وہاں ہوتا تو وہ بھی یہی کرگزرتا جو اس ملزم نے کیا ہے“۔
(ترجمان القرآن دسمبر2010)
 

مہوش علی

لائبریرین
محرم کی مصروفیت کے باعث وقت نہیں مل پا رہا ہے اور سب کام جلدی جلدی میں کرنے پڑ رہے ہیں۔ اوپر عصماء بن مروان کی روایت کا عربی متن یہ ہے۔

وكذا ابن عدي
(6/2156) ، ومن طريقه ابن الجوزي في "العلل" (1/175) ، وابن عساكر في "تاريخ
دمشق" (14/768 - المدينة) من طريق محمد بن إبراهيم بن العلاء الشامي :
حدثنا محمد بن الحجاج اللَّخمي أبو إبراهيم الواسطي عن مجالد بن سعيد
عن الشعبي عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ قال :

هجت امرأة من بني خطمة النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بهجاء لها ، قال : فبلغ ذلك النبيَّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فاشتد عليه ذلك ، وقال : « من لي بها ؛ » ، فقال رجل من قومها : أنا يا
رسول الله ! وكانت تمّارة ؛ تبيع التمر ، قال : فأتاها ، فقال لها : عندك تمر ؛ فقالت :
نعم . فأرته تمراً ، فقال أردتُ أجود من هذا . قال : فدخلت لتريه . قال : فدخل
خلفها ونظر يميناً وشمالاً ، فلم ير إلا خِواناً ، فعلا به رأسها حتى دمغها به ، قال :
ثم أتى النبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فقال : يا رسول الله ! قد كفيتُكَها . قال :
فقال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
« إنه لا ينتطح فيها عنزان » ، فأرسلها مثلاً .

وقال ابن عدي - وتبعه ابن الجوزي - :
"هذا مما يتهم بوضعه محمد بن الحجاج " .
قلت : وهو كذاب خبيث ؛ كما قال ابن معين ، وهو واضع حديث الهريسة ،
وقد تقدم (690) ، وقبله حديث آخر له موضوع .
 
السلام عليكم ورحمت اللہ بركاتہ
مسئلہ یہ ہے کہ ملا حضرات فقط یکطرفہ واقعات بیان کرتے ہیں اور بقیہ واقعات جو انکی انتہا پسندی کے خلاف جا رہے ہوتے ہیں، انہیں وہ ہضم کر جاتے ہیں۔
مہوش علی بہن ايك مضمون پر تبصرہ كرتے وقت صاحب مضمون كے متعلق اتنا جارحانہ رویہ ميرى سمجھ سے بالاتر ہے۔ تنقيد اور اختلاف ذرا مختلف انداز ميں بھی ممكن ہے ۔
افسوس کہ ملا حضرات کو ان سے اتنی الرجی ہے کہ کبھی ان پر غور کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے ہیں،
كيا ہم كسى كى نيت كے متعلق اس طرح فيصلہ دے سكتے ہیں؟

