زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
ماوراءالنہری فارسی کی فرہنگ 'فرہنگِ تفسیریِِ زبانِ تاجیکی' میں بھی 'یخه' اور 'یقه' درج ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ مردُم تاجکستان اغلباً 'گریبان' ہی استعمال کرتے ہیں۔
فیس بُک پر تاجکستانیوں سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ جنوبی تاجکستان کے بعض گفتاری لہجوں میں 'یَقَن' استعمال ہوتا ہے، جبکہ ایک تاجکستانی نفر نے بتایا ہے کہ اُس کے لہجے میں 'یقه' نہیں بلکہ 'یاقه' استعمال کرتے ہیں۔ اِس کی بھی تصدیق ہو گئی کہ ایران کے برخلاف، تاجکستان میں 'گریبان' کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، اور اگر 'یقه' کہا جائے تو تمام تاجکستانی اِس کا معنی نہیں سمجھیں گے، لیکن 'گریبان' ہر تاجکستانی کے لیے آشنا لفظ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جمله را چنانکه موبلای درزش نمیرفت سنجیدیم
مو لایِ درزِ چیزی نرفتن
'دَرْز' شگافِ باریک یا دراڑ کو کہتے ہیں، جبکہ عامیانہ لفظ 'لا' یہاں پر کسی چیز کے اندرونی حصے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا 'مو به لایِ درزش نمی‌رفت' کا لفظی ترجمہ 'اُس کی درز میں بال کا در آنا بھی ممکن نہ تھا' ہے۔ محاورتاً یہ عامیانہ ایرانی محاورہ کسی چیز کے بالکل دقیق و صحیح و منطقی و بے اعتراض ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یا بہ الفاظِ دیگر، اگر مردُم ایران کہنا چاہ رہے ہوں کہ کوئی چیز غلطی اور نَقص سے بالکل مبُرّا ہے تو اُس کے برائے وہ یہ محاورہ کام میں لاتے ہیں۔
یہ ایک عامیانہ گفتاری محاورہ تھا، لیکن اب ایرانی تحریروں میں بھی اِس کا استعمال نظر آتا ہے۔ ویسے بھی سید محمد علی جمال زادہ اپنی داستانوں میں گفتاری الفاظ، محاورے، تعبیرات اور ضرب الامثال استعمال کرنے کے لیے مشہور تھے۔ امّا، ایران کے بجز کسی فارسی گو ملک میں یہ محاورہ رائج نہیں ہے۔

"جمله را چنانکه مو به لای درزش نمی‌رفت سنجیدیم"
یہاں گویندہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے جملہ چیزوں کو بہت دقّت و توجہ و باریک بینی کے ساتھ وزن کیا ہے۔

ایک جا پر نظر آیا ہے کہ غزنوی دور کے تاریخ نویس ابوالفضل بیہقی (م ۱۰۷۷ء) نے اپنی کتاب 'تاریخِ بیہقی' میں اِس سے مماثلت رکھنے والا ایک محاورہ 'مو در کارِ کسی نخزیدن' (کسی کے کام میں بال نہ رینگنا) استعمال کیا ہے:
"وز بومنصور مستوفی شنودم، و او آن ثقه و امین بود که موی در کار او نتوانستی خزید..."
یعنی ابومنصور مستوفی کے ثِقہ و امین و راست گو ہونے میں کوئی حَرف نہیں تھا۔
مُو لایِ درزِ چیزی نرفتن: (گفتگو) درست و بی‌عیب بودنِ ‌آن، بدونِ اشتباه بودنِ آن؛ دقیق بودنِ آن؛ آ‌ن‌قدر دقیق و منظم است که مو لای درزِ کارهایش نمی‌رود.
[فرهنگِ روزِ سخن، صفحه ۱۱۹۴]

