یہ کتاب اولاد کو تحفے میں دو از اوریا مقبول جان

الحاد یعنی اس خالق کائنات کے وجود کا انکار تاریخ میں ہمیشہ ان متکبر، مطلق العنان اور ظالم بادشاہوں نے کیا ہے جو اپنی طاقت کے نشے میں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ اس دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ فرعون اور نمرود کی مثالیں جہاں قرآن پاک اور دیگر الہامی کتابوں میں ملتی ہیں، وہیں تاریخ کے صفحات اور آثار قدیمہ کی کھدائی سے جنم لینے والی حقیقتیں بھی ان بادشاہتوں کے اسرار سے پردہ اٹھاتی ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اللہ کا انکار صرف طاقتور کرتا تھا اور وہ بغیر کسی دلیل کے اس بات کا دعویٰ کرتا تھا۔ مثلاً فرعون کہتا تھا ’’میں سب سے بڑا پالنے والا ہوں‘‘ اس کے دماغ میں بھی یہ بات چھپی بیٹھی تھی کہ اگر میں یہ دعویٰ کروں تو کوئی نہیں مانے گا کہ میں اس کائنات کا خالق ہوں۔ اسی لیے اس نے خدائی دعویٰ بھی سوچ سمجھ کر کیا۔

حضرت موسیٰؑ کو اس کے مقابلے میں معجزے عطا کیے گئے۔ اسے سمجھانے کے لیے اس کی قوم پر طرح طرح کے عذاب نازل کیے گئے۔ وہ ہمیشہ حضرت موسیٰ سے یہ درخواست کرتا کہ اپنے اللہ سے درخواست کرو کہ وہ یہ عذاب ٹال دے۔ حضرت موسیٰ دعا کرتے اور عذاب ٹل جاتا۔ لیکن وہ پھر روزمرہ کاروبار حکومت و سیاست میں اپنے خدائی دعوے پر قائم رہتا اور اپنی مرضی اور طاقت سے حکومت کرتا۔ اس کا نظریہ یہ تھا کہ خالق کائنات اور اس کے عطا کردہ مذہب کو عبادت تک محدود ہونا چاہیے یا اگر کوئی آسمانی آفت اور بلا نازل ہوتی ہے تو اس سے نجات کی دعا کی جا سکتی ہے لیکن خبردار! کاروبار حکومت سے مذہب کو دور رہنا چاہیے۔

یہ صرف اور صرف فرعون کا اختیار ہے۔ اللہ جو اس کائنات کا مالک و خالق ہے، جو بارش برساتا ہے، عذاب ٹالتا ہے۔ اس کے عطا کردہ مذہب کو تمام حقوق حاصل ہیں لیکن صرف گھر میں چار دیواری اور عبادت گاہ کی حد تک لیکن حکومت میں اس کے احکامات نہیں چلیں گے۔

صدیاں گزر جانے کے باوجود اللہ کے وجود سے انکار اور مذہب کو کاروبار حکومت اور سیاست سے الگ کرنے کی فرعونی سوچ میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب فرعونی طاقت کی جگہ سائنسی تحقیق اور دلیل و منطق کی بھول بھلیوں نے لے لی ہے۔

سائنسی سچائی (Scientific Truth) ایک ایسا تصور ہے جسے آخری سچائی (Ultimate Truth) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اسے کورس کی کتابوں سے لے کر کاروبار زندگی میں ایک واضح دلیل کے طور پر بتایا جاتا ہے۔ لیکن چند سالوں کے بعد وہ سارے کا سارا جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتا ہے۔

گزشتہ ایک صدی کے دوران‘ سائنس دان یہ ثابت کرتے رہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک مادہ ’’ایتھر‘‘ ہے جس کی موجودگی سے یہ زمین محفوظ و مامون ہے۔ انھوں نے اس مادے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سورج سے زمین تک روشنی کی رفتار کا پیمانہ بنایا، حدت کو ناپنے کے اصول وضع کیے اور ان سب کو آخری سچائی کے طور پر مانتے رہے‘ لیکن اچانک ایک شخص آئن اسٹائن آیا اور اس نے کہا کہ تم سائنس کے نام پر اتنے سال لوگوں کو جھوٹ پڑھاتے رہے ہو، ایتھر کا تو کوئی وجود ہی نہیں۔ اس نے اپنی تھیوری ’’اضافیت‘‘ (Relativity) پیش کی۔

