تعارف ٹارزن کی واپسی - مکرر تعارف

ن

نامعلوم اول

مہمان
محترم دوستو ، اپنا ابتدائی تعارف تو پہلے ہی دن کراو دیا تھا۔ مگر اکثر ساتھیوں کی میرے "دو لفظی" تعارف سے تشفی نہ ہوئی۔ اب ایک اور دھاگے میں کچھ ساتھیوں نے تعارف کا مطالبہ کیا ہے۔ حکم کی تعمیل تو کرنا ہی پڑے گی۔

میری بے رنگ زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ اسکول کے زمانے میں اردو کی کتابوں میں دی گئی نظمیں اچھی لگتی تھیں۔ مگر اصل دلچسپی عمرو عیار، انسپکٹر جمشید، عمران + ایکس ٹُو، ٹارزن کی کہانیوںوغیرہ میں ہوتی تھی۔آس پاس کا ماحول بھی یہی تھا۔ہم بلوچستان کے ایک پس ماندہ علاقے میں رہتے تھے۔ ہم تو گھر میں اردو بولتے تھے۔ مگر وہاں کے اکثر لوگوں کی اردو سے کوئی خاص شناسائی نہ تھی۔اسکول کا حال بھی وہی تھا جو بلوچستان اور اندرونِ سندھ کےسرکاری اسکولوں کا ہوتا ہے۔ سارا بچپن گلی ڈنڈا، فٹبال، کرکٹ، کنچےوغیرہ کھیلنے میں گزرا ۔ میٹرک کے امتحان کے بعد فراغت کے دنوں میں (کہ میٹرک کا رزلٹ پانچ چھ ماہ بعد آتا تھا) ایک دن ایک رشتے کی خالہ کے ہاں ردی کے سامان میں "دیوانِ غالب" ہاتھ لگا۔ پڑھا تو مزہ آیا۔ اُسی کو دن رات کا ساتھی بنا لیا۔ پھر گھر میں پڑی "ضربِ کلیم" پر ہاتھ صاف کیے۔ اس دوران رزلٹ بھی آ گیا۔کچھ نقل (رواج یہی تھا ، ٹیچر بھی نقل کرنے میں مدد دیتے تھے تا کہ بچے بورڈ کے امتحان میں پاس ہو کر ان کی جان چھوڑیں) اور کچھ "تیزیِ طبع" کی بدولت نمبر اچھے آ گئے۔ میں ایف ایس سی (پری میڈیکل) کرنے کوئٹہ چلا آیا اور ایک اچھے سے کالج میں داخلہ لے لیا۔

وہاں کا معیارِ تعلیم بہت بلند اور ٹیچر کافی قابل اور محنتی تھے۔ مگر تیز طرارمحنتی لڑکوں سے مقابلہ کرنا مجھ "شاعرالوجود" کے بس کی بات نہ تھی۔ان حالات میں اصل پڑھائی میں خاک دل لگنا تھا۔ میں نے کالج کی عظیم الشان لائبریری میں دستیاب کلاسیکل شعراء کے کلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔کیا کلیاتِ میر اور کیا کلیاتِ سودا۔ سب پڑھ ڈالیں۔ اس دوران تُک بندی بھی شروع کر دی۔کچھ دن مزاحیہ شعر لکھنے کی کوشش کی پھر سنجیدہ موضوعات کی طرف مائل ہو گیا۔ بچوں کے ماہنامہ "نونہال" میں علمِ عروض پر ایک سلسلہ چھپتا تھا ۔ وہاں سے تقطیع کا ہنر سیکھا اور جلد ہی وزن میں شعر کہنے کے قابل ہو گیا۔ انٹر کا نتیجہ تو وہی نکلتا جو ان حالات میں نکلنا تھا۔ میں سائنس کے تمام مضامین میں "امتیازی نمبروں سے فیل" ہوا۔ حد یہ کے اردو تک میں بمشکل تمام پاس ہو کر یہ ثابت کیا کہ ممتحن حضرات کالج کے لڑکوں کی فی البدیہہ شاعری سے ہر گز متاثر نہیں ہوتے۔

