نظریہ ارتقاء پر اٹھائے جانے والے پندرہ اعتراضات اور ان کے جوابات

سائنسدان صرف سائنسی مشاہدات کو مانتے ہیں۔ انکا مذہبیات و عقیدتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔

لو بھئی عارف! کوئی اور قائل ہو یانہ ہو،ہم تو نظریہ ارتقا کے قائل ہوگئے۔ کسی بھی مخلوق کا کسی دوسری مخلوق میں ارتقا فوٹو شاپ کےذریعے عین ممکن ہے ۔ بلکہ اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہے۔:cool:
 

arifkarim

معطل
لو بھئی عارف! کوئی اور قائل ہو یانہ ہو،ہم تو نظریہ ارتقا کے قائل ہوگئے۔ کسی بھی مخلوق کا کسی دوسری مخلوق میں ارتقا فوٹو شاپ کےذریعے عین ممکن ہے ۔ بلکہ اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہے۔:cool:
یہی تو المیہ ہے۔ مذہبیوں کو نظریہ ارتقا پر قائل ہونے کی ضرورت نہیں جبکہ سائنسدانوں کو نظریہ ارتقا پڑھے بغیر ماڈرن بیالوجی سمجھنا ممکن نہیں۔ مذہب و عقیدت کو سائنس کیساتھ جوڑا نہیں جا سکتا۔
 
یہی تو المیہ ہے۔ مذہبیوں کو نظریہ ارتقا پر قائل ہونے کی ضرورت نہیں جبکہ سائنسدانوں کو نظریہ ارتقا پڑھے بغیر ماڈرن بیالوجی سمجھنا ممکن نہیں۔ مذہب و عقیدت کو سائنس کیساتھ جوڑا نہیں جا سکتا۔

