تبصرہ کتب دو اسلام از ڈاکٹر غلام جیلانی برق

السلام علیکم!

انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، زندہ رہنا۔ جس کے لئے اس کو روٹی ، کپڑا اور مکان درکار ہیں۔ اگر کسی کے بچوں کو یہ سب نہیں ملتا تو وہ لڑتا بھڑتا ہے۔ تاریخ کی سب جنگیں اسی ضرورت یا اسی لالچ کی وجہ سے لڑی گئی ہیں۔ دنیاوی وسائیل کو مناسب طریقے سے تقسیم کرنے اور دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے بہت سے مذاہب وجود میں آئے۔ جن میں سے سب کے پیچھے خدا کا وجود کسی نا کسی طرح سے موجود ہے۔

قرآن حکیم ، ہمارے ایمان کے مطابق اللہ تعالی کا کلام ، بھی اسی عالمی مسئلہ کے حل فراہم کرتا ہے۔ قرآن حکیم کی تعلیم کا بنیادی مقصد امن امان، سلامتی، دنیاوی وسائیل کی مناسب تقسیم اور ایک ایسے نظام کا قیام ہے جو پائیدار طریقے سے ان مسائیل کا حل فراہم کرتا رہے۔ فرد اور قوم دونوں کو بہترین طریقے سے کام کرنے کے لئے اللہ تعالی قرآن حکیم سے تعلیم دیتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی، رسول اکرم اور اس کی کتاب پر ایمان رکھیں۔ جہاں اللہ تعالی نے یہ تعلیم قرآن حکیم کے ذریعے فراہم کی، وہاں اپنے نبیوں کے ذریعے بھی یہی تعلیم فراہم کرتے رہے ۔ یہ پیغام یا یہ تعلیم کبھی نہیں بدلی اور اس تعلیم یا اس پیغام میں کبھی بھی اختلافی صورت حال پیدا نہیں ہوئی۔

میں کراچی میں پلا بڑھا، جو مذہبی خیالات اور نظریات دوسرے لوگوں کے تھے وہی میرے بھی تھے۔ جب مزید تعلیم کے لئے 1980 میں امریکہ آیا تو یہاں پہلی بار قرآن حکیم کا ایک ترجمہ پڑھا۔ ذہن میں آیا کہ قرآن حکیم کے ایک اچھے ترجمے کی ضرورت ہے۔ بعد میں 1982 سے 1992 تک الریاض سعودی عرب میں کام کرتا رہا ، جہاں، عربی گرامر اور لٹریچر پڑھا اور سمجھا۔ جس سے قران حکیم عربی میں سمجھنے میں آسانی ہوئی۔ قران کے ایک جدید اردو اور انگریزی ترجمے کی لگن رہی، جس کے لئے قرآن کے 7 عدد اردو اور 20 عدد انگریزی ترجمے 2003 سے 2007 تک اوپن برہان میں لگانے کے لئے پڑھے۔ میرا طریقہ یہ رہا ہے کہ روز قرآن حکیم کی چند آیات عربی ہی میں پڑھ اور سمجھ کر ان کا اردو اور انگریزی ترجمہ پڑھتا ہوں۔ تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ دوسرے مترجمین نے اس آیت سے کیا اخذ کیا۔ اس عمل سے میں نے کیا سیکھا۔

1۔ قرآن حکیم کا زبان اور بیان انتہائی اعلی درجے کا ہے، میں نے ایسی کوئی دوسری کتاب اب تک نہیں پڑھی۔ اس کتاب کا ہر بیان اور ہر حکم ایک مخصوص اور بہترین قانونی زبان سے بندھا ہوا ہے۔
2۔ قرآن حکیم اور روایات کی زبان میں بہت بڑا فرق ہے۔ حتی کہ جن اقوال کو آپ قرآن کے احکام کے عین مطابق پاتے ہیں ، اور جن پر سب ہی متفق ہوں کہ یہ رسول اکرم کا ہی قول مبارک ہے، اس قول کے انداز بیان میں اور قرآن حکیم کے انداز بیان میں بہت نمایاں فرق ہوتا ہے۔ لیکن دونوں کے احکام میں فرق نہیں ہوتا ہے۔
3۔ کتب روایات میں رسول اکرم کے احکام و اقوال رسول کو پہچاننے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ، کیونکہ یہ اقوال و احکام رسول ، قرآن حکیم کی تعلیم کے عین مطابق ہوتے ہیں
4۔ انہی کتب روایات میں ایسی بھی روایات اور احکام موجود ہیں جو قرآن حکیم کی تعلیم ، اور اس کے مقصد کے بہت ہی بڑے مخالف ہیں۔ یہی وہ احکامات ہیں جن کے لئے بہت لمبی لمبی تاویلات پیش کی جاتی ہیں ۔
5۔ شیعہ اور سنی حضرات کی کتب روایات میں بہت سی روایات ایسی ہیں جن پر ایہ دو بڑے فرقے متفق نہیں۔
6۔ کتب روایات میں کچھ روایات ایسی بھی ہیں جو محترم شخصیات کا مذاق اڑاتی ہیں۔ ایسی ہی روایات کو لے کر اسلام مخالف افراد تضحیک آمیز کتب چھاپتے رہے ہیں۔ توبہ استغفار۔

قرآن حکیم، اور اس کے 27 تراجم پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی کرنے میں قرآن حکیم کی اپنی من مانی تفسیر کرتے ہیں۔ اگر ایک مسلم معاشرے کی تعمیر ضروری ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ دنیا میں سب کی بھلائی، امن و امان، منصفانہ قیادت، ایماندارانہ سیاست ، مستحکم معیشیت کے نکتہ نظر سے قرآن حکیم کی تعلیم دی جائے اور حاصل کی جائے۔

والسلام
 

صائمہ شاہ

محفلین
ویسے ڈاکٹر برق صاحب کے’ متقدین ‘یہ کہتے ہیں کہ وہ آخری عمر میں اپنے دو اسلام والے نظریے سے تائب ہو گئے تھے۔ اس پر کئی گرما گرم مباحث پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں بھی ہو چکے ہیں :)
کیا ان کے تائب ہونے کی وجہ معاشرتی دباو تھا ؟
یہاں تائب بھی عجیب لگتا ہے کہ جیسے مذہب کا علم اور تحقیق کوئی گناہ کبیرہ ہے ، کیا مذہب کا بیک گراونڈ جاننا یا اسے سمجھنے کی کوشش کرنا اس عقل کے تحت جو رب کی دی ہوئی ہے اور آپ کو پہلا سبق ہی اقرا کا دے وہاں ایسی تھیوری کا رکھنا یا اس پر ریسرچ کرنا کوئی گناہ ہے ؟ پھر اس سے دستبردار ہوجانا کس کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے ؟
یہ سوال صرف اپنی کم علمی دور کرنے کے لیے پوچھ رہی ہوں جانتی ہوں آپ اسے صرف سوال سمجھ کر ہی جواب دیں گے اس میں کچھ اور نہیں ڈھونڈیں گے ۔
 

