کیا ماضی کی سائنس زیادہ ترقی یافتہ تھی؟ از ڈاکٹر مطلوب حسین۔

خواجہ طلحہ

محفلین
یہ دعویٰ بالکل غلط اور صرف قیاس پر مبنی ہے کہ:" موجودہ زمانہ ہی روئے زمین پر انسانی تہذیب کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ دور ہے"۔۔۔ یہ بات انتہائی حد تک حقائق سے دور ہے۔ موجودوہ زمانہ کا سائنس دان اور ریسرچر دراصل قرآن کی سچائی سے ڈرتا ہے۔اسی لیے وہ حقیقت کو ماننے سے پس و پیش کررہا ہے۔ہمارے پاس لاکھوں یا کروڑوں سال کی انسانی تہذیب کا تحریری ریکارڈ موجود نہیں ہے۔تحریری رکارڈ صرف پانچ ہزار سال تک ہے۔ یہاں تک کہ صرف چند ہزار سال کے ماضی کو بیان کرنے کے لیے بھی ہم " قبل از مسیح " کے الفاظ کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔
انسانی تاریخ کے بارے میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ہاں ! البتہ لیکن آسمانی کتابیں ٹھوس ثبوت کہی جاسکتی ہیں ۔تاہم سب سے متعبر اور مصدقہ آسمانی تحریر صرف قرآن ہی اب موجود ہے۔ غیر مسلم ریسرچر اور سائنس دان کو کائناتی کتاب قرآن سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ اگر وہ تسلیم کر لیتا ہے کہ ماضی میں سائنس آج کے زمانہ سے زیادہ ترقی یافتہ تھی تو اسے قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔اور اسی سے وہ انکاری ہے۔آج کا ریسرچر مانے یا نہ مانے قرآن فرماتا ہے"تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاو کیا اونچے ستونوں والے عادارم کے ساتھ،جن کے مانند(ترقی یافتہ)کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی ۔اور ثمود کے ساتھ جو وادی میں (اونچے اونچے گھر بنانے کے لیے ) چٹانیں تراشتے تھے۔ اور اہراموں ( پرامڈز) والے فرعون کے ساتھ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی"۔۔۔قوم عاد کے افراد قد کاٹھ کے لحاظ سے لحیم شحیم تھے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں جسمانی قوت سے بھی نوازا تھا۔ وہ بڑی بڑی عالی شان عمارتیں اور یاد گاریں تعمیر کرتے تھے۔قرآن کا ہر قانون اٹل ہے۔قرآن کہتا ہے کہ ان قوموں جیسی ترقی یافتہ کوئی قوم آج تک ساری دنیا کے شہروں میں پیدا نہیں کی گئی۔مندرجہ بالا آیات کے الفاظ واضح طور پر بتارہے ہیں کہ ماضی میں سائنس زیادہ ترقی یافتہ تھی۔ ہمیں موجودہ زمانہ کے سائنس دانوں اور ریسرچروں کے برعکس قرآان کی بات کو زیادہ مصدقہ ماننا پڑے گا۔ اسکا ایک ثبوت یہ ہے کہ اتنی ترقی ہونے کے باوجود ساری دنیا کے سائنس دان اور ریسرچر، عالمی شہرت یافتہ ماہرین آر کیٹکٹس اور انجینر ز مل کر بھی غزہ کے " شی اوپس" جیسا پرامڈ تیار نہیں کرسکتے، اور یہ بات آج سائنسدان خود تسلیم کرتاہے۔
قارئین کرام! گزشتہ ہفتہ جون کو میرا کالمؔ" پرامڈ تھراپی۔۔ تما امراض کا مکمل علاج ہے" شائع ہواتھا۔۔۔۔۔