لفظی ترجمہ:
مُو لایِ درزِ چیزی نرفتن: (گفتاری) کسی چیز کا درست و بے عیب ہونا، کسی چیز کا بے غلطی ہونا، کسی چیز کا دقیق و بے کم و کاست ہونا؛ "وہ اِس قدر دقیق و منظّم ہے کہ اُس کے کاموں کی دَرْز کے درمیان بال نہیں جاتا۔"


بس ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ ایرانی گفتاری محاورہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فیس بُک پر تاجکستانیوں سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ جنوبی تاجکستان کے بعض گفتاری لہجوں میں 'یَقَن' استعمال ہوتا ہے، جبکہ ایک تاجکستانی نفر نے بتایا ہے کہ اُس کے لہجے میں 'یقه' نہیں بلکہ 'یاقه' استعمال کرتے ہیں۔ اِس کی بھی تصدیق ہو گئی کہ ایران کے برخلاف، تاجکستان میں 'گریبان' کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، اور اگر 'یقه' کہا جائے تو تمام تاجکستانی اِس کا معنی نہیں سمجھیں گے، لیکن 'گریبان' ہر تاجکستانی کے لیے آشنا لفظ ہے۔
ایک تاجکستانی شخص نے کہا ہے کہ وہ تاجکستان میں کسی کو نہیں جانتا جو 'یقه' یا 'گریبان' بولتا ہو، سب 'یاقه' کہتے ہیں (جو ضمناً اُزبکی تُرکی میں بھی رائج ہے)، امّا 'گریبان' کو، جو اُس کے نزدیک کتابی لفظ ہے، تمام تاجکستانی سمجھتے ہیں لیکن اُس کو استعمال کرنے والے کم ہیں۔ اُس نے مزید کہا کہ اگر مَیں سوال میں یہ نہ لکھتا کہ 'یقه' کا معنی گریبان ہے تو شاید وہ نہیں سمجھ پاتا کہ میں کس چیز کی بات کر رہا ہوں، کیونکہ وہ 'یقه' نہیں، بلکہ 'یاقه' استعمال کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایک تاجکستانی شخص نے کہا ہے کہ وہ تاجکستان میں کسی کو نہیں جانتا جو 'یقه' یا 'گریبان' بولتا ہو، سب 'یاقه' کہتے ہیں (جو ضمناً اُزبکی تُرکی میں بھی رائج ہے)، امّا 'گریبان' کو، جو اُس کے نزدیک کتابی لفظ ہے، تمام تاجکستانی سمجھتے ہیں لیکن اُس کو استعمال کرنے والے کم ہیں۔ اُس نے مزید کہا کہ اگر مَیں سوال میں یہ نہ لکھتا کہ 'یقه' کا معنی گریبان ہے تو شاید وہ نہیں سمجھ پاتا کہ میں کس چیز کی بات کر رہا ہوں، کیونکہ وہ 'یقه' نہیں، بلکہ 'یاقه' استعمال کرتے ہیں۔
شمالی تاجکستان کے شہر 'کانِ بادام' سے تعلق رکھنے والے ایک تاجکستانی نے کہا کہ وہاں ہر کوئی 'گریبان' کہتا ہے اور اُس نے 'یخه/یقه/یقا/یاقا' کو یکُم بار سنا ہے۔ اُس کی تائید میں ایک دو دیگر شمالی تاجکستانیوں نے بھی یہی کہا کہ اُنہوں نے کبھی 'یقه' یا 'یاقه' نہیں سنا ہے۔
ایک تاجکستانی نے کہا کہ اُن کے خانے (گھر) میں 'یقا' استعمال ہوتا ہے۔
ایک شخصِ دیگر نے بتایا کہ یہ لفظ 'یقن، یاقه اور یخن' کی شکلوں میں تاجکستانی گُوئِشوں (بولیوں) میں موجود ہے۔
ایک شخص نے بتایا کہ تاجکستان میں 'کَشْتَل' نیز کہتے ہیں، جو اِسی 'یاقه/یخن' کا مترادف ہے۔ 'فرہنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی' میں بھی یہ کلمہ 'علاقائی لفظ' کے طور پر درج ہے۔
شمالی تاجکستان میں ازبکستان کی سرحد کے پاس واقع شہر ظفرآباد کے ایک شخص نے بتایا کہ اُس کے علاقے میں 'یاقه' بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن اُس کے لہجے میں اکثراً گِریوُون، گِریبُون یا گِریبان کہتے ہیں۔
ازبکستان ہی کی سرحد کے ساتھ واقع شہر 'مست‌چاه' کے باشندے نے بتایا کہ وہاں کبھی بھی 'یاقه' یا 'یقه' نہیں کہتے، بلکہ 'گِریبُون' یا گاہے 'کَشتَل' کہتے ہیں۔
اکثر افراد کی رائے یہ تھی کہ وہ 'گریبان' کے استعمال کو بہتر سمجھتے ہیں۔
بہ علاوہ، فارسی ویکی پیدیا کے توسط سے معلوم ہوا ہے کہ افغان فارسی میں 'یخن' رائج ہے۔

