زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
پشتو شاعری پر فارسی زبان و ادبیات کے اثر کی ایک مثال یہ دیکھیے کہ بابائے پشتو خوشحال خان خٹک اپنے ایک قصیدے میں کہتے ہیں:
په تازه تازه مضمون د پښتو شعر
په معنا مې د شيراز او د خجند کړ

یعنی: تازہ تازہ مضامین سے میں نے پشتو شاعری کو معنائی لحاظ سے شیراز اور خُجند کے برابر کر دیا ہے۔

اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ خوشحال خان خٹک بھی اپنی شاعری کے لیے فارسی شاعری ہی کو نمونے کے طور پر سامنے رکھتے تھے، اور اُن کی کوشش یہی تھی کہ پشتو شاعری میں بھی ویسے مضامین شامل ہو جائیں جو شیراز اور خُجند، یعنی ایران اور ماوراءالنہر کی فارسی شاعری میں موجود ہیں، اور جن کی وجہ سے فارسی شاعری کو شہرت حاصل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
"پشتو کے بہت سے الفاظ دری کے ساتھ مشترک ہیں، نہ صرف اِس لیے کہ دونوں زبانیں قُربت رکھتی ہیں، بلکہ اِس لیے بھی کہ پشتون اور دری گو صدیوں سے ہمسایہ ہیں، اور حالیہ زمانے میں‌ ایک ہی مُلک کے شہری ہیں۔"

"افغان پشتو میں شامل بیشتر غیر پشتو الفاظ فارسی سے ماخوذ ہیں، جو یہ حقیقت ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں زبانوں کے بولنے والے صدیوں سے ہمسایہ یا ہم وطن ہیں۔"

کتاب: پشتو کا حوالہ جاتی دستورِ زبان (انگریزی)
نویسندگان: حبيب الله تږی، باربرا رابسن
سالِ اشاعت: ۱۹۹۶ء
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کشمیر کے وصف میں کہے گئے قصیدے میں عُرفی شیرازی کہتے ہیں:
هر سوخته‌جانی که به کشمیر درآید

گر مرغِ کباب است که با بال و پر آید
(عُرفی شیرازی)
جو سوختہ جاں بھی کشمیر میں داخل ہوتا ہے، اگر مُرغِ کباب بھی ہو تو با بال و پر ہو جاتا ہے۔
کافِ لُزومیہ اور کافِ فُجائیہ

"کافِ لزومیہ:
ساتواں کہ لزومیہ جو دو جملوں کے درمیان داخل ہوتا ہے جن میں باہم علاقہ علت و معلول کا ہو یعنی ماقبل مابعد کے لیے علت ہو اور مابعد اُس کا معلول جس سے مدخول کاف اپنے ماقبل کے لیے لازم ہو جیسے عرفی کا شعر ہے شعر ہر سوختہ جانے کہ بکشمیر درآید * گر مرغِ کباب است که با بال و پر آید۔
کافِ فجائیۂ اتفاقیہ:
آٹھواں کافِ فجائیہ جس کو اتفاقیہ بھی کہہ سکتے ہیں وہ ایسے دو جملوں کے درمیان داخل ہوتا ہے کہ جن میں ایسا علاقہ نہیں ہوتا کہ جس سے مدخول کاف کو اپنے ماقبل سے استلزام ثابت ہوتا ہو جیسے عرفی کا شعر ہے شعر شبِ گذشتہ بزانو نہادہ بودم سر * کہ اوفتاد خرد را دران خرابہ گذر * اے ناگاہ اُفتاد الخ فرق ان دونوں میں یہ ہے کہ لزومیہ میں جملۂ ماقبل کے لیے مدخول کاف لازم ہوتا ہے اور ماقبلِ کاف مابعد کی علت یعنی یہاں کشمیر میں آنے کو با بال و پر ہو جانا لازم اور با بال و پر ہونے کی دخولِ کشمیر علت اور گر مرغِ کباب است جملۂ معترضہ بخلافِ فجائیہ کہ اُس میں باہم اتفاقی نسبت ہوتی ہے علاقۂ لازمہ اُس میں نہیں ہوتا یعنی یہاں سر بزانو نہادن اور گذر کردنِ خرد میں کوئی ایسا علاقہ نہیں کہ جس سے حکم استلزام کا لگایا جائے بایں معنی اس کا اتفاقیہ نام رکھنا نامناسب نہ ہو گا واللہُ تعالیٰ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ اور کبھی تبیین و تعیینِ معنیِ فجائی کے لیے کاف کے ساتھ لفظ ناگاہ بھی بڑھا دیا جاتا ہے امیر خسرو رح: دلِ گم گشتہ را در ہر خمِ زلفش ہمی جستم * کہ ناگہ چشمِ بدخو سوے رویش رفت و جان گم شد * اور معنیِ اتفاقی مفاجات کے کوئی منافی نہیں واللہ تعالیٰ اعلم۔"