ریسرچروں اور سائنسدانوں کی 2010ء میں جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے " شی اوپس" پر کی گئی نئی سٹڈی کے بارے میں آپ سے شئیر کرنا چاہوں گا۔ اس تازہ ترین سٹڈی کے اہم نقاظ یہ ہیں کہ " اہرام " یا پرامڈز انتہائی ترقی یافتہ سائنسی ایجادات کا مظہر ہیں'اور یہ ترقی یافتہ سائنس حضرت عیسٰی کی پیدائش سے ہزاروں سال پہلے کی ہے۔اہراموں کے معمار "ماورائی" سربستہ رازوں سے واقف تھے۔ وہ اعلٰی ترین ریاضی (ایڈوانسڈ ٹرگنومیٹری) کا ادراک رکھتے تھے۔علم مثلت یعنی ٹرگنو میٹری اور جیومیٹری کے علوم پر انہیں دسترس تھی۔ جغرافیہ کے بارے میں انکا علم حیرت انگیز تھا۔ کمپیوٹر کی مدد سے اہرام پر ریسرچ کرنے والے سائنس دانوں نے اہراموں کے تعمیر سے متعلق ریاضی و جیومیٹری کے رموز قوانین کی جلدوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ان میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہمارے سیارہ زمین کا" محیط" دن اور رات کے وقفوں کی پیمائش ،سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ ،روشنی کی سپیڈ،زمین کی کشش ثقل اور اسراع کے قوانین اور فارمولے بھی اہرام کی دیواروں پر قدیم طرز تحریر میں کندہ ہیں۔ ماہرین فن تعمیر بتاتے ہیں کہ اہرام سے زیادہ مضبوط کوئی اور جیو میٹریکل شکل نہیں ہے۔ اہرام کی ساری پراسرایت اسکی مخصوص بناوٹ اور زاویہ میں ہے۔اگر ایک بڑی سی عمارت اہرام کی شکل میں تعمیر کرکے اسکی باہر والی سطح کو" Lead" یعنی سکے کی پلیٹوں سے ڈھانپ دیا جائے تو اس پر ایٹمی تابکاری کے اثرات صفر ہوجائیں گے۔

پوری تحریرپڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے خیال میں تمام سائنسدان ہی اہرامِ مصر کو محیر العقول مانتے ہیں۔ چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ یہ دعویٰ بہت عجیب ہے کہ سائنسدان اہرامِ مصر کو سائینس نہیں مانتے۔ اہرامِ مصر پر سب سے زیادہ تحقیق غیر مسلموں نے ہی کی ہے اور میرے خیال میں ان صاحب نے اہرامِ مصر کے متعلق جتنی باتیں بھی کی ہیں وہ ان غیر مسلموں کی ہی تحقیق ہے۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
تحقیق خواہ موصوف نے خود کی ہو یا کسی اور سے مستعار لی ہو،سوال جو اٹھایا گیا ہے کہ
کیا ماضی کی سائنس زیادہ ترقی یافتہ تھی؟
تو اس سوال کا کیا جواب ہوسکتا ہے۔
اور
"" موجودہ زمانہ ہی روئے زمین پر انسانی تہذیب کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ دور ہے""
تویہ دعوٰی حقیقت ہے یا غلط فہمی؟
 

رانا

محفلین
اس بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ موجودہ تہذیب زیادہ ترقی یافتہ ہے یا ماضی کی تہذیب۔ بہرحال یہ سوال ہے بہت دلچسپ اور پرتجسس۔ اللہ کرے یہ معمہ کبھی ٹھوس بنیادوں پر حل ہوجائے تو ایک تجسس ختم ہو۔
ایک نقطہ آپ سے شئیر کرتا ہوں۔ حقیقت بہرحال خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ وہ یہ کہ ایک آیت قرآن شریف میں ہے جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو تمام جہانوں پرفضیلت دی تھی۔ اس سے بظاہر یہ لگتا ہےکہ شائد اللہ تعالی نے امت محمدیہ پر بھی بنی اسرائیل کو فضیلت دی ہوئی ہے کیونکہ آیت میں تمام جہانوں کا ذکر ہے۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے جو یہ ذکر فرمایا ہے اس مراد اس وقت کے تمام جہان مراد ہیں یعنی جس وقت بنی اسرائیل موجود تھے نہ کہ اگلے پچھلے سارے جہان۔ یہ بات تو حتمی ہے اس میں تو کسی قسم کے شک کے گنجائش نہیں ہے۔

اب اگلی بات جو میں پیش کرنے لگا ہوں وہ میرا اپنا نقطہ نظر ہے اس بارے میں کوئی حتمی بات میں نے کہیں پڑھی نہیں اس لئے خود اندازے لگانے کی جسارت کررہا ہوں۔ حقیقت خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
صاحب مضمون نے جس آیت پر بنا رکھی ہے ہوسکتا ہے کہ اس سے بھی کچھ ایسا ہی مراد ہو کہ اس وقت جو قومیں موجود تھیں ان میں سب سے ترقی یافتہ قوم عاد تھی۔ یعنی تمام اگلی پچھلی قومیں مراد نہ ہوں۔ بہرحال گذشتہ تہذیب کے جو آثار اب تک ملے ہیں ان سے وہ قومیں کافی ترقی یافتہ ثابت ہوتی ہیں جیسے بجلی کے محدود استعمال کے بھی شواہد ملتے ہیں لیکن وہ بہرحال ایسے آثار میرے نزدیک نہیں ہیں کہ آجکل کی ترقی کے مقابل رکھے جاسکیں۔ سوائے اہرام مصر کے۔ اہرام مصر واقعی سمجھ سے باہر ہیں۔ واللہ اعلم۔ ہم تو صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔

ایک یہ بات بھی غور کرنے کے لائق ہے کہ قرآن سے زندگی کا ارتقا تو ثابت شدہ بات ہے۔ اب جسمانی ارتقا تو کبھی کا بند ہوچکا۔ اب صرف ذہنی ارتقا جاری ہے۔ جس کا ثبوت روزانہ پہلے سے بڑھ کر ہوتی ہوئی ترقی ہے۔ اب ذہنی ارتقا کے حوالے سے سوچیں تو پہلے زمانے میں ظاہر ہے کہ ذہنی ارتقا آج کی نسبت کچھ کم درجے پر ہی ہوگا لہذا آج جیسی ترقی بھی نہیں ہوسکتی تھی۔

دوسرے اللہ تعالی نے قرآن جیسی کتاب سب سے آخر میں اتاری۔ اس سے پہلے اس لئے نہیں اتاری کہ پہلے کا انسان اس تعلیم کو پوری طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا اسی لئے پہلے چھوٹی چھوٹی کتابیں نازل کر کرے انسان کو اس بات کے لئے تیار کیا گیا کہ وہ قرآن جیسی عظیم کتاب کی تعلیم کو سمجھنے کے قابل ہوجائے۔ اس سے بھی یہ بات سوچی جاسکتی ہے کہ پہلی دنیاوی ترقی بھی آج کے مقابل پر ادنی درجہ کی تھی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہر دور کے مطابق اس دور کی سائنس ترقی یافتہ ہی تھی۔ چاہِ بابل سے چاند کا نکلنا، سامری کا بچھڑا بنانا وغیرہ وغیرہ۔
 

رانا

محفلین
ہر دور کے مطابق اس دور کی سائنس ترقی یافتہ ہی تھی۔ چاہِ بابل سے چاند کا نکلنا، سامری کا بچھڑا بنانا وغیرہ وغیرہ۔

فرخ بھائی چاہ بابل کا کیا قصہ ہے؟ میں نے تو صرف ابن مقنع کے چاہ نخشب کے بارے میں ہی پڑھا ہوا ہے۔ کہیں آپ اسی کا تو ذکر نہیں کررہے؟ ویسے سامری کے بچھڑے کی تو ایک کھلونے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں تھی جیسے آجکل کے سستے کھلونوں سے بھی جب پھونک مار کر ہوا گزاری جائے تو ایک بے ڈھنگی آواز پیدا ہوتی ہے کچھ ایسا ہی کرتب سامری نے بھی دکھایا تھا تبھی قرآن شریف نے اس سے نکلنے والی آواز کو بے ڈھنگی آواز کہا ہے۔
 

عثمان

محفلین
"ڈاکٹر" مطلوب الحسن کا کالم پڑھ کر ایک سیانے کا قول یاد آتا ہے۔ کہ سنجیدہ بات اُردو اخبارات میں نہیں ڈھونڈنی چاہیے۔
کالم میں اُٹھائے گئے دلائل انتہائی سطحی ہیں۔
رانا صاحب کی بہت سی باتوں سے اتفاق ہے لیکن ایک وضاحت کردوں کی آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جسمانی ارتقاء رک گیا ہے۔ ارتقاء ہر دم جاری ہے۔ تاہم اس کی سست روی کی وجہ سے موازنے کے لئے لاکھوں سال درکار ہیں۔ آج کے انسان کا جسمانی موازنہ آج سے لاکھوں سال پہلے کے primate اورلاکھوں سال بعد آنے والے انسان سے کیجئے۔
 