یعنی، اِن سب جوابوں سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ ترکی لفظ اور اُس کی مختلف شکلیں شمالی تاجکستان کی نسبت جنوبی تاجکستان میں زیادہ رائج ہیں، اور شمالی تاجکستان میں مردُم معمولاً گریبان ہی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کئی تاجکسانی مردُم زبانِ فارسی میں مستعمَل اِس تُرکی لفظ کا معنی بھی سمجھ جائیں گے۔
نیز، یہ بھی قابلِ غور چیز ہے کہ ہر فارسی گو ملک میں فارسی کے کئی لہجے اور زبانچے ہیں، اور ہر زبانچے میں استعمال ہونے والے الفاظ، محاورات اور دستوری قواعد دوسرے زبانچے سے مختلف ہیں، لہٰذا ایسے سوالوں کے جوابات متنوع ہی ہوتے ہیں اور ہر کَس اپنے اپنے علاقائی لہجے یا اپنی شخصی پسند و ناپسند کے لحاظ سے جواب دیتا ہے۔
فارسی کے اِن طرز طرز کے اور یک دیگر سے بالکل مختلف لہجے بولنے والنے افراد کو معیاری فارسی متحد کرتی ہے جو ہر جگہ یگانہ ہی ہے۔ معیاری ادبی فارسی ہی فارسی گو دنیا کے لسانی اتّحاد کی ضامن ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شمالی تاجکستان کے شہر 'کانِ بادام' سے تعلق رکھنے والے ایک تاجکستانی نے کہا کہ وہاں ہر کوئی 'گریبان' کہتا ہے اور اُس نے 'یخه/یقه/یقا/یاقا' کو یکُم بار سنا ہے۔ اُس کی تائید میں ایک دو دیگر شمالی تاجکستانیوں نے بھی یہی کہا کہ اُنہوں نے کبھی 'یقه' یا 'یاقه' نہیں سنا ہے۔
ایک تاجکستانی نے کہا کہ اُن کے خانے (گھر) میں 'یقا' استعمال ہوتا ہے۔
ایک شخصِ دیگر نے بتایا کہ یہ لفظ 'یقن، یاقه اور یخن' کی شکلوں میں تاجکستانی گُویِشوں (بولیوں) میں موجود ہے۔
ایک شخص نے بتایا کہ تاجکستان میں 'کَشْتَل' نیز کہتے ہیں، جو اِسی 'یاقه/یخن' کا مترادف ہے۔ 'فرہنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی' میں بھی یہ کلمہ 'علاقائی لفظ' کے طور پر درج ہے۔
شمالی تاجکستان میں ازبکستان کی سرحد کے پاس واقع شہر ظفرآباد کے ایک شخص نے بتایا کہ اُس کے علاقے میں 'یاقه' بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن اُس کے لہجے میں اکثراً گِریوُون، گِریبُون یا گِریبان کہتے ہیں۔
ازبکستان ہی کی سرحد کے ساتھ واقع شہر 'مست‌چاه' کے باشندے نے بتایا کہ وہاں کبھی بھی 'یاقه' یا 'یقه' نہیں کہتے، بلکہ 'گِریبُون' یا گاہے 'کَشتَل' کہتے ہیں۔
اکثر افراد کی رائے یہ تھی کہ وہ 'گریبان' کے استعمال کو بہتر سمجھتے ہیں۔
بہ علاوہ، فارسی ویکی پیدیا کے توسط سے معلوم ہوا ہے کہ افغان فارسی میں 'یخن' رائج ہے۔