یہ آج تک ایک تھیوری ہے اور سائنس دان اس کے بتائے ہوئے اصولوں کو ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اکثر ثابت بھی ہوگئے لیکن اس ’’تھیوری‘‘ یعنی نظریہ کو سیکولرز نے پہلے دن ہی ایمان کی سطح پر قبول کرلیا۔ یہ ایسا ہر نئے لیکن نامکمل علم کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں۔ ڈارون نے ”Orign of Species” تحریر کی جس میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حیات کس طرح آہستہ آہستہ ایک چھوٹے سے جرثومے سے ترقی کرتی ہوئی انسان کے قالب میں ڈھلی ہے۔
بندروں کو انسانوں کا جد امجد ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر سے انسانی ڈھانچے کھدائی سے نکال کر اس کی ایک ترتیب بنانے کی کوشش کی گئی اور آخر ایک جگہ معاملہ پھنس گیا جسے ”Missing Link” یعنی گمشدہ کڑی کہا گیا‘ ایسا درمیانی واسطہ نہ مل سکا جو واضح طور پر انسان کو بندر کی اولاد ثابت کردے۔ یہ گمشدہ کڑی آج بھی زیر زمین دفن مردوں اور زمانے کے اثرات سے پتھر بنے ڈھانچوں (Fossils) میں ڈھونڈی جاری ہے لیکن سیکولرز کے ہاں اس تھیوری یعنی نظریہ بلکہ قیاس کو آج بھی ایمان کی سطح پر مانا جاتا ہے۔

جدید دور کا الحاد اسی طرح کے غیر حتمی سائنسی حقائق سے جنم لیتا ہے جن کو وہ آخری سچائی مان کر خدا کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ کے انکار کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے ایک سیاسی فکر ہے جسے سیکولرازم کہتے ہیں۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ مذہب کو عبادت گاہ اور گھر تک محدود ہونا چاہیے، یہ اجتماعی زندگی اور حکومتی و سیاسی معاملات سے دور رہے۔ آدمی خدا سے ڈرے، اس سے محبت کرے، اس سے دعا مانگے‘ گڑگڑائے، اس کے احکامات پر عمل کرے لیکن اپنے گھر کے اندر۔ باہر کی دنیا ہماری ہے۔ ہم بتائیں گے کہ مرد اور مرد یا عورت اورعورت آپس میں شادی کرسکتے ہیں۔

اکثریت کہہ دے کہ جھوٹ بولنا‘ غیبت کرناجائز ہے تو جمہوری طور پر یہ قانون کہلاتا ہے‘ بالکل ویسے ہی جیسے حضرت شعیبؑ کی قوم نے کم تولنا جائز کر لیا تھا۔ سیکولر ازم کا دعویٰ ہے کہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچے کو بھی قانونی طور پر حلالی کہیں۔ غرض جو قانون ہم چاہیں بنائیں، ہماری مرضی۔ دنیا کے چھ ارب انسانوں کو لوٹ کر دنیا کی 65 فیصد دولت صرف 50 افراد کے ہاتھوں میں کاروبار کے نام پر دیں۔ کسی اللہ، خدا، بھگوان کو مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔ غرض الحاد بنیادی طور پر ایک مذہب ہے جو خدا کے انکار سے جنم لیتا ہے اور اس مذہب کو زندگیوں، سیاست، حکومت اور معاشرے میں نافذ کرنے کا نام سیکولر ازم ہے۔

سیکولر ازم کا روپ ہر ملک میں مختلف ہے۔ لیکن پوری دنیا میں اس کے ہاں ایک قدر مشترک ہے۔ یہ ہندوازم، بدھ ازم، عیسائیت وغیرہ کے خلاف نہیں۔ یہ اجتماعی زندگی میں ہولی، دیوالی، کرسمس وغیرہ کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اس کی جان جمعے کے خطبے سے نکلتی ہے۔ اسے عید کا اجتماع دیکھ کر موت پڑجاتی ہے۔ دنیا پوری کروڑوں ٹن بیف کا باربی کیو بنالے، آسٹریلیا کی بھیڑوں کے کروڑوں تکا بوٹی بناکر کھائے جائیں اسے جانوروں کے حقوق یاد نہیں آتے لیکن ایک دن عیدالاضحی کی قربانی اسے زہر لگتی ہے۔ اسے کرسمس کی فضول خرچی بری نہیں لگتی لیکن حج پر جانے والوں کے خرچے کا حساب کرتا ہے۔

دنیا بھر میں ٹورازم انڈسٹری سے اربوں ڈالر کمانا ترقی کی علامت ہے لیکن اسے عمرے کا ایک سادہ سا سفر برا لگتا ہے۔ ہندو کروڑوں کی تعداد میں ہر دوار‘ بنارس اور کنبھ جائیں تو سیکولر کو کچھ نہیں ہوتا۔ ویٹیکن سٹی میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں پوپ کی زیارت کو آئیں تو کسی لبرل کا دل نہیں جلتا۔ چرچ کی راہبائیں حجاب پہنیں‘ یہودی عورتیں شٹل کاک برقعہ پہنیں‘ اس کو برا نہیں لگتا لیکن وہ مسلمان عورت کے حجاب پر تلملا اٹھتا ہے۔ یہ ہے سیکولرازم کا اصل دکھ اور اس کا اصل چہرہ۔ ان کی کتابیں، ان کے رسالے، ان کی ویب سائٹس، ان کے فیس بک پیجز اٹھالیں آپ کو صرف اور صرف اسلام اور شعائر اسلام سے نفرت ملے گی۔