رانا

محفلین
ایک وضاحت میں بھی کردوں ورنہ کسی کو بڑی سنگین غلط فہمی لگ سکتی ہے میرا اوپر والا پیغام پڑھ کر۔ وہ یہ کہ جب زنندگی کے ارتقا کی بات کی جاتی ہے تو کئی لوگوں کا ذہن فوراً مشہورزمانہ ڈارون تھیوری کے صرف اس ایک حصے کی طرف جاتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ بندروں سے ترقی کرتے کرتے انسان بنا تھا۔ اس بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ یہ نظریہ کہ انسان بندروں کی کسی نسل سے وجود میں آیا تھا آج غلط ثابت ہوچکا ہے اور قرآنی تعلیم کے بھی صریح خلاف ہے قرآن اس بات کو کلیتہً رد کرتا ہے۔ البتہ ڈارون کی یہ بات درست ہے کہ انسان ارتقائی قانون کے مطابق بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا اور یہ خیال جو بائیبل میں پیش کیا گیا ہے کہ یکدم اللہ تعالی نے انسان کی صورت میں ایک شخص کو بنا کر کھڑا کردیا یہ درست نہیں بلکہ آہستہ آہستہ لاکھوں کروڑوں سالوں میں انسان تیار ہوا ہے۔ ڈارون کی صرف اس بات کی تائید قرآن سے ہوتی ہے۔
 

عثمان

محفلین
ایک وضاحت میں بھی کردوں ورنہ کسی کو بڑی سنگین غلط فہمی لگ سکتی ہے میرا اوپر والا پیغام پڑھ کر۔ وہ یہ کہ جب زنندگی کے ارتقا کی بات کی جاتی ہے تو کئی لوگوں کا ذہن فوراً مشہورزمانہ ڈارون تھیوری کے صرف اس ایک حصے کی طرف جاتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ بندروں سے ترقی کرتے کرتے انسان بنا تھا۔ اس بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ یہ نظریہ کہ انسان بندروں کی کسی نسل سے وجود میں آیا تھا آج غلط ثابت ہوچکا ہے اور قرآنی تعلیم کے بھی صریح خلاف ہے قرآن اس بات کو کلیتہً رد کرتا ہے۔ البتہ ڈارون کی یہ بات درست ہے کہ انسان ارتقائی قانون کے مطابق بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا اور یہ خیال جو بائیبل میں پیش کیا گیا ہے کہ یکدم اللہ تعالی نے انسان کی صورت میں ایک شخص کو بنا کر کھڑا کردیا یہ درست نہیں بلکہ آہستہ آہستہ لاکھوں کروڑوں سالوں میں انسان تیار ہوا ہے۔ ڈارون کی صرف اس بات کی تائید قرآن سے ہوتی ہے۔

ڈارون کا نظریہ جدید سائنس کی دنیا میں آج بھی قائم ہے۔ بلکہ اس کی صداقت کے ثبوت پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ دنیا بھر کی لیبارٹریز میں، نینڈردتھالز اور دوسرے پرائمٹس کی باقیات بمع ڈی این اے کے ثبوت میں موجود ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ثقہ تحقیق رسائل سے تو واقف نہیں۔۔۔ہاں البتہ ترکی کے ایک وکیل کے سائنس پر خطبات سب نے پڑھ رکھے ہیں۔
اللہ کے وجود اور آدم حوا کی پیدائش سے انکار کی دلیل سائنس کی طرف سے نہیں آئی بلکہ دہریوں نے اپنے سطحی دلائل میں سائنس کو گھسیڑنے کی ناکام کوشش کر رکھی ہے۔
نظریہ ارتقاء قرآن سے ہرگز متصادم نہیں۔ سائنس پڑھنے اور قرآن کی صحیح تشریح کی بات ہے۔
بہرحال یہ فورم نظریہ ارتقاء پر بحث کا نہیں اس لئے میں بات بڑھانے سے معذرت کر رہا ہوں۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
"ڈاکٹر" مطلوب الحسن کا کالم پڑھ کر ایک سیانے کا قول یاد آتا ہے۔ کہ سنجیدہ بات اُردو اخبارات میں نہیں ڈھونڈنی چاہیے۔ ۔
مطلب یہ ہوا کہ ہر اردو اخبار مزاح نگاری پر مبنی ہے۔ویسے ان سیانے کا کوئی تعارف کہیں ملے جاتا تو۔ ۔ ۔
 

عثمان

محفلین
مطلب یہ ہوا کہ ہر اردو اخبار مزاح نگاری پر مبنی ہے۔ویسے ان سیانے کا کوئی تعارف کہیں ملے جاتا تو۔ ۔ ۔

بہت سے اردو اخبارات پر موجود بہت سا مواد آہ گزاری پر مبنی ہے۔:(
جہاں تک سیانے کا تعلق ہے۔۔۔۔وہ پردہ نشینی میں ہے۔ ;)
 

