پنجابیوں کی مذہب پسندی اور مہاجروں کا سیکولرزم

آپ کو جن لوگوں نے جواب دیا ہے وہ اس جماعت کے حمایتی ہیں نہ مداح تو وہ آپ کو اپنے حوالے سے ہی جواب دے سکتے ہیں، یہاں ایم.کیو.ایم کے حمایتی بھی موجود ہیں مگر اب زیادہ فعال نہیں تو یہ لڑی دیکھ نہیں سکے ہوں گے اور ہم ان کا موقف تو بیان کرنے سے رہے

اب آپ نے وہ چند سال پہلے کی بات کر ہی دی ہے تو ان ٤٢ میں سے ١٤ یا ١٨ تو ایم۔کیو.ایم کے بھی تھے،اور میں نے لسانی جھگڑوں کی ذمہ داری پچھلی پوسٹ میں صرف سیاستدانوں پر ڈال دی،اصل میں حکمران کہنا چاہیے تھا کہ ١٢ مئی پر تو آمر مکے لہرا کر اسے طاقت کا مظاہرہ کہہ رہا تھا، ماضی میں فاطمہ جناح کی حمایت کرنے کی سزا بھی گوہر ایوب کی سرپرستی میں مہاجر بستیاں جلا کر کراچی میں نفرت کی بنیاد آمر نے ہی ڈالی تھی

رہی بات ایم.کیو.ایم کو ووٹ ملنے کی تو اب بھی اگر ایم.کیو.ایم پاکستان،پی.ایس.پی، آفاق احمد نے اگر اتحاد کر لیا تو پورے کراچی سے یہی جیتیں گے اور وجہ یہ ہے کہ ایم.کیو.ایم نے کراچی میں مار دھاڑ کے ساتھ کام بھی کیا ہے. ہم لاکھوں روپے ٹیکس دے کر ٹوٹی سڑکوں سے گزرتے ہیں، جگہ جگہ سیوریج کا نظام خراب ہے، پانی کراچی کے اکثر علاقے میں دستیاب نہیں ہے اور یہ تو بہت بنیادی چیزیں ہیں ورنہ کراچی کو پی.پی نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے



آپ نہ دائیں بازو والوں سے خوش ہیں،نہ بائیں بازو والوں سے تو پھر اس سب بحث کا مقصد کیا ہے؟