سائنس دانوں کو مالیکیولر بیالوجی کے لیے نظریہ ارتقا کی ضرورت نہیں
 

آصف اثر

معطل
سب سے پہلے میں معذرت خواہ ہوں کہ اتنے لمبے عرصے کے بعد جواب دے رہاہوں۔ اُن دنوں ملازمت اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے انٹرنیٹ سے رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ محفل کے اکاؤنٹ کا پاس ورڈ بھی بھول چکا تھا لہذا بروقت جواب نہ دے سکا۔
محترم علیم احمد صاحب کےمتعلق میرے ذیل کے مراسلے
آج میں ایک بار پھر گلوبل سائنس کے مدیر محترم علیم احمد صاحب کو داد دیتا ہوں ۔جن کی تربیت اور طریقہ استدلال نے ہمیں پرویز ہود اور دیگر نام نہاد سائنسدانوں کا اصل چہرہ دیکھنے کے قابل بنایا۔
کے جواب میں آپ کا جوابی مراسلہ ملاحظہ کیا:
تاہم آپ علیم صاحب کو ضرور داد دیجئے کہ ان سے ملنے سے پہلے میں بھی ہارون یحییٰ صاحب کو درست سمجھتا تھا اور نظریہ ارتقاء کو ایک دھوکہ اور فریب ۔ تاہم جب دسمبر ٢٠١٤ میں علیم صاحب سے ملاقات گوبل سائنس کے دفتر میں ہوئی تو میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ جناب آپ نے ہارون یحییٰ کی صرف ایک ہی کتاب کا ترجمہ کیا تھا اور وہ زبردست ہٹ ہوئی تھی ۔ اس کے بعد آپ نے ان کی دوسری کتابوں کا ترجمہ کیوں نہیں کیا۔ ان کا جواب تھا کہ ان کے ادارے کا ہارون یحییٰ کے ساتھ تین مزید کتب کے اردو ترجمے کا معاہدہ ہوگیا تھا تاہم ان کی ملاقات کسی صاحب سے ہوئی (معذرت کہ ان صاحب کا نام مجھے یاد نہیں) جنہوں نے ان کے دماغ سے کریشنسٹ کا خبط نکالا ۔ لہٰذا کیونکہ وہ اب ہارون یحییٰ کو (جو کہ ان کی دانست میں کریشنسٹ ہیں) درست نہیں سمجھتے تھے لہٰذا ان کی مزید کتب کا ترجمہ نہیں کیا۔
اس وقت میں نے ان سے حیرت سے پوچھا تھا "کیا آپ بھی ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں؟" ۔ ان کے جواب کا خلاصہ کچھ یوں تھا ۔ بگ بینگ سے لے کر اب تک کائنات میں ارتقائی عمل جاری و ساری ہے ۔ ہائیڈروجن ہیلیم میں ہیلیئم کاربن میں بدلی جارہی ہے ۔ لہٰذا ارتقاء کا مشاہدہ جب ہم روز مرہ کائنات میں کرتے ہیں تو اس سے انکار کی گنجائش نہیں بچتی۔
تو جناب یہ ہیں آپ کے استاد محترم جن کے طفیل سے میں نے بھی نظریہ ارتقاء کو سمجھنا شروع کیا ورنہ میں بھی اس سے پہلے ہارون یحییٰ کو درست اور نظریہ ارتقاء کو غلط سمجھتا تھا ۔
میں یہ جواب محض غلط فہمی کے ازالہ کے طور پر لکھ رہاہوں۔
استادِ محترم کے حوالے سے آپ نے جس واقعے کا ذکر کیا ہے یہی سب کچھ میں بھی دیکھتارہا۔ ان کا یہی زاویۂ فکر ہی تو تھا جس کا میں نے تعریفاً ذکر کیا تھا۔ کیا استدلال اور فیصلہ سازی کا اس سے بہتر اور کوئی طریقہ ہوسکتاہے کہ کوئی دلیل کی بنیاد پر اپنے سوچ میں تبدیلی پیدا کرے؟ اگر انہوں نے (مذکورہ شخصیت ) کے دلائل سے متاثر ہوکر اتنا بڑا قدم اُٹھایا تو کیا یہ متاثر کن نہیں۔۔!وگرنہ یہاں تو جسے سائنس کے الف بے کا علم نہیں وہ ڈاروِن کا دم پکڑے جھولے جھول رہے ہیں۔اور کسی کے لیے اسلام کے خلاف مذکورہ نظریۂ ارتقاء سے اچھا ہتھیار کوئی اور نہیں۔ اسی طرح کے افراد کا کافی عرصے سے سامنا کرنے کے بعد میرا یہ ردعمل کچھ غیر فطری نہیں تھا۔ لیکن آپ کے مخلصانہ وضاحت کے بعد میں اپنے اس ردعمل سے رجوع کرنے میں خوشی محسوس کرتاہوں۔البتہ اب بھی اپنے اس مؤقف پر قائم ہوں کہ جب تک ہم (انسانی) نظریۂ ارتقاء کو سوفیصد(جی ہاں سو فیصد)سمجھ نہ پائے اس کا پرچار نہ کریں۔ بصورتِ دیگر خداکے منکرین میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملے گا۔جس کی وجہ میں نے اوپر بیان کردی ہے۔
علیم احمد صاحب کے حوالے سے یہ بات ضرور ہے کہ مجھے ان کے اس فیصلے پر (کہ انسانی ارتقاء ڈاروِنی نظریے کی بنیادپر ہوا)حیرت اور کچھ تحفظات ہیں ۔کئی سالوں کے وقفے کے بعد ان سے عن قریب ملاقات طے ہوئی ہے جس میں ان کے مذکورہ فیصلے پر تبادلۂ خیال کرکے ان کے نقظۂ نظر کو جاننے کی کوشش کروں گا۔
والسلام۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
اگر انہوں نے (مذکورہ شخصیت ) کے دلائل سے متاثر ہوکر اتنا بڑا قدم اُٹھایا تو کیا یہ متاثر کن نہیں۔
بالکل ہے۔ دیکھیں بھائی میرا تو بیک گراؤنڈ ویسے ہی کامرس کا ہے۔ سائنس سے متعلق جو بھی دلچسی پیدا ہوئی وہ کارل ساگاں کی کوسموس سے ہوئی۔ اور باقی سائنس ڈائجسٹ اور گلوبل سائنس نے ہی دماغ کو کچھ کشادگی بخشی اور ان دونوں رسالوں (سائنس ڈائجسٹ کے بطور مدیر یا شاید نائب مدیر) کی روح رواں جناب علیم صاحب ہی تھے۔
میں اپنے اس ردعمل سے رجوع کرنے میں خوشی محسوس کرتاہوں
بہت اچھی بات ہے۔ کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔
ان کے مذکورہ فیصلے پر تبادلۂ خیال کرکے ان کے نقظۂ نظر کو جاننے کی کوشش کروں گا۔
امید ہے کہ جب آپ کی ملاقات ہوجائے گی تو آپ ہمیں بھی اس حوالے سے اس ملاقات میں جو باتیں ہوں گی آگاہ کریں گے۔
 