ظفری

لائبریرین
دوسرے اللہ تعالی نے قرآن جیسی کتاب سب سے آخر میں اتاری۔ اس سے پہلے اس لئے نہیں اتاری کہ پہلے کا انسان اس تعلیم کو پوری طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا اسی لئے پہلے چھوٹی چھوٹی کتابیں نازل کر کرے انسان کو اس بات کے لئے تیار کیا گیا کہ وہ قرآن جیسی عظیم کتاب کی تعلیم کو سمجھنے کے قابل ہوجائے۔ اس سے بھی یہ بات سوچی جاسکتی ہے کہ پہلی دنیاوی ترقی بھی آج کے مقابل پر ادنی درجہ کی تھی۔

اس مضمون میں کوئی خاص بات نہیں کہی گئی ہے ۔ قرآن کی جس آیت کو ماخذ بناکر جو مضمون تیار کیا گیا ہے ۔ اس کی کوئی منطقی توجہہ سمجھ نہیں آتی ۔ سوائے اس کے آج سے پہلے کی قومیں زیادہ ترقی یافتہ تھیں ۔ جب کہ قرآن ایک بات کی طرف اشارہ کررہا ہے ۔ لیکن ابھی اتنا وقت نہیں ہے کہ اس پر تفصیلی بحث کی جائے ۔ میں نے جو اقتباس کوٹ کیا ہے ۔ مجھے اس کے بارے میں میں تھوڑا سا اختلاف کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرنے کی جسارت کروں گا ۔

بنی نوع انسان پر پیغبروں کے ذریعے جو بھی کتابیں اتاریں گئیں وہ بھی اللہ کا کلام تھا ۔ اور قرآن بھی آخری پیغمبر رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا وہ بھی اللہ کا ہی کلام ہے ۔ اللہ تعالی نے ہر دور میں ایک ہی پیغام انسان تک پہنچایا اور وہ توحید اور اخلاقیات تھا ۔ ارتقاء کے عمل کیساتھ انسانوں نے ان تعلیمات میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کیں ۔ جس کی تصوید و توصیع کے لیئے پھر اللہ نے نبیوں اور پیغمبروں کا سلسلہ شروع کیا ۔ اور ان کو مختلف الہامی کتابوں کے ذریعے انہی چیزوں کی تعلیم کی طرف ہمیشہ راغب کیا جاتا رہا ۔ لہذا توریت ہو یا انجیل یا زبور ہر الہامی کتاب میں اللہ تعالی نے انسانوں کو فلاح پانے کے لیئے ایک ہی تعلیم دی ۔ جو کہ مخلتف ادوار میں مختلف انبیاء کرام کے ذریعے طے پایا ۔ پھر انسان تاریخ کے آئینے میں آگیا ۔ اسی دور میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ۔ اللہ تعالی نے پھر قرآن مجید کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچایا ۔ چونکہ انسان تاریخ کے آئینے میں کھڑا تھا۔ لہذا قرآن نے تاریخ سے لیکر انسانی ارتقاء کے آخری حد تک سارے مضامین قرآن میں جمع کردیئے ۔ اس میں ہر عمل کی تصوید و توصیع کی جو کہ پچھلی کتابوں میں تھی اور لوگوں نے اس کو وقت گذرنے کیساتھ بھلا دیا تھا ۔ اس لیئے نماز، روزے ، حج وغیرہ کا قرآن میں تفصیلی ذکر نہیں ملتا کیونکہ یہ پچھلے پیغبروں کی قوموں میں ہوتا تھا ۔ حتی کہ طلاق و شادی کے بھی کم و بیش وہی قوانین تھے جو آج ہمارے پاس موجود ہیں ۔ مگر سب اپنی بگڑی ہوئی شکلوں میں موجود تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے آکر اس میں تصوید توصیع اللہ کے حکم کے مطابق کی ۔ اور اس کا عملی نمونہ بھی بن کر دکھایا ۔ انسان اپنے ارتقاء کا عمل پورا کرچکا تھا ۔ تاریخ مرتب ہو رہی تھی ۔ لہذا اللہ نے نبوت پر سیل لگا دی ۔ اور قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب قرار پائی ۔ لہذا دیگر الہامی کتابوں کو چھوٹی کتابیں قرار دینا کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہے ۔ ان الہامی کتابوں میں بھی اللہ کا کلام موجود تھا اور قرآن مجید بھی اللہ کا کلام ہے ۔ قرآن نازل ہوئے 1400 سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے ۔ انسان نے ان سالوں میں مادی ترقی میں انتہا کردی ہے ۔ مگر قرآن کی تعلیمات جس چیزوں کو اپنا ماخذ بناتیں ہیں ۔ وہ آج سے 1400 سو سال پہلے بھی انسان کو سمجھ آتیں تھیں اور آج بھی ویسی ہی سمجھ آتیں ہیں ۔ اور اس سے پہلے کی الہامی کتابوں میں جو تعلیم دی گئی تھی وہ بھی قرآن کی تعلیم کے مطابق ہی تھی ۔ اس لیئے ہر دور میں ہر پیغمبر کا دین اسلام ہی رہا ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
نظریہ ارتقاء قرآن سے ہرگز متصادم نہیں۔ سائنس پڑھنے اور قرآن کی صحیح تشریح کی بات ہے۔
ڈارون کے نظریہِ ارتقاء اور قرآن کے نظریئے ارتقاء میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
رانا صاحب کی بات درست ہے کہ قرآن کے مطابق انسان اپنے ارتقائی عمل سے گذرتا ہوا آج کے انسانی حیولے کے جس وجود تک پہنچا ہے ۔اس نے اپنے ارتقائی مراحل طے کیئے ہیں ۔ جو ایک لمبی مدت پر محیط ہیں ۔ جبکہ ڈارون کا نظریہ ایک بلکل الگ اور غیر منطقی نظریہ ہے ۔
 

