غزل برائے اصلاح

امان زرگر

محفلین
سنو یہ عشق بھی آساں بھلا کب ہے
مگر میرا جنوں ناداں بھلا کب ہے
عیاں سب صورت احوال اشکوں سے
مرا پندار غم پنہاں بھلا کب ہے
کہاں مطلوب اب یہ زندگی مجھ کو
مرے دل میں کوئی ارماں بھلا کب ہے
لگا دو جان کی بازی اگر چاہو
وفا رسوائی کا ساماں بھلا کب ہے
ترا کاغذ جو نامہ بر کے ہاتھ آیا
وہ میرے درد کا درماں بھلا کب ہے
 
عیاں سب صورت احوال اشکوں سے
عیاں ہے صورتِ احوال اشکوں سے
کہاں مطلوب اب یہ زندگی مجھ کو
کہاں مطلوب ہے یہ زندگی مجھ کو

یہ مصارع شاید یوں بہتر رہیں۔ باقی غزل مجھے درست معلوم ہوئی۔
 

امان زرگر

محفلین
سر الف عین آپ کا حکم سر آنکھوں پہ۔۔۔۔۔۔۔۔

سنو یہ عشق بھی آساں بھلا کب تھا
مگر میرا جنوں ناداں بھلا کب تھا
عیاں سب صورتِ احوال اشکوں سے
مرا پندارِ غم پنہاں بھلا کب تھا
کہاں مطلوب تھی یہ زندگی مجھ کو
مرے دل میں کوئی ارماں بھلا کب تھا
لگا دی جان کی بازی محبت میں
وفا رسوائی کا ساماں بھلا کب تھا
ترا کاغذ جو نامہ بر کے ہاتھ آیا
وہ میرے درد کا درماں بھلا کب تھا
تری فرقت نے آشفتہ سری بخشی
مری ہستی کا یہ عنواں بھلا کب تھا

بڑی وسعت مری تنگیء داماں میں
مرا دل خانۂ ویراں بھلا کب تھا
یا
بڑی وسعت مری تنگیء داماں میں
میں شہرِ عشق پر نازاں بھلا کب تھا
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
صرف آخری شعر سمجھ نہیں آیا۔
بڑی وسعت مری تنگیء داماں میں
مرا دل خانۂ ویراں بھلا کب تھا
یا
بڑی وسعت مری تنگیء داماں میں
میں شہرِ عشق پر نازاں بھلا کب تھا
سر دوسرے مصرے میں قافیہ کی پابندی کے ساتھ تنگئی داماں کی وسعت کے اظہار کے لئیے موضوع نہیں مل رہا۔۔۔
 
غزل میں مجھے کوئی خوبی نظر آئی نہ خامی۔ نئی اور پرانی دونوں صورتیں کچھ خاص معنیٰ‌خیز نہیں لگیں۔ شاعری اچھے الفاظ کا نہیں بر‌محل الفاظ کا کھیل ہے۔ رہا عروض تو اس پر آپ کی گرفت علیٰ‌العموم اچھی ہے۔
تھا ہونٹوں پر گلہ تنگیء داماں کا
وہ شہرِ عشق پر نازاں بھلا کب تھا
مصرع کے آغاز میں ہے، ہیں، ہو، تھا، تھی، تھے وغیرہ کے حروفِ‌علت کا اسقاط معیوب ہے۔ اس بابت میں پہلے عرض کر چکا ہوں:
مجھے بعض لوگوں سے ایک نکتہ معلوم ہوا تھا جو عموماً عروض کی کتب میں مندرج نہیں۔ مگر اساتذہ کے کلام کے جائزے سے اس کے التزام کا ثبوت ملتا ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ مصرع کے شروع میں "ہے" کو حرفِ واحد کے وزن پر باندھنے سے احتراز کیا جانا چاہیے۔ یعنی اگر کسی بحر میں مصرع "ہے" سے شروع کرنے کے لیے اس کی یائے لین ساقط کرنی پڑے تو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
میں یہ مشورہ نئے احباب کو اکثر دیتا رہا ہوں کہ وہ محض اپنی غزلوں کی اصلاح کی لڑیوں تک محدود نہ رہیں بلکہ اصلاحِ‌سخن کے زمرے کو جتنا ہو سکے کھنگال ڈالیں۔ اس طرح بہت سی باتیں آپ کو بھی غلطی کیے بغیر معلوم ہو جائیں گی اور ہمیں بھی دہرانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
 

امان زرگر

محفلین
اداسی کا دیا جلتا رہا شب بھر
مرا دل خانۂ ویراں بھلا کب تھا
میں نوحہ خواں ہوا خود مرگ پر اپنی
مرا پندار غم پنہاں بھلا کب تھا
کہاں وسعت مری تنگیء داماں میں
مرے دل میں کوئی ارماں بھلا کب تھا

سر راحیل فاروق شاید اب تھوڑی خوبی نظر آئے، آپ کی توجہ چاہتا ہوں
سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
 
آخری تدوین:
Top