تلاشِ مسرت

صاحبو، ژاں ژاک رُوسو فرانس کا ایک جادو بیان ادیب تھا۔ اس کی فکر میں بڑی گہرائی اور گیرائی تھی۔ مغرب نے اس کی دانش سے خوب خوب استفادہ کیا۔ جمہوریت اور انسانیت کے منشوروں کے لیے اس کی تحریریں منارۂِ نور سمجھی گئیں۔ انقلابِ فرانس کے بانیوں میں اس کا نام بڑا محترم ہے۔ الغرض، نہایت دانا و بینا شخص تھا۔
رُوسو کہتا تھا کہ خوشی، یا سکون کہہ لیجیے، ایک چھلاوا ہے۔ گاہے یہاں، گاہے وہاں۔ ابھی ادھر، ابھی ادھر۔ ابھی ظاہر، ابھی غائب۔ خوشی نظر آتی ہے، قابو نہیں آتی۔ آپ سوچتے ہیں میں اپنا گھر بناؤں گا۔ ایک عالیشان گھر جس میں سہولت کی ہر چیز میسر ہو گی۔ شماتتِ ہمسایہ کے لیے بھی مناسب بندوبست کروں گا۔ دنیا دیکھے گی اور دل جلائے گی۔ رشتے دار آئیں گے اور حسد سے مر ہی جائیں گے۔ شہر کی عورتیں گزریں گی تو سوچیں گی ہائے اس گھر کی ملکہ کون خوش بخت ہے؟ مرد حسرت بھری نظروں سے دیواروں کو تکتے ہوئے چلیں گے اور ٹھوکر کھائیں گے ۔ دربان وہ ہوں گے جن کے آبا کے غالبؔ نے اٹھ کے قدم لیے تھے۔ بیوی کی چخ چخ محبت کے دلنواز نغموں میں بدل جائے گی اور بچے سہولیات کی فراوانی سے مہذب ہو جائیں گے۔
پھر برسوں کی جدوجہد کے بعد وہ وقت آتا ہے کہ وہ گھر بن جاتا ہے۔ جیسے تیسے آپ کی آرزو پوری ہو جاتی ہے۔ ایک لافانی مسرت آپ کی مٹھی میں مچل رہی ہوتی ہے۔ آپ سوچتے ہیں سکون مل ہی جاتا ہے آخر۔ انسان کی دسترس سے کچھ بھی تو دور نہیں۔ شوقِ فضول و جراتِ رندانہ چاہیے۔
کچھ وقت گزرتا ہے۔ آپ کی مٹھی میں مچلتی ہوئی مسرت کی تڑپ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہرچند کہ آپ کوشش کرتے ہیں کہ اسے سنبھال کر رکھیں مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ریت کی طرح آپ کی مٹھی سے پھسلنے لگتی ہے۔ کچھ عرصے بعد وہ زمانہ آتا ہے کہ اس عالیشان گھر میں آپ ویسے ہی شکستہ بیٹھے ہوتے ہیں جیسے اس سفر کے آغاز میں تھے۔ اپنی جدوجہد کے رائگاں جانے کا احساس سانسیں روک دیتا ہے۔ جسم نڈھال ہو جاتا ہے۔ حواس معطل۔ مسرت کا چھلاوا یہ جال بھی پھلانگ گیا ہے۔ وہ سامنے کھڑا مسکرا رہا ہے۔ آپ کو لگ رہا ہے کہ شاید آپ کو کسی پرفضا مقام پر کچھ وقت بتانے کی ضرورت ہے۔ چھلاوا آپ کی رہنمائی تو کرے گا ہی!
آپ رختِ سفر باندھتے ہیں۔ منزل پر پہنچ کر اندازہ ہوتا ہے کہ چھلاوا آگے نکل چکا ہے۔ مسرت پرفضا مقامات پہ بھی نہیں۔ آپ کیا سمجھے تھے؟ چھلاوا پکڑ لیں گے؟ غلط سمجھے تھے۔ ایں خیال است و محال است و جنوں۔
انسان خوشی کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور خوشی انسان کے آگے۔ دونوں کی کوئی منزل نہیں۔ دنیا میں مسرت سے زیادہ گریز پا کوئی محبوب نہیں۔ مسرت ہاتھ آتی بھی ہے تو چھوئی نہیں جاتی۔ ملتی بھی ہے آنکھیں ٹھنڈی نہیں کرتی۔ اور منہ پھیر لیتی ہے تو پلٹتی نہیں۔
ارسطو بڑا دانا شخص تھا صاحبو۔ اس نے اسی لیے کہا تھا کہ دانشمند کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ زندگی میں خوشیاں تلاش کرے۔ عقلمندی یہ ہے کہ دکھوں سے اپنے تئیں بچایا جائے۔ خوشی تو چھلاوا ہے۔ ایک منفی شے ہے۔ خیالی تصویر ہے۔ اس کا ملنا کوئی ملنا نہیں۔ دکھ حقیقی ہے۔ اس کی زد سے نکل جانا ہی حقیقی مسرت ہے۔ سمجھ دار لوگ دکھوں میں کمی چاہتے ہیں، خوشیوں میں اضافہ نہیں۔
یہ سب تو اہلِ خرد کی باتیں ہیں۔ سوچنے والوں کی۔ دماغ والوں کی۔
دل والوں کی اپنی ہی بولیاں ہیں۔ اپنی منطق ہے۔
رومیؒ کہتے ہیں:
بشنو از نے چوں حکایت میں کند
از جدائی ہا شکایت می کند​
گویا غم کی بنیاد یہ ہے کہ انسان اس بانسری کی طرح اپنی اصل سے جدا ہو گیا ہے جو سرکنڈے کے جنگل سے کاٹ لی جاتی ہے اور اسی دکھ کی تانیں اڑاتی اڑاتی فنا ہو جاتی ہے۔ یہ بات بڑی حکمت کی ہے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خلش، کوئی قلق حضرتِ انسان کو ہے ضرور۔ کوئی کانٹا ہے جو اس کے دل میں پیدا ہوتے ہی چبھ جاتا ہے۔ کوئی آگ ہے جو اس کے پیروں تلے جلتی رہتی ہے اور عمر بھر نچلا نہیں بیٹھنے دیتی۔ کوئی ناسور ہے جو رس رس کر اس کی پوشاک برباد کرتا رہتا ہے۔
قہر یہ ہے کہ یہ قہر انسان پر باہر سے وارد نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر سے لہو کی طرح پھوٹتا ہے۔ کمبخت کے مرہم بھی باہر سے نہیں لگتے۔ لاکھ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھیے، اچھے کھانے کھائیے، نرم بستروں پر سوئیے، محبت کرنے والوں پر ناز کیجیے، یہ زخم بھرتا نہیں۔ یہ آگ بجھتی نہیں۔ ایک سرکش طلب آپ کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر آپ کو گھسیٹتی رہتی ہے۔ اس زندان خانے کی طرف جو خود اپنے راستے میں پڑتا ہے۔
رومیؒ کا کہنا یہ ہے کہ یہ زخم اس چیر کے مماثل ہے جو بانسری کو بانس سے کاٹنے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ رندے پھیرنے سے اس کی صورت تو بدلی جا سکتی ہے مگر اس شکست کی آواز نہیں روکی جا سکتی جس کا مداوا فنا کے سوا کچھ نہیں۔ شاید اسی لیے صوفیا اس مقولے کو حدیث سمجھتے ہیں:
موتو قبل ان تموتو
مر جاؤ اس سے پہلے کہ تمھیں موت آئے!
 