arifkarim

معطل
دن کے بغیر رات، موت کے بغیر زندگی، کالے کے بغیر سفید بنانا، کس بھی قادر مطلق کے لئے ممکن نہیں۔ لہذا یہ بحث بے کار ہے۔ اس کے معانی کسی کائنات کے سپریم آرکیٹیکٹ کی موجودگی سے انکار نہیں
اس پر پوپ کا تبصرہ: خدا جادو کی چھڑی والا جادوگر نہیں ہے
 

arifkarim

معطل
برسبیلِ تذکرہ! آپ ”خدا“ کے سوال کو ”مذہبیات“ کے پلڑے میں ڈال کر جان چھڑا نہیں سکتے کیوں کہ اسٹیفن ہاکنگ، آئن اسٹائن سمیت کئی سائنسی شخصیات ”خدا“ کے وجود پر (جداگانہ) بحث کرچکے ہیں۔
آئن اسٹائن کے ماں باپ یہودی تھے لیکن وہ خود دہریہ تھا۔ یہی حال اسٹیفن ہاکنگ کا ہے۔ سائنسدان خدا کے وجود پر مذہبی نہیں سائنسی بحث کرتے ہیں جیسے کچھ سال قبل اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ کائنات کے وجود میں آنے کیلئے کسی خدا کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ بات سائنس کا ایک مبتدی بھی جانتا ہے کہ کوئی بھی شے کسی بھی صورت میں بغیر کسی قوت کے حرکت پذیر نہیں ہوسکتا (نیوٹن کا پہلا قانون )۔اگر ہم کہیں کہ ابتدائی زندگی ”قدرتی طورپر“ وجود میں آئی تو سوال یہ ہے کہ ان مالیکیولز کو کس نے ”پُش“ کیا؟ اس کی مزید وضاحت ذیل میں آرہی ہے۔
وہی جواب جو اوپر دیا ہے۔ پش قوانین قدرت نے دیا تھا۔ اور ان سب میں سب سے اہم کشش ثقل ہے۔

مادے کی بنیاد(جدیدترین مشاہدات و تجربات کی روشنی میں )اساسی ذرات پر قائم ہے (جن میں کوارکس اور لیپٹان شامل ہیں ) ۔ جو کہ کسی بھی طرح ازخود وجود میں نہیں آسکتے ۔ ہم شاید یہ ”کہہ“ سکے کہ ان کی بنیاد بھی مزید ذیلی ذرات پر ہے(آپ ”بنیادی ترین“ ذرات کی اساس توانائی تک بھی لے کر جاسکتے ہیں)لیکن چوں کہ آخر کار ہمیں کسی جگہ رکنا ہوگا(آپ یہاں بِگ بینگ سے پہلے کے نقطے کو تصورکرسکتے ہیں)۔لہذا وہی وہ مقام ہوگا جہاں ہمیں خالق کے وجود کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی ”خالق“ نے اس نقطے کو وجود دینے کے لیے وہ ”ابتدائی قوت“ مہیا کی جو( بِگ بینگ نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے) اُس وقت سے لے کر اب اور آنے والے وقت تک ظہور پذیر ہونے والے تمام قوتوں اور ان قوتوں کے نتیجہ میں بننے والی توانائی اور مادےکے مختلف اقسام کا مبدا بنی(جن میں کائنات کا ہر شے شامل ہیں)۔یعنی جس طرح ہم ریڈ شفٹ کی مددسے خود کو جب13 ارب سال پہلے لے جاتے ہیں تو ایک نقطے پر رُک جاتےہیں اسی طرح تمام مادے کے وجود اور حرکت کے پیچھے بھی ”ایک “ہی قوت کارفرماہوئی۔
کائنات کو وجود دینے کیلئے قوانین قدرت کافی ہیں۔ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں خدا کو فٹ ضرور کرنا ہے جبکہ بگ بینگ سے قبل کیا تھا کی کئی سائنسی وضاحتیں بغیر کسی خدائی تصور کے پیش کی جا سکتی ہیں۔