یہ میڈیا میں پروان چڑھتا ہے لیکن اس کا بیج نصاب تعلیم میں بویا جاتا ہے۔ گزشتہ تیس سال سے انگلش میڈیم اسکولوں اور اولیول، اے لیول اور یونیورسٹی تعلیم نے جو الحاد اور سیکولرازم کا بیج بویا تھا اب اس کی زہر آلود شاخیں نکل رہی ہیں۔ ہمارے مدارس کے علماء ابھی اس فتنے سے آگاہ نہیں ہوئے لیکن وہ جو اس طوفان کو جانتے ہیں ان میں طارق جان صاحب کا نام بہت بڑا ہے۔ دلیل سے الحاد اور سیکولر ازم کا جواب ان کا امتیاز ہے۔

2012ء میں ان کی کتاب ’’سیکولر ازم، مباحث اور مغالطے‘‘ آئی۔ اس میں پاکستان کے دیسی لبرل اور سیکولرز کی منطق کو جس طرح پاش پاش کیا گیا اس پر اللہ ہی انھیں جزا عطا کرسکتا ہے۔ لیکن آج کی انگلش زدہ نسل کے لیے انگریزی میں اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک کتاب کی بہت ضرورت تھی۔ طارق جان صاحب نے کمال کردیا۔ بالکل نئے موضوعات اور حیران کن دلائل سے اپنی کتاب ”Engaging Secularism, limits of Promise” تحریر کر دی۔

مجھے سجدہ شکر ادا کرنا ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے یہ کتاب مجھے بھیجی۔ یہ کتاب نہیں الحاد کا رد ہے۔ وہ والدین جو اپنی انگلش میڈیم اولاد کے الحادی اور سیکولر نظریات کی وجہ سے پریشان ہیں‘ ان کے لیے یہ ایک نسخۂ کیمیاء ہے۔ خوشی کی ایک بات یہ ہے کہ اسے ہماری قدیم اسلامی روایت کے مطابق ایک درس گاہ یعنی یونیورسٹی نے چھاپا ہے‘ کسی کاروباری پبلشر نہیں۔ اسے یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی C-11 جوہر ٹاؤن لاہور نے چھاپا ہے۔ اس کتاب کا تحفہ اس باپ یا ماں کی آنکھوں میں امید جگا سکتا ہے جس کے بچے الحاد کے فریب اور سیکولرازم کے جھوٹ کا شکار صرف اور صرف انگریزی ذریعہ تعلیم کی وجہ سے ہوئے۔

ماخذ
 

زیک

مسافر
سائنسی سچائی (Scientific Truth) ایک ایسا تصور ہے جسے آخری سچائی (Ultimate Truth) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اسے کورس کی کتابوں سے لے کر کاروبار زندگی میں ایک واضح دلیل کے طور پر بتایا جاتا ہے۔ لیکن چند سالوں کے بعد وہ سارے کا سارا جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتا ہے۔

گزشتہ ایک صدی کے دوران‘ سائنس دان یہ ثابت کرتے رہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک مادہ ’’ایتھر‘‘ ہے جس کی موجودگی سے یہ زمین محفوظ و مامون ہے۔ انھوں نے اس مادے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سورج سے زمین تک روشنی کی رفتار کا پیمانہ بنایا، حدت کو ناپنے کے اصول وضع کیے اور ان سب کو آخری سچائی کے طور پر مانتے رہے‘ لیکن اچانک ایک شخص آئن اسٹائن آیا اور اس نے کہا کہ تم سائنس کے نام پر اتنے سال لوگوں کو جھوٹ پڑھاتے رہے ہو، ایتھر کا تو کوئی وجود ہی نہیں۔ اس نے اپنی تھیوری ’’اضافیت‘‘ (Relativity) پیش کی۔