کتاب: دستورنامۂ فارسی، ص ۲۰۵
نویسندہ: مولوی محمد حُسین شریف
سالِ طباعت: ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء
 

حسان خان

لائبریرین
فُجائی یعنی ناگہانی۔
فاضل مصنّف نے اپنی اِس قابلِ قدر علمی تصنیف میں عربی دستورِ زبان کی اصطلاحات استعمال کی ہیں، جو فارسی کے جدید دستوروں میں نظر نہیں آتیں۔ مثلاً 'کافِ فُجائیہ' کی اصطلاح فی زماننا فارسی کتابوں میں رائج نہیں ہے۔

جیسے عرفی کا شعر ہے شعر شبِ گذشتہ بزانو نہادہ بودم سر * کہ اوفتاد خرد را دران خرابہ گذر * اے ناگاہ اُفتاد الخ
کتاب میں یہ عربی لفظ 'اَی/اَے' یعنی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
گر مرغِ کباب است که با بال و پر آید
اگر مُرغِ کباب بھی ہو تو با بال و پر ہو جاتا ہے۔
لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'آمدن' کا ایک معنی 'شدن، گشتن، گردیدن' یعنی 'ہو جانا' بھی ہے، اور فارسی شاعری میں یہ مصدر بارہا اِس مفہوم میں استعمال ہوا ہے، لہٰذا میں نے مندرجۂ بالا بیت میں 'آید' کا ترجمہ 'ہو جاتا ہے' کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هجر
اس لفظ کا عربی زبان میں تلفظ 'هَجْر' تھا، لیکن فارسی اور اردو میں معمولاً اِس کا تلفظ 'هِجْر' ہوتا ہے۔ لغت نامۂ دہخدا میں بھی اِس لفظ کے ذیل میں لکھا ہے کہ روزمرّہ فارسی میں اِسے کسرِ اول کے ساتھ تلفظ کیا جاتا ہے۔ امّا دلچسپ بات یہ ہے کہ تاجکستانی فارسی میں اِس لفظ کا اصلی تلفظ محفوظ رہا ہے، اور وہاں اِس کو 'ہ' پر زبر کے ساتھ لکھا اور خوانا جاتا ہے۔ روسی رسم الخط میں اِس کا معیاری املاء ҳаҷр ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ّشُورَوی دور میں صرف سرزمینِ ازبکستان ہی سے فارسی کا خاتمہ نہیں ہوا تھا، بلکہ اُس دورِ شُوم و نامبارک میں قفقازی آذربائجان (حالیہ جمہوریۂ آذربائجان) میں بھی زبانِ فارسی بالشیوک تیشے کی ضرب سے محفوظ نہ رہ سکی تھی، اور نظامی گنجوی اور خاقانی شروانی کی اُس سرزمین سے فارسی رختِ سفر باندھ کر حسرت کے ساتھ کُوچ کر گئی تھی۔ ۱۹۶۰ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون 'تهیهٔ مقدماتِ مشروطیت در آذربایجان' میں ایرانی آذربائجانی سیاست دان سید حسن تقی زادہ بیسویں صدی کے آغاز میں ایرانی و روسی آذربائجان کی سیاسی صورتِ حال کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"دانستنی است که در آن عهد در قفقاز زبان فارسی مثل تبریز معمول بود و در مکاتب پیش آخوندها می‌خواندند و مکاتباتشان به فارسی بود. خود من در حدود سال‌های ۱۳۱۵ در قفقاز رفتم و در جُلفای روس بخش‌علی آقا و شیخوف که مقیمِ آنجا بودند خیلی به من محبت کردند و من به یک دهی که اجداد ما و عموهای من آنجا بودند به اسم ونند رفته و قریب دو سه هفته ماندم، این ده قریب صد خانوار بود و پهلوی آن در ارتفاعات مجاور ده دیگری بود به اسم ولاور و مردم در ونند شعری به زبان فارسی می‌خواندند، چنین:
ونند و ولاور الا ای اخی
زمینش بهشت آدمش دوزخی"