آپ كى باقى رائے كےے متعلق بھی ان شاء اللہ كچھ عرض كرنا ہے۔ في الوقت مصروفيت كے باعث صرف ايك بات كى جانب توجہ دلانا چاہتی ہوں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ملا حضرات فقط یکطرفہ واقعات بیان کرتے ہیں اور بقیہ واقعات جو انکی انتہا پسندی کے خلاف جا رہے ہوتے ہیں، انہیں وہ ہضم کر جاتے ہیں۔
وہ واقعات جو کہ ملا حضرات ہضم کر جاتے ہیں
تیسرا واقعہ: حضرت ابو ہریرہ کی مشرکہ والدہ کا رسول ﷺ کو برا بھلا کہنا
اور کیا آپ کو حضرت ابو ہریرہ اور انکی مشرکہ والدہ کا واقعہ یاد ہے کہ جب وہ اسلام اور رسول ﷺ کو برا بھلا کہتی تھیں، مگر نہ حضرت ابو ہریرہ انہیں قتل کرتے تھے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے اسکا پتا چلنے پر انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے انکی والدہ کے لیے ہدایت کی اللہ سے دعا فرمائی۔
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ:۔
وعن أبي هريرة قال كنت أدعو أمي إلى الإسلام وهي مشركة فدعوتها يوما فأسمعتني في رسول الله صلى الله عليه و سلم ما أكره فأتيت رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا أبكي قلت يا رسول الله : ادع الله أن يهدي أم أبي هريرة فقال : " اللهم اهد أم أبي هريرة " . فخرجت مستبشرا بدعوة النبي صلى الله عليه و سلم فلما صرت إلى الباب فإذا هو مجاف فسمعت أمي خشف قدمي فقالت مكانك يا أبا هريرة وسمعت خضخضة الماء قال فاغتسلت فلبست درعها وعجلت عن خمارها ففتحت الباب ثم قالت يا أبا هريرة أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا أبكي من الفرح فحمد الله وأثنى عليه وقال خيرا . رواه مسلم
ترجمہ:
' اورحضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو جو مشترکہ تھیں قبول اسلام کی تلقین کیا کرتا تھا ، چنانچہ ایک دن میں نے ان کو ( معمول کے مطابق ) اسلام قبول کرنے کی تلقین کی تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ( ایک نازیبا اور گستاخانہ ) بات کہی کہ مجھ کو سخت ناگوار ہوئی (بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے گوارا نہیں کرتا میں ( اس بات سے مغموم اور رنجیدہ ہو کر کہ انہوں نے میرے سامنے اتنے برے الفاظ زبان سے نکالے ہیں اور ماں ہونے کی ودہ سے میں ان کی تادیب بھی نہیں کر سکتا ) روتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! اب تو آپ ہی اللہ سے دعا فرما دیجئے کہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرمائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ اے اللہ ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما ! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے بڑی خوش آیند امید لے کر ( بارگاہ نبوت سے ) واپس لوٹا اور جب اپنی والدہ کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے ، لیکن میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سن لی تھی انہوں نے ، ( اندر سے آواز دے کر کہا کہ ' ' ابو ہریرہ ! وہیں ٹھہرو ( یعنی ابھی گھر میں نہ آؤ ) پھر میں نے پانی گر نے کی آواز سنی '' میری والدہ نے غسل کیا ، کپڑا پہنا اور مارے جلدی کے دوپٹہ اوڑھے بغیر دروازہ کھول دیا اور ( مجھے دیکھ کر ) کہا ، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ میں یہ دیکھتے ہی کہ میری پیاری ماں کو ہدایت مل گئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ، الٹے پاؤں لوٹا اور خوشی کے آنسو گراتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی اور میری والدہ کے اسلام پر شکر ادا کیا اور '' اچھا فرمایا ۔ '' ( مسلم ) ۔۔

میری بہن حديث كے الفاظ كو دوبارہ ديكھیے۔

وعن أبي هريرة قال كنت أدعو أمي إلى الإسلام وهي مشركة فدعوتها يوما فأسمعتني في رسول الله صلى الله عليه و سلم ما أكره ۔۔۔۔۔
حضرت ابوھریرہ رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں ميں اپنی والدہ كو اسلام كى طرف بلاتا تھا _ جب كہ وہ مشركہ تھیں، تو ايك روزجب ميں نے ان كو دعوت دى تو انہوں نے مجھے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كے متعلق ايك ايسى بات كہی جو مجھے ناگوار گزری۔۔۔۔
جب كہ آپ نے جو ترجمہ كيا ہے :
' اورحضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو جو مشترکہ تھیں قبول اسلام کی تلقین کیا کرتا تھا ، چنانچہ ایک دن میں نے ان کو ( معمول کے مطابق ) اسلام قبول کرنے کی تلقین کی تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ( ایک نازیبا اور گستاخانہ ) بات کہی کہ مجھ کو سخت ناگوار ہوئی (بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے گوارا نہیں کرتا
1- ما أكرہ كا ترجمہ ناگوار بات ہے۔۔۔ اس بات كو سب ، شتم يا گالى نہیں کہیں گے۔
2- آپ کے ان الفاظ:
مجھ کو سخت ناگوار ہوئی (
میں "سخت" زائد ہے، اصل حديث ميںں صرف : " مجھے ناگوار گزری" ۔ كے الفاظ ہیں۔
3-
بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے گوارا نہیں کرتا
آپ کے ترجمہ كردہ يہ الفاظ اصل عربى متن ميں موجود نہیں ۔
صحيح مسلم كى اس حديث كا آن لائن متن یہاں دیکھ ليجیے اور مكتبہ شاملہ ميں موجود متن ملاحظہ فرمائيے:
[ARABIC]6551 - حدثنا عمرو الناقد حدثنا عمر بن يونس اليمامى حدثنا عكرمة بن عمار عن أبى كثير يزيد بن عبد الرحمن حدثنى أبو هريرة قال كنت أدعو أمى إلى الإسلام وهى مشركة فدعوتها يوما فأسمعتنى فى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ما أكره فأتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وأنا أبكى قلت يا رسول الله إنى كنت أدعو أمى إلى الإسلام فتأبى على فدعوتها اليوم فأسمعتنى فيك ما أكره فادع الله أن يهدى أم أبى هريرة فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « اللهم اهد أم أبى هريرة » ۔۔۔۔۔ [/ARABIC]