پنجاب سے پی.پی کے جیتنے والی بات کو بھی آپ نے گھاس نہیں ڈالی پھر کن دلائل پر آپ سے بات کی جائے؟، پیچھے بھی آپ اکثر باتوں کا جواب چھوڑ دیتے ہیں اور محض ایک ہی رٹ ہے کہ آپ کی بات کو بلا دلیل تسلیم کر لیا جائے
میرے لئے اس طرح انفرادی اعتراضات کا جواب دینا مشکل ہے، اگر آپ یہ بیان کر دیں کہ مہاجروں میں دائیں سے بائیں بازو کی جماعت کا فروغ کیوں ہوا اور پنجابیوں میں سوائے ایک آدھ استثناء کے دائیں بازو کی سیاست کیوں مقبول رہی، تو بہتر ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
باقی پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میرے نزدیک پنجابیوں کا دائیں بازو کی جماعتوں کو ووٹ دینا بذاتِ خود کو مستحسن قدم نہیں ہے۔ میں نے صرف اس رویہ کی وجہ جاننے کی کوشش بیان کی ہے، مگر ۹ صفحات میں ایک بھی معترض نے اس رویہ کی کوئی دوسری توجیح پیش نہیں کی، بس یہی رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ مہاجروں کو سیکیولر کیوں کہہ دیا۔ بھائی اگر اتنی ہی سیکیولرزم سے چڑ ہے تو ایک سیکیولر جماعت با رہا کامیاب کیوں ہوتی ہے؟
محترم چودھری مصطفی بھائی! پنجابیوں نے دائیں بازو کی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیا وگرنہ پنجاب میں کوئی لشکری جماعت کامیاب ٹھہرتی۔ بھٹو نے پنجاب سے فتح سمیٹی؛ کیا بھٹو جہادی تھا؟ یا معروف معنوں میں مذہب کا نمائندہ؟ یاد رکھیے، یہ وہ وقت تھا جب کراچی سے جماعتِ اسلامی کو مذہبی ووٹ ملا تھا اور جماعت کا ایک بڑا نام تھا تو کیا اس وقت مہاجر مذہب پسند تھے (جو کہ آپ کے خیال میں اب نہیں رہے)۔۔۔ آگے بڑھتے ہیں، بعدازاں، میاں نواز شریف یا محترمہ بے نظیر وغیرہ کو ووٹ پڑے اور میری ناقص فہم کے مطابق ان کا شمار لبرل سوچ رکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ نواز شریف نے مذہب کا سہارا ایک حد تک لیا یعنی کہ ووٹ لینے کی خاطر، اور اس وقت ان کی سوچ آپ کے سامنے ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ لینے کے لیے اسلام کا نام استعمال کیا جانا مذہب پسندی کی ذیل میں آتا ہے تو یہ معاملہ صرف پنجاب سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ مزید آگے بڑھتے ہیں، محترم عمران خان کو بھی آپ لبرل کہہ سکتے ہیں، وہ بھی معروف معنوں میں مذہبی فرد نہیں کہے جا سکتے۔ اور، جہاں تک سیکولر ہونے کا معاملہ ہے تو اس میں اور لبرل ہونے میں فرق ہے جناب! اس بابت محترم ایچ اے خان بھی اشارہ کر چکے ۔۔۔!!! جہاں تک آپ کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم سیکولر جماعت ہے تو اس کو کیسے تسلیم کر لیا جائے؟ اس ملک کی معروف سیاسی جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم بھی لبرل جماعت ہے، شاید آپ اس جماعت کے کلچر اور نشست و برخاست سے آگاہ نہیں وگرنہ یہ بات ضبط تحریر میں نہ لاتے۔ اور ، اگر سچ پوچھیے تو پاکستان میں دائیں بازو کی جماعتیں زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکی ہیں جس کی وجوہات کسی اور لڑی کے لیے ادھار رکھتے ہیں۔ کہیں تو ان مذہبی جماعتوں کے نام گنوا دوں جو شکست و ریخت کا شکار ہیں؟ ایک جملے میں کہنا پڑے تو یہ کہوں گا کہ آپ سیکولرازم اور لبرل ازم میں فرق روا رکھے بغیر مکالمے کو آگے بڑھاتے جا رہے ہیں۔ کوئی بات بری لگے تو معذرت! :)
 
