تن ز جان و جاں ز تن مستور نیست
لیک دید جاں بہ کس دستور نیست
ترجمہ: جسم روح سے اور روح جسم سے پوشیدہ تو نہیں، لیکن روح کا دیکھنا دسترس نگاہ سے باہر ہے.
(مولانا رومی قدس سرہ)
مترجم: پیر سید نصیرالدین گولڑوی (قدس سرہ) در کتابش "راہ و رسم منزل ہا" (اردو) ص:16
 
حسن مہ را با تو سنجیدم بہ میزان قیاس
پلہ مہ بر فلک رفت و تو ماندی بر زمیں
ترجمہ: میں نے (اپنے عقل و) قیاس کے ترازو میں چاند اور تیرے حسن کو تولا، (نتیجہ یہ نکلا کہ ہلکا ہونے کے سبب) چاند کا پلہ آسمان کی جانب اٹھ گیا اور تو (وزنی ہونے کے سبب) زمین پر رہ گیا.
 

محمد وارث

لائبریرین
مرحمت بگذاشتی، تیغِ جفا برداشتی
آں محبت ہا کجا شد؟ ایں ستمگاری چہ بُود؟


ہلالی چغتائی

تُو نے لطف و عنایت و کرم و مہربانی کو چھوڑ دیا اور ظلم و ستم و جور و جفا کی تلوار اُٹھا لی، (بتا تو سہی) وہ محبتیں کیا ہوئیں؟ یہ ستمگاریاں کیسی؟
 

حسان خان

لائبریرین
شعلهٔ تقریرِ ما چون بی‌صدا شد صاف شد
خامشی آوازِ ما را آتشِ بی‌دود کرد
(شوکت بخاری)

ہماری تقریر کا شعلہ جب بے صدا ہوا، صاف ہو گیا۔۔۔ خاموشی نے ہماری آواز کو آتشِ بے دُود کر دیا۔
دُود = دھواں
 

حسان خان

لائبریرین
معشوقه چو آفتاب تابان گردد​

عاشق به مثال ذره گردان گردد​

چون باد بهار عشق جنبان گردد​

هر شاخ که خشک نیست رقصان گردد​
رباعی : مولانا رومی رح
وارث بھائی سلام عرض ہے امید ہے کے آپ کے مزاج بخیر ہونگے
ہمیں اس رباعی کا ترجمہ درکار بارے کرم ہماری اصلاح کیجیئے -وسلام

شاید یہ ترجمہ مناسب ہو۔

معشوقه چو آفتابِ‌تابان گردد
عاشق به‌مثالِ ذره گردان گردد
چون بادِ بهار عشق جنبان گردد
هر شاخ که خشک نیست رقصان گردد
(مولانا رومی)

محبوب آفتابِ تاباں کی مانند گردش کررہا ہے۔عاشق ذرے کی مانند گرداں ہو رہا ہے (گھوم رہا ہے)۔عشق بادِ بہاری کی مثل متزلزل ہورہی ہے۔ہر وہ شاخ،جو خشک نہیں ہے، رقصاں ہورہی ہے۔
اگر رباعی کے مصرعِ اول میں 'آفتاب' اور 'تابان' کے درمیان اضافت سمجھی جائے تو بیتِ اول کا مفہوم یہ ہو گا:
معشوقہ آفتابِ تاباں کی مانند گردش کر رہی ہے، [جبکہ] عاشق ذرّے کی مانند گرداں ہو رہا ہے۔
یا: معشوقہ جب آفتابِ تاباں ہو جائے تو عاشق ذرّے کی طرح گرداں ہو جائے۔

لیکن اگر 'آفتاب' اور 'تابان' کے درمیان اضافت نہ ہو تو مفہوم یہ ہو گا:
معشوقہ آفتاب کی مانند تاباں ہو رہی ہے؛ [جبکہ] عاشق ذرّے کی مانند گرداں ہو رہا ہے۔
یا یہ کہ: معشوقہ آفتاب کی مانند تاباں ہو جائے، [جبکہ] عاشق ذرّے کی مانند گرداں ہو جائے۔

رباعی کے بیتِ دوم کا مفہوم یہ ہے:
جب بادِ بہارِ عشق حرکت میں آئے تو جو شاخ بھی خشک نہیں ہے، رقصاں ہو جائے۔

کُل رباعی کا مجموعی طور پر یہ مفہوم نکالا جا سکتا ہے:
جب بادِ بہارِ عشق حرکت میں آئے تو معشوقہ آفتاب کی مانند تاباں ہو جائے؛ عاشق ذرّے کی طرح گرداں ہو جائے؛ [اور] جو شاخ بھی خشک نہیں ہے، وہ رقصاں ہو جائے۔
 
آخری تدوین:
رباعی
وصل تو کجا و من مهجور کجا
دردانه کجا حوصله مور کجا
هر چند ز سوختن ندارم باکی
پروانه کجا و آتش طور کجا

(ابوسعید ابوالخیر)

تیرا وصال کہاں اور میں مجبور کہاں، دُردانہ کہاں اور حوصلہِ موج کہاں، ہرچند اس سے جل گیا اور آہ و بکا نہ کی، لیکن پروانہ کہاں اور آتشِ طور کہاں!
 