ان سب جگہ آپ کے يہ الفاظ مذكور نہیں ہیں۔

اس طرح اس حديث مبارك سے يہ مفہوم اخذ كرنا غلط ہے کہ
1- حضرت ابوھریرہ رضي اللہ عنه كى والدہ كريمہ رضي اللہ عنہا نے نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى شان ميں ایسی بات كہی جو سب وشتم يا اہانت كے زمرے ميں آتى ہو۔
2- اور جب سب وشتم ثابت ہی نہیں تو بے چارے علماء كرام کو اس حديث مبارك كو نظر انداز كرنے كا الزام دينا بھی غلط ہے۔
3- صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كے متعلق قرآن كريم كى گواہی موجود ہے کہ وہ دينى غيرت وحميت ميں اپنے قريبى عزيزوں كى بھی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔
غزوة بنى المصطلق يا مريسيع كے بعد كا واقعہ تو بہت مشہور مثال ہے ۔
رئيس المنافقين عبد اللہ بن ابي نے ڈینگ ماری: مدينہ پہنچ كر عزت والا ذليل كو باہر نكال دے گا۔ اس كے اپنے بيٹے حضرت عبد اللہ (رضي اللہ عنه) بن عبد اللہ بن ابي ،بات سمجھ گئے۔ تلوار سونت كر اس كى راہ روك كر مدينہ کے داخلى راستے ميں کھڑے ہو گئے۔اپنے منافق باپ كو كہا جب تك نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم اجازت نہیں دیتے تم یہاں سے گزر نہیں سکتے!
ابھی اس منافق نے كنايتا بات كى تھی مگر باسعادت بیٹے نے كنايہ بھی برداشت نہیں کیا!
سورة المنافقون كى آٹھویں آيت اسى كے متعلق ہے۔
قرآن كريم میں صحابہ كرام رضي اللہ عنہم كى اسى صفت كو یوں بيان کیا گیا ہے:
[AYAH]لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (22) [/AYAH]
اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت کا تعلق رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالٰی نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں، یہ خدائی لشکر ہے آگاہ رہو بیشک اللہ کے گروہ والے ہی کامیاب لوگ ہیں۔سورت المجادلہ، آيت 22 ۔
اس ليے صحابہ كرام رضي اللہ عنہم كے متعلق يہ تصور بھی نہیں كيا جا سكتا کہ وہ نبي اكرم حضرت محمد مصطفى صلى اللہ عليہ وسلم كى اہانت كو گوارا كريں يا اس پر خاموش رہیں۔

اب سوال يہ پیداہوتا ہے كہ وہ كس قسم كا كلمہ تھا جو حضرت ابوھریرہ رضي اللہ عنہ كو ناگوار گزرا؟؟ يہ كوئى معمولى كلمہ تھا مگر نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے شدید محبت كى بنا پر حضرت أبو هریرہ رضي اللہ عنہ كو تڑپا گیا اور وہ فورا دربار رسالت (عليہ ازكى الصلاہ) ميں حاضر ہوئے۔

باقى گزارشات ان شاء اللہ فرصت ملنے پر ۔
 
Top