یہ آج تک ایک تھیوری ہے اور سائنس دان اس کے بتائے ہوئے اصولوں کو ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اکثر ثابت بھی ہوگئے لیکن اس ’’تھیوری‘‘ یعنی نظریہ کو سیکولرز نے پہلے دن ہی ایمان کی سطح پر قبول کرلیا۔ یہ ایسا ہر نئے لیکن نامکمل علم کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں۔ ڈارون نے ”Orign of Species” تحریر کی جس میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حیات کس طرح آہستہ آہستہ ایک چھوٹے سے جرثومے سے ترقی کرتی ہوئی انسان کے قالب میں ڈھلی ہے۔
بندروں کو انسانوں کا جد امجد ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر سے انسانی ڈھانچے کھدائی سے نکال کر اس کی ایک ترتیب بنانے کی کوشش کی گئی اور آخر ایک جگہ معاملہ پھنس گیا جسے ”Missing Link” یعنی گمشدہ کڑی کہا گیا‘ ایسا درمیانی واسطہ نہ مل سکا جو واضح طور پر انسان کو بندر کی اولاد ثابت کردے۔ یہ گمشدہ کڑی آج بھی زیر زمین دفن مردوں اور زمانے کے اثرات سے پتھر بنے ڈھانچوں (Fossils) میں ڈھونڈی جاری ہے لیکن سیکولرز کے ہاں اس تھیوری یعنی نظریہ بلکہ قیاس کو آج بھی ایمان کی سطح پر مانا جاتا ہے۔
اس میں بےانتہا غلطیاں ہیں۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
سیکولر ازم کا روپ ہر ملک میں مختلف ہے۔ لیکن پوری دنیا میں اس کے ہاں ایک قدر مشترک ہے۔ یہ ہندوازم، بدھ ازم، عیسائیت وغیرہ کے خلاف نہیں۔ یہ اجتماعی زندگی میں ہولی، دیوالی، کرسمس وغیرہ کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اس کی جان جمعے کے خطبے سے نکلتی ہے۔ اسے عید کا اجتماع دیکھ کر موت پڑجاتی ہے۔ دنیا پوری کروڑوں ٹن بیف کا باربی کیو بنالے، آسٹریلیا کی بھیڑوں کے کروڑوں تکا بوٹی بناکر کھائے جائیں اسے جانوروں کے حقوق یاد نہیں آتے لیکن ایک دن عیدالاضحی کی قربانی اسے زہر لگتی ہے۔ اسے کرسمس کی فضول خرچی بری نہیں لگتی لیکن حج پر جانے والوں کے خرچے کا حساب کرتا ہے۔
اگر دنیا بھر کی سیکولر سوچ کی تحریریں پڑھنے کا کسی کو اتفاق ہوا ہو تو وہ جانتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے
 
اگر دنیا بھر کی سیکولر سوچ کی تحریریں پڑھنے کا کسی کو اتفاق ہوا ہو تو وہ جانتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے
کسی حد تک جھوٹ ہو سکتا ہے 'بالکل' جھوٹ نہیں۔
مسلم سیکولرز کی ایک بڑی تعداد تو ان شعائر اسلامی کے متعلق ایسے نظریات کا اظہار کرتی رہتی ہے البتہ ہندو، مسیحی، یہودی یا بودھ سیکولرز کے بارے میں ایسا کہنا ٹھیک نہیں ہو گا۔
 

زیک

مسافر
کسی حد تک جھوٹ ہو سکتا ہے 'بالکل' جھوٹ نہیں۔
مسلم سیکولرز کی ایک بڑی تعداد تو ان شعائر اسلامی کے متعلق ایسے نظریات کا اظہار کرتی رہتی ہے البتہ ہندو، مسیحی، یہودی یا بودھ سیکولرز کے بارے میں ایسا کہنا ٹھیک نہیں ہو گا۔
اوریا کا کہنا ہے کہ سیکولر لوگ صرف اسلام کی مخالفت کرتے ہیں باقی مذاہب پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ آپ خود مان رہے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ مختلف سیکولرز مختلف مذاہب، علاقوں اور ثقافتوں پر فوکس کرتے ہیں۔
 

عثمان

محفلین
الحاد یعنی اس خالق کائنات کے وجود کا انکار تاریخ میں ہمیشہ ان متکبر، مطلق العنان اور ظالم بادشاہوں نے کیا ہے جو اپنی طاقت کے نشے میں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ اس دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ فرعون اور نمرود کی مثالیں جہاں قرآن پاک اور دیگر الہامی کتابوں میں ملتی ہیں، وہیں تاریخ کے صفحات اور آثار قدیمہ کی کھدائی سے جنم لینے والی حقیقتیں بھی ان بادشاہتوں کے اسرار سے پردہ اٹھاتی ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اللہ کا انکار صرف طاقتور کرتا تھا اور وہ بغیر کسی دلیل کے اس بات کا دعویٰ کرتا تھا۔ مثلاً فرعون کہتا تھا ’’میں سب سے بڑا پالنے والا ہوں‘‘ اس کے دماغ میں بھی یہ بات چھپی بیٹھی تھی کہ اگر میں یہ دعویٰ کروں تو کوئی نہیں مانے گا کہ میں اس کائنات کا خالق ہوں۔ اسی لیے اس نے خدائی دعویٰ بھی سوچ سمجھ کر کیا۔

حضرت موسیٰؑ کو اس کے مقابلے میں معجزے عطا کیے گئے۔ اسے سمجھانے کے لیے اس کی قوم پر طرح طرح کے عذاب نازل کیے گئے۔ وہ ہمیشہ حضرت موسیٰ سے یہ درخواست کرتا کہ اپنے اللہ سے درخواست کرو کہ وہ یہ عذاب ٹال دے۔ حضرت موسیٰ دعا کرتے اور عذاب ٹل جاتا۔ لیکن وہ پھر روزمرہ کاروبار حکومت و سیاست میں اپنے خدائی دعوے پر قائم رہتا اور اپنی مرضی اور طاقت سے حکومت کرتا۔ اس کا نظریہ یہ تھا کہ خالق کائنات اور اس کے عطا کردہ مذہب کو عبادت تک محدود ہونا چاہیے یا اگر کوئی آسمانی آفت اور بلا نازل ہوتی ہے تو اس سے نجات کی دعا کی جا سکتی ہے لیکن خبردار! کاروبار حکومت سے مذہب کو دور رہنا چاہیے۔