"معلوم ہونا چاہے کہ اُس زمانے میں قفقاز میں (یعنی روسی مقبوضہ قفقازی آذربائجان میں) زبانِ فارسی تبریز کی طرح رائج تھی، اور وہاں کے مردُم مکتبوں میں مولویوں سے فارسی خوانتے (پڑھتے) تھے اور اُن کے مکاتبات فارسی میں ہوتے تھے۔ خود میں ۱۹۳۶ء کے آس پاس قفقاز گیا تھا اور وہاں کے شہر جُلفا میں بخش علی آقا اور شیخوف، جو وہاں مقیم تھے، میرے ساتھ بہت محبت سے پیش آئے۔ اور میں ونند نامی ایک قریے میں، جہاں سے میرے اجداد کا تعلق تھا اور جہاں میرے عمو رہتے تھے، گیا اور قریباً دو تین ہفتے رُکا۔ اِس قریے میں تقریباً سو خاندان تھے اور اُس کے پہلو میں ساتھ کی بلندیوں پر ولاور نامی ایک دیگر قریہ تھا۔ اور ونند میں مردُم فارسی زبان میں ایک شعر خوانا کرتے تھے:
اے برادر! ونند و ولاور کی زمین بہشت ہے، لیکن اُس کے مردُم دوزخی ہیں۔"

قبل شُورَوی دور میں قفقازی آذربائجان میں تُرکی زبان کے ہمراہ زبانِ فارسی کا رواج تعجب انگیز چیز نہیں ہے، کیونکہ قاجاری دور میں روسی متصرّفات کا حصہ بننے سے قبل وہ مملکتِ ایران ہی میں شامل تھا، اور روسی سلطنت کا حصّہ بن جانے کے بعد بھی ایران کے ساتھ اُس کے ثقافتی، لسانی و دینی تعلقات قائم رہے تھے۔ مرکزی ایران سے قریبی و قوی ثقافتی و دینی تعلق ہی اِس چیز کا سبب تھا کہ اگرچہ آذربائجان اور دیارِ آلِ عثمان کی زبان ایک ہی تھی، لیکن مجموعی طور پر عثمانیوں کے برخلاف آذربائجانی ادباء و شعراء نے زیادہ تر فارسی زبان کو نظم و نثر کا ذریعہ بنایا تھا، اور گذشتہ صدیوں کے دوران آذربائجان میں لکھی جانے والی تُرکی کتب کی تعداد دیارِ آلِ عثمان کے مقابلے میں کم رہی ہے۔
 
آخری تدوین:
ہمارے ہاں ہر عید کو نمازِ عید سے پہلے حرمل کرتے وقت یہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں:-
نظرِ خویش، نظرِ درویش، نظرِ دشمن بسوزد بہ آتشِ تیز
 
فارسی میں "ردِ عمل" کو "واکنش" کہا جاتا ہے۔
گلاب منگل، والی ولایت ننگرهار در شرق افغانستان در واکنش به نشر تصاویری از سوی گروه موسوم به دولت اسلامی( داعش) به بی‌بی‌سی گفت که هدف از نشر این تصاویر "تشویش اذهان عامه" است.
(بی‌بی‌سی فارسی)