محترم چودھری مصطفی بھائی! پنجابیوں نے دائیں بازو کی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیا وگرنہ پنجاب میں کوئی لشکری جماعت کامیاب ٹھہرتی۔ بھٹو نے پنجاب سے فتح سمیٹی؛ کیا بھٹو جہادی تھا؟ یا معروف معنوں میں مذہب کا نمائندہ؟ یاد رکھیے، یہ وہ وقت تھا جب کراچی سے جماعتِ اسلامی کو مذہبی ووٹ ملا تھا اور جماعت کا ایک بڑا نام تھا تو کیا اس وقت مہاجر مذہب پسند تھے (جو کہ آپ کے خیال میں اب نہیں رہے)۔۔۔ آگے بڑھتے ہیں، بعدازاں، میاں نواز شریف یا محترمہ بے نظیر وغیرہ کو ووٹ پڑے اور میری ناقص فہم کے مطابق ان کا شمار لبرل سوچ رکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ نواز شریف نے مذہب کا سہارا ایک حد تک لیا یعنی کہ ووٹ لینے کی خاطر، اور اس وقت ان کی سوچ آپ کے سامنے ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ لینے کے لیے اسلام کا نام استعمال کیا جانا مذہب پسندی کی ذیل میں آتا ہے تو یہ معاملہ صرف پنجاب سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ مزید آگے بڑھتے ہیں، محترم عمران خان کو بھی آپ لبرل کہہ سکتے ہیں، وہ بھی معروف معنوں میں مذہبی فرد نہیں کہے جا سکتے۔ اور، جہاں تک سیکولر ہونے کا معاملہ ہے تو اس میں اور لبرل ہونے میں فرق ہے جناب! اس بابت محترم ایچ اے خان بھی اشارہ کر چکے ۔۔۔!!! جہاں تک آپ کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم سیکولر جماعت ہے تو اس کو کیسے تسلیم کر لیا جائے؟ اس ملک کی معروف سیاسی جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم بھی لبرل جماعت ہے، شاید آپ اس جماعت کے کلچر اور نشست و برخاست سے آگاہ نہیں وگرنہ یہ بات ضبط تحریر میں نہ لاتے۔ اور ، اگر سچ پوچھیے تو پاکستان میں دائیں بازو کی جماعتیں زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکی ہیں جس کی وجوہات کسی اور لڑی کے لیے ادھار رکھتے ہیں۔ کہیں تو ان مذہبی جماعتوں کے نام گنوا دوں جو شکست و ریخت کا شکار ہیں؟ ایک جملے میں کہنا پڑے تو یہ کہوں گا کہ آپ سیکولرازم اور لبرل ازم میں فرق روا رکھے بغیر مکالمے کو آگے بڑھاتے جا رہے ہیں۔ کوئی بات بری لگے تو معذرت! :)
جی ہاں میرا یہی خیال ہے کہ مہاجر پہلے دائیں بازو کی جماعت کو ووٹ دیتے تھے اور اب بائیں کو۔ جن جماعتوں کی آپ بات کر رہے ہیں وہ انتہائی دائیں یعنی الٹرا رائٹ ونگ ہیں۔ پی پی کا جھکاؤ بائیں اور نواز کا دائیں طرف ہے۔ ایک جماعت کو اسی بازو کا مانا جاتا ہے جس بیانیہ کا استعمال وہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے کرتی ہے۔ ایک اصطلاح کو کئی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، میں نہیں سمجھا کہ یہاں آپ سیکولرزم یا لبرلزم میں کن معنوں میں فرق کر رہے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جی ہاں میرا یہی خیال ہے کہ مہاجر پہلے دائیں بازو کی جماعت کو ووٹ دیتے تھے اور اب بائیں کو۔ جن جماعتوں کی آپ بات کر رہے ہیں وہ انتہائی دائیں یعنی الٹرا رائٹ ونگ ہیں۔ پی پی کا جھکاؤ بائیں اور نواز کا دائیں طرف ہے۔ ایک جماعت کو اسی بازو کا مانا جاتا ہے جس بیانیہ کا استعمال وہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے کرتی ہے۔ ایک اصطلاح کو کئی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، میں نہیں سمجھا کہ یہاں آپ سیکولرزم یا لبرلزم میں کن معنوں میں فرق کر رہے ہیں۔
عثمان بھائی نے بھی اشارہ کر دیا ہے اور پھر عرض کرتا چلوں کہ پاکستان میں کسی جماعت کو معروف معنوں میں بائیں بازو کی جماعت نہیں کہا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کے کریڈٹ پر جو کچھ ہے، وہ گنوانا شروع کروں تو شاید مغرب میں اسے جہادی تنظیم قرار دے دیا جائے اور یہ بھی دیکھیے کہ ان کے ہاں اصطلاحات تک مذہب سے مستعار لی جاتی ہیں؛ خیر بات طویل ہو جائے گی تاہم اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ پیپلز پارٹی کا جھکاؤ بائیں بازو کی طرف ہے تو پھر پنجاب کے حوالے سے آپ کو تسلیم کرنا ہو گا کہ انہوں نے بائیں بازو کی جماعت کے لیے ووٹ ڈالنے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں اک ذرا زیادہ عجلت دکھائی؛ یوں آپ کے قائم کردہ تھیسس کا کیا بنے گا محترم! جہاں تک نون لیگ کا تعلق ہے، میں اسے بھی مفاد پرست ٹولہ ہی کہوں گا۔ انہیں معلوم پڑ جائے کہ لوگ تب ووٹ دیں گے جب آپ فلاں کو پیر و مرشد مانیں گے تو پھر؟ وہ یہی سب کچھ شروع کر دیں گے یعنی کہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو والا معاملہ ہی ہے بس۔ ویسے ان جماعتوں کا بھی اپنا کوئی خاص نظریہ نہیں ہے اور مغرب والوں کی ترجیحات کا بھی کیا ہے کہ ان کے پیمانوں سے ہم اپنا جائزہ لیتے پھریں؟ دیکھیے، فی زمانہ وہ 'قدامت پسندوں' کو محض قابل قبول سمجھتے ہیں تو ایک زمانے میں 'انتہائی قدامت پسندوں' کو وائٹ ہاؤس میں اپنے ہمراہ بٹھایا کرتے تھے۔ یہ سب مفادات کی گیم ہے محترم بھائی! تاہم، بات پھر کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے؛ مختصر بات یہ ہے کہ بعض باتوں میں تضاد نظر آیا تو گوش گزار کر دیا، بقیہ یہ کہ آپ کی فہم و فراست سے انکار نہ ہے۔ سلامت رہیں! :)
 