یعنی، اِن سب جوابوں سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ ترکی لفظ اور اُس کی مختلف شکلیں شمالی تاجکستان کی نسبت جنوبی تاجکستان میں زیادہ رائج ہیں، اور شمالی تاجکستان میں مردُم معمولاً گریبان ہی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کئی تاجکسانی مردُم زبانِ فارسی میں مستعمَل اِس تُرکی لفظ کا معنی بھی سمجھ جائیں گے۔
نیز، یہ بھی قابلِ غور چیز ہے کہ ہر فارسی گو ملک میں فارسی کے کئی لہجے اور زبانچے ہیں، اور ہر زبانچے میں استعمال ہونے والے الفاظ، محاورات اور دستوری قواعد دوسرے زبانچے سے مختلف ہیں، لہٰذا ایسے سوالوں کے جوابات متنوع ہی ہوتے ہیں اور ہر کَس اپنے اپنے علاقائی لہجے یا اپنی شخصی پسند و ناپسند کے لحاظ سے جواب دیتا ہے۔
فارسی کے اِن طرز طرز کے اور یک دیگر سے بالکل مختلف لہجے بولنے والنے افراد کو معیاری فارسی متحد کرتی ہے جو ہر جگہ یگانہ ہی ہے۔ معیاری ادبی فارسی ہی فارسی گو دنیا کے لسانی اتّحاد کی ضامن ہے۔
ایک تاجکستانی شخص نے آگاہ کیا ہے کہ شہرِ پنجَکنت میں گریبان کے لیے 'یخک' استعمال ہوتا ہے۔
اِس سے ظاہر ہوا کہ معمولی چیزوں کے لیے بھی فارسی کے گفتاری زبانچوں میں ایک دوسرے سے مختلف الفاظ رائج ہیں۔ اور یہ سارے جوابات اُن افراد نے دیے ہیں جو تاجکستان ہی کی حدود میں رہتے ہیں۔ ملکی سرحدوں سے بیرون تو یہ زبانچے مزید مختلف ہو جاتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
صبا از شرم نتواند به روی گل نگه كردن
كه رخت غنچه را واكرد و نتوانست ته كردن
اس شعر کا کیا ترجمہ ہوگا؟
صبا شرم سے گُل کے چہرے کی جانب نگاہ نہیں کر سکتی، کیونکہ اُس نے غنچے کا لباس کھول دیا اور پھر وہ تہہ نہ کر سکی۔
تواند کردن اور توانست کردن کا لفظی ترجمہ کیا ہوگا؟ انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
تواند کردن = تواند کرد = وہ کر سکے، وہ کر سکتا ہے
توانست کردن = توانست کرد = وہ کر سکا