اوشو

لائبریرین
کتاب: آئینۂ پرویزیت
مصنف: عبدالرحمٰن کیلانی
پبلشر: مکتبۃُ السلام، لاہور
ڈسٹری بیوٹر: دارالسلام
علامہ پرویز پر انکار حدیث کا جو الزام لگایا گیا اس کے جواب میں انہوں نے ایک کتاب "منکرِ حدیث کون؟" لکھی تھی۔ وہ بھی پڑھی آپ نے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا ان کے تائب ہونے کی وجہ معاشرتی دباو تھا ؟
یہاں تائب بھی عجیب لگتا ہے کہ جیسے مذہب کا علم اور تحقیق کوئی گناہ کبیرہ ہے ، کیا مذہب کا بیک گراونڈ جاننا یا اسے سمجھنے کی کوشش کرنا اس عقل کے تحت جو رب کی دی ہوئی ہے اور آپ کو پہلا سبق ہی اقرا کا دے وہاں ایسی تھیوری کا رکھنا یا اس پر ریسرچ کرنا کوئی گناہ ہے ؟ پھر اس سے دستبردار ہوجانا کس کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے ؟
یہ سوال صرف اپنی کم علمی دور کرنے کے لیے پوچھ رہی ہوں جانتی ہوں آپ اسے صرف سوال سمجھ کر ہی جواب دیں گے اس میں کچھ اور نہیں ڈھونڈیں گے ۔
جی میرا مبلغ علم برق صاحب کے بارے میں اتنا ہی تھا جتنا عرض کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب اٹک کے تھے اور اٹک ہی سے اردو محفل کے ایک پرانے رکن سید شاکر القادری صاحب ہیں، انہوں نے شاید اس موضوع پر کوئی مضمون بھی لکھا تھا۔

باقی جو تائب والی بات ہے، تو اس کا پس منظر ذرا گہرا ہے۔ مسلمانوں میں ہمیشہ ہی سے ایک طبقہ ایسا رہا ہے اور اب بھی ہے کہ جو حدیث کی آئینی حیثیت کا انکار کرتے ہیں یوں سمجھیے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی قوانین کی بنیاد میں حدیث کا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے اور واحد اساس قرآن ہے۔ دوسری طرف باقی سارے مسلم طبقات ہیں وہ چاہے اہلحدیث ہوں، احناف، شوافع، مالکی، حنبلی یا جعفری ہوںوہ سب قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث کواسلامی قوانین کا بنیادی جز مانتے ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کااحادیث کا منبع کیا ہے یا وہ فقط احادیث ہی لیتے ہیں یا آثار بھی (صحابہ کے اقوال اور افعال آثار کہلاتے ہیں اور خاص طور پر احناف کے ہاں آثار بھی قانون کا جزو ہیں، جعفریوں کے ہاں بالکل نہیں ہیں)۔ یا وہ قیاس کو بھی اسلامی قانون کا جزو مانتے ہیں یا نہیں(یہاں بھی احناف کے ہاں قیاس کی بڑی اہمیت ہے اور اہلحدیث اور جعفریوں کے ہاں بالکل بھی نہیں ہے)۔ مذکورہ طبقے کو باقی مسلمانوں نے مختلف نام دے رکھے ہیں، سب سے پہلا نام شاید معتزلہ تھا اور اب عام طور (طنز کے طور پر) منکر ِ حدیث کہتے ہیں۔

ڈاکٹر برق صاحب تحقیق وغیرہ سے تائب ہوئے تھے یا نہیں وہ تو میں نے نہیں جانتا لیکن میں نے جو تائب ہونا لکھا تھا اور جو تائب ہونا ان کا مشہور ہے وہ یہی ہے کہ وہ حدیث کی آئینی حیثیت کے قائل نہیں تھے بعد میں تائب ہو کر قائل ہو گئے تھے۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
جی میرا مبلغ علم برق صاحب کے بارے میں اتنا ہی تھا جتنا عرض کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب اٹک کے تھے اور اٹک ہی سے اردو محفل کے ایک پرانے رکن سید شاکر القادری صاحب ہیں، انہوں نے شاید اس موضوع پر کوئی مضمون بھی لکھا تھا۔

باقی جو تائب والی بات ہے، تو اس کا پس منظر ذرا گہرا ہے۔ مسلمانوں میں ہمیشہ ہی سے ایک طبقہ ایسا رہا ہے اور اب بھی ہے کہ جو حدیث کی آئینی حیثیت کا انکار کرتے ہیں یوں سمجھیے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی قوانین کی بنیاد میں حدیث کا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے اور واحد اساس قرآن ہے۔ دوسری طرف باقی سارے مسلم طبقات ہیں وہ چاہے اہلحدیث ہوں، احناف، شوافع، مالکی، حنبلی یا جعفری ہوںوہ سب قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث کواسلامی قوانین کا بنیادی جز مانتے ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کااحادیث کا منبع کیا ہے یا وہ فقط احادیث ہی لیتے ہیں یا آثار بھی (صحابہ کے اقوال اور افعال آثار کہلاتے ہیں اور خاص طور پر احناف کے ہاں آثار بھی قانون کا جزو ہیں، جعفریوں کے ہاں بالکل نہیں ہیں)۔ یا وہ قیاس کو بھی اسلامی قانون کا جزو مانتے ہیں یا نہیں(یہاں بھی احناف کے ہاں قیاس کی بڑی اہمیت ہے اور اہلحدیث اور جعفریوں کے ہاں بالکل بھی نہیں ہے)۔ مذکورہ طبقے کو باقی مسلمانوں نے مختلف نام دے رکھے ہیں، سب سے پہلا نام شاید معتزلہ تھا اور اب عام طور (طنز کے طور پر) منکر ِ حدیث کہتے ہیں۔

ڈاکٹر برق صاحب تحقیق وغیرہ سے تائب ہوئے تھے یا نہیں وہ تو میں نے نہیں جانتا لیکن میں نے جو تائب ہونا لکھا تھا اور جو تائب ہونا ان کا مشہور ہے وہ یہی ہے کہ وہ حدیث کی آئینی حیثیت کے قائل نہیں تھے بعد میں تائب ہو کر قائل ہو گئے تھے۔
بہت شکریہ وارث
 
یہ درست ہے کہ بہت سے افراد "کتب روایات " کی آئینی حیثیت کے قائیل ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ ان کتب میں سب کچھ صحیح ہے ۔ یعنی کوئی بھی روایت اس لئے رد نہیں کی جاسکتی کہ وہ قرانی احکامات کے مخالف ہے۔ ایسا کیوں؟
ایسا ااس لئے کہ رسول اکرم کبھی بھی قرآن حکیم کے مخالف کوئی حکم دے ہی نہیں سکتے تھے۔ لیکن مذہبی سیاسی بازیگر ایسا نہیں مانتے۔ منطقی طور پر دیکھئے، اگر آپ قرآن حکیم کے مخالف روایات ہٹا دیں تو باقی تو پھر قرآن حکیم کے احکامات ہی بچتے ہیں۔ اس طرح ان مذہبی سیاسی بازیگروں کو اپنی من مانی کرنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔

گو کہ فرداً فرداً ان موضوعات کی ایک بہت طویل فہرست ہے، جہاں روایات ، قرآن کے مطابق نہیں ہیں اور ان سب پر بحث یہاں پر ممکن نہیں ہے لیکن ہم بآسانی ایسے موضوعات کے گروپ بنا سکتے ہیں جہاں قرآن حکیم کا پیغام و حکم بالکل الگ ہے اور ان کتب روایات یا ان سے بنے ہوئے قوانین کا حکم بالکل الگ۔

یہ گروپ کچھ اس طرح ہیں۔ 1۔ غلامی کے ذریعے اور تعلیم سے محروم رکھ کر، مردوں کا استحصال، 2۔ مذہب کو بطور سیاست استعمال کرکے پبلک وسائیل پر قبضہ اور ذاتی خواہشات کی تکمیل، 3۔ لونڈی بنا کر، اور تعلیم سے محروم رکھ کر عورتوں کا استحصال۔ ۔ ایک مخصوص طبقہ، کسی نا کسی طرح اس قسم کے نظریات کا قائیل ہے۔ میں اس کو "ملا ازم " یا "مذہبی سیاسی بازیگری" کا نام دیتا ہوں آپ کہیں گے کہ میں نے بہت ہی بڑے الزامات عائید کردیے ہیں۔ تو میں اس کے لئے آپ کو ہر مد میں ایک مثال دیتا ہوں۔ کہ عام طور پر مذہبی سیاسی بازیگروں کی جانب سے کیا سمجھایا جاتا ہے اور قرآن حکیم کا صاف ، سیدھا اور واضح بیان کیا ہے۔

عورتوں کو لونڈی بنا کر استحصال،
یہ تعلیم بہت ہی عام دی جاتی ہے کہ ۔۔ لونڈی بنانا جائز ہے یا متع کرنا جائز ہے۔ بہت سے طبقے عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ ان کے مساوی حقوق کے خلاف ہیں۔ حکومت میں ان کی مساوی شراکت کے خلاف ہیں اور قانون سازی میں ان کی شرکت کے خلاف ہیں۔ اس نکات و نظریات کے تانے بانے "کتب روایات " سے ملتے ہیں۔

جبکہ قرآن حکیم بہت ہی واضح طور پر غلامی یا لونڈی بنانے کے خلاف ہے۔ انصاف کی غیر موجودگی میں صرف ایک شادی کا حکم دیتا ہے۔ اور صرف بے سہارا اور یتیم عورتوں سے انصاف کی شرط پر سہارا دینے کے لئے ایک سے ذائید شادی کا آپشن رکھتا ہے تاکہ معاشرے میں استحکام رہے۔ اور مائیں قوم کی تعمیر میں حصہ لیتی رہیں۔ قرآن حکیم ، ہر شعبے میں تعلیم کا حکم دیتا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے قانون سازی میں مساوی شراکت کی ضرورت کو واضح کرتا ہے ۔

بیشتر ملاء شرعی مہر کے نام پر ٹکوں میں عورت کے حصول کے قائیل ہیں جبکہ قرآن حکیم حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر نبی کے مہر کی مقدار آٹھ یا دس سال کی خدمت قرار دیتا ہے۔ جس کو یہ ٹولہ شریعت موسوی قرار دے کر رد کرتا ہے۔ اور شریعت محمدی کے نام پر شرعی مہر کے تعین بتیس روپے آٹھ آنے کی گردان کرتا نظر آتا ہے۔ قرآن حکیم شادی کو ایک بھاری معاہدہ قرار دیتا ہے اور معاہدے کے لئے ذہنی بلوغت کی شرط عائید کرتا ہے۔ جبکہ کتب روایات بچیوں کی شادی کو جائز قرار دیتی نظر آتی ہیں۔ قرآن حکیم طلاق کی صورت میں مرد کو گھر چھوڑ جانے کی اجازت دیتا ہے اور عورتوں کو گھر سے نا نکالنے کا حکم دیتا ہے ( تازہ ترین حقوق نسواں کی حفاظت کا قانون، پنجاب میں یہی قرآنی قانون موجود ہے) جبکہ کتب روایات، طلاق (اعلان اور عدت کی تکمیل) پر عورت کا اس کے گھر پر حق تسلیم نہیں کرتی ہیں۔ ملاء اس لئے بھی اس قانون کے خلاف ہیں۔

مردوں کی غلامی اور استحصال
مردوں کو غلام بنانے کے تانے بانے بھی کتب روایات میں ملتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ مناسب ٹیکس وصول کرکے اس کو فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرے۔ جسمانی مظبوطی مردوں کو مزدوری اور جسمانی مشقت کے کام کرنے میں مدد دیتی ہے لیکن اس کے لئے دولت کی مناسب روانی ضروری ہے۔ اس مناسب روانی کے لئے قرآن حکیم معیشیت کو جاری رکھنے کے لئے ہر آمدن ، ہر اضافہ اور ہر بڑھوتری پر 20 فی صد ٹیکس تجویز کرتا ہے۔ لیکن روایات اور ان کی بنیاد پر ہوئی قانون سازی نے اس پالیسی کو سالانہ بچت کے ڈھائی فی صد تک محدود کردیا ہے تاکہ امیر افراد صرف ڈھائی فی صد ٹیکس ادا کریں ۔ دولت کی روانی کی اس کمی کی وجہ سے مرد اور عورت دونوں معیشیت میں اپنے جائز حصے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جبکہ قرآن تو صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ دولت کی روانی کو صرف امیر لوگوں کے درمیان امارت کا سرکٹ نا بناؤ۔

قوم کی دولت پر قبضہ :
تاریخ گواہ ہے کہ زیادہ تر مذہبی سیاسی بازیگری کا مقصد صرف قوم کی دولت پر قبضہ رہا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ طرح طرح کی روایات تراشی جائیں اور پھر ان سے دلیل لائی جائے کہ کس طرح صرف ایک فرد کی بادشاہت ہو تاکہ اس کو دباؤ دے کر قوانین بنائے جاسکیں، سزائیں دی جاسکے۔ ہم کو مسلمان تاریخ کے تاریک ادوار میں کبھی "باہمی مشورے سے فیصلے یا قانون سازی" کی مثال نہیں ملتی۔ کسی بنکاری نظام کی مثال نہیں ملتی، فصلوں کی بڑھوتری کے لئے نہری نظام کی مثال نہیں ملتی ، عوام الناس کے علم کے اضافے کے لئے کسی تعلیلمی نظام کی مثال نہیں ملتی ۔