رباعی
وصل تو کجا و من مهجور کجا
دردانه کجا حوصله مور کجا
هر چند ز سوختن ندارم باکی
پروانه کجا و آتش طور کجا

(ابوسعید ابوالخیر)

تیرا وصال کہاں اور میں مجبور کہاں، دُردانہ کہاں اور حوصلہِ موج کہاں، ہرچند اس سے جل گیا اور آہ و بکا نہ کی، لیکن پروانہ کہاں اور آتشِ طور کہاں!
میرے خیال سے درمیانے دو مصرعوں کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا
دردانہ(موتی) کہاں اور چیونٹی کا حوصلہ کہاں، ہر چند کہ میں جلنے کا کوئی خوف نہیں رکھتا
 

حسان خان

لائبریرین
ساعتی گر دور گردد چشمم از دیدارِ تو
سر به سر عالَم به جسمِ من چو زندان می‌شود
(سلطان بایزیدِ ثانی 'عدلی')

اگر ایک ساعت [بھی] میری چشم تمہارے دیدار سے دور ہوتی ہے تو [یہ] تمام کا تمام عالَم میرے جسم کے لیے زندان کی مانند ہو جاتا ہے۔
 
بر مهرِ چرخ و شیوهِ او اعتماد نیست
ای وای بر کسی که شد ایمن ز مکرِ وی
(حافظ شیرازی)

گردوں کے مہر و روش پر اعتماد نہیں (کیا جاسکتا)ہے۔اس شخص پر افسوس جو اس کے مکر سے مطمئن ہوگیا۔
 
تو را که گفت که حلوا دهم به دستِ رقیب
به دستِ خویشتنم زهر ده که حلواییست
(سعدی شیرازی)

تجھے کس نے کہا ہے بدستِ رقیب تو مجھے حلوا دے؟تو مجھے از دستِ خود زہر دے کہ (وہ میرے لئے بسانِ) حلوا ہے۔
 
چو بر ولایتِ دل دست یافت لشکرِ عشق
به دست باش! که هر بامداد یغمایی‌ست
(سعدی شیرازی)

جب لشکرِ عشق قلمروئے دل پر ظفریاب ہوجائے تو آگاہ باش کہ ہر صبح (لشکرِ عشق) غارتِ دیگر کرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خوابم از دیده چُنان رفت که هرگز ناید
خوابِ من زهرِ فراقِ تو بِنوشید و بِمُرد
(مولانا جلال‌الدین رومی)
میری چشم سے نیند اِس طرح چلی گئی کہ [اب] ہرگز [واپس] نہیں آئے گی؛ میری نیند نے تمہارے فراق کا زہر نوش کیا اور مر گئی۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
سوز و گداز و دردِ دل و فقر و مسکنت
ما سالہا کشیدہ، تو یک دم ندیدہ ای


درویش ناصر بخاری

سوز و گداز و دردِ دل و فقر و مسکنت، ہم سالہا سال سے انہیں سینے سے لگائے اور اُٹھائے ہوئے ہیں جب کہ تُو نے ایک لحظے کے لیے کبھی انہیں دیکھا بھی نہیں (سو تُو ہماری حالت کیسے جان پائے گا)۔
 

حسان خان

لائبریرین
از قناعت طینتِ ما را مُخمّر کرده‌اند
تر ز آب و دانهٔ خویش است نانِ خشکِ ما
(شوکت بخاری)
ہماری فطرت کو قناعت سے تخمیر کیا گیا ہے؛ ہمارا خُشک نان خود کے آب و دانہ سے تر ہے۔

دیوانِ شوکت بخاری کا ایک خوش خط قلمی نسخہ:
ربطِ اول

ربطِ دوم
 

حسان خان

لائبریرین
ای فُروغِ عشق! بی تو زیستن
بدتر است اندر جهان از نیستن
(نعیم فراشری)

اے روشنیِ عشق! دنیا میں تمہارے بغیر زندگی کرنا نابود ہونے سے بدتر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خاموشیِ اربابِ سخن قطعِ حیات است
مِقراض بُوَد بستنِ لب تارِ نَفَس را
(شوکت بخاری)
اربابِ سُخن کی خاموشی قطعِ حیات ہے؛ لب کا بند کرنا تارِ نَفَس کے لیے قینچی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رِشتهٔ نظّارهٔ خودبین کم از زُنّار نیست
چشم پوشیدن ز خود خود را مسلمان کردن است
(شوکت بخاری)

نگاہِ خود بیں کا دھاگا زُنّار سے کم نہیں ہے؛ اپنے آپ سے چشم پوشی کرنا خود کو مسلمان کرنے [جیسا] ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شبنمِ خود را به راهِ آفتاب انداختن
دیده را محوِ رُخ خورشیدرُویان کردن است

(شوکت بخاری)
[اپنی] چشم کو خورشید رُو [معشوقوں] کے چہرے میں محو کرنا ایسا ہے گویا اپنی شبنم کو آفتاب کی راہ میں ڈالنا۔
 
Top