گلاب منگل، شرقِ افغانستان میں موجود ولایتِ ننگرہار کے والی نے دولتِ اسلامی (داعش) سے موسوم گروہ کی جانب سے ان تصاویر کی نشریات کے ردِ عمل میں بی بی سی سے کہا کہ ان تصاویر کے نشریات کا ہدف اذہانِ عامہ میں تشویش پھیلانا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
البانیہ کے قومی شاعر محمد نعیم فراشری نے اپنی اوّلین کتاب 'قواعدِ فارسیه بر طرزِ نوین' (۱۸۷۱ء) کے مقدّمے میں فارسی زبان کو 'زبانِ شَکَرفشاں' کہا ہے:
"قواعد هر لسانڭ اناختاری و سهولتله تحصیلنڭ اعظم مداری اولوب بزجه اهمیتی مسلم اولان زبان شکرفشان فارسینڭ طرز نوین اوزره قیلقلوسی بولنمدیغندن ترتیبنه عاجزانه ابتدار قلندی."
"قواعد ہر زبان کی کلید اور اُس کی سہولت کے ساتھ تحصیل کا مدارِ اعظم ہوتے ہیں۔ چونکہ زبانِ شَکَرفشانِ فارسی، کہ جس کی اہمیّت ہماری نظر میں مُسلّم ہے، کے طرزِ نو پر مرتّب کردہ عملی قواعد موجود نہیں تھے، لہٰذا اُن کی ترتیب کی غرَض سے عاجزانہ تعجیل و کوشش کی گئی ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"پیامِ منیژه به بیژن بگفت
دو رخسارِ بیژن چو گل برشکفت"

[منیژہ کی دایہ نے] منیژہ کا پیغام بیژن سے کہا؛ بیژن کے دونوں رُخسار گُل کی طرح کِھل اُٹھے۔

ابھی شاہنامۂ فردوسی کی مندرجۂ بالا بیت نظر سے گذری تو ذہن میں آیا کہ اگرچہ 'شکفتن' اور 'برشکفتن' میں کوئی اہم معنائی فرق تو نہیں ہے، لیکن اُن دونوں مصدوں کے درمیان تعلق کو یوں سمجھا جا سکتا ہے جس طرح اردو میں 'کِھلنا' اور 'کِھل اُٹھنا' استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی دونوں مصدروں کا معنی ایک ہی ہے، فقط تأکید یا زور کا فرق ہے۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 'بر' کا سابقہ لگنے سے فعل میں بالائی سمت کی جانب کِھلنے کے معنی کا باریک اضافہ ہو گیا ہے۔

ضمناً، ایرانی 'شکفتن' کا تلفظ 'شِ کُ فْ تَ نْ' کرتے ہیں، جبکہ تاجکستان میں 'شُ کُ فْ تَ نْ' رائج ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شعلهٔ تقریرِ ما چون بی‌صدا شد صاف شد
خامشی آوازِ ما را آتشِ بی‌دود کرد
(شوکت بخاری)

ہماری تقریر کا شعلہ جب بے صدا ہوا، صاف ہو گیا۔۔۔ خاموشی نے ہماری آواز کو آتشِ بے دُود کر دیا۔
دُود = دھواں
شوکت بخاری بھی اُن فارسی شعراء کی فہرست میں شامل ہیں جنہیں گذشتہ صدی تک ایران میں کوئی جانتا بھی نہ تھا، لیکن جو عثمانی دیار کے ایک محبوب ترین فارسی شاعر تھے، اور جنہوں نے اپنی بعد کی صدیوں کی عثمانی شاعری پر بِسیار زیادہ اثر ڈالا تھا۔ تُرکستان اور دیارِ مُغلیہ میں بھی شوکت بخاری کی شہرت کم نہ تھی اور مرزا غالب کی فارسی و اردو شاعری پر جن شاعروں کا اثر رہا ہے اُن میں شوکت بخاری کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ ایک اردو شاعر منیر شِکوہ آبادی نے بھی اپنی ابیات میں شوکت بخاری کا ذکر کیا ہے:

مدحِ حاضر میں سنا دے کوئی مطلع ایسا
انوری زرد ہو رنگ اڑنے لگے شوکت کا
(منیر شکوہ آبادی)