لیکن آخر ”خدا“ کے وجود اور اس کے انکار کا نظریہ کیوں اتنا اہم ہے؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ آپ خدا کے وجود کا انکار کردیں ، روحانیت، فرشتوں، انبیاء اور آسمانی کتابوں اور مذاہب سے آپ بری ہوگیے۔ آپ خدا کے وجود کا اقرار کریں ، تو لامحالہ یہ سب آپ کو ماننا پڑیں گے۔جب کہ نظریۂ ارتقاء (خصوصاً انسانوں او ر بندروں کے ایک جد امجد ) کی بحث کا خدا کے وجود سے بہت گہرا تعلق ہے۔
سائنسدان خدا کے وجود کا انکار نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ اگر خدا کا وجود ہے تو وہ قدرتی مظاہر میں خود ہی سامنے آجائے گا جیسا کہ باقی کچھ آیا ہے۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
ہر وہ علم جو انسان کو مذہب سے بیزار کردے یا بیزار ہونے پر آمادہ کردے علم نہیں جہالت ہے۔ علم وہ ہے جو انسان کو خدا تک لے جائے نہ کہ خدا سے بلکہ خدا کے تصور سے بھی دور لے جائے۔
نظریہ ارتقا میں مذہب سے بیزاری والی کیا بات ہے؟

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کو جدید علوم یا عصری تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ علم ضرور پڑھیں بس اس کے اثرات سے بچنے کی کوشش بھی کریں۔ علم اس لیے پڑھیں کہ آپ دنیا میں دوسری اقوام کا مقابلہ کرسکیں اس میدان میں اور غلط باتوں کی طرف نشاندہی کر کے درست سمت کو تعین کر سکیں۔ اثرات سے محفوظ رہنا اس لیے ضروری ہے کہ اکثر جو لوگ عصری تعلیم کی طرف مکمل توجہ دیتے ہیں اور جن کا مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا ان کی عام طور پر انتہا مذہب سے بیزاری پر ہوتی ہے جسے دہریت بھی کہا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ یہ بیزاری دل میں بیٹھ جائے بس پھر مذہب کی ہر بات پر اعتراض شروع ہوجاتا ہے۔
یعنی اس خوف سے کہ سائنسی نظریات پڑھنے کے بعد لوگ مذہبی نظریات پر اعتراض کریں گے، دہریے ہو جائیں گے: مغربی سائنسی کی بجائے اسلامی سائنس پڑھیں۔ ماشاءاللہ کیا لاجک ہے!

جن لوگوں نے ساری زندگی دین اور اسلام کا علم حاصل کرنے میں کھپا دی وہ درست بات نہیں سمجھ سکے بلکہ یہ کل کے چھوکرے امریکہ اور انگلینڈ سے کافر استادوں سے جو اسلام سیکھ کر آئے ہیں وہ درست ہے۔
جن لوگوں نے ساری زندگی دین اور اسلام کا علم حاصل کیا، کیا انہوں نے ماڈرن بیالوجی کی تعلیم بھی حاصل کی جسکی بنیاد نظریہ ارتقا ہے؟

میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ دوہرا تعلیمی نظام ہے جس کی وجہ سے علیحدہ علیحدہ نظریات کے حامل انسان معاشرے میں موجود ہیں۔ ایک کے نزدیک مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے بنیاد پرست، جاہل اور شدت پسند ہیں، معاشرے پر بوجھ ہیں۔ دوسرے کے نزدیک کالج، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے سارے کفر اور الحاد کا شکار ہے یا کم از کم فاسق اور فاجر تو ہیں ہی۔ یہ دونوں رویے انتہائی خطرناک ہیں۔
اللہ تبارک تعالی نے ہر انسان میں الگ الگ صلاحیتیں رکھی ہیں اور پھر حالات و واقعات ہر انسان کے اکثر مختلف ہوتے ہیں۔ جن کی بنیاد پر انسان اپنا ایک مزاج بنا لیتا ہے جو عمومی طور پر ساری زندگی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جن لوگوں کو مذہبی اور جدید علوم دونوں سے اللہ تعالی نے نوازا ہے ان کو آگے آنا چاہیے اور ان دو انتہا پسند رویوں کو ختم کر کے آپس میں ہم آہنگی کا درس دینا چاہیے۔
یہ بہت زبردست بات ہے۔:lovestruck::lovestruck::lovestruck:
قومی دھارے میں لانے کیلئے مذہبی اور سیکولر نظام تعلیم کو ایک دوسرے کیخلاف جانے کی بجائے درمیانی راہ ڈھونڈنی ہوگی۔
 

arifkarim

معطل
علیم احمد صاحب کے حوالے سے یہ بات ضرور ہے کہ مجھے ان کے اس فیصلے پر (کہ انسانی ارتقاء ڈاروِنی نظریے کی بنیادپر ہوا)حیرت اور کچھ تحفظات ہیں ۔کئی سالوں کے وقفے کے بعد ان سے عن قریب ملاقات طے ہوئی ہے جس میں ان کے مذکورہ فیصلے پر تبادلۂ خیال کرکے ان کے نقظۂ نظر کو جاننے کی کوشش کروں گا۔
عوام کو تو گلوبل وارمنگ پر بھی تحفظات ہیں، تو جس نے سائنس کو نہیں ماننا اسنے نہیں ماننا۔ بھینس کے آگے بین بجانے کا کیا فائدہ۔
 

آصف اثر

معطل
آپ کا تاثر غلط ہے کہ سائنسدان خدا کو بالکل نہیں مانتے حالانکہ خدا کے ارتقا کو جھٹلانا ممکن نہیں:
مغربی فورموں سے اس طرح کے تضحیک آمیز پوسٹرز آپ کو یہاں پیسٹ نہیں کرنی چاہیے۔ کیوں کہ ہمارا خدا پر یقین اس طرح نہیں جس طرح یورپ کے مشینی بچوں کو اسکولوں اور کالجوں میں باطل ادیان کے تصورات ذہین نشین کراکر مذہب بیگانہ کیاجاتاہے۔جب کہ اس کا کیپشن بھی انتہائی گستاخانہ ہے کہ یہ تصور تو ماضی حال کے جاہلانہ تہذیبوں کا عکاس ہے نہ کہ خدا کا ارتقا۔ لہذا میرے مراسلہ کا یہ جواب بذاتِ خود مضحکہ خیز ہے۔ آپ بحث میں سنجیدہ رہے ہیں لیکن میں کہتاکچھ ہوں آپ جواب کچھ دیتے ہیں۔ جس سے طبیعت میں کدورت پیدا ہوگئی ہے۔مخاطب کے مافی الضمیر کو سمجھنے کی صلاحیت سے آپ ابھی تک عاری ہیں۔ جس پر میں دوسری بار یہ ارادہ کرچکاہوں کہ آپ کے ساتھ یہ بحث یہی پر موقوف کردوں۔
کوشش کروں گا طبیعت کی بحالی پر بحث آگے بڑھاؤں۔لیکن آپ کو سنجیدہ رہنا ہوگا تاکہ میرا وقت بھی ضائع ہونے سے بچ جائے اور کسی نتیجے پر بھی پہنچاجاسکے۔
 

arifkarim

معطل
جب کہ اس کا کیپشن بھی انتہائی گستاخانہ ہے کہ یہ تصور تو ماضی حال کے جاہلانہ تہذیبوں کا عکاس ہے نہ کہ خدا کا ارتقا۔
ہر تہذیب کا خدا جدا ہے؛کیا مشرقی، کیا مغربی ہر تہذیب نے اپنے خدا بنا رکھے ہیں۔ ایسے ہی تہذیبوں کے ارتقا کیساتھ خدا کا ارتقا بھی ہوا۔ اوپر فاروق سرور خان نے بھی اسکی تائید کی ہے کہ موجود تہذیب کا خدا مال و دولت ہے۔
 