معاصر معیاری فارسی میں 'توانَد' اور 'توانِست' کے بعد عموماً مصدرِ تامّ یا مصدرِ مُرخّم کی بجائے فعل کی حالتِ شرطی یعنی 'بِکُنَد/کُنَد' وغیرہ استعمال ہوتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آج مجھے ایرانی اخبار میں ایک خبر نظر آئی جس کو خوان کر یقیناً آپ کا دل بھی خوش ہو گا۔
ایران کی ایک گاڑی ساز شرکت (کمپنی) 'سایپا' حال ہی میں ایک نئی گاڑی بازار میں لائی ہے جس کو اُس نے 'کوئیک' کے نام سے موسوم کیا ہے۔ درحالیکہ ایران کی ملّی مجلسِ شورا (پارلیمان) ۱۳۷۵هش/۱۹۹۶ء میں ایک قانون مصوّب کر چکی ہے جس کے تحت 'بیگانہ نام، عنوانات، اور اصطلاحات' ممنوع قرار دے دی گئی تھیں۔ اِسی لیے فرہنگستانِ زبان و ادبِ فارسی کے رئیس غلام‌علی حدّاد عادل نے ایران کے وزیرِ ثقافت سیّد رضا صالحی امیری کے نام مکتوب لکھ کر اُس قانون کی خلاف ورزی کی جانب توجہ دلائی اور اِس 'بیگانہ' نام کو تبدیل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اُنہوں نے مکتوب میں یہ بھی یاد دلایا ہے کہ پژو (Peugeot) شرکت نے بھی کچھ زمانے قبل 'پژو پرشیا' کے نام سے گاڑی نکالی تھی جس کا نام بعد میں فرہنگستانِ زبان و ادبِ فارسی کی درخواست پر 'پژو پارس' سے تبدیل کرا دیا گیا تھا۔ اُنہوں نے تقاضا کیا ہے کہ اِس مورد میں بھی جلد از جلد اقدامِ لازم ہونا چاہیے تاکہ اِس 'بیگانہ' نام سے استفادہ دیگر شرکتوں کے غیر فارسی نام استعمال کرنے کا اجازت نامہ نہ بن جائے۔
خبر کا ماخذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گفتم به لطافت گُلی ای سروِ قباپوش
یا نَی‌شَکَری در کمری؟ گفت که هر دو
میں نے کہا: اے سروِ قباپوش! تم لطافت میں گُل ہو یا میانۂ کوہ میں [اُگنے والے] کوئی نَیشَکَر ہو؟ اُس نے کہا کہ: دونوں۔
مجھے چند روز قبل اِس فارسی بیت کا ترجمہ کرنے کے دوران یہ معلوم ہوا تھا کہ لفظِ 'کمر' کا ایک معنی میانہ و وسطِ کوہ یا کوہ کا درمیانی و وسطی حصہ بھی ہے۔ اِس معنی میں یہ لفظ میں نے مندرجۂ بالا بیت میں یکُم بار دیکھا تھا۔ امروز اتفاقاً مذکورہ لفظ کا یہ استعمال علّامہ اقبال کی ایک اردو بیت میں بھی نظر آیا:
"خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی، میں شعلۂ سینائی!"
بعد ازا‌ں، گُوگل کے توسط سے معلوم ہوا ہے کہ اردو میں یہ لفظ اِس معنی میں کئی بار استعمال ہو چکا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
افغانستان اور زبانِ فارسی
پاکستان میں کئی افراد کا گمان یہ ہے کہ گویا افغانستان ایک مکمل طور پر پشتون ملک ہے یا یہ کہ وہاں صرف پشتو بولی جاتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان ایک کثیر نژادی اور کثیر لسانی ملک ہے اور ملکی آئین بھی اِس چیز کو تسلیم کرتا ہے۔ افغانستان کا قانونیِ اساسی کہتا ہے:
"ملتِ افغانستان اِن نژادی گروہوں پر مشتمل ہے: پشتون، تاجیک، ہزارہ، اُزبک، ترکمن، بلوچ، پشئی، نورستانی، ایماق، عرب، قرغیز، قزلباش، گوجر، براہوی و دیگران۔"
اکثر افراد اِس سے بھی لاعلم ہیں کہ افغانستان میں نہ صرف زبانِ فارسی بولی اور سمجھی جاتی ہے، بلکہ وہ ملک میں سرکاری زبان کے طور پر بھی رائج ہے۔ افغانستان کے قانونِ اساسی کے مطابق پشتو اور فارسی دونوں ہی کُل ملک کی سرکاری زبانیں ہیں:
"پشتو، دری، ازبکی، ترکمنی، بلوچی، پشئی، نورستانی، پامیری اور ملک میں رائج دیگر زبانوں میں سے پشتو اور دری [فارسی] ریاست کی رسمی زبانیں ہیں۔
جن منطقوں میں مردُم کی اکثریت ازبکی، ترکمنی، پشئی، نورستانی، بلوچی یا پامیری میں تکلم کرتی ہے، وہاں پشتو اور دری کے علاوہ وہ زبان تیسری رسمی زبان ہے۔"