رنگِ شوکت سے شفق گوں ہے مئے فکرِ منیر
لکھنؤ میخانۂ ایجادِ مضموں ہو گیا
(منیر شِکوہ آبادی)


امّا، یہ بات مسلّم ہے کہ شوکت بخاری کی بیشترین شہرت و مقبولیت عثمانی دیار میں تھی۔

ایک فارسی مقالے 'سبکِ هندی و بازتابِ آن در شعرِ ترکیِ عثمانی' کی خوانش کے دوران مجھے یہ جالبِ توجہ چیز نظر آئی:

"درباره نگرش شاعران و روشنفکران عثمانی به سبک هندی، می خواهم یک نمونه جالبی خدمت شما عرض کنم. یک کتابی دستور زبان فارسی به عنوان "قواعد فارسيه بر طرز نوين" در سال ۱۸۷۱ م. از طرف نعیم فراشری شاعر و نویسنده آلبانی تبار که شعر فارسی نیز گفته است در استانبول به چاپ رسیده است. در این کتاب در بخش پایانی یک محاوره بین یک ایرانی و یک شاعر عثمانی صورت می گیرد و در این محاوره شاعر عثمانی درباره ادبیات فارسی می پرسد و ایرانی پاسخ می دهد. در اینجا قسمتی که درباره سبک هندی است عرض می کنم:

س: عرفي و صائب و شوكت و بيدل را چه گونه مي دانند؟
ج: عرفي را آنقدر نمي پسندند صائب را هيج شوكت و بيدل را نمي دانند.
س: شوكت و بيدل را چرا نمي دانند اينها كه در استانبول خيلي شهرت دارند
ج: اينها ايراني نيستند شوكت فراهي بوده و فراه قصبه ايست ميانه هرات و قندهار و اصل بيدل از بخارا ست گرچه خودش در هندستان ساكن بوده است ديوانهايشان باستانبول از آنجاها آمده است
س:صائب كه خيلي خوب و مرغوب شاعر است چرا نمي پسندند؟
ج: ديوانش را درست نخوانده اند و بدهاي اشعارش را ديده اند و بيشتر اشعارش عبارت از ارسال و مثلست و اين هم پيش آنها پايه بلندي ندارد بعلت اين نمي پسندند و بطوري تقبيحش مي كنند كه اگر بكمترين شاعري از شعراي ايران بگويند كه تو مثل صائب شعر مي گويي بدش مي آيد و كج خلق مي شود.
س: اعتقاد شما چه گونه است؟
ج : اعتقاد بنده اين است كه صائب شاعريست صاحب زمين تازه و در غزل پردازي و سخن گستري مرتبه اش بلند است و كليات ديوانش از پنجاه هزار بيت بيشتر است ديواني كه بان بزرگي باشد البته توش خوب و بد پيدا مي شود اگر خوبهاش سوا مي كردند و بانتخاب كردنش مي پرداختند يك ديوان بسيار خوب و مرغوب ديوان حاصل مي شد."


"عثمانی شاعروں اور روشن فکروں کی سبکِ ہندی کی جانب طرزِ‌ نگاہ سے متعلق میں ایک جالب نمونہ آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ البانوی نژاد شاعر و مصنف نعیم فراشری، جنہوں نے فارسی میں بھی شعر کہے ہیں، کی فارسی کے دستورِ زبان سے تعلق رکھنے والی ایک کتاب 'قواعدِ فارسیہ بر طرزِ نوین' سال ۱۸۷۱ء میں استانبول سے شائع ہوئی تھی۔ اُس کتاب کے اختتامی حصّے میں ایک ایرانی اور ایک عثمانی شاعر کے درمیان مکالمہ دکھایا گیا ہے جس میں عثمانی شاعر ادبیاتِ فارسی کے بارے میں پوچھتا ہے اور ایرانی جواب دیتا ہے۔ یہاں میں وہ حصّہ پیش کر رہا ہوں جو سبکِ ہندی کے بارے میں ہے:

س: عرفی و صائب و شوکت و بیدل کو ایران میں کس طرح جانا جاتا ہے؟
ج: عرفی کو زیادہ پسند نہیں کرتے، صائب کو بالکل نہیں، اور شوکت و بیدل کو نہیں جانتے۔
س: شوکت و بیدل کو کیوں نہیں جانتے؟ یہ تو استانبول میں بہت مشہور ہیں۔
ج: وہ ایرانی نہیں ہیں۔ شوکت فراہی تھا، اور فراہ ہرات و قندہار کے درمیان واقع ایک قصبہ ہے۔ اور بیدل کی اصل بخارا سے ہے، اگرچہ وہ خود ہندوستان میں مقیم رہا تھا۔ اُن کے دیوان وہاں سے استانبول آئے ہیں۔
س: صائب تو بہت خوب و مرغوب شاعر ہے۔ اُسے کس لیے پسند نہیں کرتے؟
ج: اُنہوں نے اُس کے دیوان کو درستی سے نہیں خوانا ہے، اور صرف بد شعروں کو دیکھا ہے۔ اُس کے بیشتر اشعار ارسالِ مَثَل سے عبارت ہیں، اور یہ بھی اُن کے نزدیک درجۂ بلندی نہیں رکھتا۔ اِسی وجہ سے وہ اُسے پسند نہیں کرتے اور اِس طرح اُس کی بدگوئی کرتے ہیں کہ اگر ایران کے کسی کمترین شاعر سے بھی کہا جائے کہ تم صائب کی طرح شعر کہتے ہو تو وہ بد مان جاتا ہے اور خشمگین ہو جاتا ہے۔
س: آپ کی رائے کیا ہے؟
ج: بندے کی رائے یہ ہے کہ صائب ایک زمینِ تازہ کا مالک شاعر ہے، اور غزل پردازی و سخن گستری میں اُس کا مرتبہ بلند ہے اور اُس کی کلیات میں پچاس ہزار سے زیادہ ابیات ہیں۔ جو دیوان اِس قدر حجیم و بزرگ ہو اُس کے اندر یقیناً خوب و بد دونوں نظر آ جائیں گے۔ اگر اُس کے خوب اشعار کو جدا کر دیتے اور اُن کے انتخاب کا اِقدام کرتے تو ایک بِسیار خوب و مرغوب دیوان مرتّب ہو جاتا۔"

یاددہانی: نعیم فراشری کی نام بُردہ کتاب تُرکی میں تھی۔ مندرجۂ بالا فارسی اقتباس میں تُرکی سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
صائب تبریزی کے بارے میں قاجاری ایرانیوں کی رائے بھی جالبِ توجہ ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
"پیامِ منیژه به بیژن بگفت
دو رخسارِ بیژن چو گل برشکفت"

[منیژہ کی دایہ نے] منیژہ کا پیغام بیژن سے کہا؛ بیژن کے دونوں رُخسار گُل کی طرح کِھل اُٹھے۔
ابھی شاہنامۂ فردوسی کی مندرجۂ بالا بیت نظر سے گذری تو ذہن میں آیا کہ اگرچہ 'شکفتن' اور 'برشکفتن' میں کوئی اہم معنائی فرق تو نہیں ہے، لیکن اُن دونوں مصدوں کے درمیان تعلق کو یوں سمجھا جا سکتا ہے جس طرح اردو میں 'کِھلنا' اور 'کِھل اُٹھنا' استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی دونوں مصدروں کا معنی ایک ہی ہے، فقط تأکید یا زور کا فرق ہے۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 'بر' کا سابقہ لگنے سے فعل میں بالائی سمت کی جانب کِھلنے کے معنی کا باریک اضافہ ہو گیا ہے۔
ضمناً، ایرانی 'شکفتن' کا تلفظ 'شِ کُ فْ تَ نْ' کرتے ہیں، جبکہ تاجکستان میں 'شُ کُ فْ تَ نْ' رائج ہے۔
انگیختن اور بر انگیختہ کو بھی اسی اسلوب پر محمول کیا جائے ۔ انداختن اور دیگر کو بھی اسی طرح ۔ حسان خان
 