یہ صرف اور صرف فرعون کا اختیار ہے۔ اللہ جو اس کائنات کا مالک و خالق ہے، جو بارش برساتا ہے، عذاب ٹالتا ہے۔ اس کے عطا کردہ مذہب کو تمام حقوق حاصل ہیں لیکن صرف گھر میں چار دیواری اور عبادت گاہ کی حد تک لیکن حکومت میں اس کے احکامات نہیں چلیں گے۔

صدیاں گزر جانے کے باوجود اللہ کے وجود سے انکار اور مذہب کو کاروبار حکومت اور سیاست سے الگ کرنے کی فرعونی سوچ میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب فرعونی طاقت کی جگہ سائنسی تحقیق اور دلیل و منطق کی بھول بھلیوں نے لے لی ہے۔

سائنسی سچائی (Scientific Truth) ایک ایسا تصور ہے جسے آخری سچائی (Ultimate Truth) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اسے کورس کی کتابوں سے لے کر کاروبار زندگی میں ایک واضح دلیل کے طور پر بتایا جاتا ہے۔ لیکن چند سالوں کے بعد وہ سارے کا سارا جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتا ہے۔

گزشتہ ایک صدی کے دوران‘ سائنس دان یہ ثابت کرتے رہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک مادہ ’’ایتھر‘‘ ہے جس کی موجودگی سے یہ زمین محفوظ و مامون ہے۔ انھوں نے اس مادے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سورج سے زمین تک روشنی کی رفتار کا پیمانہ بنایا، حدت کو ناپنے کے اصول وضع کیے اور ان سب کو آخری سچائی کے طور پر مانتے رہے‘ لیکن اچانک ایک شخص آئن اسٹائن آیا اور اس نے کہا کہ تم سائنس کے نام پر اتنے سال لوگوں کو جھوٹ پڑھاتے رہے ہو، ایتھر کا تو کوئی وجود ہی نہیں۔ اس نے اپنی تھیوری ’’اضافیت‘‘ (Relativity) پیش کی۔

یہ آج تک ایک تھیوری ہے اور سائنس دان اس کے بتائے ہوئے اصولوں کو ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اکثر ثابت بھی ہوگئے لیکن اس ’’تھیوری‘‘ یعنی نظریہ کو سیکولرز نے پہلے دن ہی ایمان کی سطح پر قبول کرلیا۔ یہ ایسا ہر نئے لیکن نامکمل علم کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں۔ ڈارون نے ”Orign of Species” تحریر کی جس میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حیات کس طرح آہستہ آہستہ ایک چھوٹے سے جرثومے سے ترقی کرتی ہوئی انسان کے قالب میں ڈھلی ہے۔
بندروں کو انسانوں کا جد امجد ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر سے انسانی ڈھانچے کھدائی سے نکال کر اس کی ایک ترتیب بنانے کی کوشش کی گئی اور آخر ایک جگہ معاملہ پھنس گیا جسے ”Missing Link” یعنی گمشدہ کڑی کہا گیا‘ ایسا درمیانی واسطہ نہ مل سکا جو واضح طور پر انسان کو بندر کی اولاد ثابت کردے۔ یہ گمشدہ کڑی آج بھی زیر زمین دفن مردوں اور زمانے کے اثرات سے پتھر بنے ڈھانچوں (Fossils) میں ڈھونڈی جاری ہے لیکن سیکولرز کے ہاں اس تھیوری یعنی نظریہ بلکہ قیاس کو آج بھی ایمان کی سطح پر مانا جاتا ہے۔

جدید دور کا الحاد اسی طرح کے غیر حتمی سائنسی حقائق سے جنم لیتا ہے جن کو وہ آخری سچائی مان کر خدا کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ کے انکار کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے ایک سیاسی فکر ہے جسے سیکولرازم کہتے ہیں۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ مذہب کو عبادت گاہ اور گھر تک محدود ہونا چاہیے، یہ اجتماعی زندگی اور حکومتی و سیاسی معاملات سے دور رہے۔ آدمی خدا سے ڈرے، اس سے محبت کرے، اس سے دعا مانگے‘ گڑگڑائے، اس کے احکامات پر عمل کرے لیکن اپنے گھر کے اندر۔ باہر کی دنیا ہماری ہے۔ ہم بتائیں گے کہ مرد اور مرد یا عورت اورعورت آپس میں شادی کرسکتے ہیں۔

اکثریت کہہ دے کہ جھوٹ بولنا‘ غیبت کرناجائز ہے تو جمہوری طور پر یہ قانون کہلاتا ہے‘ بالکل ویسے ہی جیسے حضرت شعیبؑ کی قوم نے کم تولنا جائز کر لیا تھا۔ سیکولر ازم کا دعویٰ ہے کہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچے کو بھی قانونی طور پر حلالی کہیں۔ غرض جو قانون ہم چاہیں بنائیں، ہماری مرضی۔ دنیا کے چھ ارب انسانوں کو لوٹ کر دنیا کی 65 فیصد دولت صرف 50 افراد کے ہاتھوں میں کاروبار کے نام پر دیں۔ کسی اللہ، خدا، بھگوان کو مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔ غرض الحاد بنیادی طور پر ایک مذہب ہے جو خدا کے انکار سے جنم لیتا ہے اور اس مذہب کو زندگیوں، سیاست، حکومت اور معاشرے میں نافذ کرنے کا نام سیکولر ازم ہے۔