اب ٹرین پوری طرح پٹری سے اتر چکی تھی مگر شاعری میں (اپنی نظر میں) "استاد" ہو چکا تھا۔ فارسی میں تو شروع سے ہی کچھ شُد بُد تھی کہ آس پاس 'دری' اور 'دہواری' (فارسی کے دو لہجے ہیں) بولنے والے موجود تھے۔ اسی بنا پر حافظ، سعدی اور عطار وغیرہ کا مطالعہ بھی شروع کر چکا تھا۔اب میں نے کچھ ماہ ویلڈنگ کا کام سیکھا اور خوب مہارت حاصل کرلی۔ پھر آنکھوں میں شدید خارش کے سبب اسے چھوڑ کر ایک ترکھان کی شاگردی اختیار کی۔ اسی دوران گرتے پڑتے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر ایف اے (اردو ایڈوانس، انڈین ہسٹری، اکنامکس) کا امتحان بمشکل پاس کیا۔اگرچہ ترکھانی میں دو تین ماہ میں ہی اچھا خاصا استاد ہو گیا تھا مگر طبیعت کی تلوّن مزاجی نے وہاں بھی دم لینے نہ دیا۔ بارہ جماعتیں پاس کر لینے کی بعد جی میں سمائی کہ کچھ نیا کیا جائے۔ پولٹری فارم کھولنے کا خیال آیا (مرغیوں سے ازلی محبت ہے اور انھیں ساری زندگی اشرف المخلوقات کا درجہ دیتا رہا ہوں۔ ذبح کرنے سے پہلے معافی بھی مانگتا ہوں)۔ مگر مطلوبہ رقم دستیاب نہ ہونے کے سبب یہ خیال، خیال ہی رہا۔

پولٹری فارم تو نہ کھل سکا مگر "کچھ اور" کرنے کی لگن ختم نہ ہوئی۔ نتیجہ؟ ایک اور قلابازی ۔ یعنی ترکھانی چھوڑ، ایک مدرسے میں جا کر فارسی، عربی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔دنوں ہفتوں میں علمِ صَرف میں سارے مدرسے کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اساتذہ سوال کرنے سے قبل مجھے جواب دینے منع کر دیتے تھے کہ کچھ دوسرے شاگردوں کو بھی سیکھنے کا موقع ملے۔ غرض چند ماہ میں ہی تین چار سال کا کورس مکمل کر چکا تھا۔ اسی زمانے میں بی اے کا امتحان بھی پرائیویٹ پاس کیا۔ بُرا ہو سرِ سودائے جنوں کا۔ مدرسے سے بھی تنگ آیا اور ایک دن چپ چاپ کتابوں کا بکس سر پر رکھے دوسروں کے جاگنے سے پہلے وہاں سے بھاگ لیا۔

"سبھی سوئے پڑے تھے جب ترے کوچے سے ہم نکلے"