لیکن اس کے برعکس ، آپ کو "تارک الحدیث " قرار دے کر قتل کئے جانے کے فتوے ضرور ملیں گے۔ مذہبی سیاسی بازیگر صرف اور صرف دہشت سے عوام پر قابو پاتے ہیں باہمی مشورے کی حکومت سے نہیں۔ اللہ تعالی نے صرف دو جرائم کی سزا موت رکھی ، ایک قتل اور دوسرا فساد فی الارض اللہ۔ قتل تو سب جانتے ہیں کہ کیا ہے۔ فساد فی الارض اللہ کیا ہے؟ قتل و غارتگری کو آسان اور مرغوب سمجھنا ، قرار دینا اور عمل کرنا۔ مذہبی سیاسی بازیگر اپنی من گھڑت کتب رویات کی مدد سے ارتداد یعنی دین سے پھر جانے کی سزا بھی موت قرار دیتے ہیں۔ تاکہ کوئی بھی ان مذہبی سیاسی بازیگروں کی مخالفت نا کرسکے کہ جونہیں ایسی کوئی مخالفت کی یہ لوگ اپنی مخالفت کو دین کی مخالفت قرار دے کر ، اچھے بھلے مسلمان کو مرتد قرآر دے دیتے ہیں اور سزا قتل رکھتے ہیں تاکہ ان مذہبی سیاسی بازیگروں مخالفت نا ہوسکے۔ جبکہ اللہ تعالی تو صاف صاف فرما چکا ہے کہ نیکی بدی سے الگ ہوگئی ہے جو چاہے قبول کرے جو چاہے انکار کردے۔

تو یہ ضروری ہے کہ قرآن کو پڑھا اور سمجھا جائے، یہ قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے۔ اس کو اسی عقل سے سمجھا جائے جس کے لئے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ یہ کتاب اور احکامات علم والوں اور غور کرنے والوں کے لئے ہیں ، بار بار اللہ تعالی دریافت فرماتے ہیں کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔ ؟

والسلام
 

غدیر زھرا

لائبریرین
دلچسپ.. میں اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہوں گی کہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا تعارف ان کی کتاب "من کی دنیا" پڑھ کر حاصل ہوا تھا اور وہ میری پسندیدہ کتب میں سے ایک رہی..بہت شکریہ شراکت کے لیے :)
 

عدنان عمر

محفلین
علامہ پرویز پر انکار حدیث کا جو الزام لگایا گیا اس کے جواب میں انہوں نے ایک کتاب "منکرِ حدیث کون؟" لکھی تھی۔ وہ بھی پڑھی آپ نے؟
میں نے پرویز صاحب کی دو کتابیں ’’اسباب زوال امت‘‘ اور ’’تصوف کی حقیقت‘‘ پڑھی تھیں۔ ’’منکرِ حدیث کون؟‘‘ پڑھی تو نہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ انھوں نے اس کتاب میں اس الزام کی تردید کی تھی۔ میں چونکہ ان کی دوکتابیں پڑھ چکا تھا اور اس دورانیے میں میرا پرویز صاحب کے پیروکاروں میں اٹھنا بیٹھنا بھی تھا اور پرویز صاحب کی تعلیمات کے حوالے سے ان سے تبادلہِ خیال اور بعض اوقات مباحثہ بھی ہوتا تھا، اس لیے میں پرویز صاحب کی فکر اور بنیادی تعلیمات سے واقف ہوچکا تھا۔ میں اب بھی پرویز صاحب کی فکر کو انکار حدیث اور عقل پرستی پرمبنی سمجھتا ہوں۔ کبھی یہ کتاب (منکر حدیث کون؟) دستیاب ہوئی تو تفصیلاً پڑھ کر اپنے تاثرات پیش کروں گا۔
 

یاز

محفلین
ویسے ڈاکٹر برق صاحب کے’ متقدین ‘یہ کہتے ہیں کہ وہ آخری عمر میں اپنے دو اسلام والے نظریے سے تائب ہو گئے تھے۔ اس پر کئی گرما گرم مباحث پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں بھی ہو چکے ہیں :)
اس بات کا کھوج لگانے کو میں نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب کی تین کتب ڈاؤن لوڈ کر کے ان کا بیشتر حصہ پڑھا ہے۔
من کی دنیا ۔ یہ 1960 میں لکھی گئی۔ یہ روحانیات اور تصوف سے متعلق ہے
تاریخِ حدیث ۔ یہ کتاب 1969 میں لکھی گئی۔ یہ حدیث کے موضوع پہ ہے اور دو اسلام کے موضوع کے قریب ترین ہے۔
میری آخری کتاب ۔ یہ برق صاحب کی آخری کتاب ہے، اور 1976 سے 77 تک لکھی گئی۔ یہ کتاب قرآن میں موجود سائنسی انکشافات کے بارے میں ہے۔

دیکھا جائے تو "دو اسلام" سے رجوع کرنے کے ضمن میں من کی دنیا یا میری آخری کتاب کی بجائے تاریخِ حدیث نامی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اور یہ کتاب واقعی اپنے سابقہ بیانات سے یکسر متضاد دکھائی دیتی ہے۔ اسی بابت ڈاکٹر برق ابتدائیے میں ہی لکھتے ہیں کہ
"جو لوگ اس موضوع پر میری پہلی تحریروں سے آشنا ہیں، وہ یقیناً یہ اعتراض کریں گے کہ میرا موجودہ موقف پہلے موقف سے متصادم ہو رہا ہے۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انسانی فکر ایک متحرک چیز ہے، جو کسی ایک مقام پر مستقل قیام نہیں کرتی اور سدا خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی ہے۔ جس دن فکرِ انسان کا یہ ارتقاء رک جائے گا، علم کی تمام راہیں مسدود ہو جائیں گی۔ ۔۔۔۔۔الخ"

کتاب میں موجود تمام مواد بھی گزشتہ کتاب سے یکسر مختلف ہے۔ اس حد تک کہ انسان کو گماں ہونے لگتا ہے کہ کیا واقعی یہ بھی ڈاکٹر برق کی ہی کتاب ہے۔
سوشل میڈیا پر اس ضمن میں جو مباحثہ چھڑا تھا، اس میں پہلے جاوید چودھری نے دو اسلام کے بارے میں لکھا۔ اس کے بعد اوریا مقبول جان نے اس کا جواب لکھا اور انکشاف کیا کہ خود ڈاکٹر برق اس سے تائب ہو چکے تھے۔ اس کے جواب میں جاوید چودھری نے پھر لکھا اور (میری نظر میں) صحافیانہ بددیانتی یا کم علمی کا ثبوت دیتے ہوئے دلائل میں یہ تو لکھا کہ ڈاکٹر برق اگر تائب ہو گئے تھے تو من کی دنیا نامی کتاب میں یا میری آخری کتاب میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا، جبکہ "تاریخِ حدیث" کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
یہ درست ہے کہ بہت سے افراد "کتب روایات " کی آئینی حیثیت کے قائیل ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ ان کتب میں سب کچھ صحیح ہے ۔ یعنی کوئی بھی روایت اس لئے رد نہیں کی جاسکتی کہ وہ قرانی احکامات کے مخالف ہے۔ ایسا کیوں؟
ایسا ااس لئے کہ رسول اکرم کبھی بھی قرآن حکیم کے مخالف کوئی حکم دے ہی نہیں سکتے تھے۔ لیکن مذہبی سیاسی بازیگر ایسا نہیں مانتے۔ منطقی طور پر دیکھئے، اگر آپ قرآن حکیم کے مخالف روایات ہٹا دیں تو باقی تو پھر قرآن حکیم کے احکامات ہی بچتے ہیں۔ اس طرح ان مذہبی سیاسی بازیگروں کو اپنی من مانی کرنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔

گو کہ فرداً فرداً ان موضوعات کی ایک بہت طویل فہرست ہے، جہاں روایات ، قرآن کے مطابق نہیں ہیں اور ان سب پر بحث یہاں پر ممکن نہیں ہے لیکن ہم بآسانی ایسے موضوعات کے گروپ بنا سکتے ہیں جہاں قرآن حکیم کا پیغام و حکم بالکل الگ ہے اور ان کتب روایات یا ان سے بنے ہوئے قوانین کا حکم بالکل الگ۔

یہ گروپ کچھ اس طرح ہیں۔ 1۔ غلامی کے ذریعے اور تعلیم سے محروم رکھ کر، مردوں کا استحصال، 2۔ مذہب کو بطور سیاست استعمال کرکے پبلک وسائیل پر قبضہ اور ذاتی خواہشات کی تکمیل، 3۔ لونڈی بنا کر، اور تعلیم سے محروم رکھ کر عورتوں کا استحصال۔ ۔ ایک مخصوص طبقہ، کسی نا کسی طرح اس قسم کے نظریات کا قائیل ہے۔ میں اس کو "ملا ازم " یا "مذہبی سیاسی بازیگری" کا نام دیتا ہوں آپ کہیں گے کہ میں نے بہت ہی بڑے الزامات عائید کردیے ہیں۔ تو میں اس کے لئے آپ کو ہر مد میں ایک مثال دیتا ہوں۔ کہ عام طور پر مذہبی سیاسی بازیگروں کی جانب سے کیا سمجھایا جاتا ہے اور قرآن حکیم کا صاف ، سیدھا اور واضح بیان کیا ہے۔

عورتوں کو لونڈی بنا کر استحصال،
یہ تعلیم بہت ہی عام دی جاتی ہے کہ ۔۔ لونڈی بنانا جائز ہے یا متع کرنا جائز ہے۔ بہت سے طبقے عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ ان کے مساوی حقوق کے خلاف ہیں۔ حکومت میں ان کی مساوی شراکت کے خلاف ہیں اور قانون سازی میں ان کی شرکت کے خلاف ہیں۔ اس نکات و نظریات کے تانے بانے "کتب روایات " سے ملتے ہیں۔

جبکہ قرآن حکیم بہت ہی واضح طور پر غلامی یا لونڈی بنانے کے خلاف ہے۔ انصاف کی غیر موجودگی میں صرف ایک شادی کا حکم دیتا ہے۔ اور صرف بے سہارا اور یتیم عورتوں سے انصاف کی شرط پر سہارا دینے کے لئے ایک سے ذائید شادی کا آپشن رکھتا ہے تاکہ معاشرے میں استحکام رہے۔ اور مائیں قوم کی تعمیر میں حصہ لیتی رہیں۔ قرآن حکیم ، ہر شعبے میں تعلیم کا حکم دیتا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے قانون سازی میں مساوی شراکت کی ضرورت کو واضح کرتا ہے ۔

بیشتر ملاء شرعی مہر کے نام پر ٹکوں میں عورت کے حصول کے قائیل ہیں جبکہ قرآن حکیم حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر نبی کے مہر کی مقدار آٹھ یا دس سال کی خدمت قرار دیتا ہے۔ جس کو یہ ٹولہ شریعت موسوی قرار دے کر رد کرتا ہے۔ اور شریعت محمدی کے نام پر شرعی مہر کے تعین بتیس روپے آٹھ آنے کی گردان کرتا نظر آتا ہے۔ قرآن حکیم شادی کو ایک بھاری معاہدہ قرار دیتا ہے اور معاہدے کے لئے ذہنی بلوغت کی شرط عائید کرتا ہے۔ جبکہ کتب روایات بچیوں کی شادی کو جائز قرار دیتی نظر آتی ہیں۔ قرآن حکیم طلاق کی صورت میں مرد کو گھر چھوڑ جانے کی اجازت دیتا ہے اور عورتوں کو گھر سے نا نکالنے کا حکم دیتا ہے ( تازہ ترین حقوق نسواں کی حفاظت کا قانون، پنجاب میں یہی قرآنی قانون موجود ہے) جبکہ کتب روایات، طلاق (اعلان اور عدت کی تکمیل) پر عورت کا اس کے گھر پر حق تسلیم نہیں کرتی ہیں۔ ملاء اس لئے بھی اس قانون کے خلاف ہیں۔

مردوں کی غلامی اور استحصال
مردوں کو غلام بنانے کے تانے بانے بھی کتب روایات میں ملتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ مناسب ٹیکس وصول کرکے اس کو فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرے۔ جسمانی مظبوطی مردوں کو مزدوری اور جسمانی مشقت کے کام کرنے میں مدد دیتی ہے لیکن اس کے لئے دولت کی مناسب روانی ضروری ہے۔ اس مناسب روانی کے لئے قرآن حکیم معیشیت کو جاری رکھنے کے لئے ہر آمدن ، ہر اضافہ اور ہر بڑھوتری پر 20 فی صد ٹیکس تجویز کرتا ہے۔ لیکن روایات اور ان کی بنیاد پر ہوئی قانون سازی نے اس پالیسی کو سالانہ بچت کے ڈھائی فی صد تک محدود کردیا ہے تاکہ امیر افراد صرف ڈھائی فی صد ٹیکس ادا کریں ۔ دولت کی روانی کی اس کمی کی وجہ سے مرد اور عورت دونوں معیشیت میں اپنے جائز حصے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جبکہ قرآن تو صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ دولت کی روانی کو صرف امیر لوگوں کے درمیان امارت کا سرکٹ نا بناؤ۔

قوم کی دولت پر قبضہ :
تاریخ گواہ ہے کہ زیادہ تر مذہبی سیاسی بازیگری کا مقصد صرف قوم کی دولت پر قبضہ رہا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ طرح طرح کی روایات تراشی جائیں اور پھر ان سے دلیل لائی جائے کہ کس طرح صرف ایک فرد کی بادشاہت ہو تاکہ اس کو دباؤ دے کر قوانین بنائے جاسکیں، سزائیں دی جاسکے۔ ہم کو مسلمان تاریخ کے تاریک ادوار میں کبھی "باہمی مشورے سے فیصلے یا قانون سازی" کی مثال نہیں ملتی۔ کسی بنکاری نظام کی مثال نہیں ملتی، فصلوں کی بڑھوتری کے لئے نہری نظام کی مثال نہیں ملتی ، عوام الناس کے علم کے اضافے کے لئے کسی تعلیلمی نظام کی مثال نہیں ملتی ۔