جناب آپ خاصے تکلف سے کام لے رہے ہیں، مجھے کم از کم اس موضوع پر دسترس کا دعوی نہیں۔ جو بات میری سمجھ میں آئی میں نے کہہ دی اور اگر کوئی بہتر بات سمجھا دے تو قبول کرنے میں مضائقہ نہیں۔
باقی آپ کا تمام جماعتوں کو مطعون کر کے دامن جھاڑ دینا، میری ذاتی رائے میں لوگوں کا رویہ جانچنے میں کوئی مدد نہیں کرتا۔ ہر سیاسی جماعت ووٹ کی سیاست کرتی ہے۔ وہ کوئی ایسا بیانیہ اٹھاتی ہے جو ان کو اقتدار میں آنے میں مدد دے۔ اگر وہ بیانیہ لوگوں میں مقبول ہو تو وہ اسے ووٹ دیتے ہیں۔
باقی رہی پیمانہ کی بات تو سب سے بہتر پیمانہ وہ ہے جس سے حاصل کئے ہوئے نتائج ری پروڈیوسبل ہوں۔ (اردو کا کوئی مناسب لفظ میرے ذہن میں نہیں آ رہا)

آپ سے بھی یہی درخواست ہے کہ بجائے انفرادی باتوں میں اعتراض کے، عوام کے ووٹنگ کے رویہ کا مربوط جائزہ بیان کریں تو مجھے بھی سمجھنے میں آسانی ہو۔
 

فرقان احمد

محفلین
مجھے کم از کم اس موضوع پر دسترس کا دعوی نہیں۔ جو بات میری سمجھ میں آئی میں نے کہہ دی اور اگر کوئی بہتر بات سمجھا دے تو قبول کرنے میں مضائقہ نہیں۔
درست! :)
آپ کا تمام جماعتوں کو مطعون کر کے دامن جھاڑ دینا، میری ذاتی رائے میں لوگوں کا رویہ جانچنے میں کوئی مدد نہیں کرتا۔
جناب! تمام جماعتوں کو مطعون کرنے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا، ایک مرتبہ پھر مراسلہ ملاحظہ فرمائیے۔ ہمارے بڑے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے رہے اور اس وقت ہمارے خاندان میں قریب قریب ہر بڑی پارٹی کے سپورٹر موجود ہیں اس لیے تمام جماعتوں کو مطعون کرنے والی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہاں، جو معروضی جائزہ پیش کیا ہے، اگر آپ کو اس سے اختلاف ہے تو فرمائیے۔
ہر سیاسی جماعت ووٹ کی سیاست کرتی ہے۔ وہ کوئی ایسا بیانیہ اٹھاتی ہے جو ان کو اقتدار میں آنے میں مدد دے۔ اگر وہ بیانیہ لوگوں میں مقبول ہو تو وہ اسے ووٹ دیتے ہیں۔
متفق! کیا میں نے اسے ہٹ کر کچھ کہہ دیا؟
آپ سے بھی یہی درخواست ہے کہ بجائے انفرادی باتوں میں اعتراض کے، عوام کے ووٹنگ کے رویہ کا مربوط جائزہ بیان کریں تو مجھے بھی سمجھنے میں آسانی ہو۔
آپ تو اچھے خاصے سیانے گیانے ہیں؛ کیوں ہمارا امتحان لینے پر تلے ہیں سرکار! اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ پنجاب میں مذہب پسند بستے ہیں اور اس لیے دائیں بازو کی پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں اور ادھر سمندر کے پاس بسنے والے مہاجر بھائی بائیں بازو کی پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں کیوں کہ وہ سیکولر واقع ہوئے ہیں یا آہستہ آہستہ بن گئے ہیں؛ تو پھر یہ دیکھا جائے کہ ان کے رویے ایسے کیوں ہیں تو اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ آپ کی اس لاجک سے قریب قریب دس بارہ محفلین غیر متفق ہیں اور جب ہمارے دیے گئے گزشتہ دلائل کا جناب کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا تو اب ہم کیا تیر مار لیں گے، ایسا کرتے ہیں، ہم اپنا ہی علاج کروا لیتے ہیں، اب خوش :) :) :)
 