سیکولر ازم کا روپ ہر ملک میں مختلف ہے۔ لیکن پوری دنیا میں اس کے ہاں ایک قدر مشترک ہے۔ یہ ہندوازم، بدھ ازم، عیسائیت وغیرہ کے خلاف نہیں۔ یہ اجتماعی زندگی میں ہولی، دیوالی، کرسمس وغیرہ کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اس کی جان جمعے کے خطبے سے نکلتی ہے۔ اسے عید کا اجتماع دیکھ کر موت پڑجاتی ہے۔ دنیا پوری کروڑوں ٹن بیف کا باربی کیو بنالے، آسٹریلیا کی بھیڑوں کے کروڑوں تکا بوٹی بناکر کھائے جائیں اسے جانوروں کے حقوق یاد نہیں آتے لیکن ایک دن عیدالاضحی کی قربانی اسے زہر لگتی ہے۔ اسے کرسمس کی فضول خرچی بری نہیں لگتی لیکن حج پر جانے والوں کے خرچے کا حساب کرتا ہے۔

دنیا بھر میں ٹورازم انڈسٹری سے اربوں ڈالر کمانا ترقی کی علامت ہے لیکن اسے عمرے کا ایک سادہ سا سفر برا لگتا ہے۔ ہندو کروڑوں کی تعداد میں ہر دوار‘ بنارس اور کنبھ جائیں تو سیکولر کو کچھ نہیں ہوتا۔ ویٹیکن سٹی میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں پوپ کی زیارت کو آئیں تو کسی لبرل کا دل نہیں جلتا۔ چرچ کی راہبائیں حجاب پہنیں‘ یہودی عورتیں شٹل کاک برقعہ پہنیں‘ اس کو برا نہیں لگتا لیکن وہ مسلمان عورت کے حجاب پر تلملا اٹھتا ہے۔ یہ ہے سیکولرازم کا اصل دکھ اور اس کا اصل چہرہ۔ ان کی کتابیں، ان کے رسالے، ان کی ویب سائٹس، ان کے فیس بک پیجز اٹھالیں آپ کو صرف اور صرف اسلام اور شعائر اسلام سے نفرت ملے گی۔

یہ میڈیا میں پروان چڑھتا ہے لیکن اس کا بیج نصاب تعلیم میں بویا جاتا ہے۔ گزشتہ تیس سال سے انگلش میڈیم اسکولوں اور اولیول، اے لیول اور یونیورسٹی تعلیم نے جو الحاد اور سیکولرازم کا بیج بویا تھا اب اس کی زہر آلود شاخیں نکل رہی ہیں۔ ہمارے مدارس کے علماء ابھی اس فتنے سے آگاہ نہیں ہوئے لیکن وہ جو اس طوفان کو جانتے ہیں ان میں طارق جان صاحب کا نام بہت بڑا ہے۔ دلیل سے الحاد اور سیکولر ازم کا جواب ان کا امتیاز ہے۔

2012ء میں ان کی کتاب ’’سیکولر ازم، مباحث اور مغالطے‘‘ آئی۔ اس میں پاکستان کے دیسی لبرل اور سیکولرز کی منطق کو جس طرح پاش پاش کیا گیا اس پر اللہ ہی انھیں جزا عطا کرسکتا ہے۔ لیکن آج کی انگلش زدہ نسل کے لیے انگریزی میں اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک کتاب کی بہت ضرورت تھی۔ طارق جان صاحب نے کمال کردیا۔ بالکل نئے موضوعات اور حیران کن دلائل سے اپنی کتاب ”Engaging Secularism, limits of Promise” تحریر کر دی۔

مجھے سجدہ شکر ادا کرنا ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے یہ کتاب مجھے بھیجی۔ یہ کتاب نہیں الحاد کا رد ہے۔ وہ والدین جو اپنی انگلش میڈیم اولاد کے الحادی اور سیکولر نظریات کی وجہ سے پریشان ہیں‘ ان کے لیے یہ ایک نسخۂ کیمیاء ہے۔ خوشی کی ایک بات یہ ہے کہ اسے ہماری قدیم اسلامی روایت کے مطابق ایک درس گاہ یعنی یونیورسٹی نے چھاپا ہے‘ کسی کاروباری پبلشر نہیں۔ اسے یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی C-11 جوہر ٹاؤن لاہور نے چھاپا ہے۔ اس کتاب کا تحفہ اس باپ یا ماں کی آنکھوں میں امید جگا سکتا ہے جس کے بچے الحاد کے فریب اور سیکولرازم کے جھوٹ کا شکار صرف اور صرف انگریزی ذریعہ تعلیم کی وجہ سے ہوئے۔