بہت خوب راحیل بھائی یہ موضوع واقعی بہت دلچسپ اور قابل غور ہے کہ خوشی اصل میں کہاں ہے؟ اور کیا ہے؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر آدمی ہر بات پر خوش نہیں ہوتا نہ ہر ایک ہر بات پر دکھی :)
 
دلچسب موضوع اور بہترین تحریر۔
میرے لیے صوفیا اور فلسفیوں کی باتیں دل کو خوش رکھنے والے خیالات سے بڑھ کر نہیں۔
فقط سائنسی توضیحات تسلی بخش ہیں۔ خوشی اور غم جذبات ہیں جو انسان کی بقا کے لیے فطرت نے منتخب کیے۔
 

عاطف ملک

محفلین
رسطو بڑا دانا شخص تھا صاحبو۔ اس نے اسی لیے کہا تھا کہ دانشمند کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ زندگی میں خوشیاں تلاش کرے۔ عقلمندی یہ ہے کہ دکھوں سے اپنے تئیں بچایا جائے۔ خوشی تو چھلاوا ہے۔ ایک منفی شے ہے۔ خیالی تصویر ہے۔ اس کا ملنا کوئی ملنا نہیں۔ دکھ حقیقی ہے۔ اس کی زد سے نکل جانا ہی حقیقی مسرت ہے۔ سمجھ دار لوگ دکھوں میں کمی چاہتے ہیں، خوشیوں میں اضافہ نہیں۔
قابلِ غور بات ہے!
بہت خوب صورت تحریر ہے مرشدی!
ماشا اللہ!
 