لیکن اس کے برعکس ، آپ کو "تارک الحدیث " قرار دے کر قتل کئے جانے کے فتوے ضرور ملیں گے۔ مذہبی سیاسی بازیگر صرف اور صرف دہشت سے عوام پر قابو پاتے ہیں باہمی مشورے کی حکومت سے نہیں۔ اللہ تعالی نے صرف دو جرائم کی سزا موت رکھی ، ایک قتل اور دوسرا فساد فی الارض اللہ۔ قتل تو سب جانتے ہیں کہ کیا ہے۔ فساد فی الارض اللہ کیا ہے؟ قتل و غارتگری کو آسان اور مرغوب سمجھنا ، قرار دینا اور عمل کرنا۔ مذہبی سیاسی بازیگر اپنی من گھڑت کتب رویات کی مدد سے ارتداد یعنی دین سے پھر جانے کی سزا بھی موت قرار دیتے ہیں۔ تاکہ کوئی بھی ان مذہبی سیاسی بازیگروں کی مخالفت نا کرسکے کہ جونہیں ایسی کوئی مخالفت کی یہ لوگ اپنی مخالفت کو دین کی مخالفت قرار دے کر ، اچھے بھلے مسلمان کو مرتد قرآر دے دیتے ہیں اور سزا قتل رکھتے ہیں تاکہ ان مذہبی سیاسی بازیگروں مخالفت نا ہوسکے۔ جبکہ اللہ تعالی تو صاف صاف فرما چکا ہے کہ نیکی بدی سے الگ ہوگئی ہے جو چاہے قبول کرے جو چاہے انکار کردے۔

تو یہ ضروری ہے کہ قرآن کو پڑھا اور سمجھا جائے، یہ قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے۔ اس کو اسی عقل سے سمجھا جائے جس کے لئے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ یہ کتاب اور احکامات علم والوں اور غور کرنے والوں کے لئے ہیں ، بار بار اللہ تعالی دریافت فرماتے ہیں کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔ ؟

والسلام
محترم جناب فاروق سرور خان صاحب! میں نے اس لڑی میں پیش کردہ آپ کی دونوں تحاریر کا مطالعہ کیا ہے۔ ان تحریروں کو پڑھ کر ذہن میں چند سوالات اٹھے ہیں۔ اگر آپ ان سوالات کے جوابات دینا پسند کریں تو میں آپ کا ممنوں ہوں گا۔
کیا آپ کے خیال میں مذہبی طبقہ کتبِ روایات یعنی احادیث و آثار کی غلط تعبیر پیش کر کے عوام کا استحصال کررہا ہے؟
اگر یہ طبقہ کتب روایات کی غلط تعبیر پیش کررہا ہے تو آپ کے خیال میں درست تعبیر کہاں سے ملے گی؟
یا آپ کے خیال میں کتب روایات بذاتِ خود ناقابل اعتبار ہیں اور ان پر عمل نہ کیا جانا چاہیے؟
اگر صرف قرآن پاک سے ہی ہدایت اور عملی رہنمائی ملے گی تو کلامِ الٰہی کی درست تعبیر کے لیے کن شخصیات یا جماعتوں پر بھروسہ کیا جانا چاہیے؟
یا پھر ہر فرد اپنی عقل کے مطابق قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے؟

امید ہے کہ آپ ان سوالات کے جوابات سے سرفرازفرمائیں گے۔ شکریہ۔
 
میرا مقصد اس دھاگے کو قرآن اور حدیث کی روائتی بحث کا اکھاڑہ بنانا نہیں ۔ جو میرا تجربہ ہے وہ میں نے آپ سب کو بتا دیا۔ چونکہ آپ نے پوچھا ہے تو آپ کے سوالات کے بارے میں میرے خیالات یہ ہیں۔

کیا آپ کے خیال میں مذہبی طبقہ کتبِ روایات یعنی احادیث و آثار کی غلط تعبیر پیش کر کے عوام کا استحصال کررہا ہے؟
مذہبی طبقہ دو الگ الگ گروپس پر مشتمل ہے۔ ایک علماء اور دوسرے مذہبی سیاست دان۔ میرا اشارہ واضح طور پر مذہبی سیاسی ٹولے کی طرف ہے۔

اگر یہ طبقہ کتب روایات کی غلط تعبیر پیش کررہا ہے تو آپ کے خیال میں درست تعبیر کہاں سے ملے گی؟
ان کتب روایات میں دو طرح کی روایات شامل ہیں۔ ایک جو صاف اوار واضح طور پر قرآن حکیم کے مطابق احکامات رکھتی ہیں۔ ان احادیث پر کوئی شبہ نہیں ۔ اور دوسری وہ جو قرآن حکیم کے احکامات کے واضح طور پر خلاف ہیں ، جس کے لئے کوئی بہت بڑی تاویل نہیں چاہیے۔ ایک عام قاری کو بآسانی نظر آنے والا فرق۔ ہر شخص کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ اس کتاب کے احکامات پر یقین رکھے گا جو رسول اکرم پر نازل ہوئی تو درست تعبیر قرآن حکیم سے ہی ملے گی کہ وہ روایات جو مخالف قران احکام رکھتی ہیں ان پر آپ قرآن حکیم کا حکم مانیں گے یا نہیں ؟

یا آپ کے خیال میں کتب روایات بذاتِ خود ناقابل اعتبار ہیں اور ان پر عمل نہ کیا جانا چاہیے؟
کتب روایات میں جیسا کہ میں نے عرض کیا کتب روایات کی وہ احادیث جو قرآن حکیم کے مطابق ہیں ۔ ان پر عمل کیا جانا چاہئے۔ اور جو قرآنی احکامات کے مخالف ہیں ان پر ہر فرقہ اپنی اپنی رائے رکھتا ہے۔
اگر صرف قرآن پاک سے ہی ہدایت اور عملی رہنمائی ملے گی تو کلامِ الٰہی کی درست تعبیر کے لیے کن شخصیات یا جماعتوں پر بھروسہ کیا جانا چاہیے؟
یا پھر ہر فرد اپنی عقل کے مطابق قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے؟

اگر صرف قرآن پاک سے ہی ہدایت اور عملی رہنمائی ملے گی تو کلامِ الٰہی کی درست تعبیر کے لیے کن شخصیات یا جماعتوں پر بھروسہ کیا جانا چاہیے؟
یا پھر ہر فرد اپنی عقل کے مطابق قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے؟

آپ کا یہ سوال بہت ہی اچھا ہے۔ اس کا جواب رب کریم نے دے دیا ہے کہ ہر نفس اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور اس قرآن کو عقل سے سمجھنے کے لئے آسان بنایا ہے۔ تو ضروری ہے کہ قرآن پاک اور ان احادیث سے رہنمائی حاصل کی جائے جو واضح طور پر قرآن کے مخالف نہیں ہیں۔

جو سوال میں دیکھتا ہوں، ان میں سے ایک کچھ اس طرح ہے :
ڈھائی فی صد زکواۃ کا حکم اللہ تعالی نے کہاں دیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ 20 فیصد اللہ اوار اس کے رسول کا حق کو ڈھائی فی صد سے تبدیل کیا جائے؟ یہ تبدیلی کس نے کی ؟ (میں شیعہ نہیں ہوں، لیکن منطقی اور عقلی طور پر کوئی قوم بھی ڈھائی فی صد ٹیکس پر ترقی نہیں کرسکتی ہے۔ :) )