ماخذ
اوریا مقبول جان اپنے طالبان حمایت پس منظر کی وجہ سے مشہور ہے۔ مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے اس شخص کی مداح اور حمایت تو قابل فہم ہے لیکن ناجانے مین سٹریم معتدل مزاج لوگ کیوں سب کچھ بھول کر اس کے چکمے میں آجاتے ہیں۔
اوریا مقبول جان کی تحاریر بارہا محفل اور انٹرنیٹ پر زیربحث آ چکی ہیں۔ بیشتر مذہب پرستانہ لٹریچر کی طرح یہ تحاریر حسب دستور ، حسب سابق لگے پٹے مغالطے اور کلیشے کا شکار ہوتی ہیں۔ مثلاً
"سائنس ہر کچھ عرصہ بعد پچھلی باتوں کو رد کرتی اور اٹھا کر باہر پھینک دیتی ہے"
"سیکولرازم کا مطلب الحاد ہے"
"سیکولرازم مسلمانوں کے مذہب کے خلاف ہے"
"تھیوری" اورحیاتیانی نظریہ ارتقا کے متعلق وہی مخصوص جہالت بار بار دوہرائی گئی ہے۔
دفتر کے دفتر بھرے بڑے ہیں سائنٹیفیک پراگریس کی وضاحت، سیکولرازم کی تعریف اور تاریخ ، ارتقا اور نظریہ اضافیت کی تیکنیکی تفصیل سے۔
 

آصف اثر

معطل
اگر دنیا بھر کی سیکولر سوچ کی تحریریں پڑھنے کا کسی کو اتفاق ہوا ہو تو وہ جانتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے
یورپ میں حجاب پر پابندی، اسرائیل میں اذان پر پابندی، مصطفی کمال اتاترک کے وقت پورے دین پر پابندی، بھارت میں گائے کی ذبح پر پابندی کی کوششیں اور چین میں داڑھی برقعے پر پابندی یہ سب کیا ہیں؟
تحریر اور عملی تضاد کی یہی تو وہ منافقت ہے جو ان شیطانی نظاموں کا وطیرہ چلا آرہاہے۔ لیکن یاد رہے کہ اسلام ایک ”رب العالمین“ کا دین ہے جسے یہ مخلوقات نہیں روک سکتی۔
 

آصف اثر

معطل
مختلف سیکولرز مختلف مذاہب، علاقوں اور ثقافتوں پر فوکس کرتے ہیں۔
ان سب کا مطمع نظر اسلام مخالف طریقہ ہائے زندگی اور سوچ ہوتا ہے۔ چاہے رنگ کچھ بھی ہو۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے​
 
اوریا کا کہنا ہے کہ سیکولر لوگ صرف اسلام کی مخالفت کرتے ہیں باقی مذاہب پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ آپ خود مان رہے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ مختلف سیکولرز مختلف مذاہب، علاقوں اور ثقافتوں پر فوکس کرتے ہیں۔
جس طرح تمام مذاہب کو سیکولر ایک ہی خانے میں فٹ کرکے اس پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اسی طرح مذاہب کی حمایت اور سیکولرازم کی مخالفت میں بھی یہی رویہ رکھا جاتا ہے حالانکہ سیکولر ازم بھی مذاہب کی طرح بہت سے ذیلی فرقوں اور درجوں میں بٹا ہوا ہے اور اس میں بھی بے انتہا تنوع اور اختلاف ہے۔

جس طرح مذہب کو ماننے والوں کے مختلف درجات ہیں جن میں سے کچھ صرف پیدائشی طور پر مذہب سے جڑے ہوتے ہیں ، کچھ پڑھ کر عمل کرتے ہیں ، کچھ غور و فکر کرتے ہیں، کچھ متشدد ہوتے ہیں، کچھ محقق ہوتے ہیں اور کچھ متقی و پرہیزگار اسی طرح سیکولر فکر کو ماننے والوں کے بھی کم و بیش اتنے ہی درجات اور اقسام ہوتی ہیں۔

ایک خاص تناظر میں دیکھا جائے اور سوچا جائے تو ہر دلیل سچی لگتی ہے مگر اگر تجزیہ اور تحلیل کی عادت اپنائی جائے تو سب سیاہ و سفید نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر چیزیں "گرے" نظر آئیں گی۔
 