افغانستان کی سرزمین پر سرکاری و رسمی زبان کے طور پر فارسی کا استعمال غزنوی دور سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔

جہاں تک افغانستان کے مختلف نژادی گروہوں اور فارسی گویوں کے تناسب کی بات ہے، تو مجھے وارسا، لہستان (پولینڈ) میں موجود افغان سفارت خانے کی ویب گاہ پر یہ لکھا نظر آیا:
"سی آئی اے کے اطلاعات نامۂ جہان کے مطابق افغانستان میں نژادی گروہوں کا تناسب تقریباً یہ ہے:
پشتون ۴۲٪، تاجیک ۲۷٪، ہزارہ ۹٪، ازُبک ۹٪، ایماق ۴٪، ترکمن ۳٪، بلوچ ۲٪، دیگر ۴٪"

"ہِرات اور فراہ کے شہری علاقوں میں ایک بڑی تاجک آبادی موجود ہے۔ یہ حنفی سنی مسلمان قوم دری زبان بولتی ہے (جو ۵۰% سے زیادہ افغانوں میں بولی جاتی ہے) اور اِس قوم نے مرورِ زمانہ کے ساتھ تُرک ثقافتی عناصر اپنا لیے ہیں۔"
ماخذ

یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں صرف تاجک ہی فارسی نہیں بولتے، بلکہ ہزاراؤں، ایماقوں، قزلباشوں اور افغان عربوں کی زبان بھی فارسی ہے۔ نیز، کابل اور ہِرات جیسے شہروں میں کئی خانوادے ایسے موجود ہیں جو نسلاً تو پشتون ہیں، لیکن اُن میں گفتاری زبان کے طور پر فارسی مستعمَل ہے۔ افغاستان کا سابق شاہی خاندان محمدزائی اِس کی سب سے خوب مثال ہے۔
بہ علاوہ، مختلف زبانیں بولنے والے افغانوں کے درمیان ارتباط کے لیے فارسی کا استعمال ہوتا ہے، لہٰذا تقریباً ہر افغان شخص فارسی سمجھ سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں جب کسی کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے تو وہ جواب میں 'خواهش می‌کنم' (لفظی ترجمہ: میں خواہش کرتا ہوں) کہتا ہے۔ ویسے ہی جیسے انگریزی میں اِس مقصد کے برائے 'یو آر ویلکم' استعمال ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عیدِ گوسپَندکُشان، عیدِ روزه گُشادن
یہ چیز علم میں آئی ہے کہ فارسیِ دری کی ابتدائی صدیوں میں عیدِ قربان کے برائے 'گوسپَندکُشان' رائج تھا جو بعد میں متروک ہو گیا۔

مثال کے طور پر قرنِ پنجمِ ہجری کے شاعر قطران تبریزی کے ایک قصیدے کا یہ مصرع دیکھیے:
"خجسته باد تو را عیدِ گوسپندکشان"

