آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

فاخر رضا

محفلین
آکسفورڈ پرنٹنگ پریس نے شعراء کا کلام منتخب کرکے چھوٹے سائز میں چھاپا ہے. کراچی ایئرپورٹ سے پانچ شعراء کی کتب خریدی تھیں. زہرا نگاہ کی کتاب ختم کرلی ہے. سودا اور دیگر کی پڑھ رہا ہوں جیسے جیسے موقع ملتا ہے. اس وقت یونیورسل اسٹوڈیو میں ہوں، Harry Potter کی ride لے کر نکلا ہوں. بہت زبردست جگہ ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
میں آج کل بیک وقت کئی کتب پڑھنے کا ناکام تجربہ کر رہا ہوں
میں بہت عرصے تک یہ تجربہ کامیاب طریقے سے کرتا رہا لیکن بیک وقت مطالعے میں کتب کافی مختلف ہوتی تھیں جیسے کچھ سیاسیات اور تاریخ پر تو کچھ شعر و ادب پر۔ لیکن اب میں بھی اس سے توبہ کر چکا ہوں، ایک وقت میں ایک ہی کتاب پڑھتا ہوں۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
بھارتی سیاست پر مطالعے کی اگلی کڑی۔
سابق بھارتی وزیر خارجہ، سینیئر بیوروکریٹ اور سفیر، اہم کانگریسی راہنما کنور نٹور سنگھ کی خود نوشت۔
ONE LIFE IS NOT ENOUGH by K. Natwar Singh

نٹور سنگھ کا تعلق تقسیم سے پہلے کی ریاستوں میں سے ایک ریاست سے تھا، شادی بھی پٹیالہ کے شاہی گھرانے میں ہوئی، انکی بیگم آخری مہاراجہ پٹیالہ کی بیٹی اور بھارتی پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کی بڑی بہن ہیں۔ نٹور سنگھ نے بھارتی 'فارن سروس' میں شمولیت اختیار کی تھی، چین اور یو این او میں تعینات رہے، مختلف ملکوں میں سفیر بھی رہے۔ ضیا کے ابتدائی دور میں پاکستان میں بھی سفیر رہے۔اندرا گاندھی کے ساتھ کئی سالوں تک 'پرائم منسٹر سیکٹریٹ' میں کام کرتے رہے اور یہیں سے ان سے متاثر ہوگئے۔ اندرا کے قتل کے بعد اپنی نوکری سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر کانگریس میں شامل ہو گئے اور سیاست میں سرگرم ہو گئے۔ راجیو کے ساتھ بھی رہے لیکن نرسیما راؤ کے ساتھ ان کی نہیں بنی کہ یہ "گاندھی خاندان" کے وفادار تھے۔

سونیا گاندھی کو سیاست میں لانے کا ان کا خاص کردار ہے، لیکن سونیا نے جب ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیر اعظم کے لیے منتخب کیا تو ایک طرح سے نٹور سنگھ کی امیدوں پر اوس پڑ گئی، پھر بھی وزیر خارجہ بن گئے۔ ان کی سیاست کا اختتام وولکر اسکینڈل پر ہوا۔ اس امریکی رپورٹ میں وزیر خارجہ نٹور سنگھ اور کانگریس پارٹی کو عراقی 'تیل برائے خوارک' پروگرام کو غلط طور سے استعمال کر کے صدام حسین سے کمیشن لینے کے الزام تھے۔ اس موقعے پر کانگریس پارٹی نے نٹور سنگھ کو چھوڑ دیا اور بقول شخصے نٹور سنگھ کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔

نٹور سنگھ نے اس کتاب میں کانگریس کی اندرونی سیاست کے کئی اہم رازوں سے پردہ اٹھایا ہے، خاص طور پر سونیا گاندھی کی سیاست میں شمولیت، ڈاکٹر من موہن سنگھ کو بطور وزیراعظم منتخب کیا جانا اور پھر اسکینڈل۔ نٹور سنگھ کے بقول، کتاب چھپنے کے کچھ ہفتے پہلے سونیا گاندھی اور انکی بیٹی نے نٹور سنگھ سے اُن کے گھر آ کر ملاقات کی تھی اور ان سے درخواست کی تھی کے ان موضوعات کو نہ چھیڑا جائے۔ کتاب چھپنے کے بعد سونیا گاندھی نے کافی غصے کا اظہار بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ ریکارڈ درست رکھنے کے لیے وہ خود ایک کتاب لکھیں گی۔ کتاب 2014ء میں شائع ہوئی تھی اور انڈین سیاست کے مطالعے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نٹور سنگھ ایک اچھے مصنف بھی ہیں، درجن بھر کے قریب کتابوں کے مصنف ہیں، اس لیے طرزِ تحریر بھی منجھا ہوا ہے۔
One_Life_Is_Not_Enough_Book_Cover_Page.jpg
 