زیک

مسافر
ہر تہذیب کا خدا جدا ہے؛کیا مشرقی، کیا مغربی ہر تہذیب نے اپنے خدا بنا رکھے ہیں۔ ایسے ہی تہذیبوں کے ارتقا کیساتھ خدا کا ارتقا بھی ہوا۔ اوپر فاروق سرور خان نے بھی اسکی تائید کی ہے کہ موجود تہذیب کا خدا مال و دولت ہے۔
نئی سیریز امریکن گاڈز دیکھنے کا ارادہ ہے؟
 
ہم بسا اوقات یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سب انسانوں کے بنائے ہوئے مذاہب کے کسی نا کسی ورژن کا شکار ہیں۔ لیکن دوسری طٓرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سنہری اصول کیا ہیں ۔ پھر بھی بچپن کے لگائے گئے انجکشنز، ہمارے خیالات ، نظریات اور عقیدوں پر نظر انداز ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے خیالات کو منجمد ہونے سے بچائیں اور سنے سنائے عقیدوں کی جگہ خود سے ریسرچ کریں۔

انسان کا ڈیزائین کسی بھی دوسرے جاندار کی طرح ہی ہے۔ مذہبی نکتہ نظر سے بھی اور اس کے بغیر بھی یہ صاف نظر آتا ہے کہ انسانوں میں ہی لوگ ارتقاء کے مختلف مراحل میں ہیں۔ بہت سے لوگ، و کچھ سوچ ہی نہیں پاتے جو دوسرے لوگ زمانوں سے کرر ہے ہیں۔ بہت سے لوگ وہ کچھ سمجھ ہی نہیں پاتے جو دوسرے لوگوں کے لئے سامنے کی بات ہے۔ لہذا سوچوں کو منجمد حالت میں رکھنا، اور غیر منطقی باتوں پر یقین کرنا گویا علم کے حصول سے کنارہ کشی کے مترادف ہے۔ ایسی ذہنی خود کشی ، کسی طور زیب نہیں دیتی۔ سمجھدار انسان کی بات سننا ، اور کم از کم اس پر غور کرنا بہت ہی ضروری ہے ۔

مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ۔ کئی دوسری کتب سے بھی ارتقاء کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ چونکہ یہاں زیادہ تر مسلمان ہیں اور اللہ کے وجود پر یقین رکھتے ہیں تو یہ بہت ہی آسان ہے کہ ان سے پوچھا جائے کہ رب خلیہ سے انسان تک کے بارے میں کیا ٹائم لائین رکھتا ہے؟ کیا یہ خلیہ سے انسان تک کا ارتقاء صرف ماں کے پیٹ میں ہوا تھا یا پھر آزادانہ نیچر میں؟ اگر آزادانہ نیچر میں یہ سب کچھ ہوا تھا تو پھر کیا یہ خلئے سے انسان تک کا ارتقاء تھا؟
 

arifkarim

معطل
مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ۔ کئی دوسری کتب سے بھی ارتقاء کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ چونکہ یہاں زیادہ تر مسلمان ہیں اور اللہ کے وجود پر یقین رکھتے ہیں تو یہ بہت ہی آسان ہے کہ ان سے پوچھا جائے کہ رب خلیہ سے انسان تک کے بارے میں کیا ٹائم لائین رکھتا ہے؟ کیا یہ خلیہ سے انسان تک کا ارتقاء صرف ماں کے پیٹ میں ہوا تھا یا پھر آزادانہ نیچر میں؟ اگر آزادانہ نیچر میں یہ سب کچھ ہوا تھا تو پھر کیا یہ خلئے سے انسان تک کا ارتقاء تھا؟
یہی نہیں بلکہ ایک حقیر نطفے سے انسان تک کا ارتقا تو خود الہامی کتب کا حصہ ہے پھر بھی اڑے ہوئے ہیں کہ کوئی ارتقا نہیں ہوا، سب کچھ جادوئی چھڑی سے ہوا
 
Top