عثمان

محفلین
میرے لئے اس طرح انفرادی اعتراضات کا جواب دینا مشکل ہے، اگر آپ یہ بیان کر دیں کہ مہاجروں میں دائیں سے بائیں بازو کی جماعت کا فروغ کیوں ہوا اور پنجابیوں میں سوائے ایک آدھ استثناء کے دائیں بازو کی سیاست کیوں مقبول رہی، تو بہتر ہے۔
اگر کسی معاشرے میں بسنے والی اقلیت اپنے آپ کو اپنی شناخت کے اس پہلو (جس نے اسے اقلیت بنایا) کے اعتبار سے تنہا اور vulnerable سمجھے تو اس میں اپنی اس شناخت کے تحفظ کا احساس پیدا ہو جانا فطری امر ہے۔ یہ احساس رفتہ رفتہ ان کی سیاست اور تہذیب میں نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایم کیو ایم اپنے تاریخی پس منظر میں مہاجروں کی لسانی اور تہذیبی شناخت کے تحفظ کی دعویدار ہے۔ لہذا مہاجروں میں وہ لوگ جو اپنے آپ کو اپنی زبان ، نسل اور قومیت کے اعتبار سے پاکستان کی دیگر اقوام کے مقابلے پر تنہا اور vulnerable سمجھتے ہیں۔۔ ایم کیو ایم کی طرف کھچے چلے آتے ہیں۔ اس میں مذہب یا سیکولرازم کا کوئی عمل دخل نہیں۔
یہ رویہ محض مہاجروں میں منفرد نہیں بلکہ دیگر اقوام میں بھی پایا جاتا ہے۔ مثلا پختونوں میں اے این پی، بلوچوں میں قوم پرستی کی تحریک ، حتی کے پنجابیوں کے بھی ایک گروہ سرائیکوں میں آپ کو یہی رویہ نظر آئے گا۔ ماضی میں انہی خطوط پر بنگالی بھی پاکستان سے الگ ہو چکے ہیں۔
اب اگر آپ یہ پوچھیں کہ سرائیکیوں کے علاوہ دیگر پنجابیوں میں یہ رویہ کیوں نہیں پایا جاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجابی پاکستان کے ریاستی ڈھانچے اور معاشرے میں ناصرف یہ کہ بہت اکثریت میں ہیں بلکہ بہت پراثر اور بالادست ہیں۔ ان کی پہچان اور اثرورسوخ کو کسی دوسری قوم سے کوئی خطرہ نہیں تو بس اسی لیے پنجابی کلچر، حکومت اور حتی کے پنجابی زبان کے بارے میں کوئی غیر معمولی احساس تحفظ نہیں۔ اسی لیے جب وہ سیاست کی طرف بڑھتے ہیں تو انہیں کسی لسانی اور قومی تحریک کی طرف بڑھنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ کل کو اگر کوئی Na'vi قوم اکثریت بن کر پاکستان میں نازل ہوگئی تو پنجابیوں میں بھی کسی متحدہ پنجابی موومنٹ کے ابھرنے میں دیر نہیں لگے گی۔
پنجابیوں میں وہ لوگ جو پاکستان چھوڑ کر دیگر ممالک جا بسے اور وہاں کے شہری بن گئے تو وہ بھی وہاں عموما ان جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں جو ان کو اس نئے ملک میں ان کی شناخت اور مقام کے تحفظ کا یقین دلاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ مغرب میں پنجابی سمیت دیگر پاکستانی نژاد بھی عموماً ایسی لبرل پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں جو تارکین وطن اور ملٹی کلچرلزم پر نرم موقف رکھتی ہیں۔
یہی رویہ آپ دنیا کے دیگر خطوں اور ممالک میں بسنے والی اقلیتوں میں بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
درست! :)

جناب! تمام جماعتوں کو مطعون کرنے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا، ایک مرتبہ پھر مراسلہ ملاحظہ فرمائیے۔ ہمارے بڑے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے رہے اور اس وقت ہمارے خاندان میں قریب قریب ہر بڑی پارٹی کے سپورٹر موجود ہیں اس لیے تمام جماعتوں کو مطعون کرنے والی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہاں، جو معروضی جائزہ پیش کیا ہے، اگر آپ کو اس سے اختلاف ہے تو فرمائیے۔

