ہونے والی ہے بزمِ نو آغاز
بج اٹھے ہیں سبھی سنے ہوئے ساز

عشق اکیسویں صدی میں ہے
وہی راہیں، وہی نشیب و فراز

اس نے پھر سنگِ آستاں بدلا
ہم نے رکھ دی وہی جبینِ نیاز

دور تھا ہر کسی سے ہر کوئی
دی کسی نے قریب سے آواز

بندہ پرور کو یہ نہ تھا معلوم
بندے مانگیں گے بندگی کا جواز

عشق کرتے ہیں لوگ بھی راحیلؔ
ہم روایت شکن، روایت ساز

راحیلؔ فاروق
1 فروری، 2011ء​
 

محمداحمد

لائبریرین
عشق اکیسویں صدی میں ہے
وہی راہیں، وہی نشیب و فراز

اس نے پھر سنگِ آستاں بدلا
ہم نے رکھ دی وہی جبینِ نیاز

دور تھا ہر کسی سے ہر کوئی
دی کسی نے قریب سے آواز

بندہ پرور کو یہ نہ تھا معلوم
بندے مانگیں گے بندگی کا جواز

واہ واہ واہ!

بہت خوب بھائی صاحب!

خوبصورت غزل۔

بہت سی داد بھائی کے لئے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ!! راحیل بھائی بہت خوب!! کیا اچھی غزل ہے !! بہت داد آپ کیلئے!!
اس نے پھر سنگِ آستاں بدلا
ہم نے رکھ دی وہی جبینِ نیاز
کیا بات ہے!! اللہ سلامت رکھے ! شادآباد رہیں۔
 

عاطف ملک

محفلین
اس نے پھر سنگِ آستاں بدلا
ہم نے رکھ دی وہی جبینِ نیاز

عشق کرتے ہیں لوگ بھی راحیلؔ
ہم روایت شکن، روایت ساز
واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واہ
کمال است۔۔۔۔۔کمال است۔۔۔۔۔کمال است
بہت ہی خوبصورت کلام :)
لاجواب :)
 
Top