حسان خان

لائبریرین
تازی
فارسی زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں میں 'عرب' اور 'عربی' کے لیے ایک فارسی لفظ 'تازی' بھی موجود ہے۔ اِس کلمے کی اصل کے بارے میں نظر آیا ہے کہ چونکہ اسلام سے قبل مردُمِ ایران کا سب سے اوّل رابطہ عربوں کے قبیلۂ طَے سے ہوا تھا، اِس لیے اُنہوں نے اُس قبیلے کی صفتِ نِسبی 'طائی' کو بالعموم تمام عربوں کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ 'تازی' اُسی لفظِ 'طائی' کا تحریف یافتہ ایرانی تلفظ ہے، جو قبل از اسلام کی ایرانی زبانوں پہلوی اور پارتی میں رائج ہوا تھا اور بعد ازاں فارسیِ دری میں بھی منتقل ہو گیا تھا۔
قابلِ تذکّر ہے کہ یہ لفظ کوئی حقارت و توہین آمیز معنی نہیں رکھتا۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ 'تازی' کا استعمال 'عرب/عربی' کی مقابلے میں کم ہے، اور اِسے ادبی زبان کا لفظ سمجھنا چاہیے۔

چند مثالیں:
"من بسی دیوانِ شعرِ تازیان دارم ز بر"
(منوچهری دامغانی)
"مجھے عربوں کے کئی دیوانِ شعر حِفظ ہیں" یا "مجهے عربوں کی شاعری کے کئی دواوین حِفظ ہیں"

ذوقِ جعفر کاوشِ رازی نماند
آبرویِ ملتِ تازی نماند

(علامه اقبال لاهوری)
ذوقِ جعفر، کاوشِ رازی نہ رہی؛ ملتِ عربی کی آبرو نہ رہی۔

که سعدی راه و رسمِ عشق‌بازی
چنان داند که در بغداد تازی

(سعدی شیرازی)
کہ سعدی راہ و رسمِ عشق بازی کو اِس طرح (یعنی اِس خوبی سے) جانتا ہے کہ جس طرح بغداد میں زبانِ عربی [جانی جاتی ہے]۔

یکی‌ست تُرکی و تازی در این مُعامله حافظ

حدیثِ عشق بیان کن بدان زبان که تو دانی
(حافظ شیرازی)

اے حافظ! اِس مُعاملۂ [عشق] میں تُرکی و عربی ایک [ہی] ہیں؛ تم جو [بھی] زبان جانتے ہو اُس میں (یا اُس کے ذریعے) حدیثِ عشق بیان کرو۔

(رباعی)
مسعود که یافت عز و جاه از لاهور
تابید چو نورِ صبح‌گاه از لاهور
سالارِ سخن‌وران به تازی و دری‌ست

خواه از همدان باشد و خواه از لاهور
(رهی معیّری)

مسعود، کہ جس نے لاہور سے عزّ و جاہ پائی، وقتِ صبح کے نور کی طرح لاہور سے چمکا؛ وہ عربی و فارسی میں سخنوروں کا سالار ہے؛ خواہ وہ ہمدان سے ہو یا خواہ لاہور سے۔
× مندرجۂ بالا رباعی میں مسعود سعد سلمان لاہوری کا ذکر ہو رہا ہے۔

یہ لفظ اردو میں بھی استعمال ہو چکا ہے۔ مثلاً:

"کوئی دل کشا صدا ہو، عجمی ہو یا کہ تازی"
(علامہ اقبال)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان ایران میں ماوراءالنہر سے آئی تھی، اور اِس کا سبب تُرک سلاطین تھے:

"کسی نمی‌تواند منکر این واقعیت باشد که زبان فارسی از خارج از ایران، یعنی از آن طرف جیحون به وسیلهٔ ترکان غزنونی و سلجوقی به ایران آمده و با قدرت سلاطین ترک، زبان رسمی و ادب ایران و آسیای صغیر و هندوستان گردیده و بعداً هم با هم‌کاری شعرای کلاسیک ترک‌زبان به این پایهٔ ادبی رسیده‌است."