آخری تدوین:
IMG_1997.png


کم بارکر کی کتاب دی طالبان شفل برٹش کونسل سے لے آئے تھے۔ زیک کی طرح ہم بھی دس کتابیں اکٹھی شروع کرنے کے عادی ہیں لیکن محمد وارث صاحب کی طرح ان سب کو ختم کرنے کے عادی نہیں۔ لہٰذا ایک باب پڑھ کر ایک ماہ بعد کتاب واپس کردی ۔ اب پھر لے آئے۔ اس عرصے میں ٹی وی ٹاک شوز میں کم بارکر اور نواز شریف کے نام سنے تو کتاب کو اٹھالیا اور سب سے پہلے وہی ابواب پڑھ ڈالے جن میں یہ دلچسپ تذکرہ موجود ہے۔ واقعی دلچسپ کتاب ہے لہٰذا اب اسے شروع سے پڑھنے کا ارادہ پکا ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
IMG_1997.png


کم بارکر کی کتاب دی طالبان شفل برٹش کاونسل سے لے آئے تھے۔ زیک کی طرح ہم بھی دس کتابیں اکٹھی شروع کرنے کے عادی ہیں لیکن محمد وارث صاحب کی طرح ان سب کو ختم کرنے کے عادی نہیں۔ لہٰذا ایک باب پڑھ کر ایک ماہ بعد کتاب واپس کردی ۔ اب پھر لے آئے۔ اس عرصے میں ٹی وی ٹاک شوز میں کم بارکر اور نواز شریف کے نام سنے تو کتاب کو اٹھالیا اور سب سے پہلے وہی ابواب پڑھ ڈالے جن میں یہ دلچسپ تذکرہ موجود ہے۔ واقعی دلچسپ کتاب ہے لہٰذا اب اسے شروع سے پڑھنے کا ارادہ پکا ہے۔
پڑھ کر بتائیں کہ کرسٹینا لیمب کی ویٹنگ فار اللہ سے لے کر کم بارکر کی طالبان شفل تک پاکستان میں کیا بدلا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
زیک کی طرح ہم بھی دس کتابیں اکٹھی شروع کرنے کے عادی ہیں لیکن محمد وارث صاحب کی طرح ان سب کو ختم کرنے کے عادی نہیں۔
میں بھی اب صرف ایک ہی کتاب شروع کرتا ہوں لیکن اسے ختم کر کے ہی دم لیتا ہوں چاہے جیسی بھی ہو۔ وجہ یہ ہے کہ پچھلے دس ایک سال سے میں نے کتابیں خریدنے کا ایک خود ساختہ 'معیار' بنا رکھا ہے، کہ کیا میں یہ کتاب پڑھ سکوں گا؟ اگر دماغ 'ہاں' میں جواب دے دے تو خرید لیتا ہوں لیکن اس کے باوجود کچھ کتابیں انتہائی 'بد مزہ' نکل آتی ہیں، جیسے ابھی کچھ ماہ پہلے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی ایک بائیو گرافی نکلی تھی لیکن پھر بھی ختم ضرور کرتا ہوں کہ محنت کے پیسے چین نہیں لینے دیتے :)
 

فاخر رضا

محفلین
آجکل ایک کتاب شروع کی ہے
Critical care ethics
A practice guide
یہ کتاب ایک اخلاقی اور فلسفیانہ جہت سے لکھی گئی کتاب ہے. اس میں تقریباً مرتے ہوئے مریضوں کے متعلق کرنے والے فیصلوں پر بحث کی گئی ہے اور قانون، معاشرتی اقدار اور مریض کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب کو لکھا گیا ہے. اس کے علاوہ مذہبی حوالے سے بھی رہنمائی موجود ہے خاص طور پر، عیسائی، یہودی اور مسلم حوالوں سے
اس کے مضامین میں طبی اخلاقیات کے بنیادی چار ارکان بیان ہوئے ہیں. اس کے بعد کچھ تعارف اور تعریفیں ہیں.
اس میں کافی دلچسپ موضوعات ہیں مثلاً مریض اور ڈاکٹر کی خواہش پر کیا انسان کی جان لی جاسکتی ہے. اسے مرسی کلنگ بھی کہتے ہیں. اسی طرح اور بھی موضوعات ہیں.
دنیا میں اکثر میڈیکل کالجز میں طبی اخلاقیات نہیں پڑھائی جاتی اور اس کے اساتذہ نہ ہونے کے برابر ہیں.
ابھی تقریباً ایک چوتھائی کتاب پڑھی ہے امید ہی جلد ہی ختم کر لوں گا
 

فاخر رضا

محفلین
آپ چاہے انہیں شاعر نہ مانیں مگر علامہ کو فلسفہ کی سوجھ بوجھ ضرور تھی. علامہ واحد PhD ہیں جن پر PhD ہوتا ہے
 
Top