یاز

محفلین
زبردست تحریر ہے جناب۔
ہمارا بھی کچھ ایسا ہی کہنا ہے کہ خوشیاں آپ کے آگے پیچھے بکھری پڑی ہوتی ہیں۔ صرف ان کو تلاش کرنے یا ادراک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
 
بہت خوب اور عمدہ انداز سے ایک بہت اہم بات سمجھائی ہے۔
ویسے میرا تجربہ ہے کہ جب اس حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے تو زندگی میں کچھ ٹھہراؤ اور سکون آ جاتا ہے۔ :)
 

ربیع م

محفلین
خوشی اور غمی، پریشانی و آزمائش سے پیش آنے اور نمٹنے نمٹنے کا اسلامی فلسفہ ہماری عام معاشرتی سوچ سے کافی مختلف بھی ہے اور اکثریت کیلئے ناقابل فہم بھی!
مجھے اس موضوع میں ایک حدیث بڑی باکمال لگتی ہے :
عَجَبًا لأمرِ المؤمنِ إِنَّ أمْرَه كُلَّهُ لهُ خَيرٌ وليسَ ذلكَ لأحَدٍ إلا للمُؤْمنِ إِنْ أصَابتهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فكانتْ خَيرًا لهُ وإنْ أصَابتهُ ضَرَّاءُ صَبرَ فكانتْ خَيرًا لهُ "
مومن کامعاملہ بڑا ہی تعجب خیز ہے، اس کاہر معاملہ بھلائی سے بھرپور ہوتا ہے اور یہ کیفیت صرف مومن کے ساتھ خاص ہے!
اگر اسے خوشی پہنچتی ہے تو اس پر شکر کرتا ہے اور یہ اس کیلئے بھلائی ہے اور اگر اسے تنگی و تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کیلئے بھلائی ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
بہت خوب راحیل میاں۔ اچھا مقدمہ پیش کیا ہے۔
گویا غم کی بنیاد یہ ہے کہ انسان اس بانسری کی طرح اپنی اصل سے جدا ہو گیا ہے جو سرکنڈے کے جنگل سے کاٹ لی جاتی ہے اور اسی دکھ کی تانیں اڑاتی اڑاتی فنا ہو جاتی ہے۔ یہ بات بڑی حکمت کی ہے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خلش، کوئی قلق حضرتِ انسان کو ہے ضرور۔ کوئی کانٹا ہے جو اس کے دل میں پیدا ہوتے ہی چبھ جاتا ہے۔ کوئی آگ ہے جو اس کے پیروں تلے جلتی رہتی ہے اور عمر بھر نچلا نہیں بیٹھنے دیتی۔ کوئی ناسور ہے جو رس رس کر اس کی پوشاک برباد کرتا رہتا ہے۔
وجود مٹی کا قرض ہے اور روح خدا کی پھونکی ہوئی۔ ہر دو اپنے اصل کے ہجر میں مبتلا کیے رکھتے ہیں، انسان خوش رہے بھی تو کیسے ؟ یہی خلش ہے یہی قلق ہے جس نے انسان کو مستقل بے چین رکھا ہوا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فلسفۂ مسرت پر سب سے اہم کام شاید ایپی کیورس Epicurus کا ہے، بلکہ Epicureanism اور مسرت مترادف اور "گالی" کے طور پر بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اور اسی نے مسرت اور حصولِ مسرت کو فلسفہ کا باقاعدہ حصہ بنایا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دلچسب موضوع اور بہترین تحریر۔
میرے لیے صوفیا اور فلسفیوں کی باتیں دل کو خوش رکھنے والے خیالات سے بڑھ کر نہیں۔
فقط سائنسی توضیحات تسلی بخش ہیں۔ خوشی اور غم جذبات ہیں جو انسان کی بقا کے لیے فطرت نے منتخب کیے۔
سارا فلسفہ ہی سوختنی نہیں ہے بلکہ فلسفہ تو سائنس کے forerunner کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ ہاں مابعدالطبعیات فلسفے کی ایک ایسی دلدل ہے کہ اس میں جو پھنس گیا پھر مشکل اور قسمت ہی سے باہر نکل سکتا ہے :)
 

نوید ناظم

محفلین
راحیل بھائی اچھی تحریر ہے۔۔۔ غم اور خوشی کے متعلق واصف صاحب کی چند باتیں آپ کی تسکین طبع کے لیے۔۔۔

× خوشی' بیٹی کی طرح گھر میں پلتی ہے اور جب جوان ہوتی ہے تو رخصت کر دی جاتی ہے×

×بہت زیادہ خوشیوں کے پیچھے بھاگنے والا' بہت زیادہ غم سے دوچار ہوتا ہے×

×ہم سب ایک دوسرے کا غم ہیں جو ایک دوسرے کی خوشیاں بنے ہوئے ہیں×

×جو کہے میں کل خوش ہو جاوں گا' وہ کبھی خوش نہیں ہو گا×

×اپنی مرضی اور اللہ کی مرضی میں فرق کا نام غم ہے×

×عبادت وہاں نہیں پہنچاتی' جہاں غم پہنچا دیتا ہے×

× غم جتنا بھی سنگین ہو، نیند سے پہلے تک ہے×

×خوشی صرف خوشی دینے والے کو ملتی ہے×
 
Top