قران کوئز 2017

سروش

محفلین
وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَ۔كِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿الشوریٰ: ٥٢
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں، بیشک آپ راه راست کی رہنمائی کر رہے ہیں
٭ یہاں روح سے مراد روح الامین جبرئیل علیہ السلام ہیں ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
سورۃ شعراء 26
آیت 184
وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ
یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے

آیت 185
نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ
اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے

----------------------

سورۃ نحل 16، آیت 102
قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے

-----------------------

سورۃ بقرۃ 2، آیت 97
قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّ۔هِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
اِن سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل نے اللہ کے اِذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے
 

نبیل

تکنیکی معاون
قرآن کریم کی وہ کون سی آیت ہے جس میں قمری اور شمسی سال کا حساب بتایا گیا ہے ؟


سورۃ توبہ 7، آیت 36

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّ۔هِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّ۔هِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّ۔هَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے
 

سروش

محفلین
اس میں تو بارہ مہینوں کا ایک سال بیان ہوا ہے ایک آیت میں قمری اور شمسی دونوں تقویم بتائی گئی ہیں
 

La Alma

لائبریرین
قرآن کریم کی وہ کون سی آیت ہے جس میں قمری اور شمسی سال کا حساب بتایا گیا ہے ؟
سوره یونس کی آیت نمبر 5 میں اس کا ذکر ہے .

هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاء وَالْقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّهُ ذَلِكَ إِلاَّ بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ.
وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (کاموں کا) حساب معلوم کرو۔ یہ (سب کچھ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے وہ اپنی آیات کھول کھول کر بیان فرماتا ہے.
 

سروش

محفلین
وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا﴿الکھف:25﴾
وه لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو سال اور زیاده گزارے۔ (25)

اللہ تعالیٰ اپنے نبی علیہ السلام کو اس مدت کی خبر دیتا ہے، جو اصحاب کہف نے اپنے سونے کے زمانے میں گزاری کہ وہ مدت سورج کے حساب سے تین سو سال کی تھی اور چاند کے حساب سے تین سو نو سال کی تھی۔ فی الواقع شمسی اور قمری سال میں سو سال پر تین سال کا فرق پڑتا ہے، اسی لیے تین سو الگ بیان کر کے پھر نو الگ بیان کئے۔
 

عظیم

محفلین
السلام علیکم ۔
ایک سوال میری جانب سے بھی ۔

قرآن میں کس جگہ اللہ نے انسان کو خود کشی کا مشورہ دیا ہے اور کیوں؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
سورۃ آل عمران 3، آیت 119


هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّ۔هَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتب آسمانی کو مانتے ہو جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے بھی (تمہارے رسول اور تمہاری کتاب کو) مان لیا ہے، مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف ان کے غیظ و غضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں ان سے کہہ دو کہ اپنے غصہ میں آپ جل مرو اللہ دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے

قرآن میں کس جگہ اللہ نے انسان کو خود کشی کا مشورہ دیا ہے اور کیوں؟
یہ سوال غلط تاثر دیتا ہے۔ یہ کوئی مشورہ نہیں ہے اور اللہ تعالی انسانیت سے براہ راست مخاطب نہیں ہے بلکہ نبی صل اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اسلام کے دشمنوں پر طنز کا کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سورۃ آل عمران 3، آیت 119


هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّ۔هَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتب آسمانی کو مانتے ہو جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے بھی (تمہارے رسول اور تمہاری کتاب کو) مان لیا ہے، مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف ان کے غیظ و غضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں ان سے کہہ دو کہ اپنے غصہ میں آپ جل مرو اللہ دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے


یہ سوال غلط تاثر دیتا ہے۔ یہ کوئی مشورہ نہیں ہے اور اللہ تعالی انسانیت سے براہ راست مخاطب نہیں ہے بلکہ نبی صل اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اسلام کے دشمنوں پر طنز کا کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
سورۃ بقرہ کی ایک آیت میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے سے یہودیوں کے ساتھ خطاب ہے کہ اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ (یہودیوں کی اس بات کے جواب میں کہ جنت صرف یہودیوں کے لیے ہے)۔

آپ کی بات کا دوسرا حصہ بالکل بجا ہے، یہ خود کشی کا مشورہ نہیں ہے!
 

نبیل

تکنیکی معاون
سورۃ بقرہ کی ایک آیت میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے سے یہودیوں کے ساتھ خطاب ہے کہ اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ (یہودیوں کی اس بات کے جواب میں کہ جنت صرف یہودیوں کے لیے ہے)۔

سورۃ بقرۃ 2، آیت 94

قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّ۔هِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

اِن سے کہو کہ اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے، تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنا کرو، اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو
 

عظیم

محفلین
سورۃ آل عمران 3، آیت 119


هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّ۔هَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتب آسمانی کو مانتے ہو جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے بھی (تمہارے رسول اور تمہاری کتاب کو) مان لیا ہے، مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف ان کے غیظ و غضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں ان سے کہہ دو کہ اپنے غصہ میں آپ جل مرو اللہ دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے


یہ سوال غلط تاثر دیتا ہے۔ یہ کوئی مشورہ نہیں ہے اور اللہ تعالی انسانیت سے براہ راست مخاطب نہیں ہے بلکہ نبی صل اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اسلام کے دشمنوں پر طنز کا کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔

میرا سوال اس آیت سے متعلق تھا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ۔

جس شخص کو لگتا ہے کہ اللہ اس کی دنیا اور آخرت میں مدد نہیں فرمائے گا اس کو چاہیے کہ آسمان ( یعنی چھت) کی جانب کوئی رسی باندھے اور مر جائے ۔ پھر دیکھے کہ یہ تدبیر اس کے غصے کو کم کرتی ہے یا نہیں ۔