ایک مرتبہ پھر نئی منزلوں کی تلاش تھی۔ اب آپ "گیس" کریں کہ میں نے کیا کیا ہو گا؟ جی ، آپ کاجو بھی جواب ہے غلط ہی ہو گا۔میں نے یہ کیا کہ سر سے صافہ اتارا اور بازار سے سن گلاسز اور جینز کی دو پتلونیں لے لایا۔ داڑھی پر مشین پھروائی۔ کرتہ شلوار اتار، پتلون میں گھسا۔ اب مدرسے کے سارے جاسوس مل کر بھی میرا سراغ نہ لگا پاتے۔ پھر میں نے یونیورسٹی جا کر "ایم اے انگریزی ادب" میں داخلہ لے لیا۔ ان دنوں طبیعت کی جولانی عروج پر تھی۔ شیکسپئر سے لے کر ملٹن، اور سپنسر سے لے کر کیٹس، سب کو پڑھا۔ چارلس ڈکنز، تھامس ہارڈی،جیمز جوائس، ڈی ایچ لارنس پر بھی ہاتھ صاف کیے۔ ساتھ میں مشقِ سخن بھی جاری تھی۔ اس وقت تک میں خود کو غالب اور میر سے کم کوئی رتبہ نہ دیتا تھا (بعد میں پتہ چلا سب شاعرتمام عمر اسی غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں! خرابی ہو دنیا والوں کی کہ مان کر نہیں دیتے)۔ لیکن یہاں پھر وقت نے میرے ساتھ وہی کیا جو اس کی عادت ہے۔ یعنی ایک سال گزر چکا تھا اور امتحان سر پر کھڑے تھے۔ میں تو سارا سال "آؤٹ آف کورس" چیزیں پڑھتا رہا تھا۔ یا الٰہی، اب کیا کروں! پاس ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر فیل ہوتا ہوں (جو کہ ہونا ہی تھا!) تو عزت خاک میں مل جائے گی۔ وہ بھی جو میری شاعری کی وجہ سے مجھ سے دبتے تھے لہرا لہرا کر اپنا رزلٹ کارڈ مجھے دکھائیں گے اور میرا تماشا لگائیں گے۔ لڑکیوں کی نظر میں تو خاص طور پر کوئی عزت ہی نہ رہے گی۔ ویسے بھی وہ بیچاری سارا سال مجھ سے نوٹس مانگتی رہیں۔ سب سمجھتے تھے کہ میں کمینہ ہوں اور اپنے نوٹس چھپا کر رکھتا ہوں تاکہ "گولڈ میڈل" لے سکوں۔ میں نے بھی یہی ظاہر کیا ہوا تھا کہ میری سب تیاری مکمل ہے۔ مگر اب کیا ہو گا۔ روزِ حساب آ پہنچا تھا۔

"مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ"۔​

مرتا کیا نہ کرتا۔ سو بار کی آزمائی ترکیب پھر آزمائی۔ کسی سے کچھ کہے سنے بغیر یونیورسٹی سے بھی بھاگ لیا۔ اب تک ناکامیوں اور بھاگنے کی اتنی عادت پڑ چکی تھی کہ طبعیت پر چنداں بوجھ نہ پڑتا تھا۔ "ایم اے انگریزی ادب" کا انجام تو خیر سے وہی ہوا جو اس سے پہلے ویلڈنگ، ترکھانی، فارسی و عربی اور کھِلنے سے پہلے اجڑنے والے باغ المعروف بہ "کاشف عمران اینڈ کمپنی پولٹری فارم" کا ہو چکا تھا۔ یہاں میں طوالت کے خوف سے اپنے کئی دیگر ذہنی منصوبوں، بشمول کرنا کوئٹہ-تفتان رُوٹ پر بس ڈرائیونگ، شادی کر لینا اپنی یونیورسٹی کی ایک خوبرو مطلقہ ٹیچر سے اور کھانا عمر بھر اس کی کمائی ، جا ملنا بلوچستان کے پہاڑی گلہ بانوں سے اور گزارنا تمام عمر نیچر کی آغوش میں (اب بھی سوچتا ہوں کاش ایسا ہو جاتا!)، کا ذکر نہیں کر رہا۔

یونیورسٹی سے بھاگ تو آیا۔ مگر کروں تو اب کیا کروں۔اس وقت کوائف نامہ کچھ یوں بنتا تھا:

عمر : 23 سال
تعلیم : بی اے سیکنڈ ڈویژن
تجربہ: ویلڈنگ 3 ماہ۔ ترکھانی 4 ماہ۔
اضافی کوائف: شاعری اور باتیں بنانے کا فن، فارسی، عربی سے سرسری واقفیت، علم تجوید و قرائت میں کچھ دسترس۔
کمزوریاں: 1: سوائے شاعری کے آج تک ہر کام ادھورا چھوڑاہے ۔ 2: جسمانی کمزوری کہ بچپن سے جوانی تک بیمار ہی رہا۔
سفارش: ندارد
رشوت کے لیے پیسہ: ندارد

اب اس کوائف نامہ کے ساتھ کیا نوکری ملتی۔ مگر میں نےاٹھارہ سو ماہوار کی ایک نوکری ڈھونڈ ہی لی۔ قریب کے ایک پرائیویٹ انگلش اسکول میں ٹیچنگ کی اسامی نکلی۔ آپ پھر "گیس" کریں کہ اسامی کس پوسٹ کی ہو گی؟

چلیے میں ہی بتا دیتا ہوں۔ عربی ٹیچر! انٹرویو میں بھانت بھانت کے مولوی حضرات آئے تھے۔ سب ایک ہی کمرے میں بیٹھے انٹرویو دے رہے تھے۔ پوچھے سوالات کے سب نے تقریبًا ایک سے غلط جوابات دیے۔میچ ٹائی ہوتے دیکھ کر پرنسپل صاحب نے فیصلہ کیا کہ آخری معرکہ قرات کے میدان میں ہو گا۔ سب نےباری باری اپنی مرضی کی سورتیں سنائیں۔ میرا نمبر آخر میں آیا۔ باقیوں کے حالات میں دیکھ چکا تھا۔اب میں نے لحنِ داودی میں سورۃ فاتحہ کچھ اس انداز میں سنائی کہ باقی تمام امیدواروں کے منہ لٹک گئے۔ ادھر پرنسپل صاحب کا چہرہ کِھل سا گیا۔ مجھے سلیکٹ کر لیا گیا۔ یہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اسکول کو عربی میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ عربی ٹیچر تو بس محکمہءِ تعلیم کو مطمئن کرنے کے لیے رکھا گیا تھی۔ اصل ضرورت تو قاری کی تھی کہ جس سے تلاوت کروا کر اور بچوں کوتلاوت سکھا کر آس پاس کی آبادی اور والدین کو بتایا جا سکے کہ:
"اسکول ہٰذا میں جدید انگلش تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ انتظام ہے"۔​

میری داستانِ بے رنگ کا تذکرہ طویل ہی ہو گیا۔ آپ کو مزید بور نہیں کرتا۔شاعری چھوڑنے کا ذکراور اب واپسی کا بیان اوپر ذکر کیے دھاگوں میں ہو چکا۔ قصہ مختصر کہ سال سے کچھ کم عرصہ اس اسکول میں قرات سکھائی اور خانہ پری کے لیے عربی پڑھائی۔ بچوں میں اصل شہرت داستان گو کی حیثیت سے پائی کہ فری کلاسوں میں جا کر کہانیاں سناتا تھا۔ کئی بچے بلکہ استانیاں بھی ہاف ٹائم میں قرائت سیکھنے کے بہانے میری کلاس میں آ دھمکتیں اور میری چٹخارے دار باتوں کے مزے لیتیں۔ ایسا قاری سب نے پہلی بار دیکھا تھا جس کے تھیلے میں کہانیوں اور مزے مزے کی حکایتوں کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ تھا۔ سال کے اختتام پر اسکول چھوڑا اور ایک دو ماہ بعدصوبائی سول سروس کے مقابلے کا امتحان پاس کر کے سرکاری افسر بن گیا (یہ سب کیسے ہوا، ذکر پھر کبھی)۔ تین سال صوبائی حکومت میں نوکری کی۔ پھر وفاقی حکومت میں آ گیا۔ بالآخرتقریبًا پانچ سال بعد حسبِ عادت، متعدد محکمے بدلنے کے باوجود، اس کام سے بھی سخت اکتا گیا۔ نوکری ترک کی اور پروگرامنگ کر کے پیٹ کے دوزخ کا انتظام کرنے لگا۔ یہ قصہ کہ پروگرامنگ کب اور کیسے سیکھی، اپنی ذات میں خود ایک داستان ہے۔ زندگی رہی اور آپ دوستوں نے چاہا تو اس کا ذکر پھر مستقبل پر چھوڑتے ہیں۔