عثمان

محفلین
ڈارون کے نظریہِ ارتقاء اور قرآن کے نظریئے ارتقاء میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
رانا صاحب کی بات درست ہے کہ قرآن کے مطابق انسان اپنے ارتقائی عمل سے گذرتا ہوا آج کے انسانی حیولے کے جس وجود تک پہنچا ہے ۔اس نے اپنے ارتقائی مراحل طے کیئے ہیں ۔ جو ایک لمبی مدت پر محیط ہیں ۔ جبکہ ڈارون کا نظریہ ایک بلکل الگ اور غیر منطقی نظریہ ہے ۔

ڈارون کا نظریہ اب وہ نہیں رہا جو اس نے اٹھارویں صدی میں پیش کیا تھا۔ بیسویں صدی میں جینیٹکس پر تحقیق کے بعد اس میں بہت سی تبدیلیا ں ہو چکی ہیں۔ تاہم بنیادی طور پر یہ اب بھی ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے طور پر جانا جاتا ہے کہ کچھ بنیادی نقاط وہی ہے۔
غیر منطقی کہنا تو ٹھیک نہیں۔ مغرب میں اس پر تحقیق جاری و ساری ہے۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
بنی نوع انسان پر پیغبروں کے ذریعے جو بھی کتابیں اتاریں گئیں وہ بھی اللہ کا کلام تھا ۔ اور قرآن بھی آخری پیغمبر رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا وہ بھی اللہ کا ہی کلام ہے ۔ اللہ تعالی نے ہر دور میں ایک ہی پیغام انسان تک پہنچایا اور وہ توحید اور اخلاقیات تھا ۔ ارتقاء کے عمل کیساتھ انسانوں نے ان تعلیمات میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کیں ۔ جس کی تصوید و توصیع کے لیئے پھر اللہ نے نبیوں اور پیغمبروں کا سلسلہ شروع کیا ۔ اور ان کو مختلف الہامی کتابوں کے ذریعے انہی چیزوں کی تعلیم کی طرف ہمیشہ راغب کیا جاتا رہا ۔ لہذا توریت ہو یا انجیل یا زبور ہر الہامی کتاب میں اللہ تعالی نے انسانوں کو فلاح پانے کے لیئے ایک ہی تعلیم دی ۔ جو کہ مخلتف ادوار میں مختلف انبیاء کرام کے ذریعے طے پایا ۔ پھر انسان تاریخ کے آئینے میں آگیا ۔ اسی دور میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ۔ اللہ تعالی نے پھر قرآن مجید کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچایا ۔ چونکہ انسان تاریخ کے آئینے میں کھڑا تھا۔ لہذا قرآن نے تاریخ سے لیکر انسانی ارتقاء کے آخری حد تک سارے مضامین قرآن میں جمع کردیئے ۔ اس میں ہر عمل کی تصوید و توصیع کی جو کہ پچھلی کتابوں میں تھی اور لوگوں نے اس کو وقت گذرنے کیساتھ بھلا دیا تھا ۔ اس لیئے نماز، روزے ، حج وغیرہ کا قرآن میں تفصیلی ذکر نہیں ملتا کیونکہ یہ پچھلے پیغبروں کی قوموں میں ہوتا تھا ۔ حتی کہ طلاق و شادی کے بھی کم و بیش وہی قوانین تھے جو آج ہمارے پاس موجود ہیں ۔ مگر سب اپنی بگڑی ہوئی شکلوں میں موجود تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے آکر اس میں تصوید توصیع اللہ کے حکم کے مطابق کی ۔ اور اس کا عملی نمونہ بھی بن کر دکھایا ۔ انسان اپنے ارتقاء کا عمل پورا کرچکا تھا ۔ تاریخ مرتب ہو رہی تھی ۔ لہذا اللہ نے نبوت پر سیل لگا دی ۔ اور قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب قرار پائی ۔ لہذا دیگر الہامی کتابوں کو چھوٹی کتابیں قرار دینا کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہے ۔ ان الہامی کتابوں میں بھی اللہ کا کلام موجود تھا اور قرآن مجید بھی اللہ کا کلام ہے ۔ قرآن نازل ہوئے 1400 سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے ۔ انسان نے ان سالوں میں مادی ترقی میں انتہا کردی ہے ۔ مگر قرآن کی تعلیمات جس چیزوں کو اپنا ماخذ بناتیں ہیں ۔ وہ آج سے 1400 سو سال پہلے بھی انسان کو سمجھ آتیں تھیں اور آج بھی ویسی ہی سمجھ آتیں ہیں ۔ اور اس سے پہلے کی الہامی کتابوں میں جو تعلیم دی گئی تھی وہ بھی قرآن کی تعلیم کے مطابق ہی تھی ۔ اس لیئے ہر دور میں ہر پیغمبر کا دین اسلام ہی رہا ہے ۔
بلاشبہ ہر دور میں نبوت کا ایک ہی مقصد رہا، اور سب نبیوں کی ایک ہی تعلیم رہی۔ لیکن امت محمدی کو رب کریم " کنتم خیر اَمّتہٍ" فرما رہے ہیں۔ تو وہ کیا وجہ ہے کہ تمام امتوں پر اس امت کو فضیلت عطا کی گئی ہے؟
کیا سائنس ہے؟
کیا ٹیکنالوجی ہے؟
کیا انکی عمریں زیادہ لمبی ہیں؟
کیا یہ زیادہ طاقت ور ہیں؟
کیا انکا خوبصورتی میں ثانی نہیں ہے؟
اس کا جواب اسی آیت میں رب کریم نے فرمایا ہے۔ [AYAH] کنتم خیر امتہ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر وتو منون باللہ[/AYAH]
اس دھاگہ میں موضوع یہ نہیں چل رہا کہ کونسی امت ،قوم کتاب زیادہ اچھی تھی۔ بلکہ کیا واقعی پہلے سائنس موجودہ دور سے کہیں بہتر شکل میں موجود تھی؟
 
ان سب باتوں سے تو یہ سمجھ آ رہا ہے کہ گزشتہ قوموں میں ذہنی ارتقاء کی تو کافی صلاحیت موجود تھی لیکن اس کے اظہار کے مادی اسباب ان کے پاس موجود نہیں تھے، یا وہ تلاش نہیں کر سکے۔ آج کے انسان نے مادی اسباب کے اظہار پر محنت کر کے اتنی قوت حاصل کر لی ہے کہ وہ ان کو مشاہداتی طور پر محسوس کر سکتا ہے لیکن پھر بھی ذہنی ارتقاء کے آثار کے لحاظ سے پچھلوں کی سبقت معلوم ہوتی ہے۔
 

طالوت

محفلین
قران اور موجود سائنس کی تحقیقات سے یقینا پتا چلتا ہے کہ ماضی میں بھی سائنس خاصی ترقی یافتہ تھی ۔ اب جو سائنس کی ترقی ماپنے کا کوئی پیمانہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ ماضی سے مکمل معلومات حاصل ہو جائیں تو شاید فیصلہ کیا جا سکے ۔
وسلام
 

مجاز

محفلین
ڈاکٹر مطلوب حسین صاحب کا یہ کالم تو وارن اسمتھ کی کتاب کا چھوٹا سا خلاصہ ٹائپ اقتباس لگ رہا ہے ;) حتٰی کہ تجربات بھی تقریبآ وہی کئیے ہیں ان حضرت نے ;)
 