متفق! کیا میں نے اسے ہٹ کر کچھ کہہ دیا؟

آپ تو اچھے خاصے سیانے گیانے ہیں؛ کیوں ہمارا امتحان لینے پر تلے ہیں سرکار! اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ پنجاب میں مذہب پسند بستے ہیں اور اس لیے دائیں بازو کی پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں اور ادھر سمندر کے پاس بسنے والے مہاجر بھائی بائیں بازو کی پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں کیوں کہ وہ سیکولر واقع ہوئے ہیں یا آہستہ آہستہ بن گئے ہیں؛ تو پھر یہ دیکھا جائے کہ ان کے رویے ایسے کیوں ہیں تو اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ آپ کی اس لاجک سے قریب قریب دس بارہ محفلین غیر متفق ہیں اور جب ہمارے دیے گئے گزشتہ دلائل کا جناب کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا تو اب ہم کیا تیر مار لیں گے، ایسا کرتے ہیں، ہم اپنا ہی علاج کروا لیتے ہیں، اب خوش :) :) :)
جناب میں نے یہ بات پہلے کچھ مراسلوں میں کہی ہے کہ انفرادی مذہبی رجحان میں مہاجروں اور پنجابیوں میں کچھ ایسا فرق نہیں ہے۔ بات مذہبی بیانیہ کے حوالے سے ووٹ کی ہو رہی ہے۔ بلوچ انفرادی طور پہ خاصے مذہبی ہیں مگر سیاست میں ان کا رجحان بائیں بازو کی طرف ہے۔
میری لاجک سے غیر متفق ہونا آپ کا حق ہے لیکن اس کی کوئی اور توجیہ بیان کریں۔
 
اگر کسی معاشرے میں بسنے والی اقلیت اپنے آپ کو اپنی شناخت کے اس پہلو (جس نے اسے اقلیت بنایا) کے اعتبار سے تنہا اور vulnerable سمجھے تو اس میں اپنی اس شناخت کے تحفظ کا احساس پیدا ہو جانا فطری امر ہے۔ یہ احساس رفتہ رفتہ ان کی سیاست اور تہذیب میں نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایم کیو ایم اپنے تاریخی پس منظر میں مہاجروں کی لسانی اور تہذیبی شناخت کے تحفظ کی دعویدار ہے۔ لہذا مہاجروں میں وہ لوگ جو اپنے آپ کو اپنی زبان ، نسل اور قومیت کے اعتبار سے پاکستان کی دیگر اقوام کے مقابلے پر تنہا اور vulnerable سمجھتے ہیں۔۔ ایم کیو ایم کی طرف کھچے چلے آتے ہیں۔ اس میں مذہب یا سیکولرازم کا کوئی عمل دخل نہیں۔
یہ رویہ محض مہاجروں میں منفرد نہیں بلکہ دیگر اقوام میں بھی پایا جاتا ہے۔ مثلا پختونوں میں اے این پی، بلوچوں میں قوم پرستی کی تحریک ، حتی کے پنجابیوں کے بھی ایک گروہ سرائیکوں میں آپ کو یہی رویہ نظر آئے گا۔ ماضی میں انہی خطوط پر بنگالی بھی پاکستان سے الگ ہو چکے ہیں۔
اب اگر آپ یہ پوچھیں کہ سرائیکیوں کے علاوہ دیگر پنجابیوں میں یہ رویہ کیوں نہیں پایا جاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجابی پاکستان کے ریاستی ڈھانچے اور معاشرے میں ناصرف یہ کہ بہت اکثریت میں ہیں بلکہ بہت پراثر اور بالادست ہیں۔ ان کی پہچان اور اثرورسوخ کو کسی دوسری قوم سے کوئی خطرہ نہیں تو بس اسی لیے پنجابی کلچر، حکومت اور حتی کے پنجابی زبان کے بارے میں کوئی غیر معمولی احساس تحفظ نہیں۔ اسی لیے جب وہ سیاست کی طرف بڑھتے ہیں تو انہیں کسی لسانی اور قومی تحریک کی طرف بڑھنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ کل کو اگر کوئی Na'vi قوم اکثریت بن کر پاکستان میں نازل ہوگئی تو پنجابیوں میں بھی کسی متحدہ پنجابی موومنٹ کے ابھرنے میں دیر نہیں لگے گی۔
پنجابیوں میں وہ لوگ جو پاکستان چھوڑ کر دیگر ممالک جا بسے اور وہاں کے شہری بن گئے تو وہ بھی وہاں عموما ان جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں جو ان کو اس نئے ملک میں ان کی شناخت اور مقام کے تحفظ کا یقین دلاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ مغرب میں پنجابی سمیت دیگر پاکستانی نژاد بھی عموماً ایسی لبرل پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں جو تارکین وطن اور ملٹی کلچرلزم پر نرم موقف رکھتی ہیں۔
یہی رویہ آپ دنیا کے دیگر خطوں اور ممالک میں بسنے والی اقلیتوں میں بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
بجا فرمایا۔ گو کہ میرے خیال میں شناخت سے زیادہ دخل اس میں مقام، معاشیات اور وسائل پہ تصرف حاصل کرنےکی سعی کو ہے۔ اکثر و بیشتر وسائل پہ تصرف کیلئے جب گروہ بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو پہلے شناخت پہ زور دیا جاتا ہے اور پھر اس شناخت کے حوالے سے حقوق اور وسائل کی جنگ لڑی جاتی ہے۔ شناخت کے ان پہلوؤں پہ توجہ دی جاتی ہے جو گروہی مفاد میں معاون ہوں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جناب میں نے یہ بات پہلے کچھ مراسلوں میں کہی ہے کہ انفرادی مذہبی رجحان میں مہاجروں اور پنجابیوں میں کچھ ایسا فرق نہیں ہے۔ بات مذہبی بیانیہ کے حوالے سے ووٹ کی ہو رہی ہے۔ بلوچ انفرادی طور پہ خاصے مذہبی ہیں مگر سیاست میں ان کا رجحان بائیں بازو کی طرف ہے۔
میری لاجک سے غیر متفق ہونا آپ کا حق ہے لیکن اس کی کوئی اور توجیہ بیان کریں۔
محترم! یہ تو محض دیکھنے کے تناظر میں فرق ہوا نا ۔۔۔ آپ جن جماعتوں کو بائیں بازو کی جماعتیں تصور کر رہے ہیں، کیا وہ واقعی اپنی بنت میں بائیں بازو کی جماعتیں ہٰیں؟ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس جمہوریت میں حقیقی عوامی جماعتیں کم ہیں اور جو آپشن عوام کے سامنے ہیں، ان میں عوام کی اکثریت عام طور پر ایسی جماعتوں کو ہی چن لیتی ہے جو ذرا کم مذہبی ہیں یا اک ذرا زیادہ لبرل ہیں اور یہ رجحان قریب قریب ہر صوبے میں پایا جاتا ہے اور آپ کے اپنے مراسلہ جات سے بھی یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے ؛ مزید یہ کہ رجحان تو بدلتا بھی رہتا ہے یعنی کوئی خاص حکم کسی خاص گروہ پر لگایا نہیں جا سکتا ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی عوام معروف معنوں میں مذہبی جماعتوں کو کم ووٹ دیتے ہیں جس کی طرف پچھلی ایک پوسٹ میں، میں اشارہ کر چکا ہوں۔ سلامت رہیں میرے محترم بھائی، کوئی بات دل پر نہ لے لیجیے گا :)
 