"کوئی شخص اِس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ زبانِ فارسی ایران کے بیرون سے، یعنی جیحون کے اُس طرف (ماوراءالنہر) سے غزنوی و سلجوقی تُرکوں کے وسیلے سے ایران آئی، اور سلاطینِ تُرک کے اقتدار کے ساتھ ایران و آسیائے کوچک و ہند کی رسمی و ادبی زبان بنی، اور بعداً بھی تُرک زبان کلاسیکی شعراء کی ہمکاری و مشارکت سے اِس ادبی درجے پر پہنچی ہے۔"

(جواد هیئت، سیری در تاریخ زبان و لهجه‌های ترکی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اسپ تازی شدہ مجروح بہ زیر پالاں
طوق زریں ہمہ درگردن خر می بینم
جی، عربی اسپوں کے لیے 'اسپِ تازی' کا استعمال عام ہے۔ بس یہ ذہن میں رہے کہ ایرانی فارسی میں 'اسپ' کی بجائے 'اسب' رائج ہے۔
اِس کے علاوہ 'تازی' کاف اور گاف وغیرہ کے درمیان فرق کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ یعنی قدیم لغوی کتابوں میں کاف کو 'کافِ تازی' جبکہ گاف کو 'کافِ فارسی/کافِ عجمی' نام دیا جاتا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
معاصر فارسی میں لفظِ 'سَواد' خواندگی یا خوان (پڑھ) اور لکھ پانے کی قُدرت کو کہتے ہیں، جس کے لیے انگریزی میں 'لٹریسی' استعمال ہوتا ہے۔ اور جو شخص 'خواندہ' ہو اُس کو فارسی میں 'باسَواد' کہتے ہیں۔ تاجکستان میں 'سواد' اور 'باسواد' کی بجائے بالترتیب 'سوادناکی' اور 'سوادناک' بھی مستعمَل ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر بار حدیثِ غم کنم سَمْع
از دیدهٔ من همی‌رود دَمْع
(عدیم غوری)
میں جب بھی حدیثِ غم سنتا ہوں، میرے دیدے سے اشک بہنے لگتے ہیں۔
دَمْعْ (عربی)
۱. اشک، آبِ دیده، سِرِشْک.

شُنیدم، که می‌گفت وبارانِ دمع
فُرو می‌دویدش به عارَض چو شمع
(سعدی)

۲. (طِبّ) بیماریِ آب‌رَویِ چشم.

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی (۱۹۶۹ء)، جلدِ اول، صفحه ۳۲۱]

دُمُوع (عربی)

جمعِ دمع.

"دُمُوعِ حسرت در مُهاجَرَتِ آن مِسکینان بر صحیفهٔ رُخسار می‌افشانْد."
(روضة‌الصّفا)

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی (۱۹۶۹ء)، جلدِ اول، صفحه ۳۹۹]
شُنیدم، که می‌گفت وبارانِ دمع
فُرو می‌دویدش به عارَض چو شمع
(سعدی)
ترجمہ: میں نے سنا ہے کہ وہ [یہ کلمات] کہہ رہا تھا اور شمع کی مانند اُس کے رُخسار پر اشکوں کی بارش نیچے دوڑ رہی تھی۔
بیماریِ آب‌رَویِ چشم.
ترجمہ: چشم سے آب جاری رہنے کی بیماری
"دُمُوعِ حسرت در مُهاجَرَتِ آن مِسکینان بر صحیفهٔ رُخسار می‌افشانْد."
(روضة‌الصّفا)
ترجمہ: اُن مسکینوں کی مہاجرت پر وہ [فرد] صحیفۂ رُخسار پر اشکِ حسرت بہا رہا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تُرکی شاعری پر فارسی کا اثر

اپنے تُرکی مقالے 'نجاتی بیگ کے فارسی اشعار' کے آغاز میں 'اوزان ییلماز' لکھتے ہیں:
"زبانِ ترکی کی بے کراں دنیائے استعاراتی کو استادی کے ساتھ استعمال کرنے والے کلاسیکی تُرک شاعروں کے درمیان فارسی کا علم ہونا ایک اہم ہنر شمار ہوتا تھا۔ لہٰذا، تقریباً ہر شاعر کے دیوان میں فارسی اشعار و ابیات کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔"
 
آخری تدوین:
Top