ظفری

لائبریرین
مجھے آپ کے موقف سے اختلاف ہے لیکن دھاگےکا عنوان اس کا جواب دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن بات بہت اہم ہے اس لئے صرف اپنا نقطہ نظر پیش کر کے اجازت چاہوں گا۔ یہ بات میں مانتا ہوں کچھ تعلیم پہلی کتابوں میں اور قرآن میں ایک جیسی تھی۔ جیسے توحید کا قیام یہ تمام نبیوں کی تعلیم کا جوہر رہا ہے۔ البتہ نماز روزہ حج زکوہ اس شکل میں پہلے ہرگز نہیں تھا یہ خالصتا اسلامی تعلیم ہے۔ گذشتہ قوموں میں نماز روزہ ضرور تھا لیکن اس کی شکل کچھ اور تھی۔ اس کے علاوہ بہت ساری باتوں میں ہر نبی کو اس کی قوم اور حالات کے مطابق تعلیم دی گئی جو اس قوم اور حالات سے نکل کر دوسروں کے لئے مناسب نہیں تھی۔ لیکن قرآن میں عالمی تعلیم بیان کی گئی جو ہر قوم اور ہرطرح کے حالات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ خصوصیت صرف قرآنی تعلیم ہی کو حاصل ہے۔ صرف ایک مثال پیش کروں گا۔ قوم بنی اسرائیل میں فرعون کی لمبے عرصے کی غلامی کے بعد جرات، ہمت اور شجاعت جیسے اخلاق ہی ناپید ہوگئے تھے اس لئے توریت میں انہیں یہ تعلیم دی گئی کہ آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت اور جان کے بدلے جان۔ تاکہ یہ اخلاق دوبارہ ان میں پروان چڑھ سکیں۔ لیکن ایک لمبے عرصے تک اس تعلیم پر عمل کرتے رہنے سے ان میں نرمی اور عفو و درگزر کے اخلاق کا فقدان ہوگیا۔ اس لئے پھر انجیل میں ان کو یہ تعلیم دی گئی کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔ یعنی بدلہ نہ لینے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ یہ دونوں تعلیمات جو ایک دوسرے کے برعکس تھیں اپنے اپنے حالات کے مطابق درست تھیں لیکن ہر جگہ کے لئے نہیں۔ آخر میں قرآن کے ذریعے پھر عالمی تعلیم دی گئی کہ برائی کا بدلہ اسی قدر برائی ہے جتنا کہ زیادتی کی گئی ہے لیکن اگر کوئی معاف کردے بشرطیکہ معاف کرنے سے مجرم کی اصلاح کا امکان ہوتو اس کا اجر اللہ کے پاس ہے۔ اس طرح بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیںِ۔

میرا یہ پیغام کیونکہ دھاگے کے عنوان سے مناسبت نہیں رکھتا اس لئے ظفری صاحب آپ اس پیغام کو پڑھ لیں تو میں کل اس کو حذف کردوں گا۔ اور اگر منتظمین کل تک انتظار نہ کرنا چاہیں تو آج ہی حذف کردیں۔

آپ اپنی طرف سے پہلے ایک بار پھر تحقیق کرلیں کہ پہلے انبیاء کی قوموں میں نماز ، روزہ ، حج زکوۃ وغیرہ اللہ کے حکم سے رائج تھے کہ نہیں ۔ جب آپ کی تحقیق اس حوالے سے مکمل ہوجائے تو پھر آپ وہ حوالاجات یہاں پیش کردیں ۔ پھر شاید ہی کوئی مفصل اور مفید بحث ہوسکے گی ۔ ورنہ میں اپنی بات کہتا رہوں گا اور آپ اپنی ۔
میں ان شاءاللہ چند روز میں پاکستان جارہا ہوں ۔ امید ہے وہاں فراغت نصیب ہوگی تو ان شاءاللہ اس بحث میں حصہ لوں گا ۔ اگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے آنے سے قاصر رہا تو پیشگی معافی کا خواستگار ہوں ۔
آپ کے پیغام میں ایسی کوئی بات نہیں جسے حذف کیا جاسکے ۔ بات سے بات نکلتی ہے مگر جب بات بے مقصد اور بدمزگی پیدا کرے تو پھر ایسے پیغامات کو حذف کیا جاسکتا ہے ۔
 
Top