اب پروگرامنگ کرتے ہوئے دو برس بیت چکے۔ابتدا میں فری لانسر کے طور پر کچھ چھوٹے موٹے پراجیکٹ کیے۔ آج کل اپنےہی ایک پراجیکٹ پر کام کر رہا ہوں۔ چند دن پہلے کچھ فراغت نصیب ہوئی تو اپنی پرانی شاعری نکال کر دیکھی۔ پڑھ کر مزہ آیا۔ سوچا اس کوچے سے پھر گزر کر دیکھتے ہیں۔

تو دوستو، یہ تھی اس فقیرِ پرتقصیر کی خشک اور پھیکی پھیکی سی "توتا کہانی"۔ اگر کوئی صاحب یہاں تک پڑھ پائے ہیں تو ان کی ہمت کی داد ہی دوں گا! میں تو تھک گیا۔
 

شیزان

لائبریرین
یہ ہوئی نا بات۔۔
اندازِ تحریر نے اتنا جکڑ لیا کہ سول سروس کا امتحان پاس کرنے اور پروگرامنگ کا سرسری سا ذکر ایک آنکھ نہ بھایا۔۔
ان کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل جاننے کی طلب بڑھ گئی ہے جی۔ تو کب تک امید رکھیں؟؟؟

بہت شکریہ اردو محفل کو رونق بخشنے کا۔۔۔:)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
واہ صاحب! آپ تو کافی دل چسپ شخصیت کے مالک ہیں ۔۔۔ لطف آ گیا پڑھ کر ۔۔۔
 
واہ ۔۔۔مزہ آگیا۔ آپ نے سب کام کئے، لیکن اصل کام جسکے بغیر شاعری کرنا اور کئے جانا خاصا مشکل ہے، اس کام کا ذکر گول کر گئے۔۔۔ہر مدرسے میں داخلہ لیا لیکن وہ مدرسہ جہاں سبق یاد کرنے والوں کو چھٹی نہیں ملتی اسکا ذکر تک نہیں۔۔۔ایں چہ چکر است؟ :D
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
پسند کرنے کا شکریہ۔ سچ تو یہ ہے کہ دوبارہ سہ بارہ خود اس تحریر کو پڑھا تو سوچ میں ہی پڑ گیا۔ہر بات کی تفصیل بیاں کرنے لگوں تو ایک ضخیم کتاب سے کم پر بات نہ ٹلے گی۔ اتنا وقت اور ہمت کہاں سے آئے گی؟ اور پھر دیوان بھی مکمل کرنا ہے۔کتنی ہی نامکمل غزلیں سالہا سال سے راستہ تک رہی ہیں۔ سیکڑوں خیالات ہیں جنھیں لفظوں کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔ دوسری طرف سافٹ وئیر پراجیکٹ بھی منہ کھولے کھڑے ہیں۔ کمپیوٹنگ تھیوری پر بھی کام کر رہا ہوں۔ اس کا غم الگ۔