نیز، ۴۴۰ھ میں وفات پانے والے عالم ابوریحان البیرونی اپنی 'کتاب التفہیم لاوائل صناعۃ التنجیم' میں لکھتے ہیں:
"و دهم روز از ذی‌الحجّه عیدِ گوسپندکشان که حاجیان به منیٰ قربان کنند. و بدین روز و دو روز از پسِ وی روزه داشتن حرام است."
"اور ذی الحجّہ کا روزِ دہم 'عیدِ گوسپندکُشان' [ہے] کہ جس میں حُجّاج منیٰ میں قربانی کرتے ہیں۔ اور اِس روز اور اُس کے بعد کے دو روز میں روزہ رکھنا حرام ہے۔"

اِسی کتاب میں البیرونی نے عیدِ فطر کے برائے 'عیدِ روزه گشادن' یعنی 'روزہ کھولنے کی عید' کی اصطلاح استعمال کی ہے جو اب فارسی میں رائج نہیں ہے۔
"و نخستین روز از شوّال عیدِ روزه گشادن است."
"اور شوّال کا روزِ اوّلین 'عیدِ روزہ گشادن' ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"چھ سو سے زائد سالوں (۱۲۰۳ء تا ۱۸۳۷ء) تک فارسی بنگال کی سرکاری زبان رہی۔ اِس طویل مدت کے دوران فارسی میں ہزاروں کتابیں لکھی گئیں، اور صدہا شاعروں نے فارسی میں شاعری کی۔ اُن تخلیقات کے نسخے بنگال اور برِ صغیر کے مختلف کتاب خانوں میں کتابی یا خطّی شکل میں محفوظ ہیں۔ قرنِ ہجدہم کے وسط سے لے کر قرنِ نوزدہم کے اختتام تک، پانچ چھ فارسی روزنامے، از جملہ سلطان الخبار اور دوربین، باقاعدگی سے کلکتہ سے شائع ہوتے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فارسی خطّے کی ایک رائج و عمومی زبان تھی۔"
ماخذ: بنگلاپیڈیا
 

حسان خان

لائبریرین
"۱۲۰۳ء میں سلطانِ دہلی قطب الدین ایبک کے ایک عسکری فرماندِہ اختیارالدین محمد بختیار خَلَجی نے ندیا اور گوڑ کے علاقے فتح کر لیے۔ بعد ازاں، اُس نے تمام شمالی بنگال کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیا۔ بنگال میں مسلم اقتدار نے تاریخ کے پورے رُخ کو موڑ دیا۔ بنگال کی اکثر آبادی، خصوصاً مشرقی بنگال کی آبادی، نے اسلام قبول کر لیا۔ برہمنوں اور اُن کی سنسکرت زبان کی اہمیت بتدریج قلیل ہو گئی اور مسلم درباری زبان فارسی بااثر ترین زبان بن گئی۔"
ماخذ: بنگلاپیڈیا

× 'خَلَجی' حالیہ افغانستان میں مقیم ایک تُرک قبیلہ تھا۔
فارسی کے غیر مشروط عاشق کے طور پر میں خَلَجبوں کی فارسی گُستَر شمشیروں کو سلام کہتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"۱۸۸۲ء میں نواب عبداللطیف نے عربی و فارسی کی تعلیم کی معاشرتی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ہنٹر تعلیمی ہیئت (کمیشن) کے سامنے یہ اظہارِ نظر کیا تھا: 'جب تک کوئی مسلمان فارسی و عربی کا عالم نہ ہو، وہ مسلم معاشرے میں قابلِ احترام مقام حاصل نہیں کر سکتا، اور اُسے عالم نہیں مانا جائے گا۔ اور جب تک وہ اِس مقام پر فائز نہ ہو، وہ مسلم معاشرے میں کوئی اثر و رسوخ نہیں رکھ سکتا۔'"
ماخذ: بنگلاپیڈیا

× نواب عبداللطیف کا تعلق بنگال سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک ایرانی اخبار کے توسط سے معلوم ہوا ہے کہ ایرانی فارسی میں گاڑیوں کے 'گیئر' کے لیے فارسی اصطلاح 'دَنْدہ' رائج ہے۔
 
Top