آپ کا یہ مراسلہ پڑھ کر بالکل بھی خوشی نہیں ہوئی، پاکستانیوں کو اتحاد اور تقسیم ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور آپ نے پنجابیوں کی مذہب پسندی اور مہاجروں کے سیکولر ہونے پر کوئی ٹھوس دلیل بھی پیش نہیں کی۔
۔
ارے یہ کیا اگر اتحاد اور تقسیم دونوں کو ختم کریں گے تو باقی کیا بچے گا۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟


اور بجائے اس کے کہ ہم پنجابی ، سندھی ، بلوچی ، سرحدی (موجودہ کے پی کے) کی جنگ لڑتے رہیں اور ایک دوسرے پر کچڑ اچھالتے رہیں۔۔۔۔۔ ہمیں ایک ساتھ مل کر قدم بڑھانا چاہئے ۔۔۔۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی مسلمان بھائی بھائی بن کر رہے ہیں ۔۔۔ دنیا قدموں میں رہی ہے۔۔۔۔ جب فسادی ہوئے تو پھر ذلت مقدر بنی ۔۔۔۔
 

عثمان

محفلین
بجا فرمایا۔ گو کہ میرے خیال میں شناخت سے زیادہ دخل اس میں مقام، معاشیات اور وسائل پہ تصرف حاصل کرنےکی سعی کو ہے۔ اکثر و بیشتر وسائل پہ تصرف کیلئے جب گروہ بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو پہلے شناخت پہ زور دیا جاتا ہے اور پھر اس شناخت کے حوالے سے حقوق اور وسائل کی جنگ لڑی جاتی ہے۔ شناخت کے ان پہلوؤں پہ توجہ دی جاتی ہے جو گروہی مفاد میں معاون ہوں۔
کسی گروہ کی سماجی شناخت تسلیم کرنے کا مطلب یہی ہے کہ تاریخ، تہذیب اور معاشرتی وسائل میں ان کا جائز حق تسلیم کیا جائے۔
 