یہاں تو ہر حرف کے پیچھے اتنی یادیں اور قصے ہیں کہ بیان کرنے کو عمر چاہیے۔مستونگ میں گزرا بچپن، پانچویں کلاس کی نرم دل استانی، گورنمنٹ ہائی اسکول کے سخت دل ماسٹراور سنکی ہیڈ ماسٹر صاحب، کاریزوں میں نہانے اور باغوں میں کرکٹ اور فٹبال کھیلنے کے قصے، ایف ایس سی میں فیل ہونے کی پوری واردات، ویلڈنگ اور ترکھانی کا دور، مدرسے کے استاد اور ساتھی، یونیورسٹی کا زمانہ اور خوبرو مطلقہ لیکچرر، نوٹس مانگے والی لڑکیاں (لڑکوں نے کبھی نوٹس نہیں مانگے)، سنہرے بالوں والی لڑکی، فرمائش کر کے شعر سننے والی کلاس فیلو، "قاری کا انٹرویو" جس کا سرسری ذکر اوپر بیان کیا، ٹیچنگ کا دوراور کولیگ استاد اور استانیاں، ٹیوشن کا دور جس کا میں نےذکر ہی نہ کیا، "کاشف عمران اینڈ کمپنی پولٹری فارم" کا پورا بیک گراؤنڈ ، کٹ کھنّا مرغا اور بھوری مرغی، انگلش لینگویج سنٹر میں ٹیچنگ (اس کا بھی ذکر میں کھا گیا)، پھر سول سروس کے آٹھ برس اور میری ایک کے بعد ایک محکمے میں جستیں، جوائنٹ سیکٹری صاحب اور ان کی پی اے، خبطی ڈپٹی سیکٹری، وفاقی وزیر کے بندوں سے جھگڑے، اپنی بیماریاں، سول سروس سے پروگرامر بننے کا چار سالہ سفر۔ نوکری چھوڑنے کی تفصیل۔

یا خدا یہ میری زندگی ہے؟ اتنا کچھ ہو گیا اور مجھے پتہ بھی نہ چلا۔ میں نے تو کبھی پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔ آج لکھنے بیٹھا تو حیران ہوں۔ یادیں ہیں کہ ایک کے بعد ایک نظروں کے سامنے آئی چلی جاتی ہیں۔ شاید کبھی فرصت ملے تو لکھنے بیٹھوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
کاشف صاحب، آپ نے فرمایا کہ مستونگ کے لوگ اردو سے زیادہ آشنائی نہیں رکھتے تھے۔ پھر آپ اپنے احباب اور دیگر اہلیانِ مستونگ سے کس زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے؟
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کاشف صاحب، آپ نے فرمایا کہ مستونگ کے لوگ اردو سے زیادہ آشنائی نہیں رکھتے تھے۔ پھر آپ اپنے احباب اور دیگر اہلیانِ مستونگ سے کس زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے؟
ایک عجیب ٹیڑھی اردو اور مقامی زبان براہوی۔ مثال ملاحظہ ہو: "اڑے او کاشف، اَم نے تم کو اپنا کاپی دیا تا، ابی اس کو واپس کرو"۔

ہمارے فزکس کے استاد (جن کاپورا ذکر کرنے کو بھی ایک دفتر چاہیے) نے اپنا تعارف اس طرح کرایا تھا: "میرے نام نوراللہ ایں۔ام آپ کو فزکس پڑاؤں گا"۔

فٹبال کھیلتے ہوئے کوئی پاس مانگتا تو کہتا: "اِدرمیں آؤ"۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
واہ ۔۔۔ مزہ آگیا۔ آپ نے سب کام کئے، لیکن اصل کام جسکے بغیر شاعری کرنا اور کئے جانا خاصا مشکل ہے، اس کام کا ذکر گول کر گئے۔۔۔ ہر مدرسے میں داخلہ لیا لیکن وہ مدرسہ جہاں سبق یاد کرنے والوں کو چھٹی نہیں ملتی اسکا ذکر تک نہیں۔۔۔ ایں چہ چکر است؟ :D
خاموشی ہی میں عافیت جانی۔کس کس کا ذکر کرتا۔ جو عکس ذہن میں ابھرتا ہے، اپنی مثال آپ ہے۔کبھی اک شعر کہا تھا (پوری غزل یہ رہی) :

نگار خانہءِ وہم و گماں کا ہر پیکر​
غزال چشم و گل اندام و سرو قامت ہے​
 
Top