یہ کتاب اولاد کو تحفے میں دو از اوریا مقبول جان

سوشل میڈیا پر جتنے بھی سیکولر پیجز سر گرم ہیں وہ صرف اسلام کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔
نہیں۔ آپ کی رسائی میں وہ پیجز ہوں گے جو صرف اسلام کو ہدف تنقید بناتے ہوں گے یا پھر یوں کہہ لیں کہ آپ سوشل میڈیا کے اس حصے تک نہیں پہنچ پائے جو دوسرے مذاہب کو ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں۔ لیکن محب علوی کی بات بالکل ٹھیک ہے کہ ۔۔۔
جس طرح تمام مذاہب کو سیکولر ایک ہی خانے میں فٹ کرکے اس پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اسی طرح مذاہب کی حمایت اور سیکولرازم کی مخالفت میں بھی یہی رویہ رکھا جاتا ہے
 

عثمان

محفلین
اوریا مقبول جان بھی ایک فکر کا نام ہے، وہ فکر جس کے ماننے والے بھی لاکھوں میں ہیں اور انکار کرنے والے بھی۔ میں صرف اس کے پرو طالبان ہونے کی وجہ سےاسے مداری یا فراڈیا نہیں سمجھ سکتا جو بقول آپ کے چکمہ دے جائے۔
اوریا مقبول جان ہی کیا۔۔ پاکستانی طالبان اور دیگر مذہبی دہشت گردوں کے حمایتیوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ورنہ وہ معاشرہ آج یہاں نہ ہوتا۔
مطالعہ کے لیے آپ کن ذخائر کا چناو کرتے ہیں۔ کن ذرائع اور کن باتوں کو آپ باوزن سمجھتے ہیں، شراکت کے لیے آپ کن تحاریر کا انتخاب کرتے ہیں یہ آپ کی فکر کی ڈگر واضح کرتی ہیں۔ یہی تحریر مثلا آصف اثر صاحب نے شئیر کی ہوتی تو مجھے نا کوئی حیرت تھی نا تبصرے کی کوئی حاجت۔
 

ابن عادل

محفلین
میرا خیال ہے موضوع گفتگو ” سیکولرازم ، مباحث اور مغالطے “ کتاب کو ہونا چاہیے ۔ اوریا مقبول جان صاحب کی شخصیت پر کلام ہوتا رہتا ہے ۔
میں نے اس کتاب کا کسی قدر مطالعہ کیا ہے ۔ باالاستیعاب مطالعہ تو نہیں کرپایا ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کتاب کے مندرجات کی تردید یا مصنف کے دلائل کا توڑ تاحال کوئی نہیں کرسکا ہے ۔ مصنف نے صرف مواد کی فراہمی میں ہی عرق ریزی نہیں دکھائی بلکہ اپنے مواد کی پیشکش میں بھی اعلیٰ ذوق کا مظاہرہ کیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ حامیان سیکولرازم اس کامطالعہ ضرور کریں ۔ خاص طور پر وہ کہ جو سیکولرازم کی بحث میں اس کی تعریف کے ابتدائی قدم پر ہی فریق مخالف کی ذہنی سطح کو لائق اعتنا نہ جانتے ہوئے بحث کو سمیٹ دیتے ہیں ۔ محترم طارق جان نے یہ علمی مواد پیش کرکے کم از کم پاکستان کی سطح تک تو سیکولر عناصر کے لیے علمی دنیا میں ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے ۔
 

آصف اثر

معطل
اوریا مقبول جان ہی کیا۔۔ پاکستانی طالبان اور دیگر مذہبی دہشت گردوں کے حمایتیوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ورنہ وہ معاشرہ آج یہاں نہ ہوتا۔
مطالعہ کے لیے آپ کن ذخائر کا چناو کرتے ہیں۔ کن ذرائع اور کن باتوں کو آپ باوزن سمجھتے ہیں، شراکت کے لیے آپ کن تحاریر کا انتخاب کرتے ہیں یہ آپ کی فکر کی ڈگر واضح کرتی ہیں۔ یہی تحریر مثلا آصف اثر صاحب نے شئیر کی ہوتی تو مجھے نا کوئی حیرت تھی نا تبصرے کی کوئی حاجت۔
آپ اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے جوابِ کتاب تحریر کریں یا کسی ہم پلہ کتاب کی تجویز دیں۔ کسی کو نشانہ بنانے کے بجائے دلائل سے اس کے نظریے کا رد کرنا سیکھیے۔
 
Top