ارے یہ کیا اگر اتحاد اور تقسیم دونوں کو ختم کریں گے تو باقی کیا بچے گا۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟


اور بجائے اس کے کہ ہم پنجابی ، سندھی ، بلوچی ، سرحدی (موجودہ کے پی کے) کی جنگ لڑتے رہیں اور ایک دوسرے پر کچڑ اچھالتے رہیں۔۔۔۔۔ ہمیں ایک ساتھ مل کر قدم بڑھانا چاہئے ۔۔۔۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی مسلمان بھائی بھائی بن کر رہے ہیں ۔۔۔ دنیا قدموں میں رہی ہے۔۔۔۔ جب فسادی ہوئے تو پھر ذلت مقدر بنی ۔۔۔۔
سمجھنے میں تھوڑی سی مشکل ہوگئی :) شاید ایک قومہ کی کمی رہ گئی تھی :)
میں وہ جملہ دوبارہ لکھ دیتا ہوں ۔ پاکستانیوں کو اتحاد کی ضرورت ہے اور تقسیم ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔
اب ٹھیک ہے نا۔ :)
 
کسی گروہ کی سماجی شناخت تسلیم کرنے کا مطلب یہی ہے کہ تاریخ، تہذیب اور معاشرتی وسائل میں ان کا جائز حق تسلیم کیا جائے۔
جائز ایک "ریلیٹو" چیز ہے۔ آپ درست کہتے ہیں کہ اقلیتیں عموماً بائیں بازو کی جانب ہوتی ہیں اور اکثریت دائیں جانب۔ اور یہ سیدھی سی مفادات کی بات ہے۔ مہاجر اقلیت اس لحاظ سے ذرا مختلف ہے کہ ان کا تاریخی وجود دائیں بازو کے بیانیہ سے جڑا ہوا ہے، اس لئے مہاجر انٹیلیجینسیا کے بیانیہ میں ایک تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک جانب دائیں بازو کے بیانیہ میں اپنی تاریخی کاوش کا غرور اور احسان اور ساتھ ہی بائیں بازو کے بیانیہ کی دعوی داری۔
 
محترم! یہ تو محض دیکھنے کے تناظر میں فرق ہوا نا ۔۔۔ آپ جن جماعتوں کو بائیں بازو کی جماعتیں تصور کر رہے ہیں، کیا وہ واقعی اپنی بنت میں بائیں بازو کی جماعتیں ہٰیں؟ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس جمہوریت میں حقیقی عوامی جماعتیں کم ہیں اور جو آپشن عوام کے سامنے ہیں، ان میں عوام کی اکثریت عام طور پر ایسی جماعتوں کو ہی چن لیتی ہے جو ذرا کم مذہبی ہیں یا اک ذرا زیادہ لبرل ہیں اور یہ رجحان قریب قریب ہر صوبے میں پایا جاتا ہے اور آپ کے اپنے مراسلہ جات سے بھی یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے ؛ مزید یہ کہ رجحان تو بدلتا بھی رہتا ہے یعنی کوئی خاص حکم کسی خاص گروہ پر لگایا نہیں جا سکتا ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی عوام معروف معنوں میں مذہبی جماعتوں کو کم ووٹ دیتے ہیں جس کی طرف پچھلی ایک پوسٹ میں، میں اشارہ کر چکا ہوں۔ سلامت رہیں میرے محترم بھائی، کوئی بات دل پر نہ لے لیجیے گا :)
محترم آپ ایک گول دائرے میں گھوم رہے ہیں، علت و معلول سے کس کو انکار ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ کسی پہ حکم لگانا قصد نہیں، وجہ جاننا مقصد ہے۔ پورے دھاگے میں عثمان صاحب کے علاوہ کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی۔
 

فرقان احمد

محفلین
محترم آپ ایک گول دائرے میں گھوم رہے ہیں، علت و معلول سے کس کو انکار ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے۔
صاحب! ایسا کیجیے، ہمیں گول دائرے میں گھومنے دیجیے، ہمارا تو یوں بھی گردش میں پاؤں ہے۔ آپ اپنے الجھے ہوئے دلائل کے ساتھ صراطِ مستقیم پر گامزن رہیے، ولسلام! :)
 
Top