آپ میرے اوپر کے مراسلوں کو سوالات کے طور پر پڑھئے ۔۔۔ بیانی طور پر نہیں ۔

والسلام
 
سوشل میڈیا پر اس ضمن میں جو مباحثہ چھڑا تھا، اس میں پہلے جاوید چودھری نے دو اسلام کے بارے میں لکھا۔ اس کے بعد اوریا مقبول جان نے اس کے خلاف لکھا اور بیان کیا کہ خود ڈاکٹر برق اس سے تائب ہو چکے تھے۔ اس کے جواب میں جاوید چودھری نے پھر لکھا اور (میری نظر میں) صحافیانہ بددیانتی یا کم علمی کا ثبوت دیتے ہوئے دلائل میں یہ تو لکھا کہ ڈاکٹر برق اگر تائب ہو گئے تھے تو من کی دنیا نامی کتاب میں یا میری آخری کتاب میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا، جبکہ "تاریخِ حدیث" کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا

جب بھی کوئی شخص کسی بھی روایت پر شبہ کا اظہار کرتا ہے تو اس کو ساری احادیث کا منکر کہہ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ اب واجب القتل ہے۔ غلام جیلانی برق کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ لگتا ہے۔
 

حافظ احمد

محفلین
اس بات کا کھوج لگانے کو میں نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب کی تین کتب ڈاؤن لوڈ کر کے ان کا بیشتر حصہ پڑھا ہے۔
من کی دنیا ۔ یہ 1960 میں لکھی گئی۔ یہ روحانیات اور تصوف سے متعلق ہے
تاریخِ حدیث ۔ یہ کتاب 1969 میں لکھی گئی۔ یہ حدیث کے موضوع پہ ہے اور دو اسلام کے موضوع کے قریب ترین ہے۔
میری آخری کتاب ۔ یہ برق صاحب کی آخری کتاب ہے، اور 1976 سے 77 تک لکھی گئی۔ یہ کتاب قرآن میں موجود سائنسی انکشافات کے بارے میں ہے۔

دیکھا جائے تو "دو اسلام" سے رجوع کرنے کے ضمن میں من کی دنیا یا میری آخری کتاب کی بجائے تاریخِ حدیث نامی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ اور یہ کتاب واقعی اپنے سابقہ بیانات سے یکسر متضاد دکھائی دیتی ہے۔ اسی بابت ڈاکٹر برق ابتدائیے میں ہی لکھتے ہیں کہ
"جو لوگ اس موضوع پر میری پہلی تحریروں سے آشنا ہیں، وہ یقیناً یہ اعتراض کریں گے کہ میرا موجودہ موقف پہلے موقف سے متصادم ہو رہا ہے۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انسانی فکر ایک متحرک چیز ہے، جو کسی ایک مقام پر مستقل قیام نہیں کرتی اور سدا خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی ہے۔ جس دن فکرِ انسان کا یہ ارتقاء رک جائے گا، علم کی تمام راہیں مسدود ہو جائیں گی۔ ۔۔۔۔۔الخ"

کتاب میں موجود تمام مواد بھی گزشتہ کتاب سے یکسر مختلف ہے۔ اس حد تک کہ انسان کو گماں ہونے لگتا ہے کہ کیا واقعی یہ بھی ڈاکٹر برق کی ہی کتاب ہے۔
سوشل میڈیا پر اس ضمن میں جو مباحثہ چھڑا تھا، اس میں پہلے جاوید چودھری نے دو اسلام کے بارے میں لکھا۔ اس کے بعد اوریا مقبول جان نے اس کا جواب لکھا اور انکشاف کیا کہ خود ڈاکٹر برق اس سے تائب ہو چکے تھے۔ اس کے جواب میں جاوید چودھری نے پھر لکھا اور (میری نظر میں) صحافیانہ بددیانتی یا کم علمی کا ثبوت دیتے ہوئے دلائل میں یہ تو لکھا کہ ڈاکٹر برق اگر تائب ہو گئے تھے تو من کی دنیا نامی کتاب میں یا میری آخری کتاب میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا، جبکہ "تاریخِ حدیث" کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔
 

حافظ احمد

محفلین
مذہبی حلقوں کی جانب سے عام طور پر یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جب کوئی بھی مروجہ مذہبی سوچ پر تنقید کرتا ہے تو اس کی زندگی میں اس کے اٹھائے گئے دلائل کا جواب نہیں دیا جاتا۔ اور جب وہ وفات پا جاتا ہے تو مشہور کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خیالات سے تائب ہو گیا تھا۔ بھئی اگر وہ تائب بھی ہو جائے لیکن اس کے اٹھائے گئے سوالات کا تو جواب دو، ان سوالات و دلائل کو کیوں گول کر رہے ہو۔
 

حافظ احمد

محفلین
جب بھی کوئی شخص کسی بھی روایت پر شبہ کا اظہار کرتا ہے تو اس کو ساری احادیث کا منکر کہہ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ اب واجب القتل ہے۔ غلام جیلانی برق کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ لگتا ہے۔
اسکے علاوہ مذہبی حلقے کی ایک تکنیکی یہ بھی ہے کہ کہ ان اس اٹھائے گئے گئے سوالات اور دلائل کا کا جواب نہیں دیا جاتا کتا بلکہ صاحب تنقید کو اس کے مرنے کے بعد بعد تائب مزید مشہور کردیا جاتا ہے ۔ بھائی اگر کوئی تائب بھی ہو گیا ہو تو اس کے اٹھائے گئے دلائل سوالات تو اب بھی موجود ہیں ہیں ان کا جواب تو نہیں دیا آپ نے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اسکے علاوہ مذہبی حلقے کی ایک تکنیکی یہ بھی ہے کہ کہ ان اس اٹھائے گئے گئے سوالات اور دلائل کا کا جواب نہیں دیا جاتا کتا بلکہ صاحب تنقید کو اس کے مرنے کے بعد بعد تائب مزید مشہور کردیا جاتا ہے

مسعود احمد صاحب نے تفہیمِ اسلام نامی کتاب میں غلام جیلانی صاحب کے تائب ہونے کا ذکر کیا ہے اور اس کتاب کے آخر میں برق صاحب کے خطوط بھی شائع کیے گئے ہیں۔

بھائی اگر کوئی تائب بھی ہو گیا ہو تو اس کے اٹھائے گئے دلائل سوالات تو اب بھی موجود ہیں ہیں ان کا جواب تو نہیں دیا آپ نے۔

مسعود احمد صاحب نے مذکورہ کتاب میں برق صاحب کے اُٹھائے گئے دلائل کا جواب بھی دیا ہے۔
 
مذہبی حلقوں کی جانب سے عام طور پر یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جب کوئی بھی مروجہ مذہبی سوچ پر تنقید کرتا ہے تو اس کی زندگی میں اس کے اٹھائے گئے دلائل کا جواب نہیں دیا جاتا۔ اور جب وہ وفات پا جاتا ہے تو مشہور کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خیالات سے تائب ہو گیا تھا۔ بھئی اگر وہ تائب بھی ہو جائے لیکن اس کے اٹھائے گئے سوالات کا تو جواب دو، ان سوالات و دلائل کو کیوں گول کر رہے ہو۔