آوازِ دوست

محفلین
اوریا کا کہا یا لکھا سب کُچھ تو حرفِ آخر نہیں ہو سکتا ہمیں بنیادی طور پر ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا اسلام ایک عبادتی مذہب ہے یا یہ ایک مکمل دین ہے جو زندگی کے تمام امور بشمول کاروبارِ سلطنت میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ آمرانہ طرزِ حکومت خواہ اسلام کے نام پر ہو یا سیکولر ازم کے نام پر وہ اپنی جائز و ناجائز خواہشات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں برداشت کرتا۔غیر مسلم حکمرانوں کی بھی یہی خو رہی اور مسلم حکمرانوں نے بھی اپنے درباروں میں جو فتویٰ فروش علماء پال رکھے تھے وہ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کی طرح اپنی اور حکمرانوں کی باہمی ضروریات پورا کرنے کے لیے احادیث و آیات کو اپنے مطلب کے ترجمے میں ایسے ہی ڈھال دیتے تھے جیسے شیر افگن نیازی مشرف کے لیے آئین کی دفعات سے اُس کے مطلب کی تاویلیں نکالتا تھا۔ خیر قصہ مختصر ہم خُدا کو مانیں اور اُس کے بتائے گئے نظام کے نفاذ سے انکار کریں۔ یہ کیسا عجب معاملہ ہے۔ دلیل سے انکار اور تشدد پر اصرار سے اسلام کے چاہنے والے نادان دوستوں نے اس کی جو حالت کردی ہے اُس کے تناظر میں ایسے صاحبِ دلیل لوگوں کا وجود ایک نعمت سے کم نہیں۔ قائل کر لیں یا قائل ہو جائیں اگر دونوں صورتیں ممکن نہیں تو اسے بھی دلیل سے منوائیں۔
 
کسی حد تک جھوٹ ہو سکتا ہے 'بالکل' جھوٹ نہیں۔
مسلم سیکولرز کی ایک بڑی تعداد تو ان شعائر اسلامی کے متعلق ایسے نظریات کا اظہار کرتی رہتی ہے البتہ ہندو، مسیحی، یہودی یا بودھ سیکولرز کے بارے میں ایسا کہنا ٹھیک نہیں ہو گا۔
انھیں اسی لیے سوڈو لبرلز کہا جاتا ہے۔ مذہب چاہے جو بھی ہو گھر، مسجد، مندر تک ہی رہنا چاہیے۔
 
آخری تدوین:
جس طرح تمام مذاہب کو سیکولر ایک ہی خانے میں فٹ کرکے اس پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اسی طرح مذاہب کی حمایت اور سیکولرازم کی مخالفت میں بھی یہی رویہ رکھا جاتا ہے حالانکہ سیکولر ازم بھی مذاہب کی طرح بہت سے ذیلی فرقوں اور درجوں میں بٹا ہوا ہے اور اس میں بھی بے انتہا تنوع اور اختلاف ہے۔

جس طرح مذہب کو ماننے والوں کے مختلف درجات ہیں جن میں سے کچھ صرف پیدائشی طور پر مذہب سے جڑے ہوتے ہیں ، کچھ پڑھ کر عمل کرتے ہیں ، کچھ غور و فکر کرتے ہیں، کچھ متشدد ہوتے ہیں، کچھ محقق ہوتے ہیں اور کچھ متقی و پرہیزگار اسی طرح سیکولر فکر کو ماننے والوں کے بھی کم و بیش اتنے ہی درجات اور اقسام ہوتی ہیں۔

ایک خاص تناظر میں دیکھا جائے اور سوچا جائے تو ہر دلیل سچی لگتی ہے مگر اگر تجزیہ اور تحلیل کی عادت اپنائی جائے تو سب سیاہ و سفید نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر چیزیں "گرے" نظر آئیں گی۔
سیکولر ہوں یا مذہبی، جب انتہاؤں کو چھوتے ہیں تب بات بگڑ جاتی ہے ۔
 
اوریا مقبول جان اپنے طالبان حمایت پس منظر کی وجہ سے مشہور ہے۔ مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے اس شخص کی مداح اور حمایت تو قابل فہم ہے لیکن ناجانے مین سٹریم معتدل مزاج لوگ کیوں سب کچھ بھول کر اس کے چکمے میں آجاتے ہیں۔

میں خود کچھ معاملات میں افغان طالبان کا حمایتی اور کچھ میں مخالف ہوں اور ایسی ہی سوچ سیکولرز، لبرلز یا ملحدین کے بارے میں بھی ہے۔ لیکن میں یہ ضروری نہیں سمجھتا کہ میں اس حمایت یا مخالفت کا اظہار شدت پسندانہ رویے سے لبریز مراسلات سے کروں یا ان سے بولنے کا حق چھین لینا چاہوں۔

اوریا مقبول جان بھی ایک فکر کا نام ہے، وہ فکر جس کے ماننے والے بھی لاکھوں میں ہیں اور انکار کرنے والے بھی۔ میں صرف اس کے پرو طالبان ہونے کی وجہ سےاسے مداری یا فراڈیا نہیں سمجھ سکتا جو بقول آپ کے چکمہ دے جائے۔

باقی رہا کالم ۔۔ تو اس کے مندراجات پر اعتراضات کرنا، ان میں کجی کمی غلطی کی نشاندہی کرنا یا انھیں من و عن تسلیم کر لینا ہر ایک کا ذاتی فعل ہے اور جس کے پاس موافقت یا مخالفت میں دلائل ہوں گے اور وہ اپنے اس حق کو استعمال کرنا چاہے تو کوئی نہیں روکتا۔
 
Top