معذرت یہ سوال صرف یاداشت کی بنیاد پر کیا گیا ہے اگر کوئی دوست اس آیت کو یہاں کاپی کر سکیں تو شاید بات واضح ہو جائے ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
سورۃ حج 22، آیت 15

مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّ۔هُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ
جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دُنیا اور آخرت میں اُس کی کوئی مدد نہ کرے گا اُسے چاہیے کہ ایک رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے، پھر دیکھ لے کہ آیا اُس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کر سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے

یہاں بھی خودکشی والی بات محض قیاس آرائی ہے۔
 

سروش

محفلین
نبیل بھائی یہاں ترجمہ کا فرق آرہا ہے ۔ اوپر جو آپ نے ترجمہ دیا ہے وہ جوادی صاحب ، اور موودودی صاحب کا ہے جبکہ طاہر القادری ، جالندھری اور جوناگڑھی کا مندرجہ ذیل ترجمہ ہے
جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اﷲ اپنے (محبوب و برگزیدہ) رسول کی دنیا و آخرت میں ہرگز مدد نہیں کرے گا اسے چاہئے کہ (گھر کی) چھت سے ایک رسی باندھ کر لٹک جائے پھر (خود کو) پھانسی دے لے پھر دیکھے کیا اس کی یہ تدبیر اس (نصرتِ الٰہی) کو دور کر دیتی ہے جس پر غصہ کھا رہا ہے،
جبکہ ابن کثیر میں لکھا ہے :

یعنی جو یہ جان رہا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ دنیا میں کرے گا نہ آخرت میں وہ یقین مانے کہ اس کا یہ خیال محض خیال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد ہو کر ہی رہے گی چاہے ایسا شخص اپنے غصے میں ہار ہی جائے بلکہ اسے چاہے کہ اپنے مکان کی چھت میں رسی باندھ کر اپنے گلے میں پھندا ڈال کر اپنے آپ کو ہلاک کر دے۔ ناممکن ہے کہ وہ چیز یعنی اللہ کی مدد اس کے نبی کے لیے نہ آئے گو یہ جل جل کر مرجائیں مگر ان کی خیال آرائیاں غلط ثابت ہو کر رہیں گی “۔

یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی سمجھ کے خلاف ہو کر ہی رہے گا۔ اللہ کی امداد آسمان سے نازل ہو گی۔ ہاں اگر اس کے بس میں ہو تو ایک رسی لٹکا کر آسمان پر چڑھ جائے اور اس اترتی ہوئی مدد آسمانی کو کاٹ دے۔

لیکن پہلا معنی زیادہ ظاہر ہے اور اس میں ان کی پوری بے بسی اور نامرادی کا ثبوت ہے کہ اللہ اپنے دین کو اپنی کتاب کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ترقی دے گا ہی چونکہ یہ لوگ اسے دیکھ نہیں سکتے اس لیے انہیں چاہیئے کہ یہ مرجائیں، اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں۔
 

عظیم

محفلین
سروش صاحب کی بات سے متفق ہوں واقعی تراجم کا فرق ہے ۔ نبیل صاحب میرے پاس مولانا فتح محمد جالندھری صاحب کا ترجمہ کیا ہوا قرآن 'پی ڈی ایف' میں موجود ہے وہاں سورۃ حج 22، آیت 15 کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا گیا ہے ۔

"جو شخص یہ گمان کرتا ہو کہ اللہ اس کو دنیا و آخرت میں مدد نہیں دے گا تو اس کو چاہیے کہ اوپر کی طرف یعنی اپنے گھر کی چھت میں ایک رسی باندھے پھر اس سے اپنا گلا گھونٹ لے پھر دیکھے کہ آیا یہ تدبیر اس کے غصے کو دور کر دیتی ہے "

والسلام ۔
 

ام اویس

محفلین
سورۃ شعراء 26
آیت 184
وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ
یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے

آیت 185
نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ
اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے

----------------------

سورۃ الشعراء ۔ آیة ۔ 192 -193
 

ام اویس

محفلین
اور الله ہی کے لیے اچھے نام ہیں ۔ یا الله کے سب نام اچھے ہیں ۔ الله سبحانہ و تعالٰی کے ناموں کا ذکر کن آیات میں ہے ؟
 

La Alma

لائبریرین
اور الله ہی کے لیے اچھے نام ہیں ۔ یا الله کے سب نام اچھے ہیں ۔ الله سبحانہ و تعالٰی کے ناموں کا ذکر کن آیات میں ہے ؟
سورة الإسراء آیت 110

قُلِ ادۡعُوۡا اللّٰهَ اَوِ ادۡعُوۡا الرَّحۡمٰنَ‌ؕ اَيًّا مَّا تَدۡعُوۡا فَلَهُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى‌ۚ .
کہہ دو کہ تم (خدا کو) الله (کے نام سے) پکارو یا رحمٰن (کے نام سے) جس نام سے پکارو اس کے سب اچھے نام ہیں۔

سوره الحشر کی آیت 23 اور 24 میں بھی اسمائے حسنٰی کا بیان ہے.
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ
هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی) پاک ذات (ہر عیب سے) سلامتی امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ خدا ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے.
وہی خدا (تمام مخلوقات کا) خالق۔ ایجاد واختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا اس کے سب اچھے سے اچھے نام ہیں۔ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے
 

نبیل

تکنیکی معاون
سورۃ اعراف 7، آیت 180
وَلِلَّ۔هِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے
 

لاریب مرزا

محفلین
ایک سوال ہماری طرف سے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی بات کو بیان کرنے کے لیے کچھ تشبیہات دی ہیں۔ جیسا کہ اس شخص کی مثال ایسی ہے جیسے۔۔۔۔
یہ تشبیہات کون کون سی ہیں اور کس سورت میں ہیں۔
 
Top