اسکے علاوہ مذہبی حلقے کی ایک تکنیکی یہ بھی ہے کہ کہ ان اس اٹھائے گئے گئے سوالات اور دلائل کا کا جواب نہیں دیا جاتا کتا بلکہ صاحب تنقید کو اس کے مرنے کے بعد بعد تائب مزید مشہور کردیا جاتا ہے ۔ بھائی اگر کوئی تائب بھی ہو گیا ہو تو اس کے اٹھائے گئے دلائل سوالات تو اب بھی موجود ہیں ہیں ان کا جواب تو نہیں دیا آپ نے۔

اگر آپ نے وہ کتب نہیں پڑھیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کے منکرین حدیث کے اعتراضات کا جواب نہیں دیا گیا ہے ۔ اگر آپ حق اور سچ کی جستجو میں ہیں تو آپ کو ان کتب کو بھی پڑھنا ہوگا ۔ ورنہ تو انکارِ حدیث بہت آسان راستہ ہے اور سہل پسند وں کے تمام مسائل کا حل اسی انکار حدیث میں موجود ہے ۔

غلام جیلانی برق کی دو اسلام کے جواب میں متعدد کتب تحریر کی گئی ہیں ۔ جن میں سے مولانا سرفراز خان صفدر کی "صرف ایک اسلام"، مفتی احمد یا رخان نعیمی کی "ایک اسلام"، حافظ محمد گوندلوی کی"دوامِ حدیث" اور کیپٹن مسعود احمد بی۔ایس۔سی کی "تفہیم اسلام بجواب دو اسلام" قابلِ ذکر ہیں ۔ اپنی میں مسعود احمد صاحب نے "دو اسلام" کے ایک ایک پیراگراف کا علیحدہ علیحدہ جواب لکھا ہے۔ اس کتاب (تفہیم اسلام بجواب دو اسلام) کو پڑھ کر غلام جیلانی برق صاحب نے اپنے موقف سے رجوع کیا اور انکارِ حدیث سے تائب ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نےازالے کے طور پر کتاب تاریخ تدوین حدیث لکھی اور محدثیین کی سوانح پر بھی کتب لکھیں ۔ اپنی کتاب کے آخر میں مسعود احمد صاحب نے برق صاحب کے قلمی خطوط کے فوٹو بھی شائع کئے ہیں ۔ ان خطوط میں برق صاحب نے خود اعتراف کیا ہے کہ ان کی کتاب "دو اسلام" میں کئے گئے اعتراضات بے سروپا تھے ، اس کی زبان غیر سنجیدہ ، غیر علمی اور سخت جانبدارانہ تھی ۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے ۔ اور یہ بھی لکھا کہ انہوں نے ناشرین کو تاکید کی ہے کہ آئندہ " دو اسلام " کا کوئی ایڈیشن شائع نہ کیا جائے ۔ غلام جیلانی برق کے متاثرین کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے ۔ اور ان کے اپنے ہاتھ سے لکھے خطوط پڑھنے چاہئیں ۔

علم کی کمی اور کماحقہ تحقیق کا فقدان نہ صرف برق صاحب بلکہ ہر منکرِ حدیث میں پایا جاتا ہے ۔ اگرچہ مسعود صاحب اور دیگر مصنفین نے برق صاحب کے ہرہر اعتراض کا شافی جواب اپنی کتب میں دے دیا ہے اور وہاں تفصیلی طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ میں مثال کے طور پر "دو اسلام" سے برق صاحب کا صرف ایک اعتراض نقل کرتا ہوں تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ ان کی یہ کتاب کس قدر کم علمی اور بد دیانتی کا نتیجہ تھی۔ صفحہ نمبر ۳۲۳ پر وہ ایک حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : " آپ نے فرمایا کہ سورج بعد از غروب خدائی تخت (عرش) کے نیچے سجدہ میں گرجاتا ہے رات بھر اسی حالت میں پڑا دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا رہتا ہے ۔ چنانچہ اسے دوبارہ مشرق سے نکلنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ اسے اجازت نہیں ملے گی اور حکم ہوگا کہ لوٹ جاؤ، چنانچہ وہ مغرب کی طرف سے نکلنا شروع کردے گا "۔ اس کے بعد برق صاحب لکھتے ہیں کہ " اگر ہم رات کے دس بجے پاکستان ریڈیو سے دنیا کو یہ حدیث سنائیں اور کہیں کہ اس وقت سورج عرش کے نیچے سجدہ میں پڑا ہوا ہے تو ساری مغربی دنیا کھلکھلا کر ہنس دے اور وہاں کے تمام مسلمان اسلام چھوڑ دیں۔"

پہلی بات تو یہ کہ برق صاحب نے حدیث کا ترجمہ درست نہیں کیا بلکہ اس میں اپنی طرف سے" رات بھر اسی حالت میں پڑا دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا رہتا ہے " کا اضافہ کیا ہے ۔ اصل حدیث کے متن میں ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ سورۃ الحج آیت ۱۸ میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں : أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَسْجُدُ لَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَ۔ٰوَٰتِ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ وَٱلشَّمْسُ وَٱلْقَمَرُ وَٱلنُّجُومُ وَٱلْجِبَالُ وَٱلشَّجَرُ وَٱلدَّوَآبُّ وَكَثِيرٌۭ مِّنَ ٱلنَّاس . ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آسمان و زمیں کی تمام مخلوقات سورج ، چاند ، ستارے ، پہاڑ ،درخت ،جانور اور بہت سے آدمی اللہ کو سجدہ کرتے ہیں ۔

لہذا سورج کے سجدہ کرنے والی حدیث پر اعتراض قرآن کی اس آیت پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ اگر برق صاحب نے قرآن ترجمے سے پڑھا ہوتا اور سمجھا ہوتا تو کبھی اس حدیث پر اعتراض نہ کرتے ۔ برق صاحب کے نزدیک سجدہ کرنے کا مطلب صرف وہی ہے جس طرح ہم انسان سجدہ کرتے ہیں یعنی سر کو زمین پر ٹیک کر۔ حالانکہ سورۃ النور آیت ۴۱ میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: كُلٌّۭ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُۥ وَتَسْبِيحَهُۥ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِمَا يَفْعَلُونَ . ترجمہ: ہر چیز اپنی نماز اور تسبیح کو جانتی ہے اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں .

پھر سورۃ الاسراء آیت نمبر ۴۴ میں ارشادِ باری تعالٰی ہے : تُسَبِّحُ لَهُ ٱلسَّمَ۔ٰوَٰتُ ٱلسَّبْعُ وَٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِۦ وَلَ۔ٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۔ ترجمہ: اس کی تسبیح کرتے ہیں آسمان اور زمیں اور جو کچھ بھی ان میں موجود ہے ۔ اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح اور حمد بیان نہ کرتی ہو ۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے ۔

یعنی سورج چاند پہاڑ وغیرہ کے سجدے اور تسبیح کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں ۔ یہ باتیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ کچھ باتوں کا علم اللہ تعالٰی نے غیب میں رکھا ہے ۔ بطور مسلمان ہمیں ان پر جوں کا توں ایمان لانا چاہئے ۔ ان باتوں کی اصل کا علم اور عرفان آخرت تک اٹھا رکھا گیا ہے ۔ ان کی حقیقت ہم پر بعد میں کھلے گی ۔
 
Top